میراحسین تیرا حسین علیہ السلام

میراحسین تیرا حسین علیہ السلام40%

میراحسین تیرا حسین علیہ السلام مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 81

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 81 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 32977 / ڈاؤنلوڈ: 3410
سائز سائز سائز
میراحسین تیرا حسین علیہ السلام

میراحسین تیرا حسین علیہ السلام

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

غنیم کی سرحدوں کے اندر

پروین شاکر

زمینِ نا مہرباں پہ جنگل کے پاس ہی

شام پڑ چکی ہے

ہوا میں کچے گلاب جلنے کی کیفیت ہے

اور ان شگوفوں کی سبز خوشبو

جو اپنی نوخیزیوں کی پہلی رتوں میں

رعنائیِ صلیبِ خزاں ہوئے

اور بہار کی جاگتی علامت ہوئے ابد تک

جلے ہوئے راکھ خیموں سے کچھ کھلے ہوئے سر

ردائے عفت اڑھانے والے

بریدہ بازو کو ڈھونڈتے ہیں

بریدہ بازو کہ جن کا مشکیزہ

ننھے حلقوم تک اگرچہ پہنچ نہ پایا

مگر وفا کی سبیل بن کر

فضا سے اب تک چھلک رہا ہے

برہنہ سر بیبیاں ہواؤں میں سوکھے پتوں

کی سرسراہٹ پہ چونک اٹھتی ہیں

بادِ صرصر کے ہاتھ سے بچنے

والے پھولوں کو چومتی ہیں

چھپانے لگتی ہیں اپنے دل میں

۴۱

بدلتے، سفاک موسموں کی ادا شناسی نے چشمِ

حیرت کو سہمناکی کا مستقل رنگ دے دیا ہے

چمکتے نیزوں پہ سارے پیاروں کے سر سجے ہیں

کٹے ہوئے سر

شکستہ خوابوں سے کیسا پیمان لے رہے ہیں

کہ خالی آنکھوں میں روشنی آتی جا رہی ہے

٭٭٭

۴۲

نہ پُوچھ میرا حسین کیا ہے؟

محسن نقوی

جہانِ عزمِ وفا کا پیکر

خِرد کا مرکز، جنوں کا محور

جمالِ زہرا ، جلالِ حیدر

ضمیرِ انساں، نصیرِ داور

زمیں کا دل، آسماں کا یاور

دیارِ صبر و رضا کا دلبر

کمالِ ایثار کا پیمبر

شعورِ امن و سکوں کا پیکر

جبینِ انسانیت کا جھُومر

عرب کا سہرا، عجم کا زیور

حسین تصویرِ انبیاء ہے

نہ پُوچھ میرا حسین کیا ہے؟

٭

۴۳

حسین اہلِ وفا کی بستی

حسین آئینِ حق پرستی

حسین صدق و صفا کا ساقی

حسین چشمِ اَنا کی مستی

حسین پیش از عدم، تصور

حسین بعد از قیامِ ہستی

حسین نے زندگی بکھیری

فضا سے ورنہ قضا برستی

عروجِ ہفت آسمانِ عظمت

حسین کے نقشِ پا کی مستی

حسین کو خُلد میں نہ ڈھونڈو

حسین مہنگا ہے خلد سستی

حسین مقسومِ دین و ایماں

حسین مفہوم "ھَل اَتٰی" ہے

نہ پُوچھ میرا حسین کیا ہے؟

٭

۴۴

حسین نِکھرا ہُوا قلندر

حسین بپھرا ہُوا سمندر

حسین بستے دلوں سے آگے

حسین اُجڑے دلوں کے اندر

حسین سلطانِ دین و ایماں

حسین افکار کا سکندر

حسین سے آدمی کا رُتبہ!

حسین ہے آدمی کا "مَن دَر"

خدا کی بخشش ہی خیمہ زَن ہے

حسین کی سلطنت کے اندر

حسین داتا، حسین راجہ

حسین بھگوان، حسین سُندر

حسین آکاش کا رشی ہے

حسین دھرتی کی آتما ہے

نہ پُوچھ میرا حسین کیا ہے؟

٭

۴۵

حسین ، میدان کا سپاہی

حسین دشتِ اَنا کا راہی

حسین فرقِ اَجل کا بَل ہے

حسین انداز، کجکلاہی!

حسین کی گردَ پا، زمانہ!

حسین کی ٹھوکروں میں‌ شاہی

حسین معراجِ فقرِ عالم

حسین ، رمزِ جہاں پناہی

حسین ایقان کا مِنارہ

حسین اوہام کی تباہی

ضمیر انصاف کی لغت میں

حسین معیارِ بےگناہی

بنامِ جبر و غرورِ شاہی

حسین غیرت کا فیصلہ

نہ پُوچھ میرا حسین کیا ہے؟

٭

۴۶

حسین فقر و اَنا کا غازی

حسین جنگاہ میں‌ نمازی

حسین حسنِ نیاز مندی

حسین اعجازِ بے نیازی

حسین آغازِ جاں نثاری

حسین انجامِ جاں گدازی

حسین توقیر کار بندی

حسین تعبیر کار سازی

حسین معجز نمائے دوراں

حسین حق کی فسوں طرازی

حسین ہارا تو یوں کہ جیسے

حسین نے جیت لی ہو بازی

حسین سارے جہاں کا وارث

حسین کہنے کو بے نوا ہے

نہ پُوچھ میرا حسین کیا ہے؟

٭

۴۷

حسین اک دلنشیں کہانی

حسین دستورِ حق کا بانی

حسین عباس کا سراپا

حسین اکبر کی نوجوانی

حسین کردارِ اہلِ ایماں

حسین معیارِ زندگانی

حسین قاسم کی کم نمائی

حسین اصغر کی بے زبانی

حسین سجاد کی خموشی

حسین باقر کی نوحہ خوانی

حسین دجلہ کا خشک ساحل

حسین صحرا کی بیکرانی

حسین زینب کی کسمپرسی

حسین کلثوم کی ردا ہے

نہ پُوچھ میرا حسین کیا ہے؟

٭٭٭

۴۸

سلام خونِ شہیداں حسین زندہ باد

ملک زادہ منظور

طلسم سود و زیاں ہو کہ ظلمت باطل

فیصل دار و رسن ہو کہ کوچہ قاتل

دیار ظلم و ستم ہو کہ صید گاہ رقیب

وہ کئی جادہ پر خار ہو کہ شہر صلیب

٭

رہ حیات میں جب یہ مقام آتے ہیں

حسین سارے زمانے کے کام آتے ہیں

٭٭

نمود صبح ازل سے حدودِ امکاں تک

فرات و نیل کے ساحل سے چاہ کنعاں تک

ستیزہ کار رہا ہے ہر ایک خیر سے شر

چراغ مصطفوی سے ابولہب کا شرر

٭

رہ خلیل میں اصنام آذری بھی ہیں

کلیم ہیں تو طلسمات سامری بھی ہیں

٭٭

۴۹

مگر حریمِ زلیخا و مصر کے بازار

صلیب و آتش ِ زہراب ، نینوا کے دیار

بجھا سکے نہ کبھی شمع عصمتِ کردار

دبا سکے نہ کبھی حق کی جرات گفتار

٭

جہاں خیر میں دریائے فیض جاری ہے

بدی نے مورچے جیتے ہیں، جنگ ہاری ہے

٭٭

جلا کے مشعلِ جاں روشنی عطا کی ہے

نماز سایہ شمشیر میں ادا کی ہے

بساطِ شوق پہ تابندہ کہکشاں رکھ دی

دہانِ زخم میں اللہ کی زباں رکھ دی

٭

امینِ فاتح بدر وحنین زندہ باد

سلام خونِ شہیداں حسین زندہ باد

٭٭٭

۵۰

واصف علی واصف

السّلام اے نُورِ اوّل کے نشاں

السّلام اے راز دارِ کُن فکاں

٭

السّلام اے داستانِ بے کسی

السّلام اے چارہ سازِ بے کساں

٭

السّلام اے دستِ حق، باطل شکن

السّلام اے تاجدارِ ہر زماں

٭

السّلام اے رہبرِ علمِ لَدُن

السّلام اے افتخارِ عارفاں

٭

السّلام اے راحتِ دوشِ نبی

السّلام اے راکبِ نوکِ سناں

٭

السّلام اے بوترابی کی دلیل

السّلام اے شاہبازِ لا مکاں

٭

۵۱

السّلام اے ساجدِ بے آرزو

السّلام اے راز دارِ قُدسیاں

٭

السّلام اے ذوالفقارِ حیدری

السّلام اے کشتۂ تسلیمِ جاں

٭

السّلام اے مستیِ جامِ نجف

السّلام اے جنبشِ کون و مکاں

٭

السّلام اے رازِ قرآنِ مبیں

السّلام اے ناطقِ رازِ نہاں

٭

السّلام اے ہم نشینِ ریگِ دشت

السّلام اے کج کلاہِ خسرواں

٭

السّلام اے دُرِ دینِ مُصطفٰی

السّلام اے معدنِ علمِ رواں

٭

السّلام گوہرِ عینِ علی

دینِ پیغمبر کے عنوانِ جلی

٭٭٭

۵۲

ثمینہ راجہ

ہے آشنائے رازِ صدائے غمِ حسین

بادِ صبا ہے نوحہ سرائے غمِ حسین

٭

ٹھہرا ہوا ہے آنکھ میں اک ماہِ سالِ نوَ

چلنے لگی ہے دل میں ہَوائے غمِ حسین

٭

اک ایک نقشِ پا جو کھِلا ہے مثالِ گُل

ہو کر گئے ہیں آبلہ پائے غمِ حسین

٭

بے پردہ کب تھیں بیبیاں بازارِ شام میں

ڈھانپے ہوئے تھی ان کو ردائے غمِ حسین

٭

کیا غم ہے جو دعا کی طرح ہے زبان پر

غم ہو کوئی نہ تم کو سوائے غمِ حسین

٭

دل گیر ہم جفائے زمانہ سے گر نہیں

یہ خندہ رُوئی بھی ہے عطائے غمِ حسین

٭

۵۳

عمروں پہ ہے محیط یہ صدیوں سے ہے بسیط

کم ہے بس ایک ماہ، برائے غمِ حسین

٭

کرب و بلا سے کم تو نہیں ہے یہ دَور بھی

ماتم یہاں بپا ہے بجائے غمِ حسین

٭

گریے کو ایک ذکر نے آسان کر دیا

دریا بہیں گے، لب پہ جو آئے غمِ حسین

٭

شیوہ ہے مدتوں سے یہی اہلِ صبر کا

اپنے غموں پہ کہتے ہیں، ہائے غمِ حسین!

٭

دل میں قدم سنبھل کے غمِ دوجہاں رکھے

جائے ادب ہے یہ، کہ ہے جائے غمِ حسین

٭٭٭

۵۴

نقاش کاظمی

کوئی چراغ تخیل نہ میری راہ میں رکھ

بس اک سلام کا گوہر میری کلاہ میں رکھ

٭

اگرچہ تو کسی سچائی کا مورخ ہے

یزید عصر کو بھی دفتر سپاہ میں رکھ

٭

بکھیر صفحۂ قرطاس پر لہو کے حروف

قلم سنبھال کے مت دل کی خانقاہ میں رکھ

٭

سمجھ سکے جو شہیدان حق کی تاجوری

جبین عجز کو تو خاک پائے شاہ میں رکھ

٭

علی کے سجدۂ آخر سے حلق اصغر تک

ہر ایک تیر ستم مرکز نگاہ میں رکھ

٭

وہی امام زماں جو ہیں سب پہ سایہ فگن

انہیں کے سایہ دستار کی پناہ میں رکھ

٭

مجھے وہ حریت فکر بھی دے حُر کی طرح

پھر اُس کے بعد اُسی لشکر و سپاہ میں رکھ

٭

۵۵

سلام و مرثیہ و نعت لے کے حاضر ہوں

اُنہیں کا بندہ سمجھ اپنی بارگاہ میں رکھ

٭

ترا یہ شاعر نقاش تو ہے ذرۂ خاک

اسے غبار بنا کہ مہر و ماہ میں رکھ

٭٭٭

۵۶

غلام محمد قاصر

جو پیاس وسعت میں بے کراں ہے سلام اس پر

فرات جس کی طرف رواں ہے سلام اس پر

٭

سبھی کنارے اسی کی جانب کریں اشارے

جو کشتیِ حق کا بادباں ہے سلام اس پر

٭

جو پھول تیغِ اصول سے ہر خزاں کو کاٹیں

وہ ایسے پھولوں کا پاسباں ہے سلام اس پر

٭

مری زمینوں کو اب نہیں خوفِ بے ردائی

جو ان زمینوں کا آسماں ہے سلام اس پر

٭

ہر اک غلامی ہے آدمیّت کی نا تمامی

وہ حریّت کا مزاج داں ہے سلام اس پر

٭

حیات بن کر فنا کے تیروں میں ضو فشاں ہے

جو سب ضمیروں میں ضو فشاں ہے سلام اس پر

٭

۵۷

کبھی چراغِ حرم کبھی صبح کا ستارہ

وہ رات میں دن کا ترجماں ہے سلام اس پر

٭

میں جلتے جسموں نئے طلسموں میں گھِر چکا ہوں

وہ ابرِ رحمت ہے سائباں ہے سلام اس پر

٭

شفق میں جھلکے کہ گردنِ اہلِ حق سے چھلکے

لہو تمھارا جہاں جہاں ہے سلام اس پر

٭٭٭

۵۸

صفدر ہمدانی

نوحے کا ربط حمد و ثنا سے ملا دیا

کرب و بلا کو عرشِ عُلا سے ملا دیا

٭

زینب کی جنگ دیکھئے دربار شام میں

بے پردگی کو اپنی حیا سے ملا دیا

٭

احسان اہلبیت کا سب کائنات پر

خوشبو کو گُل سے گُل کو صبا سے ملا دیا

٭

یہ معجزہ تھا کرب وبلا میں حسین کا

پل بھر میں حُر کو اہلِ وفا سے ملا دیا

٭

اللہ کے نبی کے نواسے کی مجلسیں

اہلِ ولا کو اہلِ عزا سے ملا دیا

٭

صفدر یہ فیض آلِ محمد کا فیض ہے

سجاد نے دعا کو شفا سے ملا دیا

٭٭٭

۵۹

ارشد نذیر ساحل

سیاہ راتوں کا راج تھا

جب صداقتوں کے ویران راستوں پر

مشعلِ حق اٹھا کے میرا حسین نکلا

اسے خبر تھی

کہ دجل کی مکر کی ہوائیں مقابلے پہ ہیں

مگر خوں کی نجابت اسے میداں میں لائی

اور اس نے قرطاسِ کربلا پہ لہو سے اپنے لکھا

٭

مجھے ابد تک فنا نہیں

مجھے ابد تک فنا نہیں

٭٭٭

۶۰

یا ایہالناس ۔۔

ڈاکٹر نگہت نسیم

وہ جو لگن کے رستوں پہ چلتے ہیں

انہیں کو جینے کے قرینے ملتے ہیں

ہاں دفینوں سے خزینے ملتے ہیں

٭

سو میرا بھی پہلا قدم اس رستے پر اٹھ گیا

میں بھی اسی سمت چل پڑی تھی جہاں دل میں ایک لگن سی لگی تھی ۔۔

جیسے آخری سانس بھی کچھ پانے کی خواہش میں ٹھہر سی گئی تھی

بس میں چل پڑی تھی ۔۔اور ۔۔پھر ۔۔

ہاتھوں میں میرے اپنے ہی گناہوں کی گٹھڑی تھی

٭

پاؤں میں جیسے کوئی بیڑی ٹوٹ کر گر پڑی تھی

آنکھوں میں لگی جیسے ساون کی اک جھڑی تھی

اور میں اپنی ہی تڑپ میں دلگیر چلی جا رہی تھی ۔۔

٭

جاں بلب ، سوختہ جاں ، شکستہ پا ۔۔اور زمانے کے گرم سرد

کہیں انگارے ہی انگارے تو کہیں فگار اپنے ہی دل کے پارے

٭

کہتے ہیں جو بھی لگن کے رستوں پہ چلتے ہیں

انہیں کہیں نہ کہیں جینے کے قرینے ملتے ہیں

٭

۶۱

یا ایہالناس

نوید ہو کہ ابدی خزانہ مل گیا مجھے

غم حسین ،موت سے بیگانہ کر گیا مجھے

گویا

صبر حسین سے جینے کا قرینہ مل گیا مجھے

٭

اے عالی حوصلہ، کربلا کے جیدار ، سید الشہدا حسین

آپ کی شان پہ قربان ، آپ کی نذر میرے شام و سحر

آپ کو میری ہر سانس کا سلام ۔۔سلام ۔۔ سلام

٭

اے خانہ زہرا کے چراغ ، کربلا کے تاجدار، سید الشہدا حسین

آپ ہیں دین محمد کے پاسبان ، آپ کی نذر میرے قلب و جگر

آپ کو میری ہر سانس کا سلام ۔۔سلام ۔۔ سلام

اے پاک امام۔۔۔۔امام۔۔۔۔امام

٭٭٭

۶۲

عارف نقوی

پکارتا ہے زمانہ علی علی مولیٰ

گرج رہا ہے یہ نعرہ علی علی مولیٰ

٭

علی کے نام پہ شمس و قمر سلام کریں

ستارے جلوۂ حیدر سے جگمگانے لگیں

فرشتے نام علی پر بلائیں لینے لگیں

علی کی عزمت و وقعت کا احترام کریں

٭

پکارتا ہے زمانہ علی علی مولیٰ

٭٭

رسولِ پاک کے ہمدم جہاں کے رکھوالے

مثالِ حسن و محبت خلوص و ہمدردی

علی کے نام سے روشن چراغِ الفت ہے

علی کے نور سے روشن ہیں آسمان و زمیں

٭

علی تمھاری ضرورت ہے آج دنیا کو

تری شجاعت و شمشیر،حکمت و تدبیر

وہ ہاتھ جس نے اکھاڑا تھا درِّ خیبر کو

۶۳

وہ وصف جس نے صداقت کی لاج رکھی تھی

دھندلکے چیر کے عالم میں روشنی کی تھی

بدی کو توڑ کے نیکی کو زندگی دی تھی

اسی علی کی ضرورت ہے آج عالم کو

٭

پکارتا ہے زمانہ علی علی مولیٰ

گرج رہا ہے یہ نعرہ علی علی مولیٰ

٭٭٭

۶۴

سوئے کربلا

شفیق مراد

ظلمتوں کی بدلیاں چھائی ہوئی ہیں ہر طرف

قافلے کوفے کی جانب آج کیوں جاتے نہیں

ہو رہا ہے آج بھی فتووں کا ہر سو کاروبار

آج بھی سوچوں پہ پہرہ ہے کسی کی سوچ کا

آج بھی انصاف کی باتیں پرانی ہو گئیں

آج پھر ہم کو ضرورت ہے علی کی آل کی

آج پھر پیدا کرو روحِ حُسینی قلب میں

کربلا کا سو سہارا باندھ کر سر پہ کفن

قافلوں کو لے چلو کوفے کی جانب آج پھر

ظلمتوں کی بدلیاں چھائی ہوئی ہیں ہر طرف

قافلے کوفے کی جانب آج کیوں جاتے نہیں

٭٭٭

۶۵

اختر عثمان

اشک نے چھوڑ دی پلک ، نذر ِ حُسین ہو گیا

لو مری لاج رہ گئی ، لو مرا بَین ہو گیا

٭

بیتِ نبی سے شاہ یوں بیتِ الٰہ کو گئے

روح تڑپ تڑپ اُٹھی ، دل حرمین ہو گیا

٭

میں نے کہا شہا ! اگر عِلم کا اِذن ہو سکے!۔

پھر جو وہ خشک لب ہِلے ، عین بہ عین ہو گیا

٭

بزم ِ عزا کے کفش بَر! تیری عجب نشست ہے

تُو کہ زمین کے لئے زینت و زَین ہو گیا

٭

ماتم ِ شاہِ کربلا کم تو نہیں نماز سے

ہاتھ اُٹھے تو یہ عمل رفع ِ یدین ہو گیا

٭

مجھ سے کہا گیا کہ اب جاؤ پئے مبارزت

جی میں وہ لَو اُتر گئی ، روح کو چین ہو گیا

٭

۶۶

نصرتِ شاہ کے لئے اب تو اُٹھو حسینیو !۔

بزم کا بَین ہو گیا ، نالہ و شَین ہو گیا

٭

مدح ِ شہ ِ شہاں کوئی مدحتِ کَے و جَم نہیں

میرا شرف کہ آن میں در قدمین ہو گیا

٭

ایک ہی لفظ میں بہم یوں ہیں حسین اور حسن

نور ِ مرکّبِ دو جاں خُود حسنین ہو گیا

٭

حرفِ غلط بھی ایک تھا ، دستِ غلط نویس بھی

تیغ ِ علی عَلَم ہوئی ، قطع ِ یدین ہو گیا

٭

میری وفا جلی بَلی ، شام ِ جلی نہیں ڈھلی

المددے علی ولی ! دن مرا رَین ہو گیا

٭

اختر ِ کج ہُنر ترے لفظ میں لَو کہاں کی تھی

تھوڑا بہت یہ نام تو شاہ کا دَین ہو گیا

٭٭٭

۶۷

اعزاز احمد آذر

شام کنارے اُتری پیاس

تلواروں پر چمکی پیاس

٭

کتنے پھولوں کا رس پی کر

نہر کنارے سو گئی پیاس

٭

دانتوں میں مشکیزہ تھامے

موت سفر پر نکلی پیاس

٭

اس سے پہلے کس نے دیکھی

تلواروں سے بجھتی پیاس

٭

دیکھا صبر جو معصوموں کا

شرمندہ سی ہو گئی پیاس

٭

صحرا نے سیراب کیا ہے

دریا سے جب نکلی پیاس

٭

کربل کی دھرتی ہے شاہد

پانی جھوٹا سچی پیاس

٭٭٭

۶۸

سید وحید الحسن ہاشمی

کہو نہ حاجت ذکر شہ ہُدی کیا ہے

حسین ہی نے تو ثابت کیا خُدا کیا ہے

٭

غمِ حُسین دلوں کا نفاق دھوتا ہے

بس اب نہ پو چھو کہ رونے کا فائدہ کیا ہے

٭

رضائے حق کی ہر اک راہ میں ہے نقش حُسین

میں کربلا سے نہ جاؤں تو راستہ کیا ہے

٭

اگر حسین کی سیرت پہ ہو سکا نہ عمل

تو پھر یہ مجلس و ماتم کا فائدہ کیا ہے

٭

حسینیت سے جو ٹوٹا یزیدیت کا بھرم

یہ پھر کُھلا اثر نامِ کربلا کیا ہے

٭

پلٹ نہ آتے جو دریا سے تشنہ لب عباس

تو کون جانتا اس دہر میں وفا کیا ہے

٭

۶۹

بقائے دیں کی ضمانت ہے فاطمہ کا پسر

نہیں حسین تو اسلام میں دھرا کیا ہے

٭

یہ کربلا کے شہیدوں نے حل کیا ورنہ

کسے خبر تھی فنا کیا ہے اور بقا کیا ہے

٭٭٭

۷۰

محمد اعظم عظیم اعظم

سبطِ محبوبِ خدا ہیں نیرِ شہدا حسین

سچ کہوں میں اِس لئے ہیں شان میں یکتا حسین

٭

آپ کی سیرت کے چرچے آج بھی ہر سمت ہیں

جو نظر رکھتا ہے اِس پر بنتا ہے اچھا حسین

٭

زورِ باطل تھا یزیدی دور میں بے انتہا

آپ نے حق و صداقت کا کیا چرچا حسین

٭

سر کو کٹوا کر زمینِ کربلا پر آپ نے

شریعتِ محبوبِ دارو کو کیا زندہ حسین

٭

آبیاری خون سے کی کربلا میں آپ نے

باغِ دیں مُرجھا رہا تھا آپ نے سینچا حسین

٭

آپ کے گھر کی فضیلت آئی ہے قرآن میں

آپ کا رب نے کیا ہے مرتبہ اعلیٰ حسین

٭

۷۱

بنتے آئے ہیں خدا بھی اور نبی بھی کچھ لعین

نہ زمانے نے ابھی تک آپ سا دیکھا حسین

٭

ہر طرف دورِ یزیدی آ گیا ہے آج پھر

آیئے بہرِ مدد اِس وقت اے آقا حسین

٭

میں تو تھا کمتر یہ احساں کر دیا ہے آپ نے

آپ نے ہی مجھ کو بس اعظم بنایا، یا حسین

٭٭٭

۷۲

سلام آپ پہ اے حضرتِ امامِ حسین

زمانہ کرتا ہے یوں مدحتِ امامِ حسین

٭

حبیبِ داورِ کُل اُن کے جب ثنا خواں ہیں

بیاں کیسے ہوں پھر عظمتِ امامِ حسین

٭

اٹھا تھا آپ کا ہر اِک قدم صداقت میں

لعین سمجھے نہیں حکمتِ امامِ حسین

٭

انہیں بتایا کہ باز آؤ قتلِ ناحق سے

ہے دشمنوں پہ بھی تو رحمتِ امامِ حسین

٭

زمانہ آج بھی آنسو بہا رہا غم میں

بھُلا نہ پایا غمِ لذتِ امامِ حسین

٭

بروزِ حشر وہ دامن میں ہونگے اُن کے ضرور

ہے جس کے دل میں یہاں عزتِ امامِ حسین

٭

ہزاروں سال ہوئے آپ کی شہادت کو

ہے آج چاروں طرف شہرتِ امامِ حسین

٭

۷۳

قرآن پا ک ذرا پڑھ کے غور سے دیکھو

خدا نے کی ہے بیاں نزہتِ امامِ حسین

٭

جوابی حملہ کیا سینکڑوں مرے دشمن

اُنہوں نے دیکھی نہ تھی طاقتِ امامِ حسین

٭

جلیں گے نار میں جا کر وہ سب یزید کے ساتھ

ہے جن کے دل میں یہاں نفرتِ امامِ حسین

٭

نہ جانے کب وہ بلائیں گے کربلا میں مجھے

رُلا رہی ہے بہت فرقتِ امامِ حسین

٭

کچھ ایسے بھی ہیں جو کرتے ہیں جان و دل صدقے

ہے اُن کے دل میں بسی اُلفتِ امامِ حسین

٭

حسین سبطِ نبی اور اُمتی اعظم

نصیب اِس کو بھی ہے نسبتِ امامِ حسین

٭٭٭

۷۴

ڈاکٹر اختر ہاشمی

جہاں میں پھیل گیا اتنا اختیارِ حسین

ہر اک دیار کو اب کہتے ہیں دیارِ حسین

٭

نظامِ دیں نہ عطا کرتے خود نواسے کو

اگر رسولﷺ کو ہوتا نہ اعتبارِ حسین

٭

ذرا سی جان امامت کو دے گئی تنویر

تبسمِ علی اصغر ہے یادگارِ حسین

٭

جگر کا خون بتائے گا خود چمن کا نشاں

ان آنسوؤں میں ملے گی تمہیں بہارِ حسین

٭

حسینیت تو دلِ کائنات میں ہے مکیں

کہاں کہاں سے مٹاؤ گے یادگارِ حسین

٭

قیاس کر چکا کتنے گمان وہم کے وار

جہاں میں آج بھی قائم ہے اعتبارِ حسین

٭

۷۵

ہر اک جہاد پیمبر کا رُخ سمیٹے ہے

بس ایک صفحۂ تاریخ، کارزارِ حسین

٭

خدا تو حشر میں پوچھے گا، وجہِ غم اختر

وہاں جو اشک بہائے گا سوگوارِ حسین

٭٭٭

۷۶

فوزیہ مغل

حضرتِ زینب کی پاکیزہ چادر کا سایا

تا حشر رہے عالمِ اسلام پہ چھایا

٭

زینب نے رکھا ہے بھرم نانا رسول کا

دامانِ صبر چھوڑا نہ دامن اصول کا

٭

چادر بنی زینب کی بھی توحید کا علم

بازو بھی ہو گئے جہاں عباس کے قلم

٭

زینب تیرا احسان بھلایا نہ جائے گا

ذکرِ حسین میں بھی تیرا نام آئے گا

٭

دیکھی نہ گئی بے بسی آلِ امام کی

ہیں اشک بار آج تک گلیاں وہ شام کی

٭٭٭

۷۷

سلام

کیسے عیب تھے وہ نظارے فرات کے

پیاسے تھے اہلِ بیعت کنارے فرات کے

٭

ہوا شہید اصغرِ کمسن تشنہ لب

پیاسی رہی سکینہ کنارے فرات کے

٭

ہے یاد گار تابہ ابد دین کے لئے

سجدہ ترا حسین کنارے فرات کے

٭

اس داستانِ حق نے سنوارا ہے دین کو

جو رقم ہو گئی ہے کنارے فرات کے

٭

حق پہ شہید ہو کے امر ہو گئے حسین

باطن فنا ہوا کنارے فرات کے

٭

اب فوزیہ حسین کی یادوں میں ڈوب کر

جلتے ہیں پانیوں سے کنارے فرات کے

٭٭٭

۷۸

فہرست

فیض احمد فیض ۴

سوگواران حُسین سے خطاب ۱۰

جوش ملیح آبادی ۱۰

حفیظ جالندھری ۱۸

سلام اُس پر ۲۰

احمد فراز ۲۰

قتیل شفائی ۲۳

عبدالحمید عدم ۲۵

علی سردار جعفری ۲۶

شورش کاشمیری ۲۹

بہزاد لکھنوی ۳۱

مصطفےٰ زیدی ۳۲

منیر نیازی ۳۴

صبا اکبر آبادی ۳۵

شوکت تھانوی ۳۷

میں نوحہ گر ہوں ۳۹

امجد اسلام امجد ۳۹

غنیم کی سرحدوں کے اندر ۴۱

۷۹

پروین شاکر ۴۱

نہ پُوچھ میرا حسین کیا ہے؟ ۴۳

محسن نقوی ۴۳

سلام خونِ شہیداں حسین زندہ باد ۴۹

ملک زادہ منظور ۴۹

واصف علی واصف ۵۱

ثمینہ راجہ ۵۳

نقاش کاظمی ۵۵

غلام محمد قاصر ۵۷

صفدر ہمدانی ۵۹

ارشد نذیر ساحل ۶۰

یا ایہالناس ۔۔ ۶۱

ڈاکٹر نگہت نسیم ۶۱

عارف نقوی ۶۳

سوئے کربلا ۶۵

شفیق مراد ۶۵

اختر عثمان ۶۶

اعزاز احمد آذر ۶۸

سید وحید الحسن ہاشمی ۶۹

محمد اعظم عظیم اعظم ۷۱

۸۰

81