گیارہو یں فصل
اصلاح امت
قارئین کرام!یہ عنوان بھی روز روشن کی طرح واضح ہے جس طرح اگر حضرت علی علیہ السلام کی تلوار نہ ہوتی تو اسلام کبھی نتیجہ بخش نہ ہوتا اسی طرح اگر آپ کا عمدہ بیان نہ ہوتا تو دین کے ستون اس قدر پختہ نہ ہوسکتے چنا نچہ یہ بات طے ہے کہ حضرت کے کلام اور فرامین کی وجہ سے اسلام مستحکم ہوا۔
آپ نے اپنے کلام میں حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعارف کرایا جسکی وجہ سے ان پاک و صاف نفسوں کا آپ کی طرف اشتیاق ہوا جنھیں اللہ تعالیٰ کی محبت پر خلق کیا گیا تھا اور ان میں آپ کے قرب و رضا کا عشق موجودتھا۔
آپ ہی وہ ہستی ہیں جن کے ذریعے لوگوں کے طور طریقوں میں موجودہ کج روی کی اصلاح ہوئی ، گمراہ لوگ دوبارہ ھدایت کی طرف پلٹ آئے ان کا قول و فعل ایک ہوگیا۔اور یہ لوگ اللہ کی وعظ ونصیحت ‘اس کی آیات ،شریعت اور احکام سے وابستہ ہو گئے اور حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر چلنے لگے اور اسلامی احکام کے مطابق عمل کرنے لگے نیز آپ کے علاوہ کسی غیر کی طرف نہیں جھکے۔
۱ ۔انداز عبادت
ایک شخص نے حضرت امیر المومنین علی (ع)کی بارگاہ میں عرض کیا ! یاامیرالمومنین آپ جو اس قدر اللہ کی عبادت کرتے ہیں کیا آپ نے اسے دیکھا ہے ؟تب حضرت امیر امومنین علیہ السلام نے اسے جواب دیا:
لم اٴکُ با لذي اٴعبد من لم اره
میں اس کی عبادت نہیں کرتا جسے میں نے نہ دےکھا ہو۔
وہ شخص کھتا ہے آپ خدا کو کس طرح دےکھتے ہیں تب حضرت علی (ع)نے جواب دیا:
یا ویحک لم تره العیون بمشاهدة الابصار و لکن راٴ ته القلوب بحقائق الاٴِیمان معروف با لدلالات منعوت با لعلامات لُا یقاس بالناس ولا تدرکه الحواس
وائے ہو تجھ پر ان آنکھوں کے ذریعہ اس کو نہیں دیکھا جا سکتالیکن دل اسے ایمان کی حقےقتوں کے ساتھ دےکھ سکتا ہے دلائل اور علامتوں کے ساتھ تو اس کی تعرےف کی جا سکتی ہے لیکن لوگوں کے ساتھ اس کا قیاس نہیں کیا جاسکتا اور حواس خمسہ اسے نہیں پا سکتے چنا نچہ وہ شخص یہ کہتے ہوئے وہاں سے چل دیا :
الله اٴعلم حیث یجعل رسا لته
۔ اللہ ہی بھترجانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کوکہاں قراردیتا ہے ۔
یعنی اللہ نے مناسب مقام پر رسالت رکھی ہے ۔
۲ ۔عظمت خدا
حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام غفلت خدا،مقصد مخلوقات کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
قدعلم السرائر و خبر الضمائر له الاحاطة بکل شيء والغلبةُ لکل شيء والقوة علیٰ کل شيء فلیعمل العامل منکم في ایام مهله قبل اِزهاقِ اٴجله
وہ دل کی نیتوں اور اندر کے بھیدوں کو جانتا اور پہچانتا ہے، وہ ہر چیز پراحاطہ کئے ہوئے ہے وہ ہر چیز پر غالب ہے وہ ہر چیزسے قوی ہے اور تم میں سے کسی کو اگر کچھ کرنا ہے تو موت کے حائل ہونے سے پہلے مھلت کے دنوں میں کرلینا چاہئےے۔
اس کے بعدحضرت نے مزید فرمایا :
فالله الله اٴیها الناس فیما استحفظکم من کتابه و استودعکم من حقوقه فاِن الله سبحانه لم یخلقکم عبثا ولم یترککم سدی ولم یدعکم في جهالة ولا عمیٰ قد سمّیٰ آثارکم و علم اٴعمالکم و کتب آجالکم
واٴنزل علیکم الکتاب تبیاناً لکلِّ شيء و عمَّر فیکم نبیّه اٴزمانا حتیٰ اٴکمل له ولکم فیما اٴنزل من کتابه دینه الذي رضي لنفسهِ واٴنهیٰ اِلیکم علی لسانه محابه من الاعمال و مکارهه و نواهیه و اٴوامره
واٴلقیٰ اِلیکم المعذرة واتخذ علیکم الحجه و قدم اِلیکم بالوعید و اٴنذرکم بین یدي عذاب شدید
اے لوگو! اللہ نے اپنی کتاب میں جن چیزوں کے حفاظت تم سے طلب کی ہے اور جو حقوق تمہارے ذمہ عائدکئے ہیں ،ان کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو ۔کیونکہ اللہ سبحانہ نے تمھیں بے کار پیدا نہیں کیا اور نہ اس نے تمھیں بے قید و بند جہالت و گمراہی میں کھلا چھوڑ دیا ہے، اس نے تمہارے کرنے اور نہ کرنے کے اچھے اور برے کام تجویز کر دیئے ہیں اور( پیغمبراکرم(ص) کے ذریعہ) سکھا دئیے ہیں ۔
اس نے تمہاری عمریں مقررومعین کر دی ہیں اور تمہاری طرف ایسی کتاب بھیجی ہے جس میں ہر چیز کا کھلا کھلا بیان ہے۔ اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زندگی دے کر مدتوں تم میں رکھا، یہاں تک کہ خداوندکریم نے قرآن مجیدمیں اپنے نبی(ص)(ص)کے لئے اور تمہارے لئے دین کو پسند کر لیا اسے کامل کر دیا۔ پیغمبر اکرم (ص)کے ذریعہ پسندیدہ اور نا پسندیدہ افعال (کی تفصیل)اور اوامر و نواھی تم تک پھنچا دیئے ، اس نے اپنے دلائل تمہارے سامنے رکھ دئیے ،اور تم پر اپنی حجت قائم کر دی اور (آنے والے)سخت عذاب سے پہلے ہی خبردار کر دیا ۔
تو حےد و اصول علم
حضرت امیر المومنین علیہ السلام تو حےد سے متعلق خطبہ میں علم و معرفت کے اصول بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
ما وحّده مَن کیفّه ولا حقيقَتهُ اٴصاب مَن مَثّله ولا اِیاه عنٰیٰ من شبْهّه ولاصمده مَن اٴشارَ اِلیه و توهمه کل معروف بنفسه مصنوع و کل قائم فی سواه معلول فاعل لا باضطراب آله مُقِّد ر لا بجول فکر ه غنيٌّ لا باستفاده لا تَصحَبُهُ الاٴوقات ولا تر فِدُه الاد وات سبق الاٴوقات کونُه والعدم وجودةُ واِلا بتداءَ اٴوله
جس نے اسے مختلف کےفےتوں سے متصف کیا اس نے اسے ےکتا نہیں سمجھا جس نے اس کا مثل ٹھھرایااس نے اس کی حقیقت کو نہیں پایا،جس نے اسے کسی چیز سے تشبیہ دی اس نے اس کاقصد وارادہ نہیں کیا جس نے اسے قابل اشارہ سمجھا اس نے اسے اپنے تصور کاپابند بنالیا۔
ھر معروف چیز اپنی ذات میں مصنوع و مخلوق ہے وہ آلات کو حرکت میں لائے بغیر فاعل ہے وہ ہر چیز کا مقرر کرنے والا ہے وہ فکر کی جو لانی کے بغیر ہی وہ اپنے کام میں دوسروںکا محتاج نہیں ہے اس کاکوئی ہم نشین نہیں ہے اور نہ آلات اس کے معاون و معین ہیں اس کی ہستی زمانہ سے پہلے اور اس کا وجودعدم پر سبقت رکھتا ہے اور اس کی ابتدا ہی اول ہے اس کے بعد حضرت امیر المؤمنین ارشاد فرماتے ہیں۔
ولا تجري علیهِ الحرکة و السکون و کیف يجري علیه ما هو اٴجراه و يعود فیه ما هو اٴبدا ه و یحدث فیه ما هو اٴحدثه
حرکت و سکون اس پر طاری نہیں ہو سکتے ،بھلا جو چیز اس نے مخلوقات پر طاری کی ہو ،وہ اس پر کیونکر طاری ہوسکتی ہے جو چیز سب سے پہلے اس نے پیدا کی ہو وہ اس کی طرف کیونکر لوٹ سکتی ہے اور جس چیز کو اس نے پیدا کیا ہو وہ اس میں کیونکر پیدا ہو سکتی ہے، اس کے بعد پھر حضرت ارشاد فرماتے ہیں :
اَلذي لا يحول ولا يزو ل ولا يجوز علیه الاٴفول لم یلد فیکون مولودا ولم یو لد فيصير محدودا جل عن اِتخاذ الاٴ بناء و طَهُرَ عن ملامسة النساء لا تناله الاٴ وهام فتقدره ولا متوهمهُ الفطَن فتصوره ولاٴتدرکه الحواس فتُحسُّهَ
۔
اس میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی ہے اور نہ اس پر زوال طاری ہوتاھے، نہ اس کے لئے غروب ہونا روا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے، ورنہ یہ محدود ہو کر رہ جائے گا،وہ اہل و عیال رکھنے سے بلند وبالا اور عورتوں کو چھونے سے پاک و منزہ ہے ۔
تصورات اسے نھیںچھو سکتاکہ اس کا اندازہ لگاسکیںاور عقلیں اس کا تصور نہیں کر سکتیں تاکہ اس کی کوئی صورت مقرر کرسکیں حواس اس کا اداراک نہیں کر سکتے کہ اسے محسوس کرسکیں ۔
اس کے بعدحضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے ارشاد فرمایا :
ولا یوصف بشیء من اَلاٴجزا ء ولا با لجوارح والاٴ عضاء ولا بعرضٍ من الاٴعراض ولا بالغیریة والا بعا ض ولا یقال له حدٌّ ولانهایة ولا اِنقطاع و لاغایة
ولا اٴنَّ الاشیاء تحویه فتقلّه اٴوتُهویه اٴواٴنَّ شیئاً یحمله فیمیلهُ اٴو یعدله لیس من الاشیاء بِوالِج ولا عنها بخارج
یخبر لابلسان ولهوات و یسمع لا بخروق واٴدوات یقول ولا یلفظ و یحفظ ولا یتحفظ و یرید ولا یضمر یحب ویرضیٰ من غیر رقه و یُبغضُ و یغضب من غیر مشقة
يقول لمن اٴراد کونه‘ کن فیکون لا بصوت يَقرَعُ ولا بنداء یُسمع واِنماکلامه سبحانه فعل منه اٴنشاٴه ومَثَّلَه لم یکن من قبل ذلک کائناً ولوکان قديما لکان اِلٰها ثانیا“
اسے اجزا اوراعضاء وجوا رح میں سے کسی کے ساتھ متصف نہیں کیا جاسکتا اس کے لئے کسی حد اور اختتام ،زوال پذےری اور انتھاء کو نہیں بیان کیا جاسکتا اور نہ یہ چیزےں اس پر غالب ہیں کہ ان اشیاء کے ہو نے یا نہ ہونے سے اس کی عظمت میں کوئی فرق پڑتاھو۔
اورتمام اشیاء اس کے ارادے کے تابع ہیں، وہ نہ چیزوں کے اندر ہے اور نہ چیزوں کے باھر ،وہ زبان کی حرکت کے بغیر خبر دیتا ہے وہ آلات سماعت اور کانوں کے سوراخوں کے بغیر سنتا ہے اور وہ تلفظ کے بغیر بات کرتا ہے وہ یاد کرنے کے بغیر ہی ہر چیز کو یاد رکھتا ہے اور وہ ضمےر اور قلب کے بغیر ارادہ کرتا ہے اور وہ رقت طبع کے بغیر دوست رکھتا اور خوشنود ہوتا ہے وہ غم وغصہ کے بغیر ہی دشمن رکھتا ہے اور غضبناک ہوتا ہے ۔
وہ جس چیز کو پیدا کرنا چا ھتا ہے تواسے ”کن “کھتا ہے توو ہ ہوجاتی ہے بغیر ایسی آواز کے جو کانوں کے پردوں سے ٹکرائے اور بغیر ایسی صدا کہ جو سنی جاسکے بلکہ اللہ سبحانہ کا کلام اس کا اےجاد کردہ فعل ہے اور اس طرح کا کلام پہلے سے موجود نہیں ہوسکتا ،اگر وہ قدےم ہوتا تو دوسرا خدا ہوتا۔
لوگوں کواللہ نبی (ص)اور اھلبیت (ع)کی طرف رجوع کرنے کی تاکید
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام لوگوں کو اللہ ،نبی(ص) اور اھلبیت علیھم السلام کی طرف رجوع کرنے پر زور دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
اِنَّ اللّٰه خَصَّ محمداً بالنبوة واصطفاه بالرسالةو اٴنباٴهُ بالوحي فانال بالناس و اٴنال وعندنا اٴهل البیت معاقلُ العلم واٴبوابُ الحکم و ضیاءُ الاٴمر فمن یُحبُّنا ینفعه اِیمانُه و یُتَقَبَّل عمله و من لا یُحبُّنا لا ینفعه اِیمانه ولا یُتَقَبّل عمله و اِن داٴب اللیل و النهار
بے شک اللہ تبارک و تعالی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت کے ساتھ مختص فرمایا اور رسالت کے لئے ان کا انتخاب کیا اور انھیں وحی کے ذریعہ خبریں دیں اور انھیں لوگوں کی نسبت خیر کثیر عطا فرمایا۔ ہمارے نزدیک اھلبیت ہی علم کی عقلیں، ابواب حکمت اور امر خدا کے نور ہیں جو شخص ہمارے ساتھ محبت رکھے گا اس کا ایمان اسے نفع دے گا اور اس کا عمل مقبول ہو گا اور جو شخص ہمارے ساتھ محبت نہیں رکھے گااس کا ایمان بھی اسے کوئی فائدہ نہیں دے گا اور اس کا عمل بھی قبول نہیں ہوگا اگرچہ وہ عمل کرتے کرتے دن رات ایک کر دیں۔
قارئین کرام!اسی گذشتہ خطبہ کی طرح آپ کا ایک اور خطبہ بھی ہے جس میں آپ اس طرح ارشاد فرماتے ہیں :
اٴلا اِن اٴبرار عترتي و اٴطایب اٴرومتي اٴحلم الناس صغاراً واٴعلم الناس کباراً اٴلا و اِنّا اٴهل بیت من عِلم اللّٰه عُلِّمنا و بحکم اللّٰه حَکمنا
وبقول صادق اٴخذنا فاِن تتَّبعوا آثارنا تهتدوا ببصائرنا و اِن لم تفعلوا یُهلِکُکَم اللّٰه بایدنا معنا رایة الحق مَن تبعها لحق ومَن تاٴخر عنها غرق اٴلا وبنا
خبردار! یہ میری عترت(ع) کے نیک افراد ہیں اور اصل میں پاکیزہ افراد ہیں ان کے بچے دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ حلیم اور ان کے بڑے دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ عالم ہیں ۔
تُدَرک ترة کلِّ مؤمن وبنا تُخلع رِبقةُ الذل من اٴعناقکم و بنا فَتَح لابکم و بنا یختم لابکم
خبردار! بے شک ہم اھلبیت کا علم اللہ کے علم سے ہوتاھے اور اللہ کے حکم سے ہی ھمارا حکم ہوتاھے اور ہم ہی اپنی گفتگو میں صادق ہیں ۔اگر تم لوگوں نے ھمارااتباع کیا تو تم بھی ھماری بصیرتوںتک پہنچ جاؤ گے اور اگر تم نے ھمارا اتباع نہ کیا توا للہ تعالی تم کو ہمارے ہاتھوں ہلاک کردے گا۔
حق و صداقت کا پر چم ہمارے پاس ہے ۔ جس نے اس کی پیروی کی وہ ہمارے ساتھ مل جائے گا اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ غرق و بر باد ہو جائے گا ہمارے ذریعے ہر مومن حق کو پا سکتا ہے اور ہمارے وسیلے سے ہی گردنوں میں پڑے ذلت کے طوقوں سے نجات مل سکتی ہے ،ھمارے ذریعہ سے فتح حاصل کی جاسکتی ہے نہ تمہارے ذریعے سے ،اورسر انجام ہمارے ہاتھ میں ہے نہ تمہارے ہاتھ میں۔
۵ ۔اسلام اور شریعت کے اوصاف
حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اسلام اور شریعت کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :
الحمدُ للّٰه الذي شرّع الاٴسلام فسّهل شرائعهُ لمن ورده واٴعز اٴرکانه علیٰ مَن غالبه فجعله اٴمنا لمن علقهَ وسلماً لمن دَخَلَه
وبرهاناً لمن تکلم به و شاهداً لمن خاصم عنه و نوراً من اِستضاء به وفهما لمن عقل ولباً لمن تدبر و آیة ً لمن توسم وتبصرةً لمن عزم وعبرة لمن اِتعظ ونجاةً لمن صدق وثقةً لمن توکل وراحةً لمن فوّض وَجَّنةً لمن صبر
تمام حمد اس ذات کے لئے ہے جس نے شریعت اسلام کو جاری کیا اور اس (کے سرچشمہ)ھدایت پر اترنے والوں کے لئے اس کے قوانین کو آسان بنایا اور اس کے ارکان کو حریف کے مقابلے میں غلبہ وسرفرازی عطاکی چنانچہ جو اس سے وابستہ ہوا اس کے لئے امن ہے اور جواسمیں داخل ہوا اس کے لئے سلامتی ہے جو اس کی بات کرے اس کیلئے دلیل
اور جو اس کی حمایت میں لڑے تو یہ اس پر شاھد و گواہ ہے ۔
جواس سے ضیاء حاصل کرے اسکے لئے نورھے ،عقل مند کیلئے فھم و فراست ہے ،غور کرنے والے کے لئے تدبیر ،تصدیق کرنے والے کے لئے نجات ، بھروسہ کرنے والے کے لئے باعث اعتماد اورراحت ہے اس کیلئے جو امور کو اس کے سپرد کرے، اور صبر کرنے والے کے لئے سپرھے۔
اس کے بعدمزید ارشاد فرماتے ہیں:
التصدیق منهاجُه والصالحات منارهُ والموت غایتةُوالدنیا مضمارَه والقیامة حَلَبتُه والجنة سُبقَتهُ
تصد ےق اس (اللہ اور رسول )کا راستہ ہے اور اچھے اعمال (اس کے )نشا نات ہیں دنیا گھوڑے سواری کا میدان اور موت اس کی انتھاھے ،اور دنیا اس کا میدان ہے،اور قیامت ا نعام کی جگہ اور جنت انعام ہے۔
۶ ۔فرائض اسلام کی دعوت
ایک اور خطبہ جس میں حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرائض کا تذکرہ کرتے ہوئے لوگوں کو ان فرائض کی طرف دعوت دیتے ہیں۔
اِنَّ اٴفضل ما توسّل بهِ المتوسلون اِلیٰ الله سبحانه و تعالی الایمانُ به وبرسوله والجهاد في سبیلهِ فاِنه ذروة الِاسلام و کلمةُ اِلاخلاص فاِنها الفطره واِقامُ الصلوٰة فاِنها المِلَّه واِیتاٰء الزکاٰة فاِنها فریضةٌ واجبة و صوم شهر رمضان فانهّ جنة من العقاب وحَجُّ البیت واِعتماره فاِنَّهما ینفیان الفقر ویرحضان الذنب ‘ وصلة الرحم فاِنهامثراةٌ في المال ومنساٴ ة في الاجِل وصدقة السرّ فانهاتکفرّ الخطیئةً وصدقة العلانیة
فانها تدفع میتة السوء وصنائع المعروف ‘فانها تقی مصارع الهوان اٴفيضوا في ذکرالله فاِنّهُ اٴحسن الذکر وارغبوا فیما وعدالمتقین فاِن وعد هُ اُصدقُ الوعد واهتدوا بهدیٰ نبیکم
فاِنّه اٴفضل الهدُی واستنؤا بسَنَّته فاِنها اٴهدیٰ السُنن وتعلموا القرآن فاِنهَّ اٴحسن الحدیث وتفقهوا فیه فاِنه ربیعُ القلوب واستشفوا بنوره فاِنه شفاء الصدور واٴحسنوا تلا وته فاِنّه اٴنفع القصص
واِنّ العالم العامل بغیر علمه کالجاهل الحائر الذي لایستفیق من جهلهِ بل الحجة ُعلیه اٴعظم والحسرةُ له اٴلزَم وهو عندالله اٴلَومْ
اللہ تعالی کی طرف و سےلہ ڈھونڈنے والوں کے لئے بھترین وسیلہ اللہ اور اس کے رسول(ص) پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرناھے اس لئے وہ اسلام کی سربلند چوٹی ہے اور کلمہ توحےدکو اپنانا اس لئے کہ وہ فطرت (کی آواز)ھے اور نماز کی پابندی کرناکیونکہ وہ عےن دین ہے اور زکوة ادا کرنا کیونکہ وہ فرض اور واجب ہے۔
اور ماہ رمضان کے روزے رکھنا کیونکہ وہ عذاب کی سپر ہیں اور خانہ کعبہ کا حج وعمرہ بجالانا کیونکہ وہ مال کی فراوانی اور عمر کی درازی کا سبب ہیں اور مخفی طور پر خیرات اداکرناکیونکہ وہ گناھوں کا کفارہ ہے اور کھلم کھلا خیرات دینااس لئے کہ وہ بری موت سے بچاتا ہے اور لوگوں پر احسان کرنا کیونکہ وہ ذلت اور رسوائی کے مواقع سے بچاتا ہے ۔
ھمیشہ اللہ کا ذکرکرتے رہو کیونکہ وہ بھترین ذکر ہے،اور اس چیز کی تمنا رکھو کہ جس کا اللہ نے پرھیز گاروں سے وعدہ کیا ہے اور اس کا وعدہ سچا ہے ۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کی پیروی کروکہ وہ بھترین سیرت ہے اور ان کی سنت پر عمل کرو کیونکہ وہ ھدایت کا بھترین طریقہ ہے اور قرآن کا علم حاصل کرو کیونکہ وہ بھترین کلام ہے اور اس میں غور و فکر کرو کیونکہ یہ دلوں کی بہار ہے۔
اور اس کے نور سے شفا حاصل کرو کہ وہ(سینوں کے اندر چھپی ہوئی بیماریوں) کے لئے شفا ہے۔ اور اس کی اچھی طرح تلاوت کروکیونکہ اس کے قصے ،سب سے زیادہ فائدہ مند ہیں ،وہ عالم جو اپنے علم کے مطابق عمل نہیں کرتا وہ اس سرگرداں جاھل کی مانند ہے جو جہالت کی سرمستیوں سے ہوش میں نہیں آتا بلکہ اس پر( اللہ کی )عظیم حجت قائم ہے اور حسرت و افسوس اس کامقدر ہے، اور اللہ کے نزدیک وہ زیادہ قابل ملامت ہے۔
۷ ۔دنیا اور اس کی زینت سے دور رھنے پر تاکید
حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام دنیا اور اس کی زینت سے ڈراتے ہوئے اور موت اور اس کے حالات کی یاد دلاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :
واُحذِّرکُم الُدنیافاِنها منزل قُلعَةٍ و لیست بدار نُجعةٍ قد تزیِّنت بغرورها و غرِّت بزینتها دارٌ، هانت علیٰ ربِّها فخلط حلالَها بحرامها وخیرها بشرها و حیاتها بموتها و حلوها بمرها
لم یصفها اللّه تعالیٰ لاولیائهِ ولم یَضِنُّ بهاعن اٴعدائهِ خیرُها زهید و شرُّها عتید و جمعها ینفذُو ملُکها یُسلَب و عامِرهُا یَخرَب فما خیر دارٍ تُنقضُ نَقض البنا ء وعمرٌ یُفنیٰ فیها
فنا ء الزاد و مدّة تنقطع اِنقطاع اِلسیر! اِجعلوا ماافترضَ اللّه علیکَم من طلبتکمُ واَ ساٴ لوه من اٴداء حقّهِ کما ساٴلکم واٴسمعِوا دعوة الموت آذا نَکم قبل اٴن يُدعیٰ بِکُم
میں تمھیں دنیا سے خبردار کئے دیتا ہوںکیونکہ یہ ایسے شخص کی منزل ہے ۔
جس کے لئے قرار نہیں ہے اور ایسا گھر ہے جس میں آب و دانہ نہیں ڈھونڈا جا سکتا ۔یہ اپنے باطل سے آراستہ ہے اور اپنی آرائیشوں سے دھوکہ دیتی ہے یہ ایک ایسا گھر ہے جو اپنے رب کی نظروں میں ذلیل و خوار ہے۔ چنانچہ اس نے حلال کے ساتھ حرام اور بھلائیوں کے ساتھ برائیاں اور زندگی کے ساتھ موت اور شیرینیوں کے ساتھ تلخیاں مخلوط کر دی ہیں اور اپنے دوستوں پر اس کی خصوصیات کو واضح کردیا اور دشمنوں پر بھی کو ئی چیز پوشےدہ نہیں رکھی ۔
اس کی بھلائیاں بہت ہی کم ہیں اور برائیاں جہاں چاھوموجود ہیں ، اسمیں اکٹھا کیا ہوا مال ختم ہو جانے والا ہے اور اس کاملک چھن جانے والا اور اس کی آبادیاں ویران ہو جانے والی ہیں ۔بھلا اس گھر میں خیر وخوبی ہی کیا ہو سکتی ہے جو کمزور عمارت کی طرح گر جائے اوروہ عمر میں جو زاد راہ کی طرح ختم ہو جائے اوروہ مدت میں جو چلنے پھرنے کی طرح تمام ہو جائے جن چیزوں کی تمھیں طلب و تلاش رھتی ہے ان میں اللہ تعالی کے فرائض کو بھی شامل کر لو اور جو اللہ نے تم سے چاھاھے اسے پورا کرنے کی توفیق بھی اس سے مانگو ،موت کا پیغام آنے سے پہلے اس پر توجہ دو ۔
اس کے بعداسی خطبہ میں حضرت(ع) مزید فرماتے ہیں :
اِنَّ الزاهدین في الدنیا تبکي قلوبهم واِن ضَحِکو ا ویشتُدحزنُهم واِن فَرِحوا و یکثُر مقتُهم اٴنفُسَهُم واِن اِغتبطوابمارُزقواقِد غاب عن قلوبکم ذکرُ الآجال وحضر تکم کواذب الآمال فصارت الدنیا اَمَلکُ بکم من الاٴخرة والعاجلهَ اٴٴَذهبَ بکمُ من الٓاجلهَ و اِنّما اٴنتم اِخوانُ علیٰ دین الله ما فرق بینکم اِلّاخبُثُ السرائر وسوُ ءُ الضمائر فلا توازرون ولا تناصحون ولا تباذلون ولا توادوُن
مابالَکم تفرحون بالیسیر من الدنیا تُدرکونهولا یحزُنُکم الکثیر من الآخرةِ تُحرّمونهُ و یُقلقُکم الیسیر من الدنیا یفوُتکم حتیٰ یتبیِّن ذلک في وجوهِکُم وقِلّةِ صبرِکمُ عمازويَ منها عنکم کاٴنها دار مُقامکم و کاٴن متاعَها باقٍ علیکم
اس دنیا میں زاہدوں کے دل روتے ہیں ،اگرچہ وہ ھنس رھے ہوں اور ان پرغم و اندوہ طاری رھتاھے اگرچہ ان (کے چھروں) سے مسرت ٹپک رھی ہو اور انھیں اپنے نفسوں پر انتہائی غلبہ ہوتا ہے اگرچہ وہ رزق جو انھیں میسر ہے وہ قابل رشک ہے ۔ تمہارے دلوں سے موت کی یاد ختم ہو گئی ہے اور جھوٹی امید وں نے تمہارے اندر گھر بنالیا ہے ،آخرت کی بنسبت تمہارا جھکا ؤدنیا کی طرف زیادہ ہے اور وہ عقبیٰ سے زیادہ تمھیں اپنی طرف کھینچتی ہے ۔تم دین خدا کے سلسلہ میں ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہو ۔
لیکن بد نیتی اور بد گمانی نے تم میں تفرقہ ڈال دیا ہے ،نہ تم ایک دوسرے کا بوجھ بٹاتے ہو نہ باھم پند و نصیحت کرتے ہو،نہ ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہو، اور نہ تمھیں ایک دوسرے کی چاھت ہے ۔
تھوڑی سی دنیا پا کر تم خوش ہوجاتے ہولیکن آخرت کے بیشتر حصہ سے محرومی تمھیں غم زدہ نہیں کرتی ذرا سی دنیا کاتمہارے ہاتھ سے نکلنا تمھیں بے چین کر دیتا ہے ۔
یہاں تک کہ بے چینی تمہارے چھروں سے ظاہر ہونے لگتی ہے اور کھوئی ہوئی چیز کے سلسلہ میں تمہاری بے صبری آشکار ہو جاتی ہے گویا یہ دنیا تمہارا (مستقل )مقام ہے اور دنیا کا ساز و برگ ہمیشہ رھنے والا ہے ۔
۸ ۔ توکل خدا
حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اپنی ایک دعا میں لوگوں کو خدا پر توکل اور بھروسہ کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :
اللّٰهم صن وجهي بالیسار ولا تبذُل جاهي بالاٴِ قتار فاستَر زقُ طالبي رزقکِ واٴستعِطف شرار خلقک واٴُبتلیٰ بحمد مَن اعطاني واٴُفتتن بذمِّ مَن مَنعني و اٴنتَ مِن وراء ذلک کلِّه ولي الاعطا ءِ والمنع اِنک علیٰ کلِّ شیءٍ قدیر
خدایا!میری آبرو کو غناء و توانگری کے ساتھ محفوظ رکھ اور فقر و تنگ دستی سے میری منزلت کو نظروں سے نہ گرا کہ میں تجھ سے رزق مانگنے والوں سے رزق مانگنے لگوں ۔
اورتیرے بندوں کی نگاہ لطف وکرم کواپنی طرف موڑنے کی تمنا کروں اور جو مجھے دے اس کی مدح وثناء کرنے لگوں اور جو نہ دے اس کی برائی کرنے میںمشغول ہو جاؤں اور ان سب چیزوں کے پس پردہ توھی عطا کرنے اور روک لینے کا اختیار رکھتا ہے بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
ظلم سے ممانعت
حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام ظلم اور ظالموںکا تعاون کرنے سے منع کرتے ہوئے، اپنے خطبے میں اس طرح ارشاد فرماتے ہیں:
واللّٰه لان اٴبیت علیٰ حَسَک السَّعدانِ مُسهّدا، اٴواٴُجَرَّ في الاغلالِ مُصفَّداًاٴحب اِليّٰ مِن اٴن اُلقی اللّٰه ورسولَهُ یوم القیامةِظالماً لبعضِ العبادِ
وغاصباً لشيءٍ من الحُطام، وکیف اٴظلِمُ اٴحداً لنفسٍی یسرع اِلیٰ البِلیٰ قُفُولها ويطولُ في الثریٰ حلولُهاواللهِ لقد راٴیت عقیلًا، وقد اٴمَلَقَ حتٰی استما حني من بُرِّکم صاعاً، وراٴیت صبیا نه شُعثَ الشعور غُبرَ الالوانِ من فقرِهم کاٴنما سوُدَتْ وُجوُهُهم بالعظِلم
وعاودنی مؤکداًوکُررعليَّ القول مردّداً فاٴصغیت اِلیه سمَعي فظن اٴنی اٴبیعه دیني واٴتبع قیادَهُ مفارقاًًطریقتي فاحمیتُ لهُ حدیدةً
ثم اٴدنیتَها من جسمهِ لیعتبرَبها فضج ضجیج ذي دَنَفٍ من اٴلمِها، وکاد اٴن یحترق من میسمها، فقلتُ له ثَکِلْتکَ الثواکِلُ یاعقیل اٴتئنُّ من حدیدةٍ اٴحماها اِنسانُها للعبِهِ، وتجرني اِلیٰ نارٍ سجَّرها جبارُها لغضبهِ اٴتئنُّ من الاٴذیٰ ولا اٴئِنّ من لظیٰ
خدا کی قسم مجھے سعدان کے کانٹوں پر جاگتے ہوئے رات گزارنا ، اور طوق و زنجےر میں جکڑ کر گھسےٹ کرلے جانا اس سے کھیں زیادہ پسند ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول(ص) سے اس حالت میں ملاقات کروں کہ میں نے اس کے کسی بندے پر ظلم کیا ہویا کسی کامال غصب کیا ہو میں اپنے اس نفس کی خاطر کیونکر کسی پر ظلم کر سکتاھوں جو جلد ہی فناھونے والا اور مدتوں تک مٹی کے نےچے پڑا رھنے والا ہے ۔
خدا میں نے(اپنے بھائی )عقےل کوسخت فقروفاقہ کی حالت میں دےکھا یہاں تک کہ وہ اپنے (حصہ کے)گیھوںمیں ایک صاع مجھ سے اضافی مانگنے لگے اور میں نے ان کے بچوں کو بھی دےکھا جن کے بال بکھرے ہوئے اور فکر وبے نوائی سے ان کے چھرے مرجھائے ہوئے تھے گویا ان کے چھرے نیل چھڑک کر سیاہ کر دےے گئے ہیں۔
وہ اصرار کرتے ہوئے میرے پاس آئے اور اس بات کو بار بار دھرایا میں نے ان کی باتوں کو کان لگا کر سنا تو انھوں نے یہ خیال کیا کہ میں ان کے ہاتھ اپنا دین بےچ ڈالوں گا اور اپنی روش کوچھوڑ کر ان کے دباؤ میں آ جاؤں گا مگر میں نے یہ کیا کہ ایک لوھے کی سلاخ کوگرم کیا اور پھر ان کے جسم کے قریب لے گیا تاکہ وہ عبرت حاصل کرےں ۔
چنانچہ وہ اس طرح چیخے جس طرح بےمار درد وکرب سے چیختا ہے اور قریب تھا ان کابدن اس داغ دینے سے جل جائے پھر میں نے ان سے کھاکہ اے عقیل رونے و الیاںتجھ پر روئےں کیا تم اس لوھے کے ٹکڑے سے چےخ اٹھے ہو۔ جسے ایک انسان نے ھنسی مذاق میں (جلانے کی نےت کے بغیر )گرم کیا ہے۔ اور تم مجھے اس آگ کی طرف دعوت دے رھے ہو کہ جس کو خداوند قہار نے اپنے غضب سے بھڑکایا ہے ۔تم تو اذےت سے چےخو۔اور میں جھنم کے شعلوں سے نہ چلاؤں۔
۱۰ ۔ تقویٰ اور خوف خدا
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام لوگوں کو تقویٰ اور خوف خدا اختیار کرنے پرتحریک کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :
عبادُالله اُوصيکم بتقویٰ اللّه فاِنها حق اللّه علیکم والمُوجِبةُ علیٰ اللّهِ حَقَّکم واٴن تستعینوا علیهاباللّه وتستعینوا بها علیٰ الله فاِنَّ التقویٰ في الیوم الحرزوالجنة وفي غدٍ الطریق اِلیٰ الجنة مَسلَکهُا واضح وسالِکُها رابح ومستَودَعهُا حافِظلم تَبرح عارضةٌ نَفسها علیٰ الاٴُمم الماضَین منکم والغابرين
لحاجتِهم اِلیها غداً اِذا اٴعاد اللّهُ مااٴبدیٰ واُخذما اٴعطیٰ وساٴل عمّا اٴسدیٰ فما اٴقلَّ مَن قَبِلَها وحَمَلَها حقَّ حَمِلهَا اٴولئِکَ الا قلّون عدداًً وَهم اٴهلُ صفةِ اللّٰه سبحانَهُ اٴذیقول ”وقلیلٌ مِن عبادي الشکور“
اے بندگان خدا میں تمھیں اللہ سے ڈرتے رھنے کی وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کا تم پر حق ہے جو اللہ پر تمہارے حق کوثابت کرنے کا مؤجب بنتا ہے۔تقوی ٰ کے ذریعہ اللہ سے مددطلب کرواور (تقرب) الٰھی کے لئے اس سے مدد مانگواس لئے کہ تقوی اس دنیا میں پناہ و سپر ہے اور کل جنت میں وہ ایک واضح اورآشکارراستہ ہے اور اس کی راہ پر چلنے والا نفع میں رھے گاجو اس کا حامل ہے اس کا یہ نگھبان ہے ۔
یہ تقوی اپنے آپ کوگذشتہ اور آئندہ آنے والی امتوں کے سامنے ہمیشہ پیش کرتا رہاھے کیونکہ ان سب کو کل اس کی ضرورت ہو گی ۔کل جب خداوند عالم اپنی مخلوق کو دوبارہ پلٹائے گا اور جو ان کو دے رکھا ہے وہ واپس لے گا اور اپنی بخشی ہوئی نعمتوں کے بارے میں سوال کرے گا تو اسے قبول کرنے والے اور اس کا پورا پورا حق ادا کرنے والے بہت ہی کم نکلیں گے وہ گنتی کے اعتبار سے کم اوراللہ کے اس قول کے مصداق ہیں”میرے بندوں میں شکر گزار بندے کم ہیں اس کے بعدحضرت اسی خطبہ میں مزید فرماتے ہیں:
اٴیقظوا بها نومَکُم واقطعوا بها یَومَکم واشعروها قلوبَکم وارحَضوا بها ذُنُوبَکم وداووا بها الاٴسقام و بادروا بها الحِمام واعتبروابمَن اٴضاعها ولا یَعتَبِرَنَّ بکَم مَن اٴطاعها
اسے خواب غفلت سے چونکنے کا ذریعہ بناؤاور اسی میں اپنے دن کاٹ دو اور اسے اپنے دلوں کا شعار بناؤ اور گناھوں کو اس کے ذریعہ سے دھوڈالو اور اس سے اپنی بیماریوں کا علاج کرو اور موت سے پہلے اس کا توشہ حاصل کرو اور جنھوں نے اسے ضائع و برباد کیا ہے ان سے عبرت حاصل کرو جوتقویٰ پر عمل کرے گا دوسروں کیلئے نمونہ عمل قرار پائے گا ۔
کلمات قصار‘ جلالت معنیٰ اور بھترین روش کا ایجاد کرنا
حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ اسلام کے کلمات قصار جلالت معنی ٰ اور بداعات سبب کا اعلیٰ نمونہ ہیں جیسا کہ آپ ارشاد فرماتے ہیں :
فاِنَّ الغایة اٴمامَکُم واٴنَّ وراء کُم الساعةَ تحدوکم تَخفّفوا تلحقو افاِنّما یُنَتظَرُ باوّلِکُم آخرِکم
تمہاری منزل مقصود تمہارے سامنے ہے موت کی ساعت تمہارے پیچھے ہے جو تمھیں آگے کی طرف لئے چل رھی ہے ھلکے پھلکے رہو تاکہ آگے بڑھنے والوں کو پاسکوتم سے پہلے جانے والے، آنے والوں کے منتظر ہیں تاکہ یہ بھی ان تک پہنچ جائیں ۔
سید رضی فرماتے ہیں کہ کلام خدا و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جس کلام سے بھی ان کلمات کا موازنہ کیا جائے تو حسن و خوبی میںان کا پلہ بھاری رھے گا اور ہر حیثیت سے یہ کلمات ممتاز نظر آئیں گے ۔
لوگوں کوعمل صالح کی طرف رغبت دلانا
لوگوں کو عمل صالح کی طرف رغبت دلاتے ہوئے حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں :
اِن المالَ والبنینَ حرثُ الدنیاوالعمل الصالح حرثٌ الٓاخرة
ُوقد یجمعُهما الله تعالیٰ لاٴقوام فاحذروامن اللّٰه ما احذّرکم مِن نفسه واخشوهُ خشیة لیست بتعزیر واعملوا من غیر ریاءٍ ولا سمعةٍ فاِنه من یعمل لغیرِ اللّٰه یکلهُ اللّٰه اِلیٰ مَن عَمِلَ له نساٴ ل اللّٰهَ منازلَ الشهداء و معایشة السعداء و مرافقة الاٴنبیاء
بے شک مال اور اولاد دنیا کی کھیتی اور عمل صالح آخرت کی کھیتی ہے اور بعض لوگوں کے لئے اللہ ان دونوں کوایک جگہ جمع کردیتا ہے ،جتنا اللہ نے ڈرایا ہے اتنا اس سے ڈرتے اورخوف کھاتے رہو کہ تمھیں عذر نہ کرنا پڑے ،اس لئے بغیر ریاکے عمل انجام دوکیونکہ جوشخص کسی اور کے لئے عمل انجام دیتا ہے،اللہ اس کو اسی کے حوالے کردیتا ہے۔
ھم اللہ سے شھیدوں کی منزلت اور نیک لوگوں کی معاشرت اور انبیاء کی رفاقت کا سوال کرتے ہیں۔
موت کے بعدکا خوف وھراس
حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام موت کے بعد پیش آنے والے خوف وھراس کامنظر اپنے ایک خطبہ میں اس طرح پیش کرتے ہیں:
فاِنکم لو قدعاینتم ماقد عاینَ من ماتَ منکم لجزعتُم و وَهلتم و سَمِعتمُ و اٴَطعتم ولکن محجوبٌ عنکم ماقد عاینواو قریبٌ مایُطرح الحجاب ولقد بُصِّرتم ان اٴبصرتم و اٴُسمِعتُم اِن سَمِعتم و هُدیتم اِن اِهتدیتم وبحقٍ اٴقول لُکم: لقد جاهرتکم العبِرَ و زُجِرتُم بما فیه مزدَجَر وما یبلِّغُ عن الله بعد رُسُل السماءِ اِلاّ البشر
جن چیزوں کو تمہارے مرنے والوں نے دیکھا ہے ۔اگر تم بھی انھیں دیکھ لیتے توتم پریشان، سراسیمہ اور مضطرب ہو جاتے اور (حق کی بات)سنتے اور اس پر عمل کرتے لیکن جو انھوں نے دیکھا ہے وہ ابھی تک تم سے پوشیدہ ہے اور قریب ہے کہ وہ پردہ اٹھا دیا جائے۔
اگر تم چشم بینا اور گوش شنوا رکھتے ہو تو تمھیں سنایا اور دکھایا جاچکاھے اور اگر تم کوھدایت کی طلب ہے تو تمھیں ھدایت کی جاچکی ہے میں سچ کہہ رھاھوں کہ عبرتیں تمھیں بلند آواز سے پکار رھی ہیں اور دھمکانے والی چیزوں سے تمھیں دھمکایا جا چکا ہے۔ آسمانی رسولوں (فرشتوں )کے بعد بشر ہی ہیں جو تم تک اللہ کا پیغام پھنچاتے ہیں
علم اور علماء کی فضیلت ۔
حضرت امیر المومنین علی (ع)بن ابی طالب علیہ السلام حضرت کمیل بن زیاد کو ایک وصیت میں علم اور علماء کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :
یاکُمیل اِنَّ هذه القلوب اٴوعیة فخیرُها اٴوعاها احفظ ما اٴقول لک الَناس ثلاثةُ عالم رَبّاني و متعلِّم علیٰ سبیل النجاة و همج رعاعٌ اَتباع کل ناعق یمیلون مع کل ریح لم یستضیئوابنور العلم
ولم یلجئوا اِلیٰ رکن وثیقیاکمیل العلم خیر مِنَ المال ،العلم یحرسُک و اٴنت تحرس المال العلم یزکوٰ علیٰ اِلانفاق والمال یزول و محبة العلم دین یُدان به یکسبه الطاعة فی حیاته و جمیل الاحدوثَه بعد مماته العلم حاکم والمالُ محکوم علیه یا کمیل مات خزانِ المال وهم اٴحیاء والعلما ء باقون ما بقي الدهر اٴعیانهم مفقوده و اٴمثالهم في القلوب موجودة
اے کمیل! یہ دل، اسرار ورموز کے ظروف ہیں ان میں سب سے بھتر وہ ہے جو زیادہ نگھداشت رکھنے والا ہو لہٰذا جو میں تمھیں بتاؤں، تم اسے یاد رکھنا ۔
دیکھو! تین قسم کے لوگ ہیں ایک عالم ربانی ،دوسرا متعلم جو نجات کی راہ پر برقرار ہے اور تیسرے عوام الناس کا وہ پست گروہ ہے کہ جو ہر پکارنے والے کے پیچھے ہوجاتا ہے ،اور ہر ہوا کے رخ پر مڑ جاتا ہے ،نہ انھوں نے نور علم سے کسب ضیاء کیا اورنہ کسی مضبوط سہارے کی پناہ لی۔
اے کمیل!یاد رکھنا علم مال سے بھتر ہے کیونکہ علم تمہاری حفاظت کرتا ہے اور مال کی تم اور مال خرچ کرنے سے کم ہوتا ہے لیکن علم صرف کرنے سے بڑھتا ہے۔
اے کمیل!علم کی محبت ایک فریضہ ہے جس کو ادا کرنا ضروری ہے علم کے ذریعہ انسان اپنی زندگی میں اطاعت کا اندازسیکھتا ہے، اور مرنے کے بعداس کی خوبیاں باقی رھتی ہیں یاد رکھو کہ علم حاکم ہوتا ہے اور مال محکوم ۔
اے کمیل! مال اکٹھاکرنے والے مردہ ہوتے ہیں اور علماء رھتی دنیا تک باقی رھتے ہیں، بے شک ان کے اجسام نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں لیکن ان کی صورتیں دلوں میں باقی رھتی ہیں۔
غصب شدہ حق سے متعلق
حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اپنے غصب کئے گئے حق سے متعلق ارشاد فرماتے ہیں :
اما بعد !جب خداوندعالم نے اپنے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح کو قبض فرمایا تو ہم نے کھا:ھم ہی اس کے اھلبیت رشتہ دار اس کے وارث اور اولیاء ہیں ،باقی عوام کی نسبت ہم اس کے زیادہ حق دار ہیں ہم اس کے حق اورحکومت میں جھگڑا نہیں کرتے ۔
جب منافقوں نے اعراض کیا اور انھوں نے ہمارے نبی کے حق و حکومت کو ہم سے چھین لیا اوراس کو ہمارے غیر کے حوالے کردیا ،خدا کی قسم اس وقت ہمارے دلوں اور ھماری آنکھوں نے مل کر سخت گریہ کیااور ان کے اس عمل سے ھمیں سخت صدمہ پھنچا جس سے ھمارا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔
خدا کی قسم اگر ھمیں مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور ان میں سے اکثر لوگوں کے دین چھوڑ کر کفر کی طرف پلٹ جانے کا خوف نہ ہوتا ،توھم بتادیتے کہ ہمارے اندر بھی بیعت لینے کی طاقت موجود ہے اوراس وقت لوگ میری بیعت کرتے ان دونوں(طلحہ اور زبیر) نے مجبورا میری بیعت کی۔
پھر یہ دونوںبصرہ کے لالچ میں کھڑے ہوگئے اور تمہارے درمیان اختلاف ڈالنے میںکمر باندھ لی یہ اس ارادے کے ساتھ اٹھے کہ بصرہ میں تمہاری جماعت میں تفرقہ ڈالیں اور یہ دونوں تمہارے پاس آگئے ۔ پروردگار! انھیں اس امت کو دھوکا اور عوام کو فریب دینے پر سخت مصیبت میں گرفتار فرما ۔
اللہ تعالی سے شباھت کی نفی
شعبی کی روایت کے مطابق حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اللہ تعالی سے تشبیہ کی نفی کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیںکہ حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے ایک شخص کو یہ جملے کہتے ہوئے سنا :مجھے قسم ہے اس ذات کی جو ساتویں طبق پر چھپا ہوا ہے اور اس کی بلندی کی کس طرح مثال پیش کروں ۔چنا نچہ پھرحضرت نے اس سے کہا:
یا ویلک اِن اللّه اٴجلّ من اٴن یحتجب عن شیء ٍاٴو یُحتجب عنه شَیء سبحان الذي لایحویه مکان ولا یخفیٰ علیه شیء ٍفي الاٴرض ولا في السماء
وائے ہوتجھ پر !اللہ تعالی اس سے بہت بلند و بالا ہے کہ وہ کسی چیز میں چھپے یا کوئی چیز اس میں پوشیدہ ہو،اللہ تو وہ پاک و پاکیزہ ذات ہے جو کسی جگہ قبضہ نہیں کرتی اور زمین وآسمان میںجو کچھ ہے وہ اس سے مخفی نہیں ۔
قضاء و قدر
قضاء وقدر ان ابحاث میں سے ہے جس میں اکثر لوگ غلطی کر جاتے ہیں اور بعض لوگ تو اس سے منحرف ہو گئے ہیں ۔لیکن حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اپنے کلام میں اس کی اس طرح تصریح فرمائی ہے کہ یہ مسئلہ واضح اور اس کا ابہام دور ہو گیا۔
چنا نچہ مرحوم کلینی علی بن محمد کی سند کے ساتھ روایت بیان کرتے ہیں کہ جنگ صفین ختم ہونے کے بعد ایک شخص حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی :
اے امیر المومنین !ھمیں بتائیں کہ آپ کے اور اس قوم کے درمیان ہونے والی جنگ اللہ تعالی کی قضاء وقدرکے مطابق ہے؟تب حضرت امیر المومنین نے فرمایا :
ماعَلَوُتم تلعةًولا هَبَطتُم وادیاً اِلاّوللّ ٰهِ فیه قضاء و قدر
تمہارا بلندی پر پھنچنا اور وادی میں اترنا سب قضا ؤ قدر کے مطابق ہے۔
وہ شخص کھتا ہے کہ اے امیرالمومنین !کیایہ کام اللہ کے نزدیک عنایت شمار ہوگا۔تب حضرت نے اس سے فرمایا :
مه یا شیخ!فواللّٰه لقد عظّمَ اللّه الاٴ جر في مسیر کم واٴنتم سائرون وفي مقامکم واٴنتم مقیمون ،وفي منصرفکم واٴنتم منصرفون ولم تکونوافي شيءٍ من حالاتکم مکرهین ولا اِلیه مضطرّین
اے شیخ منتظرر ہو، خدا وندا عالم انھیں کاموں کے ذریعہ تمھیں اجر دیتا ہے اور تم تمام کام انجام دیتے رھتے ہو اور کسی بھی کام میں مجبور اور مضطر نہیں ہو۔
پھرشیخ آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنے حالات میں کسی چیز کی طرف مجبور و مضطر نہ ہوں جبکہ قضاء وقدر ہی ھمارا راستہ ہے اور اسی سے ہم منقلب اور منصرف ہوتے ہیں ؟
حضرت نے جواب میںارشاد فرمایا :
و تظن اٴنهّ کان قضاءً حتماً وقدراًلازماً اِنه لو کان کذلک لبطل الثواب والعقاب والاٴمر والنهي والزجر من الله وسقط معنیٰ الوعد والوعید فلم تکن لائمةللمذنب ولا محمده للمحسن ولکان المذنب اٴولیٰ بالاحسان من المحسن ولکان المحسن اُولیٰ بالعقوبةِ من المذنب ،
تلک مقالة اِخوان عبدة الاٴوثان و خُصماء الرحمن وحزبْ الشیطان وقدریة هذه الامة ومجوسهاان الله تعالی کلّف تخییراً ونهیٰ تحذیرا ًواٴعطیٰ علیٰ القلیل کثیراً ولم یُعصَ مغلوباً
ولم یُطَع مکرَها ولم یملّک مفوّضاً ولم یَخلق السماوات والاٴرض ومابینهما باطلا ولم یبعث النّبین مبشرین ومنذرین عبثاً ذلک ظن الذین کفروافویل للذین کفروا من النار
شاید تم نے قضاء و قدر کوحتمی و لازمی سمجھ لیا ہے (کہ جس کے انجام دینے پر ہم مجبور ہیں) اگر ایسا ہوتا تو پھر نہ کوئی ثواب کا سوال پیدا ہوتانہ عذاب کا ،اور نہ ہی اللہ تعالی کے امر ونھی اورڈرانے کا کوئی مفھوم ہوتا ،نہ وعدہ کے کچھ معنی رھتے نہ وعید کے ،گناہ گار کا کوئی گناہ نہ ہوتا اور محسن کی کوئی تعریف نہ ہوتی اور گناھگار محسن کی نسبت احسان کا زیادہ حق دار ٹھھرتا اور محسن ،گناہ گار کی نسبت عقاب کا زیادہ سزاوار بن جاتاھے۔
یہ ان لوگوں کی گفتگوھے جو بتوں کے پجاری اوررحمن کے دشمن اور شیطان کے لشکر کے سپاھی ہیں ۔اللہ تبارک و تعالی نے تو بندوں کو خود مختار بنا کر مامور کیا ہے اور عذاب سے ڈراتے ہوئے نھی کی ہے اور تھوڑا کرنے پر زیادہ اجر دیتا ہے اس کی نافرمانی اس لئے نہیں ہوتی کہ وہ مغلوب ہو گیا ہے اسکی اطاعت اس لئے نہیں کی جاتی ہے کہ اس نے مجبور کر رکھا ہے اور وہ ایسا مالک بھی نہیں ہے جو مفوض ہو اور آسمان و زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اس نے اسے بیکار پیدا بھی نہیں کیاھے ۔
اس نے بشارت دینے والے ،اورڈرانے والے نبیوں کو بے فائدہ نہیں بھیجا یہ تو ان لوگوں کا خیال ہے جنھوں نے کفر اختیار کیا اور کفر اختیارکرنے والوں کیلئے جھنم ہے۔
یہ سن کر شیخ نے یہ اشعار پڑھے :
اٴنت الامام الذي نرجو بطاعته
یوم النجاةمن الرحمن غفرانا
اٴوضحت من اٴمرِنا ماکان ملتبساً
جزاک ربُّک بالاٴِحسان اِحسانا
آپ وہ امام ہیں جن کی اطاعت کے ذریعے ہم امید رکھتے ہیں کہ قیامت کے دن خدا وند رحمن ہمارے گناہ معاف کر دے گا،ھم پر یہ پوشیدہ معاملہ ظاہر ہوگیا اللہ ہی آپ کواپنے احسان کے ساتھ بھترین جزادے گا ۔
ایک اور روایت میں حضرت امیر المومنین علی (ع)بن ابی طالب علیہ السلام قضاء وقدر کی وضاحت بیان کرتے ہیں ۔جس کووالبی نے جناب ابن عباس سے بیان کیا ہے کہ ایک شخص حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کی کہ مجھے قدر کے متعلق بتائیں کہ قدر کیا ہے ؟
چنا نچہ حضرت نے فرمایا:
طریق مظلم فلا تسلکوه
یہ ایک تاریک راستہ ہے لہٰذا تم اس کے مسافر نہ بنو ۔
وہ پھر عرض کرتا ہے کہ مجھے قدر کے متعلق بتائیں۔
حضرت نے فرمایا:
سرُّالله فلاتفشه
یہ اللہ کا ایک راز ہے اسے افشا نہ کرو۔
وہ پھر کھتا ہے کہ مجھے قدر کے متعلق بتائیں ۔
حضرت نے فرمایا:
بَحرٌ عمیق فلا تَلِجّهُ
یہ ایک گھرا سمندر ہے اس میں نہ اترو۔
پھر ارشاد فرمایا :
اے سائل بتا !اللہ تعالی نے تجھے کس طرح خلق کیا ہے ؟کیا اس نے تجھے تیری مرضی کے مطابق پیدا کیا یا اپنی مرضی کے مطابق ؟
وہ کھنے لگا کہ اس نے مجھے اپنی مرضی کے مطابق پیدا کیا ہے۔
حضرت نے پھر پوچھا :
کیا تمہاری موت اسی کی مرضی کے مطابق ہو گی یاتیری مرضی کے مطابق؟وہ کھنے لگا کہ میری موت اسی کی مرضی کے مطابق ہو گی جس طرح وہ چاھے گااسی طرح موت دے گا۔
حضرت نے ارشاد فرمایا :
اٴلکَ مشیّه فوق مشیّة اللّٰه ام لک مشیّه مع مشیّة اللّٰه اٴولکَ مشیّة دون مشیّةالله فاِن قلت لکَ مشیّة فوقَ مشیّةاللّٰه فقد ادعیت الغلبه للّٰه تعالیٰ واِن قلتَ لک مشیّهَ مع مشیّة الله فقد اِدعیت اَلشرکه واِن قلتَ مشیتّي دون مشیته فقد اِکتیفت بمشیّتک دون مشیّةالله
کیا تیری مشیت اللہ کی مشیت سے ما فوق ہے ؟یا تیری مشیت اللہ کی مشیت کے برابرھے ؟یا تیری مشیت اللہ کی مشیت کے علاوہ ہے؟اگر تم نے یہ کھاکہ تیری مشیت اللہ کی مشیت سے مافوق ہے تو تم نے اللہ پرغلبہ کا دعوی کیا ہے اور اگر تم نے کھاکہ میری مشےت اللہ کی مشیت کے برابر ہے تو تم نے اللہ کے ساتھ شریک ہونے کا دعوی کیا اور اگر تم نے یہ کھاکہ میری مشیت اللہ کی مشیت کے علاوہ ہے تو پھر تم نے صرف اپنی مشیت پر اکتفاء کیا اور اللہ کی مشیت کو ضروری نہ سمجھا۔
پھر حضرت نے اس سے ارشاد فرمایا کہ تم یہ جملہ اداکرو:
لاحول ولا قوة الابالله
اللہ تعالی کے سواکوئی طاقت اور قوت نہیں ہے ،اس نے یہ جملہ ادا کیا پھر اس نے حضرت سے عرض کی کہ آپ اس کی تفسیر سے آگاہ فرما دیں۔
حضرت نے ارشاد فرمایا :
لاحول عن معصیةاللّٰه اِلاّبعصمته ولا قوّةعلیٰ طاعتهِ اِلاّ بمعونَتهِ
اللہ کی عصمت کے بغیر اس کی معصےت سے بچنا مشکل ہے اس کی مدد کے بغیر اس کی اطاعت کرنا دشوار ہے ۔
حضرت نے پوچھا :کیا اب تم نے اللہ کو سمجھ لیا ہے ؟اس نے کھاجی ہاں۔
حضرت نے اپنے اصحاب سے فرمایا :
الاٴن اٴسلم اَخوکم قومواالیه فصافحوه
اب تمہارا یہ بھائی مسلمان ہوگیا ہے اٹھو اور اس کے ساتھ مصافحہ کرو۔
مسلمانوںکے درمیان اس بات میں اختلاف چلاآرھاھے کہ آیا عمل ایمان میں داخل ہے یاداخل نہیں ہے ؟شیعہ اور معتزلہ کہتے ہیں داخل ہے اور مرجعہ کہتے ہیں کہ داخل نہیں ہے، چنانچہ حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام جن کے متعلق حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
” علی مع الحق والحق مع علی“
علی (ع)حق کے ساتھ ہیں اور حق علی (ع)کے ساتھ ہے ۔
ارشاد فرماتے ہیں:
لانسُبَنَّ الاٴِسلام نِسبةًًلم ینسُبها اٴحدٌ قبلي،اِلاسلام هو التسلیم والتسلیم هو الیقین والیقین هو التصدیق والتصدیق هو اِلاقرار واِلاقرار هو الاٴَداء والاٴداء هو العمل
اسلام کے ساتھ مجھے وہ نسبت دو جومجھ سے پہلے کسی کونصےب نہ ہوئی ہو (کیونکہ)اسلام ہی تسلیم ہے اور تسلیم ہی یقین ہے اور یقین کسی چیز کی تصدیق کرنا ہے اور کسی چیز کی تصدیق کرنا ہی اقرار کھلاتا ہے اور کسی چیز کا اقرار ادا ہوا کرتا ہے اور ادا کا نام ہی عمل ہوتا ہے۔
حضرت حجت کے بارے میں بشارت
جیساحضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت میںیہ بات گزر چکی ہے کہ حضرت نے امام منتظر عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظھور کی بشارت دی ہے اور حضرت علی (ع) بھی اس سلسلہ میں ارشاد فرماتے ہیں:
لتعطفن الدنیا علینا بعد شمارسها عطف الضّروس علی وَلَدِها: و تلا عقیب ذلکَ:
(
ونَرید اٴن نمنَّ علیٰ الذین اِستضُعفوا في الاٴرض ونجعلَهُم اٴئمةً و نجعلَهُم الوارثین
)
یہ دنیااپنا زور دکھانے کے بعد پھر ھماری طرف جھکے گی جس طرح کاٹنے والی اونٹنی اپنے بچے کے طرف جھکتی ہے اس کے بعد حضرت نے (سورہ قصص کی پانچویں آیت کی تلاوت فرمائی) ہم یہ چاھتے ہیں کہ جو لوگ زمین میں کمزور کر دیے گئے ہیں ان پر احسان کریں اور ان کو پیشوا بنائیں اور انھی کو (اس زمین کا)مالک قرار دیں ۔
ایک اور مقام پر حضرت امیر المومنین اپنے کلام میں کمیل بن زیاد نخعی کو حضرت حجت عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظھور کے متعلق بتاتے ہیں ۔
اللهم بلیٰ لاتخلوالاٴرض من قائم للهِ بحجّة اِماّ ظاهراً مشهوراً واِما خائفاً مغموراً لئَلّا تَبطُل حجج ُاللهِ و بیّناتِهِ
ہاں زمین کبھی ایسے فرد سے خالی نہیں رہ سکتی جو خدا کی حجت کو برقرار رکھتا ہے چاھے وہ ظاھرو مشھور ہو یا خائف و پنہاں ،تاکہ اللہ کی دلیلیںاور بینات مٹنے نہ پائیں۔
حکمت اور موعظہ
حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب( علیہ السلام )دنیا کی بے ثباتی او ر آخرت کیلئے زاد راہ مھیا کرنے کے سلسلے میں وعظ ونصےحت فرماتے ہیں :
خذوارحِمَکَم اللّٰهمِن مَمرِّ کم لمقرّکم ولا تَهتکوا اٴستارَکم عند مَن لا تخفیٰ علیه اٴسرارَ کم واٴخرجوا مِن الدنیا قلوبَکم قبل اٴن تخرج منها اٴبدَانکم فللآخرة خُلقتُم و في الدنیا حُبستم اِنّ المرء اِذا هلک قالت الملائکة ما قدّم؟ وقال الناس ماخلّف ؟
فللّٰه آباؤکم قدموابعضاً یکن لکم ولا تُخلِّفوا کلًّا فیکون علیکم فاِنما مثلُ الدُنیا مثلُ السّمِّ یاکله مَن لا یَعرفهُ
اے لوگو!
اللہ تم پر رحم کرے اس راہ گزر سے اپنی منزل کے لئے توشہ اٹھالو ، جس کے سامنے تمہارا کوئی بھےد چھپا نہیں رہ سکتا اس کے سامنے اپنے پردے چاک نہ کرو قبل اس کے کہ تمہارے جسم اس دنیا سے الگ کر دئےے جائیں اپنے دل اس سے ہٹالو اس دنیا میں تمھیں محبوس کیا گیا ہے لیکن تمھیں آخرت کے لئے پیداکیا گیا ہے جب کوئی انسان مرتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں اس نے آگے کے لئے کیا سازوسامان بھیجا ہے۔
اور لوگ کہتے ہیںکہ وہ یہاں کیا چھوڑکر گیا ہے خدا تمہارا بھلا کرے کچھ آگے کے لئے بھےجو خدا کی قسم تمہارے بزرگوں نے آگے کیلئے کچھ نہ کچھ روانہ کیا ہے جس کا تمھیں کوئی فائدہ نہیں ملے گا لہٰذاتم بھی سب کا سب پیچھے نہ چھوڑ جاؤ کہ وہ تمہارے لئے بوجھ بنے گا کیونکہ یہ دنیا زھر کی مانند ہے جو اسے نہیں پہچانتا اسے وہ ہڑپ کر جاتی ہے۔
اسی کے متعلق حضرت امیر المومنین علی (ع)بن ابی طالب علیہ السلام مزید اس طرح ارشاد فرماتے ہیں:
لا حیاة اِلاّ بالدین ولا موت الا بجحود الیقین فاشربوا العذب الفرات یُنَبّهکم من نومة السبات واِیّاکم والسّمائم المهلکات
دین زندگی ہے اور یقین کا انکار موت ہے اورگوارپانی کاذائقہ چکھنا ہے تمھیں غفلت سے بےدار کیا گیا ہے اس سے بچو ،اور ہلاک کنندہ زھر سے دور رہو ۔
اس کے بعدآپ نے مزید فرمایا :
الدنیا دارصدقٍ لمن عَرَفها ،ومضمارُ الخَلاص لِمَن تزوُّد منها ، هی مَهبطُ وحي اللّٰه ومتّجَرَاٴولیائه اتَّجَروا فَربحوا الجنّة
دنیا صداقت کی جگہ ہے جس نے اسکو پہچان لیا اور جو اس دنیا سے اپنا زادر اہ فراھم کرتا ہے وہ نجات پا جاتا ہے (کیونکہ )یھی دنیا ہے جہاں اللہ کی وحی نازل ہوتی ہے یہ اولیاء خداکی تجارت گاہ ہے تم بھی یہاں تجارت کرو تاکہ فائدہ حاصل کر سکو ۔
شناخت پروردگار
جب ذعلب ےمانی نے آپ(ع) سے سوال کیا کہ یاا میر المومنین کیاآ پ نے اپنے پروردگار کو دےکھا ہے تو حضرت امیر المؤمنین (ع) نے ارشاد فرمایا :اٴفا اٴعبد مالا اری
۔
کیا میں اس اللہ کی عبادت کرسکتا ہوں جسے میں نے دےکھانہ ہو، حضرت امیرالمومنین علی (ع)بن ابی طالب علیہ السلام کے اس کلام سے مختلف پھلو نکلتے ہیں جن میں ایک پھلو یہ بھی ہے کہ آپ نے اس کلام میں اللہ کے ساتھ تشبیہ کی نفی فرما ئی ہے )ذعلب کھتا ہے مولا آپ (ع) کس طرح دےکھتے ہیں۔
حضرت نے ارشاد فرمایا:
لا تُدرکه العیون بمشاهدةِ العیان ولکن تدرکهُ القلوب بحقائقِ الایمان قریب مَن الاشیاء غیر ملًامسٍ بعیدٌ منها غیر مُباينٌ متکلّم بلا رویّة مُريد لا بهمّه صانعٌ لا بجارحةٍ لطیف لا یوصَفُ بالجفاء کبيرٌ لا یوصف بالجفاٍ بصيرٌ لا یوصَفُ بالحاسَّة رحیمٌ لا یوصفُ بالرِّقة تعنواالوجوة لعظمتهِ وتجِبُ القلوب من مخافته
اسے ظاھری آنکھوں سے نہیں دےکھا جا سکتا بلکہ اسے دل کی آنکھوں اورایمان کے حقائق کے ذرےعہ سے دیکھا جا سکتا ہے لیکن جسمانی اتصال کے طور پر نہیں وہ ہر شیء سے دور ہے لیکن الگ نہیں وہ غوروفکر کرنے کے بغیر کلام کرنے والا اورآمادگی کے بغیر قصد وارادہ کرنے والا اور اعضاء کی مددکے بغیر بنانے والا ہے۔
اللہ تبارک وتعالی لطیف ہے مگر پوشےد گی سے اسے متصف نہیں کیا جاسکتا وہ بزرگ وبر تر ہے لیکن تند خوئی اور بد خلقی کی صفت اس میں نہیں ہے وہ دےکھنے والا ہے مگر حواس سے اسے موصوف نہیں کیا جاسکتا وہ رحم کرنے والا ہے اس صفت کو نرم دلی سے تعبےر نہیں کیا جاسکتا چھرے اس کی عظمت کے سامنے ذلیل وخوار اور دل اس کے خوف سے لرزاں و ھراساں ہیں ۔
خواہشات کی پیروی
حضرت امیر المومنین علی (ع)بن ابی طالب علیہ السلام اپنے پاک کلام میں نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے سے ڈراتے ہوئے قرآن مجےد کی عظمت اوراس کے دلوںپر اثرات کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں ۔
انتفعوا ببیان اللّٰه واتعظوابمواعظِ اللّٰه واقبلوا نصيحة اللّٰه فاِن اللّٰه قد اٴعذَر اِلیکم بالجليةّ واٴخذعلیکم الحُجّة وبین لکم محابَّهُ من الاٴعمال ومکارهَهُ منها لتتبعوا هذه وتَجتنبوا هذه
خدا وند عالم کے ارشاد ات سے فائدہ اٹھاؤ اور اسکے موعظوں سے نصےحت حاصل کرو اور اس کی نصےحتوں پر عمل کروکیونکہ اس نے واضح دلیلوں سے تمہارے لئے عذر کی گنجائش نہیں رکھی اور تم پر (پوری طرح )حجت کوتمام کردیا ہے اور اپنے پسندےدہ اور ناپسندیدہ اعمال تم سے بیان کر دےے ہیں تاکہ اچھے اعمال بجالاؤ اور برے اعمال سے دوری اختیار کرو۔
جیساکہ اس سلسلہ میں حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے :
ان الجنة حُفَّت بالمکارِهِ واِنَّ النارَ حُفَّت بالشهوات
بے شک جنت سختیوں سے گھری ہوئی ہے اور دوزخ خواہشوں میں گھرا ہوا ہے۔
حضرت مزید ارشاد فرماتے ہیں:
واعلموا اٴنّه مامن طاعة للّٰه في شيءَ اِلاّ یاتي في کرهٍٍ وما مِن معصية للّٰه في شيء اِلا یاتي في شهوة فرحم اللّٰه اِمرء اً نزع عن شهوتهِ وقمع هویٰ نفسهِ فاِن هذه النفس اٴبعدُ شیءٍ منزعاًً واِنّها لاتزال تَنزِعُ اِلیٰ معصيةً في هویٰ
یاد رکھو کہ اللہ کی اطاعت سختی کے ھمراہ ہے اور اسکی معصےت ہوا و ہوس کے ھمراہ ہے خدا اس شخص پر رحم فرمائے جوخواہشوں سے دوری اختیار کرے اورہو ا وھوس کی بنیاد کو اکھاڑ پھینکے کیونکہ نفس خواہشات میں لامحدود حد تک بڑھنے والا ہے اور وہ ھمےشہ خواہش وآرزوئے گناہ کی طرف مائل ہوتی ہیں۔
عظمت قرآن
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام قرآن کی عظمت کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں :
واعلموا اٴنَّ هذا القرآنَ هو الناصح الذي لاَيغُشُّ ، والهادي الذي لا يضل ،والمحدّثُ الذي لا یکذب وما جالَسَ هذا القرآن اٴحدٌ اِلاّ قامَ عنهُ بزیادةٍ اٴونقصانٍ زیادة في هدیٰ اٴونقصان من عمیٰ
واعلموا اٴنه لیس علیٰ اٴحد بعد القرآن مِن فاقة ولا لاٴحد قبل القرآن مِن غنیٰ فاستشفوه من اٴدوائِکم واستعینوا به علیٰ لاٴ وائکم فاِن فیه شفاءً من اٴکبر الداء وهو الکفرُ والنفاقُ والغُّي والضلال فاساٴلوا اللّٰهَ به وتوجّهوا اِلیه بِحُبهّ ولا تساٴلوا به خَلقِه اِنّه ماتوجّه اِلیٰ الله تعالیٰ بمثله
۔
یاد رکھو ! یہ قرآن مجےد اےسا نصےحت کرنے والا ہے جو فرےب نہیں دیتا، اےسا ھدایت کرنے والا ہے جو گمراہ نہیں کرتا اور اےسا بیان کرنے والا ہے جو جھوٹ نہیں بولتا جو بھی قرآن کا ہم نشےن ہوا وہ گمراہی و ضلالت سے نکل کر ھدایت پا گیا۔ جان لو کسی کو قرآن (کی تعلیمات )کے بعد کسی اور لائحہ عمل کی ضرورت نہیں رھتی اور نہ کوئی قرآن سے (کچھ سےکھنے )سے پہلے اس سے بے نیاز ہو سکتا ہے اسکے ذرےعے بیماریوں سے بچنے کی شفاء طلب کرو اور اپنی مصیبتوں پر اس سے مدد مانگو۔،اس میں کفر ونفاق اورضلالت وگمراھی جیسی بڑی بڑی بیماریوں کی شفاء پائی جاتی ہے اس کے ذریعے اللہ سے مانگواور اس کی محبت کو لیکراس کا رخ کرو اور اسے لوگوں سے مانگنے کا ذرےعہ نہ بناؤ یقینا یہ بندوں کے لئے اللہ کی طرف متوجہ ہونے کا بھترین ذرےعہ ہے۔
اس کے بعدحضرت مزید ارشاد فرماتے ہیں:
واعلموا اٴنهّ شافعٌ مُشفَّعُ وقائلٌ مصدّق واٴنه من شَفع له القرآنُ یوم القیامة شفَّع فیه ومن مَحَل به القرآن یوم القیامة صُدِّق علیه فاِنهُ ينادي منادِ یوم القیامةُالا اِنّ کل حارثٍ مبتلیٰ في حرثهِ وعاقبة عملهِ غیر حَرَثةِ القرآن
فکونوا من حَرثَتهِ واٴتباعه واستدلّوِهُ علی رِبِّکم واستنصحو هُ علیٰ اٴنفسکم واتهموا علیه آراء کمُ واُستغشوا فیه اهواء کم العمل العَمَل ثم النهایة النهایة والاٴ ستقامةَ الاستقامةَثم الصبرَ الصبرَ والورَعَ الورعَ
تمھیں معلوم ہونا چاہئے کہ قرآن اےسا شفاعت کرنے والا ہے جس کی شفاعت مقبول ہے اور اےسا کلام کرنے والا ہے (جس کی ہر بات ) تصدیق شدہ ہے قیامت کے دن جس کی یہ شفاعت کرے گا وہ اس کے حق میں مانی جائے گی اور اس روز جس کے عیوب بتائے گا تو اس کے بارے میں بھی اس کے قول کی تصدیق کی جائے گی قیامت کے دن ایک ندا دینے والا پکار کر کھے گا۔
دےکھو! قرآن کی کھےتی بونے والو ںکے علاوہ ہر بونے والا اپنی کھےتی اور اپنے اعمال کے نتےجہ میں مبتلا ہے لہٰذا تم قرآن کی کھےتی بونے والے اور اس کے پیرو کار بنو اور اپنے پروردگار تک پھنچنے کے لئے اسے دلےل راہ بناؤ اپنے نفسوں کے لئے اس سے پند ونصےحت حاصل کرواور اس کے مقابلہ میں اپنی خواہشوں کو غلط وفرےب خوردہ سمجھو، عمل کرو عمل کرو اور عاقبت وانجام کو دےکھو، استوار وپائدار رہو پھر یہ کہ صبر کرو صبر کرو ،تقویٰ اور پر ہےز گاری اختیار کرو۔
____________________