ساتویں فصل
خلفاء کا مشکلات میں آپ(ع) کی طرف رجوع کرنا
اس سلسلہ میں متعدد واقعات موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ خلفاء ثلاثہ نے مشکل کے وقت آپ(ع) کی طرف رجوع کیا ہے یہاں تک کہ خلیفہ ثانی کئی مرتبہ یہ کھنے پر مجبور ہوگئے کہ :
”لا کنتُ لمعضلةٍ لیس لها اٴبوالحسن “
میرے لئے کوئی ایسی مشکل نہیں ہے جس کا حل ابوالحسن (ع) کے پاس نہ ہو (یعنی ہر مشکل میں حضرت علی علیہ السلام مشکل کشاء ہیں )
اسی طرح حضرت عمر کا یہ قول ہے:
لو لا علي لهلکَ عُمر
اگر حضرت علی علیہ السلام نہ ہوتے تو عمر ھلا ک ہو جاتا۔
چنانچہ اسی طرح کے کئی واقعا ت مشھور ہیں ہم ان سب کو شمار تو نہیں کر سکتے البتہ چند واقعات کا ذکر کر کے ثواب حاصل کرنا چاھتے ہیں ان میں سے چند واقعات مندرجہ ذیل ہیں !
حضرت ابو بکر کی پریشانی
ایک دن حضرت ابو بکر سے اللہ تعالی کے اس فرمان ”و فا کہة و ا با “ کے متعلق سوال کیا گیا تو وہ قرآن میں موجود لفظ” اب “کا معنی نہیں جانتے تھے ۔
اور انھوں نے کھاکوئی آسمان مجھے سایہ نہ دے اور کوئی زمےن میرا بو جھ نہ اٹھائے یہ کس طرح ممکن ہے کہ اللہ کی کتاب میں اےسا لفظ ہو جس کو میں نہ جانتا ہوں۔
حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام تک یہ بات پھنچی تو آپ نے فرمایا :
سبحان اللہ ،اب کا معنی ،گھاس پھوس اور چارہ ہے اور پروردگار عالم کا یہ فرمان ،و فاکهةً و اٴباّ
،ھے اس میں پروردگار عالم نے اپنی مخلوق میں جانوروں کی غذا کا ذکر کیا ہے اور یہاں انسانوں اور جانوروں کی غذا کا ذکر ہے تا کہ اس کی وجہ سے وہ زندہ رھیں اور ان کے جسم مضبوط ہوں۔
حضرت ابو بکر اور شرابی
حضرت ابو بکر کے پاس ایک شخص لایا گیا جس نے شراب پی رکھی تھی حضرت ابو بکر نے ارادہ کیا کہ اس پر حد جاری کرے ۔تو وہ شخص کھنے لگا میں نے شراب ضرور پی ہے لیکن میں آج تک اس کی حرمت کو نہیں جانتا تھا کیو نکہ میں اس قوم میں زندگی گزار رھاھوں جو اسے حلال سمجھتے ہیں چنا نچہ حضرت ابو بکر بہت بڑی مشکل میں پھنس گئے کیو نکہ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اس کا کس طرح فےصلہ کیا جائے ۔
مجلس میں موجود بعض لوگوں نے مشورہ دیا کہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے اس کے متعلق معلوم کرےں کہ اس مسئلہ میں کیا حکم ہے۔ حضرت ابوبکر نے ایک شخص کو حضرت علی علیہ السلام کی طرف بھےجا تاکہ وہ اس مسئلہ کے متعلق سوال کرے،چنا نچہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
مسلمانوں میں سے دو ثقہ افراد کو بھےجا جائے جومہاجرین اور انصار کی طرف سے جائیں اور ان سے گواھی طلب کرےں کہ آیا کسی نے آیت تحریم یا حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی حرمت کے متعلق جو کچھ کھاھے اس کا تذکرہ اس شخص سے کیا ہے یا نہیں ۔اگر دو شخص گواھی دے دیں تو اس پر حد جاری کر دو اور اگر گواھی نہ دیں تو حد جاری کیے بغیر چھو ڑ دیا جائے۔ چنا نچہ حضرت ابو بکر نے با لکل اسی طرح فیصلہ کیا جس طرح حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا تھا۔
جب مہاجرین اور انصارنے گواھی دیدی کہ ہم نے آیہ تحرےم یا حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی حدیث کے حوالہ سے کچھ نہیں بتایا تو حضرت ابو بکر نے اس شخص کو بغیر سزا کے چھوڑ دیا اور حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو اس فےصلے کے سلسلے میں دعائےں دیں ۔
سید راضی نے خصائص میں بزرگوں سے بیان کی گئی اس روایت کو ذکر کیا ہے کہ حضرت سلمان فارسی ،حضرت علی علیہ السلام کے پاس موجود تھے انھوں نے حضرت علی علیہ السلام سے عرض کی کہ اس قو م کو کچھ ھدایت فرمائیں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا میں چاھتا ہوں کہ تم قوم کو اس آیت کے متعلق تاکید کرو جو میرے اور ان کے متعلق ہے ۔
(
اٴَفَمَنْ یَهْدِی إِلَی الْحَقِّ اٴَحَقُّ اٴَنْ یُتَّبَعَ اٴَمَّنْ لاَیَهِدِّی إِلاَّ اٴَنْ یُهْدَی فَمَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُونَ
)
جوتمھیں دین حق کی راہ دکھاتا ہے ،آیا وہ زیادہ حقدار ہے کہ اس کے حکم کی پےروی کی جائے یا وہ شخص جو(دوسروں) کی ھدایت تو درکنار،خود ہی جب تک دوسرا اسے راہ نہ دکھائے،وہ راہ نہیں دےکھ پاتا تو تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے ؟ تم کےسے حکم لگاتے ہو۔
منکرین زکات کے بارے میں مشورہ
حضرت امیر المومنین علی السلام سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر نے منکرین زکوة کے حوالہ سے جب اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشورہ کیا تو سب لوگوں نے مختلف انداز میں رائے دی اور ان کی آرا میں اختلاف ہو گیا تو حضرت ابو بکر نے کہا: اے ابوالحسن علیہ السلام اس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے۔ ؟
تب حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
اگر میں تمھیں یہ کھوں کہ تم اس چیز کو چھوڑ دو جو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں سے وصول کی تھی تو پھر تم نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے خلاف عمل کیا ہے۔ حضرت ابو بکر نے کھاکہ آپ نے جو کچھ کھا اس کا مطلب یہ ہے کہ میں ان سے جنگ کروں اور ان سے ایک سال تک کی اونٹ اور بکری کی زکوة وصول کروں۔
حضرت عمر کامجنون عورت پر حکم
حضرت عمر کے زمانہ میں ایک دیوانی کو لایا گیا اس کے ساتھ کسی شخص نے زیادتی کی تھی اور اس کے گواہ بھی پیش کردئے گئے تو عمر نے حکم دیا کہ اسے کو ڑے مارے جائیں ، چنانچہ اس کو لے جارھے تھے کہ اس کا گزر حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے پاس سے ہوا۔
حضرت (ع) نے فرمایا : فلاں قبیلے کی اس مجنون اور عورت کے ساتھ کیا ہوا ہے حضرت (ع) کو بتایا گیا کہ ایک شخص نے اس سے زیادتی کی ہے اور بھاگ گیا ہے اس پرگواھی بھی ہو گئی ہے اورعمر نے اسے کوڑے مارنے کا حکم دیا ہے۔
حضرت نے ان سے ارشاد فرمایا: اسے دوبارہ عمر کے پاس لے جاؤ اور اس سے کھنا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ یہ فلاں قبیلے کی مجنون عورت ہے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے : تےن لوگ مرفوع القلم ہیں ان میں ایک مجنون بھی ہے ۔یہاں تک کہ وہ ٹھیک ہو جائے۔ مجنون کا دل اور نفس مغلوب ہوتا ہے۔چنانچہ یہ لوگ اسے حضرت عمر کے پاس لے گئے اور اس کو حضرت امیر علیہ السلام کی گفتگو سے آگاہ کیا حضرت عمر کھنے لگے اللہ انھیں سلامت رکھے (اگر وہ نہ ہوتے )تو اس عورت کو کوڑے لگا کر میں ہلاک ہو جاتا ۔
صاحب صحیح ابوداؤد باب المجنون یسرق و یصیب حداً کے ص ۱۴۷ پر کھتا ہے کہ حضرت عمر نے لوگوں سے مشورہ کیا اور اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں اے عمر ،کیا تو نہیں جانتا کہ تےن افراد مرفوع القلم ہیں؟
مجنون اس وقت تک جب تک وہ ٹھےک نہ ہو جائے، سونے والا شخص یہاں تک کہ وہ بےدار ہو جائے اور بچہ یہاں تک کہ وہ عا قل ہو جائے۔ وہ کھنے لگا جی ہاں جانتا ہوں۔ حضرت امیر علیہ السلام نے فرمایا تو پھر اس غرےب کے متعلق تجھے کیا ہو گیا ہے کہ اس سنگسار کرنے کا حکم دے دیا ۔ وہ کھنے لگا (اے لوگو!)اس کی کوئی سزا نہیں ہے۔ پھر اسے چھو ڑ دیا اور بلند آواز سے کھااللہ اکبر۔
حضرت عمر اور شش ماہ بچے کی ماں
یونس ،حسن سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت عمر کے پاس ایک عورت لائی گئی جس نے چھ ماہ کے بچے کو جنم دیا تھا اس نے اسے سنگسا ر کرنے کا حکم دے دیا، حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اس سے ارشاد فرمایا :
اِن خاصمُتکَ بکتاب الله خصمتُک
اگر تو اللہ کی کتاب سے جھگڑا کرے گا تو میں تجھ سے لڑوں گا کیونکہ اللہ تبارک و تعالی نے ارشاد فرمایا :
حملهَ و فصاله ثلا ثو ن شهراً
حمل اور دودھ پلانے کے تےس مھےنے ہیں۔
اور اللہ فرماتا ہے :
(
وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ اٴَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اٴَرَادَ اٴَنْ یُتِمَّ الرَّضَاعَةَ
)
جو اپنی اولاد کو پوری مدت دودھ پلانا چاھتے ہیں تو اس کی خا طر مائیںاپنی اولاد کو پورے دوبرس تک دودھ پلائیں۔
لہٰذا جب کو ئی عورت پورے دوبرس دودھ پلاتی ہے تو حمل اور دودھ پلائی کے تےس مھینے بن جاتے ہیں ۔تو اس وقت حمل چھ ماہ کا بنتا ہے ۔حضرت عمر نے یہ سن کر اس عورت کو چھو ڑ دیا اور اسی حکم پر صحابہ اور تابعین نے عمل کیا اور آج تک اس کے مطابق عمل ہو رہاھے ۔
حضرت عمر کے سامنے گنھگار عورت کا اقرار
ایک عورت کو لایا گیا اور اس پر لوگوں نے گواھی دی کہ اس کو ایک گھاٹ پر دیکھا گیا ہے جہاں سے عرب پانی بھرتے تھے وہاں ایک شخص نے اس سے زناکیا ہے اور وہ اس کا شوہر بھی نہ تھا۔ حضرت عمر نے حکم دیا کہ اسے سنگسار کردیا جائے کیونکہ یہ شوہر دار عورت ہے اور اس کے زنا کا حکم سنگسار کرنا ہے۔
وہ عورت کھنے لگی پروردگارا تو تو جانتا ہے میں بے قصور ہوں۔ حضرت عمر نے جب یہ سنا تو اس پر غضبناک ہوا اور کھاکہ ان گواھوں کے متعلق کیا کہتی ہو؟
حضرت امیر المومنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام نے ارشاد فرمایا اس عورت کے پاس جاؤ اور اس سے دریافت کروشاید اس کے پاس کوئی عذر ہو ۔ لوگ اس کے پاس گئے اور اس سے سوال کیا گیا تو اس عورت نے کھا:
میرے خاندان کا ایک اونٹ تھا۔ میں اس اونٹ پر سوار ہو کر گئی تاکہ اس پر پانی لاد کے لاؤں میری اونٹنی کا دودھ بھی نہیں تھا ۔میرے ساتھ ایک اوباش شخص بھی چل دیا، میں نے پانی لینا چاھااس نے مجھے پانی دینے سے انکار کر دیااور کھاکہ جب تک تو اپنے آپ کو میرے حوالے نہیں کردیتی میں پانی نہیں دوں گا۔ میں نے اس سے جان چھڑانے کی بہت کوشش کی اور انکار کیا لیکن وہ جبراً میرے نفس پر غالب ہو گیا اور میں مجبور تھی ۔
حضرت امیر المومنین علی (ع) ابن ابی طالب(ع) نے کھا: اللہ اکبر۔
(
فَمَنْ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَلاَعَادٍ فَلاَإِثْمَ عَلَیْهِ
)
پس جو شخص مجبور ہواور کسی قسم کی سرکشی اور زیادتی کرنے والا نہ ہو تو اس پر گناہ نہیں ہے۔
جب حضرت عمر نے اس بات کو سنا تو اسے چھوڑ دیا ۔
حضرت عمر کے سامنے بیوی کی شکایت
بےھقی اپنی سنن میں ابی حلال العتکی سے روایت بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عمر ابن خطاب کے پاس آیا اور کھنے لگا میں نے اپنی بیوی سے کھاکہ تو مجھ سے حاملہ نہیں ہے بلکہ کسی اور سے حاملہ ہوئی ہے۔ (کیا یہ کھنے سے اسے طلاق ہو گئی ہے )حضرت عمر نے کہا:
یہ سوال حج کے موقع پر کرنا،چنانچہ وہ شخص حج کے موقع پر مسجد الحرام میں حضرت عمر کے پاس آیا اور پورا قصہ دھرایا حضرت عمر نے اس سے کھاتو اس کشادہ پیشانی والے شخص کو دیکھ رہاھے جو خانہ کعبہ کے طواف میں مصروف ہے اس کے پاس جاؤ اور اپنا سوال بیان کرو اور جوا ب لے کر پھر میرے پاس آنااور مجھے بتانا کہ اس نے کیا کھاھے۔
وہ کھتا ہے کہ میں وہاں گیا اور دیکھا کہ حضرت علی علیہ السلام وہاں موجود تھے انھوں نے پوچھا تمھیں کس نے بھیجا ہے وہ کھنے لگا مجھے خلیفہ وقت نے بھیجا ہے ۔پھر وہ کھنے لگا کہ میں نے اپنی بیوی سے کھاھے کہ تم مجھ سے حاملہ نہیں ہوئی بلکہ کسی اور سے حاملہ ہوئی ہو کیا یہ اس کو طلاق ہو گئی؟ حضرت نے فرمایا: قبلہ کی طرف منہ کر کے خدا کی قسم کھاؤ کہ تمہارا طلاق کا ارادہ تونھیں تھا، وہ شخص کھنے لگا میںقسم کھاتا ہوں کہ میر ا طلاق کا نھیںارادہ تھا۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا یہ تمہاری اسی طرح بیوی ہے (جس طرح پہلے تھی) ۔
حضرت عمر اور شرابی
ایک روزقدامہ بن مظعون نے شراب پی لی ۔حضرت عمر نے اس پر حد جاری کرنے کا ارادہ ظاہر کیا توقدامہ کھنے لگا مجھ پر حد جاری نہیں ہو سکتی کیونکہ خداوند عالم نے فرمایا ہے :
(
لَیْسَ عَلَی الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِیمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوْا وَآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَآمَنُوا
)
جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کام کیئے ان پر جو کچھ پی چکے ہیں اس میں کچھ گناہ نہیں ہے جب انھوں نے پرھیز گاری کی اور ایمان لے آئے اور اچھے اچھے کام کئے پھر پرھیز گاری کی اور ایمان لے آئے۔
حضرت عمر نے (یہ استدلال سن کر ) اس سے حد اٹھالی۔ یہ خبر حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام تک پھنچی چنا نچہ آپ(ع) حضرت عمر کے پاس گئے اور اس سے کہا: قدامہ نے جب شراب پی ہے تو تم نے اس پر حد جاری کرنے کا ارادہ کیوں ترک کیا ہے ؟وہ کھنے لگا کہ اس نے مجھے قرآن کی آیت سنائی ہے پھر وہی آیت حضرت امیر المومنین کے سامنے پڑھنے لگا۔ حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا: قدامہ اس آیت کا مصداق نہیں ہے اور اس راستے پر نہ چلے کہ جسے اللہ تعالی نے حرام کیا ہے اسے بجا لائے کیونکہ مومن اور نیک عمل کرنے والے حرام خدا کو حلال نہیں سمجھتے تم قدامہ کو بلاؤ اور اس نے جو استدلال قائم کیا ہے وہ درست نہیں ہے۔اگر وہ توبہ کرے تو اس پر حد جاری کردو اور اگر توبہ نہ کرے تو اسے قتل کر دو بے شک وہ ملت اسلام سے خارج ہے۔
حضرت کا یہ فرمان سن کر عمر خواب غفلت سے بیدار ہوا اور یہ خبر قدامہ تک پھنچی اس نے توبہ کا اظہار کیا اور حضرت عمر نے اس کے قتل کا ارادہ ترک کردیا۔ لیکن یہ نہیں جانتا تھا کہ کیسے حد جاری کی جائے لہٰذا حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور کھنے لگا اس کی حد کے متعلق وضاحت فرمایئے حضرت نے فرمایا اس کی حد اسی ( ۸۰) کوڑے ہیں کیونکہ شراب پینے والا جب اسے پیتا ہے تو مست ہو جاتا ہے اور جب مست ہو جاتا ہے تو اس وقت وہ ہذیان کا شکار ہو جاتا ہے اور جب وہ ہذیان میں مبتلا ہو جاتا ہے تو وہ بیھودہ باتیں کرنے لگتا ہے۔ حضرت عمر نے اسے حضرت کے فرمان کے مطابق اسی ( ۸۰) کوڑے لگائے۔
اقرار گناہ اور رجم
ایک عورت نے زنا کا اقرار کیا اس وقت وہ حاملہ تھی حضرت عمر نے اسے رجم کرنے کا حکم صادر کیا حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا یہ ٹھیک ہے کہ تمہاری اس عورت پر تم نے حکم لگایا ہے لیکن جو بچہ اس کے پیٹ میں ہے اس پر تو حکم نہیں لگایا جاسکتا۔
علامہ امینی نے کتاب الغدیر میں اس سے زیادہ روایت بیان کی ہے کہ حضرت عمر نے تین مرتبہ کھا۔کل احد افقہ منی ۔ ہر کوئی مجھ سے بڑا فقیہ ہے۔
حضرت علی علیہ السلام نے اس عورت کی ضمانت لی اور جب اس کاوضع حمل ہو گیا تو اسے حضرت عمر کے پاس لے گئے اور اس نے اسے رجم کیا ۔
لونڈی کی طلاق
حافظ دار قطنی اور ابن عساکر نے یہ روایت بیان کی ہے کہ دو شخص حضرت عمر کے پاس آئے اور ان سے لونڈی کی طلاق کے متعلق سوال کیا حضرت عمر ان دونوں کو لے کر مسجد کی طرف چل دئیے یہاں تک کہ مسجد میں بیٹھے ہوئے افراد کے پاس آگئے ۔ان میں ایک کشادہ پیشانی والی شخصیت بھی موجود تھی ۔
حضرت عمر کھنے لگے اے کشادہ پیشانی والے لونڈی کی طلاق کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے ؟اس شخصیت نے سر اوپر اٹھایا پھر اس کی طرف دو انگلیوں کے ساتھ اشارہ کیا۔
حضرت عمر نے ان دونوں سے کہا: دو طھر۔
ان میں سے ایک کھنے لگا سبحان اللہ ہم تجھے امیر المومنین سمجھ کر تیرے پاس آئے تھے اور تو ھمیں اس شخص کے پاس لے آیا ہے اور اس کے بتا نے پر ھمیں بتا تا ہے ۔
حضرت عمر ان سے کہتے ہیں اس شخصیت کو جانتے ہو وہ کھنے لگے نہیں جانتے، حضرت عمر نے کہا: یہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں میں گواھی دیتا ہوں کہ میں نے حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کی شان میں کہتے ہوئے سنا ہے ۔
اِن السموات السبع والاٴرضین السبع لو وضعا في کفه ثم وضع اِیمان علي في کفة لرجح اِیمان علی
۔
اگر ساتوں زمین و آسمان ترازو کے ایک پلڑے میں اور حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا ایمان دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے ۔تو حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ایمان والا پلڑابھاری نظر آئے گا ۔
عدت میں نکاح
مسروق ایک روایت اس طرح بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر کے پاس خبر پھنچی کہ قریش کی عورت نے اپنی عدت کے دوران کسی شخص سے شادی کر لی ہے۔ حضرت عمر نے ایک شخص کو ان کی طرف بھیجا کہ وہ انھیں ایک دوسرے سے جدا کر دے اور انھیں سزا دے اور ان سے کہہ دے کہ آئندہ کبھی بھی آپس میں شادی نہ کریں اور اپنا حقِ مھر بیت المال میں جمع کروا دیں ۔
یہ خبر لوگوں کے درمیان مشھور ہو گئی حضرت علی علیہ السلام تک بھی یہ خبر پھنچی تو آپ نے فرمایا: اللہ اس خلیفہ پر رحم کرے کہاں حق مھر اور کہاں بیت المال ؟
وہ دونوں تو جاھل تھے خلیفہ کو چاھیے کہ وہ ان دونوں کو سنت کی طرف پلٹاتا، جب آپ سے پوچھا گیا کہ آپ کا حق مھر کے متعلق کیا حکم ہے ۔
حضرت نے فرمایا :
مھر تو اس عورت کا حق ہے اور اسی وجہ سے اس کے ساتھ( جماع) حلال ہوئی ہے۔ البتہ ان دونوں کو جدا کر دیا جائے اور انھیں کوڑے نہ لگائے جائیں پہلے وہ اپنی پھلی عدت مکمل کرے اور پھر دوسری عدت مکمل کرے پھر ایک دوسرے کو شادی کی دعوت دے سکتے ہیں جب یہ خبر حضرت عمر تک پھنچی تو اس نے کھااے لوگو اپنی جہالتوں سے نکل کر سنت کی طرف لوٹ آؤ۔
عجمیوں کے خطوط اور حضرت عمر کی پریشانی
شبابہ بن سوار، ابوبکرھذلی سے روایت بیان کرتا ہے کہ ہم نے اپنے علماء اعلام سے یہ روایت سنی ہے کہ ھمدان، رے،اصفہان ،قومس،نہاوند کے رھنے والے اہل فارس نے ایک دوسرے کو خطوط لکھے۔ اور ایک دوسرے کی طرف اپنے نمائندے بھیجے کہ عرب کا بادشاہ جو اپنے پیروکاروں کے لئے دین لایا تھا اب وہ وفات پا گیا ہے۔
اس سے ان کی مراد حضرت نبی اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھی اور ان کے بعد جو بادشاہ بنا تھا تھوڑی مدت کے بعد وہ بھی مر گیا اس سے ان کی مراد حضرت ابوبکر تھی۔
اس کے بعد جو شخص بادشاہ بنا ہے اس کی لمبی عمر ہے اور وہ تمھیں اپنے شھروں سے گرفتار کرے گا اور اس کے سپاھی تمہارے ساتھ جنگ کریں گے۔ اس سے ان کی مراد حضرت عمر تھے اور وہ تم پر احسان نہیں کرے گا یہاں تک کہ اس کے لشکر تمھیں تمہارے شھروں سے نکال دیں گے لہٰذا تمہارے لئے ضروری ہے کہ قبل اس کے کہ وہ تم پر حملہ کرے تم اس کے شھر میں داخل ہو کر اس پر حملہ کر دو۔ جب یہ خبر حضرت عمر کے پاس پھنچی تو وہ بہت پریشان ہوئے اور انھوں نے تمام مہاجرین و انصار کو جمع کر کے ان سے مشورہ لیا۔
طلحہ بن عبداللہ کھڑا ہوا اور اس نے کھاتمھیں بذات خود ان کے مقابلے میں نکلنا چائےے یہ مشورہ دے کر وہ بیٹھ گیا پھر حضرت عثمان کھڑے ہوئے اور انھوں نے کھامیری رائے یہ ہے کہ اہل شام شام سے نکلیں اہل یمن یمن سے نکلیں اور تم لوگ ان دو حرموں اور ان دو شھروں کوفہ اور بصرہ سے نکلو تمام مشرکوں اور مومنوں کو ایک جگہ جمع کیا جائے۔
حضرت عمر نے کھاکوئی اور مشورہ دے۔ حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کھڑے ہوئے حمد ثناء الٰھی کے بعد آپ نے فرمایا:
اگر اہل شام شام سے نکلیں گے تو روم والے اہل شام کی اولادوں پر حملہ کر دیں گے۔
اگر اہل یمن یمن سے نکلیں گے تو حبشہ والے اہل یمن کی اولاد پر حملہ آور ہو جائیں گے اور اگر ان دوحرموں کے لوگ نکلیں گے تو اطراف کے عرب تم پر حملہ کر دیں گے اور جہاں تک تمہاری اس بات کا تعلق ہے کہ اہل عجم کی تعداد بہت زیادہ ہے اور تم پر ان کی کثرت کا رعب بیٹھ گیا ہے تو سن لے کہ ہم نے کبھی بھی حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں کثرت کے بل بوتے پر جنگیں نہیں کیں ہم نے تو فقط اللہ کی مدد اور نصرت سے جنگیں کیں ہیں۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ تجھ تک ان کے اجتماع کی خبر پھنچی ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف نکلنے والے ہیں تو اللہ تعالی تیری نسبت انھیں زیادہ نا پسند کرتا ہے عجمی جب تجھے دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں یہ عرب ہے اگر اسے ختم کردیا تو گویا عرب کو ختم کردیا لہٰذا ان پر سخت حملہ کرنا ہوگا۔ میری رائے یہ ہے کہ یہ لوگ ان شھروں میں اسی طرح رھیں تم اہل بصرہ کو خط لکھو کہ وہ تین گروھوں میں بٹ جائیں ایک گروہ بچوں کے پاس رھے اور ان کی حفاظت کرے اور ایک گروہ کو عھد لینے والا بناؤ کہ وہ اس عھد کو نہ توڑیں اور ایک گروہ کو اپنے بھائیوں کی مدد کے لئے روانہ کرو۔
چنا نچہ حضرت عمر کہتے ہیں یھی سب سے بھترین و عمدہ رائے ہے اور میں اسی کو پسند کرتا ہوں اور اسی کی روشنی میں قدم اٹھایا جائے گا ۔
شیخ مفید رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں:کہ آپ لوگ حضرت کے اس نظریہ کو دیکھیں کہ جب صاحبان عقل و علم باھم جھگڑ رھے تھے اورکسی نتیجہ تک نہیں پہنچ رھے تھے تو اس وقت حضرت علی علیہ السلام کی رائے کی عظمت اجاگر ہوئی اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر حال میں حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو یہ توفیق عطا فرما رکھی ہے کہ آپ مشکل کے وقت میں امت مسلمہ کی مشکل کشائی اس کے علاوہ آپ نے دینی امور میں ایسے ایسے فیصلے کئے ہیں جن سے دوسرے لوگ عاجز تھے اور وہ مجبوراً آپ کی طرف رجوع کرتے تھے انھوں نے آپ کو معجزے کا دروازہ پایا اور اللہ بھترین توفیق عطا کرنے والا ہے ۔
حضرت عمر کے مولا
حضرت عمر روایت کرتے ہیں کہ کسی شخص نے مجھ سے کسی مسئلہ میں جھگڑا کیا تو میں نے اس سے کھاتیرے اور میرے درمیان یہ شخص فیصلہ کرے گااس کا اشارہ حضرت علی علیہ السلام کی طرف تھا وہ کھنے لگا یہ بڑے پیٹ والا آدمی ،یہ سننا تھا کہ حضرت عمر اٹھے اور اس کو گریبان سے پکڑ کر زمین پر دے مارا پھر اس سے کھاجن کی توھین کر رہاھے تو انھیں جانتا ہے ؟ یہ میرے اور ہر مسلمان کے مولا و آقا ہیں ۔
میراث کی تقسیم
محمد بن یحییٰ بن حبان کہتے ہیں کہ میرے دادا جان کی دو بیویاں تھیں ایک ھاشمی تھی اور ایک انصاری، اس نے انصاری کو طلاق دیدی اس وقت وہ اس کے بچے کو دودھ پلا رھی تھی اور اس نے حیض نہ دیکھا تھا میرے دادا کی وفات کو ایک سال گزر گیا ۔
وہ کھنے لگی میں اس کی وارث ہوں اور مجھے ابھی تک حیض نہیں آیا ہے اسے عثمان بن عفان کے پاس لے جایا گیا اس نے بھی اس کی میراث کا حکم دیا ۔
ھاشمی بیوی نے عثمان کی ملامت کی، عثمان نے کھایہ تیرے چچا زاد کے عمل کے مطابق ہے اس کا اشارہ حضرت علی علیہ السلام کی طرف تھا ۔
محب الطیری ریاض النضرہ میں کہتے ہیں کہ یہ خواتےن عثمان کے پاس آئےں ۔
تو عثمان نے کھا:میں اس مسئلے کو نہیں جانتا ،پھر یہ حضرت علی علیہ السلام کے پاس آگئےں تو حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا تم منبر رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کھڑی ہو اور قسم کھا کر مجھے بتاؤ کہ تم نے تین حیض نہیں دیکھے پھر تم میراث کی حقدار ہو اس نے منبر کے پاس کھڑے ہو کر قسم کھائی تو آپ نے اسے ارث میں شریک قرار دے دیا۔
حضرت عثمان اور چھ ماہ کے بچے کی ماں
ابن منذر اور ابن ابی حاتم، بعجہ بن عبداللہ جھنی سے روایت بیان کرتے ہیں ہمارے قبیلہ کے ایک شخص نے جھنیہ خاندان کی ایک عورت سے شادی کی اس کے ہاں چھ ماہ کا ایک کامل بچہ پیدا ہوا اس کا شوہر اسے حضرت عثمان بن عفان کے پاس لے آیا اور اس نے اسے رجم (سنگسار)کرنے کا حکم دیا۔
یہ خبر حضرت علی (ع) تک پھنچی آپ حضرت عثمان کے پاس آئے اور فرمایا تم نے یہ کیا کھاھے۔ حضرت عثمان نے جواب میں کھااس نے چھ ماہ میں پورا بچہ پیدا کیا ہے ۔
حضرت نے فرمایا کیا تو نے نہیں سنا اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا ہے:
(
و حمله و فصاله ثلاثون شهراً
)
حمل اور دودھ بڑھائی کے تیس مھینے ہوتے ہیں ۔
اور اللہ تعالی نے فرمایا ہے :
(
والوالداتُ یرَضعن اٴولادهن حولین کاملین
)
مائیں اپنی اولاد کو پورے دوبرس تک دودھ پلائیں ۔
(جب دو سال دودھ پلانا ہے تو تیس ماہ سے) باقی چھ ماہ بچتے ہیں۔ عثمان بن عفان کھنے لگا خدا کی قسم اس عورت کی وجہ سے مجھے یہ معلوم ہوا اور اس سے پہلے میں اس مسئلہ کو نہیں جانتا تھا۔ جب عورت مقدمہ سے فارغ ہوئی تو اپنے بچے سے کھنے لگی اے میرے بچے نہ گھبرا خدا کی قسم تیرے باپ کے علاوہ میرے جسم کو کسی نے نہیں دیکھا ،راوی کھتا ہے کہ جب وہ بچہ کچھ بڑا ہوا تو اس کے باپ نے بھی اعتراف کیا کہ یہ میرا بیٹا ہے، کیونکہ وہ بالکل اسی کی شبیہ تھا ۔
یہ بچہ کس کا ہے؟
حسن بن سعید اپنے والد سے روایت بیان کرتا ہے کہ یحنساور صفیہ دونوں خمس نامی مقام پر زندگی بسرکر رھے تھے وہاں صفیہ نے کسی شخص کے ساتھ تعلقات بنا لئے اور اس کے ساتھ زنا کیا کچھ عرصے کے بعد اس کے یہاں بچہ پیدا ہوا زانی اور یحنس دونوں نے دعوی کیا کہ یہ بچہ میرا ہے۔ یہ جھگڑا عثمان بن عفان کے پاس لایا گیا تو اس نے ان دونوں کو حضرت علی (ع) کے پاس بھیج دیا۔ حضرت علی (ع) نے فرمایا: میں دونوں کے متعلق حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قضاوت کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں بچہ شوہر کا ہے اور زانی کے لئے پتھر ہیں پھر دونوں (زانی اور زانیہ )کو پچاس پچاس کوڑے لگائے ۔
معاویہ کا اقرار
جب معاویہ کو حضرت علی علیہ السلام کے قتل کی خبر ملی تو اس سے ایک شخص نے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے متعلق سوال کیا تو معاویہ نے جواب میں کھاحضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی موت کے ساتھ علم اور فقہ اس دنیا سے ختم ہو گیا ہے ،اس کے بھائی عتبہ نے اس سے کھاکھیں تم سے یہ جملے اہل شام نہ سن لیں معاویہ نے کھامجھ سے دور ہوجا ۔
ایک شخص نے معاویہ سے کسی مسئلہ کے متعلق سوال کیا تو معاویہ نے کہا: حضرت علی علیہ السلام سے پوچھ لے کیونکہ وہ میری نسبت بہت زیادہ علم رکھنے والے ہیں ۔وہ کھنے لگا میں تم سے جواب سننا چاھتا ہوں۔
معاویہ کھنے لگا:
تیرے لئے ھلاکت ہے تو اس شخص کے سامنے سوال کرنے کو نا پسند کرتا ہے جیسے حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرح علم سکھایا ہے جیسے کبوتر اپنے بچے کو غذا دیتا ہے، بڑے بڑے صحابہ کرام بھی ان کی علمی شخصےت کے معترف تھے اور جب بھی حضرت عمر کو کو ئی مشکل ہو تی وہ اپنی مشکل انھی سے حل کرواتے تھے۔
ایک شخص حضرت عمر کے پاس آیا اور اس نے اس سے سوال کیا تو حضرت عمر نے کھایہاں حضرت علی علیہ السلام ہیں ان سے پو چھ لو ، تو وہ شخص خوشامد کرتے ہوئے کھنے لگا امیر المومنین میں چا ھتا ہوں کہ آپ سے جواب سنوں حضرت عمر نے اسے جواب دیا کھڑا ہو جا اللہ تعالی کھیں تیرا نام اپنے دیوان سے نہ مٹا دے ۔
____________________