اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

اسلام کے عقائد(دوسری جلد )12%

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 125139 / ڈاؤنلوڈ: 5036
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(دوسری جلد )

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

۴۔سورۂ غافر میں ارشاد فرمایا:

( ...الذین یحملونَ العرش ومَن حوله يُسبّحون بحمد ربّهم ویؤمنون به و یستغفرون للذین آمنواربّنا وسعت کُلّ شیئٍ رّحمةً و علماً فأغفر للذین تابوا و اتّبعوا سبیلک و قِهم عذابَ الجحیم ) ( ۱ )

وہ جو عرش خدا کو اٹھاتے ہیںنیز وہ جو اس کے اطراف میں ہیں،اپنے پروردگار کی تسبیح وستائش کرتے ہوئے اس پر ایمان رکھتے ہیںاور مومنین کے لئے (اس طرح)طلب مغفرت کرتے ہیں:خدایا! تیری رحمت اور علم نے ہر چیز کا احاطہ کر لیا ہے، پس جن لوگوں نے توبہ کی اور تیری راہ پر چلے انھیں بخش دے اور دوز خ کے عذاب سے محفوظ رکھ!

۵۔ سورۂ زمر میں ارشاد ہوتا ہے:

( و تریٰ الملا ئکة حا فّین من حول العرش يُسبحون بحمد ر بهم و قضی بینهم با لحق و قیل الحمد للّه ربّ العا لمین ) ( ۲ )

اور فرشتوں کو دیکھو گے کہ عرش خدا کے ارد گرد حلقہ کئے ہوئے ہیں اور اپنے ربّ کی ستائش میں تسبیح پڑھتے ہیں ؛ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا اور کہا جائے گا:ستائش ﷲربّ العالمین سے مخصوص ہے۔

۶۔ سورۂ حاقہ میں ارشاد ہوتا ہے:

( و یحمل عرش ربّک فوقهم یومئذٍ ثمانية ) ( ۳ )

اس دن تمہارے رب کے عرش کوآٹھ فرشتے اپنے اوپر اٹھائے ہوں گے۔

کلمات کی تشریح

۱۔العرش:

عرش ؛لغت میں چھت دار جگہ کو کہتے ہیں جس کی جمع عروش ہے ، تخت حکومت کو حاکم کی رفعت وبلندی

____________________

(۱)غافر ۷(۲)زمر ۷۵(۳)سورہ ٔ حاقہ ۱۷ ۔

۱۲۱

نیز اس کی عزت وشوکت کے اعتبار سے عرش کہتے ہیں، عرش ملک اور مملکت کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے، کتاب''لسان العرب'' میں آیا ہے کہ''ثلّ ﷲ عرشھم'' یعنی خدا وند عالم نے ان کے ملک اور سلطنت کو برباد کر دیا۔( ۱ )

ایک عرب زبان شاعر اس سلسلے میں کہتا ہے:

اِذا ما بنو مروان ثلت عروشهم :: وأودت کما أودت اِیادوحمیر

جب مروانیوں کا ملک تباہ وبرباد ہوگیااور'' حِمْےَر'' اور'' اِیاد'' کی طرح مسمار ہوگیا۔( ۲ )

۲۔ استویٰ:

الف:''التحقیق فی کلمات القرآن''نامی کتاب میں مادہ ''سوی''کے ضمن میں آیا ہے کہ ''استوائ'' کے معنی بمقتضائے محل بدلتے رہتے ہیں ، یعنی ہر جگہ وہاں کے اقتضاء اور حالات کے اعتبار سے اس کے معنی میں تغییر اور تبدیلی ہوتی رہتی ہے ۔

ب:''مفردات راغب'' نامی کتاب میں مذکور ہے کہ'' استوائ'' جب کبھی علیٰ کے ذریعہ متعدی ہو تو ''استیلائ'' یعنی غلبہ اور مستقر ہونے کے معنی میں ہے ،جیسے''الرحمن علی العرش استویٰ''رحمن عرش پر تسلط اور غلبہ رکھتا ہے۔

ج:'' المعجم الوسیط'' نامی کتاب میں مذکور ہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ!استویٰ علیٰ سریر الملک أوعلیٰ العرش'' تخت حکومت پر متمکن ہوا یابادشاہی کرسی پر بیٹھا، اس سے مراد یہ ہے کہ مملکت کا اختیار اپنے قبضہ میں لیا۔

اخطل نامی شاعر نے بشربن مروان اموی کی مدح میں کہا ہے:

قد استویٰ بشر علی العراق :: من غیر سیفٍ أودمٍ مهراقٍ

بشر نے عراق کی حکومت شمشیر اور کسی قسم کی خونریزی کے بغیر اپنے ہاتھ میں لے لی!( ۳ )

____________________

(۱)مفردات راغب اور المعجم الوسیط میں مادہ '' عرش'' اور لسان العرب میں مادہ ثلل کی جانب مراجعہ کیجئے۔

(۲)بحار، ج ۵۸، ص ۷.

(۳)بشر بن مروان اموی خلیفہ عبد الملک مروان کا بھائی ہے جس نے ۷۴ ھ میں بصرہ میں وفات پائی اس کی تفصیل آپ کو ابن عساکر کی تاریخ دمشق میں ملے گی

۱۲۲

آیات کی تفسیر

جب ہم نے جان لیا کی ا سمائے الٰہی میں ''رحمن ورحیم'' ''ربُّ العا لمین'' کے صفات میں سے ہیں اور ہر ایک کے دنیا وآخرت دونوں جگہ آثار پائے جاتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ''اسم''قرآنی اصطلاح میں صفات ، خواص اشیاء اور ان کی حقیقت بیان کرنے کے معنی میں ہے اور''عرش'' عربی لغت میں حکومت اور قدرت کے لئے کنایہ ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ''استوائ'' جب علیٰ کے ذریعہ متعدی ہوگا تو غلبہ اور تسلط کے معنی دیتا ہے اور یہ جو کہا جاتا ہے:

''استویٰ علی سریر الملک او علیٰ العرش''

سریر حکومت یا عرش حکومت پر جلوہ افروز ہوا (متمکن ہوا)یعنی:''تولیٰ الملک'' مملکت وحکومت کا اختیار اپنے قبضہ میں لیا۔

اب اگر قرآن کریم میں '' استویٰ علی العرش''کے مذکورہ ہفت گانہ مقامات کی طرف رجوع کریں تو اندازہ ہوگا کہ ان تمام مقامات پر''استوائ''علیٰ کے ذریعہ متعدی ہوا ہے ،جیسے:

( استویٰ علیٰ العرش ید بّر الأمر ) ( ۱ )

وہ عرش پر متمکن ہو کر امر کی تدبیر کرتا ہے۔

( ثُّم استویٰ علی العرش ید بر الامر ) ( ۲ )

پھر وہ عرش پر متمکن ہوااور تدبیر امر میں مشغول ہوگیا۔

ان آیات میں (نوع تدبیر کی طرف اشارہ کئے بغیر)صراحت کے ساتھ فرمایا :'' عرش پر متمکن ہوا اور تدبیر امر میں مشغول ہو گیا۔،، سورۂ اعراف کی ۵۴ ویں آیت میں انواع تدبیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( استویٰ علی العرش یغشی الیل النهار...) )

وہ عرش پر جلوہ افروز ہوا اور شب کے ذریعہ دن کو چھپا دیتا ہے۔

اور سورۂ حدید کی چوتھی آیت میں تدبیر کار کی طرف کناےةًاشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( استویٰ علیٰ العرش یعلم ما یلج فی الارض وما یخرج منها )

____________________

(۱)یونس ۳.

(۲)سجدہ ۴و ۵ ؛ رعد ۲

۱۲۳

عرش پر متمکن ہوا وہ جو کچھ زمین کے اندر جاتاہے اور جو کچھ اس سے خارج ہوتا ہے سب کو جانتاہے۔

یعنی خداوند عالم جو کچھ اس کی مملکت میں ہوتا ہے جانتا ہے اور ساری چیزیںاس کی تدبیر کے مطابق ہی گردش کرتی ہیں۔

یہیں پر سورۂ فرقان کی ۵۹ ویں آیت کے معنی بھی معلوم ہوجاتے ہیں جہاں خداوندعالم فرماتا ہے:

( استویٰ علیٰ العرش الرحمن فسئل به خبیراً )

عرش قدرت پر متمکن ہوا، خدائے رحمان ،لہٰذا صرف اسی سے سو ال کرو کہ وہ تمام چیزوں سے آگاہ ہے! یعنی وہ جو کہ عرش قدرت پر متمکن ہوا ہے وہی خدا وند رحمان ہے جو کہ تمام عالمین کو اپنی وسیع رحمت کے سایۂ میں پرورش کرتا ہے اور جو بھی اس کی مملکت میں کام کرتا ہے اس کی رحمت اور رحمانیت کے اقتضاء کے مطابق ہے یہ موضوع سورۂ طہ کی پانچوں آیت میں مزیدتا کید کے ساتھ بیان ہوا ہے:

( الرحمن علیٰ العرش استویٰ) )

خدا وند رحمان ہے جو عرش قدرت پر غلبہ اور تسلط رکھتا ہے۔

اس لحاظ سے، جو کچھ سورہ ''ہود'' کی ساتویں آیت میں فرماتا ہے :

( خلق السموات والأرض فی ستة أیام وکان عرشه علیٰ المائ )

آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں خلق فرمایا اور اس کا عرش قدرت پانی پرٹھہراتھا ۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مملکت خدا وندی میں زمین وآسمان کی خلقت سے قبل جز پانی کے جس کی حقیقت خدا وندعالم ہی جانتا ہے کوئی اور شے ٔموجود نہیں تھی ۔

اورجو سورۂ غافر کی ساتویں آیت میں فرماتا ہے:

( الذین یحملون العرش )

وہ لوگ جو عرش کو اٹھاتے ہیں۔

اس سے بار گاہ الٰہی کے کار گزار فرشتے ہی مراد ہیں کہ بعض کو نمائندہ بنایا اور بعض کو پیغمبروں کی امداد کے لئے بھیجا بعض کچھ امتوں جیسے قوم لوط پر حا ملان عذاب ہیں اور بعض آدمیوں کی روح قبض کرتے ہیں خلاصہ یہ کہ ہر ایک اپنا مخصوص کام انجام دیتا ہے اور جو کچھ ہماری دنیا میں خدا وند عالم کی ربوبیت کا مقتضیٰ ہی اس میں مشغول ہے۔

۱۲۴

اور سورۂ حاقہ کی ساتویں آیت میں جو فرماتا ہے:

( و یحمل عرش ربّک فوقهم یومئذٍ ثمانية )

تمہارے رب کے عرش قدرت کو اس دن آٹھ فرشتے حمل کریں گے۔

اس سے مراد قیامت کے دن فرمان خدا وندی کا اجراء کرنے والے فرشتوں کے آٹھ گروہ ہیں۔

اورسورہ نحل کی ۱۴ و یں آیت میں جو فرمایا:

( وهو الذ ی سخر البحر لتأکلوا لحماً طریاً و تستخر جوا منه حليةً تلبسو نها و تری الفلک مواخر فیه )

وہ خدا جس نے تمہارے لئے دریا کو مسخر کیا تا کہ اس سے تازہ گوشت کھاؤ اور زیور نکالو جسے تم پہنتے ہو اور کشتیوں کو دیکھتے ہو کہ دریا کا سینہ چاک کرتی ہیں۔

اس کے معنی یہ ہے کہ دریا کو ہمارا تابع بنا دیا تا کہ اُس کے خواص سے فائد ہ اٹھائیں اور یہ حضرت آدم کی تعلیم کا ایک مورد ہے چنانچہ اس سے پہلے اسی سورہ کی ۵ ویں تا۸ ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

( والأ نعام خلقها لکم فیها دفء و منا فع ومنهاتأکلون و لکم فیها جمال حین تُر یحون وحین تسرحون و تحمل أثقا لکم اِلیٰ بلدٍ لم تکونوا بالغیه الِاّ بشقّ الأنفس اِنّ ربّکم لرء وف رحیم ، والخیل و البغا ل و الحمیر لترکبو ها وزینةً و )

اور اس نے چوپا یوں کو خلق کیا کیو نکہ اس میں تمہاری پوشش کا وسیلہ اور دیگر منفعتیں پائی جاتی ہیں اوران میں سے بعض کا گوشت کھاتے ہو اوروہ تمہارے شکوہ اور زینت وجمال کا سبب ہیں، جب تم انھیںجنگل سے واپس لاتے ہو اور جنگل کی طرف روانہ کرتے ہو،نیز تمہارا سنگین و وزنی بار جنھیں تم کافی زحمت ومشقت کے بغیروہاںتک نہیںپہنچا سکتے یہ اٹھاتے ہیں،یقیناتمہاراربرؤفومہربان ہے اوراس نے گھوڑوں،گدھوں اور خچروں کو پید ا کیاتا کہ ان پر سواری کرو اور وہ تمہاری زینت کا سامان ہوں۔خدا وند عالم نے اس کے علاوہ کہ ان کو ہمارا تابع اور مسخربنایا ہے ان سے استفادہ کے طریقے بھی ہمیں سکھائے تا کہ گوشت،پوست، سواری اور بار برداری میں استفادہ کریں۔

سورہ زخرف کی بارھویں اور تیر ھویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

( والذی خلق الأزواج کلّها و جعل لکم من الفلک و الاّنعام ماتر کبون ، لتستوا علی ظهوره، ثُمّ تذکر وا نعمة ربّکم اِذا استو یتم علیه و تقو لوا سبحان الذی سخر لنا هذا و ما کُنا له مقر نین )

۱۲۵

اور جس خدا نے تمام جوڑوں کو پیدا کیا اور تمہارے لئے کشتیوں اور چوپایوں کے ذریعہ سواری کا انتظا م کیا تا کہ ان کی پشت پر سوار ہو اور جب تم ان کی پشت پر سوار ہو جاؤ تو اپنے رب کی نعمت کو یاد کرو اور کہو: وہ خدا منزہ اور پاک و پاکیزہ ہے جس نے ان کو ہمارا تابع اور مسخر بنایا ورنہ ہمیں ان کے تسخیر کرنے کی طاقت وتوانائی نہیں تھی۔

جس خدا نے ہمیں ان آیات میں مذکور چیزوں سے استفادہ کا طریقہ بتا یا اور اپنی''ربوبیت'' کے اقتضاء کے مطابق انھیں ہمارا تابع فرمان اور مسخر بنایااسی خدا نے شہد کی مکھی کو الہام کیا کہ پہاڑوں اور گھر کے چھپروں میں پھول اور شگو فوں کو چوس کر شہد بنائے، اسی نے دریا کو مچھلیوں کے اختیار میں دیا اور الہام غریزی کے تحت اس سے بہرہ مند ہونے اور استفادہ کرنے کی روش اورطریقہ بتا یا،اس طرح سے اسنے اپنی وسیع رحمت کے ذریعہ ہر ایک مخلوق کی ضرورت کو دیگر موجودات سے بر طرف کیا اوراس کے اختیار میں دیا نیز ہر ایک کو اس کی ضروری اشیاء کی خاصیتوں سے آگاہ کیا تا کہ اس سے فائدہ حاصل کرے بعبارت دیگر شہد کی مکھی کوبقائے حیات کے لئے ضرور ی اشیاء کے اسما ء اور ان کی خاصیتوں سے آگاہ کیا تاکہ زندگی میں اس کا استعمال کرے اور مچھلیوں کو بھی ان کی ضرورت کے مطابق اشیاء کے اسماء اور خواص سکھائے تاکہ زندگی میں ان کا استعمال کرے ،وغیرہ ۔

رہی انسان کی بات تو خدا وندعالم نے اسے خلق کرنے کے بعد اس کی تعریف وتوصیف میں فرمایا:

( فتبارک ﷲ احسن الخا لقین )

بابرکت ہے وہ ﷲ جو بہترین خالق اور پیدا کرنے والا ہے۔

خدا وند عالم نے تمام اسماء اوران کی خاصیتیں اسے بتا دیں ؛چنانچہ سورۂ جاثیہ کی ۱۳ ویں آیت میں فرمایا:

( وسخر لکم مافی السموات والأرض جمیعاً منه )

اورخدا نے جو کچھ زمین وآسمان میں ہے سب کو تمہارے اختیار میں دیا اور اسے تمہارا تابع بنا دیا۔

سورۂ لقمان کی ۲۰ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے!

( ألم تروا اَنّ ﷲ سخر لکم ما فی السموات وما فی الأرض )

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے زمین و آسمان کے درمیان کی تمام چیزوں کو تمہارا تابع اور مسخر بنا یا۔

پر وردگار عالم نے اپنی مخلوقات کی ہر صنف کو دیگر تمام مخلوقات سے استفادہ کرنے کی بقدر ضرورت ہدایت فرمائی۔ اور جو مخلوق دیگر مخلوق کی نیاز مندتھی تکوینی طور پر اس کو اس کا تابع بنایا ہے۔

۱۲۶

اور انسان جوکہ خدا داد صلاحیت اور جستجوو تلاش کرنے والی عقل کے ذریعہ تمام اشیاء کے خواص کو درک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اگر کوشش کرے اور علوم کو حاصل کرنے کے لئے جد وجہد کرے،تو اسے یہ معلوم ہوگا کہ تمام مخلوقات اس کے استعمال کے لئے اسکے اختیار میں ہیں، مثال کے طور پر اگر'' ایٹم'' کے خواص کو درک کرنے کی کوشش کرے تویقینا وہاں تک اس کی رسائی ہو جائے گی اور چو نکہ ایٹم ان اشیاء میں ہے جو انسان کے تابع اور مسخر ہے، قطعی طور پر وہ اسے شگا ف کرنے اور اپنے مقاصد میں استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جس طرح سے خدا نے آگ ،الکٹریک اورعلوم کی دیگر شاخوں جیسے فیزک اور کیمسٹری کواس کے حوالے کیا نیز انھیں اس کا تابع بنایا تا کہ مختلف دھاتوںسے ہوائی جہاز اور راکٹ وغیرہ بنائے اوراسے زمین کے اطراف میں گردش دے وغیرہ وغیرہ ۔

لیکن یہ انسان''چونکہ سرکش ، طاغی اور حریص ہے ''لہٰذا اس شخص کا محتاج اور ضرورت مند ہے جو ان مسخرات سے استفادہ کا صحیح طریقہ اور راستہ بتائے تا کہ جو اس نے حاصل کیا اور اپنے قبضہ میں کر لیا ہے ا سے اپنے یا دوسروں کے نقصان میں استعمال نہ کرے۔''کھیتی'' اور نسل '' کو اس کے ذریعہ نابود نہ کرے''ربّ رحمان''نے عالی مرتبت انبیاء کواس کی ہدایت کے لئے مبعوث کیا تا کہ مسخرات سے استفادہ کی صحیح راہ وروش بتائیں پس''ربّ رحمن'' کے جملہ آثار رحمت میں سے پیغمبروں کا بھیجنا ،آسمانی کتابوں کا نازل کرنا اور لوگوں کو تعلیم دینا ہے، اس موضوع کی وضاحت سورہ رحمان میں لفظ ''رحمن'' کی تفسیر کے ذریعہ اس طرح کی ہے:

( الرّحمن، علّم القرآن )

خدا وندرحمان نے ،قرآن کی تعلیم دی۔

( خلق الاِنسان،علّمهُ البیان )

انسان کوخلق کیا اوراسے بیان کرنا سکھا یا۔

( الشمسُ والقمر بحسبان )

سورج اور چاندحساب کے ساتھ گردش کرتے ہیں۔

( والنجم والشجر یسجدان )

اور بوٹیاں بیلیں اور درخت سب اسی کا سجد ہ کر رہے ہیں ۔

( والسماء رفعها ووضع المیزان )

اوراُس نے آسمان کو رفعت دی اور میزان وقانون وضع کیا(بنایا)۔

۱۲۷

( والأرض وضعها للِْاِ نام )

اور زمین کو مخلوقات کے لئے خلق کیا۔

( فیها فا کهة والنخل ذات الأکمام )

اس میں میوے اور کھجو ریں ہیں جن کے خوشوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں۔

( والحبّ ذوالعصف والرّیحان )

اورخوشبو دار گھاس اور پھول کے ساتھ دانے ہیں۔

( فباَیّ آلاء ربّکما تکذّبان )

پھر تم اپنے ربّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ۔

( تبارک اْسم ربّک ذی الجلال والاِکرام )

تمہارے صاحب جلال واکرام رب کا نام مبارک ہے۔

نیز ''ربّ'' ہے جو :

( یبسط الرّزق لمن یشاء ویقدر ) ( ۱ )

جس کی روزی میں چاہے وسعت دیدے اور جسکی روزی میں چاہے تنگی کر دے۔

جو کچھ ہم نے رحمت''ربّ'' کے آثار دنیا میں پیش کئے ہیں وہ مومن اور کافر تمام لوگوں کو شامل ہیں اس بناء پر''رحمان'' دنیا میں ''ربّ العالمین''کے صفات میں شمار ہوتا ہے نیز اس کی رحمت تمام خلائق جملہ مومنین وکافرین سب کو شامل ہے اور چونکہ ''ربّ العالمین'' لوگوں کی پیغمبروں پر''وحی'' کے ذریعہ ہدایت کر تا ہے، قرآن کریم ''وحی'' کی ''ربّ'' کی طرف، جو کہ ﷲ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے ،نسبت دیتے ہوئے فرماتا ہے :

( ذلک ممّا أوحیٰ اِلیک ربّک من الحکمة ) ( ۲ )

یہ اس کی حکمتوں میں سے ہے کہ تمہارے''ربّ'' نے تم کو وحی کی ہے۔

____________________

(۱) سبا۳۶،۳۹

(۲) اسراء ۳۹.

۱۲۸

اور فرمایا:

( اتّبع ما أوحی اِلیک من ربّک ) ( ۱ )

جو چیز تما رے ربّ کی طرف سے تم پر وحی کی گئی ہے اس کی پیروی کرو۔

قرآن اسی طرح ارسال رسل اور آسمانی کتابوں کے نازل کرنے کو '' ربّ العالمین''کی طرف نسبت دیتا ہے اور حضرت ہود کے حالات زندگی کی شرح میں فرماتا ہے کہ انھوں نے اپنی قوم سے کہا:

( یا قوم لیس بی سفا هة و لکِنّی رسول من ربّ العالمینأبلٔغکم رسا لات ربِّی ) ( ۲ )

اے میری قوم! میرے اندر کسی قسم کی سفاہت نہیں ہے لیکن میں ،،ربُّ العالمین،، کی جانب سے ایک رسول اور فرستادہ ہوں کہ اپنے پروردگار کی رسالت تم تک پہنچاتاہوں۔

نیز حضرت نوح کے بارے میں فرماتا ہے: انھوں نے اپنی قوم سے کہا:

( یا قوم لیس بی ضلا لة و لکنّی رسول من ربّ العا لمینَاُبلّغکم رسالات ربِّی ) ( ۳ )

اے میری قوم! میرے اندر کسی قسم کی ضلالت اور گمراہی نہیں ہے، لیکن میں ''ربّ العا لمین'' کا فرستادہ اور رسول ہوں ،کہ اپنے پروردگار کی رسالت تم تک پہنچاتاہوں۔

اور حضرت موسیٰ کے بارے میں فرماتا ہے کہ ا نھوں نے فرعون سے کہا:

( یا فرعون انِّی رسول من ربّ العا لمین ) ( ۴ )

اے فرعون! میں ربّ العالمین کا فرستادہ ہوں۔

آسمانی کتابوں کے نازل کرنے کے سلسلے میں فرمایا :

( واتل ما أوحی اِلیک من کتاب ربّک ) ( ۵ )

جوکچھ تمہارے''رب'' کی کتاب سے تمہاری طرف وحی کی گئی ہے اس کی تلاوت کرو!

( تنزیل الکتاب لاریب فیه من ربّ العالمین ) ( ۶ )

اس کتاب کا نازل ہونا کہ جس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے رب العا لمین کی طرف سے ہے ۔

____________________

(۱) انعام ۱۰۶ (۲)اعراف ۶۷ ، ۶۸(۳)اعراف ۶۱ ، ۶۲(۴) اعراف ۱۰۴ (۵)کہف ۲۷(۶) سجدہ ۲ ۔

۱۲۹

( اِنّه لقرآن کریم تنزیل من ربّ العالمین ) ( ۱ )

بیشک یہ قرآن کریم ہے جو ''ربّ العا لمین'' کی طرف سے نازل ہوا ہے

نیز امر و فرمان کی نسبت''ربّ'' کی طرف دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( قل أمر ربِیّ با لقسط و أقیموا وجو هکم عند کلّ مسجد ) ( ۲ )

کہہ دو!میرے ربّ نے عدالت وانصاف کا حکم دیا ہے اور یہ کہ ہر مسجد میں اپنا رخ اس کی طرف رکھو۔

اس لحاظ سے صرف اورصرف''ربّ'' کی اطاعت کرنی چاہئے ،جیسا کہ خاتم الانبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مومنین کے قول کی حکایت کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( آمن الرسول بما أنزل الیه من ربّه و المؤ منون و قالوا سمعنا وأطعنا غفرانک ربّناّ ) ( ۳ )

پیغمبر جو کچھ اس کے ''رب'' کی طرف سے نازل ہوا ہے اس پر ایمان لایا ہے اور تمام مومنین بھی ایمان لا ئے ہیںاوران لوگوںنے کہا ! ہم نے سنا اور اطاعت کی اے ہمارے پروردگارہم ! تیری مغفرت کے خواستگار ہیں۔

انبیاء بھی چو نکہ اوامر ''ربّ العا لمین''کی تبلیغ کرتے ہیں ، لہٰذا خدا وند متعال نے ان کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیتے ہوئے فرمایا :

( أطیعواﷲ وأطیعواالرسول ولا تبطلوا أعمالکم ) ( ۴ )

خدا کی اطاعت کرواور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو ۔

یہی حال گناہ اور معصیت کا ہے کہ کسی سے بھی صادر ہو''ربّ العا لمین'' کی نافرمانی کی ہے ،جیسا کہ فرمایا:

( فسجدوا الا ابلیس کان من الجن ففسق عن امر ربه ) ( ۵ )

سارے فرشتو ں نے سجدہ کیا جز ابلیس کے، جوکہ جنوں میں سے تھا اور اپنے ''ربّ'' کے فرمان سے باہر ہو گیا۔

نیز یہ بھی فرمایا:

( فعقروا الناقة و عتوا عن أمر ربهم ) ( ۶ )

____________________

(۱)واقعہ ۷۷، ۸۰(۲)اعراف ۲۹ (۳)بقرہ ۲۸۵(۴) محمد ۳۳(۵)کہف ۵۰ (۶)اعراف ۷۷

۱۳۰

(قوم ثمود) نے''ناقہ'' کوپے کر دیا اور اپنے ربّ کے فرمان سے سر پیچی کی۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لفظ ''امر'' اور فرمان جملہ سے حذف ہو جاتا ہے لیکن اس کے معنی باقی رہتے ہیں، جیسا کہ حضرت آدم کے بارے میں فرمایا:

( وعصیٰ آدم ربّه فغویٰ)( ) ۱ )

آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور جزا سے محروم ہو گئے۔

یعنی آدم نے اپنے رب کے امرکی نافرمانی کی۔

انبیاء علیہم السلام بھی چونکہ اوامر''ربّ''کولوگوں تک ابلاغ کرتے ہیں تو ان کی نافرمانی اور سر پیچی فرمان''ربّ'' کی مخالفت شمار ہوتی ہے، جیسا کہ خدا فر عون اور اس کی قوم نیز ان لوگوں کے بارے میں جوان سے پہلے تھے فرماتا ہے:

( و جاء فرعون ومن قبلهفعصوا رسول ربّهم ) ( ۲ )

فرعون اور وہ لوگ جواس سے پہلے تھے ....ان سب نے اپنے ربّ کے فرستادہ پیغمبر کی مخالفت کی ۔

انسان نافرمانی کرنے کے بعد جب توبہ کرتا ہے اپنے ''رب'' سے مغفرت چاہتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے:

( الذین یقولون ربّنا انّنا آمنا فا غفرلنا ذنو بنا ) ( ۳ )

وہ لوگ کہتے ہیں: اے ہمارے'' رب'' ! ہم ایمان لائے ، لہذا ہمارے گناہوں کو بخش دے۔

( وما کان قولهم اِلاّ أن قالوا ربنّا أغفرلنا ذنوبنا ) ( ۴ )

اوران کا کہنا صرف یہ تھا کہ اے ہمارے پروردگار !ہمارے گناہوں کو بخش دے۔

( ربّنا فاغفر لنا ذنو بنا و کفرعناّ سيّئا تنا ) ( ۵ )

ا ے ہمارے پروردگارا ! ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہماری برائیوں کی پردہ پوشی کر۔

سورہ قصص میں حضرت موسیٰ کے قول کے حکایت کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( ربّ انِی ظلمتُ نفسی فاغفر لیِ فغفر له ) ( ۶ )

ا ے میرے پروردگار! میں نے اپنے او پر ظلم کیا لہٰذا مجھے بخش دے اورخدا نے انھیں بخش دیا۔

اسی وجہ سے ''غفور'' و غفار''بھی ربّ کے صفات میں سے ہے، چنانچہ فرمایا:

____________________

(۱)طہ ۱۲۱(۲) حاقہ ۹،۱۰(۳)آل عمران ۱۶ (۴)آل عمران ۱۴۷(۵)آل عمران ۱۹۳۔(۶)قصص ۱۶۔

۱۳۱

( والذین عملوا السئّات ثُّمّ تابوا من بعد ها وآمنوا انّ ربّک من بعدها لغفور رحیم ) ( ۱ )

وہ لوگ جنھوں نے گناہ کیا اور اس کے بعد توبہ کی اور ایمان لائے(جان لیں کہ) تمہاراربّ اس کے بعد غفور ومہر بان ہے۔

اپنی قوم سے نوح کے قول کی حکایت کرتا ہے:

( فقلت استغفروا ربّکم انّه کان غفاّراً ) ( ۲ )

(نوح نے کہا) میں نے ان سے کہا:اپنے ربّ سے بخشش ومغفرت طلب کرو کیونکہ وہ بہت زیادہ بخشنے والا اور غفاّر ہے۔

سورۂ بقرہ میں فرمایا:

( فتلقّیٰ آدم من رّبه کلماتٍ فتاب علیه اِنّه هو التّوابُ الرحیم ) ( ۳ )

پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھے اور خدا نے ان کی توبہ قبول کی کیو نکہ وہ توبہ قبول کرنے والا اور مہر بان ہے۔

اور جو لوگ گناہ کرنے کے بعد توبہ کے ذریعہ اس کی تلافی اور جبران نہیں کرتے ان کے کردار کی سزاربّ العالمین کے ذمہّ ہے ،جیسا کہ فرمایا:

( قل یا عبادیِ الذین أسر فوا علیٰ أنفسهم لا تقنطوا من رحمة ﷲو انیبوا اِلیٰ ربّکم و أسلموا له من قبل أن یا تیکم العذا بُ ثُمّ لا تنصرون ) ( ۴ )

کہو: اے میرے و ہ بندو کہ تم نے اپنے اوپر ظلم وستم نیزا سراف کیاہے! خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہواپنے رب کی طرف لوٹ آؤ اوراس کے فرمان کے سامنے سراپا تسلیم ہو جاؤقبل اسکے کہ تم پر عذاب نازل ہو پھر کوئی یار ویاور نہ رہ جائے۔

ربّ کا اعمال کی جزا دینا کبھی دنیا میں ہے اور کبھی آخرت میں اور کبھی دنیا وآخرت دونوں میں ہے قرآن کریم سب کی نسبت رب کی طرف دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( لقد کان لسبا فی مسکنهم آية جنتان عن یمینٍ و شمالٍ کلوا من رزق ربّکم و اشکرٔ وا له بلدة طیبة و ربّ غفور فا عرضوا فارسلنا علیهم سیل العرم و بد لنا هم بجنّتیهم جنتین )

____________________

(۱)اعراف ۱۵۳(۲)نوح ۱۰ (۳)بقرہ ۳۷(۴)زمر ۵۳،۵۴

۱۳۲

( ذوا تی أکل خمطٍ و اثلٍ و شیئٍ من سدرٍ قلیل ذلک جز ینا هم بما کفر واوهل نجازی اِلّا الکفو ر ) ( ۱ )

قوم ''سبا'' کے لئے ان کی رہائش گاہ میں ایک نشانی تھی: داہنے اور بائیں دو باغ تھے( ہم نے ان سے کہا) اپنے رب کارزق کھاؤ اور اس کا شکر اداکرو ، شہر صاف ستھرا اور پاکیزہ ہے اور تمہارا ''ربّ'' بخشنے والا ہے، (لیکن) ان لوگوں نے خلاف ورزی اوررو گردانی کی تو ہم نے تباہ کن سیلابی بلااُن کے سر پر نازل کر دی اور دو میوہ دار باغوں کو تلخ اور کڑوے باغوں اور کچھ کو بیر کے درختوںمیں تبدیل کر دیا، یہ سزا ہم نے انھیں ان کے کفر کی بنا پر دی،آیا ہم کفران نعمت کرنے والے کے علاوہ کو سزا دے سکتے ہیں؟

لیکن آخری جزا قیامت میں دوبارہ اٹھائے جانے اور حساب کتاب کے بعد ہے،قرآن کریم محشور کرنے اور حساب و کتاب کرنے کی بھی نسبت ربّ کی طرف دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( وانّ ربّک هو یحشر هم ) ( ۲ )

تمہارا''ربّ'' انھیںمحشور کرے گا

نیز فرماتا ہے:

( ما فرّطنا فی الکتاب من شیٔ ٍثمّ الی ربّهم یحشرون ) ( ۳ )

اس کتاب میں ہم نے کچھ بھی نہیں چھوڑا ہے، پھر سب کے سب اپنے ''ربّ'' کی جانب محشور کئے جائیں گے۔

اور فرماتا ہے:

( انّ حسابهم الِّا علی ربِّی لو تشعرون ) ( ۴ )

(نوح نے کہا) ان کا حساب صرف اور صرف ہمارے رب کے ساتھ ہے اگر تم یہ بات درک کرتے ہو !

لوگ حساب وکتاب کے بعد یا مومن ہیں کہ ہر حال میں ''رحمت''خدا وندی ان کے شامل حال ہو گی یا غیر مومن کہ رحمت الٰہی سے دور ہوں گے ،خدا وند عالم نے مومنین کے بارے میں فرمایا:

( یوم نحشر المتّقین الی الرحمن و فداً ) ( ۵ )

جس دن پرہیز گاروں کو ایک ساتھ خدا وند ''رحمان'' کی جانب مبعوث کریں گے۔

____________________

(۱)سبا ۱۵ (۲)حجر ۲۵(۳)انعام ۳۸ (۴)شعرا ۱۱۳(۵) مریم ۸۵

۱۳۳

البتہ ربّ العالمین کی رحمت اس دن مو منین سے مخصوص ہے،یہی وجہ ہے کہ خدا کو آخرت کا رحیم کہا جاتا ہے اور لفظ ''رحیم'' رحمان کے بعد استعمال ہوا ہے جیسا کہ ارشاد ہوا:

( ألحمد للّه ربّ العالمین،الرحمن الرحیم )

حمد وستائش عالمین کے ربّ ﷲ سے مخصوص ہے،وہ خدا وند رحمن ورحیم ہے۔

کیو نکہ رحمن کی رحمت اس دنیا میں تمام افراد کو شامل ہے ،لیکن ''رحیم'' کی رحمت مو منین سے مخصوص ہے۔

غیر مومن اور کافر کے بارے میں ارشاد فرمایا!

( انّ جهنّم کانت مرصاداً، للطا غین مآباًجزائًً وفاقاً ) ( ۱ )

یقینا جہنم ایک سخت کمین گاہ ہے اور نافرمانوںکی باز گشت کی جگہ ہے ...یہ ا ن کے اعمال کی مکمل سزا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ رب العالمین کو روز جزا کا مالک کہتے ہیں جیسا کہ ارشاد ہوا:

( الحمد للّه ربّ العالمینالرحمن الرحیم مالک یوم الدین )

جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے اس کے مطابق ''ربّ'' رحمن بھی ہے اور ''رازق'' بھی'' رحیم'' بھی ہے اور ''توّاب و غفار ''بھی اور تمام دیگر اسمائے حسنیٰ کا بھی مالک ہے۔

بحث کاخلاصہ

خدا وند عالم سورۂ اعلی میں فرماتا ہے: مخلوقات کا رب وہی ہے جس نے انھیں بہترین طریقے سے خلق کیا ،پھر انھیںہدایت پذ یری کے لئے آمادہ کیا ،پھر اس کے بعد ہر ایک کی زندگی کے حدود معین کئے اور انھیں ہدایت کی ، پھراس کے بعد کی آیات میں حیوان کی چراگاہ کی مثال دیتے ہوئے فرماتا ہے:''ربّ'' وہی ہے جس نے حیوانات کی چرا گاہ کو ظاہر کیا اوراسے پر ورش دی تا کہ شدید سبز ہو نے کے بعد ا پنے آخری رشد یعنی خشک گھاس کی طرف مائل ہو۔

اسی طرح سورۂ رحمن میں جس کی آیات کو ہم نے پیش کیا جو ساری کی ساری ربوبیت کی توصیف میں تھیں آغاز سورہ میں تعلیم بیان کے ذریعہ انسان کی تربیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( خلق الانسان علّمه البیان )

____________________

(۱) نبائ۲۱، ۲۲، ۲۶

۱۳۴

انسان کو خلق کیا اوراسے بیان کی تعلیم دی یعنی اسے ہدایت قبول کرنے کے لائق بنایا۔

سورۂ علق میں انسان کی پرورش سے متعلق صفات''ربوبیت''کے دوسرے گوشے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( خلق الانسان من علقالذی علّم با لقلم علّم الاِنسان ما لم یعلم )

انسانوں کو منجمد خون سے خلق کیا وہی ذات جس نے ا سے قلم کے ذریعہ تعلیم دی اور جو انسان نہیں جانتا تھا اس کی تعلیم دی ،یعنی اسے ہدایت قبول کر نے کے لئے آمادہ کیا۔

مذکورہ دونوں موارد(آموزش بیان اور قلم کے ذریعہ تعلیم) کلمہ ''سوّی'' کی تشریح ہے جو کہ''سورہ اعلیٰ'' میں آیاہے۔

سورۂ'' شوریٰ، نساء ، آل عمران'' میں ''ربّ العالمین ''کے ذریعہ انسان کی کیفیت ہدا یت کی شرح کرتے ہوئے فرمایا:انسان کے لئے دین اسلام کو معین کیا اوراسے اپنی کتابوں میں اپنے پیغمبروں کے ذریعہ ارسال کیا

سورۂ یونس اور اعراف میں فرمایا:تمہارا ربّ وہی خدا ہے جس نے زمین وآسمان کو پیدا کیا اور انھیں ہدایت تسخیری سے نوازا۔

سورۂ انعام میں ۹۵ تا۱۰۱آیات میں انواع مخلوقات کی یاد آوری کے بعدآیت ۱۰۲ میں فرمایا:

( ذلکم ﷲ ربکم لا اله الاّ هوخالق کل شیئٍ فا عبدوهُ )

یہ ہے تمہارا رب، ﷲ ،اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے،وہ تمام چیزوں کا خالق ہے ،صرف اس کی عبادت کرو۔

یہاں تک جو کچھ ہم نے ربوبیت کے صفات اور اس کے اسماء کو بیان کیا سب کے سب ﷲ کے صفات اور اس کے اسماء سے تعلق رکھتے ہیں، ﷲ کے'' اسمائے حسنیٰ ''کی بحث میں انشاء ﷲ دیگر اسمائے حسنیٰ کوجو ﷲ سے مخصوص ہیں ذکر کر یں گے۔

۱۳۵

۴

ﷲ کے اسمائے حسنیٰ

۱۔ ﷲ

۲۔ کرسی

۱۔ﷲ

بعض علمائے علم لغت کہتے ہیں: ﷲ در حقیقت'' اِلٰہ'' تھا جو کہ'' آلِھة'' کا اسم جنس ہے ،اس پر الف و لام تعریف داخل ہوا، اور ''اَلْاِلٰہُ ''ہو گیا، پھر الف کو اس کے کسرہ کے ساتھ حذف کردیا گیا اور دو لام کو باہم ادغام کر دیا ''ﷲ'' ہو گیا ،یعنی لفظ الہ اور ﷲ ؛رجل اور الرجل کے مانند ہیں پہلے دونوں یعنی الہ ورجل ''الھة او ر رجال'' کا اسم جنس ہیں اور دوسرے دونوں یعنی ''ﷲ'' اور ''الرجل'' الف ولام کے ذریعہ معرفہ ہو گئے ہیں اورمورد نظررجل اورالہ معین ومشخص کئے ہیں اس لحاظ سے لا الہ الاﷲ'' کے معنی ہو ں گے: کوئی معبود نہیں ہے جزاس کے جو کہنے والے کا موردنظر اورمقصود ہے۔

یہ نظریہ غلط اور اشتباہ ہے ، کیو نکہ لفظ ﷲ نحویوں کی اصطلاح میں ''عَلَم مرتجل'' (منحصر بہ فرد )ہے اور ذات باری تعالیٰ سے مخصوص ہے، جس کے تمام صفات جامع جمیع اسمائے حسنیٰ ہیں اور کوئی بھی اس نام میں اس کا شریک نہیں ہے جس طرح کوئی ''الوہیت اور ''ربوبیت'' میں اس کاشریک نہیں ہوسکتاہے ۔

چنانچہ ﷲ اسلامی اصطلاح میں ایک ایسا نام ہے جو اس ذات سے مخصوص جس کے یہاں تمام صفات کمالیہ پائے جاتے ہیں، جیسا کہ خود ﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ولِلّہ الأسماء الحسنیٰ'' تمام اسمائے حسنیٰ( ۱ ) ''ﷲ'' کیلئے ہیں اور فرمایا:( ﷲ لا اِلٰه اِلاّ هوله ا لأ سماء الحُسنیٰ ) ( ۲ ) وہ خدا جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے تمام اسمائے حسنیٰ اس کے لئے ہیں۔

بنابرایں ''لا اِلٰہ اِلّا ﷲ'' یعنی ہستی میں کوئی موثراور خالق نہیں اور تمام صفات کمالیہ اور اسمائے حسنیٰ کے مالک خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ﷲ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ایک''قیوّم'' ہے قیوّم یعنی پائندہ قائم بالذات ہر چیز کا محافظ و نگہبان نیز وہ ذات جو موجودات کو قوام عطا کرتی ہے، آیت کے یہ معنی سورۂ طہ کی

____________________

(۱)اعراف ۱۸۰ (۲)طہ ۸.

۱۳۶

۵۰ ویں آیت میں ذکر ہو ئے ہیں:

( ربّنا الذی أعطی کلّ شیٍ خلقه ثّم هدی ) ( ۱ )

ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر موجود کو جو اس کے خلقت کا لازمہ تھا عطا کیا، پھر اس کے بعد ہدایت کی ہے.

پس وہی ﷲ جو تما م صفات کمالیہ اور اسمائے حسنیٰ کا مالک ہے وہ ربّ، رحمان ، رازق، تواب،غفاّر، رحیم اور روز جزا کا مالک ہے، یہی وجہ ہے قرآن کریم میں کہیں پر لفظ ﷲربّ کی جگہ استعمال ہوا ہے یعنی جس جگہ ربّ کانام ذکر کرنا سزاوارتھا وہاں ربّ کی جگہ استعمال ہوا اور ربّ کے صفات اپنے دامن میں رکھتا ہے جیسے:رازق،تواب،غفورا وررحیم اور وہ ذات جو انسان کو اس کے عمل کی جزا دیتی ہے، جیسا کہ ارشاد ہوا:

۱۔( ﷲ یبسط الرّزق لمن یشاء ویقدر ) ( ۲ )

ﷲ ہی ہے جوجس کے لئے چاہتاہے اس کے رزق میں وسعت عطا کرتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے اس کے رزق میں تنگی کرتا ہے۔

۲۔( وانّ ﷲ هو التّواب الرحیم ) ( ۳ )

یقینا وہی ﷲ توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔

۳۔( اِنّ ﷲ غفوررحیم ) ( ۴ )

یقینا ﷲ بخشنے والا اور رحیم ہے۔

۴۔( لیجزیهم ﷲ أحسن ما کانوا یعملون ) ( ۵ )

تاکہ خدا انھیں جزا دے بہترین اعمال کی، جو انھوں نے انجام دئے ہیں۔

گزشتہ آیات میں جیسا کہ ہم نے ملا حظہ کیا ِ،صفات رزّاق ،غفور اور رحیم اور جزا دینے والا کہ ربّ العالمین سے مخصوص ہیں سب کی نسبت ﷲ کی طرف ہے ،کیو نکہ ﷲ تما م صفات کمالیہ کا مالک اور خود ''ربّ العا لمین'' ہے۔

بعض اسماء و صفات جو قرآن کریم میں آئے ہیں وہ بھی ''ﷲ'' کی مخصوص صفت ہیں جیسے:

( ﷲ لا اِلٰه اِلاّ هو الحیّ القيّوم لا تأ خذه سنة و لا نوم له ما فی السموات و ما فی )

____________________

(۱) طہ۵۰(۲) رعد۲۶ (۳) توبہ ۱۰۴ (۴) بقرہ ۱۸۲(۵) توبہ ۱۲۱

۱۳۷

( الأرض من ذالّذی یشفع عنده اِلاّ باِ ذنه یعلم ما بین أید یهم و ما خلفهم و لا یحیطون بشیئٍ من علمه اِلّا بما شاء وسع کر سيّه السموات و الأرض و لا یؤده حفظهما و هو العلیّ العظیم ) ( ۱ )

کوئی معبودنہیںجزاللہ کے حی وقیوم اور پائندہ ﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے نہ اسے اونگھ آتی ہے اور نہ ہی نیند ،جو کچھ زمین وآسمان میں ہے ا سی کا ہے کون ہے جو اس کے پاس ا س کے فرمان کے علاوہ شفاعت کرے؟ جو کچھ ان کے سامنے اور پیچھے ہے اسے جانتا ہے اور کوئی اس کے علم کے ایک حصہ سے بھی آگاہ نہیں ہوتا جز یہ کہ وہ خود چاہے، اس کی حکومت کی''کرسی'' زمین وآسمان کو محیط ہے نیز ان کی محا فظت اسے تھکا تی نہیں ہے اور وہ ' علی ّ و عظیم''(بلند مرتبہ و با عظمت) ہے۔

اس آیت میں مذکور تمام اسماء و صفات ''ﷲ'' سے مخصوص ہیں اور ''الہٰ '' خالق اور ربّ العالمین کے صفات میں سے نہیں ہیں۔

نیز ایسے صفات جیسے:عزیز ،حکیم،قدیر،سمیع،بصیر،خبیر، غنی،حمید، ذوالفضل العظیم،( عظیم فضل کا مالک) واسع، علیم(وسعت دینے والا اور با خبر) اور فعال لمایشائ(اپنی مرضی سے فعل انجام دینے والا)... یہ سارے صفات '' ﷲ'' کے مخصوص صفات ہیں، اس لحاظ سے ﷲ ایک نام ہے ا ن صفات میں سے ہر ایک کے لئے اوراللہ کی حقیقت یہی صفات اور اسمائے حسنیٰ ہیں۔

عبرانی زبان میں بھی ''ےَھُوَہ'' کو'' ﷲ'' کی جگہ اور''الوھیم'' کو''الا لہ'' کی جگہ استعمال کرتے ہیں ۔

ﷲ کی ایک صفت یہ ہے کہ اس کی ''کرسیٔ حکومت'' زمین وآسمان سب کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ چنانچہ اب ہم''کرسی'' کے معنی کی تحقیق وبر رسی کریں گے۔

____________________

(۱) بقرہ ۲۵۵

۱۳۸

۲۔کرسی

لفظ کرسی؛ لغت میں تخت اور علم کے معنی میں ہے۔

طبری،قرطبی اور ابن کثیر نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ فرمایا :''کرسی خدااس کا علم ہے''۔ اورطبری کہتے ہیں:

''جس طرح خدا وند عالم نے فرشتوں کی گفتگو کی خبر دی ہے کہ انھوں نے اپنی دعا میں کہا :

( ربّنا وسعت کلّ شیء علماً )

پروردگار ا! تیرا علم تمام اشیاء کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

اس آیت میں بھی خبر دی ہے کہ''وسع کرسےّہ السموات و الأرض'' اس کا علم زمین وآسمان کو محیط ہے،کیو نکہ''کرسی'' در حقیقت علم کے معنی میں ہے ،عرب جو اپنے علمی نوٹ بک کوکرّاسہ کہتے ہیں اسی باب سے ہے ،چنانچہ علما ء اور دانشوروں کو ''کَراسی'' کہا جاتا ہے۔(طبری کی بات تمام ہوئی)۔

طبری کی بات پر اضافہ اضافہ کرتے ہوئے ہم بھی کہتے ہیں:خدا وند عالم نے حضرت ابراہیم کی اپنی قوم سے گفتگوکی حکایت کی ہے جو انھوں نے اپنی قوم سے کی:

( وسع ربیّ کلّ شیئٍ علماً أ فلا تتذکّرون ) ( ۱ )

ہمارے رب کا علم تمام چیزوں کو شامل اور محیط ہے آیاتم لوگ نصحت حاصل نہیں کرتے؟

اورشعیب کی گفتگو اپنی قوم سے کہ انھوں نے کہا ہے:

( وسع ربّنا کلّ شیئٍ علماً ) ( ۲ )

ہمارے رب کا علم تمام اشیا ء کو محیط ہے۔

اور موسیٰ کی سامری سے گفتگو کہ فرمایا:

____________________

(۱) انعام ۸۰

(۲)اعراف ۸۹

۱۳۹

( ِِِانّما اِلٰهکم ﷲ الذی لا أِله الاّ هو وسع کلّ شیئٍ علماً ) ( ۱ )

تمہارا معبود صرف ''ﷲ'' ہے وہی کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، اس کا علم تمام اشیاء کو احاطہ کئے ہوئے ہے۔

رسول خدا کے اوصیاء میں چھٹے وصی یعنی امام جعفر صادق نے سائل کے جواب میں جس نے کہا : (وسع کر سیہ السموات و الارض) اس جملہ میں کرسی کے کیا معنی ہیں ؟فرمایا: خدا کا علم ہے۔( ۲ )

قرآن کریم میں کرسی کا تخت اور علم دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے، خدا وند عالم نے سور ئہ ص میں سلیمان کی داستان میں فر مایا:

( و لقد فتّنا سلیمان و ألقینا علیٰ کر سيّه جسداً ) ( ۳ )

ہم نے سلیمان کو آزمایا اور ان کی کرسی (تخت ) پر ایک جسد ڈال دیا۔

اور اس آیت میں فرماتا ہے:

( یعلم ما بین أید هم وما خلفهم ولا يُحیطون بشیء ٍ من علمه ِالّا بما شاء وسع کر سيّه السموات و الٔارض ) ( ۴ )

خدا وند عالم ان کے سامنے اور پس پشت کی ساری باتوں کو جانتا ہے اور وہ ذرہ برابر بھی اس کے ''علم'' سے آگاہ نہیں ہو سکتے جز اس کے کہ وہ خود چاہے،اس کی کرسی یعنی اس کا''علم''زمین وآسمان کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

''کرسی'' جیسا کہ آیہ شریفہ سے ظاہر ہے ''علمہ'' کے بعدمذکور ہے اس قرینہ سے معنی یہ ہوں گے:وہ لوگ ذرہ برابر علم خدا وندی سے آگاہ نہیں ہو سکتے جزاس کے کہ خدا خود چاہے، اس کا علم زمین وآسمان کو اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہے۔

اس لحاظ سے بعض روایات کے معنی ،جو کہتی ہیں:''کل شیء فی الکرسی'' ساری چیزیں کرسی میں ہیں، یہ ہوں گے کہ تمام چیز علم الٰہی میں ہے۔

یہاں پر'' ﷲ کے اسمائے حسنی ٰ''کی بحث کو ختم کرتے ہیںاور''عبودیت'' کی بحث جو کہ اس سے مر بوط ہے اس کی بر رسی و تحقیق کر یں گے۔

____________________

(۱)طہ ۹۸(۲) توحید صدوق:ص ۳۲۷، باب: معنی قول اللہ عز وجل : وسع کرسیہ الماوات والارض.(۳) سورۂ ص ۳۴. (۴)بقرہ۲۵۵

۱۴۰

عبد وعبادت

عَبَدَ :اس نے اطاعت کی''عبودیت'' یعنی: عاجزی و فرو تنی اورخضوع و خشوع کے ساتھ اطاعت بجالانااور''عبادت'' یعنی نہایت خضوع وخشوع اور فر وتنی وعاجزی کے ساتھ اطاعت کرناجو '' عبودیت''سے زیادہ بلیغ ہے۔

الف: عبودیت

سورہ حمد میں ''ربّ العالمین''کے ذکر کے بعد جملہ''ایاّک نعبد'' آیا ہے اس میں عبودیت بمعنی ٔ اطاعت ہے ،یعنی ہم صرف تیری ہی اطاعت کرتے ہیں۔

امام جعفر صادق ـ نے بھی ایک حدیث میں فرمایا ہے :

''مَن أطاع رجلاً فی معصية فقد عبده ''( ۱ )

جو شخص کسی انسان کی معصیت اور گناہ میں اطاعت کرے گویااس نے اسکی عبادت کی ہے۔

جیسا کہ ظاہر ہے عبادت و اطاعت ایک ساتھ اور ایک معنی میں استعمال ہو ئے ہیں۔امام علی رضا کی گفتگو میں بھی ہے کہ دوسرے کی بات سننے کو،جو ایک قسم کی اطاعت اور اس کی پیروی ہے،''عبادت'' سمجھاگیاہے، جیسا کہ فرمایا:

''مَن أصغیٰ اِلی ناطق فقد عبده فاِن کان الناطق عن ﷲ عزّ و جلّ فقد عبد ﷲ،واِن کان الناطق عن أبلیس فقد عبدأبلیس'' ( ۲ )

جو شخص کسی قائل کی آواز پر کان دھرے اس نے اس کی عبادت کی ہے اب اگر قائل خدا وند عالم کی بات کرے تو خدا کی عبادت کی اور اگر ابلیس کی بات کرے تو ابلیس کی عباد ت کی۔

عبادت: باشعور موجودات کے لئے اختیاری ہے لیکن دیگر مخلوقات کے لئے تسخیری اور غیر اختیاری

____________________

(۱)اصول کافی ج ۲، ص ۳۹۸(۲) عیون اخبار الرضا،ص۳۰۳، ح۶۳؛ وسایل الشیعہ ج۱۸، ص ۹۲ ح ۱۳

۱۴۱

ہے، جیسا کہ خدا وند سبحان نے فرمایا :

( یا أيّها الناس اعبد واربّکم الذی خلقکم و الذین من قبلکم.. ) .)( ۱ )

اے لوگو !اپنے رب کی عبادت کرو ،وہی جس نے تمکو اور تم سے پہلے والوں کو زیور تخلیق سے آراستہ کیا ہے۔

اوردیگر مو جودات کے بارے میں فرمایا :

( وللّه یسجد ما فی السموات وما فی الٔارض من دابة والملا ئکة وهم لا یستکبرون ) ( ۲ )

تمام وہ چیزیں جو آسمان وزمین میں پائی جاتی ہیں چلنے والی ہوں یا فرشتے خدا کے لئے سجدہ( عاجزی اور فرونتی) کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے ہیں۔

ب: عبد

عبد کے چار معنی ہیں:

۱۔غلام کے معنی میں جیسے سورۂ نمل میں خدا ارشاد فرماتا ہے:

( ضرب ﷲ مثلاً عبدا ً مملوکاً لا یقدر علیٰ شیئٍ ) ( ۳ )

خدا وند عالم نے ایک ایسے غلام مملوک کی مثال دی ہے جو کسی چیز پر قادر نہیں ہے۔

اس عبد کی جمع عبید ہے جیسا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمایا :

''مَن خرج ِالینا من العبید فهوحرّ'' ( ۴ )

جو غلام بھی ہماری سمت (اسلام کی طرف)آجائے وہ آزاد ہے۔

۲۔''عبد'' بندہ ہونے کے معنی میں بھی ہے اس کی سب سے زیادہ روشن اور واضح مثال خدا وند عالم کے ارشاد میں ہے کہ فرمایا:

( ِان کلّ مَن فی السموات والأر ض اِلّا أتی الرحمن عبداً ) ( ۵ )

زمین وآسمان کے ما بین کوئی نہیں ہے مگر یہ کہ بند گی کی حالت میں خدا وند رحمان کے سامنے آئے۔

اس معنی میں بھی عبد کی جمع ''عبید'' (بندے) ہے جیسے :

( و أنّ ﷲ لیس بظلام للعبید ) ( ۶ )

____________________

(۱)سورہ ٔ بقرہ ۲۱. (۲) نحل ۴۹(۳) نحل ۷۵(۴) مسند احمد ج۱، ص ۲۴۸ (۵)مریم ۹۳۔(۶)انفال ۵۱ ۔

۱۴۲

خدا وند عالم اپنے بندوںپر ظلم نہیں کرتا ہے۔

۳۔ ۴۔عبد؛،عبادت کرنے والے اور خدمت گزار بندہ کے معنی میں ہے جس کے بارے میں ''عابد'' کی تعبیر زیادہ بلیغ ہے، اس کی دو قسم ہے:

الف:خدا کا خالص'' عبد'' اورحقیقی بندہ ہونا جس کی جمع عباد آتی ہے جیسے خدا وند عالم کاکلام ان کے موسیٰ اور اوران کے جوان ساتھی کی داستان کی حکایت میں ہے،وہ فرماتا ہے:

( فوجدا عبداً من عبادنا آتینا ه رحمة من عند نا ) ( ۱ )

ا ن دونوںنے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ کو پایا جسے ہم نے اپنی خاص رحمت سے نوزا تھا۔

ب۔اور دنیا کا'' عبد'' بندہ ہونا یعنی جو شخص اپنا تمام ہم و غم اور اپنی تمام توانائی دنیا اور دنیا طلبی کے لئے وقف کر دے،یہاں بھی عبد کی جمع''عبید'' ہے جیسا کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' تَعِسَ عبد الدرھم وعبد الدینار''درہم ودینار کا بندہ ہلاک ہوگیا۔( ۲ )

اور چو نکہ پروردگار عالم بندوں کی ہدایت اور لوگوں کے ارشاد کے لئے امر ونہی کرتا ہے لہٰذا جو شخص فرمان خدا وندی کی اطاعت کرتاہے ا سے کہتے ہیں: (عَبَدَا لرّبَّ)اس نے خدا وند رحمان کی عبادت وبندگی کی، وہ عابد ہے یعنی:اس نے خدا کی اطاعت کی ہے اور و ہ پروردگار کا مطیع وفرمانبردار ہے۔

اور چونکہ''الہ''معبود کے معنی میں ہے اور اس کے لئے دینی مراسم منعقد کئے جاتے ہیں، کہتے ہیں: ''عَبَدَ فلان اِلا لہَ''فلاں نے خدا کی عبادت کی (پرستش کی)وہ عابد(پر ستش کرنے والا ہے)یعنی وہ دینی مراسم خدا کے لئے انجام دیتا ہے۔( ۳ )

جن صفات کو''الوہیت'' کی بحث میں '' الہٰ'' کے صفات میں شمار کیاہے اور ربوبیت کی بحث میں ان تمام صفات کورب ّ کے صفات سے جانا ہے وہ سارے کے سارے ﷲ ربّ العالمین کے صفات ہیں ، ﷲ ربّ العالمین کے صفات میں ایک دوسری صفت یہ ہے کہ ہر چیز کا جاری و ساری ہونا اس کی مشیت اور اس کی مرضی سے ہے اور ہم انشاء ﷲآئندہ بحث میں اس کی وضاحت کر یں گے۔

____________________

(۱)کہف:۶۵ (۲) سنن ابن ماجہ ص۱۳۸۶(۳)جو کچھ ہم نے''عبد'' کے بارے میں ذکر کیا ہے وہ مندرجہ ذیل کتابوں سے مادہ عبد کے مطالب کا خلاصہ ہے، جوہری کی کتاب صحاح ،مفردات القرآن راغب ،قاموس اللغة فیروز آبادی، معجم الفاط القرآن الکریم ،طبع مصر، ہم نے ان سب کی عبارت کو مخلوط کر کے ایک سیاق و اسلوب کے ساتھ بیان کیا ہے.

۱۴۳

۵

ربّ العالمین کی مشیت

الف ۔مشیت کے معنی

ب: رزق میں خدا کی مشیت

ج:ہدایت میں خدا کی مشیت

د: رحمت وعذاب میں خدا کی مشیت

۱- لغت اور قرآن کریم میں مشیت کے معنی

الف:مشیت کے لغوی معنی

مشیت کے لغوی معنی؛ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور اس معنی میں لوگ بھی ارادہ ومشیت کے مالک ہوتے ہیں ،خدا وند کریم نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:( اِنّ هذه تذکرة فمن شاء اتّخذا الیٰ ربّه سبیلاً ) ( ۱ )

یہ یاد دہانی ہے،لہٰذا جو چاہے اپنے پروردگار کی طرف راہ اختیار کرے۔یعنی اگر انسان چاہے اور ارداہ کرے کہ خدا کی سمت راہ انتخاب کرے تو وہ مکمل آزادی اور اپنے ارادہ واختیار کے ساتھ اس بات پر قادر ہے،اسی آیت سے ملتا جلتا مضمون سورہ مدثر کی ۵۵ ویں آیت عبس کی بارہویں آیت تکویر کی اٹھائیسویں آیت اور کہف کی ۹۲ آیت ویں وغیرہ میں بھی ذکر ہوا ہے،خدا وند سبحان نے لغوی مشیت کی نسبت بھی اپنے طرف دیتے ہوئے فرمایا:

۱۔( الم تر اِلی ربّک کیف مدّ الظلّ و لو شاء لجعله ساکناً ) ( ۲ )

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کس طرح تمہارے ربّ نے سایہ کو دراز کردیا؟اوراگر چاہتا تو ساکن کر دیتا.

۲۔( فاما الذین شَقُوا ففی النار لهم فیها زفیر و شهیق)( خالدین فیها ما دامت السموات و الأرض الا ما شاء ربّک انّ ربّک فعال لما يُرید)( وأما الذین سعدوا ففی الجنة خالدین فیها ما دامت السموات و الأرض الا ماشاء ربک عطائً غیر مجذوذٍ ) ( ۳ ) لیکن جو بد بخت ہو چکے ہیں،تو وہ آتش جہنم میں ہیں اور ان لوگوں کے لئے وہاں زفیر اور شہیق( آہ و نالہ وہ فریاد) ہے اور جب تک زمین وآسمان کا قیام ہے وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے مگر جو تمہارا رب چاہے اور تمہارا رب جو چاہتاہے انجام دیتا ہے، رہے وہ لوگ جو نیک بخت اور خوش قسمت ہیں وہ جنت میں ہیں اور

____________________

(۱) مزمل ۱۹ ؛ انسان ۲۹ (۲)فرقان ۴۶.(۳)ہود۱۰۶ ۱۰۸

۱۴۴

جب تک زمین وآسما ن کا قیام ہے وہ اس میں رہیں گے جز اس کے جو تمہارا رب چاہے یہ ایک دائمی بخشش ہے۔

ان دو آیتوںکے مانند سورۂ اسراء کی ۸۶ ویںاور فرقان کی ۵۱ ویںآیت میں بھی ذکر ہوا ہے۔

لیکن گزشتہ آیات کے معنی یہ ہیں:

۱۔خدا وندعالم نے پہلی جگہ فرمایا:

( الم تریٰ الی ربک کیف مدّ الظل و لو شاء لجعله ساکناً )

یعنی خدا وند عالم نے کس طرح ظہر کے بعد ،سورج کے مغرب سے قریب ہو نے کے تناسب سے سایہ کو مشرق کی جانب پھیلا دیایہاں تک کہ ڈوب کر شب میں اپنی آخر ی حد داخل ہو گیا اوراگر''چاہتا''تو سایہ کو ہمیشہ ساکن ہی رہنے دیتا ، سایہ کا دراز ہونا اوراس کا حرکت کرنا خدا کی مشیت اور اس کے ارادہ پر ہے اور مرضی الٰہی سے باہر نہیں ہے۔

۲۔ خدا نے دوسرے مقام پر فرمایا: اہل جہنم ہمیشہ کیلئے آتش میں ہیں اور اہل بہشت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بہشت میں ہیںاور یہ خدا کی قدرت اور مشیت کے تحت ہے اور اس کی مرضی اور مشیت سے خارج نہیں ہے۔

ب:مشیت؛ قرآنی اصطلاح میں

قرآن مجید میں جب بھی کلمات رزق، ہدایت،عذاب،رحمت اور ان کے مشتقات کے بعد ''مشیت خدا کی'' بحث ہو تی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ رزق وروزی ،ہدایت اور اس کے مانند دوسرے امور کا جاری ہونا ان سنتوں کی بنیاد پرہے جنہیں خدا وند عالم نے اپنی حکمت کے اقتضا ء سے معین فرمایا ہے اور خدا کی سنت ان امور میں نا قابل تبدیل ہے اور وہ اس آیت کے مصادیق و افراد میں سے ہیں جیسا کہ فرماتا ہے:

( سنة ﷲ و لن تجد لسنة ﷲ تبدیلاً ) ( ۱ )

یہ سنت الٰہی ہےاور سنت الٰہی میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہو تی ہے۔

جیسا کہ سورہ فاطر میں بھی ارشاد فرماتا ہے:

( فلن تجد لسنة ﷲ تبدیلاً و لن تجد لسنة ﷲ تحویلاً )

سنت خدا وندی میں کبھی تبدیلی نہیں پاؤ گے اور سنت الٰہی میں کبھی تغیر نہیں پاؤ گے۔

____________________

(۱)سورۂ احزاب ۶۲ اور فتح ۲۳.

۱۴۵

دوم ۔ رزق وروزی میں خدا کی مشیت

۱۔خدا وند عالم سورۂ شوریٰ میں فرماتا ہے:

( له مقا لید السموات و الأرض یبسط الرّزق لمن یشائُ و یقدر اِ ّنه بکل شیء ٍ علیم ) ( ۱ )

آسمانوں اور زمینوں کی کنجیاں اس سے مخصوص ہیں،جس کی روزی میں چاہتا ہے وسعت عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ا س کی روزی تنگ کر دیتا ہے وہ تمام چیزوں سے آگاہ ہے۔

سورئہ عنکبوت میں فرمایا ہے:

( وکأيّن من د ابةٍ لا تحمل رزقها ﷲ یر زقها و اِيّا کم و هو السمیع العلیم و لئِن سألتهم مَن خلق السموات والأرض و سخر الشمس و القمر لیقو لنّ ﷲ فأنّی یوفکون ﷲ یبسط الرّزق لمَن یشاء من عباده و یقدر له ِانّ ﷲ بکلّ شیٍئٍ علیم ولئن سا لتهم من نزّل من السماء مائً فأ حیا به الٔارض من بعد موتها لیقو لُنَّ ﷲ قل الحمد لله بل أکثر هم لا یعقلون ) ( ۲ )

کتنے چلنے والے ایسے ہیں جو اپنا رزق حمل کرنے کی قدرت نہیں رکھتے خداانھیں اور تمھیں روزی دیتا ہے وہ سننے اور جاننے والا ہے اور جب بھی ان سے سوال کرو گے : کس نے زمین وآسمان کو پیدا کیا ہے اور سورج اور چاند کو مسخر کیا ہے ؟ توکہیں گے:''ﷲ'' پھر اس حال میں وہ لوگ کیسے منحرف ہو تے ہیں؟خدا اپنے بندوں میں جس کی روزی میں چاہتا ہے وسعت بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس کی روزی تنگ کر دیتا ہے خداوند عالم تمام چیزوں سے آگاہ ہے اور اگر ان سے پوچھو کہ کس نے آسمان سے پانی نازل کیا اور اس کے ذریعہ مردہ زمین کو زندہ کیا؟ کہیں گے: ''ﷲ'' کہو!حمد و ستائش خدا سے مخصوص ہے لیکن ان میں بہت سے لوگ نہیں جانتے ہیں۔

۳۔سورۂ سبا میں فرمایا:

____________________

(۱)شوریٰ۱۲

(۲) عنکبوت۶۰تا۶۳.

۱۴۶

( قل اِنَّ ربّیِ یبسط الرّزق لمَن یشاء من عباده و یقد ر له و ما أنفقتم من شیئٍ فهو يُخلفهُ وهوخیرالرّا زقین ) ( ۱ )

کہو! خدا اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کے رزق میں وسعت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس کا رزق تنگ کر دیتا ہے اور تم جو بھی خرچ کرتے ہو اس کی جگہ پرْ کر دیتا ہے اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔

۴۔سورہ اسراء میں ارشاد ہو تا ہے:

( ولا تجعل یدک مغلو لةً اِلی عنفک ولاتبسطها کلّ البسطِ فتقعد ملوماً محسوراً)(اِنَّ ربّک یبسط الرّزق لمَن یشاء ویقدر اِنّه کان بعباده خبیراً بصیراً)( ولا تقتلوا أولادکم خشية اِملاقٍ نحن نر زقهم و اِيّاکم اِنَّ قتلهم کان خطئاً کبیرا)( و لا تقر بوا مال الیتیم اِلّا با لتی هی أحسن حتیٰ یبلغ أشدّ ه و أو فو ا بالعهد اِنّ العهدکان مسوؤ لاً)( و أوفوا الکیل اِذا کلتم و زنوا با لقسطاس المستقیم ذلک خیر و أحسن تاویلاً ) (۲)

اپنے ہاتھوں کو پس گردن بندھاہوا قرار نہ دو ( تاکہ انفاق سے رک جاؤ) اور نہ ہی اتنا پھیلادو کہ سرزنش کے مستحق قرار پاؤ اور حسرت کا نشانہ بن جاؤ ،یقینا ًخدا جس کے رزق میں چاہتا ہے وسعت دیتا ہے اور جس کے رزق میں چاہتا ہے تنگی کر دیتا ہے،اپنے فرزندوں کو فقر و فاقہ کے خوف سے قتل نہ کرو ہم انھیں اور تمھیں روزی عنایت کرتے ہیںیقینا ً ان کا قتل کرنا ایک عظیم گناہ ہےاور یتیم کے مال سے بہترین طریقہ کے علاوہ قر یب نہ ہو نا جب تک کہ بلوغ کونہ پہنچ جائے اور اپنے عہد وپیمان کو وفا کرو کہ عہد وپیمان کے متعلق سوال ہوگا! اور جب کسی چیز کو تولو تو تو لنے کا حق ادا کرو اور صحیح ترازو سے وزن کرو کہ یہ بہتر اور نیک انجام کاذریعہ ہے۔

۵۔سورۂ آل عمران میں فرمایا:

( قل أللّهم مالک الملک تؤتیِ الملک من تشائُ و تنزع الملک ممّن تشاء و تعزّ مَن تشاء و تذّل مَن تشاء بیدک الخیر اِنّک علیٰ کلّ شیئٍ قدیر تولج اللیل فی النهار و تو لج النهار فی اللّیل و تخرج الحیَِّ من الميّت و تخرج الميّت من الحیِّ و تر زق مَن تشاء بغیرحسابٍ ) ( ۳ )

کہو!: خدا وندا! تو ہی حکو متوں کا مالک ہے جسے چاہتا ہے حکومت دیتاہے اور جس سے چاہتا ہے حکومت چھین لیتا ہے جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل ورسوا کر دیتاہے تما م خوبیاں تیر ے ہاتھ میں

____________________

(۱)سبا۳۹

(۲)اسراء ۲۹ تا ۳۵

۱۴۷

ہیں اورتو ہر چیز پر قادر ہے ،رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو شب میں ، اور مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ نکالتا ہے اور جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔

خدا کی مشیت کیسی اور کس طرح ہے؟

اعمال کی جز ا کی بحث میں ہم نے ذکر کیا کہ خدا وند عالم نے رزق کی وسعت ''صلہ رحم'' میں قرار دی ہے یعنی کوئی اپنے اعزاء و اقرباء سے صلہ رحم کرتا ہے تو اس کے رزق میں اضافہ ہو تا ہے اور انسان اپنے باپ کی صلاح و درستی کے آثار بعنوان میراث پاتا ہے ،جیسا کہ حضرت موسی اور بندہ ٔخدا حضرت خضر کی داستان میں گزر چکا ہے کہ گر تی ہوئی دیوار کو گر نے سے بچایا تا کہ اس کے نیچے دو یتیموں کا،کہ جن کا باپ صالح انسان تھا ،مد فون خزانہ بر باد نہ ہو جائے اور وہ دونوں بالغ ہو نے اور سن شعور تک پہنچنے کے بعداسے باہر نکالیں! یہ خدا کی مشیت و ارادہ کے دو نمو نے روزی عطا کرنے کے سلسلہ میں ہیں جو ثابت اور ناقابل تبدیل الٰہی سنت کی بنیاد پر جاری ہوتے ہیں ۔

____________________

(۱) آل عمران ۲۶، ۲۷

۱۴۸

سوم :مشیت خداوندی ہدایت اور راہنمائی میں

انسان کی ہدایت قرآن کریم کی رو سے دو قسم کی ہے:

۱۔ہدا یت اسلامی احکام اور عقائد کی تعلیم کے معنی میں

۲۔ ہدایت ایمان اور عمل صالح کی تو فیق کے معنی میں

قرآن کریم پہلی قسم کی ہدایت کی زیادہ تر پیغمبروں کی طرف نسبت دیتا ہے جنھیں خدا وند عالم نے اسلامی عقائدو احکام کی تبلیغ اور ا پنی پیغام رسا نی کے لئے انسانوں کی طرف بھیجا ہے اور کبھی خود خدا کی طرف نسبت دیتاہے کہ اس نے پیغمبروں کو دین اسلام کے ساتھ بھیجا ہے۔

قرآن کریم دوسری نوع ہد ایت کی نسبت خدا وند عالم کی طرف دیتا ہے اور کبھی مشیت کے ذکر کے ساتھ کہ ہدایت خدا کی مرضی اور اس کی خواہش ہے اور کبھی''مشیت'' کے ذکرکے بغیر۔

خدا وند عالم نے ہدایت کی دونوں قسموں سے بہرہ ور ہونے کی شرط لوگوں کا انتخاب اور پسندیدگی نیزاس کو حاصل کرنے کے لئے ان کے عملی اقدام کو قرار دیا ہے، اس کا بیان درجہ ذیل سہ گانہ مباحث میں کیاجارہا ہے:

الف: تعلیمی ہدایت

قرآن کریم لوگوں کی تعلیمی ہدایت کی تبلیغ اسلام کے معنی میں کبھی انبیاء کی طرف نسبت دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( و اِنّک لتهدی اِلیٰ صراط مستقیم ، صراط ﷲ الذی له ما فی السموات و ما فیِ الأرض اِلَا اِلیٰ ﷲ تصیر الأ مور )

اوریقیناً تم راہ راست کی طرف ہدایت کرتے ہواس خدا وند عالم کے راستے کی جانب کہ جو کچھ زمین وآسمان کے درمیان ہے

۱۴۹

سب اسی کا ہے ،آگاہ ہو جاؤ !تمام امور کی بازگشت خدا کی طرف ہے۔( ۱ )

اور کبھی انبیاء کے ہدایت کرنے کی خدا کی طرف نسبت دیتے ہوئے فرماتا ہے :

۱۔( و جعلنا هم أئمة یهدون بأمرنا ) ( ۲ )

اورہم نے انھیں پیشوا قرار دیا جو ہمارے فرمان کی ہدایت کرتے ہیں۔

۲۔( هوالذِی أرسل رسوله بالهدیٰ ودین الحقّ لیظهره علیٰ الدین کلّه ) ( ۳ )

وہ ایسی ذات ہے جس نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث کیا تا کہ اسے تمام ادیان پر غالب اورکامیاب کرے۔

اسی معنی میں آسمانی کتابوں کی طرف بھی ہدایت کی نسبت دیتے ہوئے فرماتا ہے:

۱۔( شهررمضان الذی انزل فیه القرآن هُدیً للناس وبيّناتٍ مِن الهدیٰ والفُرقانِِ ) ( ۴ )

ماہ رمضان ایک ایسا مہینہ ہے جس میں لوگوں کی ہدایت کرنے والا قرآن نازل کیا گیا اس میں ہدایت کی نشا نیاں اور حق و باطل کے درمیان جدائی ہے۔

۲۔( و أنزل التّوراة و الٔانجیل من قبل هدیً للناس ) ( ۵ )

لوگوں کی ہد ایت کے لئے پہلے توریت اور انجیل نازل فرمائی ہے۔

کبھی تعلیمی ہد ایت کی نسبت بلا واسطہ خدا کی طرف دیتے ہوئے فرمایا:

۱۔( ألم نجعل له عینین و لساناًو شفتین و هدیناه النّجد ین ) ( ۶ )

کیا ہم نے انسان کو دو آنکھیں نہیں دیں؟ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دئے؟ اور اسے راہ خیر وشر کی طرف ہدایت نہیں کی؟!

۲۔( و أمّا ثمود فهد ینا هم فا ستحبّوا العمیٰ علی الهدیٰ ) ( ۷ )

اور ہم نے قوم ثمود کی ہدایت کی لیکن انھوں نے ضلا لت اور نا بینائی کو ہدایت پر تر جیح دی۔

بنا براین خدا کبھی تعلیمی ہدایت اور آموزش اسلام کی نسبت پیغمبروں اور اپنی کتابوں کی طرف دیتا ہے اور کبھی اپنی پاک و پاکیزہ ذات کی طرف !اور یہ اس اعتبار سے ہے کہ خوداسی نے ان کتابوں کے ہمراہ لوگوں کی تعلیم کے لئے پیغمبروں کو بھیجا ہے۔

____________________

(۱)شوریٰ ۵۲،۵۳ (۲)انبیاء ۷۳(۳)توبہ ۳۳(۴) بقرہ ۱۸۵ (۵)آ ل عمراان۲،۳ (۶) بلد۸،۱۰ (۷) فصلت ۱۷

۱۵۰

انشاء اآئندہ بحث میں انسا ن کی ہدایت قبول کرنے یا نہ کرنے کی کیفیت تحقیق کے ساتھ بیان کریں گے۔

ب:انسان اور ہدایت یا گمراہی کاانتخاب

قرآنی آیات میں غور و خوض کر نے سے ہم درک کرتے ہیں کہ لوگ ہمیشہ انبیاء کے مبعوث ہونے اور آسمانی کتاب کے نازل ہو نے کے بعد دو گروہ میں تقسیم ہوئے ہیں: ایک گروہ ہدایت کو گمرا ہی پر ترجیح دیتا ہے اور اس کا انتخاب کرتا ہے اور دوسرا گروہ ضلالت و گمراہی کو ہدایت پر ترجیح و فوقیت دیتا ہے۔ اس سلسلہ میں درج ذیل آیات پر توجہ فرما ئیں:

۱ ۔( اِنّما أمرت أن اعبد ربّ هذه البلدة)( و أن أتلوا القرآن فمَن أهتدیٰ فِاّنما یهتدیِ لنفسه و مَن ضلَّ فقل اِنّما أنا من المنذ رین ) ( ۱ )

مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر کے ربّ کی عبادت کر وں اور قرآن کی تلاوت کروںلہٰذا جس نے ہدایت پائی اسنے اپنے فائدہ میں ہدایت پائی اور جو گمراہ ہو ا تو اس سے کہو ہم تو صرف ڈرانے والے ہیں۔

۲۔( قل یا أيّها الناس قد جاء کم الحقّ من ربّکم فمَن اهتدیٰ فاِنّما یهتدیِ لنفسه و مَن ضلَّ فِا ّنما یضلُّ علیها و ما أنا علیکم بوکیلٍ ) ( ۲ )

کہو: اے لوگو! تمہارے ربّ کی جانب سے حق تمہاری طرف آچکا ہے ،لہٰذا جو ہدایت پائے وہ اپنے نفع میں ہدایت یا فتہ ہوا ہے اور جو گمراہ ہو جائے تنہا اپنے ضرر میں گمراہ ہوا ہے اور میں تم پر وکیل نہیں ہوں۔

۳۔( مَن اهتدیٰ فاِنّما یتهدی لنفسه و مَن ضلَّ فاِ نّما یضلّ علیها ولا تزر واز رة وزرأخریٰ و ما کنّا معذّ بین حتیٰ نبعث رسولاً ) ( ۳ )

جو ہدایت پائے وہ اپنے فائدہ میں ہدایت یافتہ ہوا ہے اور جو گمراہ ہو جائے ا پنے ضرر اورنقصان میں گمراہ ہوا ہے اورکوئی بھی کسی دوسرے کے گناہ کا بار نہیں اٹھا ئے گا اور ہم اس وقت تک کسی کومعذب نہیں کرتے جب تک کہ کوئی پیغمبر مبعوث نہ کردیں۔

____________________

(۱)نمل ۹۱ ، ۹۲ (۲)یونس ۱۰۸

(۳)اسراء ۱۵

۱۵۱

ہدایت طلب انسان اور ﷲ کی امدا د(توفیق)

خدا وند عالم سورۂ مریم میں ہدایت طلب انسان کی ہدایت خواہی کے بارے میں فرماتا ہے:

( و یزید ﷲ الذین اهتدوا هُدیً ) ( ۱ )

اور وہ لوگ جو راہ ہدایت گامزن ہیں خدا ان کی ہدا یت میں اضافہ کردیتا ہے۔

سورۂ محمد میں ارشاد ہوتا ہے:

( والذین اهتدوازادهم هدیً واتا هم تقواهم ) ( ۲ )

وہ لوگ جو ہدایت یافتہ ہیں ،خدا وند عالم نے ان کی ہدایت میں اضافہ کیا اور انھیں روح تقوی عطا کی۔

جو لوگ ﷲ کے رسولوں کی آمد کے بعد ہدایت کا انتخاب کرتے ہوئے راہ خدا میں مجاہدت کرتے ہیں وہ لوگ توفیق الٰہی کے سزاوار ہوتے ہیں لیکن جن لوگوں نے پیغمبروں کی تکذیب کی اور اپنی نفسا نی خواہشات کا اتبا ع کیا ، ان کی گمرا ہی یقینی ہے۔

خدا دونوں گروہ کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( والذین جاهدوا فینا لنهد ینّهم سُبُلنا واِنَّ ﷲ لمع المُحسنینَ ) ( ۳ )

جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں یقینا ہم انھیں اپنی راہوں کی ہدایت کرتے ہیں اور خدا وند عالم نیکو کاروں کے ہمراہ ہے ۔

۲۔( ولقد بعثنا فی کل أمةٍ رسولاً ان اْعبدواﷲ واْجتنبواالطاغوت فمنهم من هدی ﷲ ومنهم من حقت علیه الضلا لة فسیروا فی الأرض فانظر وا کیف کان عا قبة المکذ بین ان تحرص علی هدا هم فان ﷲ لا یهدی من یضلُّ ومالهم من ناصرین ) ( ۴ )

ہم نے ہر امت کے درمیان ایک رسول مبعوث کیا تا کہ ﷲ کی عبادت کرو اور طاغوت سے دوری اختیار کرو !بعض کی خدا نے ہدایت کی اور بعض کی گمرا ہی ثابت ہوئی لہٰذا روئے زمین کی سیر کرو اوردیکھو کہ تکذیب کر نے والوں کا ا نجام کیا ہوا ؟ اگر ان کی ہدایت پر اصرار کرو گے تو (جان لو کہ) خدا جسے گمراہ کر دے

____________________

(۱) مریم، ۷۶(۲)محمد۱۷(۳) عنکبوت ۶۹ (۴)نحل ۳۶، ۳۷

۱۵۲

کبھی اس کی ہدایت نہیں کرتا اورایسے لوگوں کا کوئی ناصر ومد د گار نہیں ہے۔

۳۔( فر یقاً هدیٰ و فر یقاً حقّ علیهم الضلا لة اِنّهم اتّخذ واالشیاطین أولیاء من دون ﷲ و یحسبون أنّهم مهتدون ) ( ۱ )

خدا نے بعض گروہ کی ہدایت کی اور بعض گروہ کی گمرا ہی ان پرمسلط اور ثابت ہوگئی ہے کہ ان لوگوں نے شیاطین کو خدا کی جگہ اپنا ولی قرار دیا ہے اور خیال یہ کرتے ہیں کہ ہدایت یا فتہ ہیں۔

اس طرح کی ہدایت ''مشیت الٰہی'' کے ساتھ ہدایت ہے اسکی شرح آگے بیان کی جا رہی ہے۔

ج: ہدایت یعنی مشیت الٰہی سے ایمان و عمل کی توفیق

ہد ایت؛ ایمان وعمل میں مشیت الٰہی کے اشارے پرتوفیق الٰہی کے معنی میں پر سورہ بقرہ ، نور اور یونس کی درج ذیل آیات میں اس طرح وارد ہوئی ہے:

( وﷲ یهدی من یشاء اِلیٰ صراط مستقیم ) ( ۲ )

خدا جسے چاہے راہ راست کی ہدایت کرتا ہے۔

سورۂ انعام میں آیا ہے :

( من یشأ ﷲ یضلله و من یشأ یجعله علی صراط مستقیم ) ( ۳ )

خدا جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے صراط مستقیم پر قرا ر دیتا ہے ۔

سورۂ قصص میں آیاہے:

( اِنّک لا تهدی مَن أحببت و لکنّ ﷲ یهدی مَن یشاء و هوأعلم با لمهتدین ) ( ۴ )

جسے تم چاہو اسے ہدایت نہیں کر سکتے لیکن خدا جسے چاہے اس کی ہد ایت کرتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں سے زیادہ آگاہ ہے۔

کلمات کی تشریح

۱۔''صراط مستقیم'': صراط،آشکار اور واضح راستہ،مستقیم ایسا سیدھا جس میں کوئی کجی نہ ہو۔

____________________

(۱)اعراف ۳۰(۲) بقرہ۱۴۲،۲۱۳؛نور۴۶؛یونس۲۵ .(۳)انعام ۳۹(۴)قصص ۵۶.

۱۵۳

دین کے صراط مستقیم کوخداوند سبحان نے سورۂ حمد میں اس طرح بیان کیا ہے:

( صراط الذین أنعمت علیهم غیرالمغضوب علیهم ولاالضّا لین ) ( ۱ )

ان لوگوں کی واضح اور آشکار راہ جنھیں تونے نعمت دی ہے ،نہ ان لوگوںکی جن پر تو نے اپنا غضب نازل کیا ہے اور نہ ہی گمرا ہوں کی۔

خدا وند عالم نے سورۂ مریم میں جن لوگوں پر اپنی نعمت نازل کی ہے ان کو بیان کیا ہے اور زکریا،یحییٰ، مریم اور عیسیٰ علیہم السلام کی داستان نقل کر نے کے بعد فرماتاہے :و اذکر فی الکتاب ابراہیم اس کتاب( قرآن ) میں ابراہیم کو یاد کرو واذکر فی الکتاب موسیٰ اس کتاب میں موسیٰ کو یاد کروواذکر فی الکتاب اسماعیل اس کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو اذکر فی الکتاب ادریس اس کتاب میں ادریس کو یاد کرو۔

اس کے بعد فرماتاہے :

( أولآء ک الذین أنعم ﷲ علیهم من النّبيّین من ذرّية آدم)(و ممّن هدینا و اجتبینا اِذا تتلی علیهم آیات الرحمن خرّوا سجّداً و بکّیاً ) ( ۲ )

یہ وہ انبیاء ہیں آدم کی ذریت سے، جن پر خداوند سبحان نے نعمت نازل کی ہے اور ان لوگوں میں سے جنھیں ہم نے ہدایت کی اور انتخاب کیا جب ان پرآیات الٰہی کی تلاوت ہوتی ہے تو سجدہ کرتے ہوئے اوراشک بہاتے ہوئے خاک پر گر پڑتے ہیں۔

ان لوگوں کی صراط اور راہ دین اسلام ہے اور ان کی سیرت اور روشِ زندگی اس پر عمل ،وہی جس کی لوگوں کووہ دعوت دیتے تھے۔

۲۔''مغضوب علیھم'': جن لوگوں پر غضب نازل ہوا ،اس کی مصداق صرف قوم یہود تھی جس کا خداوند متعال نے سورۂ بقرہ میں تعارف کراتے ہوئے فرمایاہے:

( وضربت علیهم الذلّة و المسکنة و باء وا بغضبٍٍ مِن ﷲ ذلک بأ نّهم کانوا یکفرون بآ یات ﷲ و یقتلون النّبيّین بغیر الحقّ ذلک بما عصوا وکانوا یعتدون ) ( ۳ )

ان کے لئے ذلت و خواری ، رسوائی اوربیچار گی معین ہوئی اور خدا کے غیظ و غضب کے مستحق قرار

____________________

(۱)سورہ فاتحہ ۷(۲)مریم ۵۸.(۳)سورہ بقرہ ۶۱.

۱۵۴

پائے اور یہ اس وجہ سے ہوا کہ وہ آیات الٰہی کا انکار کرتے تھے اور پیغمبروں کو نا روا قتل کرتے تھے اوریہ ان کی نافر مانی اور تجاوز کی وجہ سے تھا۔انھیں تعبیرات کے مانند ان کے بارے میں سورۂ آل عمران( آیت:۱۱۲) میں بھی آیاہے۔

۳۔''ولاالضالین'': ضالین؛ گمراہ افراد ، وہ تمام لوگ جو اسلام سے منحرف اوررو گرداں ہیں ، جیسا کہ سورۂ آل عمران کی ۸۵- ۹۰ ویںآیت میں صراحت کے ساتھ فرماتاہے:

( و مَن یبتغ غیر الِاسلام دیناً فلن یقبل منه)( و أولئک هم الضّالّون )

جو بھی دین اسلام کے علاوہ کسی اور دین کا انتخاب کرے تو اس سے قبول نہیں کیا جائے گا وہی گمراہ لوگ ہیں۔

۴۔''یھدی'' : ہدایت کرتا ہے، اس کی شرح''ربّ العالمین'' کی بحث میں ملاحظہ کیجیے۔

چہارم : ﷲ کی مشیت عذاب اور رحمت میں

عذاب ورحمت کے سلسلہ میں مشیت الٰہی کا بیان قرآن کریم میں چند مقا مات پر منجملہ ان کے سورہ اعراف میں ہوا ہے ،خدا وند عالم موسیٰ کی دعا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( و اکتب لنا فِی هذه الدّنیا حسنة و فِی الٔاخرة اِنّا هد نا اِلیک قال عذابِی اصیب به مَن أشاء و رحمتِی وسعت کل شیئٍ فسأ کتبها للذین یتّقون و یؤ تون الزّکاة و الذین هم بآ یا تنا یؤ منون الذین یتّبعون الر سول النّبیِ الأ میِ الذی یجد ونه مکتوباً عند هم فی التوراة و الأِنجیل یأ مر هم با لمعروف و ینها هم عن المنکر و یحلَ لهم الطیبات و یحرّم علیهم الخبائث و یضع عنهم اِصر هم و الأغلا ل التیِ کانت علیهم فالذ ین آمنوا به و عزّروه ونصروه و اتّبعوا النور الذِی أنزل معه أ ولئک هم المفلحون ) ( ۱ )

(موسیٰ نے کہا:) اور ہمارے لئے اس دنیا اور آخرت میں نیکی معین کردے ہم تیری طرف لوٹ چکے ہیں، فرمایا : اپنا عذاب جس تک چاہوں گا پہنچا دوں گا اور میری رحمت تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے اس کو ان لوگوں کے لئے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں ، زکاة دیتے ہیں اور وہ لوگ جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں مقرر کروںگا، وہ لوگ اس پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور نبی امی کا اتباع کرتے ہیں ایسا پیغمبر جس کے صفات اپنے پاس موجود توریت و انجیل میں لکھاہوا پاتے ہیں ،جوان لوگوں کو نیکی کا حکم دیتا ہے اور منکر(برائی) سے روکتا ہے ان کے لئے پا کیزہ چیزوں کو حلال کرتا ہے اور نا پاک چیزوں کو حرام کرتا ہے اور سنگین اور وزنی بار (بوجھ) نیز وہ زنجیریں جس میں وہ جکڑ ے ہوئے تھے انھیں ان سے آزاد کرتا ہے ،پس ، جو لوگ اس پرایمان لائے اوراس کی عزت و توقیر کی اور اس کی نصرت فرمائی اور اس نور کی جو اس کے ساتھ نازل ہوا اس کی پیروی کی، وہی لوگ کا میاب ہیں۔

____________________

(۱)اعراف ۱۵۶،۱۵۷

۱۵۵

سورۂ انبیاء میں فرماتا ہے:

( اِقترب للناس حسابهم و هم فی غفلة ٍ معرضون)( ما یأتیهم من ذکرٍ من ربهم محدث اِلّااستمعوه و هم یلعبون)(لا هية قلو بهم و أسرّ وا النّجویٰ الذین ظلموا هل هذا اِلّا بشر مثلکم أفتا تون السحر و أنتم تبصرون)( قال ربّیِ یعلم القول فی السماء و الأرض و هو السمیع العلیم)( بل قالو ا أضغاث أحلا مٍ ٍ بل افتراه بل هو شاعر فلیا تنا بآيةٍ کما أرسل الأوّلون)( ما آمنت قبلهم من قريةٍ أهلکنا ها أفهُم یؤمنون)( و ما أر سلنا قبلک ألّا ر جالاً نو حیِ اِلیهم فسئلوا أهل الذِّکر أن کنتم لاتعلمون)( وما جعلنا هم جسداً لا یأ کلون الطعام و ما کانوا خالد ین)( ثَّم صد قنا هم الو عد فأ نجینا هم و مَن نشائُ و أهلکنا المسر فین)( لقد أنزلنا اِلیکم کتا باً فیه ذکر کم أفلا تعقلون ) ( ۱ )

لوگوں کا یوم حساب ان سے نز دیک ہو گیا اوروہ لوگ اسی طرح غفلت اور بے خبری کے عالم میں پڑے منحرف اور رو گرداں ہیں، جب بھی ان کے ربّ کی جانب سے ان کے لئے کوئی نئی یاد دہانی ان کے پاس آتی ہے تو اسے سنکر کھلواڑ بناتے اور استہزا ء کرتے ہیں،ان کے دل لہو ولعب اور بے خبری میں مشغول ہیں اور ظالموں نے سر گوشی میں کہا : کیا یہ تمھارے جیسے انسان کے علاوہ کچھ اور ہے ؟ کیادیکھنے کے با وجود سحر و جادو کے پیچھے دوڑتے ہو؟ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہا : میرا رب زمین و آسمان کی تمام گفتگو کو جانتا ہے وہ سننے والا اور دانا ہے ، بلکہ ان لوگوں نے کہا: ( یہ سب وحی نہیں ہے) بلکہ یہ سب خوابِ پریشان کا مجموعہ ہے، یاخدا کی طرف اس کی جھوٹی نسبت دی گئی ہے، نہیں بلکہ وہ ایک شاعر ہے !اسے ہمارے لئے کوئی معجزہ پیش کر نا چاہیے جس طرح گز شتہ انبیا ء بھیجے گئے تھے ، ان سے پہلے کی آبادیوں میں سے جن کو ہم نے نابود کر دیا ہے کوئی بھی ایمان نہیں لایا آیا یہ لوگ ایمان لائیں گے ؟ ہم نے تم سے پہلے ،جز ان مردوںکے جن پر ہم نے وحی کی کسی کو نہیں بھیجا ، پس تم لوگ اگر نہیں جانتے توجاننے والوں سے دریافت کر لو ۔ہم نے پیغمبروں کو ایسے اجسام میں قرار نہیں دیا ،جنہیںغذا کی ضرورت نہ ہو ، وہ لوگ عمر جاوداں بھی نہیں رکھتے تھے! پھر ہم نے ان سے جو وعدہ کیا تھااسے سچ کر دکھایا ،پس ان کو اور جنھیں ہم نے چاہا نجات دی اور زیادتی کرنے وا لوں کو ہلاک کر ڈالا ، ہم نے تم پر ایک کتاب نازل کی جس میں تمہاری یاد آوری اور بلندی کا سر مایہ ہے کیاتم درک نہیں کرتے ؟

____________________

(۱)انبیاء ۱۔۱۰

۱۵۶

سورۂ اسراء میں فرمایا :

( من کان یر ید العا جلة عجّلنا له فیها ما نشاء لمن نر ید ثمّ جعلنا له جهنم یصلا ها مذمو ماً مد حو راً ) ( و من اراد الآخر ة و سعی لها سعیها و هو مؤمن فاولائک کان سعیهم مشکورا ً ) کلا نمد هو لا ء هولائِ من عطا ء ر بّک و ما کان عطائُ ربک محظورا ً ) ( ۱ )

جو شخص زود گزر دنیا کی زند گی چاہے، تو ہم جو چا ہیں گے جسے چاہیں گے اس دنیا میں اسے دیدیں گے ،پھر جہنم اس کے لئے معین کریں گے تا کہ مردود بار گاہ اور راندہ درگاہ ہوکر اس کا جز ء لازم ہو جا ئے اور جو کوئی آخرت کاطلب گار ہو اوراس کے لئے کوشاں ر ہے، درانحالیکہ مومن ہو ،اس کی کوشش و تلاش کی جزا دی جائے گی ، ان دو گروہوں میں سے ہر ایک گروہ کی امداد کریں گے ،یہ تمہارے پر وردگار کی عطا ہے اور تمہارے رب کی عطاکسی پر بند نہیںہے ۔

سورۂ انسان میں فرماتا ہے:

( انَّ هٰئو لا ئِ يُحبّون العا جلة و یذ رون وراء هم یوما ً ثقیلا ً انََّ هذ ه تذ کرة فمن شائَ اتّخذ الیٰ ربّه سبیلا ً و ما تشا ء ون اِلّا أن یشاء ﷲ اِنَّ ﷲ کان علیما ً حکیما ید خل من یشاء فی رحمته والظا لمین أعدّ لهم عذا باً ألیماً ) ( ۲ )

یہ لوگ دنیا کی زود گزر زند گی چاہتے ہیں اور سخت دن کو پس پشت ڈال دیتے ہیں، یہ ایک یاد آوری ہے، پس جو چاہے اپنے رب کی طرف ایک راہ انتخاب کرے اور تم لوگ وہی چاہتے ہو جو خداچاہتا ہے ،خدا دانا اور حکیم ہے ،وہ جس کو چا ہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کر لیتا ہے اور اس نے ستمگروں کے لئے درد ناک عذاب مہیا کر رکھا ہے۔یہ'' رب العا لمین ''کے'' ارادہ'' اور ''مشیت'' کے معنی تھے،خدا وند متعال کے جملہ صفات میں سے ایک یہ ہے کہ جس چیز کو چاہتا ہے'' محو یا اثبات'' کرتا ہے اس کے معنی انشاء ﷲآئندہ بحث میں بیان کریں گے۔

____________________

(۱)اسراء ۱۸تا۲۰.

(۲)انسان۲۷تا۳۱.

۱۵۷

۶

بدا یا محو و اثبات

الف:۔ بداء کے معنی

ب:۔بداء ؛ اسلامی عقا ئد کے علماء کی اصطلاح میں

ج:۔بداء ؛ قرآن کریم کی رو شنی میں

د:۔ بداء سے متعلق مکتب خلفاء کی روایات

ھ:۔ بداء کے بارے میں ا ئمۂ اہل یبت کی روایات

اوّل: بداء کے لغوی معنی

بداء کے لغت میں دو معنی ہیں:

۱۔''بَدَأَ الْاَمْرُ بُدُوًّاو بَدَاْئً'' :یعنی یہ مو ضوع واضح و آشکار ہوا ، لہٰذا بداء کے ایک معنی آشکار اور واضح ہو نے کے ہیں۔

۲ ۔''بَدَاَ لَهُ فیِ اْلَاَمْرُ کَذَاْ '' : اس مو ضوع میں اس کے لئے ایسی رائے پیدا ہوئی، ایک نیا نظریہ ظاہرہوا۔

دوم: اسلامی عقائد کے علماء کی اصطلاح میں بداء کے معنی

اسلامی عقائد کے علماء نے کہا ہے :بداء خدا وند عالم کے بارے میں کسی ایسی چیز کا آشکار کرنا ہے ،جو بندوں پر مخفی ہو لیکن اس کا ظہور ان کے لئے ایک نئی بات ہو، اس بنا پر ، جن لوگوں کا خیال ہے کہ بداء سے مراد خدا کے بارے میں یہ ہے کہ حق تعا لیٰ کے لئے بھی مخلوقات کی طرح ایک نیا خیال اور ایک نئی رائے (اس کے علاوہ جو بداء سے پہلے تھی )پیدا ہوئی تو، وہ حددرجہ غلط فہمی کا شکار ہیں، سچ مچ خدا وند عالم اس سے کہیں زیادہ بلند و بر تر ہے جو وہ خیال کرتے ہیں۔

سوم: بداء قرآن کریم کی رو شنی میں

الف؛ خدا وند متعال سورہ رعد کی ۷ ویں اور ۲۷ ویں آیت میں فرماتا ہے :

( و یقول الذین کفروا لولا أنزل علیه آية من ربّه )

۱۵۸

اورجنھوں نے کفر اختیار کیا وہ کہتے ہیں : کیوں (ہماری پسند سے) کوئی آیت یا معجزہ اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل نہیں ہوا؟

ب : پھر اسی سورہ کی۳۸ویں تا۴۰ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( و ما کان لرسولٍ ٍ اِن یأتی باية اِلّابِأِذن ﷲ لکلّ أجل کتاب)( یمحو ﷲ ما یشاء و یثبت و عنده ام الکتاب)(و اِن ما نر ینّک بعض الذی نعد هم أو نتو فّینّک فاِنّما علیک البلاغ و علینا الحساب )

کسی پیغمبر کے لئے سزاوار نہیں ہے کہ اذن خدا وندی کے بغیر کوئی آیت یا معجزہ پیش کر دے ہر مدت اور زمانہ کے لئے ایک سر نوشت (نوشتہ مقرر)ہے، خدا جسے چاہتا ہے محو و نابود کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اپنی جگہ پر ثابت اورباقی رکھتا ہے اور ام الکتاب (لوح محفوظ)اس کے پاس ہے، اگر اس کا کچھ حصّہ جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے تمھیں دکھا دیں یا تمھیں ( وقت معین سے قبل) موت دیدیں، بہر صورت جو کچھ تمہاری ذمہ داری ہے وہ تبلیغ و پیغام ر سا نی ہے اور ( ان کا) حساب ہم پرہے۔

کلمات کی تشریح

۱۔''آےة'': آیت؛ لغت میں واضح و آشکار نشا نی اور علامت کوکہتے ہیں جیسا کہ اس شاعر نے کہا ہے:

وفی کلّ شیئٍ له آية :: تد ل علیٰ انّه واحد

اور ہر چیز میں اس کے وجود کی واضح و آشکارنشانی ہے جواس کے واحد اور یکتا ہو نے پر دلا لت کرتی ہے۔

انبیاء کے معجز ات کو آیت اس لئے کہتے ہیں کہ وہ ان کے صدق کی علامت اور قدرت الٰہی پر ایک دلیل ہے، وہی پرور دگارجس نے اس طرح کے معجزات پیش کر نے کی انہیںطاقت دی ہے جیسے مو سیٰ کا عصا اور جناب صالح کا ناقہ ،جیسا کہ سورۂ شعرا کی ۷۶ ویں اور اعراف کی ۷۳ ویں آیات میں بیان ہوا ہے۔

اسی طرح قرآن کریم نے انواع عذاب کو جسے خداوندسبحان نے کا فرامتوں پر نازل کیا آیت کا نام دیا ہے ،جیسا کہ سورۂ شعراء میں قوم نوح کے متعلق فرماتا ہے:

( ثمّ أغرقنابعد البا قین ، اِنّ فی ذلک لآ یة ً ) ( ۱ )

____________________

(۱)شعرائ ۱۲۰، ۱۲۱

۱۵۹

پھر ہم نے باقی رہ جانے والوں کو غرق کر دیا یقینااس میں علامت اور نشانی ہے۔

اور قوم ہود کے بارے میں فر ماتا ہے:

( فکذّ بوه فأهلکنا هم انَّ فی ذالک لَآ ية ) ً)( ۱ )

ان لوگوں نے اپنے پیغمبر(ہود) کی تکذ یب کی، ہم نے بھی انھیں نابود کر دیا، بیشک اس میں (عقلمندوں کے لئے )ایک آیت اور نشانی ہے۔ اور سورۂ اعراف میں قوم فرعون کے بارے میں ارشاد ہوا:

( فأ رسلنا علیهم الطوفان والجراد والقمل والضَّفا دع والدَّ م آیاتٍ مفصَّلات ) ( ۲ )

پھر ہم نے طوفان ،ٹڈ یاں ، جوں ،منیڈ ھک، کھٹمل اور خون کی صورت میں ان پر عذاب نازل کیا کہ ہر ایک جدا جداآیات اور نشانیاں تھیں۔

۲۔''اجل'': محدود مدت ، وقت، زمانہ، سر انجام،خاتمہ، انتہا۔

یہ جو کہا جاتاہے کہ فلاں کی اجل آ گئی یعنی مر گیااور اس کی مدت حیات تمام ہو گئی اور یہ جو کہا جاتا ہے: اس کے لئے ایک اجل (مدت) معین کی گئی ہے ،یعنی اس کے لئے ایک محدود وقت قرار دیاگیا ہے۔

۳۔'' کتاب'': کتاب کے مختلف اور متعد د معانی ہیں، لیکن یہاں پر اس سے مراد لکھی ہوئی مقداریا معین و مشخص مقدارہے،جیسے ''لکلّ أجل کتاب'' کے معنی، جو آیت میں مذکور ہیں، یہ ہیں کہ معجزہ پیش کر نے کا زمانہ پیغمبر کے ذریعہ پہلے سے معین ہے، یعنی ہرایک زمانہ کی ایک معین سر نو شت ہے ۔

۴۔''یمحو'': محو کرتا ہے، زائل کرتا ہے،مٹاتا ہے، محو لغت میں باطل کرنے اور نابود کرنے کے معنی میں ہے،جیسا کہ خدا وند عالم سورۂ اسراء کی ۱۲ ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

( فمحونا آية اللیل وجعلنا آية النهار مبصرة )

پھر ہم نے شب کی علامت کو مٹا دیا اور دن کی علامت کو روشنی بخش قرار دیا۔

اور سورۂ شوریٰ کی ۲۴ ویں آیت میں فرماتا ہے:

( ویمح ﷲ الباطل و یحق الحق بکلماته )

____________________

(۱) شعراء ۱۳۹(۲)اعراف ۱۳۳

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303