علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم0%

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ ضیاء جواھری
زمرہ جات: مشاہدے: 44077
ڈاؤنلوڈ: 5998

تبصرے:

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 33 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 44077 / ڈاؤنلوڈ: 5998
سائز سائز سائز
علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

نویں فصل

حضرت علی (ع) کاسیاسی دور، خلفاء سے تعلق، دین کی خدمت

اور اتحاد بین المسلمین

حضرت علی علیہ السلام کا سیاسی دور

اھلبیت علیھم السلام نے اسلام کی شناخت اور اس کی بقاء اور حفاظت کے سلسلے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اور اسی سے ان کی پہچان ہوتی ہے انھوں نے مسلمانوں کو اسلام کی عزت و عظمت کی طرف دعوت دی اور انھیں اتحاد کا درس دیا،ان کے درمیان اخوت اور برادری کا سلسلہ قائم کیا ان لوگوں کو الفت محبت کا راستہ بتایا اور انھیں بغض وحسد سے دور رھنے کی ھدایت کی۔

حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا گزشتہ خلفاء کے ساتھ رویہّ فراموش نہیں کرنا چاہئے جبکہ انھوں نے حضرت کے ساتھ زیادتی کی آپ کے حق کو غصب کیا آپ کی منصوص خلافت کو انھوں نے چھپایا اور انھوں نے حسد کی وجہ سے اس نص کو ظاہر نہ ہونے دیا۔

لیکن جب خلافت آپ تک پھنچی تو اس وقت جتنے صحابی بچ گئے تھے انھوں نے مشھور و معروف رحبہ والے دن غدیر کی نص پر گواھی دی آپ نے جو کچھ مسلمانوں اور اسلام پر گزشتہ خلافتوں کے دوران ہوا، مصلحت کی وجہ سے اس کی طرف اشارہ تک نہ کیا اور اس عھد کے متعلق اس طرح فرمایا:

فخشیت اِن لم اٴنصر اِلاسلام واٴهله اٴن اٴریٰ فیه ثلما اٴوهدما

مجھے ڈر ہے کہ اگر اسلام اورمسلمانوں کی مدد نہ کی گئی تو میں دیکھ رھاھوں کہ اسلام کو تھوڑا تھوڑا کرکے کاٹ دیا جائے گا یا اسلام کی عمارت کو آھستہ آھستہ گرا دی جائے گی۔( ۱ )

ان تمام حالات میں حضرت علی علیہ السلام نے جو مثال پیش کی ہے اس کی نظیر نہیں ملتی جب کہ ان لوگوں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھائی اور چچا زاد کے ساتھ جو سلوک کیا وہ کسی پر پوشیدہ نہیں ہے۔ آپ نے ذاتی اورشخصی مفاد سے بلندھوکر اسلامی مصالح کے تحت اہل اسلام کی خدمت کی اور اس وجہ سے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جو خلفاء کی بادشاھت کی شان وشوکت پر اثر انداز ہو یا ان کی سلطنت کے ضعف کا سبب بنے یا ان کی ھیبت کے کم ہونے کا سبب ہو ۔

آپ اپنے دل پر پتھر رکھ کر گھر میں خاموشی سے بیٹھ گئے ۔ لوگ آپ کے پاس حاضر ہوتے اور آپ کو ہر چیز کا عارف جانتے ،حضرت عمر ابن خطاب کئی مرتبہ یہ کھنے پر مجبور ہوگیا :

لاکنتُ لمعضلة لیس لها اٴبوالحسن

میرے لئے کوئی ایسی مشکل نہیں جس کو حل کرنے کے لئے ابوالحسن موجود نہ ہوں۔

اسی طرح خلیفہ ثانی نے متعدد بار کھا:لولا علي لهلَکَ عُمر ۔

اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا ۔( ۲ )

ابو سفیان کی منافقت

جب سقیفہ بنی ساعدہ میں حضرت ابوبکر کی بیعت کی جارھی تھی۔ اس وقت ابوسفیان صنحر بن حرب کھتا ہے۔ ”میں نے وہاں ایسا غبار دیکھا جو خون بہانے کے بغیر نہیں چھٹ سکتا تھا “اس نے مدینہ کی تنگ گلیوں میں چکر لگاتے ہوئے در جہ ذیل چند اشعار کھے :

بني هاشم لا تُطمعو االناس فیکم

ولا سیما تیم ابن مره او عدي

فما الاٴمر اِلاّفیکم واِلیکم

ولیس لها اِلا اَبوحسن علي

اے بنی ہاشم ! لوگ تم میں رغبت نہیں رکھتے اور خصوصا تیم بن مرہ اور عدی قبیلہ میں بھی وہ رغبت نہیں رکھتے جبکہ امر خلافت کے فقط آپ ہی سزا وار ہیں اور یہ آپ کو ہی ملنا چاہئے اور ابولحسن علی (ع)کے علاوہ کوئی اس کا حق دار نہیں ہے ۔

پھر حضرت علی علیہ السلام کی بارگاہ میں عرض کیا:

ابسط یدک اٴُبایعک فوالله لئن شئت لاٴملاٴنّها علیه خیلاً ورجلاً فابیٰ اٴمیر المؤمنین

آپ اپنے ہاتھ پھیلایئے تا کہ میں آپ کی بیعت کروں خدا کی قسم اگر آپ چاھیں تو میں گھوڑوں اور انسانوں سے میدان( جنگ )بھر دوں ۔لیکن حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام نے ایسا کرنے سے انکار کردیا ۔( ۳ )

شیخ مفیداپنی کتاب ارشاد میں ( اس واقعہ کے ذیل میں) بیان کرتے ہیں :

حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے ابو سفیان سے کھا:

تم یہاں سے چلے جاؤخدا کی قسم جو تیری خواہش ہے میں اس طرح کبھی بھی نہ کروں گا کیونکہ تم تو ہمیشہ سے اسلام اور اہل اسلام کو دھوکا دیتے رھے ہو۔( ۴ )

فضل بن عباس کا انداز

جب سقیفہ میں حضرت ابوبکر کی بیعت ہونے لگی تو انصار حضرت ابوبکر کو چھوڑ کر ایک طرف ہوگئے تو قریش غضبناک ہوئے اور انھوں نے ابوبکر کی خلافت کو بچانے کے لئے خطبے دینے شروع کیے عمر ابن عاص کو قوم قریش نے کھاکہ اٹھو اور خطبہ دو وہ کھڑا ہوا اور اس نے انصار کے بارے میں گفتگو شروع کردی۔

اس وقت فضل بن عباس کھڑے ہوئے اور انھوں نے عمر وبن عاص کو جواب دینا شروع کر دیا پھر وہ حضرت علی علیہ السلام کے پاس حاضر ہوئے اور حضرت علی علیہ السلام کو اس کے متعلق بتایا اور کچھ اشعار پڑھے۔ حضرت علی علیہ السلام غصے کی حالت میں مسجد کی طرف روانہ ہوئے اوروہاں پہنچ کر انھوں نے انصار کو نصیحت کی اور عمر بن عاص کی گفتگو کا جواب دیا۔

جب انصار کو اس بات کا پتہ چل گیا تو وہ کھنے لگے کہ حضرت علی علیہ السلام کی گفتگو سے بھتر ہمارے پاس کوئی بات نہیں ہے (یعنی ہمارے ما فی الضمیر کو انھوں نے ہم سے بھتر انداز میں بیان کیا ہے) پھر یہ لوگ حضرت حسان بن ثابت کی خدمت میں پھنچے اور کھنے لگے کہ آپ فضل کو جواب دیں توحسان بن ثابت نے کہا: اس نے جو کچھ پیش کیا ہے وہ بکواس ہے ۔لہٰذا تم فقط حضرت علی (ع) کو اپناؤ، اور یہ اشعار کھے:

جزیٰ الله خیراً والجزاءُ بکفّه

اٴبا حسن عنا ومن کُاٴ بي حسن

سبقت قریشاً بالذي اٴنتَ اٴهلُه

فصدرک مشروح و قلُبک مُمتحن

تمنت رجال من قریش اٴعزةً

مکانک هیهات الُهزال من السَمَنِ

اللہ کی جزا پوری پوری اور مکمل جزا ہے اوروہ یہ ہے کہ ابولحسن ہم سے ہیں اور تم بتاؤ کوئی ابولحسن جیسا ہو سکتا ہے آپ اس خاندان سے ہیں جس کو قریش پر برتری نصیب ہوئی آپ کا سینہ کشادہ ہے اورآپ کا دل ہر چیز کو جانچ لیتا ہے قریشی اسی کی تمنا کرتے رھتے ہیں کہ ھمیں بھی آپ جیسی عزت نصےب ہو۔اور پھر فرمایا:

حفظت رسول الله فينا وعهدهِ

اِلیکَ و مَن اٴولیٰ به منک مَن ومِن

الستَ اٴخاهُ في الاخا ووصیهِ

واٴعلم فهرٍ بالکتابِ وبالسننِ

رسول خدا نے آپ کو برگزیدہ اور عھد کا پورا کرنے والا پایا اور فرمایا کہ تیرے اور میرے علاوہ کون بھترھے ؟ اور میرا وصی کون ہو سکتا ہے؟ کیا تم ہی اخوت والے دن میرے بھائی نہ تھے؟(بےشک)تم ہی کتاب و سنت کو زیادہ جاننے والے ہو۔( ۵ )

خلفاء کو نصیحتیں

حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اپنے سے پہلے خلفاء کو جو نصیحتیں کی تھیں تاریخ نے انھیں اپنے دامن میں محفوظ رکھا ہے اور آپ کے ٹھوس اور پرخلوص مشوروں کوتاریخ نے بیان کیا ہے ۔ ہم ان میں سے چند نصےحتوں کوسپرد قرطاس کرتے ہیں۔

حضرت ابوبکر

جب حضرت ابوبکر نے رومیوں کے ساتھ جنگ کرنے کا ارادہ کرلیا تو اصحاب رسول سے مشورہ کیا بعض نے جنگ کرنے کا اور بعض نے جنگ نہ کرنے کا مشورہ دیا آخر میں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی خدمت میں مشورہ کے لئے حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا:

جنگ کے لئے نکلو،اگر تم نے میرے مشورے کے مطابق عمل کیا تو کامیابی تمہارے قدم چومے گی ۔حضرت ابوبکر نے کھا:آپ نے بہت اچھی بشارت دی ہے اور خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور حکم دیا کہ روم کی طرف نکلنے کے لئے تیار ہوجاؤ۔( ۶ )

حضرت عمر

حضرت عمر ابن خطاب کے عھد خلافت کے بارے میں ،کسی ایک مؤرخ نے بھی یہ بیان نہیں کیا حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام اس کی خلافت کے مقابل آئے ہوں۔

بلکہ آپ نے بھی دوسرے لوگوں کی طرح خاموشی اختیار کرلی اورآپ نہ تو جانے والوں کا اور نہ آنے والوں کا ذکر کرتے بلکہ اچھائیوں کا تذکر ے رھتے۔آپ اپنی نیک اور مبارک زبان سے ہمیشہ اچھی گفتگو کرتے رھتے اور انھیں مسلسل نصیحتیں کرتے رھتے تھے ۔

اسلام کی مشکل کشائی اور مصلحت کے لئے آپ نے اپنے اوپر پڑنے والی تمام مشکلات کو برداشت کرلیا اور حاکم اور حکومت کو اسی زاویے (مصلحت اسلام)سے ہی دیکھا کرتے یہاں تک کہ اسلام بڑی سرعت کے ساتھ سرزمین حجاز سے نکل کربھت دور پہنچ گیا ۔لیکن فاتح حکام کے پاؤں غفلت کی بنا پر لڑکھڑا گئے جس سے خلافت کمزور پڑنے لگی ۔حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے کئی مرتبہ یہ ارشادفرمایا :

والله لاسالِمَنَّ ما سلمت امور المسلمین ولم یکن بها جورٌ اِلا عليَّ خاصة ۔

خدا کی قسم میں مسلمانوں کے امور کے سلسلے میں ھمےشہ ان کے ساتھ ہم آھنگ رھاجبکہ فقط میرے لئے ہی ظلم و جورروا رکھا گیا۔( ۷ )

حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اپنی عمومی زندگی کو وسعت دے رکھی تھی آپ نے لوگوں کے حقوق بھترین انداز میں ادا کئے۔آپ نے لوگوں کو تعلیم دینے ،فقہ سمجھانے اور ان کے درمیان قضاوت کرنے کا سلسلہ حضرت ابوبکر کے دور حکومت میں بھی وسیع پیمانے پر جاری رکھا۔

تاریخ گواہ ہے کہ حضرت عمر ابن خطاب بھی آپ کے فیصلوں کا احترام کرتے تھے اور آپ کے ہی مشوروں کو اھمیت دیتے اور تسلیم کرتے تھے یہاں تک کہ شریعت اسلامی کے علاوہ عمومی مسائل میں بھی آپ ہی کی رائے قابل توجہ ہوا کرتی تھی اور حضرت عمر یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں :

لا اٴبقاني اللّه لمعضلةٍ لیس لها اٴبواٴلحسن

اللہ تعالی مجھے کسی ایسی مشکل میں زندہ نہ رکھے جس کو حل کرنے کے لئے ابولحسن (ع) نہ ہوں۔

تاریخ ھجری کا آغاز

آج تک جاری رھنے والی مشھور معروف تاریخ ھجری کو شروع کرنے کےلئے حضرت عمر نے پروگرام بنایااوراصحاب کو جمع کیا تاکہ ان سے اس موضوع پر رائے لی جاسکے لیکن ان کی آراء میں بہت زیادہ اختلاف پیدا ہوگیا۔اگر حضرت علی (ع) اس وقت اپنی محکم اور پختہ رائے کیساتھ آگے نہ بڑھتے تو یہ اختلاف شدید تر ہو جاتا ،حضرت عمر آپ کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ سے رائے طلب کی چنا نچہ آپ نے فرمایا ھمیں چاہئے کہ ہم لوگ حضرت رسول(ص)کی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والے دن سے اپنی تاریخ کا آغاز کریں حضرت عمر ابن خطاب نے اس (عمدہ اور محکم )رائے پر تعجب کیا اور اسے قبول کر کے کھنے لگے:

لا زلت موفقاً یااٴباالحسن

اے ابولحسن ہمیشہ آپ ہی کی رائے تسلیم کی جاتی ہے۔( ۸ )

حضرت علی کی مدح عمر کی زبان سے:

ا بن ابی الحدید،حسین بن محمد سبتی سے روایت بیان کرتے ہیںکہ ایک دن حضرت عمر انتہائی پریشان تھے پریشانی میں کبھی بھی اٹھتے اور کبھی بیٹھتے اور پھر جھوم کر کہتے کہ اے حاضرین محترم! آپ کی اس امر کے بارے میں کیا رائے ہے ؟انھوں نے کھااے امیر آپ ہی تو جزع و فزع کرنے والے ہیں ۔یہ سن کر حضرت عمر غضبناک ہوئے اور قرآن مجید کی اس آیت کی تلاوت کی :

( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِیدًا )

اے ایمان لانے والو!اللہ سے ڈرواور محکم بات کیا کرو۔( ۹ )

پھر کھامیں اور آپ سب لوگ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اللہ تعالی کے اس فرمان کا مصداق کون ہے ؟ان لوگوں نے کھا: گویا آپ کی مراد اس سے علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) ہیں؟

حضرت عمر نے کہا: یقینا وہی اس کے مصداق ہیں اور میں اس سے کبھی رو گردانی نہیں کر سکتا اور یہ بڑے عالی ظرف انسان ہیں اورکوئی بھی ان کی مثل نہیں ہے ان لوگوں نے کھا:اے امیرپھر تو آپ انھیں ضرور یہاں دعوت دیں اور بلائیں ۔ حضرت عمر نے کھاکتنے افسوس کی بات ہے کیا ان کے علاوہ کوئی بنی ہاشم کا چشم و چراغ ہے جو نبی(ص) کے علم کا وارث ہو اور اس کا گوشت، رسول کا گوشت ہو۔

لہٰذا ہم خود ان کے پاس چلتے ہیں اور انھیں یہاں بلانے کی ضرورت نہیں۔ راوی کھتا ہے کہ ہم لوگ ان کی طرف چل پڑے جب ان کے پاس پھنچے تو ہم نے دیکھا کہ وہ ایک چار دیواری کے اندر چادر اوڑھ کر تشریف فرما ہیں اور قرآن مجید کی اس آیت مجیدہ کی آیت( اٴَیَحْسَبُ الانْسَانَ اَنْ یُتْرِکَ سَدیٰ ) ( ۱۰ ) (کیا انسان گمان کرتا ہے کہ وہ بےکار چھوڑ دیا جائے گا۔)سے لے کر آخر سورہ تک تلاوت فرما رھے ہیں۔

اوران کے رخساروں پر آنسو جاری تھے اور ان کے اس گریہ نے لوگوں کو بہت متاثر کیا اور لوگ بھی حضرت کے ساتھ مل کر گریہ کرتے رھے ،جب وہ خاموش ہوئے تو یہ سب لوگ بھی خاموش ہوگئے ۔حضرت عمر نے اس واقعہ کے متعلق آپ سے دریافت کیا توآپ نے اس کا جواب عنایت فرمایا ،حضرت عمر کھنے لگے: خدا کی قسم ہم نے تو آپ کے حق کو مدنظر رکھا لیکن آپ کی قوم نے آپ کو حق دینے انکار کردیا حضرت نے فرمایا:

اے ابوحفص !آپ فورا یہاں سے تشریف لے جائیں کیونکہ( ان یومَ الفصل کانَ میقاتاً ) ( ۱۱ )

حضرت عمر نے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھا اور بڑی تیزی کے ساتھ وہاں سے نکل گئے اور یوں لگتا تھا کہ گویا وہ سراب کو دیکھ رہاتھا( ۱۲ )

بیت المقدس کی فتح اور آپ کا مشورہ

حضرت علی علیہ السلام کے مشوروں میں سے ایک مشورہ یہ تھا کہ جب خلیفہ ثانی نے بیت المقدس کی کے فتح مسئلہ میں لوگوں سے مشورہ مانگا جب کہ ابوعبیدہ نے خط کے ذرےعہ اس کی توجہ اس طرف مبذول کی تھی لہٰذا حضرت عثمان بن عفان نے اس سلسلے میں یہ مشورہ دیا کہ کہ ھمیں انکی طرف نہیں نکلنا چاھےے کیونکہ ہم انھیں حقےر جانتے ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے اس سلسلے میں یہ مشورہ دیا کہ ھمیں ان کی طرف جانا چاھےے کیونکہ اگر وہ مسلمانوں کا محاصرہ کر لیں تو یہ ہر مسلمان کی ذلت اور رسوائی کا سبب بن جائے گا۔ چنانچہ جب خلیفہ وہاں سے اٹھا تو اس نے وہی کیا جو حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا تھا اور جو کچھ حضرت عثمان نے کھاتھا اس نے نہ مانااور ایک بڑے لشکر کے ساتھ ان لوگوں پر حملہ کر دیا، اس طرح انھوں نے بیت المقدس کو فتح کر لیا اس دوران حضرت علی علیہ السلام مدینہ کے امور کی نگرانی کرتے رھے ۔( ۱۳ )

واقعہ نہاوند میں جب باب ،سند ،خراسان اور حلوان کے ایک لاکھ پچاس ہزار گھوڑے سوار مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کے لئے جمع ہوگئے توجب خلیفہ ثانی کویہ معلوم ہوا تو اس نے لوگوں کو مشورہ کے لئے جمع کیا لیکن خود اس نے ان کی طرف جانے کا ارادہ کر لیا، طلحہ بن عبےداللہ نے بھی یھی نظریہ دیا اور کھاکہ ھمارا کام تو آپ کی اطاعت اور پیروی کرنا ہے جو آپ کی مرضی ہے وہی رائے میری بھی ہے،حضرت عثمان اس سلسلے میں یو ں ھمکلام ہوئے میرا خیال یہ کہ آپ اہل شام کو خط میں لکھیں کہ وہ شام سے نکلیں اور اہل یمن یمن سے چلیںاور تم کوفہ اور اور بصرہ والوں کو لیکر نکلوںتا کہ تمام مسلمان تمام مشرکین کے سامنے صف آرا ہوجائیں ۔

چنا نچہ حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:

اگر تمام شامی شام سے نکل پڑےں تو روم والے ان کے بچوں پر حملہ کر دیں گے اسی طرح اگر تمام ےمنی ےمن سے نکل پڑےں تو حبشہ والے ان کی اولادپر حملہ کر دیں گے اور اگر تم یہاں سے نکل پڑے تو گرد ونواح کے تمام عرب تم پر ٹوٹ پڑےں گے۔ لہٰذا میری رائے یہ ہے کہ تم بصرہ والوں کوخط لکھو، کہ وہ تےن گروہ میں تقسیم ہوجائیں ایک گروہ مستورات اور بچوں کے پاس رھے اور دوسرا گروہ اہل عھد کے ساتھ اور تےسرا گروہ اپنے کوفی بھائیوں کی مدد کے لئے نکلے اور وہاں پھےل جائے کیونکہ عجمی کل تمھیں دیکھیں گے تو وہ لوگ کھیں گے کہ یھی عربوں کا امیر المومنین اور ان کی اصل ہے لہٰذا تیرے خلاف ان کے دل زیادہ سخت ہوجائیں گے حضرت عمر نے کھایھی وہ رائے ہے جسے میں پسند کرتا ہوں اور چاھتاھوں کہ اس کے مطابق عمل کروں۔( ۱۴ )

دور عثمان

خلیفہ سوم کے زمانے میں حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے بہت زحمتےں اٹھائےں جب شوریٰ قائم ہوئی تو حضرت نے فرمایا:

والله لاسالِمَنَّ ما سلمت امور المسلمین ولم یکن بها جورٌ اِلا عليَّ خاصة

خدا کی قسم میں مسلمانوں کے امور کے سلسلے میں ھمےشہ ان کے ساتھ ہم آھنگ رھاجبکہ فقط میرے لئے ہی ظلم و جورروا رکھا گیا۔

ان تمام مشکلات کے باوجود حضرت علی علیہ السلام خلیفہ ثالث کے ساتھ ہمیشہ اخلاص کے ساتھ پیش آتے تھے اسی طرح وہ مشکلات جو انھیں اپنی ظاھری خلافت کے دوران پیش آئےں ان کے متعلق آپ(ع) نے ارشاد فرمایا: خدا کی قسم میں عثمان کو دشمنوں سے دور کرتا ہوں لیکن مجھے خوف تھا کہ اس کے باوجود گنھگار میں ہی ٹھھرایا جاؤں گا ۔( ۱۵ )

ابن قتےبہ اپنی کتاب امامت وسیاست میں کہتے ہیں کہ جب عثمان کے خلاف بغاوت بڑھتی چلی گئی تو حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کسی وادی میں چلے گئے اور وہاں مقےم ہوگئے۔

حضرت علی علیہ السلام کے چلے جانے کے بعد عثمان کے خلاف بغاوت مزید بڑھ گئی جب کہ طلحہ اور زبیرکو یہ امید تھی کہ وہ لوگوں کے دلوں کو عثمان کی طرف مائل کر لیں گے اور بغاوت پر غلبہ حاصل کر لیں گے، انھوں حضرت علی علیہ السلام کی عدم موجودگی کو غنیمت سمجھا لیکن جب بغاوت حد سے بڑھ گئی تو عثمان نے حضرت علی علیہ السلا م کو اس طرح خط لکھا:

معاملہ میرے ہاتھ سے نکل چکا ہے اور میرے خلاف ایک طوفان ا مڈ آیا ہے، لوگ میری توھین کر رھے ہیں اور وہ میرا خون بہانے اور میرے قتل کے درپہ ہیں اور میں اس مصیبت کو اپنے سر سے دور نہیں کر سکتا، اور پھریہ شعر کہا:

فان کنت ماکولافکن خیر اکل ولا فارکنی ولما افرق

اگر آپ پر بھروسہ کیا جائے تو آپ بھترین بھروسہ والے ہیں میری مدد کو آئےے مجھ سے اتنا دور کیوں ہیں ؟( ۱۶ )

ابن اثیر اپنی کتاب کامل میں کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام جب وآپس لوٹ آئے تو اس وقت لوگ عثمان کی طرف رجوع کر چکے تھے آپ نے ان سے فرمایا:تم لوگوں سے ایسی گفتگو کرو جسے وہ تم سے سنیں اور تم پر گواہ قرار پائےں اور جو کچھ تمہارے دل میں ہے اللہ اس پر گواہ ہے۔

اس وقت تک امن امان قائم نہیں ہوگا جب تک کوفہ اور بصرہ سے دوسرے سوار نہ آجائیں، عثمان نے کھااے علی ان کی طرف سوار بھےجئے اگر آپ نے اےسانہ کیا تو مجھے معلوم ہورھاھے کہ وہ ہم سے قطع رحم کرےں گے اور آپ کے حق کو تسلیم نہیں کرےں گے حضرت عثمان باھر آئے انھوں نے خطبہ دیا اور لوگوں کے سامنے توبہ کی اور کھامیں پھلا شخص ہو ں جو پناہ چاھتا ہوں جو کچھ میں نے کیا ہے اس پر میں اللہ سے معافی چاھتا ہوں۔

خدا کی قسم حق کو اس کے عبد کے سپرد کر دیتا ہوں جو ہمیشہ ثابت قدم رہاھے تم اس کی پیروی کرنا اور خدا تک پھنچنے کا وہی بھترین ذرےعہ اور راستہ ہے اس سلسلے میں تم پر کوئی بات مخفی نہیں ہے۔

لوگ روتے ہوئے متفرق ہو گئے اور خلیفہ بھی رو پڑے ،جب عثمان اپنے گھر آئے تو وہاں مروان سعید اور بنی امیہ سے تعلق رکھنے والا ایک شخص موجود تھا(یعنی حضرت عثمان کے خطبہ کے دوران یہ لوگ وہاں موجود نہیں تھے) حضرت عثمان ان کے درمیان آکر بےٹھ گئے تو مروان نے کہا: اے امیر المؤمنین کیا میں آپ سے کچھ کھوں یا خاموش رہو ں؟

عثمان کی بیوی نائلہ بنت فرا فصہ نے کھاتم خاموش رہو ، یھی وہ لوگ ہیں جنھوں نے اسے قتل کیا اور موت کی نیند سلا دیا انھوں نے ایسی گفتگو کی جس پر نزاع نہیں ہونا چاھیے تھا۔

مروان نے نائلہ سے کھاتو اس وقت نہیں تھی جب یہ سب کچھ ہوا خدا کی قسم تیرا باپ وضو خانہ میں مارا گیا، نائلہ نے کھااسے تو صحیح طور پر وضو کرنا بھی نہیں آتا تھا !مروان ٹھھر جا اور باپ کا تذکرہ چھوڑ دے ۔خدا کی قسم چچا کو اس بات سے غم و الم پھنچنے گا اگر خوف نہ ہوتا تو میں ضرور اس کے متعلق تجھ کو بتاتی اور ثابت کرتی کہ یہ بات صداقت پر مبنی ہے ۔

مروان نے پھر کہا:اے امیر المومنین میں بات کروں یا چپ رہو ں ۔ خلیفہ نے کھاکھو کیا کھنا چاھتے ہو، مروان نے کھامیرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں خدا کی قسم میں آپ کی اس قسم کی گفتگو کو پسند کرتا ہوں لیکن آپ کو روک دیا گیا اور آپ پہلے شخص ہیں جو اس پر راضی ہو گئے البتہ آپ کو جو کھنا چاھیے تھا وہ آپ نے نہیں کھااور انھوں نے معاملے کی سنگین خلاف ورزی کی جبکہ ناچیز و ذلیل حصہ دیا گیا۔ خدا کی قسم گناہ پر استغفار کرنا بھتر ہے ،اس توبہ سے جس کے بعد خوف ھراس چھاجائے اگر تم چاھتے توتوبہ کے ذریعے قریب ہو جاتے اور خطا کا اقرار نہ کرتے اس وقت دروازے پر لوگ پہاڑ کی طرح ڈٹے ہوئے تھے۔ عثمان نے کھاان کے پاس جاؤ اور ان سے کھو کہ مجھے تم سے گفتگو کرتے ہوئے شرم آتی ہے مروان باھر گیا اس نے لوگوںسے کھاتمہارا یہاں جمع ہونا تمہاری شان کے خلاف ہے گویا تم مال غنیمت لوٹنے آئے ہو ؟ کیا تم اس ارادے سے آئے ہو کہ جو کچھ ہمارے قبضہ میں ہے اس کو زبردستی ہم سے چھین لو، تو خدا کی قسم ہم نے تمہارے خلاف قدم اٹھالیا تو مشکل ہوجائیگی۔ لہٰذا تم اپنے گھروں کی طرف لوٹ جاؤ خدا کی قسم ہمارے ہاتھوں میں جو کچھ ہے ہم اس کی بدولت تم سے مغلوب نہیں ہوںگے، چنا نچہ سب لوگ واپس لوٹ گئے اور کچھ لوگ حضرت علی کے پاس آئے اور انھیں اس واقعہ کی اطلاع دی۔

حضرت علی علیہ السلام عبدالرحمن بن اسود بن عبد یغوث کے پاس آئے اور اس سے پوچھا کہ کیا تم بھی عثمان کا خطبہ سننے والوں میں موجود تھے؟اس نے کھاجی ہاں ۔حضرت نے فرمایا: جو کچھ مروان نے لوگوں سے گفتگو کی ہے اس میں بھی تم موجود تھے ؟اس نے کھاجی ہاں ۔

اس وقت حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:اے اللہ کے بندو!اے مسلمانو!اگر میں اپنے گھر میں رہو ں تو تم کہتے ہو کہ میں نے رشتہ داروں کو چھوڑ دیا ہے اور اگر میں کوئی بات بتاتا ہوں تو اس کو نظر انداز کر کے جس طرح مروان چاھتا ہے ویسا ہی کرتے ہیں اس نے تو اپنے ہی بازار سے گناھوں کا جتنا بار اٹھانا تھا اٹھالیا ہے۔

حضرت علی غضبناک حالت میں وہاں سے اٹھے اور عثمان کے پاس جاکر فرمایا :جہاں تک مروان کا تعلق ہے وہ تجھ سے اس وقت تک راضی نہ ہو گا جب تک تو اپنے دین اور عقل میں تحریف نہ کر لے اس کی مثال اس سرکش اونٹ جیسی ہے جدھر اس کا منہ ہوتا ہے ادھر ہی چل دیتا ہے ۔خدا کی قسم مروان اپنے دین اور اپنے نفس میں صاحب رائے نہیں ہے اور اللہ کی قسم میں لوگوں کو تجھ پر حملہ کرتے ہوئے دیکھ رھاھوں لیکن اس وقت تجھ سے کچھ نہ ہو سکے گا اور آج کے بعد میں یہاں نہیں آؤں گا یہ تیرا اپنا ہی تجھ پر عتاب ہے ،اس سے تیری عزت وشرف جاتا رھے گا اور تیری رائے مغلوب ہو جائے گی ۔

جب حضرت علی علیہ السلام نصیحت کر کے وہاں سے نکلے تو اس وقت اس کی بیوی نائلہ آئی اور کھنے لگی ۔میں نے تیرے متعلق حضرت علی کی گفتگو کو سن لیاھے یہ سمجھ لے کہ یہ تمہارے دشمن نہیں ہیں لیکن تم نے فقط مروان کی اطاعت کی ہے وہی تمہارا دشمن ہے جس طرح اس نے چاھاھے دشمنی کی ہے، حضرت عثمان کہتے ہیں میں کیا کروں ؟وہ کہتی ہے!اللہ سے ڈرو اور مروان کی پیروی ترک کردو، اگر تم مروان کی اطاعت کرتے رھے تو وہ تمھیں قتل کرا دے گا ،دوسرے لوگوں کے نزدیک مروان کی کوئی قدر منزلت نہیں ہے اسی وجہ سے تجھے لوگوں نے چھوڑدیا ہے تم حضرت علی کو بھیجو تاکہ وہ اصلاح کریں یہ آپ کے قرابت دار ہیں اور وہ اس کا انکا ر بھی نہ کریں گے ۔

چنا نچہ حضرت عثمان نے حضرت علی (علیہ السلام)کی طرف پیغام بھیجا لیکن حضرت نہ آئے اور فرمایا میں جانتا ہوں کہ اسے میری ضرورت نہیں ہے ۔

مروان تک نائلہ کی بات پہنچ گئی اور وہ عثمان کے پاس بیٹھ کر نائلہ سے کھنے لگا۔ اے فرافصہ کی بیٹی! یہ سن کر حضرت عثمان نے کھاکہ اے مروان چپ ہوجاؤتمہارا منہ کالا ہو جائے خدا کی قسم اس نے تو مجھے نصیحت کی ہے اور اس سلسلے میں اس کا مجھ پر زیادہ حق ہے یہ سن کر مروان خاموش ہوگیا ۔

اس کے بعد حضرت عثمان رات کی تاریکی میں حضرت علی کے گھر آئے اور ان سے کھا: میں نے غیر ضروری امور انجام دئیے ہیں اور اس کا میں ہی ذمہ دار ہوں حضرت علی (علیہ السلام)نے اس سے کھاتم حضرت رسول اعظم کے منبر پر گفتگو کرنے کے بعد آج اس چیز کا اظہار کر رھے ہو تم گفتگو کرنے کے بعد گھر میں چلے جاتے ہو ،اور مروان تمہارے دروازے پر آکر لوگوں کو اذیت پھنچاتا۔ حضرت عثمان باھر آئے جبکہ وہ کہہ رھے تھے کہ اے مروان تم نے مجھے دھوکہ دیا اور لوگوں کو میرے خلاف ہوا دی ہے حضرت علی (علیہ السلام)نے فرمایا اکثر لوگ تمہاری حمایت کرتے ہیں لیکن جب بھی تجھے میں نے کوئی مسئلہ بتایا تو تم کو مروان نے اس کی خلاف ورزی کرنے کو کھااور تم نے مروان کی بات مان لی اور میری بات کو ٹال دیا۔( ۱۷ )

خلیفہ ثالث کے حق میں حضرت علی علیہ السلام کا رویّہ

جب حضرت علی علیہ السلام خیبر سے واپس لوٹ رھے تھے تو آپ نے دیکھا کہ لوگ طلحہ کے پاس جمع ہیں ان میں اس کا کافی اثر رسوخ تھا جب حضرت علی (علیہ السلام)وہاں تشریف لائے تو ان کے پاس حضرت عثمان بھی آگیا تو اس نے کہا:

اما بعد! مجھ پر اسلام کا حق ہے بھائیوں اور رشتہ داروں کا حق ہے۔ اگر ان حقوق کا پاس ولحاظ نہ ہوتا تو ہم جاھلیت کی طرف لوٹ جاتے اور بنی عبد مناف کے لئے یہ مناسب نھیںھے کہ وہ اپنے بنی تمیم بھائیوں کے ساتھ لڑیں ۔( یہ اطلاع طلحہ نے انھیں دی تھی)

اس وقت حضرت علی نے اس سے کہا: تیری یہ خبر درست نہیں ہے پھر حضرت علی (ع)مسجد کی طرف روانہ ہوئے، وہاں انھوں نے اسامہ کو دیکھا جو لوگوں سے دور ایک طرف بیٹھا تھا ۔ اس کو اپنے ھمراہ لیااور طلحہ کے گھر آئے، حضرت نے کہا: اے طلحہ !وہ معاملہ کیا ہے جو واقع ہوا ہے اس نے کھااے ابوالحسن یہ حزام طبین کے بعد کا واقعہ ہے، حضرت علی علیہ السلام وہاں سے بیت المال کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر فرمایا:اس کا دروازہ کھولو لیکن چابیاں نہ ملیں تو انھوں نے اس کا دروازہ توڑدیا اور لوگوں میں مال تقسیم کر دیا لوگ طلحہ کے پاس سے اٹھ کر چلے گئے یہاں تک کہ طلحہ اکیلا رہ گیا ۔ یہ خبر سن کر عثمان بہت خوش ہوئے اس کے بعد طلحہ عثمان کے پاس آیا اور اس نے کہا: اے امیرالمومنین !میں نے ایک کام کا ارادہ کیا ہے لیکن اس کے اور میرے درمیان اللہ حائل ہے۔ عثمان نے کھاخدا کی قسم تم توبہ کرکے نہیں آئے بلکہ مغلوب ہو کر آئے ہو، اے طلحہ اللہ تیرا محاسبہ کرنے کے لئے کافی ہے۔( ۱۸ )

جب حضرت عثمان کا محاصرہ کیا گیا اور اس پر پانی بند کر دیا گیا اس وقت حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے طلحہ سے کہا: میں ان کے پاس پانی و غذا لے کر جانا چاھتا ہوں، حضرت نے اس پر شدید غصہ کیا یہاں تک کہ حضرت عثمان کے پاس پانی وغذالے گئے۔( ۱۹ )

حضرت کا خلیفہ ثالث کے ساتھ ایک عمدہ رویہّ یہ تھا کہ آپ نے اپنے بچوں حسن (علیہ السلام)اورحسین(علیہ السلام)کو حضرت عثمان کے دفاع کے لئے بھیجا ۔اور وہ اس کے دروازے پر کھڑے ہو گئے اور اس کے دشمنوں میں سے کسی کی طاقت نہ ہوئی کہ اس کو اذیت دیں یہ اصحاب سیرت اور تاریخ میں مشھور و معروف واقعہ ہے۔

جب حضرت عثمان کا قتل ہوا تو مدینہ اور مدینہ سے باھر مختلف مقامات میں اس پر خوشی کا اظہار کیاگیا بالخصوص وہ لوگ اس پر زیادہ خوش تھے جو عوام کو اس کے خلاف اکسانے میں پیش پیش تھے جیسے طلحہ ،زبیر ،سعد بن ابی وقاص،عائشہ اور معاویہ کیونکہ اس سلسلہ میں ان لوگوں کے ذاتی مقاصد تھے۔

وہ لوگ عثمان کی ان باتوں سے ناراض تھے کہ اس نے مروان بن حکم اور بنی امیہ کو لوگوں کی گردنوں پر مسلط کر دیا ہے اور مختلف شھروں میں حکومتی عھدے اپنے قریبی رشتہ داروں کو دے دئےے چنا نچہ اکثر لوگوں نے اس کے قتل پر خوشی کا اظہار کیا اگرچہ اس سلسلہ میں ان کے نظریات اور خواہشات جدا جدا تھے ۔لیکن جہاں تک حضرت علی علیہ السلام کا تعلق ہے تو انھوں نے اس پیچیدہ معاملے کو سنبھالنے کی ہر ممکن کوشش کی اور یہ ان کے لئے امتحان کا وقت تھا لیکن معاملات بہت بگڑ چکے تھے۔

آپ کئی مرتبہ خلیفہ کے پاس تشریف لائے اور انھیں نصیحتیں کیں کہ وہ اعتدال پر رھیں اور حکمت سے کام لیں خلیفہ کو نصیحت کی کہ عدل سے کام لیں مظلوموں کے ساتھ انصاف کریں تاکہ امت کی اصلاح ہو سکے اور وہ اپنے مقصد میںکامیاب ہو جائیںاور ان کے امور کو غیروں کے حوالے نہ کیا جائے، حکومتی اداروں میں دین کو پائیدار بنایا جائے اور شرعی حدود کے مطابق عمل کو جاری رکھا جائے اور غریبوں فقیروں پر خصوصی توجہ دی جائے۔

لیکن حضرت علی (علیہ السلام)خلیفہ کے رویہّ کو بدلنے پر قادر نہیں تھے لہٰذا اس وجہ سے آپ اپنے گھر میں خاموشی سے بیٹھ گئے اور اپنا دروازہ بند کر لیا اور ظالم اور مظلوم کے درمیان قضاء کے فیصلے کا انتظار کرنے لگے۔

کلمات قصار میں آپ کا یہ رویہّ پوری کتاب لکھنے کی نسبت زیادہ واضح نظر آتا ہے۔ حضرت نے فرمایاکہ میں نے اس بات کو جامع شکل میں بیان کیا ہے کہ بے شک تم متاثر ہوئے لیکن یہ تاثر مفید نہیں رہا، تم روئے اور گڑگڑائے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا البتہ متاثر اور گڑگڑانے والے کے بارے میں خدا بھتر جانتا ہے۔( ۲۰ )

____________________

[۱] عقاید امامیہ شیخ محمد رضا مظفر ص ۱۱۵،۱۱۶۔

[۲] عقاید امامیہ ص۱۱۶۔

[۳] امام شرف الدین موسوی کی کتاب الفصول المھمہ ص ۵۵،۵۶۔

[۴] الارشاد ج۱ ص۱۹۰۔

[۵] تاریخ یعقوبی ج۲ ص۱۲۸۔

[۶] تاریخ یعقوبی ج۲ ص۱۳۲۔۱۳۳۔

[۷] سیرت ائمہ اثنی عشر ج۱ ص۳۳۳۔۳۳۴۔

[۸] سیرت ائمہ اثنی عشر ج۱ ص۳۳۴۔

[۹] سورہ احزاب:۷۰۔

[۱۰] سورہ قیامة آیت ۳۶۔

[۱۱] سورہ نباء:۱۷

[۱۲] شرح نھج البلاغہ ج ۱۲۔ص۷۹۔۸۰۔

[۱۳] البدایہ والنھایہ ابن کثیر ج۷ ص۵۳۔

[۱۴] ابن اثیر کی تاریخ کامل ج ۲ص۱۷۹،۱۸۱ سے اختصار کے ساتھ

[۱۵] سیرت آئمہ اثنی عشری ج ۱ ص۳۸۶۔

[۱۶] امامت و سیاست ج۱ ص۳۷۔

[۱۷] ابن اثیر کی کامل فی التاریخ ج۲۔ص۲۸۴۔۲۸۶۔

[۱۸] ابن اثیر کی کامل فی التاریخ۲ ص۲۸۶۔

[۱۹] کامل فی التاریخ ابن اثیر ج۲ ص۲۸۶۔

[۲۰] سیرت ائمہ اثنی عشر ج۱ ص ۳۸۹۔