اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) 0%

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 292

اسلام کے عقائد(پہلی جلد )

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

صفحے: 292
مشاہدے: 103459
ڈاؤنلوڈ: 3996


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 292 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 103459 / ڈاؤنلوڈ: 3996
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(پہلی جلد )

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد 1

مؤلف:
اردو

اور جب دائود نے دیکھا کہ ان کے بندے آپس میں سرگوشی کر رہے ہیں تو سمجھ لیا کہ بچہ مر گیا ہے دائود نے اپنے خدام سے پوچھا بچہ مر چکا ہے ؟ کہا ہاں مر چکا ہے پھر اس وقت دائود نے زمین سے اٹھ کر غسل کیا اور نہا دھو کر تیل لگایا اور اپنا لباس بدلا اور خداوند کے گھر کی طرف گئے اور عبادت کی پھر اپنے گھر واپس آئے غذا طلب کی لوگوں نے حاضر کی تو آپ نے کھایا اور ان کے خادموں نے ان سے کہا کہ یہ کون سا کام تھاجو آپ نے انجام دیا جب بچہ زندہ تھا تو روزہ رکھا اور گریہ کیا اور جب مر گیا تو اٹھ کر کھانا کھایا انہوں نے کہا: جب بچہ زندہ تھا تو روزہ رکھا اور گریہ کیا اس لئے کہ میں نے سوچا کسے معلوم کہ شاید خداوند مجھ پر رحم کرے اور میرا بچہ زندہ بچ جائے لیکن اب جبکہ میرا بچہ مر چکا ہے کیوں روزہ رکھوں کیا میں اس کو دوبارہ واپس کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں؟ میں اس کے پاس جائوں گا لیکن وہ میرے پاس نہیں آئے گا۔

وہب کی روایت کا توریت میں سموئیل کی دوسری کتاب کی مذکور ہ باتوں سے مقایسہ کرنے سے نتیجہ نکلتا ہے کہ وہب نے بعض داستان توریت سے اور بعض داستان اسرائیل کی دیگر کتابوں سے ( کہ جن کو پڑھا تھا) لیاہے اور جیسا کہ خود بھی ان کتابوں کے پڑھنے کی خبر دی ہے اس طرح کی روایات علم حدیث میں روایات اسرائیلی یا اسرائیلیات سے موسوم ہیں۔

دوسرے۔ حسن بصری کی روایت: اس روایت کا خلاصہ وہی وہب کی روایت کا خلاصہ ہے، فرق صرف یہ ہے کہ حسن بصری نے ابتداء میں اضافہ کیاکہ داؤد نے اپنے اوقات چار حصوں میں بانٹ دئے تھے، ہمیں نہیں معلوم کہ آیا یہ خود اس کا خیال اور ابتکار تھا جو اس نے اضافہ کیا ہے یا دیگر اسرائیلی روایوں سے لیا ہے ۔

جو بھی صورت ہو حسن بصری نے اس روایت کی سند ذکر نہیں کی ہے اور اسے بغیر سند اور اصطلاحی اعتبار سے مرسل ذکر کیا ہے، اگر وہ روایت کے وقت اس کا ماخذ بھی بیان کردیتا اور کہتا کہ وہب بن منبہ سے یا اس کے علاوہ دیگر اسرائیلی راویوں سے روایت کرتا ہے تو مسئلہ آسان ہو جاتا اور محققین روایت کے ماخذ تک رسائی رکھتے اور آسانی سے سمجھ لیتے کہ یہ اسرائیلی روایات میں سے ہے، اس نے سند ذکر نہ کر کے محققین کے لئے مشکل کھڑی کردی ہے لیکن اس کے با وجود چونکہ اس کا شمارمکتب خلفاء میں عقائد کے حوالے سے رہنما اور پیشرو لوگوں میں ہوتا ہے ، اس کی روایت اسلامی عقائد کے سمجھنے میں دوگنا اثر رکھتی ہے۔

اسرائیلی روایات کے زیادہ تر راوی وہی کام کرتے ہیں جو حسن بصری نے کیا ہے ، یعنی اسرائیلی روایات کو بغیر سند اور ماخذ کے ذکر کرتے ہیں اور اس طرح سے ایسی روایتیں ان افراد کے لئے جو حدیث شناس نہیں ہین بہت سخت اور پیچیدہ ہو جاتی ہیں ۔

تیسرے۔ یزید رقاشی کی روایت: یزید بن ابان نے کہا ہے : یہ روایت اس نے انس صحابی سے دریافت کی ہے جسے اس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنی ہے یہ بات کہہ کر اس نے انس اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دونوں کی طرف جھوٹی نسبت دی ہے جبکہ اس کا سماج میں ظاہری حلیہ یہ ہے کہ وہ زاہد، عابد اور گریہ کرنے والا ہے۔

۲۴۱

یقینا ایسی روایت کا اثر جسے یزید کی طرح عابد، زاہد ، گریہ کرنے والے افراد اپنے مواعظ اور داستانوں میں روایت کرتے ہیں کس قدر ہوگا؟ آیا علم حدیث میں مہارت نہ رکھنے والا سمجھ سکتا ہے کہ یزید رقاشی ، نے جو کچھ حسن بصری سے سنا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی انس اور خود رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف جھوٹی نسبت دی ہے؟ بالخصوص اس کے بعدکہ بہت سے مفسرین جیسے طبری سے (جس کی وفات ۳۱۰ھ ہوئی .اورسیوطی تک جس کی وفات ۹۱۱ھمیں ہوئی) پے در پے آتے ہیں اور اس افسانہ کو اپنی تفاسیر میں شامل کر دیتے ہیں، اس سے زیادہ افسوسناک یہ ہے کہ اپنی نقل میں جو کچھ اسرائیلی روایات کو یہاں ذکر کیا ہے اسی پر اکتفا نہیں کی ہے ، بلکہ اس کے نقل کے حدودکو ایسے راویوں سے دیگر صحابہ اور تابعین تک وسیع کر دیا ہے، ہم نے ان میں سے بعض کو ''نقش ائمہ در احیائے دین ''( ۱ ) کے پانچویں اور بارہویں حصہ میں بیان کیا ہے جیسے:

۱۔ صحابی عبد اللہ بن عمروبن عاص، جس نے اہل کتاب کے نوشتہ جات کے عظیم خزانہ کو بعض جنگوں میں حاصل کیا اور وہ اس کتاب سے بغیر ذکرماخذ کے روایت کرتا تھا ۔

۲۔ صحابی تمیم داری، یہ راہب نصاری ہونے کے بعد اسلام لایا اورجمعہ کے ایام میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مسجد میں نماز جمعہ کے موقع پر خلیفہ دوم عمرا بن خطاب کے خطبہ سے پہلے تقریر کرتا تھا اور یہ کام عثمان کے دور میں ہفتہ میں دو مرتبہ انجام پاتا تھا۔

۳۔کعب الاحبار(تابعی) یہ عمر کی خلافت کے دوران اسلام لایا اور اس دور کے مسلمان علماء کی ردیف میں شمار ہونے لگا۔

اس گروہ کے بعد دوسرے افراد نے مذکورہ افسانوں کو ان سے لیا اور قرآن کی تفسیر کا نام دیدیا جیسے:

____________________

(۱)یہ کتاب فارسی میں جزء اول سے چودہویں جزء تک اسی عنوان سے چھپی اور نشر ہوئی ہے ۔

۲۴۲

۴۔ مقاتل بن سلیمان مروزی ازدی (متوفی ۱۵۰ھ )جو کتاب خدا کے مفسر کے نام سے مشہورہے ۔ شافعی نے اس کے بارے میں کہا ہے :

تمام لوگ تین آدمیوں کے مرہون منت ہیں :تفسیر میں مقاتل بن سلیمان کے، شعر میں زہیر بن ابی سلمیٰ کے اور کلام میں ابو حنیفہ کے!

اب دیکھنایہ ہے کہ جناب مقاتل نے مکتب خلفاء کی قابل اعتماد روایتوں میں کتنی اسرائیلی روایات کو جگہ دی ہے اور کتنی خود جعل کی ہے اور دوسروں کی طرف نسبت دی ہے، یہ توخدا جانتا ہے اور بس۔( ۱ )

تحقیق کا نتیجہ

وہب بن منبہ نے اس کی جھوٹی روایت کو جوخد اکے نبی دائود پر تہمت ، افترا اور کذب بیانی پر مشتمل ہے، اہل کتاب کی کتابوں سے نقل کر کے اس کا ماخذ بھی بتایا ہے ، لیکن مکتب خلفاء کے اماموں کے پیشوا حسن بصری نے اسے کسی ماخذ اور مدرک کے طرف اشارہ کئے بغیر روایت کیا ہے ، حدیث گو، قصہ پرداز، زاہد، عابد اور گریہ کناں یزید بن ابان نے فریب کاری سے اسے انس کی طرف نسبت دی ہے اور کہا ہے: انس نے اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے ۔

اس طرح کی تدلیس، فریب کاری، دھوکہ بازی اور اسرائیلی روایتوں کو صحابہ کی طرف نسبت دینا صرف اسی مورد میں منحصر نہیں ہے اورانہیں صحابہ سے مختص نہیں ہے اس جیسی اور اس سے بہت زیادہ روایات کی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچازاد بھائی عبد اللہ بن عباس کی طرف نسبت دی ہے ، یہ ایسی روایتیں ہیں جن کی تحقیق اور تجزیہ تطبیقی بحثوں کا محتاج ہے اور تفسیر سیوطی ، (الدر المنثور)کے آخری صفحہ کی طرف مراجعہ کرنے سے ان میں سے بعض موضوع ہمارے لئے واضح ہو جاتے ہیں۔

اس طرح جھوٹی خبروں کا سر چشمہ جس کی نسبت دائود کی طرف دی گئی توریت کے قصوں میں ملتا ہے اس طرح کی اسرائیلی روایات تدریجا ًاور زمانے کے ساتھ ساتھ تفسیر قرآن سے مخلوط ہو گئیں۔اورانہوں نے مسلمانوں کے اندر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور انبیاء کرام کی سیرت کے حوالہ سے غلط نظریات ایجاد کر دئے یہ حضرت داؤد کے اوریا کی بیوہ سے شادی کرنے کی جھوٹی داستان تھی جس کی نسبت اللہ کے نبی دائود کی طر ف دی گئی ہے ۔

____________________

(۱)تاریخ بغداد ، ج ۱۲، ص ۱۶۰، ۱۶۹، شمارہ ۷۱۴۲؛ وفیات الاعیان ، ج ۴، ص ۲۴۰، اور ص ۲۴۲؛ تہذیب التہذیب ج ۱۰، ص ۲۷۹، اور ص ۲۸۵؛ میزان الاعتدال ج ۴، ص ۱۷۲، شمارہ ۷۸۴۱.

۲۴۳

آئندہ بحث میں زینب بنت جحش کے زید سے ازدواج اوراس کے بعد رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ازدواج کی صحیح داستان ذکر کریں گے۔

روایت میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا زینب سے شادی کرنا

آیہ'' و تخفی فی نفسک''( تم دل میں کچھ چھپاتے ہو )کی تفسیرمیں خازن کہتے ہیں: اس سلسلے میں صحیح ترین بات ایک روایت ہے جو سفیان بن عیینہ اور انہوں نے علی بن جدعان سے نقل کی ہے راوی علی بن حد عان نے کہا: زین العابدین علی بن الحسین نے مجھ سے سوال کیا : حسن بصری اللہ کے اس کلام:

(و تخفی فی نفسک ما الله مبدیه و تخشی النا س والله احق ان تخشاه )

(دل میں کچھ پوشیدہ رکھتے ہو کہ جس کو خداآشکار کر دیتا ہے ؛ اور لوگوں سے ڈر تے ہوجبکہ خدا اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرا جائے)۔

کے بارے میں کیا کہتاہے ؟ میں نے کہا: جب زید رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں زینب کو طلاق دینے کا مصمم ارادہ رکھتا ہوں، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حیرت زدہ ہو ئے اور فرمایا: اپنی بیوی کو طلاق نہ دو اور خدا سے ڈرو، علی بن الحسین نے فرمایا: ایسا نہیں ہے بلکہ خدا وند عالم نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو آگاہ کر دیا تھا کہ زینب عنقریب پیغمبر کی بیویوں کے زمرہ میں شامل ہوںگی اور زید انہیں طلاق دے دیںگے، جب زید حضرت کی خدمت میں آکر کہنے لگے کہ میں زینب کو طلاق دینا چاہتا ہوں تو حضرت نے فرمایا اسے اپنے پاس رکھوتب خدا وند متعال نے پیغمبر کوسرزنش کی کہ کیوں تم نے کہا کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھو!میں نے تو تمہیں آگاہ کر دیاتھا کہ عنقریب وہ تمہاری بیویوں کی صف میں شامل ہو جائیگی؟!

خازن کہتا ہے:

یہ تفسیر پیغمبروں کی شان و منزلت کے اعتبار سے زیادہ مناسب اور سزاوار ہے اور قرآن کی صریحی آیات سے ہم آہنگ ہے۔

زینب کی شادی کی مفصل داستان پہلے زید سے ، پھر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے آیات و روایات میں اس طرح ہے :

۲۴۴

الف۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے زینب کی شادی کے متعلق آیات:

( وما کان لمؤمن و لا مؤمنة اذا قضی الله ورسوله امراً ان یکون لهم الخیرة من أمرهم و من یعص الله و رسوله فقد ضل ضلالًا مبینا٭ و اذ تقول للذی انعم الله علیه و انعمت علیه امسک علیک زوجک و اتق الله و تخفی فی نفسک ما الله مبدیه و تخشی الناس و الله احق ان تخشاه فلما قضیٰ زید منها وطراً زوجناکها لکی لا یکون علیٰ المؤمنین حرج فی ازواج ادعیائهم اذا قضوا منهن وطرا و کان امر الله مفعولا٭ما کان علیٰ النبی من حرج فیما فرض الله له سنة الله فی الذین خلوا من قبل و کان امر الله قدرا مقدورا٭ الذین یبلغون رسالات الله و یخشونه ولا یخشون احداً الا الله و کفیٰ بالله حسیبا٭ما کان محمد أبا أحد من رجالکم و لٰکن رسول الله و خاتم النبیین و کان الله بکل شیء علیماً )

کسی مرد اور عورت کے لئے مناسب نہیں ہے کہ جب خدا اور اس کا رسول کسی امر کو لازم سمجھیں تو وہ اپنا اختیار دکھلائے اور جو کوئی خدا و رسول کی نافرمانی کرے تو وہ کھلی ضلالت و گمراہی میں ہے ۔

اور جب وہ شخص جس کو خد انے بھی نعمت سے نوازا اور تم نے بھی اس پر احسان کیا اس سے تم کہہ رہے تھے کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھواور خدا سے ڈرو اور د ل میں ایسی بات چھپائے رہے جس کوخدانے آشکار کر دیا اور لوگوں سے خوفزدہ ہوئے جبکہ اس بات کا زیادہ حقدار خدا ہے کہ اس سے ڈراجائے اور جب زید نے اس عورت سے اپنی بے نیازی کا اظہار کیا تو ہم نے اسے تمہارے حبالہ عقد میں دیدیا تاکہ منہ بولے بیٹے کی بیوی سے جب وہ اپنی ضرورت پوری کر چکے ( طلاق دیدے) تو شادی کرنے میں مومنین کو کسی دشواری اور مشکل کا سامنا نہ ہو؛ اور امر الٰہی بہرحال نافذہو کے رہتا ہے جوخدا نے معین کر دیا ہے اس میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے کسی قسم کی کوئی دقت اور مشکل نہیں ہے ، یہ اللہ کی سنت گز شتہ لوگوں سے متعلق بھی ثابت تھی اور حکم الٰہی حساب و کتاب کے مطابق ہے، وہ گز شتہ افراد پیغامات الٰہی کی تبلیغ کرتے تھے اور اس سے ڈرتے تھے اور خدا کے علاوہ کسی سے خوف نہیں کھاتے تھے، اتنا ہی کافی ہے کہ خدا حساب لینے والا ہے ۔( ۱ ) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں اور خدا ہر چیز سے آگاہ ہے۔

مکتب خلفاء کی روایات میں مذکورہ آیات کی تاویل

طبری نے اس آیت کی تاویل میں وہب بن منبہ سے روایت کی ہے : پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی پھوپھی زاد

____________________

(۱)احزاب۳۶۔۴۰

۲۴۵

بہن زینب بنت حجش کی شادی زید بن حارثہ سے کر دی ، ایک دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زید کے سراغ میں جب ان کے گھرکے دروازہ پر پہنچے تو اچانک ہو اچلی اور گھر کا پردہ اٹھ گیا،زینب جو اپنے کمرے میں کافی حجاب میں نہ تھیں نظر آگئیں تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دل میں ان کے حسن و جمال نے جگہ بنا لی، یہ واقعہ جب پیش آیا ...تو(یہاں تک کہ ) زید رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آ کر کہنے لگے یا رسول اللہ !میں زینب سے الگ ہونا چاہتا ہوں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: تمہیںکیا ہو گیا ہے ؟ آیا اس کے بارے میں تمہیں کوئی شک و شبہ ہو گیا ہے ؟ کہا: نہیں خدا کی قسم میں اس سے متعلق مشکوک نہیںہوں اور اس سے خوبی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا ہے ..........آخرحدیث تک( ۱ )

اس مضمون کی، حسن بصری سے بھی ایک روایت بیان ہوئی ہے کہ عنقریب( آیات کی تاویل کے میں اہل بیت کی روایات کے ضمن میں ) اسے بیان کریںگے۔

دونوں روایات کی چھان بین

الف۔ دونوں روایت کی سند: یہ دونوں ہی روایتیں وھب بن منبہ اور حسن بصری سے منقول ہیں، ہم ان دونوں کی شرح حال بیان کر چکے ہیں، اسکے علاوہ کہیں گے: دونوں ہی''راوی'' رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سالوں بعد پیدا ہوئے ہیں پھر کس طرح رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے کے واقعات اور حوادث بیان کرتے ہیںاور بغیر کسی مدرک اور ماخذ کے قطعی مسلمات کی طرح بیان کرتے ہیں؟!

ب۔ دونوں روایتوںکا:اصل نچوڑ یہ ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اچانک زینب کے بے حجاب حسن و جمال کے دیدار سے حیرت زدہ ہوگئے اور دل میں زید کے طلاق دینے کے خواہشمند ہوئے لیکن اسے اپنے اندر مخفی رکھا۔

روایت کے بطلان کا بیان: زینب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پھوپھی زاد بہن تھی، حجاب کا حکم بھی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ازدواج کے بعد آیا ہے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے زید کے ساتھ ازدواج سے پہلے بارہا دیکھا تھا، لہٰذا جو ایسی بات کہتا ہے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بہتان اور افترا پر دازی کرتا ہے، صحیح خبروہ ہے جسے ہم سیرت کی کتابوں سے ذکر کریں گے۔

____________________

(۱)تفسیر المیزان، طبع دار المعرفة بیروت، ج۲۲ ص ۱۰۔۱۱

۲۴۶

زید بن حارثہ کون ہیں؟

زید بن حارثہ کلبی کی بعض سر گز شت اس طرح ہے : زید زمانۂ جاہلیت میں اسیر ہوئے اور عرب کے بعض بازاروں میں انہیں بیچا گیا تو اسے خدیجہ کے لئے خریدلیا گیا۔

خدیجہ نے بعثت سے پہلے جبکہ وہ ۸ سال کے تھے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بخش دیا، وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پروان چڑھے اس کی خبر ان کے گھر والوںکو ملی تو ان کے باپ اور چچا انہیں آزاد کرانے کیلئے مکہ آئے اور پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگے: اے عبد المطلب کے فرزند اور اے ہاشم کے فرزند! اے اپنی قوم کے آقا کے فرزند !ہم آپ کے پا س اپنے فرزند کو لینے کے لئے آئے ہیں ہم پر احسان کیجئے اور اس کا عوض لینے سے در گز ر کیجئے! پیغمبر نے کہا کس کے بارے میں کہہ رہے ہو؟ بولے : زید بن حارثہ کے متعلق، فرمایا: کیوں نہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کریں؟ بولے کیا کریں؟ فرمایا: اسے آواز دو اور اسے اپنے اختیار پر چھوڑ دو، اگر تمہیں اختیار کر لے تو تمہارا ہے اور اگر مجھے اختیار کر لے تو خدا کی قسم میں ایسا نہیںہوں کہ اگر کوئی مجھے منتخب کرے تومیں کسی اور کو ترجیح دوں، بولے : یقینا آپ تو حد انصاف سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں، آپ نے ہم پر مہربانی کی،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زید کو آواز دی اور فرمایا: ان لوگوں کو پہچانتے ہو کہا: ہاں ، یہ میرے والد اور وہ میرے چچا ہیں، فرمایا : میں بھی وہی ہوں جس کو پہچانتے ہواور میری مصاحبت کو دیکھاہے، ہم میں سے جس کا چاہو انتخاب کر لو، زید نے کہا: میں انہیں اختیار نہیں کرتا، میں ایسا نہیں ہوں کہ کسی اور کو آپ پر ترجیح دوںآپ میرے لئے باپ بھی ہیں اور چچا بھی،وہ سب بولے : تجھ پروائے ہو اے زید! کیا تم غلامی کو آزادی اور اپنے باپ اور گھر والوں پر ترجیح دیتے ہو؟ کہا: ہاں، میں نے ان میں ایسی چیز دیکھی ہے کہ کبھی کسی کو ان پر ترجیح نہیں دے سکتا، جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایسا دیکھا تو اسے بیت اللہ میں حجر کی طرف لے گئے اور فرمایا: اے حاضرین ! گواہ رہنا کہ زید میرا بیٹا ہے وہ میری میراث پائے گا اور میں اس کی ! جب زید کے باپ اور چچا نے یہ دیکھا تو مطمئن اور خوشحال واپس چلے گئے۔( ۱ )

اس واقعہ کے بعد زید پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منسوب ہو گئے اورلوگ انہیں زید بن محمد کہنے لگے۔ پیغمبر نے اپنی مربیہ کنیز'' ام ایمن'' کو ان کی زوجیت میں دیدیا اس سے مکہ میں اسامہ بن زید پیدا ہوئے ۔( ۲ )

____________________

(۱) اسد الغابة، ج۲ ص ۲۲۷۔۲۲۴

(۲) اسد الغابة ج۷ص ۳۰۳

۲۴۷

یہ رسول خدا کے منھ بولے بیٹے زیدکی داستان تھی ،زینب سے پیغمبر کی شادی کا قصہ درج ذیل ہے ۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پھوپھی زاد بہن زینب کا زید سے شادی کرنا

مدینہ ہجرت کرنے کے بعد کچھ صحابہ نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پھوپھی زاد بہن زینب سے شادی کا پیغام دیا اس نے اپنے بھائی کو اس سلسلے میں مشورہ کرنے کے لئے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں بھیجا ، پیغمبر نے فرمایا: جو اسے کتاب خدا اور اس کے پیغمبرکی سنت کی تعلیم دے اس کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟

زینب نے پوچھا: وہ شخص کون ہے؟ جواب ملا: زید! زینب ناراض ہوئیں اور بولیں: آیا اپنی پھوپھی زاد بہن کو اپنے غلام کی زوجیت میں دیں گے؟ میں اس کے ساتھ شادی نہیں کروں گی! میں خاندانی لحاظ سے اس سے بہتر ہوں میں کنواری اور اپنی قوم میں بے شوہر ہوں۔ پھر خدا وند عالم نے یہ آیت نازل فرمائی:

( وما کان لمومن و لامومنة اذا قضی الله و رسوله امرا ان یکون لهم الخیرة من امرهم و من یعص الله و رسوله فقد ضل ضلالاً مبیناً )

کسی مومن مرد اور مومنہ عورت کو حق نہیں ہے کہ اللہ اور رسول جب کسی چیز کا فیصلہ کر دیں تو وہ اپنے اختیار کا مظاہرہ کرے اور جو خدا اور رسول کی نافرمانی کرے گا وہ کھلی ہوئی گمراہی میں ہے۔

زینب نے جیسے ہی یہ آیت سنی راضی ہو گئیں، پیغمبر نے ان کو حبش کی رہنے والی سیاہ فام ام ایمن ( مادر اسامہ بن زید )کے بعد زید کی زوجیت میں دید یا، زینب زید پر اپنی فوقیت اور برتری جتاتیںاس پر سختی کرتیںاور اس سے بدسلوکی کرتی تھیں اور زبان سے اذیت دیتی تھیں، زید نے پیغمبر سے شکوہ کیا اور اس کوشش میں تھے کہ اسے طلاق دیدیں۔ خدا کی مرضی بھی یہی تھی کہ زید کے بعد زینب پیغمبر کی زوجیت میں آجائیں، تاکہ اس کے ذریعہ منھ بولے بیٹے کی رسم کو مسلمانوں کے درمیان سے ختم کر دے اور وحی کے ذریعہ پیغمبر کو اطلاع بھی دے دی تھی ، پیغمبر بھی اس بات سے ڈرتے تھے کہ لوگ کہیں گے کہ اپنے بیٹے کی بیوی سے شادی کر لی ہے بنا بر ایںوحی کے راز کو اپنے دل میں چھپائے رکھا اور زید سے فرمایا ،خدا سے ڈرو اور اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھو! آخر کار زید اپنی بیوی زینب سے تنگ آ گئے اور اسے طلاق دیدی اور جب عدۂ طلاق پورا ہو گیا تو یہ پوری آ یتیں یکبارگی پیغمبر پر نازل ہوئیںاور واقعہ سے آگاہ کیا اور منھ بولے فرزند کے حکم کوشریعت اسلامیہ میں اس طرح بیان کیا:

۲۴۸

( فلما قضیٰ زید منها وطراً زوجنا کها لکی لا یکون علیٰ المؤمنین حرج فی ازواج ادعیائهم...٭ ما کان محمد أبا أحد من رجالکم و لکن رسول الله و خاتم النبیین... )

جب زید نے اس عورت سے کنارہ کشی کی اور اپنی بے نیازی کا اظہار کیا تو ہم نے اسے تمہارے حبالۂ زوجیت میں دیدیا تاکہ مومنین کے درمیان منھ بولے بیٹے کی بیوی سے شادی کرنے پر کوئی مشکل نہ پیدا ہو، محمد تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ، لیکن اللہ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں۔( ۱ )

خدا وند سبحان دیگر مومنین کے بارے میں بھی فرماتا ہے :

( وما جعل ادعیائکم ابنائکم ذلکم قولکم بأفوا هکم والله یقول الحق و هو یهدی السبیل٭ ادعوهم لآبائهم هو اقسط عند الله فأِن لم تعلموا آبائهم فأِخوانکم فی الدین و موالیکم )

خدا وند عالم نے تمہارے منھ بولے بیٹے کو تمہارا حقیقی فرزند قرار نہیں دیاہے ؛ یہ تمہاری اپنی گفتگو ہے جو منہ سے نکالتے ہو، لیکن خدا حق کہتا ہے اور وہی تمہیں راہِ راست کی طرف ہدایت کرتا ہے، انہیں ان کے آباء کے نام سے پکار و کہ یہ خدا کے نزدیک انصاف سے زیادہ قریب ہے اور اگر ان کے آباء کو نہیںپہچانتے تو یہ لوگ تمہارے برادران دینی اور دوست ہیں۔( ۲ )

ہم نے گز شتہ بحثوں میں ان آیات کے دو نمونے پیش کئے ہیں جن کی تاویل میں علماء نے غلط فہمی کی ہے ، اس غلط فہمی کا باعث بھی یہ تھا کہ انہوں نے انبیاء پر افترا پردازی کرنے والی روایات پر اعتماد کیا،آئندہ بحث میں ہم ان آیات کو ذکر کریں گے جن کی تاویل میں بعض لوگوں نے( کسی روایت سے استناد کئے بغیر) غلط فہمی کی ہے ۔

____________________

(۱) احزاب ۴۰۔۳۷

(۲) احزاب ۵۔۴

۲۴۹

ھ۔ جن آیات کی تاویل کے بارے میں غلط فہمی کے شکار ہوئے ہیں

۱۔ سورۂ طہ میں جہاں حضرت آدم کے عصیان کے بارے میں فرماتا ہے : (وعصیٰ آدم ربہ فغویٰ)آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور راہ ہلاکت طے کی۔( ۱ )

۲۔سورۂ انبیاء میں جہاں حضرت ابراہیم نے بتوں کو توڑنے کے بارے میں فرمایا:(بل فعلہ کبیرھم) بلکہ ان کے بڑے (بت) نے یہ کام انجام دیا ہے جبکہ توڑنے والے آپ ہی تھے، جیسا کہ خداوند سبحان فرماتا ہے:

( فجعلهم جذاذاً الا کبیراً لهم لعلهم الیه یرجعون٭قالوا من فعل هذا بآلهتنا انه لمن الظالمین٭ قالوا سمعنا فتیً یذکرهم یقال له ابراهیم٭ قالوا فأتوا به علیٰ أعین الناس لعلهم یشهدون٭ قالوا أ أنت فعلت هذا بآلهتنا یا ابراهیم٭ قال بل فعله کبیرهم هذا فسئلوهم ان کانوا ینطقون٭ فرجعوا الیٰ انفسهم فقالوا انکم انتم الظالمون٭ ثم نکسوا علیٰ رؤوسهم لقد علمت ما هٰؤلاء ینطقون )

سر انجام سوائے بڑے بت کے تمام بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تاکہ شاید اس کی طرف لوٹ کرآئیں، ان لوگوں نے کہا: جس نے ہمارے خدائوں کے اتھ ایسا سلوک کیا ہے، یقینا ستمگروں میں سے ہے، کہنے لگے: ا یک نوجوان جسے ابراہیم کہتے ہیں سنا ہے کہ وہ بتوںکاتذکرہ کر رہا تھا، لوگوں نے کہا: اسے لوگوں کے سامنے لائو تاکہ وہ لوگ گواہی دیں، انہوں نے کہا: اے ابراہیم !آیا تم نے ہمارے خدائوں کے ساتھ ایسا کیا ہے؟

جواب دیا: بلکہ ان کے بڑے نے کیا ہے: ان سے سوال کرو !اگر وہ جواب دیں، وہ لوگ اپنے وجدان سے کام لیتے ہوئے بولے: یقینا تم سب ستمگر ہوپھر سروں کو جھکا کر کہا کہ: تم خوب جانتے ہو کہ یہ بات نہیں کر سکتے۔

____________________

(۱) طہ ۱۲۱.

۲۵۰

۳۔خدا وند عالم نے سورۂ یوسف میں خبر دی ہے کہ یوسف کے کار گزار نے ان کے بھائیوں سے کہا: (انکم لسارقون) یقینا تم لوگ چور ہو،جبکہ انہوں نے بادشاہ کا برتن نہیں چرایا تھا، کیونکہ خداوند عالم فرماتا ہے:

( فلما جهزهم بجهازهم جعل السقایة فی رحل أخیه ثم أذّن موذن ایتها العیر انکم لسارقون٭ قالوا و اقبلوا علیهم ماذا تفقدون٭ قالوانفقد صواع الملک و لمن جاء به حمل بعیر و انا به زعیم٭ قالوا تالله لقد علمتم ما جئنا لنفسد فی الارض وما کنا سارقین، قالوا فما جزا ؤه ان کنتم کاذبین٭ قالوا جزاؤه من وجد فی رحله فهو جزاؤ ه کذلک نجزی الظالمین٭ فبدأ بأوعیتهم قبل وعاء اخیه ثم استخرجها من وعاء أخیه کذلک کدنا لیوسف ما کان لیأخذ اخاه فی دین الملک الا ان یشاء الله نرفع درجات من نشاء و فوق کل ذی علم علیم٭ قالوا ان یسرق فقد سرق أخ له من قبل فأسرها یوسف فی نفسه و لم یبدها لهم قال انتم شر مکاناً و الله اعلم بما تصفون٭ قالوا یا ایها العزیز ان له اباً شیخاً کبیراً فخذ احدنا مکانه انا نراک من المحسنین )

اور جب ان کا سامان باندھ دیا، تو بادشاہ کا ایک( پانی پینے والا) ظرف ان کے بھائی کے سامان میں رکھ دیا ؛ پھر آواز دینے والے نے آواز لگائی: اے قافلے والو تم لوگ چور ہو وہ لوگ اس کی طرف مڑے اور بولے: آخر تمھاری کیا چیز گم ہوگئی ہے ، ملازمین نے کہا:بادشاہ کاپیمانہ نہیں مل رہا ہے اور جو اسے لے کر آئے گا اسے ایک اونٹ کا بار غلہ انعام ملے گا اور میں اس کا ذمہ دار ہوں ، ان لوگوں نے کہا: خداکی قسم تم لوگ خوب جانتے ہو کہ ہم اس شہر میں فساد کر نے کے لئے نہیں آئے ہیں؛ اور ہم چور نہیں ہیںانہوں نے کہا: اگر جھوٹے ثابت ہوئے تو سزا کیا ہے ؟ کہا: جس کے سامان میں پیمانہ ملے خود وہی اس چوری کی سزا ہے ہم ستمگروں کو ایسے ہی سزا دیتے ہیں، اس نے ان کے بھائی کے سامان کی تلاشی لینے سے پہلے ان کے دوسرے بھائیوں کے سامانوں کی تلاشی لی ، پھر اسے ( پیمانہ کو) ان کے بھائی کے سامان سے باہر نکالا؛ اس طرح سے ہم نے یوسف کے لئے چارہ جوئی کی!

وہ اپنے بھائی کو بادشاہی آئین کے مطابق پکڑ نہیں سکتے تھے، مگر یہ کہ خدا چاہے ! جس کے مرتبہ کو ہم چاہیں بلند کر دیں اور ہرصاحب علم سے برتر ایک عالم ہے ۔

۲۵۱

بولے: اگر اس نے چوری کی ہے تو اس سے پہلے اس کے بھائی نے بھی چوری کی تھی۔ یوسف نے اس چیز کو اپنی اندر مخفی رکھا اور ان پر ظاہر نہیں کیا،فرمایا تم لوگ سب سے بدترین جگہ اور مقام کے حامل ہو اور جو تم بیان کر رہے ہو خدااسے بہتر جانتا ہے : بولے: اے عزیز! اس کا ضعیف باپ ہے ہم میں سے کسی ایک کو اس کی جگہ رکھ لیجئے، ہم تمہیں احسان کرنے والا گمان کرتے ہیں۔( ۱ )

۴۔ خدا وند عالم نے سورۂ انبیا میں بھی خبر دی ہے کہ ''ذا النون'' پیغمبر ( یونس) نے اس طرح گمان کیا کہ خد اکبھی انہیں مشکل میں نہیں رکھے گا جیسا کہ وہاں فرمایا ہے:

( وذاالنون اذ ذهب مغاضباً فظن ان لن نقدر علیه فنادیٰ فی الظلمات ان لا الٰه الا انت سبحانک أِنی کنت من الظالمین٭ فاستجبنا له و نجیناه من الغم وکذلک ننجی المومنین )

اور ذالنون ( یونس) جب غصہ سے گئے اور ایساخیال کیا کہ ہم ان پر روزی تنگ نہ کریں گے تو تاریکیوں میں آواز دی: تیرا سوا کوئی معبود نہیں ہے، تو منزہ ہے : میں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں میں تھا ہم نے ان کی دعا قبول کی؛ اور غم و اندوہ سے انہیں نجات دی اور ہم مومنین کو اس طرح نجات دیتے ہیں۔( ۲ )

۵۔ خدا وند عالم نے سورۂ فتح میں بھی خبر دی ہے کہ فتح مکہ کے بعد خاتم الانبیاء کے گز شتہ اور آئندہ گناہ بخش دئے گئے ہیں جہاں پر فرماتا ہے:

( انا فتحنا لک فتحاً مبینا٭ لیغفر لک ما تقدم من ذنبک وما تأخر و یتم نعمته علیک و یهدیک صراطاً مستقیماً٭ و ینصرک الله نصراً عزیزاً )

ہم نے تمہیں کھلی ہوئی کامیابی دی تاکہ خدا وند عالم تمہارے گز شتہ اور آئندہ گناہوں کو بخش دے اور اپنی نعمت تم پر تمام کرے اور راہِ راست کی ہدایت کرے اور تمہیں شکست ناپذیر فتح و کامیابی عنایت کرے۔( ۳ )

یہ اور اس کے مانند آیات جن کی صحیح تاویل نہیں کر سکے اور ہم کلمات کی تفسیر اور بعض اصطلاحوں کی توضیح کے بعد ان کی چھان بین اور تحقیق کریں گے۔

____________________

(۱)یوسف ۷۸۔۸۰

(۲)انبیاء ۸۸۔۸۶

(۳) اعراف ۳۱

۲۵۲

بعض کلموں اور اصطلاحوںکی تفسیر

اول۔بحث کی اصطلاحوں کی تعریف

الف۔ خدا کے اوامر اور نواہی: بعض خدا کے اوامر اور نواہی ذاتی امور سے متعلق ہیں اور ان کی مخالفت کے آثار صرف اورصرف دنیاوی زندگی میں آشکار ہوتے ہیں اور اخروی زندگی سے متعلق نہیں ہوتے ، جیسے:

( کلوا واشربواولا تسرفوا ) کھائو، پیو اور اسراف نہ کرو۔( ۱ )

اسراف: کسی بھی کام میں حد سے تجاوز اور زیادہ روی کو کہتے ہیں جسے انسان انجام دیتا ہے ، جیسے : پاکیزہ چیزوں کو زیادہ سے زیادہ کھاناپینا، انسان اس طرح کے اوامر و نواہی کی مخالفت کا اثر اپنی دنیاوی زندگی ہی میں دیکھ لیتا ہے اور اس کا ربط اس کی آخرت سے نہیں ہے اس طرح کے امر ونہی کو فقہی اصطلاح میں امر و نہی ارشادی کہتے ہیں۔

دوسرے اوامر و نواہی ایسے ہیں جن کا بجالاناواجب اور ترک حرام اور جس فعل سے روکا گیا ہے اس کے بجالانے کو ممنوع کہتے ہیں۔

اس طرح کے اوامر و نواہی کی مخالفت کے آثار روز آخرت سے مربوط اور عذاب کا باعث ہیں، انہیں فقہی اصطلاح میں امر ونہی مولوی کہتے ہیں، جیسے : نماز ،روزہ اور حج کا وجوب یا جوا، شراب اور ربا وغیرہ کی حرمت۔

ب۔ ترک اولیٰ: انسان کے افعال کے درمیان جو وہ انجام دیتا ہے کچھ اس طرح کے ہیں کہ اگر ان کی ضد بجالاتا تو بہتر ہوتا ، ایسے بہتر کے ترک کو ''ترک اولیٰ'' کہتے ہیں، جیسے اللہ کے نبیوں کے بعض افعال، جیسے آدم و موسیٰ علیہما السلام جس کا ذکر قرآن کریم میں بھی آیا ہے انشاء اللہ آئندہ بحث میں آئے گا۔

ج۔ معصیت: معصیت اور عصیان، دونوںہی اطاعت سے خارج ہونے اور فرمان کے انجام نہ دینے کوکہتے ہیں، عاصی یعنی نافرمان۔

____________________

(۱)فتح ۳۔۱

۲۵۳

جملوں میں لفظ( امر) کبھی معصیت کے مشتقات کے ذکر کے بعد آتا ہے ، جیسییہ بات سورۂ کہف میں حضرت موسیٰ اور خضر کی داستان میں آئی ہے اور بہ زبان موسیٰ فرماتاہے:

( ستجدنی ان شاء الله صابراً و لا اعصی لک ''امرا'' )

عنقریب مجھے خدا کی مرضی اور خواہش سے صابر پائو گے اور کسی امر میں تیرا مخالف اور نافرمان نہیں ہوں گا۔( ۱ )

اور جہنم کے کارندے، فرشتوں کی توصیف میں سورۂ تحریم میں ارشاد ہوتا ہے :

( علیها ملائکة غلاظ شداد لا یعصون الله ماأمرهم و یفعلون ما یؤمرون )

جہنم پر سخت مزاج اور بے رحم فرشتے مقرر کئے گئے ہیں جو کبھی خدا کے ''امر'' کی مخالفت نہیں کرتے اور جس پر وہ مامور ہیں عمل کرتے ہیں۔( ۲ )

کلمہ اور لفظ امر بیشتر اوقات جملہ میں معنی واضح ہونے کی وجہ سے استعمال نہیں کیا جاتا ہے جیسے خدا کا کلام سورۂ طہ میں :( و عصیٰ آدم ربه ) آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی یعنی آدم نے ''امر'' پروردگار کی نافرمانی کی۔( ۳ )

کبھی کبھی نافرمان شخص کا نام بھی جملہ میں نہیں لایا جاتا جیسے فرعون کے بارے میں سورہ ٔ نازعات میں آیا ہے :( فکذب و عصی ) پس اس (فرعون )نے تکذیب کی اور نافرمانی کی ۔

د۔ذنب: ذنب کی حقیقت ہر اس کام کا اثر اور نتیجہ ہے کہ جو آئندہ انسان کو نقصان دیتا ہے۔ یہ اثر کبھی بعض دنیاوی امور سے مخصوص ہوتا ہے اور طاقتوروں کی طرف سے ہوتا ہے جو انسانوں کو نقصان پہنچانے کی قدرت اور توانائی رکھتے ہیں، جیسا کہ موسیٰ کی گفتگو میں خدا سے مناجات کے موقع پر سورۂ شعراء میں ذکر ہوا ہے۔

( و اذ نادیٰ ربک موسیٰ ان ائت القوم الظالمین٭ قوم فرعون الا یتقون٭ قال رب انی اخاف ان یکذبون٭ و یضیق صدری و لا ینطلق لسانی فأرسل الیٰ هٰرون٭ و لهم علیِّ''ذنب'' فاخاف ان یقتلون٭ قال کلا فاذهبا بآیاتنا انا معکم مستمعون )

جب تمہارے رب نے موسیٰ کو آواز دی کہ ظالم اور ستمگر قوم فرعون کی طرف جائو، آیا وہ لوگ پرہیز نہیں کرتے؟!موسیٰ نے عرض کی: پروردگار ا! میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ کہیں وہ مجھے جھوٹا نہ کہیں اور میرا دل

____________________

(۱)کہف ۶۹(۲) تحریم ۶(۳) نازعات ۲۱

۲۵۴

تنگ ہو جائے اور زبان گویائی سے عاجزہو جائے لہٰذا یہ پیغام ہارون کے پاس بھیج دے ان کا میرے ذمہ ''ایک گناہ'' ہے میں ڈرتا ہوں کہ کہیں وہ مجھے مار نہ ڈالیں، فرمایا: ایسا نہیں ہے ، تم دونوں ہی ہماری نشانیوں کے ساتھ جائو، ہم تمہارے ساتھ سننے والے ہیں۔( ۱ )

موسیٰ کا کام ( گناہ) وہی قبطی شخص کو قتل کر ناتھا کہ جس کا ذکر سورۂ قصص کی آیات میں اس طرح آیا ہے:

( ودخل المدینة علیٰ حین غفلة من اهلها فوجد فیها رجلین یقتتلان هذا من شیعته و هذا من عدوه فاستغاثه الذی من شیعته علیٰ الذی من عدوه فوکزه موسیٰ فقضیٰ علیه قال هذا من عمل الشیطان انه عدو مضل مبین٭ قال رب انی ظلمت نفسی فاغفرلی فغفر له انه هوالغفور الرحیم٭ قال رب بما انعمت علی فلن اکون ظهیراً للمجرمین٭ فأصبح فی المدینة خائفاً یترقب فاذا الذی استنصره بالامس یستصرخه قال له موسیٰ انک لغوی مبین٭ فلما ان اراد ان یبطش بالذی هو عدو لهما قال یا موسیٰ اترید ان تقتلنی کما قتلت نفساً بالامس ان ترید الا ان تکون جباراً فی الارض وما ترید ان تکون من المصلحین٭ و جاء رجل من اقصیٰ المدینة یسعیٰ قال یا موسیٰ ان الملأ یأتمرون بک لیقتلوک فاخرج انی لک من الناصحین٭ فخرج منها خائفاً یترقب قال رب نجنی من القوم الظالمین ) ( ۲ )

وہ جب اہل شہر غافل تھے شہر میں داخل ہو گئے، ناگہاں دو شخص کو آپس میں لڑتے جھگڑتے دیکھا؛ ایک ان کا پیرو تھا اور دوسرا دشمن، جوان کا پیر و تھا اس نے دشمن کے مقابل ان سے نصرت طلب کی؛ موسیٰ نے ایک زبردست گھونسا اس کے سینہ پر مارا اور کام تمام کر دیا۔ اور کہا: یہ شیطان کے کام سے تھا جو کھلم کھلا دشمن اور گمراہ کرنے والا ہے پھر کہا: خدایا!میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے مجھے معاف کر دے! خدا نے اسے معاف کر دیا کہ وہ بخشنے والا ہے عرض کیا: خدایا جو تونے ہمیں نعمت دی ہے اس کے شکرانہ کے طور ر میں کبھی مجرموں کی حمایت نہیں کروں گا! موسیٰ شہر میں خوفزدہ اور چوکنا تھے کہ اچانک دیکھا کہ وہی شخص جس نے کل نصرت کی درخواست کی تھی آواز دے رہا ہے اور ان سے مدد مانگ رہا ہے موسیٰ نے اس سے کہا: یقینا تم کھلم کھلا گمراہ انسان ہواور جب چاہا کہ اس پر سختی کریںجو دونوں کا مشترکہ دشمن تھا تواس نے کہا: اے موسیٰ! کیا مجھے مار ڈالنا چاہتے ہو جس طرح سے کل ایک انسان کو قتل کر ڈالا ہے؟!کیا چاہتے ہو کہ تم زمین پر صرف جبار بن کر

____________________

(۱)شعرائ۱۰۔۱۵

(۲)قصص۱۵.

۲۵۵

رہو اور مصلح بن کر رہنانہیں چاہتے! اس اثناء میں شہر کے دور دراز علاقہ سے ایک مرد تیزی کے ساتھ آیا اور بولا اے موسیٰ قوم کے سردار تمہارے قتل کا پروگرام بنا رہے ہیں؛ باہر نکل جائو میں تمہارا خیر خواہ ہوں! موسیٰ خوفزدہ اورمحتاط انداز میں شہر سے باہر نکل گئے اور کہا: خدایا! مجھے اس ظالم قوم سے نجات دے۔

حضرت موسیٰ کا کام جو کہ قبطی کا قتل تھا اس کا اثر او ر نتیجہ یہی تھا کہ فرعونیوںنے ان کے قتل کا منصوبہ بنایا۔

خدا کے مولوی اوامر اور نواہی کی نافرمانی کے زیادہ تر آثار اور نتائج آخرت میں انسان کے دامن گیر ہوں گے کبھی دنیا و آخرت دونوں میں دامن گیر ہوتے ہیںاور وہ خدا کے مقابل گستاخانہ گناہ ہیں۔

دوسرے۔ بعض کلمات کی تشریح

۱۔ ذالأ ید: قدرت مند

۲۔ اوّاب: جیسیتواب،خدا کی طرف توجہ کرنے اور لوٹنے والا وہ بھی گناہوں کے ترک اور فرمان کی انجام د ہی کے ساتھ۔

۳۔ لا تشطط: ظلم نہ کرو اور حد سے تجاوز نہ کرو، شطط کے مادہ سے ،قضاوت میں ظلم و جور اور حد سے تجاوز کے معنی میں ہے ۔

۴۔اکفلنیھا:مجھے اس کا ولی اور سر پرست قرا دے اس کی نگہبانی اور حفاظت میرے حوالے کر دے۔

۵۔ عزّنی فی الخطاب: وہ گفتگو میں مجھ پر سختی سے پیش آیا ہے۔

۶۔ الخلطائ: دوستوں، پڑوسیوں اور شریکوں کے معنی میں ہے۔

۷۔ ظن: ظن وہ چیز ہے جو شواہد اور علامتوں سے حاصل ہوتا ہے ،کبھی یقین کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے ، جیسے ''وظن داؤد انما فتناہ'' داؤد نے یقین کیا کہ ہم نے اس کا امتحان لیا ہے اور کبھی ظن ، یقین سے دور حدس اور وہم کی حد میں استعمال ہوتا ہے ، جیسے( وما لهم بذلک من علم ان هم الا یظنون ) وہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں انہیں اسکا کوئی علم نہیں ہے بلکہ صرف حدس اور وہم کرتے ہیں۔

۸۔فتنّاہ: ہم نے اسے مبتلا کیا، آزمایا

۹۔خرّ : گر پڑا، خرّ راکعا یعنی رکوع میں گیا

۱۰۔ اناب: توبہ و انابت کی اور خدا کی پناہ مانگی، ابراہیم علیہ السلام کواس لحاظ سے منیب کہتے تھے کہ وہ اپنے امور میں خدا پر تکیہ کرتے اور اسی کی طرف رجوع کرتے تھے۔

۲۵۶

۱۱۔ فغفرنا لہ: اس کی پوشش کی غافر اور غفور ،چھپانے والااور غفار مبالغہ کے لئے ہے، زرہ کا بعض حصہ جو ٹوپی کے نیچے رکھتے ہیں مغفر کہتے ہیں، اس لئے کہ سر اور گردن کو ڈھانک لیتا ہے، غفر اللہ ذنوبہ ، یعنی: خدا وند عالم نے اس کے گناہوں کو پوشیدہ کر دیا، یہ ڈھانکنا یا پوشیدہ کرنا، دینا اور آخرت میں گناہوں کے آثار کا مٹانا ہے ۔

۱۲۔ زلفیٰ: قرب و منزلت

۱۳۔ مآب: سر انجام ، اوب کا اسم زمان و مکان ہے ( اوب یعنی بازگشت)

۱۴۔ خلیفة: خلیفہ کے معنی کی تشریح گز ر چکی ہے اس کا خلاصہ اس طرح ہے۔

خلیفة اللہ قرآن میں اس معنی میں جیسا کہ بعض نے کہا ہے، نوع انسان کی خلافت زمین پر نہیں ہے بلکہ مراد: یہ ہے کہ لوگوں کی ہدایت اور ان کے درمیان قضاوت کرنے کے لئے خدا کی طرف سے برگزیدہ امام اور پیشوا؛ جیسا خدا وند متعال کی دائود سے گفتگو سے واضح ہے :

( یا داود انا جعلنا ک خلیفة فی الارض فاحکم بین الناس بالحق )

اے داؤد! ہم نے تم کو روئے زمین پر جانشین اور خلیفہ بنایا لہٰذا لوگوں کے درمیان حق (انصاف) کے ساتھ قضاوت کرو۔

۱۵۔ خیرة: اختیار اورانتخاب کا حق۔

۱۶۔ وطر: اس اہم ضرورت اور احتیاج کو کہتے ہیں کہ جب اسے پورا کردیتے ہیں تو کہتے ہیں: قضیٰ وطرہ اس کی ضرورت کو پورا کیا۔

۱۷۔ادعیائھم: ان سے منسوب لوگ، دعی: وہ شخص جس کو کسی قوم سے نسبت دیں اور وہ ان میں سے نہ ہو، اس کا بارز مصداق منھ بولا فرزند ہے۔

۱۸۔سنة اللہ: خدا کے اس نظام کو کہتے جو اس نے مخلوقات کے لئے معین و مقدر فرمایا ہے ، ''سنة اللہ فی الذین خلوا ''اس خدائی فرمان اور شریعت کو کہتے ہیں جو اس نے گز شتہ انبیاء پر نازل کی ۔

۱۹۔ قدراًمقدوراً: جس کو تدبیر کے ذریعہمعین کیا جائے، قدر اللہ الرزق اللہ نے محدود اور کم مقدار میں روزی قرار دی۔

۲۰۔ جذاذ: ٹکڑے ٹکڑے اور ٹوٹاہوا۔

۲۵۷

۲۱۔ فتیٰ: شادا ب جوان، جو ابھی تازہ جوا ن ہوا ہوغلام اور کنیز کو بھی عطوفت، مہربانی اور دلجوئی کے عنوان سے فتیٰ کہا جاتا ہے نیز ہر جہت سے کامل مردوں کو بھی فتی کہا جاتا ہے، لیکن یہاں مراد نوجوان ہے۔

۲۲۔ نکسوا: ذلت و خواری کے ساتھ ان کے سر جھکا دئے گئے ۔

۲۳۔ سقایة: پانی پینے والے کے ظرف کو کہتے ہیںکہ کبھی پیمانہ کے کام بھی آتا ہے ۔

۲۴۔ عیر: بوجھ اٹھانے والے قافلے کو کہتے ہیں خواہ وہ مرد وں کا ہویا اونٹوں کا ۔

۲۵۔ صواع: پیمانہ، وہی پانی پینے کا ظرف جو ابھی گز ر چکا ہے ۔

۲۶۔ زعیم: ضامن اور کفیل کو کہتے ہیں۔

سوم ۔آیات کی تاویل

آیات کی تاویل بیان کرنے میں پہلے بعض موارد کی تاویل، اس کے لغوی معنیکی مناسبت سے کریں گے، اس کے بعد ائمہ اہل بیت کی روایات کو ذکر کریں گے۔

زبان عرب میں الفاظ کے معنی کی مناسبت سے آیات کی تاویل

الف۔ بتوں کے توڑنے کے بارے میں حضرت ابراہیم کے کلام کی تاویل: حضرت ابراہیم نے مشرکین سے فرمایا:( بل فعله کبیرهم هذا فاسئلوهم ان کانوا ینطقون ) بلکہ یہ کام ان کے بڑے نے انجام دیا ہے اگر یہ بول سکتے ہیں تو ان سے پوچھ لو۔( ۱ )

حضرت ابراہیم نے اس بیان سے تو ریہ کیا ، کیونکہ ان کی بات کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر بات کر سکتے ہیں تو ان کے بزرگ نے یہ کام کیا ہے ، یہ معنی بعد کے جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے کہا:( لقد علمت ما هؤلاء ینطقون ) تم خوب جانتے ہو کہ یہ بات نہیں کرسکتے۔( ۲ )

ب۔ اس بات کی تاویل جو حضرت یوسف کے بھائیوں سے کہی گئی : اس بات سے مراد کہ یوسف کے

____________________

(۱)انبیائ۶۳

(۲)انبیاء ۶۵

۲۵۸

بھائیوں کو چور کہا اور ان سے کہا:( ایها العیر انکم لسارقون ) اے قافلہ والو! تم لوگ چور ہو،یہ تھاکہ انہوں نے پہلے یوسف کو ان کے باپ سے چرایا تھا۔

بادشاہ کے پیمانہ کے بارے میں بھی کہا:( نفقد صواع الملک ) بادشاہ کا پیمانہ ہم نے گم کر دیا ہے اور یہ نہیں کہا کہ بادشاہ کا پیمانہ چوری ہو گیا ہے ، اس بات میں بھی جیسا کہ ملاحظہ کر رہے ہیں تور یہ ہوا ہے.( ۱ )

ج۔ فتح کے بعد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی داستان: خدا وند سورۂ فتح میں فرماتا ہے :

( انا فتحنا لک فتحاً مبینا٭ لیغفر لک الله ما تقدم من ذنبک وما تاخر و یتم نعمته علیک و یهدیک صراطا مستقیما٭ و ینصرک الله نصراً عزیزاً٭ هو الذی انزل السکینة فی قلوب المؤمنین. ) ..)

ہم نے تمہیں کھلی فتح دی، تاکہ خدا وند عالم تمہارے اگلے اور پچھلے گناہوں کو بخش دے اور تم پر اپنی نعمت تمام کرے اور راہ راست کی ہدایت کرے اور تمہیں کامیاب بنائے شکست ناپذیر کا میابی کے ساتھ وہی ہے جس نے مومنین کے دلوں میں سکون و اطمینان پیدا کیا ہے ۔( ۲ )

کلمات کی تفسیر

۱۔ فتحنا: ہم نے کشادگی دی، فتح سے مراد یہاں پر صلح حدیبیہ ہے ، خدا وند عالم نے اس اعتبار سے فتح نام رکھا ہے کہ قریش کا اقتدار ختم ہو گیا وہ بھی اس طرح کہ اب پیغمبر سے دشمنی نہیں کر سکتے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ کرنے کے لئے لشکر آمادہ نہیں کرسکتے ، اس صلح کے بعد ہی پیغمبرنے مکہ پر فتح حاصل کی۔

۲۔ لیغفر: تاکہ پوشیدہ کرے، غفران لغت میں ڈھانکنے کے معنی میں ۔

۳۔ ذنبک: تمہارے کام کا خمیازہ اوربھگتان، نتیجہ، راغب مفردات میں فرماتے ہیں: ذنب در حقیقت کسی چیز کے آخری حصہ کا پکڑنا ہے ،''اذنبتہ''یعنی میں نے اس کا آخری حصہ پکڑ لیا، ''ذنب'' اس معنی میں ہر اس کام میں استعمال ہوتاہے جس کا نتیجہ بھیانک اور انجام خطرناک ہوتا ہے، ذنب کی جمع ذنوب آتی ہے ۔

آیت کی تاویل لغوی معنی کے مطابق

صلح حدیبیہ سے متعلق واقدی نے جو ذکر کیا ہے اس کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے :

____________________

(۱)یوسف ۷۰۔۷۲. مجمع البیان ج۳، ص ۲۵۲.

(۲) فتح ۴۔۱

۲۵۹

حضرت عمر؛ حضرت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آکر کہنے لگے کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟ فرمایا: کیوں نہیں۔کہا: تو پھر کیوں ہم اپنے دین میں ذلت و رسوائی کا سامنا کررہے ہیں؟ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: میں خدا کا بندہ اور اس کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوں لہٰذا کبھی اس کے فرمان کی مخالفت نہیں کروں گا اور وہ بھی کبھی ہمیں تباہ و برباد نہیں کرے گا، عمر نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات نہیں مانی اور ابوبکر و ابو عبیدہ سے گفتگو کرنے لگے ان دونوں نے بھی اس کا جواب دیا،انہوں نے اس واقعہ کے بعد کہا: جس دن میں شک و تردید میں تھا پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس طرح گفتگو کی کہ اس انداز میں کبھی ان سے ہمکلام نہیں ہوا تھا...( ۱ )

صلح حدیبیہ کے بعد سورۂ فتح نازل ہوا اور اعلان کیا کہ یہ صلح پیغمبر اور مسلمانوں کے لئے عین کامیابی ہے ، جسے مشرکین نے پیغمبر کا گناہ شمار کیا ہے وہ عین صواب اور درستگی ہے ،یعنی مشرکین کوسفیہ کہنا اورمکہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ان کے خدائوں پر اعتراض کرنا اور اس کے بعد جنگ بدر وغیرہ میں جو جنگ و جدال ہوئی سب کچھ حق اور خدا کی مرضی کے مطابق تھا۔ خدا وند عالم نے مشرکین کے تمام خیالات کواس صلح سے جو اتنی بڑی فتح و کامرانی ہے نابود اور فنا کر دیااور اس سورہ میں خدا کی گفتگو کہ جس میں فرماتا ہے :(ما تقدم من ذنبک وما تاخر) آپ کے گز شتہ اور آئندہ گناہ، یہ ویسی ہی بات ہے جیسے حضرت موسیٰ کے قول کی حکایت سورہ شعراء میں کی ہے کہ فرمایا:( ولهم علی ذنب فأخاف ان یقتلون ) ان کامیرے ذمہ گناہ ہے میں ڈرتا ہوں کہ کہیں وہ مجھے قتل نہ کردیں، یعنی میں ان کے خیال میں گناہ گارہوں۔

____________________

(۱) مغازی واقدی ج۲ ص ۶۰۶۔۶۰۷، ج۳ ص ۱۹۰ سورۂ فتح کی تفسیر میں ۔

۲۶۰