اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

اسلام کے عقائد(دوسری جلد )0%

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

اسلام کے عقائد(دوسری جلد )

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

صفحے: 303
مشاہدے: 118259
ڈاؤنلوڈ: 4163


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 118259 / ڈاؤنلوڈ: 4163
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(دوسری جلد )

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد 2

مؤلف:
اردو

۴۔سورۂ غافر میں ارشاد فرمایا:

( ...الذین یحملونَ العرش ومَن حوله يُسبّحون بحمد ربّهم ویؤمنون به و یستغفرون للذین آمنواربّنا وسعت کُلّ شیئٍ رّحمةً و علماً فأغفر للذین تابوا و اتّبعوا سبیلک و قِهم عذابَ الجحیم ) ( ۱ )

وہ جو عرش خدا کو اٹھاتے ہیںنیز وہ جو اس کے اطراف میں ہیں،اپنے پروردگار کی تسبیح وستائش کرتے ہوئے اس پر ایمان رکھتے ہیںاور مومنین کے لئے (اس طرح)طلب مغفرت کرتے ہیں:خدایا! تیری رحمت اور علم نے ہر چیز کا احاطہ کر لیا ہے، پس جن لوگوں نے توبہ کی اور تیری راہ پر چلے انھیں بخش دے اور دوز خ کے عذاب سے محفوظ رکھ!

۵۔ سورۂ زمر میں ارشاد ہوتا ہے:

( و تریٰ الملا ئکة حا فّین من حول العرش يُسبحون بحمد ر بهم و قضی بینهم با لحق و قیل الحمد للّه ربّ العا لمین ) ( ۲ )

اور فرشتوں کو دیکھو گے کہ عرش خدا کے ارد گرد حلقہ کئے ہوئے ہیں اور اپنے ربّ کی ستائش میں تسبیح پڑھتے ہیں ؛ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا اور کہا جائے گا:ستائش ﷲربّ العالمین سے مخصوص ہے۔

۶۔ سورۂ حاقہ میں ارشاد ہوتا ہے:

( و یحمل عرش ربّک فوقهم یومئذٍ ثمانية ) ( ۳ )

اس دن تمہارے رب کے عرش کوآٹھ فرشتے اپنے اوپر اٹھائے ہوں گے۔

کلمات کی تشریح

۱۔العرش:

عرش ؛لغت میں چھت دار جگہ کو کہتے ہیں جس کی جمع عروش ہے ، تخت حکومت کو حاکم کی رفعت وبلندی

____________________

(۱)غافر ۷(۲)زمر ۷۵(۳)سورہ ٔ حاقہ ۱۷ ۔

۱۲۱

نیز اس کی عزت وشوکت کے اعتبار سے عرش کہتے ہیں، عرش ملک اور مملکت کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے، کتاب''لسان العرب'' میں آیا ہے کہ''ثلّ ﷲ عرشھم'' یعنی خدا وند عالم نے ان کے ملک اور سلطنت کو برباد کر دیا۔( ۱ )

ایک عرب زبان شاعر اس سلسلے میں کہتا ہے:

اِذا ما بنو مروان ثلت عروشهم :: وأودت کما أودت اِیادوحمیر

جب مروانیوں کا ملک تباہ وبرباد ہوگیااور'' حِمْےَر'' اور'' اِیاد'' کی طرح مسمار ہوگیا۔( ۲ )

۲۔ استویٰ:

الف:''التحقیق فی کلمات القرآن''نامی کتاب میں مادہ ''سوی''کے ضمن میں آیا ہے کہ ''استوائ'' کے معنی بمقتضائے محل بدلتے رہتے ہیں ، یعنی ہر جگہ وہاں کے اقتضاء اور حالات کے اعتبار سے اس کے معنی میں تغییر اور تبدیلی ہوتی رہتی ہے ۔

ب:''مفردات راغب'' نامی کتاب میں مذکور ہے کہ'' استوائ'' جب کبھی علیٰ کے ذریعہ متعدی ہو تو ''استیلائ'' یعنی غلبہ اور مستقر ہونے کے معنی میں ہے ،جیسے''الرحمن علی العرش استویٰ''رحمن عرش پر تسلط اور غلبہ رکھتا ہے۔

ج:'' المعجم الوسیط'' نامی کتاب میں مذکور ہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ!استویٰ علیٰ سریر الملک أوعلیٰ العرش'' تخت حکومت پر متمکن ہوا یابادشاہی کرسی پر بیٹھا، اس سے مراد یہ ہے کہ مملکت کا اختیار اپنے قبضہ میں لیا۔

اخطل نامی شاعر نے بشربن مروان اموی کی مدح میں کہا ہے:

قد استویٰ بشر علی العراق :: من غیر سیفٍ أودمٍ مهراقٍ

بشر نے عراق کی حکومت شمشیر اور کسی قسم کی خونریزی کے بغیر اپنے ہاتھ میں لے لی!( ۳ )

____________________

(۱)مفردات راغب اور المعجم الوسیط میں مادہ '' عرش'' اور لسان العرب میں مادہ ثلل کی جانب مراجعہ کیجئے۔

(۲)بحار، ج ۵۸، ص ۷.

(۳)بشر بن مروان اموی خلیفہ عبد الملک مروان کا بھائی ہے جس نے ۷۴ ھ میں بصرہ میں وفات پائی اس کی تفصیل آپ کو ابن عساکر کی تاریخ دمشق میں ملے گی

۱۲۲

آیات کی تفسیر

جب ہم نے جان لیا کی ا سمائے الٰہی میں ''رحمن ورحیم'' ''ربُّ العا لمین'' کے صفات میں سے ہیں اور ہر ایک کے دنیا وآخرت دونوں جگہ آثار پائے جاتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ''اسم''قرآنی اصطلاح میں صفات ، خواص اشیاء اور ان کی حقیقت بیان کرنے کے معنی میں ہے اور''عرش'' عربی لغت میں حکومت اور قدرت کے لئے کنایہ ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ''استوائ'' جب علیٰ کے ذریعہ متعدی ہوگا تو غلبہ اور تسلط کے معنی دیتا ہے اور یہ جو کہا جاتا ہے:

''استویٰ علی سریر الملک او علیٰ العرش''

سریر حکومت یا عرش حکومت پر جلوہ افروز ہوا (متمکن ہوا)یعنی:''تولیٰ الملک'' مملکت وحکومت کا اختیار اپنے قبضہ میں لیا۔

اب اگر قرآن کریم میں '' استویٰ علی العرش''کے مذکورہ ہفت گانہ مقامات کی طرف رجوع کریں تو اندازہ ہوگا کہ ان تمام مقامات پر''استوائ''علیٰ کے ذریعہ متعدی ہوا ہے ،جیسے:

( استویٰ علیٰ العرش ید بّر الأمر ) ( ۱ )

وہ عرش پر متمکن ہو کر امر کی تدبیر کرتا ہے۔

( ثُّم استویٰ علی العرش ید بر الامر ) ( ۲ )

پھر وہ عرش پر متمکن ہوااور تدبیر امر میں مشغول ہوگیا۔

ان آیات میں (نوع تدبیر کی طرف اشارہ کئے بغیر)صراحت کے ساتھ فرمایا :'' عرش پر متمکن ہوا اور تدبیر امر میں مشغول ہو گیا۔،، سورۂ اعراف کی ۵۴ ویں آیت میں انواع تدبیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( استویٰ علی العرش یغشی الیل النهار...) )

وہ عرش پر جلوہ افروز ہوا اور شب کے ذریعہ دن کو چھپا دیتا ہے۔

اور سورۂ حدید کی چوتھی آیت میں تدبیر کار کی طرف کناےةًاشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( استویٰ علیٰ العرش یعلم ما یلج فی الارض وما یخرج منها )

____________________

(۱)یونس ۳.

(۲)سجدہ ۴و ۵ ؛ رعد ۲

۱۲۳

عرش پر متمکن ہوا وہ جو کچھ زمین کے اندر جاتاہے اور جو کچھ اس سے خارج ہوتا ہے سب کو جانتاہے۔

یعنی خداوند عالم جو کچھ اس کی مملکت میں ہوتا ہے جانتا ہے اور ساری چیزیںاس کی تدبیر کے مطابق ہی گردش کرتی ہیں۔

یہیں پر سورۂ فرقان کی ۵۹ ویں آیت کے معنی بھی معلوم ہوجاتے ہیں جہاں خداوندعالم فرماتا ہے:

( استویٰ علیٰ العرش الرحمن فسئل به خبیراً )

عرش قدرت پر متمکن ہوا، خدائے رحمان ،لہٰذا صرف اسی سے سو ال کرو کہ وہ تمام چیزوں سے آگاہ ہے! یعنی وہ جو کہ عرش قدرت پر متمکن ہوا ہے وہی خدا وند رحمان ہے جو کہ تمام عالمین کو اپنی وسیع رحمت کے سایۂ میں پرورش کرتا ہے اور جو بھی اس کی مملکت میں کام کرتا ہے اس کی رحمت اور رحمانیت کے اقتضاء کے مطابق ہے یہ موضوع سورۂ طہ کی پانچوں آیت میں مزیدتا کید کے ساتھ بیان ہوا ہے:

( الرحمن علیٰ العرش استویٰ) )

خدا وند رحمان ہے جو عرش قدرت پر غلبہ اور تسلط رکھتا ہے۔

اس لحاظ سے، جو کچھ سورہ ''ہود'' کی ساتویں آیت میں فرماتا ہے :

( خلق السموات والأرض فی ستة أیام وکان عرشه علیٰ المائ )

آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں خلق فرمایا اور اس کا عرش قدرت پانی پرٹھہراتھا ۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مملکت خدا وندی میں زمین وآسمان کی خلقت سے قبل جز پانی کے جس کی حقیقت خدا وندعالم ہی جانتا ہے کوئی اور شے ٔموجود نہیں تھی ۔

اورجو سورۂ غافر کی ساتویں آیت میں فرماتا ہے:

( الذین یحملون العرش )

وہ لوگ جو عرش کو اٹھاتے ہیں۔

اس سے بار گاہ الٰہی کے کار گزار فرشتے ہی مراد ہیں کہ بعض کو نمائندہ بنایا اور بعض کو پیغمبروں کی امداد کے لئے بھیجا بعض کچھ امتوں جیسے قوم لوط پر حا ملان عذاب ہیں اور بعض آدمیوں کی روح قبض کرتے ہیں خلاصہ یہ کہ ہر ایک اپنا مخصوص کام انجام دیتا ہے اور جو کچھ ہماری دنیا میں خدا وند عالم کی ربوبیت کا مقتضیٰ ہی اس میں مشغول ہے۔

۱۲۴

اور سورۂ حاقہ کی ساتویں آیت میں جو فرماتا ہے:

( و یحمل عرش ربّک فوقهم یومئذٍ ثمانية )

تمہارے رب کے عرش قدرت کو اس دن آٹھ فرشتے حمل کریں گے۔

اس سے مراد قیامت کے دن فرمان خدا وندی کا اجراء کرنے والے فرشتوں کے آٹھ گروہ ہیں۔

اورسورہ نحل کی ۱۴ و یں آیت میں جو فرمایا:

( وهو الذ ی سخر البحر لتأکلوا لحماً طریاً و تستخر جوا منه حليةً تلبسو نها و تری الفلک مواخر فیه )

وہ خدا جس نے تمہارے لئے دریا کو مسخر کیا تا کہ اس سے تازہ گوشت کھاؤ اور زیور نکالو جسے تم پہنتے ہو اور کشتیوں کو دیکھتے ہو کہ دریا کا سینہ چاک کرتی ہیں۔

اس کے معنی یہ ہے کہ دریا کو ہمارا تابع بنا دیا تا کہ اُس کے خواص سے فائد ہ اٹھائیں اور یہ حضرت آدم کی تعلیم کا ایک مورد ہے چنانچہ اس سے پہلے اسی سورہ کی ۵ ویں تا۸ ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

( والأ نعام خلقها لکم فیها دفء و منا فع ومنهاتأکلون و لکم فیها جمال حین تُر یحون وحین تسرحون و تحمل أثقا لکم اِلیٰ بلدٍ لم تکونوا بالغیه الِاّ بشقّ الأنفس اِنّ ربّکم لرء وف رحیم ، والخیل و البغا ل و الحمیر لترکبو ها وزینةً و )

اور اس نے چوپا یوں کو خلق کیا کیو نکہ اس میں تمہاری پوشش کا وسیلہ اور دیگر منفعتیں پائی جاتی ہیں اوران میں سے بعض کا گوشت کھاتے ہو اوروہ تمہارے شکوہ اور زینت وجمال کا سبب ہیں، جب تم انھیںجنگل سے واپس لاتے ہو اور جنگل کی طرف روانہ کرتے ہو،نیز تمہارا سنگین و وزنی بار جنھیں تم کافی زحمت ومشقت کے بغیروہاںتک نہیںپہنچا سکتے یہ اٹھاتے ہیں،یقیناتمہاراربرؤفومہربان ہے اوراس نے گھوڑوں،گدھوں اور خچروں کو پید ا کیاتا کہ ان پر سواری کرو اور وہ تمہاری زینت کا سامان ہوں۔خدا وند عالم نے اس کے علاوہ کہ ان کو ہمارا تابع اور مسخربنایا ہے ان سے استفادہ کے طریقے بھی ہمیں سکھائے تا کہ گوشت،پوست، سواری اور بار برداری میں استفادہ کریں۔

سورہ زخرف کی بارھویں اور تیر ھویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

( والذی خلق الأزواج کلّها و جعل لکم من الفلک و الاّنعام ماتر کبون ، لتستوا علی ظهوره، ثُمّ تذکر وا نعمة ربّکم اِذا استو یتم علیه و تقو لوا سبحان الذی سخر لنا هذا و ما کُنا له مقر نین )

۱۲۵

اور جس خدا نے تمام جوڑوں کو پیدا کیا اور تمہارے لئے کشتیوں اور چوپایوں کے ذریعہ سواری کا انتظا م کیا تا کہ ان کی پشت پر سوار ہو اور جب تم ان کی پشت پر سوار ہو جاؤ تو اپنے رب کی نعمت کو یاد کرو اور کہو: وہ خدا منزہ اور پاک و پاکیزہ ہے جس نے ان کو ہمارا تابع اور مسخر بنایا ورنہ ہمیں ان کے تسخیر کرنے کی طاقت وتوانائی نہیں تھی۔

جس خدا نے ہمیں ان آیات میں مذکور چیزوں سے استفادہ کا طریقہ بتا یا اور اپنی''ربوبیت'' کے اقتضاء کے مطابق انھیں ہمارا تابع فرمان اور مسخر بنایااسی خدا نے شہد کی مکھی کو الہام کیا کہ پہاڑوں اور گھر کے چھپروں میں پھول اور شگو فوں کو چوس کر شہد بنائے، اسی نے دریا کو مچھلیوں کے اختیار میں دیا اور الہام غریزی کے تحت اس سے بہرہ مند ہونے اور استفادہ کرنے کی روش اورطریقہ بتا یا،اس طرح سے اسنے اپنی وسیع رحمت کے ذریعہ ہر ایک مخلوق کی ضرورت کو دیگر موجودات سے بر طرف کیا اوراس کے اختیار میں دیا نیز ہر ایک کو اس کی ضروری اشیاء کی خاصیتوں سے آگاہ کیا تا کہ اس سے فائدہ حاصل کرے بعبارت دیگر شہد کی مکھی کوبقائے حیات کے لئے ضرور ی اشیاء کے اسما ء اور ان کی خاصیتوں سے آگاہ کیا تاکہ زندگی میں اس کا استعمال کرے اور مچھلیوں کو بھی ان کی ضرورت کے مطابق اشیاء کے اسماء اور خواص سکھائے تاکہ زندگی میں ان کا استعمال کرے ،وغیرہ ۔

رہی انسان کی بات تو خدا وندعالم نے اسے خلق کرنے کے بعد اس کی تعریف وتوصیف میں فرمایا:

( فتبارک ﷲ احسن الخا لقین )

بابرکت ہے وہ ﷲ جو بہترین خالق اور پیدا کرنے والا ہے۔

خدا وند عالم نے تمام اسماء اوران کی خاصیتیں اسے بتا دیں ؛چنانچہ سورۂ جاثیہ کی ۱۳ ویں آیت میں فرمایا:

( وسخر لکم مافی السموات والأرض جمیعاً منه )

اورخدا نے جو کچھ زمین وآسمان میں ہے سب کو تمہارے اختیار میں دیا اور اسے تمہارا تابع بنا دیا۔

سورۂ لقمان کی ۲۰ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے!

( ألم تروا اَنّ ﷲ سخر لکم ما فی السموات وما فی الأرض )

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے زمین و آسمان کے درمیان کی تمام چیزوں کو تمہارا تابع اور مسخر بنا یا۔

پر وردگار عالم نے اپنی مخلوقات کی ہر صنف کو دیگر تمام مخلوقات سے استفادہ کرنے کی بقدر ضرورت ہدایت فرمائی۔ اور جو مخلوق دیگر مخلوق کی نیاز مندتھی تکوینی طور پر اس کو اس کا تابع بنایا ہے۔

۱۲۶

اور انسان جوکہ خدا داد صلاحیت اور جستجوو تلاش کرنے والی عقل کے ذریعہ تمام اشیاء کے خواص کو درک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اگر کوشش کرے اور علوم کو حاصل کرنے کے لئے جد وجہد کرے،تو اسے یہ معلوم ہوگا کہ تمام مخلوقات اس کے استعمال کے لئے اسکے اختیار میں ہیں، مثال کے طور پر اگر'' ایٹم'' کے خواص کو درک کرنے کی کوشش کرے تویقینا وہاں تک اس کی رسائی ہو جائے گی اور چو نکہ ایٹم ان اشیاء میں ہے جو انسان کے تابع اور مسخر ہے، قطعی طور پر وہ اسے شگا ف کرنے اور اپنے مقاصد میں استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جس طرح سے خدا نے آگ ،الکٹریک اورعلوم کی دیگر شاخوں جیسے فیزک اور کیمسٹری کواس کے حوالے کیا نیز انھیں اس کا تابع بنایا تا کہ مختلف دھاتوںسے ہوائی جہاز اور راکٹ وغیرہ بنائے اوراسے زمین کے اطراف میں گردش دے وغیرہ وغیرہ ۔

لیکن یہ انسان''چونکہ سرکش ، طاغی اور حریص ہے ''لہٰذا اس شخص کا محتاج اور ضرورت مند ہے جو ان مسخرات سے استفادہ کا صحیح طریقہ اور راستہ بتائے تا کہ جو اس نے حاصل کیا اور اپنے قبضہ میں کر لیا ہے ا سے اپنے یا دوسروں کے نقصان میں استعمال نہ کرے۔''کھیتی'' اور نسل '' کو اس کے ذریعہ نابود نہ کرے''ربّ رحمان''نے عالی مرتبت انبیاء کواس کی ہدایت کے لئے مبعوث کیا تا کہ مسخرات سے استفادہ کی صحیح راہ وروش بتائیں پس''ربّ رحمن'' کے جملہ آثار رحمت میں سے پیغمبروں کا بھیجنا ،آسمانی کتابوں کا نازل کرنا اور لوگوں کو تعلیم دینا ہے، اس موضوع کی وضاحت سورہ رحمان میں لفظ ''رحمن'' کی تفسیر کے ذریعہ اس طرح کی ہے:

( الرّحمن، علّم القرآن )

خدا وندرحمان نے ،قرآن کی تعلیم دی۔

( خلق الاِنسان،علّمهُ البیان )

انسان کوخلق کیا اوراسے بیان کرنا سکھا یا۔

( الشمسُ والقمر بحسبان )

سورج اور چاندحساب کے ساتھ گردش کرتے ہیں۔

( والنجم والشجر یسجدان )

اور بوٹیاں بیلیں اور درخت سب اسی کا سجد ہ کر رہے ہیں ۔

( والسماء رفعها ووضع المیزان )

اوراُس نے آسمان کو رفعت دی اور میزان وقانون وضع کیا(بنایا)۔

۱۲۷

( والأرض وضعها للِْاِ نام )

اور زمین کو مخلوقات کے لئے خلق کیا۔

( فیها فا کهة والنخل ذات الأکمام )

اس میں میوے اور کھجو ریں ہیں جن کے خوشوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں۔

( والحبّ ذوالعصف والرّیحان )

اورخوشبو دار گھاس اور پھول کے ساتھ دانے ہیں۔

( فباَیّ آلاء ربّکما تکذّبان )

پھر تم اپنے ربّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ۔

( تبارک اْسم ربّک ذی الجلال والاِکرام )

تمہارے صاحب جلال واکرام رب کا نام مبارک ہے۔

نیز ''ربّ'' ہے جو :

( یبسط الرّزق لمن یشاء ویقدر ) ( ۱ )

جس کی روزی میں چاہے وسعت دیدے اور جسکی روزی میں چاہے تنگی کر دے۔

جو کچھ ہم نے رحمت''ربّ'' کے آثار دنیا میں پیش کئے ہیں وہ مومن اور کافر تمام لوگوں کو شامل ہیں اس بناء پر''رحمان'' دنیا میں ''ربّ العالمین''کے صفات میں شمار ہوتا ہے نیز اس کی رحمت تمام خلائق جملہ مومنین وکافرین سب کو شامل ہے اور چونکہ ''ربّ العالمین'' لوگوں کی پیغمبروں پر''وحی'' کے ذریعہ ہدایت کر تا ہے، قرآن کریم ''وحی'' کی ''ربّ'' کی طرف، جو کہ ﷲ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے ،نسبت دیتے ہوئے فرماتا ہے :

( ذلک ممّا أوحیٰ اِلیک ربّک من الحکمة ) ( ۲ )

یہ اس کی حکمتوں میں سے ہے کہ تمہارے''ربّ'' نے تم کو وحی کی ہے۔

____________________

(۱) سبا۳۶،۳۹

(۲) اسراء ۳۹.

۱۲۸

اور فرمایا:

( اتّبع ما أوحی اِلیک من ربّک ) ( ۱ )

جو چیز تما رے ربّ کی طرف سے تم پر وحی کی گئی ہے اس کی پیروی کرو۔

قرآن اسی طرح ارسال رسل اور آسمانی کتابوں کے نازل کرنے کو '' ربّ العالمین''کی طرف نسبت دیتا ہے اور حضرت ہود کے حالات زندگی کی شرح میں فرماتا ہے کہ انھوں نے اپنی قوم سے کہا:

( یا قوم لیس بی سفا هة و لکِنّی رسول من ربّ العالمینأبلٔغکم رسا لات ربِّی ) ( ۲ )

اے میری قوم! میرے اندر کسی قسم کی سفاہت نہیں ہے لیکن میں ،،ربُّ العالمین،، کی جانب سے ایک رسول اور فرستادہ ہوں کہ اپنے پروردگار کی رسالت تم تک پہنچاتاہوں۔

نیز حضرت نوح کے بارے میں فرماتا ہے: انھوں نے اپنی قوم سے کہا:

( یا قوم لیس بی ضلا لة و لکنّی رسول من ربّ العا لمینَاُبلّغکم رسالات ربِّی ) ( ۳ )

اے میری قوم! میرے اندر کسی قسم کی ضلالت اور گمراہی نہیں ہے، لیکن میں ''ربّ العا لمین'' کا فرستادہ اور رسول ہوں ،کہ اپنے پروردگار کی رسالت تم تک پہنچاتاہوں۔

اور حضرت موسیٰ کے بارے میں فرماتا ہے کہ ا نھوں نے فرعون سے کہا:

( یا فرعون انِّی رسول من ربّ العا لمین ) ( ۴ )

اے فرعون! میں ربّ العالمین کا فرستادہ ہوں۔

آسمانی کتابوں کے نازل کرنے کے سلسلے میں فرمایا :

( واتل ما أوحی اِلیک من کتاب ربّک ) ( ۵ )

جوکچھ تمہارے''رب'' کی کتاب سے تمہاری طرف وحی کی گئی ہے اس کی تلاوت کرو!

( تنزیل الکتاب لاریب فیه من ربّ العالمین ) ( ۶ )

اس کتاب کا نازل ہونا کہ جس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے رب العا لمین کی طرف سے ہے ۔

____________________

(۱) انعام ۱۰۶ (۲)اعراف ۶۷ ، ۶۸(۳)اعراف ۶۱ ، ۶۲(۴) اعراف ۱۰۴ (۵)کہف ۲۷(۶) سجدہ ۲ ۔

۱۲۹

( اِنّه لقرآن کریم تنزیل من ربّ العالمین ) ( ۱ )

بیشک یہ قرآن کریم ہے جو ''ربّ العا لمین'' کی طرف سے نازل ہوا ہے

نیز امر و فرمان کی نسبت''ربّ'' کی طرف دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( قل أمر ربِیّ با لقسط و أقیموا وجو هکم عند کلّ مسجد ) ( ۲ )

کہہ دو!میرے ربّ نے عدالت وانصاف کا حکم دیا ہے اور یہ کہ ہر مسجد میں اپنا رخ اس کی طرف رکھو۔

اس لحاظ سے صرف اورصرف''ربّ'' کی اطاعت کرنی چاہئے ،جیسا کہ خاتم الانبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مومنین کے قول کی حکایت کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( آمن الرسول بما أنزل الیه من ربّه و المؤ منون و قالوا سمعنا وأطعنا غفرانک ربّناّ ) ( ۳ )

پیغمبر جو کچھ اس کے ''رب'' کی طرف سے نازل ہوا ہے اس پر ایمان لایا ہے اور تمام مومنین بھی ایمان لا ئے ہیںاوران لوگوںنے کہا ! ہم نے سنا اور اطاعت کی اے ہمارے پروردگارہم ! تیری مغفرت کے خواستگار ہیں۔

انبیاء بھی چو نکہ اوامر ''ربّ العا لمین''کی تبلیغ کرتے ہیں ، لہٰذا خدا وند متعال نے ان کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیتے ہوئے فرمایا :

( أطیعواﷲ وأطیعواالرسول ولا تبطلوا أعمالکم ) ( ۴ )

خدا کی اطاعت کرواور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو ۔

یہی حال گناہ اور معصیت کا ہے کہ کسی سے بھی صادر ہو''ربّ العا لمین'' کی نافرمانی کی ہے ،جیسا کہ فرمایا:

( فسجدوا الا ابلیس کان من الجن ففسق عن امر ربه ) ( ۵ )

سارے فرشتو ں نے سجدہ کیا جز ابلیس کے، جوکہ جنوں میں سے تھا اور اپنے ''ربّ'' کے فرمان سے باہر ہو گیا۔

نیز یہ بھی فرمایا:

( فعقروا الناقة و عتوا عن أمر ربهم ) ( ۶ )

____________________

(۱)واقعہ ۷۷، ۸۰(۲)اعراف ۲۹ (۳)بقرہ ۲۸۵(۴) محمد ۳۳(۵)کہف ۵۰ (۶)اعراف ۷۷

۱۳۰

(قوم ثمود) نے''ناقہ'' کوپے کر دیا اور اپنے ربّ کے فرمان سے سر پیچی کی۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لفظ ''امر'' اور فرمان جملہ سے حذف ہو جاتا ہے لیکن اس کے معنی باقی رہتے ہیں، جیسا کہ حضرت آدم کے بارے میں فرمایا:

( وعصیٰ آدم ربّه فغویٰ)( ) ۱ )

آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور جزا سے محروم ہو گئے۔

یعنی آدم نے اپنے رب کے امرکی نافرمانی کی۔

انبیاء علیہم السلام بھی چونکہ اوامر''ربّ''کولوگوں تک ابلاغ کرتے ہیں تو ان کی نافرمانی اور سر پیچی فرمان''ربّ'' کی مخالفت شمار ہوتی ہے، جیسا کہ خدا فر عون اور اس کی قوم نیز ان لوگوں کے بارے میں جوان سے پہلے تھے فرماتا ہے:

( و جاء فرعون ومن قبلهفعصوا رسول ربّهم ) ( ۲ )

فرعون اور وہ لوگ جواس سے پہلے تھے ....ان سب نے اپنے ربّ کے فرستادہ پیغمبر کی مخالفت کی ۔

انسان نافرمانی کرنے کے بعد جب توبہ کرتا ہے اپنے ''رب'' سے مغفرت چاہتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے:

( الذین یقولون ربّنا انّنا آمنا فا غفرلنا ذنو بنا ) ( ۳ )

وہ لوگ کہتے ہیں: اے ہمارے'' رب'' ! ہم ایمان لائے ، لہذا ہمارے گناہوں کو بخش دے۔

( وما کان قولهم اِلاّ أن قالوا ربنّا أغفرلنا ذنوبنا ) ( ۴ )

اوران کا کہنا صرف یہ تھا کہ اے ہمارے پروردگار !ہمارے گناہوں کو بخش دے۔

( ربّنا فاغفر لنا ذنو بنا و کفرعناّ سيّئا تنا ) ( ۵ )

ا ے ہمارے پروردگارا ! ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہماری برائیوں کی پردہ پوشی کر۔

سورہ قصص میں حضرت موسیٰ کے قول کے حکایت کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( ربّ انِی ظلمتُ نفسی فاغفر لیِ فغفر له ) ( ۶ )

ا ے میرے پروردگار! میں نے اپنے او پر ظلم کیا لہٰذا مجھے بخش دے اورخدا نے انھیں بخش دیا۔

اسی وجہ سے ''غفور'' و غفار''بھی ربّ کے صفات میں سے ہے، چنانچہ فرمایا:

____________________

(۱)طہ ۱۲۱(۲) حاقہ ۹،۱۰(۳)آل عمران ۱۶ (۴)آل عمران ۱۴۷(۵)آل عمران ۱۹۳۔(۶)قصص ۱۶۔

۱۳۱

( والذین عملوا السئّات ثُّمّ تابوا من بعد ها وآمنوا انّ ربّک من بعدها لغفور رحیم ) ( ۱ )

وہ لوگ جنھوں نے گناہ کیا اور اس کے بعد توبہ کی اور ایمان لائے(جان لیں کہ) تمہاراربّ اس کے بعد غفور ومہر بان ہے۔

اپنی قوم سے نوح کے قول کی حکایت کرتا ہے:

( فقلت استغفروا ربّکم انّه کان غفاّراً ) ( ۲ )

(نوح نے کہا) میں نے ان سے کہا:اپنے ربّ سے بخشش ومغفرت طلب کرو کیونکہ وہ بہت زیادہ بخشنے والا اور غفاّر ہے۔

سورۂ بقرہ میں فرمایا:

( فتلقّیٰ آدم من رّبه کلماتٍ فتاب علیه اِنّه هو التّوابُ الرحیم ) ( ۳ )

پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھے اور خدا نے ان کی توبہ قبول کی کیو نکہ وہ توبہ قبول کرنے والا اور مہر بان ہے۔

اور جو لوگ گناہ کرنے کے بعد توبہ کے ذریعہ اس کی تلافی اور جبران نہیں کرتے ان کے کردار کی سزاربّ العالمین کے ذمہّ ہے ،جیسا کہ فرمایا:

( قل یا عبادیِ الذین أسر فوا علیٰ أنفسهم لا تقنطوا من رحمة ﷲو انیبوا اِلیٰ ربّکم و أسلموا له من قبل أن یا تیکم العذا بُ ثُمّ لا تنصرون ) ( ۴ )

کہو: اے میرے و ہ بندو کہ تم نے اپنے اوپر ظلم وستم نیزا سراف کیاہے! خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہواپنے رب کی طرف لوٹ آؤ اوراس کے فرمان کے سامنے سراپا تسلیم ہو جاؤقبل اسکے کہ تم پر عذاب نازل ہو پھر کوئی یار ویاور نہ رہ جائے۔

ربّ کا اعمال کی جزا دینا کبھی دنیا میں ہے اور کبھی آخرت میں اور کبھی دنیا وآخرت دونوں میں ہے قرآن کریم سب کی نسبت رب کی طرف دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( لقد کان لسبا فی مسکنهم آية جنتان عن یمینٍ و شمالٍ کلوا من رزق ربّکم و اشکرٔ وا له بلدة طیبة و ربّ غفور فا عرضوا فارسلنا علیهم سیل العرم و بد لنا هم بجنّتیهم جنتین )

____________________

(۱)اعراف ۱۵۳(۲)نوح ۱۰ (۳)بقرہ ۳۷(۴)زمر ۵۳،۵۴

۱۳۲

( ذوا تی أکل خمطٍ و اثلٍ و شیئٍ من سدرٍ قلیل ذلک جز ینا هم بما کفر واوهل نجازی اِلّا الکفو ر ) ( ۱ )

قوم ''سبا'' کے لئے ان کی رہائش گاہ میں ایک نشانی تھی: داہنے اور بائیں دو باغ تھے( ہم نے ان سے کہا) اپنے رب کارزق کھاؤ اور اس کا شکر اداکرو ، شہر صاف ستھرا اور پاکیزہ ہے اور تمہارا ''ربّ'' بخشنے والا ہے، (لیکن) ان لوگوں نے خلاف ورزی اوررو گردانی کی تو ہم نے تباہ کن سیلابی بلااُن کے سر پر نازل کر دی اور دو میوہ دار باغوں کو تلخ اور کڑوے باغوں اور کچھ کو بیر کے درختوںمیں تبدیل کر دیا، یہ سزا ہم نے انھیں ان کے کفر کی بنا پر دی،آیا ہم کفران نعمت کرنے والے کے علاوہ کو سزا دے سکتے ہیں؟

لیکن آخری جزا قیامت میں دوبارہ اٹھائے جانے اور حساب کتاب کے بعد ہے،قرآن کریم محشور کرنے اور حساب و کتاب کرنے کی بھی نسبت ربّ کی طرف دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( وانّ ربّک هو یحشر هم ) ( ۲ )

تمہارا''ربّ'' انھیںمحشور کرے گا

نیز فرماتا ہے:

( ما فرّطنا فی الکتاب من شیٔ ٍثمّ الی ربّهم یحشرون ) ( ۳ )

اس کتاب میں ہم نے کچھ بھی نہیں چھوڑا ہے، پھر سب کے سب اپنے ''ربّ'' کی جانب محشور کئے جائیں گے۔

اور فرماتا ہے:

( انّ حسابهم الِّا علی ربِّی لو تشعرون ) ( ۴ )

(نوح نے کہا) ان کا حساب صرف اور صرف ہمارے رب کے ساتھ ہے اگر تم یہ بات درک کرتے ہو !

لوگ حساب وکتاب کے بعد یا مومن ہیں کہ ہر حال میں ''رحمت''خدا وندی ان کے شامل حال ہو گی یا غیر مومن کہ رحمت الٰہی سے دور ہوں گے ،خدا وند عالم نے مومنین کے بارے میں فرمایا:

( یوم نحشر المتّقین الی الرحمن و فداً ) ( ۵ )

جس دن پرہیز گاروں کو ایک ساتھ خدا وند ''رحمان'' کی جانب مبعوث کریں گے۔

____________________

(۱)سبا ۱۵ (۲)حجر ۲۵(۳)انعام ۳۸ (۴)شعرا ۱۱۳(۵) مریم ۸۵

۱۳۳

البتہ ربّ العالمین کی رحمت اس دن مو منین سے مخصوص ہے،یہی وجہ ہے کہ خدا کو آخرت کا رحیم کہا جاتا ہے اور لفظ ''رحیم'' رحمان کے بعد استعمال ہوا ہے جیسا کہ ارشاد ہوا:

( ألحمد للّه ربّ العالمین،الرحمن الرحیم )

حمد وستائش عالمین کے ربّ ﷲ سے مخصوص ہے،وہ خدا وند رحمن ورحیم ہے۔

کیو نکہ رحمن کی رحمت اس دنیا میں تمام افراد کو شامل ہے ،لیکن ''رحیم'' کی رحمت مو منین سے مخصوص ہے۔

غیر مومن اور کافر کے بارے میں ارشاد فرمایا!

( انّ جهنّم کانت مرصاداً، للطا غین مآباًجزائًً وفاقاً ) ( ۱ )

یقینا جہنم ایک سخت کمین گاہ ہے اور نافرمانوںکی باز گشت کی جگہ ہے ...یہ ا ن کے اعمال کی مکمل سزا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ رب العالمین کو روز جزا کا مالک کہتے ہیں جیسا کہ ارشاد ہوا:

( الحمد للّه ربّ العالمینالرحمن الرحیم مالک یوم الدین )

جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے اس کے مطابق ''ربّ'' رحمن بھی ہے اور ''رازق'' بھی'' رحیم'' بھی ہے اور ''توّاب و غفار ''بھی اور تمام دیگر اسمائے حسنیٰ کا بھی مالک ہے۔

بحث کاخلاصہ

خدا وند عالم سورۂ اعلی میں فرماتا ہے: مخلوقات کا رب وہی ہے جس نے انھیں بہترین طریقے سے خلق کیا ،پھر انھیںہدایت پذ یری کے لئے آمادہ کیا ،پھر اس کے بعد ہر ایک کی زندگی کے حدود معین کئے اور انھیں ہدایت کی ، پھراس کے بعد کی آیات میں حیوان کی چراگاہ کی مثال دیتے ہوئے فرماتا ہے:''ربّ'' وہی ہے جس نے حیوانات کی چرا گاہ کو ظاہر کیا اوراسے پر ورش دی تا کہ شدید سبز ہو نے کے بعد ا پنے آخری رشد یعنی خشک گھاس کی طرف مائل ہو۔

اسی طرح سورۂ رحمن میں جس کی آیات کو ہم نے پیش کیا جو ساری کی ساری ربوبیت کی توصیف میں تھیں آغاز سورہ میں تعلیم بیان کے ذریعہ انسان کی تربیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( خلق الانسان علّمه البیان )

____________________

(۱) نبائ۲۱، ۲۲، ۲۶

۱۳۴

انسان کو خلق کیا اوراسے بیان کی تعلیم دی یعنی اسے ہدایت قبول کرنے کے لائق بنایا۔

سورۂ علق میں انسان کی پرورش سے متعلق صفات''ربوبیت''کے دوسرے گوشے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( خلق الانسان من علقالذی علّم با لقلم علّم الاِنسان ما لم یعلم )

انسانوں کو منجمد خون سے خلق کیا وہی ذات جس نے ا سے قلم کے ذریعہ تعلیم دی اور جو انسان نہیں جانتا تھا اس کی تعلیم دی ،یعنی اسے ہدایت قبول کر نے کے لئے آمادہ کیا۔

مذکورہ دونوں موارد(آموزش بیان اور قلم کے ذریعہ تعلیم) کلمہ ''سوّی'' کی تشریح ہے جو کہ''سورہ اعلیٰ'' میں آیاہے۔

سورۂ'' شوریٰ، نساء ، آل عمران'' میں ''ربّ العالمین ''کے ذریعہ انسان کی کیفیت ہدا یت کی شرح کرتے ہوئے فرمایا:انسان کے لئے دین اسلام کو معین کیا اوراسے اپنی کتابوں میں اپنے پیغمبروں کے ذریعہ ارسال کیا

سورۂ یونس اور اعراف میں فرمایا:تمہارا ربّ وہی خدا ہے جس نے زمین وآسمان کو پیدا کیا اور انھیں ہدایت تسخیری سے نوازا۔

سورۂ انعام میں ۹۵ تا۱۰۱آیات میں انواع مخلوقات کی یاد آوری کے بعدآیت ۱۰۲ میں فرمایا:

( ذلکم ﷲ ربکم لا اله الاّ هوخالق کل شیئٍ فا عبدوهُ )

یہ ہے تمہارا رب، ﷲ ،اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے،وہ تمام چیزوں کا خالق ہے ،صرف اس کی عبادت کرو۔

یہاں تک جو کچھ ہم نے ربوبیت کے صفات اور اس کے اسماء کو بیان کیا سب کے سب ﷲ کے صفات اور اس کے اسماء سے تعلق رکھتے ہیں، ﷲ کے'' اسمائے حسنیٰ ''کی بحث میں انشاء ﷲ دیگر اسمائے حسنیٰ کوجو ﷲ سے مخصوص ہیں ذکر کر یں گے۔

۱۳۵

۴

ﷲ کے اسمائے حسنیٰ

۱۔ ﷲ

۲۔ کرسی

۱۔ﷲ

بعض علمائے علم لغت کہتے ہیں: ﷲ در حقیقت'' اِلٰہ'' تھا جو کہ'' آلِھة'' کا اسم جنس ہے ،اس پر الف و لام تعریف داخل ہوا، اور ''اَلْاِلٰہُ ''ہو گیا، پھر الف کو اس کے کسرہ کے ساتھ حذف کردیا گیا اور دو لام کو باہم ادغام کر دیا ''ﷲ'' ہو گیا ،یعنی لفظ الہ اور ﷲ ؛رجل اور الرجل کے مانند ہیں پہلے دونوں یعنی الہ ورجل ''الھة او ر رجال'' کا اسم جنس ہیں اور دوسرے دونوں یعنی ''ﷲ'' اور ''الرجل'' الف ولام کے ذریعہ معرفہ ہو گئے ہیں اورمورد نظررجل اورالہ معین ومشخص کئے ہیں اس لحاظ سے لا الہ الاﷲ'' کے معنی ہو ں گے: کوئی معبود نہیں ہے جزاس کے جو کہنے والے کا موردنظر اورمقصود ہے۔

یہ نظریہ غلط اور اشتباہ ہے ، کیو نکہ لفظ ﷲ نحویوں کی اصطلاح میں ''عَلَم مرتجل'' (منحصر بہ فرد )ہے اور ذات باری تعالیٰ سے مخصوص ہے، جس کے تمام صفات جامع جمیع اسمائے حسنیٰ ہیں اور کوئی بھی اس نام میں اس کا شریک نہیں ہے جس طرح کوئی ''الوہیت اور ''ربوبیت'' میں اس کاشریک نہیں ہوسکتاہے ۔

چنانچہ ﷲ اسلامی اصطلاح میں ایک ایسا نام ہے جو اس ذات سے مخصوص جس کے یہاں تمام صفات کمالیہ پائے جاتے ہیں، جیسا کہ خود ﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ولِلّہ الأسماء الحسنیٰ'' تمام اسمائے حسنیٰ( ۱ ) ''ﷲ'' کیلئے ہیں اور فرمایا:( ﷲ لا اِلٰه اِلاّ هوله ا لأ سماء الحُسنیٰ ) ( ۲ ) وہ خدا جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے تمام اسمائے حسنیٰ اس کے لئے ہیں۔

بنابرایں ''لا اِلٰہ اِلّا ﷲ'' یعنی ہستی میں کوئی موثراور خالق نہیں اور تمام صفات کمالیہ اور اسمائے حسنیٰ کے مالک خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ﷲ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ایک''قیوّم'' ہے قیوّم یعنی پائندہ قائم بالذات ہر چیز کا محافظ و نگہبان نیز وہ ذات جو موجودات کو قوام عطا کرتی ہے، آیت کے یہ معنی سورۂ طہ کی

____________________

(۱)اعراف ۱۸۰ (۲)طہ ۸.

۱۳۶

۵۰ ویں آیت میں ذکر ہو ئے ہیں:

( ربّنا الذی أعطی کلّ شیٍ خلقه ثّم هدی ) ( ۱ )

ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر موجود کو جو اس کے خلقت کا لازمہ تھا عطا کیا، پھر اس کے بعد ہدایت کی ہے.

پس وہی ﷲ جو تما م صفات کمالیہ اور اسمائے حسنیٰ کا مالک ہے وہ ربّ، رحمان ، رازق، تواب،غفاّر، رحیم اور روز جزا کا مالک ہے، یہی وجہ ہے قرآن کریم میں کہیں پر لفظ ﷲربّ کی جگہ استعمال ہوا ہے یعنی جس جگہ ربّ کانام ذکر کرنا سزاوارتھا وہاں ربّ کی جگہ استعمال ہوا اور ربّ کے صفات اپنے دامن میں رکھتا ہے جیسے:رازق،تواب،غفورا وررحیم اور وہ ذات جو انسان کو اس کے عمل کی جزا دیتی ہے، جیسا کہ ارشاد ہوا:

۱۔( ﷲ یبسط الرّزق لمن یشاء ویقدر ) ( ۲ )

ﷲ ہی ہے جوجس کے لئے چاہتاہے اس کے رزق میں وسعت عطا کرتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے اس کے رزق میں تنگی کرتا ہے۔

۲۔( وانّ ﷲ هو التّواب الرحیم ) ( ۳ )

یقینا وہی ﷲ توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔

۳۔( اِنّ ﷲ غفوررحیم ) ( ۴ )

یقینا ﷲ بخشنے والا اور رحیم ہے۔

۴۔( لیجزیهم ﷲ أحسن ما کانوا یعملون ) ( ۵ )

تاکہ خدا انھیں جزا دے بہترین اعمال کی، جو انھوں نے انجام دئے ہیں۔

گزشتہ آیات میں جیسا کہ ہم نے ملا حظہ کیا ِ،صفات رزّاق ،غفور اور رحیم اور جزا دینے والا کہ ربّ العالمین سے مخصوص ہیں سب کی نسبت ﷲ کی طرف ہے ،کیو نکہ ﷲ تما م صفات کمالیہ کا مالک اور خود ''ربّ العا لمین'' ہے۔

بعض اسماء و صفات جو قرآن کریم میں آئے ہیں وہ بھی ''ﷲ'' کی مخصوص صفت ہیں جیسے:

( ﷲ لا اِلٰه اِلاّ هو الحیّ القيّوم لا تأ خذه سنة و لا نوم له ما فی السموات و ما فی )

____________________

(۱) طہ۵۰(۲) رعد۲۶ (۳) توبہ ۱۰۴ (۴) بقرہ ۱۸۲(۵) توبہ ۱۲۱

۱۳۷

( الأرض من ذالّذی یشفع عنده اِلاّ باِ ذنه یعلم ما بین أید یهم و ما خلفهم و لا یحیطون بشیئٍ من علمه اِلّا بما شاء وسع کر سيّه السموات و الأرض و لا یؤده حفظهما و هو العلیّ العظیم ) ( ۱ )

کوئی معبودنہیںجزاللہ کے حی وقیوم اور پائندہ ﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے نہ اسے اونگھ آتی ہے اور نہ ہی نیند ،جو کچھ زمین وآسمان میں ہے ا سی کا ہے کون ہے جو اس کے پاس ا س کے فرمان کے علاوہ شفاعت کرے؟ جو کچھ ان کے سامنے اور پیچھے ہے اسے جانتا ہے اور کوئی اس کے علم کے ایک حصہ سے بھی آگاہ نہیں ہوتا جز یہ کہ وہ خود چاہے، اس کی حکومت کی''کرسی'' زمین وآسمان کو محیط ہے نیز ان کی محا فظت اسے تھکا تی نہیں ہے اور وہ ' علی ّ و عظیم''(بلند مرتبہ و با عظمت) ہے۔

اس آیت میں مذکور تمام اسماء و صفات ''ﷲ'' سے مخصوص ہیں اور ''الہٰ '' خالق اور ربّ العالمین کے صفات میں سے نہیں ہیں۔

نیز ایسے صفات جیسے:عزیز ،حکیم،قدیر،سمیع،بصیر،خبیر، غنی،حمید، ذوالفضل العظیم،( عظیم فضل کا مالک) واسع، علیم(وسعت دینے والا اور با خبر) اور فعال لمایشائ(اپنی مرضی سے فعل انجام دینے والا)... یہ سارے صفات '' ﷲ'' کے مخصوص صفات ہیں، اس لحاظ سے ﷲ ایک نام ہے ا ن صفات میں سے ہر ایک کے لئے اوراللہ کی حقیقت یہی صفات اور اسمائے حسنیٰ ہیں۔

عبرانی زبان میں بھی ''ےَھُوَہ'' کو'' ﷲ'' کی جگہ اور''الوھیم'' کو''الا لہ'' کی جگہ استعمال کرتے ہیں ۔

ﷲ کی ایک صفت یہ ہے کہ اس کی ''کرسیٔ حکومت'' زمین وآسمان سب کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ چنانچہ اب ہم''کرسی'' کے معنی کی تحقیق وبر رسی کریں گے۔

____________________

(۱) بقرہ ۲۵۵

۱۳۸

۲۔کرسی

لفظ کرسی؛ لغت میں تخت اور علم کے معنی میں ہے۔

طبری،قرطبی اور ابن کثیر نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ فرمایا :''کرسی خدااس کا علم ہے''۔ اورطبری کہتے ہیں:

''جس طرح خدا وند عالم نے فرشتوں کی گفتگو کی خبر دی ہے کہ انھوں نے اپنی دعا میں کہا :

( ربّنا وسعت کلّ شیء علماً )

پروردگار ا! تیرا علم تمام اشیاء کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

اس آیت میں بھی خبر دی ہے کہ''وسع کرسےّہ السموات و الأرض'' اس کا علم زمین وآسمان کو محیط ہے،کیو نکہ''کرسی'' در حقیقت علم کے معنی میں ہے ،عرب جو اپنے علمی نوٹ بک کوکرّاسہ کہتے ہیں اسی باب سے ہے ،چنانچہ علما ء اور دانشوروں کو ''کَراسی'' کہا جاتا ہے۔(طبری کی بات تمام ہوئی)۔

طبری کی بات پر اضافہ اضافہ کرتے ہوئے ہم بھی کہتے ہیں:خدا وند عالم نے حضرت ابراہیم کی اپنی قوم سے گفتگوکی حکایت کی ہے جو انھوں نے اپنی قوم سے کی:

( وسع ربیّ کلّ شیئٍ علماً أ فلا تتذکّرون ) ( ۱ )

ہمارے رب کا علم تمام چیزوں کو شامل اور محیط ہے آیاتم لوگ نصحت حاصل نہیں کرتے؟

اورشعیب کی گفتگو اپنی قوم سے کہ انھوں نے کہا ہے:

( وسع ربّنا کلّ شیئٍ علماً ) ( ۲ )

ہمارے رب کا علم تمام اشیا ء کو محیط ہے۔

اور موسیٰ کی سامری سے گفتگو کہ فرمایا:

____________________

(۱) انعام ۸۰

(۲)اعراف ۸۹

۱۳۹

( ِِِانّما اِلٰهکم ﷲ الذی لا أِله الاّ هو وسع کلّ شیئٍ علماً ) ( ۱ )

تمہارا معبود صرف ''ﷲ'' ہے وہی کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، اس کا علم تمام اشیاء کو احاطہ کئے ہوئے ہے۔

رسول خدا کے اوصیاء میں چھٹے وصی یعنی امام جعفر صادق نے سائل کے جواب میں جس نے کہا : (وسع کر سیہ السموات و الارض) اس جملہ میں کرسی کے کیا معنی ہیں ؟فرمایا: خدا کا علم ہے۔( ۲ )

قرآن کریم میں کرسی کا تخت اور علم دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے، خدا وند عالم نے سور ئہ ص میں سلیمان کی داستان میں فر مایا:

( و لقد فتّنا سلیمان و ألقینا علیٰ کر سيّه جسداً ) ( ۳ )

ہم نے سلیمان کو آزمایا اور ان کی کرسی (تخت ) پر ایک جسد ڈال دیا۔

اور اس آیت میں فرماتا ہے:

( یعلم ما بین أید هم وما خلفهم ولا يُحیطون بشیء ٍ من علمه ِالّا بما شاء وسع کر سيّه السموات و الٔارض ) ( ۴ )

خدا وند عالم ان کے سامنے اور پس پشت کی ساری باتوں کو جانتا ہے اور وہ ذرہ برابر بھی اس کے ''علم'' سے آگاہ نہیں ہو سکتے جز اس کے کہ وہ خود چاہے،اس کی کرسی یعنی اس کا''علم''زمین وآسمان کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

''کرسی'' جیسا کہ آیہ شریفہ سے ظاہر ہے ''علمہ'' کے بعدمذکور ہے اس قرینہ سے معنی یہ ہوں گے:وہ لوگ ذرہ برابر علم خدا وندی سے آگاہ نہیں ہو سکتے جزاس کے کہ خدا خود چاہے، اس کا علم زمین وآسمان کو اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہے۔

اس لحاظ سے بعض روایات کے معنی ،جو کہتی ہیں:''کل شیء فی الکرسی'' ساری چیزیں کرسی میں ہیں، یہ ہوں گے کہ تمام چیز علم الٰہی میں ہے۔

یہاں پر'' ﷲ کے اسمائے حسنی ٰ''کی بحث کو ختم کرتے ہیںاور''عبودیت'' کی بحث جو کہ اس سے مر بوط ہے اس کی بر رسی و تحقیق کر یں گے۔

____________________

(۱)طہ ۹۸(۲) توحید صدوق:ص ۳۲۷، باب: معنی قول اللہ عز وجل : وسع کرسیہ الماوات والارض.(۳) سورۂ ص ۳۴. (۴)بقرہ۲۵۵

۱۴۰