مقدمہ
حضرت رسول خدا (ص)نے فرمایا :
اٴنا وَ عَلِيٌّ مِنْ نُوْرٍ وَاحِدٍ
میں اور علی علیہ السلام ایک نور سے ہیں۔
اسی طرح حضرت رسول خدا (ص)نے مزید فرمایا:
خُلِقتُ اٴنا وَ عَلِيٌّ مِنْ نُوْرٍ وَاحِد
مجھے اور علی علیہ السلام کو ایک نور سے خلق کیا گیا۔
شبلنجی کہتے ہیں کہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام تشریف لائے تو حضرت رسول خدا(ص)نے فرمایا:
مَرْحَباً بِاٴَخِيْ وَابْنِ عَمِيّ واَلَّذِيْ خُلِقْتُ اٴنَا وَ هُو مِنْ نُوْرٍ وَاحِدٍ
۔
مرحبا ۔ میرے بھائی اور چچا زاد کیلئے کہ وہ اور میں ایک نور سے خلق کئے گئے۔
میں نے اپنے مولا و سردار ، مولود کعبہ حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ایام ولادت یعنی رجب ۲۱ ۱۴ ھجری میں اپنی سردار حضرت فاطمہ(ع) بنت حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام (جو کہ فاطمہ معصومہ (ع)کے نام سے مشھور ہیں) کی زیارت کے لئے قم آنے کا پروگرام بنایا۔
یہاں پھنچنے کے بعد اسی شھر میں مؤسسہ امام علی علیہ السلام جانے کا قصد کیا تا کہ وہاں حضرت آیت اللہ شیخ محمد حسن قدس سرہ کے عزیز اپنے فاضل بھائی حجة الاسلام و المسلمین شیخ ضیاء جواہری سے ملوں اور انھیں اپنی کتاب سبیل الوحدة کی آخری طباعت کا نسخہ دوں اور وہ اس کادنیا کی مشھور مختلف زبانوں میں ترجمہ کروائیں ۔ چنانچہ انھوں نے میری خواہش کو قبول فرمایا۔
اس وقت موصوف نے خواہش ظاہر کی کہ میں ان کی عمدہ اور جامع کتابعَلِیٌ صِرَاطُ اللهِ الْمُسْتَقِیمَ
پر مقدمہ لکھوں۔ اس سے قبل بھی وہ سید تنا و مولاتنا حضرت فاطمة الزھراء کی سیرت پرحوراء الانسیہ کے عنوان سے کتاب لکھ چکے ہیں۔ میں نے بھتر جانا کہ ےمن میں افریقی اور ایشائی تنظےم کے نمائندے استاد بزرگوار جناب یحییٰ علوی کے سامنے پےش کئے گئے چند سوالات کے جوابات کو مقدمی میں شامل کروں اور ان کی خدمت میں یہ سوالات میں نے کچھ عرصہ پہلے قاہرہ میں عرض کئے تھے۔ لہٰذا مناسب ہے کہ میں حضرت علی علیہ السلام کے متعلق کئے گئے سوال وجواب کو مِن وعَن قارئین کرام کی خدمت میں پیش کروں۔
والسلام
بسم الله الرحمن الرحیم
برادر محترم استاد فاضل جناب سید مرتضی رضوی صاحب(تولاّه الله وایّاي
)
آپ پر اور آپ سے محبت کرنے والوں پر اللہ کا سلام۔ اور ان پر جنھیں اطمینان ہے کہ آپ شیعہ اور سنی کو اخوت ، محبت ، صفاء اور مؤدت کے ساتھ دعوت دیتے ہیں اور دلوں سے تفرقہ اور شقاوت و بدبختی کی جڑیں اکھاڑ پھینکتے ہیں ۔
اما بعد : میں آپ کے سامنے اس اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ میں آپ کی خدمت میں آپ کے بھےجے گئے اھم سوالات کے جواب پیش کئے دیتا ہوں جب آپ استاد بزرگوار ( ہم دونوں کے دوست،جو کہ سن کے لحاظ سے تو بوڑھے ہو چکے ہیں لیکن ان میں بہار ہی بہار ہے) ، رئیس الشیوخ استاد احمد ربیع مصری سے ملنے آئیں تو جوابات لے لےجئے گا۔ بھر حال میں نے صراحت کے ساتھ ان کا جواب تحریر کر دیا ہے۔
خداوندعالم ہر لغزش کو معاف فرمائے اور اسی پر بھروسہ ہے۔
والسلام
آپ کا برادر دینی
عبداللہ یحیی علوی
سوال و جواب:
پہلا سوال: کیا حضرت رسول خدا (ص)نے اپنے بعدھونے والے خلیفہ کیلئے وضاحت بیان فرمائی تھی؟
جواب : جی ہاں حضرت رسول خدا (ص)نے صریح اور صحیح احادیث کے ساتھ نص فرمائی ، یہ بالکل واضح احادیث ہیں ۔ انھیں تعصب اور آل(ع) کے بغض سے دور ہو کر سمجھا جاسکتا ہے ۔ اور عقل سلیم بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔ ان احادیث میں سے چند ایک یہ ہیں:
اٴنت مِنّی بمنزلة هارون من موسیٰ اِلّا اَنّه لا نبیَّ بعدی
(اے علی) آپ اور مجھ میں وہی نسبت و منزلت ہے جو ہارون اور موسیٰ کے درمیان تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
اٴنْت ولیُّ کِلّ مؤمنٍ بعدی
۔
آپ میرے بعد ہر مؤمن کے ولی ہیں۔
علیٌ مَعَ القرآنِ و القُرانُ مَع عَلیٍّ وَ لن یَفتَرِقا حتی یردا علیَّ الحوض
۔
علی قرآن کے ساتھ اور قرآن علی(ع) کے ساتھ ہے ۔(چنانچہ) یہ حوض کوثر پر میرے پاس آنے تک جدا نہ ہونگے ۔
مَن کنتُ مَولاَه فعلیٌّ مولاه
۔
جس کا میں مولیٰ ہوں علی ( بھی) اس کے مولا ہیں۔
صرف اور صرف یھی احادیث بھترین دلیل بن سکتی ہیں کہ آنحضرت(ص)نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا خلیفہ بنایا ، اگر کوئی ان احادیث کے الفاظ اور معنی پر غور کرے، کیونکہ حضرت رسول خدا (ص)جنگ تبوک پر جاتے وقت اپنی قوم میں حضرت علی علیہ السلام کو اس طرح خلیفہ بنا کر گئے جیسے جناب موسیٰ (ع)نے جناب ہارون کو اپنی قوم میں خلیفہ بنا یا تھا، حضرت رسول خدا (ص)نے موسیٰ کی ہارون کے ساتھ حضرت علی (ع) کی تشبیہ دینے سے پورا پورا استدلال کیا ہے کہ میرے انتقال کے بعد یھی میرا بلند پایہ ساتھی ہی تمھارا خلیفہ ہوگا۔
فقط واقعہ غدیر کو مدنظر رکھیں ( جو کہ معروف اور متواتر ہے) تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ حضرت رسول خدا (ص)نے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کو ثابت کیا تا کہ فقط حضرت علی علیہ السلام ہی ان کے خلیفہ قرار پائیں۔ جب اصحاب کی رائے سے ھرج و مرج لازم آرہا تھا تو رسول خدا (ص)کی خواہش تھی کہ مرض الموت میں ایک ایسانوشتہ لکھ جائیں تا کہ وہ انکی گمراہی اور تفرقہ سے محفوظ رکھے۔
اے کاش حضرت عمر ابن خطاب اس نوشتے کے درمیان حائل نہ ہوتے۔
حضرت رسول خدا (ص)کا یہ فرمانمَن کُنْتُ مَولاَه فَعَلِیٌّ مَولاَه
(جس کا میں مولا ہوں علی (ع) بھی اس کے مولا ہیں)واضح طور پر بیان کر رہاھے کہ حضرت علی علیہ السلام شروع ہی سے ہر مؤمن ومؤمنہ کے ولی ہیں۔
جہاں تک حضرت علی کرم اللہ وجھہ کے حقدارخلافت ہونے کی عقلی دلیل کا تعلق ہے تو وہ یہ ہے کہ حضرت رسول خدا (ص)کی وفات کے بعد خلافت اور مسلمانوں کے امور کی ولایت فقط اسی ہستی کے حصّے میں آسکتی ہے جو فضائل و شمائل میں بے نظےر اور زمانے کا بہادر ترین شخص ہو ،جو تمام ساتھیوں میں بلند ترےن ہو ، اورھم کفولوگوں کا مرّبی ہو۔نظریات اور رائے میں ممتاز ہو ، اشکالات سے دور ہو ، مشکلات کے حل کیلئے منفرد ہستی ہو ۔ اسکے مثل کسی کی نظر نہ ہو ، اس کا کوئی نظیر نہ ہو ۔ اس کا کوئی ہم پلّہ نہ ہو ، اپنے دین ، علم اور تقویٰ میں کا مل ہوتاکہ اس کے ذرےعے کلمہ لا الہ الااللہ کو سر بلندی نصیب ہو۔اور وہ سید الانام (ص)کا مدد گارہو ۔ پوری مخلوق میں سب سے پہلے اسلام لانے والا ہو ، کسی معارض کے بغیر تمام لوگوں میں اسکی فضلیت ، شجاعت اور تقویٰ زیادہ ہو (یعنی کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ فلاں شخص میں کوئی صفت ان سے زیادہ ہے)چنانچہ یہ سب کی سب صفات حضرت امام علی علیہ السلام میں جمع ہیں آپ مسلمان پیدا ہوئے ۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم سے اسلام کو تقوےت بخشی۔ آپ مکتب رسول(ص)کے پروردہ تھے ۔ اور سید الوجود(ص) اور متقیوں کے سردار (ص)کی گود میں پرورش پاکر جوان ہوئے۔
خدا کی راہ میں آپ کا جہاد ہر جہاد سے بلند، آپ کا تقوی ہر تقویٰ سے بڑھکر،آپ کی بہادری ہر بہادری سے بلند اور آپ کا زھد و ایمان ہر زھد و ایمان سے بڑھکر تھا۔ آپ اس نبی(ص)کی طرف مائل تھے ، آپ کو رب و خالق نے کامیاب قرار دیا تھا۔آپ اپنے اقوال و فرامین میں ممتاز تھے۔ فضیلت اپنے مصدر سے پہچانی جاتی ہے ۔ آپ سے عرفان پھوٹتا تھا۔ ایمان کو تعیین نصیب ہوئی ۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ سید المرسلین کے پروردہ تھے اور وہی آپ کی تربیت کرنے والے اور مربّی تھے ۔ حضرت رسولخدا (ص)آپ کواپنے حجرے میں رکھنے کی خواہش کرتے رھتے ،اپنے سینے پر لٹاتے ۔ اپنے بستر پر سلاتے ۔ آپ کے جسم کو چھوتے رھتے ۔ آپ کی معرفت کو محسوس کرتے ۔ اور آپ میں نور وحی کو ملاحظہ فرماتے تھے۔
جب تاریخ کی خوشبو عقل سلیم کو معطر کرتے ہوئے گزرتی ہے تو چند بڑے اصحاب کا تذکرہ بھی ہوتا ہے اوروہ(تاریخ) ان کے اعمال و افعال کا فوراً قصّہ بیان کرتی ہے۔ جب ہم اصحاب اور حضرت علی کرم اللہ وجھہ کے اعمال و افعال کا تقابلی جائزہ لیتے ہیں ۔اور ان کی سعی ، جہاد، مقاصد اور رسول خدا (ص)کے نزدیک مقام و منزلت کو ملاحظہ کرتے ہیں ۔ تو عقل کسی شک و تردید کے بغیر فیصلہ سناتی ہے کہ وہی خلافت کے لائق اور حقدار تھے۔
کیا عقل یہ نہیں کہتی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجھہ خلافت کے زیادہ حقدار تھے؟ !! اور رسول خدا (ص)نے انھیں ولایت عطا فرمائی ۔ وہ تو مسلمان ہی پیدا ہوئے ۔ کبھی بتوں کو سجدہ نہ کیا۔ اللہ کی گواھی میں خالص تھے، رسول خدا(ص) کی دعوت اسلام سے پہلے ہی مسلمان تھے۔
کیا عقل کا یہ فیصلہ نہیں ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجھہ خلافت کے زیادہ حقدار تھے !؟ کیونکہ وہ مولود کعبہ ہونے کی ساتھ حضرت رسول خدا (ص)کے ساتھ سب سے پہلے پڑھی جانے والی نماز میں بھی شریک تھے۔
کیا عقل ہی کا یہ فرمان نہیں کہ حضرت علی علیہ السلام خلافت کے زیادہ حقدار تھے؟! جبکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اور ان کے اہل بیت (ع)کو آیت تطھیر میں رجس اور پلیدی سے پاک و طاہر قرار دیا تھا ۔ اور یہ اللہ کا ارادہ ہے وہ جسے چاھتا ہے عطا کرتا ہے۔
کیا عقل نہیں کہتی کہ حضرت علی علیہ السلام اسلئے بھی خلافت کے زیادہ حقدار تھے وہ رسول اللہ(ص) کے ساتھ ہونے والی تمام جنگوں میں شریک تھے سوائے غزوہ تبوک کے ۔ اسمیں آپ حضرت علی (ع) کواپنا خلیفہ بنا کر مدینہ میں چھوڑ گئے تھے ۔ وہ بہت تیز حملہ کرنے والے جوان تھے۔ شیر سے زیادہ بہادر تھے۔ ان کے علاوہ کوئی ان خصوصیات کا حامل نہ تھا ،ھر جنگ میں فقط انھی پر دارو مدار ہوتا تھا۔ فقط یھی لوگوں کی شادابی اور خوشحالی کا موجب بنتے تھے۔ ان کی ثابت قدمی اور صبر کو دیکھ کر آسمانی فرشتے تعجب میں پڑجاتے تھے۔ حضرت جبرئیل نے زمین و آسمان کے درمیان صدا بلند کی ۔
لَا فَتٰی اِلَّا عَلِیٌّ وَ لَا سَیْفَ اِلَّا ذُوالْفِقَار
(حضرت )علی علیہ السلام سے بڑھکرکوئی جوان نہیں اور ذوالفقار سے بڑھکر کوئی تلوار نہیں۔
کیا عقل حضرت علی علیہ السلام کو خلافت کا زیادہ حقدار نہیں سمجھتی کیونکہ حضرت رسول خدا(ص)نے حضرت علی علیہ السلام کے متعلق جنگ خندق میں عمر ابن عبدود العامری سے جنگ کے وقت ارشاد فرمایا تھا:
بَرَزَ الْاِیْمَانُ کُلّه إلیٰ الشِّرکِ کُلِّه
کل ایمان ،کل شرک کے مقابلے میں جارہاہے۔
کیا عقل حضرت علی علیہ السلام کے زیادہ حقدار خلافت ہونے کو نہیں کہتی!؟ کیونکہ اللہ نے تمام مسلمانوں پر ان کی اور اہل بیت(ع)کی مودّت کو واجب قرار دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے کارِ رسالت اور رسول خدا (ص)کی زحمتوں کا اجر قرار دیا ہے۔
کیا عقل حضرت علی علیہ السلام کے خلافت پر زیادہ حقدار ہونے کا حکم نہیں لگاتی جبکہ حضرت رسول خدا (ص)نے ان کے متعلق فرمایا :
اٴنَا مَدِیْنَةُ الْعِلْمِ وَ عَلِیٌ بَابُهَا
میں علم کا شھر ہوں اور علی ( علیہ السلام )اسکا دروازہ ہیں۔
کیا عقل حضرت علی علیہ السلام کے خلیفہ رسول (ص)ہونے کو زیادہ حقدار نہیں سمجھتی ؟! کیونکہ وہ دنیا و آخرت میں رسول خدا (ص)کے بھائی ان کے پشت پناہ ، وزیر، خزانہ علم ،وارث حکمت ، سابق الامت ، صاحب نجویٰ ، پوشیدہ اور علانیہ مال خرچ کرنے والے ، وارث کتاب اور(احکام رسول (ص))کو مکمل طریقہ سے سننے والے تھے۔
کیا عقل حضرت علی علیہ السلام کے خلیفہ نبی(ص) ہونے کے زیادہ حقدار ہونے کو نہیں کہتی !؟ کیونکہ وہ امیر المؤمنین ، یعسوب الدین، شوہر جناب بتول ،فاجروں کے قاتل،صاحب الرایہ (علمبردار) اور سیّد العرب تھے۔
کیا عقل حضرت علی علیہ السلام کے زیادہ حقدا رخلافت ہونے کو نہیں کہتی جنکے متعلق حضرت عمر ابن خطاب کہتے ہیں:
لَو لَا عَلِیٌّ لَهَلَکَ عُمَرَ
اگر علی( علیہ السلام )نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا۔
کیا عقل کا یہ تقاضا نہیں کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کو خلافتِ رسول (ص)کا زیادہ حقدار سمجھے کیونکہ جناب شیخین( حضرت ابو بکر اور حضرت عمر )نے غدیر خم میں ان کی ولایت کا اقرار کیا ۔ اور دونوں کی زبان پر یہ ورد تھا:
بَخٍ بَخٍ لَکَ یَا بنَ ابِی طَالِبٍ اَصبَحْت واٴَمْسَیت مُولَایَ وَمَوْلَی کُلِّ مُؤمِنٍ وَ مُوْمِنَةٍ
اے ابن ابی طالب مبارک ہو مبارک ہو ۔ صبح و شام آپ ہمارے اور ہر مؤمن و مومنہ کے مولا ہیں۔
کیا عقل حضرت علی علیہ السلام کے خلیفہ نبی(ص) ہونے کا اعتراف نہیں کرتی جبکہ آپ وہ ہستی ہیں جن کے متعلق حضرت رسول خدا (ص)نے ایک طویل حدیث میں ارشاد فرمایا:
اَلَّلهُمَّ اَدْرِ الْحَقَّ مَعَه حَیْثُ دَارَ
خدایا حق کو اسکے ساتھ اُدھر پھیر دے جدھریہ پھرے۔
جی ہاں حضرت علی کرم اللہ وجھہ ہی رسول خدا (ص)کے بعد خلافت کے حقدار ہیں ۔ اور بے شک آپ ہی تمام صفات و خوبیوں کے جامع ہیں۔
وَلَمْ تک تَصْلَحُ الاَّ لَهُ وَلَمْ يک يَصْلَح اِلَّا لَهَا
مقام خلافت فقط انھیں زیب دیتا ہے اور ےھی مقام خلافت کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
امامِ برحق کے ہوتے ہوئے حضرت رسول خدا (ص)کے بعد حضرت ابوبکر خلیفہ بن بیٹھے۔ یہ حضرت علی علیہ السلام پر حضرت ابو بکر کے افضل ہونے کے دلیل نہیں ہے۔ بلکہ ہر زمان و مکان کی یھی سیاست ہے ۔ یہ یوم سقیفہ سے حاصل شدہ فضیلت ہے جبکہ خدا و رسول(ص) کا حکم ترک کردیا گیا اور قریش کی خواہشات کو لیا گیا۔یہ سب اس دن کے اختلاف کا نتیجہ ہے جب سید الوجود (ص)نے اپنے اصحاب سے قلم و دوات مانگا تھا تا کہ ان کے لیئے نوشتہ لکھ دیںتاکہ آپ کی رحلت کے بعد امت گمراہ نہ ہو۔
دوسراسوال :
کیا خلافت نص سے ثابت ہوتی ہے یا اجماع سے؟
جواب: اس میں کسی قسم کا شک و تردید نہیں ہے بلکہ ایک اصولی قاعدہ ہے کہ جب نص موجود ہو تو ہر دلیل باطل ہو جایا کرتی ہے۔
ھم یہاں استاد بزرگوا ر عبد اللہ یحیی علوی صاحب ۔ کے فقط انھی جوابات پر اکتفاء کرتے ہیں۔ اور چونکہ باقی دوسرے بہت سے سوال وجواب ہمارے موضوع سے باھر تھے لہٰذا ہم ان کا تذکرہ نہیں کرتے۔
وَالله ُ نَسْاٴَلُ اَنْ یُوفَقَ العَاملِینَ المُخْلِصِینَ لِمَرْضَاتِهِ انَّه وَ لِیُّ التَّوفیق
سید مرتضیٰ رضوی
۲۰ رجب المرجب ۱۴۲۱ ھجری
____________________