علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم0%

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ ضیاء جواھری
زمرہ جات: مشاہدے: 44073
ڈاؤنلوڈ: 5998

تبصرے:

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 33 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 44073 / ڈاؤنلوڈ: 5998
سائز سائز سائز
علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

علی (ع) صراط اللہ المستقیم

موءلف: شیخ ضیاء جواھری

عرض مؤلف

کسی انسان کیلئے یہ ممکن نہیں ہے۔ ( خواہ اسکا احاطہ علمی کتنا زیادہ ہی کیوں نہ ہو اور اسکی فکر کتنی ہی بلند کیوں نہ ہو ) کہ وہ حضرت امیر المؤمنین صلوات اللہ و سلامہ علیہ کی زندگی کے تمام ابعاد پر واضح اور روشن گفتگو کر سکے یا کوئی رائے قائم کرسکے کیونکہ یہاں تو گہرائی ہی گہرائی ہے ، ان کا تعلق مثل و معنویات سے ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے !؟ کسی کی عقل یہاں تک پہنچ ہی نہیں پائی کہ وہ ان کی اصالت کو درک کر سکے جہاں فقط گہرائی اور عمق ہے ۔ اس سمندر میں موجیں غرق ہو جایا کرتی ہیں اور وہاں تک عقل کی پرواز نہیں ہو تی۔

جب ہم نے تسلیم کر لیا کہ ہم انھیں درک کرنے سے قاصر ہیں ۔ لہٰذا ہمارے موضوع کے لئے دو باتیں ہی کافی ہیں۔ ہم انھی پر اکتفاء کرتے ہیں۔ان میں سے ایک حضرت رسول خدا (ص)کے عَلَم والی حدیث ہے جیسے تمام کتب احادیث نے بیان کیا ہے جس میں حضرت نے فرمایا:

لَا عْطِیَنَّ الرَّایَةَ غَداً لِرَجُلٍ یُحِبُّ الله َ وَ رَسُولَه ویُحِبُّهُ الله ُ وَ رَسُولُهُ کَرَّارٌ غَیْرُ فَرَّارٍ لَا یَرْجَعُ حَتّٰی یَفْتَحَ الله ُ عَلٰی یَدِیهِ ۔

کل میں علم ایک مرد کو دوں گاجو اللہ اور اسکے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اسکا رسول اس سے محبت کرتے ہیں وہ کرّار ہے فرار نہیں ہے۔اور وہ اس وقت تک وآپس نہ لوٹے گا جب تک اللہ اسکے ہاتھوں فتح نہ دیدے۔( ۱ )

گویا خیبر کے دن ہر صحابی کی خواہش تھی کہ وہی لفظ رجل ( مرد ) کا مصداق قرار پائے ۔ ابھی صبح صادق ہوئی ہی تھی کہ حضرت رسول خدا (ص)نے پکار کر فرمایا ۔ علی علیہ السلام کو میرے پاس لاؤ ۔ آپ سے کھاگیا یا رسول اللہ (ص)وہ آشوب چشم میں مبتلا ہیں۔ لیکن کسی کو بھیج کر بلوایا گیا جب وہ تشریف لائے تو آشوب چشم کی وجہ سے انھیں دیکھائی نہیں دے رھاتھا۔ اسوقت حضرت رسول خدا(ص)نے آپ کی آنکھوں پراپنا لعاب دھن لگایا اور رب العزّت سے شفا یابی کی دعا کی ۔ اس سے بڑھکر اور کیا علامت ہوسکتی ہے جو نھی دعائیہ یہ کلمات آسمان کی طرف روانہ ہوئے تو آپ کی تکریم اور عظمت کی خاطر اسے صحّت و عافیت نصیب ہوئی ۔ یہ اس پر اللہ کی نعمتوں کے نزول کا مقدمہ ہے کہ متقابلاً ایک دوسرے کی نصرت کی جارھی ہے ۔ یعنی اس مرد کی خاطر اب حروف پر نقطے لگائے جا رھے ہیں جیسے اللہ سے محبت ہے اور وہ اللہ کا مرید ہے۔

دوسرے سورہ مائدہ میں خداوند متعال کی یہ تین آیات ہیں۔

( یَا اَیُّهَا الّذِینَ آمَنُوا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیِنِهِ فَسَوْفَ یَاٴتِی اللهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ و یُحِبُّونَه اَذِلَّةٍ عَلَی الْمُؤمِنینَ اَعِزَّةٍ عَلَیِ الکَافِرِینَ یُجَاهِدونَ فِی سَبِیل اللهِ وَلاَ یَخَافُونَ لَوْمَةَ لاَئِمٍ ذَلِکَ فَضْلُ اللهِ یُؤتِیْهِ مَن یَّشَاء ُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذِینَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیمُونَ الصَّلوٰةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکاةَ وَهُمْ رَاکِعُونَ وَمَنْ یَّتَوَلَّ اللهَ وَ رَسُولَه وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا فَاِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْغَالِبُونَ ) ( ۲ )

اے ایمان والو! تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پلٹ جائے گا تو عنقریب خدا ایک قوم کو لے آئے گا جو اسکی محبوب ہوگی اوروہ اس سے محبت کرنے والی ہوگی۔ مؤمنین کے سامنے خاکسار اور کفار کے سامنے صاحب عزت ہوگی اور راہ خدا میں جہاد کرنے والی اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کرنے والی ہوگی۔ یہ خدا کا فضل ہے وہ جسے چاھتا ہے عطا کرتا ہے اور وہ صاحب وسعت اور علیم ہے ۔ پس تمہارا ولی صرف اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ہیںاور حالت رکوع میں زکوة دیتے ہیں ۔ اور جو بھی اللہ ، رسول اور صاحبان ایمان کو اپنا ولی بنائے گا۔ تو اللہ ہی کی جماعت غالب آنے والی ہے۔

جیسا کہ صاحب مجمع البیان نے بھی ذکر کیا ہے کہ مندرجہ بالا آیات کریمہ حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب (ع) کی شان میں اسوقت نازل ہوئیں جب آپ نے ناکثین ، قاسطین اور مارقین سے جنگ کی ۔ سب محدثین ، نے اس حدیث کوجناب عمار ، حدیفة ، ابن عباس سے بیان کیا ہے۔نیز یہ حدیث حضرت امام زین العابدین اور حضرت امام محمد باقر علیھما السلام سے بھی مروی ہے ۔ اوریہاں اس بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت رسول خدا(ص) نے آیت میں مذکور صفات کے ساتھ اسوقت حضرت علی علیہ السلام کو متصف فرمایا تھا جب آپ نے لوگوں کی کئی مرتبہ بزدلی دیکھنے کے بعد فتح خیبر کا علم حضرت علی علیہ السلام کے حوالے فرمایا تھا ۔( ۳ )

حقیقتاً مذکورہ آیات میں بیان ہونے والی صفات فقط حضرت امیر المؤمنین پرصادق ہوتی ہیں۔ وہ علی علیہ السلام جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے مساکین اور اہل دین کی محبت سے نوازا تھا۔

جب معاویہ نے ضرار بن ضمرہ کو حضرت علی علیہ السلام کے اوصاف بیان کرنے کو کھاتھا تو ضرار اوصاف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں وہ ہمارے درمیان اس طرح زندگی کرتے تھے گویا وہ ہم میں سے ایک ہوں ۔ جب ہم ان کے پاس جاتے وہ عطا کرتے ، جب سوال کرتے وہ جواب دیتے ۔ وہ ہم جیسے پست لوگوں کو شفت سے اپنے پاس بیٹھاتے ہیں۔ ہم ان کی ھیبت کی وجہ سے بات تک نہیں کرسکتے ۔ اور انکی عظمت کی وجہ سے آنکھیں اوپر نہ اٹھا سکتے۔ وہ اہل دین کی تعظیم فرماتے اور مساکین سے محبت کرتے تھے۔

جہاں تک آپ کے کافروں اور مشرکوں پرسخت ہونے ، اللہ کی راہ میں جہاد کر نے اور ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کرنے کا تعلق ہے تو یہ فقط حضرت علی علیہ السلام کی خصوصیت ہے کہ آپ ہی میں یہ سب (نہ جدا ہونے والی) نشانیاں پائی جاتی تھیں ۔ آپ سختی میں بھی معروف تھے اور نرمی میں بھی ۔ خدا کی خاطر سخت بھی تھے اور نرم بھی ۔یہاں تک کہ آپ کے قریبی اور دور والے سب لوگوں نے اللہ اور رسول کی خاطر آپ کی ان صفات کو ملاحظہ کیا اور انھیں پتہ چل گیاکہ یقینا اس میں کوئی بڑا راز پوشیدہ ہے۔

یہاں تک کہ بعض اوقات حضرت رسول خدا (ص)اسلام اور مسلمانوں کی خاطر قریش کو جھڑک دیا کرتے جیسا کہ سھیل بن عمر ایک گروہ کے ساتھ حضرت رسول خدا کے پاس آکر کھنے لگا۔ اے محمد (ص)ھمارے غلام آپ کے ساتھ آملے ہیں ، انھیں وآپس پلٹا دیں۔

حضرت نے فرمایا تھا اے قریشی گروہ !۔ اب ایسا نہ ہوگا اللہ عنقریب تم میںایسے شخص کو بھیجے گا جو قرآن کی تاویل پر تمہارے ساتھ اس طرح جنگ کرے گا جیسے میں قرآن کی تنزیل پر تم سے جنگ کیا کرتا تھا۔ آپ کے کسی صحابی نے کھایارسول اللہ وہ کون ہے ؟ کیا ابوبکر ہیں؟ فرمایا نہیں ۔ مگر وہ جو حجرے میں جوتا گانٹھ رہاھے ۔ اس وقت حضرت علی علیہ السلام ، حضرت رسول خدا (ص)کا جوتا گانٹھ رھے تھے۔( ۴ ) یہ اللہ کا فضل ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاھتا ہے ، عطا کرتا ہے۔

جہاں تک دوسری آیت( اِنَّماَ وَلِیُّکُمُ اللهُ وَ رسُولُه وَ الَّذِین آمَنُوا الّذِینَ یُقیمُونَ الصَّلوٰة ویُؤتُون الزَّکَاةَ وَهُمْ راکعونَ )

( پس تمھارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوة دیتے ہیں ۔) کا تعلق ہے اس پر دونوں فرقوں کا اجماع ہے کہ جب حضرت علی علیہ السلام نے نماز میں صدقہ کے طور پر انگوٹھی دی تھی تو اس وقت آپ(ع) کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حروف حصر میں سے قوی ترین حرف ( اِنَّمَا) کے ساتھ ولایت کی حصر فرمائی ہے ، یعنی ولایت فقط خدا ، رسول اور امیرالمؤمنین کے لئے ہے۔اللہ تبارک و تعالی نے تیسری آیت میں اس طرح ارشاد فرمایا:

( وَمَنْ یَّتَوَلَّ اللهَ وَ رَسُولَه وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا فَاِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْغَالِبُونَ ) ( ۵ )

جو اللہ ، رسول اور صاحبان ایمان کو اپنا ولی بنائے تو بے شک اللہ کا گروہ ہی غالب آنے والاہے۔

توالی کے معنی ولی بنانا ہے تو اب اس آیت کا یہ معنی ہوگا جو اللہ تعالی ، اسکے رسول اور امیر المؤمنین کو اپنی زندگی اور مرنے کے بعداپنا ولی قرار دیتا ہے ۔ اور ان کے ذریعے دین حاصل کرتا ہے اور ان سے محبت اور مودت کرتا ہے اور ان کی اطاعت کرتا ہے تو وہی غالب ، فلاح یافتہ اور کامیاب ہے ۔ یعنی جزاء کے طور پر یہ صفات ،غلبہ ، کامیابی اور فلاح ) اسے نصیب ہوتی ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے بندوں سے کیئے گئے وعدہ کا نتیجہ ہے ۔اور ایسا کرنے والے کو دنیا و آخرت کی سعادت نصیب ہوتی ہے۔

قارئین کرام ! ایک بات باقی بچ گئی ہے جو نھی اس کاوقت آیا تو ہم اسے واضح کرتے رھے ہیں اور اسکی صراحتیُّحِبُّهُمْ و یُحِبُّونَه کے ذریعے ہوجاتی ہے ۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کی ان کے ساتھ محبت کا لازمہ یہ ہے کہ یہ لوگ ھرظلم سے بری ہیں اور ہر رجس و پلیدی سے پاک و طاہر ہیں ۔ کیونکہ ظلم اور پلیدی ان امور سے ہیں جو محبوب خدا واقع نہیں ہو سکتے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فروں ، ظالموں، مفسدوں ،حد سے بڑھے ہوؤں ، تکبر کرنے والوں اور اسراف کرنے والوں سے کبھی محبت نہیں کرتا۔

بالکل اسکے بر عکس اللہ تعالی احسان کرنے والوں ، صابروں ، متقیوں ، توبہ کرنے والوں، پاک رھنے والوں ، توکل کرنے والوں ، اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔ اہل قبلہ میں سے کسی کو شک و تردید نہیں ہے حتی کہ اہل قبلہ کے علاوہ دوسرے لوگوںکو بھی کسی قسم کا ریب و شک نہیں ہے کہ حضرت علی علیہ السلام ہی ان محبوب صفات کی حقیقی مثال ہیں بلکہ آپ مجسم صفات ہیں۔ اور یہ صفات آپ کی شخصےت اور جسم کا حصّہ ہیں ۔

کسی شاعر نے کیا خوب کھاھے:

جُمِعَت فِی صِفَاتِکَ الاٴضداد

ولذا عزّت لک الانداد

فَاتِک نَاسِک حَلِیم شُجَاع

حَاکِم زَاهِد فَقِیر جَواد

شَیم مَا جَمعن فِی بَشَر قط

وَلَا حَازَ مِثلهُنَّ العباد

خُلُقٌ یُخْجِلُ النَسیم مِن اللطف

وَباٴ س یَذُوب مِنه الجَماد

آپ میں وہ صفات جمع ہیں جو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ آپکی شان و شوکت کی کوئی نظیر و مثال نہیں ہے۔ آپ بیباک بھی ہیں عابد بھی ۔ حلیم بھی ہیں اور شجاع بھی ، حاکم بھی ہیں اور زاہد بھی اور فقرو سخاوت بھی آپ کا خاصہ ہے یہ بلند صفات آپ کے علاوہ کسی انسان میں جمع نہیں ہو سکتیں اور آپ جیسی صفات کسی انسان کو نصیب نہ ہوئیں ۔ آپ اتنے خلیق ہیں کہ نسیم صبح بھی آپ پر ہونے والے لطف سے شرمندگی محسوس کرتی ہے اور آپ میں اتنی شدت ہے کہ جس سے جمادات پانی ہو جاتے ہیں۔

اور جہاں تک (اللہ تعالی کیلئے) مبغوضہ صفات کا تعلق ہے تو نفسِ علی علیہ السلام میں ان کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ آپ کو ان صفات سے شدید نفرت تھی ۔ کیونکہ آپ کی پوری زندگی فقط تقرب خدا میں گزری ہے اور آپ نے ساری زندگی خالق بزرگوار کی خاطر گزار دی ہے۔ لہٰذا اس کا مولا(خدا) جس سے محبت کرتا ہے یہ(علی (ع)) بھی اسی سے محبت کرتے ہیں اور اسکا مولیٰ جس سے غضبناک ہوتا ہے اس سے یہ بھی غضبناک ہوتے ہیں۔

اے یا علی (ع) آپ تو ربّ العالمین کے حبیب ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کے لئے لطف ، جمال اور فضل کی صفات کا جامع اور عمدہ کلمہ(یُحِبُّهُمْ) استعمال کیا ہے ۔

کیا ہم محبوب خدا کو اپنا ولی نہ سمجھیں !؟

جب کہ ہمارے لئے کوئی شک و تردید نہیں ہے کہ اور ثابت ا ور واضح ہے کہ آپ ولی خدا اور حبیب خدا ہیں توکیا اب بھی ہمارے لئے جائز ہو سکتا ہے کہ ہم آپ کے علاوہ کسی او رکو اپنا ولی قرار دیں ۔ جبکہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرما رہاھے۔

( وَمَنْ یَّتَوَلَّ اللهَ وَ رَسُولَه وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا فَاِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْغَالِبُونَ )

جو اللہ ، رسول اور صاحبان ایمان کو اپنا ولی بنائے تو بے شک اللہ کا گروہ ہی غالب آنے والاہے۔

والسلام

مؤلف: شیخ ضیاء جواہری

____________________

[۱] البدایة و النھایة ابن کثیر دمشقی ج ۴ ، ص ۲۱۳ ، دلائل بیھقی جلد ۴ ص ۲۱۰ ، ۲۱۲ ، مستدرک حاکم ج ۳ ص۷ ۳ اور اس نے کھاھے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ھے اور ذھبی نے اسے بیان کیا اور اس کی موافقت کی ھے ۔نیز مسلم نے اسحاق بن ابراھیم سے اور انھوں نے ابی عامر سے اسکو ۳۲ کتاب الجہاد باب غزوة ذی قرد، ص ۱۴۳۹ پر ذکر کیا ھے۔

[۲] سورہ مائدہ آیت نمبر ۵۴، ۵۵ ، ۵۶۔

[۳] علامہ طباطبائی کی تفسیر المیزان جلد ۶ ص ۳۹۸ ۔ ۳۹۹(مندرجہ بالا آیات کی تفسیر

[۴] سید طباطبائی کی تفسیر المیزان جلد ۶ ص ۳۹۸ ، ص ۳۹۹ ۔ تفسیر سورہ مائدہ۔،

[۵] سورہ مائدہ آیت ۵۶۔

عرض مترجم

باد النظر مں سرت نوس اک اسان کام دکھائ دتا ہے کس شخصت کے حالات کو کجا کر دنا سرت نوس کو اس کے فرض منصب سے سبکدوش کرنے کے لئے کاف ہے لکن صاحبان نظر اور ارباب فھم جب اس سمندر ک گھرائوں مں اترتے ھں تو حران اور عجز کے علاوہ کچھ دکھائ نھں دتا سرت نوس سے پہلے اس مفھوم سے اشنا ہونا ضرور ہے، کہ سرت ‘تصور باطن، کفات قلب ،اور حقائق واقع کا نام ہے جب کوئ کس شخصت ک سرت کوسپرد قرطاس کرنا چاھتا ہے تو اسے اس ک باطن تصور لفظوں مں کھنچنا ہوت ہے ،اس ک قلب حالت پر مطلع ہو کر دوسروں تک پھنچانا ہوت ہے تاکہ حقائق واقع سب پر عاں ہو جائں بھرحال سرت نوس کے لئے انتہائ احتاط سے کام لنا پڑتا ہے جبکہ تصنف اس ک نسبت اک آسان کام ہے اس مں انسان اپنے تفکرات کو ظاہر کرتا چلا جاتا ہے جبکہ تالف ک بنا ددوسروں کے اقوال پر ہوت ہے اس کے لئے بڑ دقت ،تلاش اور جستجو ک ضرورت ہے

کئ کئ کتب کے مطالعہ کے بعد تھوڑا سا مواد مسر ہوتا ہے مختلف دراؤں مں غوطہ زن کے بعدتب کبھ گوھر مرادملا کرتا ہے جذبات و احساسات اور ذات پسند و نا پسند سے بالاتر ہوکر عراق کے مفکر حجة السلام ضاء جواھر نے جس خوبصورت سے حضرت عل علہ السلام ک ھمہ گر شخصت پر روشن ڈال ہے وہ پڑھنے اور سمجھنے سے تعلق رکھت ہے وں تو مولا ئے متقان امر المومنن علہ السلام پر بے انتھاسوانح حات لکھ جا چک ھں لکن اپک ولادت سے شہادت تک کے حالات کو حققت پسندانہ طرقے سے اک علم امانت کے طور پر دوسروں تک پھنچانے ک ہ اک نئ کوشش اور گراں بھا کاوش ہے ہ قمت ذخرہ عرب زبان مں تھا اردو دان طبقہ اس سے بھرہ مند نھں ہو سکتا تھالہذامؤسسہ امام عل (ع) نے اس کو اردو مں منتقل کرکے اک بہت بڑے طبقے کے لئے اک اچھ اور مفد پش کش کا بندوبست کا ہے ھمار اس کتاب مں پور کوشش رھ ہے کہ مفاہیم کو صحح انداز مں منعکس کرں تاکہ قارئن محترم زادہ سے زادہ استفادہ کر سکں،اس سلسلے مں ہم قارئن کے مفد مشوروں کا خر مقدم کرں گے مں اپن اس ناچز س کاوش کا ثواب اپن والدہ محترمہ کو عنات کرتا ہوں جو جولائ کو تحصل عل پور ضلع مظفر گڑھ مں کار حادثے ک وجہ سے خالق حقق سے جا ملں ھں اور بارگاہ ازد سے طالب دعا ہوں کہ خدا انھں جوار حضرت فاطمة الزھرا ء سلام اللہ علھا عنات فرمائے

امن ثم امن

سد محمد نقوی النجف

ذوالحجہ

مقدمہ

حضرت رسول خدا (ص)نے فرمایا :

اٴنا وَ عَلِيٌّ مِنْ نُوْرٍ وَاحِدٍ ( ۱ )

میں اور علی علیہ السلام ایک نور سے ہیں۔

اسی طرح حضرت رسول خدا (ص)نے مزید فرمایا:

خُلِقتُ اٴنا وَ عَلِيٌّ مِنْ نُوْرٍ وَاحِد ( ۲ )

مجھے اور علی علیہ السلام کو ایک نور سے خلق کیا گیا۔

شبلنجی کہتے ہیں کہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام تشریف لائے تو حضرت رسول خدا(ص)نے فرمایا:

مَرْحَباً بِاٴَخِيْ وَابْنِ عَمِيّ واَلَّذِيْ خُلِقْتُ اٴنَا وَ هُو مِنْ نُوْرٍ وَاحِدٍ ۔( ۳ )

مرحبا ۔ میرے بھائی اور چچا زاد کیلئے کہ وہ اور میں ایک نور سے خلق کئے گئے۔

میں نے اپنے مولا و سردار ، مولود کعبہ حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ایام ولادت یعنی رجب ۲۱ ۱۴ ھجری میں اپنی سردار حضرت فاطمہ(ع) بنت حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام (جو کہ فاطمہ معصومہ (ع)کے نام سے مشھور ہیں) کی زیارت کے لئے قم آنے کا پروگرام بنایا۔

یہاں پھنچنے کے بعد اسی شھر میں مؤسسہ امام علی علیہ السلام جانے کا قصد کیا تا کہ وہاں حضرت آیت اللہ شیخ محمد حسن قدس سرہ کے عزیز اپنے فاضل بھائی حجة الاسلام و المسلمین شیخ ضیاء جواہری سے ملوں اور انھیں اپنی کتاب سبیل الوحدة کی آخری طباعت کا نسخہ دوں اور وہ اس کادنیا کی مشھور مختلف زبانوں میں ترجمہ کروائیں ۔ چنانچہ انھوں نے میری خواہش کو قبول فرمایا۔

اس وقت موصوف نے خواہش ظاہر کی کہ میں ان کی عمدہ اور جامع کتابعَلِیٌ صِرَاطُ اللهِ الْمُسْتَقِیمَ پر مقدمہ لکھوں۔ اس سے قبل بھی وہ سید تنا و مولاتنا حضرت فاطمة الزھراء کی سیرت پرحوراء الانسیہ کے عنوان سے کتاب لکھ چکے ہیں۔ میں نے بھتر جانا کہ ےمن میں افریقی اور ایشائی تنظےم کے نمائندے استاد بزرگوار جناب یحییٰ علوی کے سامنے پےش کئے گئے چند سوالات کے جوابات کو مقدمی میں شامل کروں اور ان کی خدمت میں یہ سوالات میں نے کچھ عرصہ پہلے قاہرہ میں عرض کئے تھے۔ لہٰذا مناسب ہے کہ میں حضرت علی علیہ السلام کے متعلق کئے گئے سوال وجواب کو مِن وعَن قارئین کرام کی خدمت میں پیش کروں۔

والسلام

بسم الله الرحمن الرحیم

برادر محترم استاد فاضل جناب سید مرتضی رضوی صاحب(تولاّه الله وایّاي )

آپ پر اور آپ سے محبت کرنے والوں پر اللہ کا سلام۔ اور ان پر جنھیں اطمینان ہے کہ آپ شیعہ اور سنی کو اخوت ، محبت ، صفاء اور مؤدت کے ساتھ دعوت دیتے ہیں اور دلوں سے تفرقہ اور شقاوت و بدبختی کی جڑیں اکھاڑ پھینکتے ہیں ۔

اما بعد : میں آپ کے سامنے اس اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ میں آپ کی خدمت میں آپ کے بھےجے گئے اھم سوالات کے جواب پیش کئے دیتا ہوں جب آپ استاد بزرگوار ( ہم دونوں کے دوست،جو کہ سن کے لحاظ سے تو بوڑھے ہو چکے ہیں لیکن ان میں بہار ہی بہار ہے) ، رئیس الشیوخ استاد احمد ربیع مصری سے ملنے آئیں تو جوابات لے لےجئے گا۔ بھر حال میں نے صراحت کے ساتھ ان کا جواب تحریر کر دیا ہے۔

خداوندعالم ہر لغزش کو معاف فرمائے اور اسی پر بھروسہ ہے۔

والسلام

آپ کا برادر دینی

عبداللہ یحیی علوی

سوال و جواب:

پہلا سوال: کیا حضرت رسول خدا (ص)نے اپنے بعدھونے والے خلیفہ کیلئے وضاحت بیان فرمائی تھی؟

جواب : جی ہاں حضرت رسول خدا (ص)نے صریح اور صحیح احادیث کے ساتھ نص فرمائی ، یہ بالکل واضح احادیث ہیں ۔ انھیں تعصب اور آل(ع) کے بغض سے دور ہو کر سمجھا جاسکتا ہے ۔ اور عقل سلیم بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔ ان احادیث میں سے چند ایک یہ ہیں:

اٴنت مِنّی بمنزلة هارون من موسیٰ اِلّا اَنّه لا نبیَّ بعدی

(اے علی) آپ اور مجھ میں وہی نسبت و منزلت ہے جو ہارون اور موسیٰ کے درمیان تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔( ۴ )

اٴنْت ولیُّ کِلّ مؤمنٍ بعدی ۔

آپ میرے بعد ہر مؤمن کے ولی ہیں۔( ۵ )

علیٌ مَعَ القرآنِ و القُرانُ مَع عَلیٍّ وَ لن یَفتَرِقا حتی یردا علیَّ الحوض ۔

علی قرآن کے ساتھ اور قرآن علی(ع) کے ساتھ ہے ۔(چنانچہ) یہ حوض کوثر پر میرے پاس آنے تک جدا نہ ہونگے ۔( ۶ )

مَن کنتُ مَولاَه فعلیٌّ مولاه ۔

جس کا میں مولیٰ ہوں علی ( بھی) اس کے مولا ہیں۔( ۷ )

صرف اور صرف یھی احادیث بھترین دلیل بن سکتی ہیں کہ آنحضرت(ص)نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا خلیفہ بنایا ، اگر کوئی ان احادیث کے الفاظ اور معنی پر غور کرے، کیونکہ حضرت رسول خدا (ص)جنگ تبوک پر جاتے وقت اپنی قوم میں حضرت علی علیہ السلام کو اس طرح خلیفہ بنا کر گئے جیسے جناب موسیٰ (ع)نے جناب ہارون کو اپنی قوم میں خلیفہ بنا یا تھا، حضرت رسول خدا (ص)نے موسیٰ کی ہارون کے ساتھ حضرت علی (ع) کی تشبیہ دینے سے پورا پورا استدلال کیا ہے کہ میرے انتقال کے بعد یھی میرا بلند پایہ ساتھی ہی تمھارا خلیفہ ہوگا۔

فقط واقعہ غدیر کو مدنظر رکھیں ( جو کہ معروف اور متواتر ہے) تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ حضرت رسول خدا (ص)نے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کو ثابت کیا تا کہ فقط حضرت علی علیہ السلام ہی ان کے خلیفہ قرار پائیں۔ جب اصحاب کی رائے سے ھرج و مرج لازم آرہا تھا تو رسول خدا (ص)کی خواہش تھی کہ مرض الموت میں ایک ایسانوشتہ لکھ جائیں تا کہ وہ انکی گمراہی اور تفرقہ سے محفوظ رکھے۔

اے کاش حضرت عمر ابن خطاب اس نوشتے کے درمیان حائل نہ ہوتے۔

حضرت رسول خدا (ص)کا یہ فرمانمَن کُنْتُ مَولاَه فَعَلِیٌّ مَولاَه (جس کا میں مولا ہوں علی (ع) بھی اس کے مولا ہیں)واضح طور پر بیان کر رہاھے کہ حضرت علی علیہ السلام شروع ہی سے ہر مؤمن ومؤمنہ کے ولی ہیں۔

جہاں تک حضرت علی کرم اللہ وجھہ کے حقدارخلافت ہونے کی عقلی دلیل کا تعلق ہے تو وہ یہ ہے کہ حضرت رسول خدا (ص)کی وفات کے بعد خلافت اور مسلمانوں کے امور کی ولایت فقط اسی ہستی کے حصّے میں آسکتی ہے جو فضائل و شمائل میں بے نظےر اور زمانے کا بہادر ترین شخص ہو ،جو تمام ساتھیوں میں بلند ترےن ہو ، اورھم کفولوگوں کا مرّبی ہو۔نظریات اور رائے میں ممتاز ہو ، اشکالات سے دور ہو ، مشکلات کے حل کیلئے منفرد ہستی ہو ۔ اسکے مثل کسی کی نظر نہ ہو ، اس کا کوئی نظیر نہ ہو ۔ اس کا کوئی ہم پلّہ نہ ہو ، اپنے دین ، علم اور تقویٰ میں کا مل ہوتاکہ اس کے ذرےعے کلمہ لا الہ الااللہ کو سر بلندی نصیب ہو۔اور وہ سید الانام (ص)کا مدد گارہو ۔ پوری مخلوق میں سب سے پہلے اسلام لانے والا ہو ، کسی معارض کے بغیر تمام لوگوں میں اسکی فضلیت ، شجاعت اور تقویٰ زیادہ ہو (یعنی کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ فلاں شخص میں کوئی صفت ان سے زیادہ ہے)چنانچہ یہ سب کی سب صفات حضرت امام علی علیہ السلام میں جمع ہیں آپ مسلمان پیدا ہوئے ۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم سے اسلام کو تقوےت بخشی۔ آپ مکتب رسول(ص)کے پروردہ تھے ۔ اور سید الوجود(ص) اور متقیوں کے سردار (ص)کی گود میں پرورش پاکر جوان ہوئے۔

خدا کی راہ میں آپ کا جہاد ہر جہاد سے بلند، آپ کا تقوی ہر تقویٰ سے بڑھکر،آپ کی بہادری ہر بہادری سے بلند اور آپ کا زھد و ایمان ہر زھد و ایمان سے بڑھکر تھا۔ آپ اس نبی(ص)کی طرف مائل تھے ، آپ کو رب و خالق نے کامیاب قرار دیا تھا۔آپ اپنے اقوال و فرامین میں ممتاز تھے۔ فضیلت اپنے مصدر سے پہچانی جاتی ہے ۔ آپ سے عرفان پھوٹتا تھا۔ ایمان کو تعیین نصیب ہوئی ۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ سید المرسلین کے پروردہ تھے اور وہی آپ کی تربیت کرنے والے اور مربّی تھے ۔ حضرت رسولخدا (ص)آپ کواپنے حجرے میں رکھنے کی خواہش کرتے رھتے ،اپنے سینے پر لٹاتے ۔ اپنے بستر پر سلاتے ۔ آپ کے جسم کو چھوتے رھتے ۔ آپ کی معرفت کو محسوس کرتے ۔ اور آپ میں نور وحی کو ملاحظہ فرماتے تھے۔

جب تاریخ کی خوشبو عقل سلیم کو معطر کرتے ہوئے گزرتی ہے تو چند بڑے اصحاب کا تذکرہ بھی ہوتا ہے اوروہ(تاریخ) ان کے اعمال و افعال کا فوراً قصّہ بیان کرتی ہے۔ جب ہم اصحاب اور حضرت علی کرم اللہ وجھہ کے اعمال و افعال کا تقابلی جائزہ لیتے ہیں ۔اور ان کی سعی ، جہاد، مقاصد اور رسول خدا (ص)کے نزدیک مقام و منزلت کو ملاحظہ کرتے ہیں ۔ تو عقل کسی شک و تردید کے بغیر فیصلہ سناتی ہے کہ وہی خلافت کے لائق اور حقدار تھے۔

کیا عقل یہ نہیں کہتی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجھہ خلافت کے زیادہ حقدار تھے؟ !! اور رسول خدا (ص)نے انھیں ولایت عطا فرمائی ۔ وہ تو مسلمان ہی پیدا ہوئے ۔ کبھی بتوں کو سجدہ نہ کیا۔ اللہ کی گواھی میں خالص تھے، رسول خدا(ص) کی دعوت اسلام سے پہلے ہی مسلمان تھے۔

کیا عقل کا یہ فیصلہ نہیں ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجھہ خلافت کے زیادہ حقدار تھے !؟ کیونکہ وہ مولود کعبہ ہونے کی ساتھ حضرت رسول خدا (ص)کے ساتھ سب سے پہلے پڑھی جانے والی نماز میں بھی شریک تھے۔

کیا عقل ہی کا یہ فرمان نہیں کہ حضرت علی علیہ السلام خلافت کے زیادہ حقدار تھے؟! جبکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اور ان کے اہل بیت (ع)کو آیت تطھیر میں رجس اور پلیدی سے پاک و طاہر قرار دیا تھا ۔ اور یہ اللہ کا ارادہ ہے وہ جسے چاھتا ہے عطا کرتا ہے۔

کیا عقل نہیں کہتی کہ حضرت علی علیہ السلام اسلئے بھی خلافت کے زیادہ حقدار تھے وہ رسول اللہ(ص) کے ساتھ ہونے والی تمام جنگوں میں شریک تھے سوائے غزوہ تبوک کے ۔ اسمیں آپ حضرت علی (ع) کواپنا خلیفہ بنا کر مدینہ میں چھوڑ گئے تھے ۔ وہ بہت تیز حملہ کرنے والے جوان تھے۔ شیر سے زیادہ بہادر تھے۔ ان کے علاوہ کوئی ان خصوصیات کا حامل نہ تھا ،ھر جنگ میں فقط انھی پر دارو مدار ہوتا تھا۔ فقط یھی لوگوں کی شادابی اور خوشحالی کا موجب بنتے تھے۔ ان کی ثابت قدمی اور صبر کو دیکھ کر آسمانی فرشتے تعجب میں پڑجاتے تھے۔ حضرت جبرئیل نے زمین و آسمان کے درمیان صدا بلند کی ۔

لَا فَتٰی اِلَّا عَلِیٌّ وَ لَا سَیْفَ اِلَّا ذُوالْفِقَار

(حضرت )علی علیہ السلام سے بڑھکرکوئی جوان نہیں اور ذوالفقار سے بڑھکر کوئی تلوار نہیں۔

کیا عقل حضرت علی علیہ السلام کو خلافت کا زیادہ حقدار نہیں سمجھتی کیونکہ حضرت رسول خدا(ص)نے حضرت علی علیہ السلام کے متعلق جنگ خندق میں عمر ابن عبدود العامری سے جنگ کے وقت ارشاد فرمایا تھا:

بَرَزَ الْاِیْمَانُ کُلّه إلیٰ الشِّرکِ کُلِّه

کل ایمان ،کل شرک کے مقابلے میں جارہاہے۔

کیا عقل حضرت علی علیہ السلام کے زیادہ حقدار خلافت ہونے کو نہیں کہتی!؟ کیونکہ اللہ نے تمام مسلمانوں پر ان کی اور اہل بیت(ع)کی مودّت کو واجب قرار دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے کارِ رسالت اور رسول خدا (ص)کی زحمتوں کا اجر قرار دیا ہے۔

کیا عقل حضرت علی علیہ السلام کے خلافت پر زیادہ حقدار ہونے کا حکم نہیں لگاتی جبکہ حضرت رسول خدا (ص)نے ان کے متعلق فرمایا :

اٴنَا مَدِیْنَةُ الْعِلْمِ وَ عَلِیٌ بَابُهَا

میں علم کا شھر ہوں اور علی ( علیہ السلام )اسکا دروازہ ہیں۔

کیا عقل حضرت علی علیہ السلام کے خلیفہ رسول (ص)ہونے کو زیادہ حقدار نہیں سمجھتی ؟! کیونکہ وہ دنیا و آخرت میں رسول خدا (ص)کے بھائی ان کے پشت پناہ ، وزیر، خزانہ علم ،وارث حکمت ، سابق الامت ، صاحب نجویٰ ، پوشیدہ اور علانیہ مال خرچ کرنے والے ، وارث کتاب اور(احکام رسول (ص))کو مکمل طریقہ سے سننے والے تھے۔

کیا عقل حضرت علی علیہ السلام کے خلیفہ نبی(ص) ہونے کے زیادہ حقدار ہونے کو نہیں کہتی !؟ کیونکہ وہ امیر المؤمنین ، یعسوب الدین، شوہر جناب بتول ،فاجروں کے قاتل،صاحب الرایہ (علمبردار) اور سیّد العرب تھے۔

کیا عقل حضرت علی علیہ السلام کے زیادہ حقدا رخلافت ہونے کو نہیں کہتی جنکے متعلق حضرت عمر ابن خطاب کہتے ہیں:

لَو لَا عَلِیٌّ لَهَلَکَ عُمَرَ

اگر علی( علیہ السلام )نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا۔

کیا عقل کا یہ تقاضا نہیں کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کو خلافتِ رسول (ص)کا زیادہ حقدار سمجھے کیونکہ جناب شیخین( حضرت ابو بکر اور حضرت عمر )نے غدیر خم میں ان کی ولایت کا اقرار کیا ۔ اور دونوں کی زبان پر یہ ورد تھا:

بَخٍ بَخٍ لَکَ یَا بنَ ابِی طَالِبٍ اَصبَحْت واٴَمْسَیت مُولَایَ وَمَوْلَی کُلِّ مُؤمِنٍ وَ مُوْمِنَةٍ

اے ابن ابی طالب مبارک ہو مبارک ہو ۔ صبح و شام آپ ہمارے اور ہر مؤمن و مومنہ کے مولا ہیں۔

کیا عقل حضرت علی علیہ السلام کے خلیفہ نبی(ص) ہونے کا اعتراف نہیں کرتی جبکہ آپ وہ ہستی ہیں جن کے متعلق حضرت رسول خدا (ص)نے ایک طویل حدیث میں ارشاد فرمایا:

اَلَّلهُمَّ اَدْرِ الْحَقَّ مَعَه حَیْثُ دَارَ

خدایا حق کو اسکے ساتھ اُدھر پھیر دے جدھریہ پھرے۔

جی ہاں حضرت علی کرم اللہ وجھہ ہی رسول خدا (ص)کے بعد خلافت کے حقدار ہیں ۔ اور بے شک آپ ہی تمام صفات و خوبیوں کے جامع ہیں۔

وَلَمْ تک تَصْلَحُ الاَّ لَهُ وَلَمْ يک يَصْلَح اِلَّا لَهَا

مقام خلافت فقط انھیں زیب دیتا ہے اور ےھی مقام خلافت کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

امامِ برحق کے ہوتے ہوئے حضرت رسول خدا (ص)کے بعد حضرت ابوبکر خلیفہ بن بیٹھے۔ یہ حضرت علی علیہ السلام پر حضرت ابو بکر کے افضل ہونے کے دلیل نہیں ہے۔ بلکہ ہر زمان و مکان کی یھی سیاست ہے ۔ یہ یوم سقیفہ سے حاصل شدہ فضیلت ہے جبکہ خدا و رسول(ص) کا حکم ترک کردیا گیا اور قریش کی خواہشات کو لیا گیا۔یہ سب اس دن کے اختلاف کا نتیجہ ہے جب سید الوجود (ص)نے اپنے اصحاب سے قلم و دوات مانگا تھا تا کہ ان کے لیئے نوشتہ لکھ دیںتاکہ آپ کی رحلت کے بعد امت گمراہ نہ ہو۔

دوسراسوال :

کیا خلافت نص سے ثابت ہوتی ہے یا اجماع سے؟

جواب: اس میں کسی قسم کا شک و تردید نہیں ہے بلکہ ایک اصولی قاعدہ ہے کہ جب نص موجود ہو تو ہر دلیل باطل ہو جایا کرتی ہے۔

ھم یہاں استاد بزرگوا ر عبد اللہ یحیی علوی صاحب ۔ کے فقط انھی جوابات پر اکتفاء کرتے ہیں۔ اور چونکہ باقی دوسرے بہت سے سوال وجواب ہمارے موضوع سے باھر تھے لہٰذا ہم ان کا تذکرہ نہیں کرتے۔

وَالله ُ نَسْاٴَلُ اَنْ یُوفَقَ العَاملِینَ المُخْلِصِینَ لِمَرْضَاتِهِ انَّه وَ لِیُّ التَّوفیق

سید مرتضیٰ رضوی

۲۰ رجب المرجب ۱۴۲۱ ھجری

____________________

[۱] مناقب سیدنا علی ص ۲۷ مطبوعہ حیدر آباد ، ھند وستان۔

[۲] وھی مصدر ص ۳۴۔

[۳] ینابیع المودة ص ۱۱،قندوزی حنفی، طبع استانبول۔

[۴] فضائل صحابہ امام احمد بن حنبل ص ۱۳،صحیح مسلم ج۷ص۱۲۰۔

[۵] المعجم الکبیر، طبرانی ج ۱۲ ، ص ۷۸ ، سنن الکبریٰ، نسائی ج ۵ ص ۱۳۲ ، کنز العمال، متقی ھندی ج۱۱ ص ۵۹۹۔

[۶] تاریخ ابن عساکر ، ج ۳ ص ۱۲۴ ۔

[۷] فضائل الصحابة ، احمد ابن حنبل ص ۱۴ ، مسند احمد ، احمد ابن حنبل ج ۱ ص ۸۴ ، سنن ابن ماجہ ، محمد بن یزید قزوینی ج ۱ ص ۵۴،سنن ترمذی ج ۵ ص ۲۹۷۔