میراحسین تیرا حسین علیہ السلام

میراحسین تیرا حسین علیہ السلام40%

میراحسین تیرا حسین علیہ السلام مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 81

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 81 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 32945 / ڈاؤنلوڈ: 3406
سائز سائز سائز
میراحسین تیرا حسین علیہ السلام

میراحسین تیرا حسین علیہ السلام

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

میرا حسین تیرا حسین

ماخذ: اردو کی برقی کتاب

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

۳

فیض احمد فیض

رات آئی ہے شبّیر پہ یلغارِ بلا ہے

ساتھی نہ کوئی یار نہ غمخوار رہا ہے

مونِس ہے تو اِک درد کی گھنگھور گھٹا ہے

مُشفِق ہے تو اک دل کے دھڑکنے کی صدا ہے

٭

تنہائی کی، غربت کی، پریشانی کی شب ہے

یہ خانۂ شبّیر کی ویرانی کی شب ہے

٭٭

دشمن کی سپہ خواب میں‌ مدہوش پڑی تھی

پل بھر کو کسی کی نہ اِدھر آنکھ لگی تھی

ہر ایک گھڑی آج قیامت کی گھڑی تھی

یہ رات بہت آلِ محمّد پہ کڑی تھی

٭

رہ رہ کے بُکا اہلِ‌حرم کرتے تھے ایسے

تھم تھم کے دِیا آخرِ شب جلتا ہے جیسے

٭٭

۴

اِک گوشے میں‌ ان سوختہ سامانوں‌ کے سالار

اِن خاک بسر، خانماں ویرانوں‌ کے سردار

تشنہ لب و درماندہ و مجبور و دل افگار

اِس شان سے بیٹھے تھے شہِ لشکرِ احرار

٭

مسند تھی، نہ خلعت تھی، نہ خدّام کھڑے تھے

ہاں‌ تن پہ جدھر دیکھیے سو زخم سجے تھے

٭٭

کچھ خوف تھا چہرے پہ نہ تشویش ذرا تھی

ہر ایک ادا مظہرِ تسلیم و رضا تھی

ہر ایک نگہ شاہدِ اقرارِ وفا تھی

ہر جنبشِ لب منکرِ دستورِ جفا تھی

٭

پہلے تو بہت پیار سے ہر فرد کو دیکھا

پھر نام خدا کا لیا اور یوں ہوئے گویا

٭٭

۵

الحمد قریب آیا غمِ عشق کا ساحل

الحمد کہ اب صبحِ شہادت ہوئی نازل

بازی ہے بہت سخت میانِ حق و باطل

وہ ظلم میں‌کامل ہیں تو ہم صبر میں ‌کامل

٭

بازی ہوئی انجام، مبارک ہو عزیزو

باطل ہُوا ناکام، مبارک ہو عزیزو

٭٭

پھر صبح کی لَو آئی رخِ پاک پہ چمکی

اور ایک کرن مقتلِ خونناک پہ چمکی

نیزے کی انی تھی خس و خاشاک پہ چمکی

شمشیر برہنہ تھی کہ افلاک پہ چمکی

٭

دم بھر کے لیے آئینہ رُو ہو گیا صحرا

خورشید جو ابھرا تو لہو ہو گیا صحرا

٭٭

۶

پر باندھے ہوئے حملے کو آئی صفِ‌ اعدا

تھا سامنے اِک بندۂ حق یکّہ و تنہا

ہر چند کہ ہر اک تھا اُدھر خون کا پیاسا

یہ رُعب کا عالم کہ کوئی پہل نہ کرتا

٭

کی آنے میں ‌تاخیر جو لیلائے قضا نے

خطبہ کیا ارشاد امامِ شہداء نے

٭٭

فرمایا کہ کیوں در پۓ ‌آزار ہو لوگو

حق والوں ‌سے کیوں ‌برسرِ پیکار ہو لوگو

واللہ کہ مجرم ہو، گنہگار ہو لوگو

معلوم ہے کچھ کس کے طرفدار ہو لوگو

٭

کیوں ‌آپ کے آقاؤں‌ میں ‌اور ہم میں ‌ٹھنی ہے

معلوم ہے کس واسطے اس جاں پہ بنی ہے

٭٭

۷

سَطوت نہ حکومت نہ حشم چاہیئے ہم کو

اورنگ نہ افسر، نہ عَلم چاہیئے ہم کو

زر چاہیئے، نے مال و دِرم چاہیئے ہم کو

جو چیز بھی فانی ہے وہ کم چاہیئے ہم کو

٭

سرداری کی خواہش ہے نہ شاہی کی ہوس ہے

اِک حرفِ یقیں، دولتِ ایماں‌ ہمیں‌ بس ہے

٭٭

طالب ہیں ‌اگر ہم تو فقط حق کے طلبگار

باطل کے مقابل میں‌ صداقت کے پرستار

انصاف کے، نیکی کے، مروّت کے طرفدار

ظالم کے مخالف ہیں‌ تو بیکس کے مددگار

٭

جو ظلم پہ لعنت نہ کرے، آپ لعیں ہے

جو جبر کا منکر نہیں ‌وہ منکرِ‌ دیں ‌ہے

٭٭

۸

تا حشر زمانہ تمہیں مکّار کہے گا

تم عہد شکن ہو، تمہیں غدّار کہے گا

جو صاحبِ دل ہے، ہمیں ‌ابرار کہے گا

جو بندۂ‌ حُر ہے، ہمیں‌ احرار کہے گا

٭

نام اونچا زمانے میں ‌ہر انداز رہے گا

نیزے پہ بھی سر اپنا سرافراز رہے گا

٭٭

کر ختم سخن محوِ‌ دعا ہو گئے شبّیر

پھر نعرہ زناں محوِ وغا ہو گئے شبیر

قربانِ رہِ صدق و صفا ہو گئے شبیر

خیموں میں‌ تھا کہرام، جُدا ہو گئے شبیر

٭

مرکب پہ تنِ پاک تھا اور خاک پہ سر تھا

اِس خاک تلے جنّتِ ‌فردوس کا در تھا

٭٭٭

۹

سوگواران حُسین سے خطاب

جوش ملیح آبادی

اِنقلابِ تُند خُو جس وقت اُٹھائے گا نظر

کَروٹیں لے گی زمیں، ہوگا فلک زیر و زبر

٭

کانپ کر ہونٹوں پر آ جائے گی رُوحِ بحر و بر

وقت کا پیرانہ سالی سے بھڑک اُٹھے گا سر

٭

موت کے سیلاب میں ہر خشک و تر بہہ جائے گا

ہاں مگر نامِ حسین علیہ السلام ابن علیؓ رہ جائے گا

٭

کون؟ جو ہستی کے دھوکے میں نہ آیا، وہ حسینؓ

سَر کٹا کر بھی نہ جس نے سر جھکایا ، وہ حسینؓ

٭

جس نے مر کر غیرتِ حق کو جِلایا، وہ حسینؓ

موت کا منہ دیکھ کر جو مُسکرایا، وہ حسینؓ

٭

کانپتی ہے جس کی پیری کو جوانی دیکھ کر

ہنس دیا جو تیغِ قاتل کی رَوانی دیکھ کر

٭

۱۰

ہاں نگاہِ غور سے دیکھ اے گروہِ مومنیں!

جا رہا ہے کربلا خیرالبشر کا جانشیں

٭

آسماں ہے لرزہ بر اندام، جنبش میں زمیں

فرق پر ہے سایہ افگن شہپرِ روح الامیں

٭

اے شگوفو،السَّلام، اے خفتہ کلیو الوداع

اے مدینے کی نظر افروز گلیو الوداع

٭

ہوشیار، اے ساکت و خاموش کُوفے! ہوشیار

آرہے ہیں دیکھ وہ اعدا قطار اندر قطار

٭

ہونے والی ہے کشاکش درمیانِ نور و نار

اپنے وعدوں پر پہاڑوں کی طرح رہ استوار

٭

صبح قبضہ کر کے رہتی ہے اندھیری رات پر

جو بہادر ہیں، اَڑے رہتے ہیں اپنی بات پر

٭

۱۱

لُو کے جھکّڑ چل رہے ہیں، غیظ میں ہے آفتاب

سُرخ ذرّوں کا سمندر کھا رہا ہے پیچ و تاب

٭

تشنگی، گَرمی، تلاطُم، آگ، دہشت، اضطراب

کیوں مسلمانو! یہ منزل، اور آلِ بُو تراب ؓ

٭

کس خطا پر تم نے بدلے ان سے گن گن کے لیئے

فاطمہؓ نے ان کو پالا تھا اسی دن کے لیئے؟

٭

لو وہ مقتل کا سَماں ہے، وہ حریفوں کی قطار

بہ رہی ہے نہر لو وہ سامنے بیگانہ وار

٭

وہ ہوا اسلام کا سرتاج مَرکب پر سَوار

دھوپ میں وہ برق سی چمکی، وہ نکلی ذوالفقار

٭

آ گئی رَن میں اجل، تیغ دو دَم تولے ہوئے

جانبِ اعدا بڑھا دوزخ وہ منہ کھولے ہوئے

٭

۱۲

دُور تک ہلنے لگی گھوڑوں کی ٹاپوں سے زمیں

کوہ تھرّانے لگے، تیورا گئی فوجِ لعین

٭

زد پر آ کر کوئی بچ جائے، نہیں، ممکن نہیں

لُو حسین ابن علیؓ نے وہ چڑھا لی آستیں

٭

آستیں چڑھتے ہی خونِ ہاشمی گرما گیا

ناخدا! ہشیار، دریا میں تلاطُم آگیا

٭

ظُہر کے ہنگام، کچھ جھکنے لگا جب آفتاب

ذوقِ طاعت نے دلِ مولیٰ میں کھایا پیچ و تاب

٭

آ کے خیمے سے کسی نے دوڑ کر تھامی رکاب

ہو گئی بزمِ رسالت میں امامت باریاب

٭

تشنہ لب ذرّوں پہ خُونِ مشکبو بہنے لگا

خاک پر اسلام کے دل کا لَہُو بہنے لگا

٭

۱۳

آفرین چشم و چراغِ دُود مانِ مصطفیٰؐ

آفرین صد آفرین و مرحبا صد مرحبا

٭

مرتبہ انسان کو تو نے دوبالا کر دیا

جان دے کر، اہلِ دل کو تو سبق یہ دے گیا

٭

کشتیِ ایمان کو خونِ دل میں کھپنا چاہئے

حق پہ جب آنچ آئے تو یوں جان دینا چاہئے

٭

اے مُحیطِ کربلا! اے ارضِ بے آب و گیاہ

جراتِ مردانۂ شبیرؓ کی رہنا گواہ!

٭

حشر تک گونجے گا تجھ میں نعرہ ہائے لا الہ

کج رہے گی فخر سے فرقِ رسالت پر کُلاہ

٭

یہ شہادت اک سبق ہے حق پرستی کے لیئے

اک ستونِ روشنی ہے بحرِ ہستی کے لیئے

٭

۱۴

تُم سے کچھ کہنا ہے اب اے سوگوارانِ حسینؓ

یاد بھی ہے تم کو تعلیمِ امامِ مشرقین؟

٭

تا کُجا بھولے رہو گے غزوۂ بدر و حنین؟

کب تک آخر ذاکروں کے تاجرانہ شورشین؟

٭

ذاکروں نے موت کے سانچے میں دل ڈھالے نہیں

یہ شہیدِ کربلا کے چاہنے والے نہیں

٭

کہہ چکا ہوں بار بار، اور اب بھی کہتا ہوں یہی

مانعِ شیون نہیں میرا پیغامِ زندگی

٭

لیکن اتنی عرض ہے اے نو اسیرِ بُزدلی

اپنی نبضوں میں رواں کر خونِ سر جوشِ علیؓ

٭

ابنِ کوثر! پہلے اپنی تلخ کامی کو تو دیکھ

اپنے ماتھے کی ذرا مُہرِ غلامی کو تو دیکھ

٭

۱۵

جس کو ذِلّت کا نہ ہو احساس وہ نامرد ہے

ننگِ پہلو ہے وہ دل جو بے نیازِ درد ہے

٭

حق نہیں جینے کا اُس کو جس کا، چہرہ زرد ہے

خود کشی ہے فرض اُس پر، خون جس کا سرد ہے

٭

وقتِ بیداری نہ غالب ہو سکے جو نَوم پر

لعنت ایسی خُفتہ ملّت پر، تُف ایسی قوم پر!

٭

زندہ رہنا ہے تو میرِ کارواں بن کر رہو

اس زمیں کی پستیوں میں آسماں بن کر رہو

٭

دورِ حق ہو تو نسیمِ بوستاں بن کر رہو

عہدِ باطل ہو تو تیغِ بے اماں بن کر رہو

٭

دوستوں کے پاس آؤ نور پھیلاتے ہوئے

دُشمنوں کی صف سے گزرو آگ برساتے ہوئے

٭

۱۶

دورِ محکومی میں راحت کفر، عشرت، ہے حرام

مہ وشوں کی چاہ، ساقی کی محبت ہے حرام

٭

علم ناجائز ہے، دستارِ فضیلت ہے حرام

انتہا یہ ہے غُلاموں کی عبادت ہے حرام

٭

کوئے ذلّت میں، ٹھہرنا کیا، گزرنا بھی ہے حرام

صرف جینا ہی نہیں، اس طرح مرنا بھی ہے حرام

٭٭٭

۱۷

حفیظ جالندھری

لباس ہے پھٹا ہوا ،غبار میں اٹا ہوا

تمام جسمِ نازنیں چھدا ہوا کٹا ہوا

یہ کون ذی وقار ہے بلا کا شہ سوار ہے

کہ ہے ہزاروں قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا

٭

یہ بالیقیں حسین ہے نبی کا نورِ عین ہے

٭٭

یہ جس کی ایک ضرب سے ، کمالِ فنِ حرب سے

کئی شقی گرئے ہوئے تڑپ رہے ہیں کرب سے

غضب ہے تیغ دوسرا کہ ایک ایک وار پر

اٹھی صدائے الاماں زبان شرق و غرب سے

٭

یہ بالیقیں حسین ہے نبی کا نورِ عین ہے

٭٭

عبا بھی تار تار ہے تو جسم بھی فگار ہے

زمین بھی تپی ہوئی ، فلک بھی شعلہ بار ہے

مگر یہ مردِ تیغ زن یہ صف شکن فلک فگن

کمالِ صبر و تن دہی سے محو کارزار ہے

٭

یہ بالیقیں حسین ہے نبی کا نورِ عین ہے

٭٭

۱۸

دلاوری میں فرد ہے بڑا ہی شیر مرد ہے

کہ جسکے دبدبے سے دشمنوں کا رنگ زرد ہے

حبیبِ مصطفی ہے مجاہدِ خدا ہے یہ

کہ جس طرف اٹھی ہے تیغ بس خدا کا نام ہے

٭

یہ بالیقیں حسین ہے نبی کا نورِ عین ہے

٭٭

اُدھر سیاہ شام ہے ہزار انتظام ہے

اُدھر ہیں دشمنانِ دیں ادھر فقط امام ہے

مگر عجیب شان ہے غضب کی آن بان ہے

کہ جس طرف اُٹھی ہے تیغ بس خدا کا نام ہے

٭

یہ بالیقیں حسین ہے نبی کا نورِ عین ہے

٭٭٭

۱۹

سلام اُس پر

احمد فراز

حسین

اے میرے سر بریدہ

بدن دریدہ

سدا ترا نام برگزیدہ

میں کربلا کے لہو لہو دشت میں تجھے

دشمنوں کے نرغے میں

تیغ در دست دیکھتا ہوں

میں دیکھتا ہوں

کہ تیرے سارے رفیق

سب ہمنوا

سبھی جانفروش

اپنے سروں کی فصلیں کٹا چکے ہیں

گلاب سے جسم اپنے خوں میں نہا چکے ہیں

ہوائے جانکاہ کے بگولے

چراغ سے تابناک چہرے بجھا چکے ہیں

مسافرانِ رہِ وفا، لٹ لٹا چکے ہیں

۲۰

اور اب فقط تُو

زمین کے اس شفق کدے میں

ستارۂ صبح کی طرح

روشنی کا پرچم لیے کھڑا ہے

٭

یہ ایک منظر نہیں ہے

اک داستاں کا حصہ نہیں ہے

اک واقعہ نہیں ہے

یہیں سے تاریخ

اپنے تازہ سفر کا آغاز کر رہی ہے

یہیں سے انسانیت

نئی رفعتوں کو پرواز کر رہی ہے

٭

میں آج اسی کربلا میں

بے آبرو ۔۔۔۔ نگوں سر

شکست خوردہ خجل کھڑا ہوں

جہاں سے میرا عظیم ہادی

حسین کل سرخرو گیا ہے

٭

۲۱

میں جاں بچا کر

فنا کے دلدل میں جاں بلب ہوں

زمین اور آسمان کے عزّ و فخر

سارے حرام مجھ پر

وہ جاں لٹا کر

منارۂ عرش چھو گیا ہے

٭

سلام اُس پر

سلام اُس پر

٭٭٭

۲۲

قتیل شفائی

سلام اس پر کہ سب انسانیت جس سے شناسا ہے

پسر ہے جو علی کا اور محمّد کا نواسہ ہے

٭

تضاداتِ مشیت دیکھئے، اس کے حوالے سے

جو اپنی ذات میں ہے اک سمندر، اور پیاسا ہے

٭

برہنہ سر، لٹی املاک اور کچھ راکھ خیموں کی

مدینے کے سفر کا بس اتنا سا ہی اثاثہ ہے

٭

علی اصغر تکے جاتے ہیں اس عالم کو حیرت سے

نہ لوری پیاری امّاں کی، نہ بابا کا دلاسہ ہے

٭

کسی نے سر کٹایا اور بیعت کی نہ ظالم کی

سنی تھی جو کہانی، اس کا اتنا سا خلاصہ ہے

٭

نہ مانگا خوں بہا اپنا خدا سے روزِ محشر بھی

مگر نانا کی امّت کے لیے ہاتھوں میں کاسہ ہے

٭

۲۳

قتیل اب تجھ کو بھی رکھنا ہے اپنا سر ہتھیلی پر

کہ تیرے شہر کا ماحول بھی اب کربلا سا ہے

٭

قتیل اس شخص کی تعظیم کرنا فرض ہے میرا

جو صورت اور سیرت میں محمّد مصطفٰی سا ہے

٭٭٭

۲۴

عبدالحمید عدم

تھا کربلا کو ازل سے جو انتظارِ حُسین

وہیں تمام ہوئے جملہ کاروبارِ حسین

٭

دکانِ صدق نہ کھولو، اگر نہیں توفیق

کہ جاں چھڑک کے نکھرتا ہے کاروبارِ حسین

٭

وہ ہر قیاس سے بالا، وہ ہر گماں سے بلند

درست ہی نہیں اندازۂ شمارِ حسین

٭

کئی طریقے ہیں یزداں سے بات کرنے کے

نزولِ آیتِ تازہ ہے یادگارِ حسین

٭

وفا سرشت بہتّر نفوس کی ٹولی

گئی تھی جوڑنے تاریخِ زر نگارِ حسین

٭٭٭

۲۵

علی سردار جعفری

آتا ہے کون شمع امامت لئے ہوئے

اپنے جلوے میں فوج ہدایت لئے ہوئے

٭

ہاتھوں جام سرخ شہادت لئے ہوئے

لب دعائے بخش امت لئے ہوئے

٭

پھیلی بو فضا میں شہہ مشرقین کی

آتی ہے کربلا میں سواری حسین کی

٭

زہرا بھی ساتھ ہیں حسن مجتبیٰ بھی ساتھ

جعفر بھی ساتھ ہیں مشکل کشا بھی ساتھ

٭

حمزہ بھی ساتھ ہیں جناب رسول خدا بھی ساتھ

تنہا نہیں حسین کہ ہیں انبیاء بھی ساتھ

٭

شور درود اٹھتا ہے سارے جہان سے

برسا رہا ہے پھو ل ملک آسمان سے

٭

۲۶

گھوڑے پہ آگے آگے ہیں خود شیر کربلا

ہیں گرد سب عزیز و رفیقان با وفا

٭

ابرار و پاک ہیں و حق آگاہ و پارسا

پھیلی ہوئی ہے چہروں کے چاروں طرف ضیاء

٭

پورے بہار پر ہے گلستاں بتول کا

چھوٹا سا قافلہ ہے یہ آل رسول کا

٭

بر میں قبائیں سر پہ عمامے بندھے ہوئے

تیغیں کمر میں پہلو میں خنجر لگے ہوئے

٭

دانتوں میں ہونٹ رانوں گھوڑے جمے ہوئے

بازو بھرے بھرے ہوئے سینے تنے ہوئے

٭

کمسن ہیں کچھ ضعیف ہیں کچھ نوجوان ہیں

پیشانیوں پہ سجدۂ حق کے نشان ہیں

٭

۲۷

ہمت پہ و لو لوں پہ شجاعت کو ناز ہے

طاعت گذاریوں پہ عبادت کو ناز ہے

٭

صورت پہ د ست صانع قدرت کو ناز ہے

بازو میں زور وہ ہے کہ قوت کو ناز ہے

٭

نقشے ہیں اک مصور زریں نگار کے

بکھرے ورق ہیں مصحف پروردگار کے

٭٭٭

۲۸

شورش کاشمیری

قرنِ اوّل کی روایت کا نگہدار حسین

بس کہ تھا لختِ دلِ حیدرِ کرار حسین

٭

عرصۂ شام میں سی پارۂ قرآنِ حکیم

وادیِ نجد میں اسلام کی للکار حسین

٭

سر کٹانے چلا منشائے خداوند کے تحت

اپنے نانا کی شفاعت کا خریدار حسین

٭

کوئی انساں کسی انساں کا پرستار نہ ہو

اس جہاں تاب حقیقت کا علمدار حسین

٭

ابو سفیان کے پوتے کی جہانبانی میں

عزّتِ خواجۂ گیہاں کا نگہدار حسین

٭

کرۂ ارض پہ اسلام کی رحمت کا ظہور

عشق کی راہ میں تاریخ کا معمار حسین

٭

۲۹

جان اسلام پہ دینے کی بنا ڈال گیا

حق کی آواز، صداقت کا طرفدار حسین

٭

دینِ قیم کے شہیدوں کا امامِ برحق

حشر تک امّتِ مرحوم کا سردار حسین

٭

ہر زمانے کے مصائب کو ضرورت اس کی

ہر زمانے کے لیے دعوتِ ایثار حسین

٭

کربلا اب بھی لہو رنگ چلی آتی ہے

دورِ حاضر کے یزیدوں سے دوچار حسین

٭٭٭

۳۰

بہزاد لکھنوی

جو سر تاجِ زماں شاہِ شہیداں ہے سلام اُس پر

جو کُل اسلام کا مقصودِ ایماں ہے سلام اُس پر

٭

جو محبوبِ الٰہی مصطفی کے دل کی دھڑکن ہے

جو روح پاک بازاں جانِ جاناں ہے سلام اُس پر

٭

جو اہلِ کیف کی منزل ہے اہلِ ذوق کا مرکز

جو اہلِ عشق کا مقصود و ارماں ہے سلام اُس پر

٭

حیاتِ نو ملی اسلام کو جس کے تصدّق میں

جہانِ راستی پر جس کا احساں ہے سلام اُس پر

٭

فنا کا راز جس نے آشکارا کر دیا سب پر

بقاء جس کے جلو میں خود خراماں ہے سلام اُس پر

٭

فدائی ہے اسی کے نام کا میرا دلِ مضطر

جو اے بہزاد میرا دین و ایماں ہے سلام اُس پر

٭٭٭

۳۱

مصطفےٰ زیدی

بعدِ امامِ لشکرِ تشنہ دہاں جو کچھ ہوا

کس سے کہوں،کیسے کہوں،اے کربلا اے کربلا

٭

کیسے رقم ہو بے کسی، بے حُرمتی کی داستاں

اک کنبۂ عالی نسب کی دربدر رسوائیاں

اک مشک جس کو کر گئ سیراب تیروں کی زباں

اک سبز پرچم جھک گیا جو خاک و خوں کے درمیاں

٭

اک آہ جو سینے سے نکلی اور فضا میں کھو گئ

اک روشنی جو دن کی ڈھلتی ساعتوں میں سو گئ

٭٭

وہ دودمانِ حیدری کی، آلِ پیغمبر کی لاش

وہ آیتوں کی گود میں سوئے ہوئے اکبر کی لاش

وہ اک بُریدہ بازوؤں والے علم پرور کی لاش

وہ دودھ پیتے ،لوریاں سُنتے ہوئے اصغر کی لاش

٭

معصوم بچے وحشیوں کی جھڑکیاں کھائے ہوئے

عون و محمد چھوٹے چھوٹے ہاتھ پھیلائے ہوئے

٭٭

۳۲

سجاد سے زینب کا یہ کہنا کہ مولا جاگئے

غفلت سے آنکھیں کھولئے ،لٹتا ہے کنبہ جا گئے

اُٹھتے ہیں شعلے دیکھئے، جلتا ہے خیمہ جاگئے

اے باقئ ذرّیتِ یٰسین و طٰہ جاگئے

٭

سارے محافظ سو رہے ہیں اشقیا بیدار ہیں

طوق و سلاسل منتظر ہیں، بیڑیاں تیار ہیں

٭٭٭

۳۳

منیر نیازی

خوابِ جمالِ عشق کی تعبیر ہے حُسین

شامِ ملالِ عشق کی تصویر ہے حسین

٭

حیراں وہ بے یقینیِ اہلِ جہاں سے ہے

دنیا کی بیوفائی سے دلگیر ہے حسین

٭

یہ زیست ایک دشت ہے لا حد و بے کنار

اس دشتِ غم پہ ابر کی تاثیر ہے حسین

٭

روشن ہے اس کے دم سے الم خانۂ جہاں

نورِ خدائے عصر کی تنویر ہے حسین

٭

ہے اس کا ذکر شہر کی مجلس میں رہنما

اجڑے نگر میں حسرتِ تعمیر ہے حسین

٭٭٭

۳۴

صبا اکبر آبادی

حسین نزہتِ باغِ پیمبرِ عربی

حسین نازشِ فاقہ، وقارِ تشنہ لبی

٭

حسین مرکزِ ایثار و مخزنِ تسلیم

حسین شمعِ حقیقت، چراغِ بزمِ نبی

٭

حسین لختِ دلِ مرتضیٰ و جانِ بتول

جہاں میں کس کو میسر ہے یہ علو نسبی

٭

حسین، سینۂ اکبر سے کھینچ لی برچھی

حسین سینہ میں اس وقت کیسے آہ دبی

٭

ستم کا تیر بھی دیکھا گلوئے اصغر میں

وہ مسکرانے کا انداز روحِ تشنہ لبی

٭

جوان بھائی کے شانے کٹے ہوئے دیکھے

یہ صبر ابنِ ید اللہ، یہ رضا طلبی

٭

۳۵

یہی تو شان ہے سبطِ رسول ہونے کی

دعائے بخششِ امت، جوابِ بے ادبی

٭

نہیں ہے کوئی ذریعہ صبا، حسین تو ہیں

بڑا سبب ہے زمانہ میں اپنی بے سببی

٭٭٭

۳۶

شوکت تھانوی

دردِ حسرت اور ہے صحرائے غربت اور ہے

رنج سب کے اور ہیں شہ کی مصیبت اور ہے

٭

خاک و خوں میں لوٹتا ہے ایک شاہ تشنہ کام

کربلا کیا اب بھی دل میں کچھ کدورت اور ہے

٭

اک مسافر سے زمانہ برسرِ پیکار ہے

کیا ستم کی اس سے بڑھ کر بھی کدورت اور ہے

٭

ہاتھ کرتے ہو قلم تھوڑے سے پانی کے لئے

ظالموں اس سے بھی بڑھ کر کیا شقاوت اور ہے

٭

آ گئے عون و محمد رن میں ماں کو چھوڑ کر

کیا کسی کمسن کے دل میں اتنی جرأت اور ہے

٭

ظاہرا مظلوم سے معلوم ہوتے ہیں حسین

غور سے دیکھے جو کوئی تو حقیقت اور ہے

٭

۳۷

ملکِ دنیا سے کہیں پائندۂ ہے ملکِ بقا

باغِ شدّاد اور ہے گلزارِ جنت اور ہے

٭

شمر یوں غربت زدہ سے کوئی لڑتا ہے کبھی

اے ستم ایجاد ہمت کر کہ ہمت اور ہے

٭

حر تمہیں رن کی طرف کچھ اور بڑھنا چاہیے

سامنے ہے خلد تھوڑی سی مسافت اور ہے

٭

خارزارِ کربلا ہے آج تک دنیائے دوں

ہو بہو عالم وہی ہے صرف صورت اور ہے

٭

جانشیں شمرِ لعیں کے ہیں بہت سے آج بھی

جانشینِ شاہ کی ہم کو ضرورت اور ہے

٭٭٭

۳۸

میں نوحہ گر ہوں

امجد اسلام امجد

میں نوحہ گر ہوں

میں اپنے چاروں طرف بکھرتے ہوئے زمانوں کا نوحہ گر ہوں

میں آنے والی رتوں کے دامن میں عورتوں کی اداس بانہوں کو دیکھتا ہوں

٭

اور انکے بچوں کی تیز چیخوں کو سن رہا ہوں

اور انکے مَردوں کی سرد لاشوں کو گن رہا ہوں

میں اپنے ہاتھوں کے فاصلے پر فصیلِ دہشت کو چھو رہا ہوں

٭

زمیں کے گولے پر زرد کالے تمام نقطے لہو کی سرخی میں جل رہے ہیں

نئی زمینوں کے خواب لے کر

مسافر اِن تباہ یادوں کے ریگ زاروں میں چل رہے ہیں

میں نوحہ گر ہوں

مسافروں کا جو اپنے رستے سے بے خبر ہیں

٭

میں ہوش والوں کی بد حواسی کا نوحہ گر ہوں

حُسین، میں اپنے ساتھیوں کی سیہ لباسی کا نوحہ گر ہوں

٭

۳۹

ہمارے آگے بھی کربلا ہے، ہمارے پیچھے بھی کربلا ہے

حُسین، میں اپنے کارواں کی جہت شناسی کا نوحہ گر ہوں

نئے یزیدوں کو فاش کرنا ہے کام میرا

ترے سفر کی جراحتوں سے

ملا ہے مجھ کو مقام میرا

حُسین، تجھ کو سلام میرا

٭٭٭

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81