چھٹی فصل
رحلت پیغمبر (ص)کے بعد آپ پرہو نے والے ظلم
حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام اپنے کلمات قصار میں ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھے اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور کلیوں کو نکالا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا عنقریب میرے بعد یہ امت تجھ پر ظلم ڈھائے گی ۔
حسد اور کینہ:
حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اپنے کلمات قصار میں ارشاد فرمایا کہ قریش جس قسم کا کینہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رکھتے تھے اسی قسم کا کینہ میرے ساتھ رکھتے ہیں اور میری وفات کے بعد یہ لوگ میری اولاد کے ساتھ بھی اسی طرح کا بغض اور کینہ رکھیں گے ۔میں نے قریش کا کیا بگاڑا ہے میں نے تو فقط اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں ان کے ساتھ جنگ کی ہے ۔ اگر وہ مسلمان ہیں تو مجھے یہ بتائےں کہ کیا جو اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے اس کی یھی جزا ہے؟
رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک حصہ:
حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کلمات قصارمیں ارشاد فرماتے ہیں:
میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میںان کاا یک جز شمار ہوتا تھااور لوگ مجھے اس طرح عزت کی نگاہ سے دیکھتے جیسے آسمان پر ستاروں کو دیکھتے ہیں پھر ایک وقت ایسا آیازمانے نے مجھ سے آنکھیں پھیر لیں۔ اور مجھے فلاں فلاں کے ساتھ ملا دیا گیا اور وہ سب لوگ عثمان کی طرح تھے میں نے کھایہ عجیب بدبو ہے ؟ اس کے بعد بھی زمانہ مجھ سے راضی نہ ہوا اور مجھے اس قدر حقیر جانا کہ مجھے ابن ھند اور ابن نابغہ کے مقابل لا کھڑا کیا ۔
ایک شخص نے حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے سوال کیا کہ آپ کا کیا خیال ہے اگر حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد ان کا ایک بالغ ،عاقل اور راشد، بیٹا ہوتاتو کیا عرب خلافت اس کے سپرد کر دیتے ؟
آپ نے فرمایا: ھرگز نہیں اگر وہ میری طرح صبر نہ کرتا تو یہ لوگ اسے قتل کردیتے کیونکہ عربوں کوحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لائے ہوئے احکام پسند نہ تھے اور اللہ تعالی نے انھیں جو فضیلت عطا فرمائی تھی اس میں وہ حسد کرتے تھے ان کے ساتھ انھوں نے بڑی بڑی جنگیں کیں یہاں تک کہ ان کی زوجہ پر تھمت لگا دی یہ لوگ بڑے بڑے انعامات اور عظیم احسانات کے باوجود ان سے نفرت کرتے تھے۔
ان کی زندگی میں ہی وہ اس بات پر متفق ہو گئے تھے کہ آپ کی وفات کے بعد خلافت کو اہل بیت( علیھم السلام) تک نہیں پھنچنے دیں گے اگر قریش نے آپ کے مبارک نام کو فقط حکومت کا ذریعہ بادشاھت اور عزت کا ڈھال نہ بنایا ہوتا تو آپ کی وفات کے بعد وہ ایک دن بھی اللہ تعالی کی عبادت نہ کرتے اور اپنی سابقہ گمراھیوں کے گڑھے کی طرف لوٹ گئے ہوتے۔ پھر اللہ تعالی نے ان پر فتح کے دروازے کھول دیئے اور فاقوں کے بعد انھیں کوئی چیز مل گئی اور انھوں نے محنت کر کے مال اکھٹا کر لیا اور اسلام جس چیز کو ناپسند کرتا وہ ان کی نظر میں اچھی کھلائی۔
اکثر لوگوں کے دل دین کے سلسلے میں مضطرب رھے اور اس قوم نے کھاکہ اگر یہ حق نہ ہوتا تو یہ کامیابی نہ ہوتی اور ان فتوحات کو وہ اپنے بادشاھوں کی حسن تدبیر اوربھترین آراء کی طرف منسوب کرتے ۔یہ لوگوں کو یہ تاکید کرتے کہ ان بادشاھوں کی تعریف کرو اور دوسروں کی توھین کرو، ہم وہ لوگ ہیں جنھیں توھین اور غلط الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے اور ہمارے نور کو بجھانے کی کوشش کی گئی ھماری آواز اور وصیت کو دبایا گیا اور ایک طویل زمانے تک یھی سلسلہ چلتا رھادنیا والے ہمارے ساتھ زیادتی کرتے رھے۔ یہاں تک کہ کئی سال ا س طرح گزر گئے اور ھمیں جاننے والے اکثر لوگ مر گئے ہیں اور بہت سے ایسے لوگ پیدا ہوگئے جو ھمیں نہیں جانتے تھے اگر اس وقت حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرزند ہوتا تو اس کا کیا حال ہوتا ؟
بے شک مجھے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہاد اور اطاعت کی وجہ سے اپنے قریب کیا ہے اور اس وجہ سے نہیں کہ جسے تم قرب سم ھتے ہو یعنی فقط نسب اور خون کی وجہ سے میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقارب سے نہیں ہوں بلکہ حسب و نسب کے علاوہ جہاداور ان کی حکم پر عمل کرنے کی وجہ سے ان کے قریب ہوں۔
اس وقت حضرت نے راوی سے پوچھا کہ تیری رائے کیا ہے؟ اگر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیٹا ہوتا تو کیا وہ اسی طرح کرتا جیسے میں نے کیا ہے اور جس طرح میں ان سے دور ہوں وہ بھی دور ہوتا اور پھر قریش کے نزدیک اس کی قدر و منزلت کا کوئی سبب نہ ہوتا آخر میں ارشاد فرمایا:
اے اللہ تو جانتا ہے کہ میرا مملکت ،ریاست اور امارت کا کوئی ارادہ نھیں‘ میری تو فقط یہ خواہش ہے کہ تیر ی حدود اور تیری شریعت کو قائم کروں ‘تمام امور صحیح طور پر انجام دوں‘ لوگوں کے حقوق ان تک پھنچادوں ‘ انھیں تیرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راستے کی طرف ھدایت کروں اور گمراھوں کو تیری ھدایت کے نور کی طرف رھنمائی کروں ۔
مظلوم کائنات :
حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اپنے کلمات قصار میںارشاد فرماتے ہیں جس دن سے اللہ تبارک تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح قبض فرمائی ہے اس دن سے لےکر آج تک میں مظلومےت کی زندگی بسر کر رہاھوں۔
حضرت امیر امومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اپنے کلمات قصار میں ارشاد فرماتے ہیں۔ پروردگار عالم میں تجھ سے قریش کے خلاف مدد چاھتا ہوں۔انھوں نے تیرے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سر کشی اور بغاوت کی ان کے ساتھ سخت جنگےں کیں اور میں تیرے رسول کی اطاعت میں ان کے ساتھ لڑتا رھااور اب انھوں نے مجھے نشانہ بنالیا ہے۔ پروردگار تو میرے حسن (علیہ السلام ) اور حسین (علیہ السلام) کی حفاظت فرما۔ جب تک میںزندہ ہوںقریش کے ظالموںکوان پر قدرت عطانہ کر اورجب میں اس دنیا سے کوچ کر جاؤں تو تو ہی ان کا بھترین محافظ ہے اور تو ہی ہر چیز پر گواہ ہے۔
وصیت رسول :
حضرت امیر امومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے علی (ع)اگر لوگ آپ(ع) کے خلاف ہو جائیں تو اس وقت صبر و تحمل اور خاموشی کے ساتھ زندگی بسر کرناچنانچہ جب لوگ مجھ سے جدا ہوئے تو میں نے ناگوارحالت میںصبر وتحمل سے کام لیا اور بالکل خاموشی کے ساتھ گوشہ نشےنی اختیار کر لی ۔
حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں مجھے سعد اور ابن عمر پر تعجب ہے کہ ان لوگوں کا خیال ہے کہ میں دنیا کے لئے جنگ کر رھاھوں۔ کیا حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی دنیا کے لئے جنگ کرتے تھے ۔
لیکن اگر ان کا خیال یہ ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو بتوں کو توڑنے اور خدا کی عبادت کے لئے جنگ کرتے تھے تو میں بھی فقط گمراھیوں کو دور کرنے اور فحاشی اور فساد کو روکنے کے لئے جنگ کرتا رہاھوں۔ کیا مجھے دنیا کی محبت کے ساتھ متھم کیا جاسکتا ہے؟ ےقےنا نہیں۔ خدا کی قسم اگر دنیا ایک انسان کی شکل میں مجسمہ بن کر میرے سامنے آجائے تو میں تلوار کے ساتھ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دونگا۔
پیراھن خلافت :
حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اپنے مشھو ر خطبہ شقیقیہ میں ارشاد فرماتے ہیں:
خدا کی قسم ابو قحافہ کے فرزند نے خلافت کا پیراھن پھن لیا حا لا نکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا کہ میرا خلا فت کے سلسلے میں وہی مقام ہے جو چکی کے اندر اس کے کیل کا ہوتا ہے۔ میں وہ (کوہ بلند ہوں )جس پر سے سےلاب کا پانی گزر کر نیچے گر جاتا ہے اور مجھ تک پرندہ پر نہیں مار سکتا (اس کے باوجود )میں نے خلافت کے آگے پر دہ لٹکا دیا اور اس سے چشم پوشی کر لی اور سوچنا شروع کر دیا کہ اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں سے کس طرح حملہ کروں یا اس بھیانک تیرگی پر صبر کروں کہ جس میں سن رسیدہ چل بستے ہیں اور بچے بوڑھے ہوجاتے ہیں اور مومن جد وجھد کرتے ہوئے اپنے پروردگار کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔
مجھے اس بھیانک اندھےرے میں صبر کرنا ہی قرےن عقل نظر آیا لہٰذا میں نے صبر کیا حالا نکہ میری آنکھوں میں (غبار و اندہ )کی خلش تھی اوریہ امر حلق میں کانٹے کی طرح پھنس کے رہ گیا اور اس طرح میں اپنی میراث کو لٹتے ہوئے دےکھ رھاتھا۔
مکالمہ حضرت عمر اور حضرت ابن عباس
حضرت عمر ابن خطاب ،حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ابن عباس میں تیرے مولا و آقا کو مظلوم سمجھتا ہوں۔
ابن عباس کہتے ہیں کہ اے مومنوں کے بادشاہ ان کی یہ مظلومےت آپ کی وجہ سے ہے۔
حضرت عمر ابن خطاب نے کچھ دےر توقف کیا حا لانکہ دل ہی دل میں حضرت ابن عباس کے جواب کا اعتراف کر چکے تھے کھنے لگے:
میرے خیال میں قوم نے انھیں خلافت سے اس لئے دور رکھا ہے کیونکہ وہ نوجوان ہیں اور اہل عرب انھیں کم سن سمجھتے ہیں (حا لانکہ )وہ کامل سن کے انسان ہیں ،اور اس کے بعد کھنے لگے: ابن عباس کیا آپ نہیں جانتے کہ اللہ تعالی نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھی چالیس سال کے بعد مبعوث رسالت فرمایا تھا:
اس بات کا جواب دینا ابن عباس کے لئے چیلنج کی حیثیت رکھتا تھا ابن عباس نے کھااے مومنوں کے باد شاہ جہاں تک صاحبان حجت کا تعلق ہے وہ انھیں ابتداء ہی سے کامل ہوتے ہیں بلکہ جب سے اللہ نے منار اسلام کو بلند کیا ہے اسی وقت سے انھیں کامل بنایا ہے لیکن یہ لوگ اسے محروم گردانتے رھے ہیں اور حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی وفات سے پہلے حضرت زید کو تمام مسلمانوں کا امیر بنایا تھا تو اس وقت قریش کے بزرگ لوگ بھی موجود تھے جبکہ حضرت اسامہ بن زید فقط بےس سالہ نوجوان تھے۔
ایک اور گفتگو:
ابن حدید شرح نھج البلاغہ میں ابی بکر احمد بن عبد العزےز جوھری کی کتاب سقےفہ سے ابن عباس کی سند کے ساتھ روایت بیان کرتے ہیں کہ ابن عباس نے فرمایا:
میں حضرت عمر کے ساتھ مدینہ کی گلی میں جا رہاتھا ہم نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ہوئے تھے حضرت عمر نے کھاابن عباس میرے خیال میں تیرے آقا بہت مظلوم ہیں میں نے دل ہی دل میں کھاخدا کی قسم اس قسم کی باتیں مجھ سے پہلے کبھی نہ کھی۔ بھر حال میں نے کھا: اے امیر ان کی یہ مظلومےت آپ کی وجہ سے ہے۔
یہ سننا تھا حضرت عمر نے میرے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا اور پھر کچھ دےر تک علیحدگی میں چلنے لگے پھر ایک جگہ ٹھھرے کچھ دیربعد میرے پاس آ کر کھنے لگے ابن عباس میرے خیال میں قوم نے کم سنی کی وجہ سے انھیں امر خلافت، سے دور رکھا ہے۔ میں نے دل میں کھاکہ یہ تو آپ کی پھلی بات سے بھی زیادہ تعجب خےز ہے۔
میں نے کھاخدا کی قسم اس وقت تو ان کی کم سنی کو مد نظر نہیں رکھا گیا کہ جب اللہ تبارک و تعالی نے انھیں حکم دیا کہ جاؤ اور حضرت ابو بکر سے سورہ برائت لے لو اور اس کی جگہ خود( حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ذریعہ )تبلیغ کے فرےضہ کو ادا کرو۔
احسا س ندامت :
جب حضرت ابوبکر نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھاکے گھر پر وہ (مشھور و معروف) چڑھائی کی حالانکہ اس مقدس گھر میں داخل ہوتے وقت حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اجازت لیتے تھے اور حضرت جبرئیل علیہ السلام اس دروازے پر کھڑے رھتے تھے ۔
توحضرت ابوبکر اپنی زندگی کے آخری ایام میں کہتے ہیں کاش میں جناب سیدہ فاطمہ(ع) کے گھر پر حملہ نہ کرتا خواہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیھامجھے برابھلا ہی کیوں نہ کہتیں۔
ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ میرے نزدیک صحیح قول یھی ہے کہ حضرت فاطمہ (ع) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر پر ناراضگی کے عالم میں اس دنیا سے کوچ کر گئیں اور وصیت کرگئیں کہ یہ دونوں میری نماز جنازہ میں شریک نہ ہوں۔
عمر اور ابن عباس کی گفتگو :
ابوبکر احمد بن عبدالعزیز جوھری اپنی کتاب سقیفہ میں حضرت ابن عباس کی سند کے ساتھ روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا:ایک مرتبہ حضرت عمر حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کے پاس آئے میں اس وقت حضرت کے ساتھ ان کے صحن میں کھڑا تھا انھوں نے حضرت کو سلام کیا۔
حضرت نے اس سے پوچھا کہاں کا ارادہ ہے؟ وہ کھنے لگا بقیع جا رھاھوں اور حضرت سے پوچھا آپ کا یہ ساتھی (ابن عباس)وہاں نماز پڑھنے نہیں جائے گا ؟
حضرت نے فرمایا کیوں نہیں ۔
حضرت علی علیہ السلام نے مجھ سے کھاکہ اٹھو اور اس کے ساتھ جاؤ۔ میں اٹھا اور اس کے ساتھ چلنے لگا اس نے میری انگلیاں اپنی انگلیوں میں ڈالیں اور تھوڑی دیر بعد جب ہم بقیع سے آگے نکل گئے تو مجھ سے کھنے لگے ابن عباس خدا کی قسم آپ کے مولا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد پوری کائنات کے انسانوں میں خلافت کے زیادہ حقدار ہیں لیکن مجھے دو باتوں کا خوف ہے۔
ابن عباس کہتے ہیں کہ اس نے اس موضوع پر بات چھےڑ دی جبکہ میں اس مسئلہ پربات نہیں کرنا چاھتا تھا۔بھرحال میں نے پوچھا وہ دو باتیں کیا ہیں ؟ کھنے لگا مجھے اس بات کا خوف ہے کہ یہ کم سن بھی ہے اور بنی عبدمطلب سے محبت بھی رکھتا ہے۔
حضرت عمر کا استدلال :
ہاشم الحسینی اپنی کتاب سیرت ائمہ اثنی عشر میں کہتے ہیں کہ ابوحفص (عمر)نے بڑی عجیب بات کھی ہے کہ مجھے حضرت علی علیہ السلام سے اس بات کاخوف ہے کہ وہ بنی عبدالمطلب سے محبت کرتے ہیںاور اسی وجہ سے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد ان کے لئے خلافت کی بیعت نہ لی گئی ۔
جس طرح ابو حفص نے دعوی کیا ہے توکیا حضرت عثمان بن عفان کی اپنے خاندان کے ساتھ محبت کا خیال حضرت عمر کو نھیںآیا اس نے عثمان کو تو خلافت کے گھوارے میں لٹادیا اور اسے بادشاہ بنانے کے لئے دن رات صرف کر دیئے اور اس کی خاطر شوریٰ میں افراد مقرر کئے تاکہ وہ پہلے سے طے شدہ اتفاق پر قائم رھیں گویا حضرت عمر کی بات کا یہ مطلب ہے کہ عثمان کو
بادشاہ بنانے میں اس بات کا خوف نہیں ہوا کہ وہ اپنے خاندان کو لوگوں کی گردنوں پر سوار کردےگا۔
اجنبی کا تعجب :
ابن ابی الحدید شرح نھج البلاغہ میں ابوبکر الانباری کی کتاب امالی سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی السلام ایک دن مسجد میں حضرت عمر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جب آپ(ع) وہاں سے جانے کے لئے اٹھنے لگے توایک شخص نے حیرت و تعجب سے دیکھا تو اس سے ابن خطاب نے کھا: اس جیسے شخص کا حق ہے کہ ان پر تعجب کیا جائے خدا کی قسم اگر ان کی تلوار نہ ہوتی تو دین کے ستون قائم نہ ہوتے ۔ آنحضرت (ص)کے بعدیہ پوری امت میں سب سے بڑے قاضی ہیں اورامت میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے اور صاحب فضیلت ہیں۔ اس شخص نے جب یہ سنا تو وہ شخص ابن خطاب سے کھنے لگا اگر وہ ان سب خصوصیات کے مالک ہیں تو انھیں خلافت سے کیوں دور رکھا گیا ؟ ابن خطاب نے کھاھمیں ان کی کم سنی اور محبت بنی عبدالمطلب ناپسند تھی ۔
سوال وجواب :
زبیر بن بکار کتاب موفقیات میں محمد بن اسحاق سے اس طرح روایت بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکر کی بیعت ہونے لگی تو تیم بن مرہ نے بہت افتخار کیا اور کھنے لگا:
سب بزرگان مہاجرو انصار کو اس میں شک نہیں ہے کہ حضرت علی علیہ السلام ہی حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد صاحب امر ہیں۔ فضل بن عباس کھنے لگے اے خاندان قریش اور خصوصا اے بنی تیم بے شک آپ کوحضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی وجہ سے خلافت ملی ہے ۔اگر ہم خلافت کا مطالبہ کرتے تو ہم تمہاری نسبت اس کے زیادہ حقدار تھے اور لوگ بھی غیروں کی نسبت اسے زیادہ پسند کرتے لیکن اپنوں نے ہمارے ساتھ حسد کیا اور یہ سب کچھ ہمارے ساتھ کینہ رکھنے کی وجہ سے ہوا ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں اس کے صاحب کے لئے عھد ہے اور اس کی طرف اس کی انتھا
ھے۔
ابولھب بن عبدالمطلب کے ایک بیٹے نے یہ اشعار کھے :
ماکنتُ اٴحسبُ اٴنَّ الامرَ منصرفاً
عن هاشم ثمٍ منها عن اٴبي حسنِ
اٴلیس اولُ من صلَّیٰ لقبلتکم
واٴعلمُ الناس بالقرآنِ والسننِ
واٴقرب الناسِ عهداَ بالنبي ومَن
جبریل عون له في الغسل والکفَنِ
مافیه ما فیهم لا یمترون به
ولیس في القوم ما فیه من الحسن
ماذا الذي ردهم عنه فَنَعلمه
ها اِنَّ ذا غبنُنامن اٴَعظم الغبنِ
میں یہ خیال نہیں کرتا کہ امر خلافت پہلے ہاشم اور پھر ابوالحسن سے منصرف ہوجائے۔ کیا وہ پھلی شخصیت نہیں ہیں جنھوں نے آپ کے قبلہ کی طرف نماز پڑھی اور کیا وہی پھلی ہستی نہیں ہے جو قرآن و سنت کو سب سے زیادہ جاننے والی ہے او ر کیا انھیں سب سے زیادہ قرب حضرت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حاصل نھیںھے؟
یہ وہی ہیں جن کی حضرت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غسل و کفن میں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے مدد کی ۔جن فضائل و خصوصیات کے یہ حامل ہیں وہ کسی میں نہیں ہیں اور کسی کو اس میں شک و شبہ نہیں ہے (کیونکہ)اور پوری قوم میں وہ خصوصیات نہیں ہیں جو ان میں موجود ہیں یہ لوگ جب ان خصوصیات کے حامل تھے تو پھر کس چیز کی وجہ سے انھیں محروم کیا گیا یقینا ہم نے انھیں بہت بڑا دھوکا دیا ۔
حضرت عمر کا حسن سلوک !!
ابن حدید کہتے ہیں کہ حضرت عمر ایک لشکر لے کر جناب سیدہ فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیھاکے دروازے پر پھنچے۔ اس لشکر میں اسعد بن خضیر اور سلمہ بن اسلم وغیرہ جیسے لوگ شامل تھے ان سے عمر نے کھاجو لوگ بےعت کرنے سے انکار کر رھے ہیں انھیں لے آؤ تا کہ وہ بیعت کریں ۔ان لوگوں نے بیعت کرنے سے انکار کر دیااور حضرت زبیر نے بیعت نہ کی اور اپنی تلوار کے ساتھ ان پر ٹوٹ پڑے تو حضرت عمر نے کھا: تمہارے مقابلے میں کتا نکل آیا ہے اسے پکڑ لو تو سلمہ بن اسلم نے حضرت زبیر کے ہاتھ سے تلوار چھین کردیوار پر دے ماری۔ پھر یہ لوگ حضرت علی علیہ السلام کے طرف بڑھے اور انھیں اپنے ساتھ لے گئے آپ (ع)کے ساتھ بنی ہاشم بھی تھے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: میں خدا کا بندہ اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھائی ہوں لیکن وہ انھیں حضرت ابوبکر کے پاس لے گئے اس نے مطالبہ کیا کہ میری بےعت کرو ۔
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا:
کہ کیامیں تمہاری نسبت خلافت کا زیادہ حقدار نہیں ہوں؟ میں کبھی بھی تمہاری بیعت نہ کروں گا بلکہ تمہارا حق بنتا ہے کہ تم میری بیعت کرو ۔تم لوگوں نے خلافت کو انصار کے سامنے یہ دلیل پیش کر کے حاصل کیا کہ ہم رسول حضرت خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رشتہ دار ہیں لہٰذا ہر حال میں ھماری اطاعت کرو اور ھماری خلافت کو تسلیم کرو ۔
میں بھی تمہارے سامنے وہی دلیل پیش کرتا ہوں جو تم نے انصار کے سامنے پیش کی (میں کھتا ہوں کہ مجھے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سب سے زیادہ قربت حاصل ہے)۔ لہٰذا اگر تم اپنی ذات کے متعلق اللہ سے ڈرتے ہو تو انصاف کرو اور ھمیں بھی خلافت کے معاملے میں اس طرح پہچانو جس طرح تمھیں انصار نے پہچانا ہے وگرنہ تم جان بوجھ کر ہم پر ظلم کرنے والوں میں قرار پاؤ گے۔
حضرت عمر کہتے ہیں جب تک یہ بیعت نہ کریں انھیں نا چھوڑنا۔ حضرت علی علیہ السلام نے اسے جواب دیا کہ تم جو خلافت کا دودھ دوہ رھے ہو اسے مضبوطی سے تھام کر رکھنا کیونکہ کل یہ معاملہ تجھے بھی پیش آئے گا (یعنی تم بھی آئندہ اپنی خلافت کے لئے راھیں ھموار کر رھے ہو)
خدا کی قسم میں تمہاری بات نہیں مانوں گا اور میں اس کی ھرگز بیعت نہ کروں گا پھر فرمایا:
اے مہاجرین اللہ اللہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خلافت کو ان کی اھلبیت سے چھین کر اپنے گھروں میں داخل نہ کرو اور لوگوں میں جو اس مقام کے زیادہ حقدار اور اہل ہیں انھیں دور نہ کرو ۔
اے گروہ مہاجرین خدا کی قسم ہم اھلبیت اس خلافت کے تم سے زیادہ حقدار ہیں کیا کوئی ہم جیسا قاری قرآن دین خدا کا فقیہ، حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کا جاننے والا اور رعیت کی ذمہ داریوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانے والا ہے ۔خدا کی قسم ہمارے معاملات میں اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو اور حق سے دوری اختیار نہ کرو ۔
حضرت عمر کی پریشانی:
اسی طرح حضرت عمر اور حضرت ابن عباس کے درمیان خلافت کے حوالہ سے ایک اور گفتگوبھی کتب میں موجود ہے حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ میں عمر کے پاس موجود تھا اس نے ٹھنڈی آہ لی، میں نے سمجھا کہ اس کی پسلیوںمیں درد ہو رہاھے اور میں نے اس سے سوال کیا اے امیر ٹھنڈی سانس کیوں لے رھے ہیں کیا کوئی شدید تکلیف ہے ۔
انھوں نے جواب دیا: ابن عباس خدا کی قسم ایسی بات نہیں ہے (بلکہ)میں تو سوچ رہاھوں کہ میرے بعد خلافت کس کو ملنی چاھیے پھر خود ہی کھنے لگے شاید آپ کے مولا و سردار ہی اس کے زیادہ حقدار ہیں ۔
میں نے کھاپھر تم لوگوں نے ان سے یہ حق کیوں چھینا ہے ؟حالانکہ ان کا جہاد ،قرابت رسول، سبقت اسلام اور علم تم سب پر واضح ہے ،وہ کھنے لگے تم نے سچ کھاھے لیکن وہ خوش مزاج آدمی ہیں یہ کہہ کر وہ حضرت علی علیہ السلام کے متعلق اپنے نظریہ کا اظہار کرنے لگا۔
میں نے سوچا کہ کبھی تو وہ لوگ یہ بہانہ بناتے ہیں قریش نہیں چاھتے کہ خلافت و نبوت ایک گھر میں جمع ہوں اورکبھی کہتے ہیں کہ وہ نوجوان ہیں اور بنی عبدالمطلب کے ساتھ محبت رکھتے ہیں اور کبھی کہتے ہیں کہ وہ خو ش مزاج ہیں۔خدا کی قسم ان سب سے اچھا تو یہ ہے کہ وہ سچ سچ یہ کہہ دیں کہ اگر حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو ولایت دے دیں تو یہ بات ان کی جھوٹی شان وشوکت پر گراں گزرے گی جبکہ حق واضح ہے۔
صاحب سیرت الائمہ الاثنی عشر کہتے ہیں : آپ سب لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ابن خطاب تمام مسلمانوں سے سختی، درشتی اور لوگوں کے ساتھ بد اخلاقی میں مشھور و معروف ہے، اور اکثر لوگوں نے حضرت ابوبکر کی توجہ ان خصائص اور بری صفات کی طرف مبذول کروائی اور کھاکہ یہ قبیح اور برے صفات ہیں جن سے نفرت اور دوری کی جاتی ہے ۔
جیسا کہ اس مطلب کی طرف وہ آیہ مبارکہ بھی اشارہ کر رھی ہے جس میں اللہ تعالی نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کے متعلق ارشاد فرمایا:
(
وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِکَ
)
اگر آپ سخت دل ہوتے تویہ لوگ آپ کے نزدیک نہ بیٹھتے ۔
لیکن ان بری خصلتوں کے باوجود بھی حضرت ابوبکر اس خلافت کا اصرار کرتے ہیں۔ جہاں تک حضرت علی علیہ السلام کی فقیروں کمزوروں کی ڈھارس اور تسلی کے لئے خوش مزاجی کا تعلق ہے تو فقط اس کی وجہ سے انھیں خلافت سے دور رکھنا مناسب نہیں ہے۔ جبکہ ان کے فضائل، مناقب جہاد اور سب سے پھلا مسلمان ہونا سب کے سامنے واضح ہے ۔
حضرت عمر اور حضرت ابن عباس کی ایک اور گفتگو
ایک اور مناسبت سے حضرت عمر کہتے ہیں کہ اے ابن عباس کیا تم جانتے ہوکہ لوگوں نے تم سے خلافت کودور کیوں رکھا؟
ابن عباس کہتے ہیں اے امیر میں نہیں جانتا۔ حضرت عمر کہتے ہیں: میں جانتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ قریش خلافت اور نبوت کے ایک گھر میں جمع ہونے کو ناپسند کرتے تھے ، لہٰذا قریش نے ایسا نہ ہونے دیا، ےعنی خلافت اور نبوت کو ایک گھر میں جمع نہ ہونے دیا اور خلافت کو حاصل کر لیا اور اپنے اس کام کو صحیح سمجھتے ہیں ۔ابن عباس نے اسے جواب دیا : اے امیر اگر تیرے غضب سے مجھے امان ہو اور آپ جواب سننے کی سکت بھی رکھتے ہوں تو میں کچھ عرض کروں؟
وہ کھنے لگے جو کچھ کھنا چاھتے ہو کھو۔
ابن عباس نے کہتے ہیں:
اگر قریش اسے پسند نہیں کرتے (کہ خلافت اور نبوت ایک مقام پر ہوں)تو پھر سن لو کہ اللہ تعالی بھی ایک قوم سے اس طرح فرماتاھے :
(
ذَلِکَ بِاٴَنَّهُمْ کَرِهُوا مَا اٴَنزَلَ اللهُ فَاٴَحْبَطَ اٴَعْمَالَهُمْ
)
اللہ تعالی نے جو کچھ نازل کیا ہے وہ لوگ اسے پسند نہیں کرتے لہٰذا اللہ تعالی نے ان کے تمام اعمال اکارت کر دیئے ۔
جہاں تک تمہارا یہ کھنا کہ لوگ اس پر فخر و مباحات کرتے ہیں ۔اگر خلافت کوئی فخر ہے تو وہ قرابت کے فخر کی وجہ سے ہے اور ہم وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق سے مشتق ہیں جن کے اخلاق کے متعلق خدا اس طرح فرماتا ہے :
(
وَإِنَّکَ لَعَلی خُلُقٍ عَظِیمٍ
)
بے شک آپ خلق عظیم کے مالک ہیں۔
سورہ شعراء میں خدا اس طرح فرماتا ہے :
(
وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنْ اتَّبَعَکَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ
)
اور جو مومنین تمہارے پیروکار بن گئے ہیں ان کے سامنے اپنے بازو جھکاؤ یعنی ان کے ساتھ تواضع کرو۔
جہاں تک تیرا یہ کھنا ہے کہ قریش نے خلیفہ کو انتخاب کیا ہے۔ تو اس کے متعلق اللہ تعالی کا یہ فرمان موجود ہے :
(
وَرَبُّکَ یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ وَیَخْتَارُ مَا کَانَ لَهُمْ الْخِیَرَةُ
)
اور تمہارا پروردگار جسے چاھتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاھتا ہے منتخب کرتا ہے۔
اے امیر کیا تم جانتے ہو کہ اللہ تعالی اپنی مخلوق میں سے جسے منتخب کرنا چاھتا ہے منتخب کرتا ہے اگر قریش بھی اس طرح منتخب کر سکتے ہیں جس طرح اللہ تبارک و تعالی انتخاب کرتا ہے تب’ تم‘ اور’ خلافت ‘دونوں درست ہیں اور صحیح مقام پر ہیں ۔
قارئین کرام ! اس آخری کلمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ خلیفہ حضرت علی علیہ السلام ہیں کیو نکہ اللہ تعالی نے وحی بھےج کر حضرت امیر امومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو خلیفہ منتخب فرمایا اور نص صرےح اس پر گواہ ہے اور عقل بھی خلافت کے صحیح راستے کی نشاندھی کرتی ہے ، چنانچہ ابن عباس کے ٹھوس اور محکم بیان کے سامنے عمر لا جواب ہو کر کھنے لگے۔
اے ابن عباس خا موش ہو جا تم بنی ہاشم تو ھمےشہ قریش کے ساتھ کینہ، مخالفت اور حسد رکھتے ہو اور اس کو دل سے نہیں نکال سکتے۔
حضرت ابن عباس اس طرح استدلال پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں تم بنی ھاشم کی طرف فرےب کی نسبت نہ دو کیو نکہ ان کے دل حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دل سے ہیں اور اللہ تبارک وتعالی نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل کو پاک و پاکےزہ پیدا کیا ہے ۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت (ع) کی شان میں خدا وند متعال اس طرح ارشاد فرماتا ہے :
(
إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا
)
اے اہل بیت اللہ چاھتا ہے کہ آپ سے ہر قسم کے رجس کو دور رکھے اور آپ کو اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جس طرح پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ۔
اور جہاں تک تمہارا یہ کھنا ہے کہ بنی ھاشم کے دلوں میں قریش کے متعلق حسد اور کینہ ہے ۔تو تم بتاؤ کہ بنی ہاشم کس طرح ان سے نفرت نہ کرےں جنھوں نے ان کا حق غصب کر لیا ہے اور وہ اپنے حق کو غا صبوں کے ہاتھوں میںدےکھ رھے ہیں۔ حضرت عمر اس صراحت کے ساتھ جواب کو سن کر غضبناک ہو ئے کیونکہ اسے حضرت ابن عباس سے یہ امید نھیںتھی کہ وہ اس طرح کی گفتگو کرےں گے۔
لہٰذا حضرت عمر نے حضرت ابن عباس کو مخاطب کرتے ہو ئے کھاکہ تمہاری ایسی ایسی باتیں مجھ تک پھنچی ہیں جنھیں میں بیان کرنا پسند نہیں کرتا کیونکہ انھیں بیان کرنے سے میری نظر میں تمہارا کوئی مقام نہیں رھے گا۔ حضرت ابن عباس کہتے ہیں ایسی کونسی باتیں ہیں مجھے ان سے آگاہ کرو کیونکہ میری باتیں درست نہیں ہیں تو میں ان کی اصلاح کرنے کے لئے حاضر ہوں اور میری باتیں بر حق ہیں تو حق بات کی وجہ سے میرا مقام تیرے نزدیک کیوں کم ہو جائے گا۔ حضرت عمر کہتے ہیں کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ ھمےشہ سے کہتے آئے ہیں کہ ہم سے خلافت حسد اور ظلم کی وجہ سے چھینی گئی۔
حضرت ابن عباس نے جواب دینے میں تھو ڑا سا بھی توقف نہ کیا اور فوراً کھا: جہاں تک میری اس بات کا تعلق ہے کہ حسد اور ظلم کی وجہ سے آپ لوگوں نے ہم سے خلافت چھینی ہے تو تمھیں معلوم ہو نا چاھےے کہ ابلیس نے بھی حضرت آدم علیہ السلام پر حسد کیا اور انھیں بھشت سے نکلوا دیا۔ ہم بھی اسی آدم کے بےٹے ہیں جن سے آج بھی ابلیس صفت لوگ حسد کرتے ہیں اور جہاں تک ظلم کا تعلق ہے تو اے امیر تم اچھی طرح جانتے ہو کہ اس خلافت کا صحیح حق دار کون ہے؟
حضرت ابن عباس نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کھاکہ عرب ، عجم پر حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے فخر ومباہات کرتے ہیں۔
قریش اہل عرب پر حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رشتہ داری کی وجہ سے اپنی برتری جتاتے ہیں اور ہم بنی ھاشم قریش وغیرہ کی نسبت حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیادہ قریب ہیں اور زیادہ حق دار ہیں چنا نچہ ان الفاظ کوسننے کے بعد عمر اپنے سےنے میں تنگی محسوس کرنے لگا اور اس کا کوئی جواب نہ دے سکا اور ابن عباس کو نزدیک سے اٹھاتے ہوئے کھااے عبداللہ اٹھو اور اپنے گھر کی طرف چلے جاؤ۔ ابن عبا س وہ مجلس چھوڑ کر اپنی منزل کی طرف چل دئے حضرت عمر انتہائی غصے اور طےش کی حا لت میں ابن عباس کی طرف بڑھے اور ان سے کھنے لگے اے جانے والے میں تیرے حق کی رعاےت کرنے والا نہیں ہوں۔
ابن عباس اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اس سے مرعوب ہوئے بغیر سخت جواب دیا اے امیر تم پر اور تمام مسلمانوں پر حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے حق ہے پس جس نے اس حق کی حفاظت کی اس نے اپنے آپ کو محفوظ کر لیا اور جس نے اس عظیم حق کو ضائع کیا اس نے اپنے آپ کو ضائع کیا۔ حضرت عمر اپنے صحابیوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں ابن عباس تم پر وائے ہو، میں نے تم جیسا جھگڑالو اور بحث کرنے والا کوئی نہیں دےکھا ۔
عبد الفتا ح مقصود اپنی کتاب علی ابن ابی طالب میں بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکر اپنی وفات کے بعد خلافت ، حضرت عمر کو سونپنے کی وصیت کی تو اس غضب نے حضرت علی علیہ السلام کے دل کو توڑدیا حالانکہ وہ اپنے حق خلافت کے بارے میں بار بار اصرار کرتے رھے۔
اور اس سلسلے میں انھو ںنے صبر وتحمل کا دامن تھامے رکھا اور ان کو عوام الناس کے درمیان خاموشی سے بٹھا دیا گیا اور خلافت کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پاک سے چھین لیا گیا پھر دوسری مرتبہ بھی انھیں بچھو کی طرح ڈنک لیا اور خلافت کو ان کی دھلیز سے نکال دیا ،قریش کو دےکھ کر اس قدر تعجب نہیں ہوتا لیکن تعجب کی انتھاتو اس شےخ پر ہے کیو نکہ اس کے اور حضرت علی علیہ السلام کے درمیان تمام مسائل واضح ہو چکے تھے۔
حضرت ابو بکر نے حضرت علی علیہ السلام کی جوانی کے مقام و منزلت کا لحاظ نہ کیا حا لانکہ حضرت علی علیہ السلام کا کردار اسلام کی بقا میں روز روشن کی طرح واضح ہے اور دین اسلام کی نشو نما میں آپ نے جو گرانقدر خدمات انجام دیں اس کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا لیکن اس شےخ نے سب کچھ بھلا دیا اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے،حالانکہ وہ جانتا تھا کہ حضرت علی علیہ السلام کی حکمت عملی ہی کی وجہ سے اسلامی حکومت کمال تک پھنچی تھی۔
اس کے بعد ابو الفتاح کہتے ہیں : حضرت ابو بکر نے اپنے بعد خلیفہ کے انتخاب کا جو طریقہ کار اختیا ر کیا وہ غلط اور خطاء سے بھرا ہوا تھا اس کی اس روش سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خلافت
کے معاملے کو اپنے گھر میں پو شیدہ رکھنا چاھتا تھا اور اس کی دلی خواہش یہ تھی کہ اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کا علم تک نہ ہو۔
حضرت ابو بکر کی یہ خطاء بھی اس خطاء کی مانند ہے جو حضرت عمر نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد اس وقت کی تھی جب وہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جنازے کو چھوڑ کر اپنے ساتھیوں کے ساتھ سقےفہ بنی ساعدہ چلے گئے اوربنی ھاشم میں سے کسی کو اطلاع تک نہ دی۔
استاد مقصود صاحب اس پر اضافہ کرتے ہو ئے کہتے ہیں حضرت علی علیہ السلام کو تمام افراد پر جو اولوےت اور فوقےت حاصل تھی خلیفہ نے اسے بھی فراموش کر دیا اور اپنے بعد خلیفہ بنانے کے لئے حضرت علی علیہ السلام کی بجائے دوسرے لوگوں سے مشورہ کیا حا لانکہ پورے عرب میں کون ہے جو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد حضرت علی علیہ السلام سے افضل اور ان کا قائم مقام ہوتا!! یہاں تک کہ حضرت ابو بکر نے خلافت کے معاملہ میں حضرت سے مشورہ تک کرنا گوارا نہ کیا اور اس سے زیادہ تعجب تو اس بات پر ہے کہ خلیفہ فرد واحد کے بارے میں تو حضرت علی علیہ السلام سے مشورت کی التماس کرتے رھے لیکن جہاں پوری امت اور حکومت کا معاملہ تھا وہاں آپ سے مشورہ کرنا ضروری نہ سمجھا ۔
بزرگوں کی باتیں :
زبیر بن بکار کتاب المو فقیات میں کہتے ہیں کہ جب حضرت ابو بکر کی بےعت ہونے لگی تو لوگوں کی ایک جماعت بےعت کرنے لئے مسجد کی طرف بڑھی ،لیکن انصار کی اکثرےت اس بےعت پر پشےمان تھی اور بعض لوگ ایک دوسرے کو ملامت کر رھے تھے اور حضرت علی علیہ السلام کو یاد کرتے اور ان کو آواز دے کر بلاتے تھے آپ اپنے گھر میں موجود تھے اوران کی آوازےں سننے کے باوجود باھر تشریف نہ لائے۔
عبد الرحمن بن عوف کھنے لگا اے گروہ انصار اگرچہ آپ لوگ صاحب فضیلت ہیں جنگوں میں حصہ لیا ہے اور آپ(ع) کا شمار سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں ہے لیکن آپ لوگوں میں حضرت ابوبکر حضرت عمر ،حضرت علی علیہ السلام اور حضرت ابو عبےدہ جیسا کو ئی شخص بھی نہیں ہے۔
اس کے بعد زید بن ارقم نے کہا:
عبد الرحمن نے جب ان لوگوں کا تذکرہ کیا ہے ہم لوگ ان کی فضیلت کا انکار نہیں کر سکتے۔ لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ قریش میں جن لوگوں کے نام خلافت کے لئے ذکر ہوئے ہیں ان میں ایک ہستی ایسی ہے کہ اگر اس کانام پیش کیا جائے تو کسی قسم کا جھگڑا نہیں ہو گا اور وہ ہستی حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں ۔زبیر بن بکار کہتے ہیں ۔
دوسرے دن حضرت ابو بکر نے کھڑے ہو کر لوگوں کو خطبہ دیا:
یا اٴیهاالناس اِني وُلّیت اٴمرکم و لست بخیرکم فا ذا اٴحسنت فاٴعینوني واِن اٴساٴت فقّوموني، اِنّ لي شیطانا یعترینی
اے لوگوں میں آپ کے امور کا والی بن گیا ہوں اگرچہ میں آپ سے زیادہ بھتر نہیں ہوں بھر حال اگر میں اچھا کام کروں تو میری مدد کرنا اور اگر میں برا کام کروں تو مجھے سیدھے راستے پر لگا دینا کیونکہ مجھ پر ایک اےسا شےطان مسلط ہے جو مجھے بھکاتا رھتا ہے ۔
حضرت ابو بکر کی پر یشانی :
صاحب سیرت الائمہ اثنی عشر کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صاحب حضرت عمر کو خلیفہ بنا رھے ہوں اور وہ حضرت عثمان بن عفان کی خلافت کے متعلق اشارہ اور کنایہ سے کہہ رھے ہوں تو یہ بات ان کے اس کے قول کے بالکل منافی ہے اور مخالف ہے جو انھوں نے اپنی خلافت کے آغاز میں کہتی تھی۔
میں تم سے بھتر نہیں ہوں کیو نکہ تم میں حضرت علی علیہ السلام موجود ہیں اسی طرح ان کی وفات سے پہلے وہ اقوال جنھیں مو رخین نے قلم بند کیا ہے کہ میں تےن کاموںکی وجہ سے پریشان ہوں۔ کاش میں نے انھیںانجام نہ دیا ہوتا کاش میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھاکے گھر پر حملہ نہ کرتا اگرچہ وہ میرے خلاف حملہ کرتےں (تب بھی میں حملہ نہ کرتا )۔ ان تےنوں میں اس امر کا تذ کرہ بھی ہے جس کی وہ تمنا کیا کرتے تھے کاش اگر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کی وفات کے وقت خلافت کے بارے میں یہ سوال کرلیا جاتا کہ آیا انصار کا اس خلافت میں حق ہے یا نہیں تو اس میں کسی قسم کا جھگڑا نہ ہو تا ۔
صاحب سیرت الائمہ الاثنی عشر کہتے ہیں کہ انتہائی تعجب ہے کہ یہ شےخ بستر مرگ پر پھنچنے تک اپنی خلافت کے متعلق شک کرتا رھااور اس بات کا خائف رھاکہ شاےد خلافت میرے علاوہ کسی اور کا حق ہے جب کہ اس نے صاحبان خلافت سے خلافت کو غصب کیا تھا اور اب حیران ہے کہ میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس معاملہ میں سوال کیوں نہ کیا اور دوسری طرف یہ ذمہ داری اپنے دوش پر اٹھا لی کہ کسی تردد کے بغیرحضرت عمر کو اپنے بعد خلیفہ نامزد کر دیا۔
حضرت ابو بکر کے اس فعل پر لوگوں نے اعتراض کیا لیکن انھوں نے کسی کی بھی نہ سنی۔جب لوگوں نے خلافت کے متعلق دریافت کیا تو خدا کی قسم کھا کر کھنے لگے حضرت عمر نہ ہوتے تو خلافت عثمان کا ہی حق تھا جیسا کہ انھوں نے دعوی کیا ہے اور احتمال دیا ہے کہ حضرت رسول اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی شخص کو اپنی وفات سے پہلے خلیفہ بنا چکے تھے ۔
کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام وہ شخص ہیں جن کے متعلق حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واضح طور پر ارشاد فرما چکے ہیں تو پھر کیا وجہ ہوئی کہ انھوں نے جہالت و لا علمی کا اظہار کیا اور حضرت علی علیہ السلام کو کچھ بھی نہ سمجھا اورکھاکہ حضرت عثمان بن عفان کو خلیفہ بننے میں حضرت عمر بن خطاب کا وجود مانع ہے جب تک عمر موجود ہیں اس وقت تک عثمان خلیفہ نہیں بن سکتے۔
قریش کا حقےقی مقصد :
استاد عبد الفتاح مقصود اپنی کتاب علی (ع)ابن ابی طالب (ع)میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشےن کے انتخاب میں قریش کا اصل مقصد یہ تھا کہ ھمےشہ کے لئے آل رسول سے خلافت کو ختم کر دیاجائے اور ان کے حق کو ان سے چھین لیا جائے در اصل یہ چیز ان کے یہاں ھمےشہ سے موجود تھی۔
البتہ اس کا سلسلہ شروع شروع میں اصحاب کے درمیان پوشےدہ طور پر جاری تھا ۔کبھی کبھی ان کے افعال سے اس چیز کا اظہار ہو تا تھا اور کچھ دنوں کے بعد قریش نے یہ بات پھےلا دی کہ ہم اہل بیت کو خلافت نہیں دیں گے۔ حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد امر خلافت کو ابو بکر کے سپرد کر دیا گیا۔
اور انھوں نے بنی ھاشم کو بےباکانہ، بلند آواز میں یہ کہہ دیا کہ ہم اس چیز کو پسند نہیں کرتے کہ خلافت اور نبوت دونوں ایک ہی گھر میں جمع ہو جائیں اسی لئے یہ لوگ حضرت ابو بکر وغیرہ کو خلافت کی مبارک باد دیتے تھے اور انصار وغیرہ میں سے جو بھی حضرت علی علیہ السلام کا نام لیتا یا ذ کر کرتا تو اس کے خلاف اعلان جنگ کر دیتے ۔
بعض کتابوں میں مذکور ہے کہ سھیل بن عمر کو جب یہ معلوم ہوا ہے کہ قبےلہ انصارحضرت علی (ع) کی بےعت کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اور اس بات پر بضد ہیں کہ خلافت حضرت علی علیہ السلام کو ملنی چاھےے تو سھیل بن عمر اپنی ننگی تلوارلے کر قریش کے سردار حارث بن ھشام اور عکرمہ بن ابو جھل جیسے بزرگوں کے سامنے کھتا ہے۔
اے گروہ قریش یہ لوگ تمھیں حضرت علی (علیہ السلام) کی حماےت کے لئ بلاتے ہیں ،حضرت علی علیہ السلام اپنے گھر میں موجود ہیں اگر وہ چاھیں تو ان کو اےسا کرنے سے روک سکتے ہیں اگر حضرت علی علیہ السلام انھیں نہیں روکتے تو پھر تمھیں چاھےے تھا انھیں اپنے خلیفہ کی طرف بلا ؤ اور ان لوگوںسے تجدید بےعت کراؤ اگر یہ لوگ تجدید بےعت پر راضی ہو جائیں تو ٹھےک ہے ورنہ انھیں قتل کر دیا جائے ۔اللہ کی قسم اگرتم اس کام کو عملی جامہ پھناؤ تو مجھے ےقےن ہے کہ ان کو سرکوب کرنے میں تمہاری مدد کی جائے گی۔
سھیل بن عمر اور حارث بن ھشام کہتے ہیں ۔
اے لوگوں انصار نے پہلے اسلام قبول کیا اور انھوں نے ھمیں گھر دیئے اور حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ھمیں چھوڑ کر ان کے پاس تشریف لائے اور ان لوگوں نے ھمیں جگہ بھی دی اور ھماری مدد بھی کی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب وہ خلافت کے دعوےدار بن بےٹھیں اگر یہ لوگ اپنے اس مطالبے پر ثابت قدم رھیں تو ہمارے نزدیک ان کی قربانیوں کی کوئی اھمیت نہ ہو گی بلکہ ہمارے اور ان کے درمیان فقط تلوار ہی سے فیصلہ ہوگا ۔
استدلال علی علیہ السلام :
جب لوگوں نے عثمان کی بیعت کا ارادہ کیا تو حضرت امیر المومنین نے ارشاد فرمایا تم جانتے ہوکہ مجھے دوسروں کی نسبت خلافت کا زیادہ حق حاصل ہے خدا کی قسم جب تک مسلمانوں کے امور کا نظم و نسق برقرار رھے گا اور صرف میری ہی ذات ظلم کا نشانہ بنتی رھے گی میں خاموشی اختیار کرتا رہو ں گا تاکہ اس صبر پر اللہ سے اجر ثواب طلب کروں اور اس زیب و زینت اورآرائش کو ٹھکرا دوں جس پر تم لوگ فریفتہ ہو۔
اسی طرح حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے حضرت عثمان کی بیعت ہونے سے پہلے ارشاد فرمایا تمھیں اللہ کی قسم بتاؤ کیا تم میں میرے علاوہ کوئی حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھائی ہے فقط میرے اور ان کے درمیان مواخات ہے جس دن مسلمان ایک دوسرے کے بھائی بنے؟
ان سب لوگوں نے جواب دیا نہیں۔
پھر فرمایا کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ایسا شخص ہے جس کے متعلق حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہو :
من کنتُ مولاهُ فهذا مولاهُ
جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کا یہ مولا ہے ۔
ان سب نے یک زبان ہو کر کھاجی نہیں ۔
آپ (ع)نے فرمایا کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ایسا شخص ہے جس کے متعلق حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان ہو:
اُنتَ مني بمنزلة هارون من موسیٰ اِلاّ اٴنه لا نبي بعدي
تیری قدر و منزلت میرے نزدیک وہی ہے جو حضرت ہارون(ع) کی حضرت موسی(ع) کے نزدیک تھی۔ فقط یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔
ان سب نے کھاآپ (ع)کے علاوہ کوئی ایسا نہیں ہے ،پھر حضرت نے ارشاد فرمایا:
کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ایسا شخص ہے جسے سورہ براءت کی تبلیغ سپرد کی گئی ہو اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس کے متعلق یہ ارشاد فرمایا ہو :
اِنّه لا یؤدّي عني اِلا اٴنا و رجل مني
اس کام کو کوئی نہیں کر سکتا مگر میں خود کروں یا وہ شخص کرے جو مجھ سے ہے۔
انھوں نے کہا:
آنحضرت نے فقط آپ (ع)ھی کی ذات کے متعلق ایسا فرمایا تھا۔
پھر آپ (ع)نے فرمایا:
اے لوگو!یہ بتاؤ کہ نسب کے لحاظ سے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب تر کون ہے؟ انھوں نے کھاآپ (ع)ھی سب سے زیادہ قریب ہیں۔ اس وقت عبدالرحمن بن عوف نے آپ (ع)کی بات کاٹی اور کھااے علی (ع) لوگ فقط عثمان کو اپنا خلیفہ بنانا چاھتے ہیں لہٰذا آپ(ع) اپنے لئے خلافت کی راھیں نہ نکالیں۔
جب لوگوں نے عثمان کی بیعت کرنے کا ارادہ کیا توآپ نے فرمایا:
تمھیں معلوم ہے کہ میں تمام لوگوں میں سب سے زیادہ حق دار ہوں اور خدا گواہ ہے کہ میں اس وقت تک حالات کا ساتھ دیتا رہو ں گا جب تک مسلمانوں کے مسائل ٹھیک رھیں اور ظلم صرف میری ذات تک محدود رھے تاکہ میں اس کا اجر و ثواب حاصل کروں،اور اس زیب و زینت دنیا سے اپنی بے نیازی کا اظہار کر سکوں ،جس کے لئے تم مرے جا رھے ہو۔
____________________