اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

اسلام کے عقائد(دوسری جلد )12%

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 122612 / ڈاؤنلوڈ: 4698
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(دوسری جلد )

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

عبد وعبادت

عَبَدَ :اس نے اطاعت کی''عبودیت'' یعنی: عاجزی و فرو تنی اورخضوع و خشوع کے ساتھ اطاعت بجالانااور''عبادت'' یعنی نہایت خضوع وخشوع اور فر وتنی وعاجزی کے ساتھ اطاعت کرناجو '' عبودیت''سے زیادہ بلیغ ہے۔

الف: عبودیت

سورہ حمد میں ''ربّ العالمین''کے ذکر کے بعد جملہ''ایاّک نعبد'' آیا ہے اس میں عبودیت بمعنی ٔ اطاعت ہے ،یعنی ہم صرف تیری ہی اطاعت کرتے ہیں۔

امام جعفر صادق ـ نے بھی ایک حدیث میں فرمایا ہے :

''مَن أطاع رجلاً فی معصية فقد عبده ''( ۱ )

جو شخص کسی انسان کی معصیت اور گناہ میں اطاعت کرے گویااس نے اسکی عبادت کی ہے۔

جیسا کہ ظاہر ہے عبادت و اطاعت ایک ساتھ اور ایک معنی میں استعمال ہو ئے ہیں۔امام علی رضا کی گفتگو میں بھی ہے کہ دوسرے کی بات سننے کو،جو ایک قسم کی اطاعت اور اس کی پیروی ہے،''عبادت'' سمجھاگیاہے، جیسا کہ فرمایا:

''مَن أصغیٰ اِلی ناطق فقد عبده فاِن کان الناطق عن ﷲ عزّ و جلّ فقد عبد ﷲ،واِن کان الناطق عن أبلیس فقد عبدأبلیس'' ( ۲ )

جو شخص کسی قائل کی آواز پر کان دھرے اس نے اس کی عبادت کی ہے اب اگر قائل خدا وند عالم کی بات کرے تو خدا کی عبادت کی اور اگر ابلیس کی بات کرے تو ابلیس کی عباد ت کی۔

عبادت: باشعور موجودات کے لئے اختیاری ہے لیکن دیگر مخلوقات کے لئے تسخیری اور غیر اختیاری

____________________

(۱)اصول کافی ج ۲، ص ۳۹۸(۲) عیون اخبار الرضا،ص۳۰۳، ح۶۳؛ وسایل الشیعہ ج۱۸، ص ۹۲ ح ۱۳

۱۴۱

ہے، جیسا کہ خدا وند سبحان نے فرمایا :

( یا أيّها الناس اعبد واربّکم الذی خلقکم و الذین من قبلکم.. ) .)( ۱ )

اے لوگو !اپنے رب کی عبادت کرو ،وہی جس نے تمکو اور تم سے پہلے والوں کو زیور تخلیق سے آراستہ کیا ہے۔

اوردیگر مو جودات کے بارے میں فرمایا :

( وللّه یسجد ما فی السموات وما فی الٔارض من دابة والملا ئکة وهم لا یستکبرون ) ( ۲ )

تمام وہ چیزیں جو آسمان وزمین میں پائی جاتی ہیں چلنے والی ہوں یا فرشتے خدا کے لئے سجدہ( عاجزی اور فرونتی) کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے ہیں۔

ب: عبد

عبد کے چار معنی ہیں:

۱۔غلام کے معنی میں جیسے سورۂ نمل میں خدا ارشاد فرماتا ہے:

( ضرب ﷲ مثلاً عبدا ً مملوکاً لا یقدر علیٰ شیئٍ ) ( ۳ )

خدا وند عالم نے ایک ایسے غلام مملوک کی مثال دی ہے جو کسی چیز پر قادر نہیں ہے۔

اس عبد کی جمع عبید ہے جیسا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمایا :

''مَن خرج ِالینا من العبید فهوحرّ'' ( ۴ )

جو غلام بھی ہماری سمت (اسلام کی طرف)آجائے وہ آزاد ہے۔

۲۔''عبد'' بندہ ہونے کے معنی میں بھی ہے اس کی سب سے زیادہ روشن اور واضح مثال خدا وند عالم کے ارشاد میں ہے کہ فرمایا:

( ِان کلّ مَن فی السموات والأر ض اِلّا أتی الرحمن عبداً ) ( ۵ )

زمین وآسمان کے ما بین کوئی نہیں ہے مگر یہ کہ بند گی کی حالت میں خدا وند رحمان کے سامنے آئے۔

اس معنی میں بھی عبد کی جمع ''عبید'' (بندے) ہے جیسے :

( و أنّ ﷲ لیس بظلام للعبید ) ( ۶ )

____________________

(۱)سورہ ٔ بقرہ ۲۱. (۲) نحل ۴۹(۳) نحل ۷۵(۴) مسند احمد ج۱، ص ۲۴۸ (۵)مریم ۹۳۔(۶)انفال ۵۱ ۔

۱۴۲

خدا وند عالم اپنے بندوںپر ظلم نہیں کرتا ہے۔

۳۔ ۴۔عبد؛،عبادت کرنے والے اور خدمت گزار بندہ کے معنی میں ہے جس کے بارے میں ''عابد'' کی تعبیر زیادہ بلیغ ہے، اس کی دو قسم ہے:

الف:خدا کا خالص'' عبد'' اورحقیقی بندہ ہونا جس کی جمع عباد آتی ہے جیسے خدا وند عالم کاکلام ان کے موسیٰ اور اوران کے جوان ساتھی کی داستان کی حکایت میں ہے،وہ فرماتا ہے:

( فوجدا عبداً من عبادنا آتینا ه رحمة من عند نا ) ( ۱ )

ا ن دونوںنے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ کو پایا جسے ہم نے اپنی خاص رحمت سے نوزا تھا۔

ب۔اور دنیا کا'' عبد'' بندہ ہونا یعنی جو شخص اپنا تمام ہم و غم اور اپنی تمام توانائی دنیا اور دنیا طلبی کے لئے وقف کر دے،یہاں بھی عبد کی جمع''عبید'' ہے جیسا کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' تَعِسَ عبد الدرھم وعبد الدینار''درہم ودینار کا بندہ ہلاک ہوگیا۔( ۲ )

اور چو نکہ پروردگار عالم بندوں کی ہدایت اور لوگوں کے ارشاد کے لئے امر ونہی کرتا ہے لہٰذا جو شخص فرمان خدا وندی کی اطاعت کرتاہے ا سے کہتے ہیں: (عَبَدَا لرّبَّ)اس نے خدا وند رحمان کی عبادت وبندگی کی، وہ عابد ہے یعنی:اس نے خدا کی اطاعت کی ہے اور و ہ پروردگار کا مطیع وفرمانبردار ہے۔

اور چونکہ''الہ''معبود کے معنی میں ہے اور اس کے لئے دینی مراسم منعقد کئے جاتے ہیں، کہتے ہیں: ''عَبَدَ فلان اِلا لہَ''فلاں نے خدا کی عبادت کی (پرستش کی)وہ عابد(پر ستش کرنے والا ہے)یعنی وہ دینی مراسم خدا کے لئے انجام دیتا ہے۔( ۳ )

جن صفات کو''الوہیت'' کی بحث میں '' الہٰ'' کے صفات میں شمار کیاہے اور ربوبیت کی بحث میں ان تمام صفات کورب ّ کے صفات سے جانا ہے وہ سارے کے سارے ﷲ ربّ العالمین کے صفات ہیں ، ﷲ ربّ العالمین کے صفات میں ایک دوسری صفت یہ ہے کہ ہر چیز کا جاری و ساری ہونا اس کی مشیت اور اس کی مرضی سے ہے اور ہم انشاء ﷲآئندہ بحث میں اس کی وضاحت کر یں گے۔

____________________

(۱)کہف:۶۵ (۲) سنن ابن ماجہ ص۱۳۸۶(۳)جو کچھ ہم نے''عبد'' کے بارے میں ذکر کیا ہے وہ مندرجہ ذیل کتابوں سے مادہ عبد کے مطالب کا خلاصہ ہے، جوہری کی کتاب صحاح ،مفردات القرآن راغب ،قاموس اللغة فیروز آبادی، معجم الفاط القرآن الکریم ،طبع مصر، ہم نے ان سب کی عبارت کو مخلوط کر کے ایک سیاق و اسلوب کے ساتھ بیان کیا ہے.

۱۴۳

۵

ربّ العالمین کی مشیت

الف ۔مشیت کے معنی

ب: رزق میں خدا کی مشیت

ج:ہدایت میں خدا کی مشیت

د: رحمت وعذاب میں خدا کی مشیت

۱- لغت اور قرآن کریم میں مشیت کے معنی

الف:مشیت کے لغوی معنی

مشیت کے لغوی معنی؛ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور اس معنی میں لوگ بھی ارادہ ومشیت کے مالک ہوتے ہیں ،خدا وند کریم نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:( اِنّ هذه تذکرة فمن شاء اتّخذا الیٰ ربّه سبیلاً ) ( ۱ )

یہ یاد دہانی ہے،لہٰذا جو چاہے اپنے پروردگار کی طرف راہ اختیار کرے۔یعنی اگر انسان چاہے اور ارداہ کرے کہ خدا کی سمت راہ انتخاب کرے تو وہ مکمل آزادی اور اپنے ارادہ واختیار کے ساتھ اس بات پر قادر ہے،اسی آیت سے ملتا جلتا مضمون سورہ مدثر کی ۵۵ ویں آیت عبس کی بارہویں آیت تکویر کی اٹھائیسویں آیت اور کہف کی ۹۲ آیت ویں وغیرہ میں بھی ذکر ہوا ہے،خدا وند سبحان نے لغوی مشیت کی نسبت بھی اپنے طرف دیتے ہوئے فرمایا:

۱۔( الم تر اِلی ربّک کیف مدّ الظلّ و لو شاء لجعله ساکناً ) ( ۲ )

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کس طرح تمہارے ربّ نے سایہ کو دراز کردیا؟اوراگر چاہتا تو ساکن کر دیتا.

۲۔( فاما الذین شَقُوا ففی النار لهم فیها زفیر و شهیق)( خالدین فیها ما دامت السموات و الأرض الا ما شاء ربّک انّ ربّک فعال لما يُرید)( وأما الذین سعدوا ففی الجنة خالدین فیها ما دامت السموات و الأرض الا ماشاء ربک عطائً غیر مجذوذٍ ) ( ۳ ) لیکن جو بد بخت ہو چکے ہیں،تو وہ آتش جہنم میں ہیں اور ان لوگوں کے لئے وہاں زفیر اور شہیق( آہ و نالہ وہ فریاد) ہے اور جب تک زمین وآسمان کا قیام ہے وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے مگر جو تمہارا رب چاہے اور تمہارا رب جو چاہتاہے انجام دیتا ہے، رہے وہ لوگ جو نیک بخت اور خوش قسمت ہیں وہ جنت میں ہیں اور

____________________

(۱) مزمل ۱۹ ؛ انسان ۲۹ (۲)فرقان ۴۶.(۳)ہود۱۰۶ ۱۰۸

۱۴۴

جب تک زمین وآسما ن کا قیام ہے وہ اس میں رہیں گے جز اس کے جو تمہارا رب چاہے یہ ایک دائمی بخشش ہے۔

ان دو آیتوںکے مانند سورۂ اسراء کی ۸۶ ویںاور فرقان کی ۵۱ ویںآیت میں بھی ذکر ہوا ہے۔

لیکن گزشتہ آیات کے معنی یہ ہیں:

۱۔خدا وندعالم نے پہلی جگہ فرمایا:

( الم تریٰ الی ربک کیف مدّ الظل و لو شاء لجعله ساکناً )

یعنی خدا وند عالم نے کس طرح ظہر کے بعد ،سورج کے مغرب سے قریب ہو نے کے تناسب سے سایہ کو مشرق کی جانب پھیلا دیایہاں تک کہ ڈوب کر شب میں اپنی آخر ی حد داخل ہو گیا اوراگر''چاہتا''تو سایہ کو ہمیشہ ساکن ہی رہنے دیتا ، سایہ کا دراز ہونا اوراس کا حرکت کرنا خدا کی مشیت اور اس کے ارادہ پر ہے اور مرضی الٰہی سے باہر نہیں ہے۔

۲۔ خدا نے دوسرے مقام پر فرمایا: اہل جہنم ہمیشہ کیلئے آتش میں ہیں اور اہل بہشت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بہشت میں ہیںاور یہ خدا کی قدرت اور مشیت کے تحت ہے اور اس کی مرضی اور مشیت سے خارج نہیں ہے۔

ب:مشیت؛ قرآنی اصطلاح میں

قرآن مجید میں جب بھی کلمات رزق، ہدایت،عذاب،رحمت اور ان کے مشتقات کے بعد ''مشیت خدا کی'' بحث ہو تی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ رزق وروزی ،ہدایت اور اس کے مانند دوسرے امور کا جاری ہونا ان سنتوں کی بنیاد پرہے جنہیں خدا وند عالم نے اپنی حکمت کے اقتضا ء سے معین فرمایا ہے اور خدا کی سنت ان امور میں نا قابل تبدیل ہے اور وہ اس آیت کے مصادیق و افراد میں سے ہیں جیسا کہ فرماتا ہے:

( سنة ﷲ و لن تجد لسنة ﷲ تبدیلاً ) ( ۱ )

یہ سنت الٰہی ہےاور سنت الٰہی میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہو تی ہے۔

جیسا کہ سورہ فاطر میں بھی ارشاد فرماتا ہے:

( فلن تجد لسنة ﷲ تبدیلاً و لن تجد لسنة ﷲ تحویلاً )

سنت خدا وندی میں کبھی تبدیلی نہیں پاؤ گے اور سنت الٰہی میں کبھی تغیر نہیں پاؤ گے۔

____________________

(۱)سورۂ احزاب ۶۲ اور فتح ۲۳.

۱۴۵

دوم ۔ رزق وروزی میں خدا کی مشیت

۱۔خدا وند عالم سورۂ شوریٰ میں فرماتا ہے:

( له مقا لید السموات و الأرض یبسط الرّزق لمن یشائُ و یقدر اِ ّنه بکل شیء ٍ علیم ) ( ۱ )

آسمانوں اور زمینوں کی کنجیاں اس سے مخصوص ہیں،جس کی روزی میں چاہتا ہے وسعت عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ا س کی روزی تنگ کر دیتا ہے وہ تمام چیزوں سے آگاہ ہے۔

سورئہ عنکبوت میں فرمایا ہے:

( وکأيّن من د ابةٍ لا تحمل رزقها ﷲ یر زقها و اِيّا کم و هو السمیع العلیم و لئِن سألتهم مَن خلق السموات والأرض و سخر الشمس و القمر لیقو لنّ ﷲ فأنّی یوفکون ﷲ یبسط الرّزق لمَن یشاء من عباده و یقدر له ِانّ ﷲ بکلّ شیٍئٍ علیم ولئن سا لتهم من نزّل من السماء مائً فأ حیا به الٔارض من بعد موتها لیقو لُنَّ ﷲ قل الحمد لله بل أکثر هم لا یعقلون ) ( ۲ )

کتنے چلنے والے ایسے ہیں جو اپنا رزق حمل کرنے کی قدرت نہیں رکھتے خداانھیں اور تمھیں روزی دیتا ہے وہ سننے اور جاننے والا ہے اور جب بھی ان سے سوال کرو گے : کس نے زمین وآسمان کو پیدا کیا ہے اور سورج اور چاند کو مسخر کیا ہے ؟ توکہیں گے:''ﷲ'' پھر اس حال میں وہ لوگ کیسے منحرف ہو تے ہیں؟خدا اپنے بندوں میں جس کی روزی میں چاہتا ہے وسعت بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس کی روزی تنگ کر دیتا ہے خداوند عالم تمام چیزوں سے آگاہ ہے اور اگر ان سے پوچھو کہ کس نے آسمان سے پانی نازل کیا اور اس کے ذریعہ مردہ زمین کو زندہ کیا؟ کہیں گے: ''ﷲ'' کہو!حمد و ستائش خدا سے مخصوص ہے لیکن ان میں بہت سے لوگ نہیں جانتے ہیں۔

۳۔سورۂ سبا میں فرمایا:

____________________

(۱)شوریٰ۱۲

(۲) عنکبوت۶۰تا۶۳.

۱۴۶

( قل اِنَّ ربّیِ یبسط الرّزق لمَن یشاء من عباده و یقد ر له و ما أنفقتم من شیئٍ فهو يُخلفهُ وهوخیرالرّا زقین ) ( ۱ )

کہو! خدا اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کے رزق میں وسعت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس کا رزق تنگ کر دیتا ہے اور تم جو بھی خرچ کرتے ہو اس کی جگہ پرْ کر دیتا ہے اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔

۴۔سورہ اسراء میں ارشاد ہو تا ہے:

( ولا تجعل یدک مغلو لةً اِلی عنفک ولاتبسطها کلّ البسطِ فتقعد ملوماً محسوراً)(اِنَّ ربّک یبسط الرّزق لمَن یشاء ویقدر اِنّه کان بعباده خبیراً بصیراً)( ولا تقتلوا أولادکم خشية اِملاقٍ نحن نر زقهم و اِيّاکم اِنَّ قتلهم کان خطئاً کبیرا)( و لا تقر بوا مال الیتیم اِلّا با لتی هی أحسن حتیٰ یبلغ أشدّ ه و أو فو ا بالعهد اِنّ العهدکان مسوؤ لاً)( و أوفوا الکیل اِذا کلتم و زنوا با لقسطاس المستقیم ذلک خیر و أحسن تاویلاً ) (۲)

اپنے ہاتھوں کو پس گردن بندھاہوا قرار نہ دو ( تاکہ انفاق سے رک جاؤ) اور نہ ہی اتنا پھیلادو کہ سرزنش کے مستحق قرار پاؤ اور حسرت کا نشانہ بن جاؤ ،یقینا ًخدا جس کے رزق میں چاہتا ہے وسعت دیتا ہے اور جس کے رزق میں چاہتا ہے تنگی کر دیتا ہے،اپنے فرزندوں کو فقر و فاقہ کے خوف سے قتل نہ کرو ہم انھیں اور تمھیں روزی عنایت کرتے ہیںیقینا ً ان کا قتل کرنا ایک عظیم گناہ ہےاور یتیم کے مال سے بہترین طریقہ کے علاوہ قر یب نہ ہو نا جب تک کہ بلوغ کونہ پہنچ جائے اور اپنے عہد وپیمان کو وفا کرو کہ عہد وپیمان کے متعلق سوال ہوگا! اور جب کسی چیز کو تولو تو تو لنے کا حق ادا کرو اور صحیح ترازو سے وزن کرو کہ یہ بہتر اور نیک انجام کاذریعہ ہے۔

۵۔سورۂ آل عمران میں فرمایا:

( قل أللّهم مالک الملک تؤتیِ الملک من تشائُ و تنزع الملک ممّن تشاء و تعزّ مَن تشاء و تذّل مَن تشاء بیدک الخیر اِنّک علیٰ کلّ شیئٍ قدیر تولج اللیل فی النهار و تو لج النهار فی اللّیل و تخرج الحیَِّ من الميّت و تخرج الميّت من الحیِّ و تر زق مَن تشاء بغیرحسابٍ ) ( ۳ )

کہو!: خدا وندا! تو ہی حکو متوں کا مالک ہے جسے چاہتا ہے حکومت دیتاہے اور جس سے چاہتا ہے حکومت چھین لیتا ہے جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل ورسوا کر دیتاہے تما م خوبیاں تیر ے ہاتھ میں

____________________

(۱)سبا۳۹

(۲)اسراء ۲۹ تا ۳۵

۱۴۷

ہیں اورتو ہر چیز پر قادر ہے ،رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو شب میں ، اور مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ نکالتا ہے اور جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔

خدا کی مشیت کیسی اور کس طرح ہے؟

اعمال کی جز ا کی بحث میں ہم نے ذکر کیا کہ خدا وند عالم نے رزق کی وسعت ''صلہ رحم'' میں قرار دی ہے یعنی کوئی اپنے اعزاء و اقرباء سے صلہ رحم کرتا ہے تو اس کے رزق میں اضافہ ہو تا ہے اور انسان اپنے باپ کی صلاح و درستی کے آثار بعنوان میراث پاتا ہے ،جیسا کہ حضرت موسی اور بندہ ٔخدا حضرت خضر کی داستان میں گزر چکا ہے کہ گر تی ہوئی دیوار کو گر نے سے بچایا تا کہ اس کے نیچے دو یتیموں کا،کہ جن کا باپ صالح انسان تھا ،مد فون خزانہ بر باد نہ ہو جائے اور وہ دونوں بالغ ہو نے اور سن شعور تک پہنچنے کے بعداسے باہر نکالیں! یہ خدا کی مشیت و ارادہ کے دو نمو نے روزی عطا کرنے کے سلسلہ میں ہیں جو ثابت اور ناقابل تبدیل الٰہی سنت کی بنیاد پر جاری ہوتے ہیں ۔

____________________

(۱) آل عمران ۲۶، ۲۷

۱۴۸

سوم :مشیت خداوندی ہدایت اور راہنمائی میں

انسان کی ہدایت قرآن کریم کی رو سے دو قسم کی ہے:

۱۔ہدا یت اسلامی احکام اور عقائد کی تعلیم کے معنی میں

۲۔ ہدایت ایمان اور عمل صالح کی تو فیق کے معنی میں

قرآن کریم پہلی قسم کی ہدایت کی زیادہ تر پیغمبروں کی طرف نسبت دیتا ہے جنھیں خدا وند عالم نے اسلامی عقائدو احکام کی تبلیغ اور ا پنی پیغام رسا نی کے لئے انسانوں کی طرف بھیجا ہے اور کبھی خود خدا کی طرف نسبت دیتاہے کہ اس نے پیغمبروں کو دین اسلام کے ساتھ بھیجا ہے۔

قرآن کریم دوسری نوع ہد ایت کی نسبت خدا وند عالم کی طرف دیتا ہے اور کبھی مشیت کے ذکر کے ساتھ کہ ہدایت خدا کی مرضی اور اس کی خواہش ہے اور کبھی''مشیت'' کے ذکرکے بغیر۔

خدا وند عالم نے ہدایت کی دونوں قسموں سے بہرہ ور ہونے کی شرط لوگوں کا انتخاب اور پسندیدگی نیزاس کو حاصل کرنے کے لئے ان کے عملی اقدام کو قرار دیا ہے، اس کا بیان درجہ ذیل سہ گانہ مباحث میں کیاجارہا ہے:

الف: تعلیمی ہدایت

قرآن کریم لوگوں کی تعلیمی ہدایت کی تبلیغ اسلام کے معنی میں کبھی انبیاء کی طرف نسبت دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( و اِنّک لتهدی اِلیٰ صراط مستقیم ، صراط ﷲ الذی له ما فی السموات و ما فیِ الأرض اِلَا اِلیٰ ﷲ تصیر الأ مور )

اوریقیناً تم راہ راست کی طرف ہدایت کرتے ہواس خدا وند عالم کے راستے کی جانب کہ جو کچھ زمین وآسمان کے درمیان ہے

۱۴۹

سب اسی کا ہے ،آگاہ ہو جاؤ !تمام امور کی بازگشت خدا کی طرف ہے۔( ۱ )

اور کبھی انبیاء کے ہدایت کرنے کی خدا کی طرف نسبت دیتے ہوئے فرماتا ہے :

۱۔( و جعلنا هم أئمة یهدون بأمرنا ) ( ۲ )

اورہم نے انھیں پیشوا قرار دیا جو ہمارے فرمان کی ہدایت کرتے ہیں۔

۲۔( هوالذِی أرسل رسوله بالهدیٰ ودین الحقّ لیظهره علیٰ الدین کلّه ) ( ۳ )

وہ ایسی ذات ہے جس نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث کیا تا کہ اسے تمام ادیان پر غالب اورکامیاب کرے۔

اسی معنی میں آسمانی کتابوں کی طرف بھی ہدایت کی نسبت دیتے ہوئے فرماتا ہے:

۱۔( شهررمضان الذی انزل فیه القرآن هُدیً للناس وبيّناتٍ مِن الهدیٰ والفُرقانِِ ) ( ۴ )

ماہ رمضان ایک ایسا مہینہ ہے جس میں لوگوں کی ہدایت کرنے والا قرآن نازل کیا گیا اس میں ہدایت کی نشا نیاں اور حق و باطل کے درمیان جدائی ہے۔

۲۔( و أنزل التّوراة و الٔانجیل من قبل هدیً للناس ) ( ۵ )

لوگوں کی ہد ایت کے لئے پہلے توریت اور انجیل نازل فرمائی ہے۔

کبھی تعلیمی ہد ایت کی نسبت بلا واسطہ خدا کی طرف دیتے ہوئے فرمایا:

۱۔( ألم نجعل له عینین و لساناًو شفتین و هدیناه النّجد ین ) ( ۶ )

کیا ہم نے انسان کو دو آنکھیں نہیں دیں؟ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دئے؟ اور اسے راہ خیر وشر کی طرف ہدایت نہیں کی؟!

۲۔( و أمّا ثمود فهد ینا هم فا ستحبّوا العمیٰ علی الهدیٰ ) ( ۷ )

اور ہم نے قوم ثمود کی ہدایت کی لیکن انھوں نے ضلا لت اور نا بینائی کو ہدایت پر تر جیح دی۔

بنا براین خدا کبھی تعلیمی ہدایت اور آموزش اسلام کی نسبت پیغمبروں اور اپنی کتابوں کی طرف دیتا ہے اور کبھی اپنی پاک و پاکیزہ ذات کی طرف !اور یہ اس اعتبار سے ہے کہ خوداسی نے ان کتابوں کے ہمراہ لوگوں کی تعلیم کے لئے پیغمبروں کو بھیجا ہے۔

____________________

(۱)شوریٰ ۵۲،۵۳ (۲)انبیاء ۷۳(۳)توبہ ۳۳(۴) بقرہ ۱۸۵ (۵)آ ل عمراان۲،۳ (۶) بلد۸،۱۰ (۷) فصلت ۱۷

۱۵۰

انشاء اآئندہ بحث میں انسا ن کی ہدایت قبول کرنے یا نہ کرنے کی کیفیت تحقیق کے ساتھ بیان کریں گے۔

ب:انسان اور ہدایت یا گمراہی کاانتخاب

قرآنی آیات میں غور و خوض کر نے سے ہم درک کرتے ہیں کہ لوگ ہمیشہ انبیاء کے مبعوث ہونے اور آسمانی کتاب کے نازل ہو نے کے بعد دو گروہ میں تقسیم ہوئے ہیں: ایک گروہ ہدایت کو گمرا ہی پر ترجیح دیتا ہے اور اس کا انتخاب کرتا ہے اور دوسرا گروہ ضلالت و گمراہی کو ہدایت پر ترجیح و فوقیت دیتا ہے۔ اس سلسلہ میں درج ذیل آیات پر توجہ فرما ئیں:

۱ ۔( اِنّما أمرت أن اعبد ربّ هذه البلدة)( و أن أتلوا القرآن فمَن أهتدیٰ فِاّنما یهتدیِ لنفسه و مَن ضلَّ فقل اِنّما أنا من المنذ رین ) ( ۱ )

مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر کے ربّ کی عبادت کر وں اور قرآن کی تلاوت کروںلہٰذا جس نے ہدایت پائی اسنے اپنے فائدہ میں ہدایت پائی اور جو گمراہ ہو ا تو اس سے کہو ہم تو صرف ڈرانے والے ہیں۔

۲۔( قل یا أيّها الناس قد جاء کم الحقّ من ربّکم فمَن اهتدیٰ فاِنّما یهتدیِ لنفسه و مَن ضلَّ فِا ّنما یضلُّ علیها و ما أنا علیکم بوکیلٍ ) ( ۲ )

کہو: اے لوگو! تمہارے ربّ کی جانب سے حق تمہاری طرف آچکا ہے ،لہٰذا جو ہدایت پائے وہ اپنے نفع میں ہدایت یا فتہ ہوا ہے اور جو گمراہ ہو جائے تنہا اپنے ضرر میں گمراہ ہوا ہے اور میں تم پر وکیل نہیں ہوں۔

۳۔( مَن اهتدیٰ فاِنّما یتهدی لنفسه و مَن ضلَّ فاِ نّما یضلّ علیها ولا تزر واز رة وزرأخریٰ و ما کنّا معذّ بین حتیٰ نبعث رسولاً ) ( ۳ )

جو ہدایت پائے وہ اپنے فائدہ میں ہدایت یافتہ ہوا ہے اور جو گمراہ ہو جائے ا پنے ضرر اورنقصان میں گمراہ ہوا ہے اورکوئی بھی کسی دوسرے کے گناہ کا بار نہیں اٹھا ئے گا اور ہم اس وقت تک کسی کومعذب نہیں کرتے جب تک کہ کوئی پیغمبر مبعوث نہ کردیں۔

____________________

(۱)نمل ۹۱ ، ۹۲ (۲)یونس ۱۰۸

(۳)اسراء ۱۵

۱۵۱

ہدایت طلب انسان اور ﷲ کی امدا د(توفیق)

خدا وند عالم سورۂ مریم میں ہدایت طلب انسان کی ہدایت خواہی کے بارے میں فرماتا ہے:

( و یزید ﷲ الذین اهتدوا هُدیً ) ( ۱ )

اور وہ لوگ جو راہ ہدایت گامزن ہیں خدا ان کی ہدا یت میں اضافہ کردیتا ہے۔

سورۂ محمد میں ارشاد ہوتا ہے:

( والذین اهتدوازادهم هدیً واتا هم تقواهم ) ( ۲ )

وہ لوگ جو ہدایت یافتہ ہیں ،خدا وند عالم نے ان کی ہدایت میں اضافہ کیا اور انھیں روح تقوی عطا کی۔

جو لوگ ﷲ کے رسولوں کی آمد کے بعد ہدایت کا انتخاب کرتے ہوئے راہ خدا میں مجاہدت کرتے ہیں وہ لوگ توفیق الٰہی کے سزاوار ہوتے ہیں لیکن جن لوگوں نے پیغمبروں کی تکذیب کی اور اپنی نفسا نی خواہشات کا اتبا ع کیا ، ان کی گمرا ہی یقینی ہے۔

خدا دونوں گروہ کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( والذین جاهدوا فینا لنهد ینّهم سُبُلنا واِنَّ ﷲ لمع المُحسنینَ ) ( ۳ )

جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں یقینا ہم انھیں اپنی راہوں کی ہدایت کرتے ہیں اور خدا وند عالم نیکو کاروں کے ہمراہ ہے ۔

۲۔( ولقد بعثنا فی کل أمةٍ رسولاً ان اْعبدواﷲ واْجتنبواالطاغوت فمنهم من هدی ﷲ ومنهم من حقت علیه الضلا لة فسیروا فی الأرض فانظر وا کیف کان عا قبة المکذ بین ان تحرص علی هدا هم فان ﷲ لا یهدی من یضلُّ ومالهم من ناصرین ) ( ۴ )

ہم نے ہر امت کے درمیان ایک رسول مبعوث کیا تا کہ ﷲ کی عبادت کرو اور طاغوت سے دوری اختیار کرو !بعض کی خدا نے ہدایت کی اور بعض کی گمرا ہی ثابت ہوئی لہٰذا روئے زمین کی سیر کرو اوردیکھو کہ تکذیب کر نے والوں کا ا نجام کیا ہوا ؟ اگر ان کی ہدایت پر اصرار کرو گے تو (جان لو کہ) خدا جسے گمراہ کر دے

____________________

(۱) مریم، ۷۶(۲)محمد۱۷(۳) عنکبوت ۶۹ (۴)نحل ۳۶، ۳۷

۱۵۲

کبھی اس کی ہدایت نہیں کرتا اورایسے لوگوں کا کوئی ناصر ومد د گار نہیں ہے۔

۳۔( فر یقاً هدیٰ و فر یقاً حقّ علیهم الضلا لة اِنّهم اتّخذ واالشیاطین أولیاء من دون ﷲ و یحسبون أنّهم مهتدون ) ( ۱ )

خدا نے بعض گروہ کی ہدایت کی اور بعض گروہ کی گمرا ہی ان پرمسلط اور ثابت ہوگئی ہے کہ ان لوگوں نے شیاطین کو خدا کی جگہ اپنا ولی قرار دیا ہے اور خیال یہ کرتے ہیں کہ ہدایت یا فتہ ہیں۔

اس طرح کی ہدایت ''مشیت الٰہی'' کے ساتھ ہدایت ہے اسکی شرح آگے بیان کی جا رہی ہے۔

ج: ہدایت یعنی مشیت الٰہی سے ایمان و عمل کی توفیق

ہد ایت؛ ایمان وعمل میں مشیت الٰہی کے اشارے پرتوفیق الٰہی کے معنی میں پر سورہ بقرہ ، نور اور یونس کی درج ذیل آیات میں اس طرح وارد ہوئی ہے:

( وﷲ یهدی من یشاء اِلیٰ صراط مستقیم ) ( ۲ )

خدا جسے چاہے راہ راست کی ہدایت کرتا ہے۔

سورۂ انعام میں آیا ہے :

( من یشأ ﷲ یضلله و من یشأ یجعله علی صراط مستقیم ) ( ۳ )

خدا جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے صراط مستقیم پر قرا ر دیتا ہے ۔

سورۂ قصص میں آیاہے:

( اِنّک لا تهدی مَن أحببت و لکنّ ﷲ یهدی مَن یشاء و هوأعلم با لمهتدین ) ( ۴ )

جسے تم چاہو اسے ہدایت نہیں کر سکتے لیکن خدا جسے چاہے اس کی ہد ایت کرتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں سے زیادہ آگاہ ہے۔

کلمات کی تشریح

۱۔''صراط مستقیم'': صراط،آشکار اور واضح راستہ،مستقیم ایسا سیدھا جس میں کوئی کجی نہ ہو۔

____________________

(۱)اعراف ۳۰(۲) بقرہ۱۴۲،۲۱۳؛نور۴۶؛یونس۲۵ .(۳)انعام ۳۹(۴)قصص ۵۶.

۱۵۳

دین کے صراط مستقیم کوخداوند سبحان نے سورۂ حمد میں اس طرح بیان کیا ہے:

( صراط الذین أنعمت علیهم غیرالمغضوب علیهم ولاالضّا لین ) ( ۱ )

ان لوگوں کی واضح اور آشکار راہ جنھیں تونے نعمت دی ہے ،نہ ان لوگوںکی جن پر تو نے اپنا غضب نازل کیا ہے اور نہ ہی گمرا ہوں کی۔

خدا وند عالم نے سورۂ مریم میں جن لوگوں پر اپنی نعمت نازل کی ہے ان کو بیان کیا ہے اور زکریا،یحییٰ، مریم اور عیسیٰ علیہم السلام کی داستان نقل کر نے کے بعد فرماتاہے :و اذکر فی الکتاب ابراہیم اس کتاب( قرآن ) میں ابراہیم کو یاد کرو واذکر فی الکتاب موسیٰ اس کتاب میں موسیٰ کو یاد کروواذکر فی الکتاب اسماعیل اس کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو اذکر فی الکتاب ادریس اس کتاب میں ادریس کو یاد کرو۔

اس کے بعد فرماتاہے :

( أولآء ک الذین أنعم ﷲ علیهم من النّبيّین من ذرّية آدم)(و ممّن هدینا و اجتبینا اِذا تتلی علیهم آیات الرحمن خرّوا سجّداً و بکّیاً ) ( ۲ )

یہ وہ انبیاء ہیں آدم کی ذریت سے، جن پر خداوند سبحان نے نعمت نازل کی ہے اور ان لوگوں میں سے جنھیں ہم نے ہدایت کی اور انتخاب کیا جب ان پرآیات الٰہی کی تلاوت ہوتی ہے تو سجدہ کرتے ہوئے اوراشک بہاتے ہوئے خاک پر گر پڑتے ہیں۔

ان لوگوں کی صراط اور راہ دین اسلام ہے اور ان کی سیرت اور روشِ زندگی اس پر عمل ،وہی جس کی لوگوں کووہ دعوت دیتے تھے۔

۲۔''مغضوب علیھم'': جن لوگوں پر غضب نازل ہوا ،اس کی مصداق صرف قوم یہود تھی جس کا خداوند متعال نے سورۂ بقرہ میں تعارف کراتے ہوئے فرمایاہے:

( وضربت علیهم الذلّة و المسکنة و باء وا بغضبٍٍ مِن ﷲ ذلک بأ نّهم کانوا یکفرون بآ یات ﷲ و یقتلون النّبيّین بغیر الحقّ ذلک بما عصوا وکانوا یعتدون ) ( ۳ )

ان کے لئے ذلت و خواری ، رسوائی اوربیچار گی معین ہوئی اور خدا کے غیظ و غضب کے مستحق قرار

____________________

(۱)سورہ فاتحہ ۷(۲)مریم ۵۸.(۳)سورہ بقرہ ۶۱.

۱۵۴

پائے اور یہ اس وجہ سے ہوا کہ وہ آیات الٰہی کا انکار کرتے تھے اور پیغمبروں کو نا روا قتل کرتے تھے اوریہ ان کی نافر مانی اور تجاوز کی وجہ سے تھا۔انھیں تعبیرات کے مانند ان کے بارے میں سورۂ آل عمران( آیت:۱۱۲) میں بھی آیاہے۔

۳۔''ولاالضالین'': ضالین؛ گمراہ افراد ، وہ تمام لوگ جو اسلام سے منحرف اوررو گرداں ہیں ، جیسا کہ سورۂ آل عمران کی ۸۵- ۹۰ ویںآیت میں صراحت کے ساتھ فرماتاہے:

( و مَن یبتغ غیر الِاسلام دیناً فلن یقبل منه)( و أولئک هم الضّالّون )

جو بھی دین اسلام کے علاوہ کسی اور دین کا انتخاب کرے تو اس سے قبول نہیں کیا جائے گا وہی گمراہ لوگ ہیں۔

۴۔''یھدی'' : ہدایت کرتا ہے، اس کی شرح''ربّ العالمین'' کی بحث میں ملاحظہ کیجیے۔

چہارم : ﷲ کی مشیت عذاب اور رحمت میں

عذاب ورحمت کے سلسلہ میں مشیت الٰہی کا بیان قرآن کریم میں چند مقا مات پر منجملہ ان کے سورہ اعراف میں ہوا ہے ،خدا وند عالم موسیٰ کی دعا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( و اکتب لنا فِی هذه الدّنیا حسنة و فِی الٔاخرة اِنّا هد نا اِلیک قال عذابِی اصیب به مَن أشاء و رحمتِی وسعت کل شیئٍ فسأ کتبها للذین یتّقون و یؤ تون الزّکاة و الذین هم بآ یا تنا یؤ منون الذین یتّبعون الر سول النّبیِ الأ میِ الذی یجد ونه مکتوباً عند هم فی التوراة و الأِنجیل یأ مر هم با لمعروف و ینها هم عن المنکر و یحلَ لهم الطیبات و یحرّم علیهم الخبائث و یضع عنهم اِصر هم و الأغلا ل التیِ کانت علیهم فالذ ین آمنوا به و عزّروه ونصروه و اتّبعوا النور الذِی أنزل معه أ ولئک هم المفلحون ) ( ۱ )

(موسیٰ نے کہا:) اور ہمارے لئے اس دنیا اور آخرت میں نیکی معین کردے ہم تیری طرف لوٹ چکے ہیں، فرمایا : اپنا عذاب جس تک چاہوں گا پہنچا دوں گا اور میری رحمت تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے اس کو ان لوگوں کے لئے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں ، زکاة دیتے ہیں اور وہ لوگ جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں مقرر کروںگا، وہ لوگ اس پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور نبی امی کا اتباع کرتے ہیں ایسا پیغمبر جس کے صفات اپنے پاس موجود توریت و انجیل میں لکھاہوا پاتے ہیں ،جوان لوگوں کو نیکی کا حکم دیتا ہے اور منکر(برائی) سے روکتا ہے ان کے لئے پا کیزہ چیزوں کو حلال کرتا ہے اور نا پاک چیزوں کو حرام کرتا ہے اور سنگین اور وزنی بار (بوجھ) نیز وہ زنجیریں جس میں وہ جکڑ ے ہوئے تھے انھیں ان سے آزاد کرتا ہے ،پس ، جو لوگ اس پرایمان لائے اوراس کی عزت و توقیر کی اور اس کی نصرت فرمائی اور اس نور کی جو اس کے ساتھ نازل ہوا اس کی پیروی کی، وہی لوگ کا میاب ہیں۔

____________________

(۱)اعراف ۱۵۶،۱۵۷

۱۵۵

سورۂ انبیاء میں فرماتا ہے:

( اِقترب للناس حسابهم و هم فی غفلة ٍ معرضون)( ما یأتیهم من ذکرٍ من ربهم محدث اِلّااستمعوه و هم یلعبون)(لا هية قلو بهم و أسرّ وا النّجویٰ الذین ظلموا هل هذا اِلّا بشر مثلکم أفتا تون السحر و أنتم تبصرون)( قال ربّیِ یعلم القول فی السماء و الأرض و هو السمیع العلیم)( بل قالو ا أضغاث أحلا مٍ ٍ بل افتراه بل هو شاعر فلیا تنا بآيةٍ کما أرسل الأوّلون)( ما آمنت قبلهم من قريةٍ أهلکنا ها أفهُم یؤمنون)( و ما أر سلنا قبلک ألّا ر جالاً نو حیِ اِلیهم فسئلوا أهل الذِّکر أن کنتم لاتعلمون)( وما جعلنا هم جسداً لا یأ کلون الطعام و ما کانوا خالد ین)( ثَّم صد قنا هم الو عد فأ نجینا هم و مَن نشائُ و أهلکنا المسر فین)( لقد أنزلنا اِلیکم کتا باً فیه ذکر کم أفلا تعقلون ) ( ۱ )

لوگوں کا یوم حساب ان سے نز دیک ہو گیا اوروہ لوگ اسی طرح غفلت اور بے خبری کے عالم میں پڑے منحرف اور رو گرداں ہیں، جب بھی ان کے ربّ کی جانب سے ان کے لئے کوئی نئی یاد دہانی ان کے پاس آتی ہے تو اسے سنکر کھلواڑ بناتے اور استہزا ء کرتے ہیں،ان کے دل لہو ولعب اور بے خبری میں مشغول ہیں اور ظالموں نے سر گوشی میں کہا : کیا یہ تمھارے جیسے انسان کے علاوہ کچھ اور ہے ؟ کیادیکھنے کے با وجود سحر و جادو کے پیچھے دوڑتے ہو؟ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہا : میرا رب زمین و آسمان کی تمام گفتگو کو جانتا ہے وہ سننے والا اور دانا ہے ، بلکہ ان لوگوں نے کہا: ( یہ سب وحی نہیں ہے) بلکہ یہ سب خوابِ پریشان کا مجموعہ ہے، یاخدا کی طرف اس کی جھوٹی نسبت دی گئی ہے، نہیں بلکہ وہ ایک شاعر ہے !اسے ہمارے لئے کوئی معجزہ پیش کر نا چاہیے جس طرح گز شتہ انبیا ء بھیجے گئے تھے ، ان سے پہلے کی آبادیوں میں سے جن کو ہم نے نابود کر دیا ہے کوئی بھی ایمان نہیں لایا آیا یہ لوگ ایمان لائیں گے ؟ ہم نے تم سے پہلے ،جز ان مردوںکے جن پر ہم نے وحی کی کسی کو نہیں بھیجا ، پس تم لوگ اگر نہیں جانتے توجاننے والوں سے دریافت کر لو ۔ہم نے پیغمبروں کو ایسے اجسام میں قرار نہیں دیا ،جنہیںغذا کی ضرورت نہ ہو ، وہ لوگ عمر جاوداں بھی نہیں رکھتے تھے! پھر ہم نے ان سے جو وعدہ کیا تھااسے سچ کر دکھایا ،پس ان کو اور جنھیں ہم نے چاہا نجات دی اور زیادتی کرنے وا لوں کو ہلاک کر ڈالا ، ہم نے تم پر ایک کتاب نازل کی جس میں تمہاری یاد آوری اور بلندی کا سر مایہ ہے کیاتم درک نہیں کرتے ؟

____________________

(۱)انبیاء ۱۔۱۰

۱۵۶

سورۂ اسراء میں فرمایا :

( من کان یر ید العا جلة عجّلنا له فیها ما نشاء لمن نر ید ثمّ جعلنا له جهنم یصلا ها مذمو ماً مد حو راً ) ( و من اراد الآخر ة و سعی لها سعیها و هو مؤمن فاولائک کان سعیهم مشکورا ً ) کلا نمد هو لا ء هولائِ من عطا ء ر بّک و ما کان عطائُ ربک محظورا ً ) ( ۱ )

جو شخص زود گزر دنیا کی زند گی چاہے، تو ہم جو چا ہیں گے جسے چاہیں گے اس دنیا میں اسے دیدیں گے ،پھر جہنم اس کے لئے معین کریں گے تا کہ مردود بار گاہ اور راندہ درگاہ ہوکر اس کا جز ء لازم ہو جا ئے اور جو کوئی آخرت کاطلب گار ہو اوراس کے لئے کوشاں ر ہے، درانحالیکہ مومن ہو ،اس کی کوشش و تلاش کی جزا دی جائے گی ، ان دو گروہوں میں سے ہر ایک گروہ کی امداد کریں گے ،یہ تمہارے پر وردگار کی عطا ہے اور تمہارے رب کی عطاکسی پر بند نہیںہے ۔

سورۂ انسان میں فرماتا ہے:

( انَّ هٰئو لا ئِ يُحبّون العا جلة و یذ رون وراء هم یوما ً ثقیلا ً انََّ هذ ه تذ کرة فمن شائَ اتّخذ الیٰ ربّه سبیلا ً و ما تشا ء ون اِلّا أن یشاء ﷲ اِنَّ ﷲ کان علیما ً حکیما ید خل من یشاء فی رحمته والظا لمین أعدّ لهم عذا باً ألیماً ) ( ۲ )

یہ لوگ دنیا کی زود گزر زند گی چاہتے ہیں اور سخت دن کو پس پشت ڈال دیتے ہیں، یہ ایک یاد آوری ہے، پس جو چاہے اپنے رب کی طرف ایک راہ انتخاب کرے اور تم لوگ وہی چاہتے ہو جو خداچاہتا ہے ،خدا دانا اور حکیم ہے ،وہ جس کو چا ہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کر لیتا ہے اور اس نے ستمگروں کے لئے درد ناک عذاب مہیا کر رکھا ہے۔یہ'' رب العا لمین ''کے'' ارادہ'' اور ''مشیت'' کے معنی تھے،خدا وند متعال کے جملہ صفات میں سے ایک یہ ہے کہ جس چیز کو چاہتا ہے'' محو یا اثبات'' کرتا ہے اس کے معنی انشاء ﷲآئندہ بحث میں بیان کریں گے۔

____________________

(۱)اسراء ۱۸تا۲۰.

(۲)انسان۲۷تا۳۱.

۱۵۷

۶

بدا یا محو و اثبات

الف:۔ بداء کے معنی

ب:۔بداء ؛ اسلامی عقا ئد کے علماء کی اصطلاح میں

ج:۔بداء ؛ قرآن کریم کی رو شنی میں

د:۔ بداء سے متعلق مکتب خلفاء کی روایات

ھ:۔ بداء کے بارے میں ا ئمۂ اہل یبت کی روایات

اوّل: بداء کے لغوی معنی

بداء کے لغت میں دو معنی ہیں:

۱۔''بَدَأَ الْاَمْرُ بُدُوًّاو بَدَاْئً'' :یعنی یہ مو ضوع واضح و آشکار ہوا ، لہٰذا بداء کے ایک معنی آشکار اور واضح ہو نے کے ہیں۔

۲ ۔''بَدَاَ لَهُ فیِ اْلَاَمْرُ کَذَاْ '' : اس مو ضوع میں اس کے لئے ایسی رائے پیدا ہوئی، ایک نیا نظریہ ظاہرہوا۔

دوم: اسلامی عقائد کے علماء کی اصطلاح میں بداء کے معنی

اسلامی عقائد کے علماء نے کہا ہے :بداء خدا وند عالم کے بارے میں کسی ایسی چیز کا آشکار کرنا ہے ،جو بندوں پر مخفی ہو لیکن اس کا ظہور ان کے لئے ایک نئی بات ہو، اس بنا پر ، جن لوگوں کا خیال ہے کہ بداء سے مراد خدا کے بارے میں یہ ہے کہ حق تعا لیٰ کے لئے بھی مخلوقات کی طرح ایک نیا خیال اور ایک نئی رائے (اس کے علاوہ جو بداء سے پہلے تھی )پیدا ہوئی تو، وہ حددرجہ غلط فہمی کا شکار ہیں، سچ مچ خدا وند عالم اس سے کہیں زیادہ بلند و بر تر ہے جو وہ خیال کرتے ہیں۔

سوم: بداء قرآن کریم کی رو شنی میں

الف؛ خدا وند متعال سورہ رعد کی ۷ ویں اور ۲۷ ویں آیت میں فرماتا ہے :

( و یقول الذین کفروا لولا أنزل علیه آية من ربّه )

۱۵۸

اورجنھوں نے کفر اختیار کیا وہ کہتے ہیں : کیوں (ہماری پسند سے) کوئی آیت یا معجزہ اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل نہیں ہوا؟

ب : پھر اسی سورہ کی۳۸ویں تا۴۰ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( و ما کان لرسولٍ ٍ اِن یأتی باية اِلّابِأِذن ﷲ لکلّ أجل کتاب)( یمحو ﷲ ما یشاء و یثبت و عنده ام الکتاب)(و اِن ما نر ینّک بعض الذی نعد هم أو نتو فّینّک فاِنّما علیک البلاغ و علینا الحساب )

کسی پیغمبر کے لئے سزاوار نہیں ہے کہ اذن خدا وندی کے بغیر کوئی آیت یا معجزہ پیش کر دے ہر مدت اور زمانہ کے لئے ایک سر نوشت (نوشتہ مقرر)ہے، خدا جسے چاہتا ہے محو و نابود کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اپنی جگہ پر ثابت اورباقی رکھتا ہے اور ام الکتاب (لوح محفوظ)اس کے پاس ہے، اگر اس کا کچھ حصّہ جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے تمھیں دکھا دیں یا تمھیں ( وقت معین سے قبل) موت دیدیں، بہر صورت جو کچھ تمہاری ذمہ داری ہے وہ تبلیغ و پیغام ر سا نی ہے اور ( ان کا) حساب ہم پرہے۔

کلمات کی تشریح

۱۔''آےة'': آیت؛ لغت میں واضح و آشکار نشا نی اور علامت کوکہتے ہیں جیسا کہ اس شاعر نے کہا ہے:

وفی کلّ شیئٍ له آية :: تد ل علیٰ انّه واحد

اور ہر چیز میں اس کے وجود کی واضح و آشکارنشانی ہے جواس کے واحد اور یکتا ہو نے پر دلا لت کرتی ہے۔

انبیاء کے معجز ات کو آیت اس لئے کہتے ہیں کہ وہ ان کے صدق کی علامت اور قدرت الٰہی پر ایک دلیل ہے، وہی پرور دگارجس نے اس طرح کے معجزات پیش کر نے کی انہیںطاقت دی ہے جیسے مو سیٰ کا عصا اور جناب صالح کا ناقہ ،جیسا کہ سورۂ شعرا کی ۷۶ ویں اور اعراف کی ۷۳ ویں آیات میں بیان ہوا ہے۔

اسی طرح قرآن کریم نے انواع عذاب کو جسے خداوندسبحان نے کا فرامتوں پر نازل کیا آیت کا نام دیا ہے ،جیسا کہ سورۂ شعراء میں قوم نوح کے متعلق فرماتا ہے:

( ثمّ أغرقنابعد البا قین ، اِنّ فی ذلک لآ یة ً ) ( ۱ )

____________________

(۱)شعرائ ۱۲۰، ۱۲۱

۱۵۹

پھر ہم نے باقی رہ جانے والوں کو غرق کر دیا یقینااس میں علامت اور نشانی ہے۔

اور قوم ہود کے بارے میں فر ماتا ہے:

( فکذّ بوه فأهلکنا هم انَّ فی ذالک لَآ ية ) ً)( ۱ )

ان لوگوں نے اپنے پیغمبر(ہود) کی تکذ یب کی، ہم نے بھی انھیں نابود کر دیا، بیشک اس میں (عقلمندوں کے لئے )ایک آیت اور نشانی ہے۔ اور سورۂ اعراف میں قوم فرعون کے بارے میں ارشاد ہوا:

( فأ رسلنا علیهم الطوفان والجراد والقمل والضَّفا دع والدَّ م آیاتٍ مفصَّلات ) ( ۲ )

پھر ہم نے طوفان ،ٹڈ یاں ، جوں ،منیڈ ھک، کھٹمل اور خون کی صورت میں ان پر عذاب نازل کیا کہ ہر ایک جدا جداآیات اور نشانیاں تھیں۔

۲۔''اجل'': محدود مدت ، وقت، زمانہ، سر انجام،خاتمہ، انتہا۔

یہ جو کہا جاتاہے کہ فلاں کی اجل آ گئی یعنی مر گیااور اس کی مدت حیات تمام ہو گئی اور یہ جو کہا جاتا ہے: اس کے لئے ایک اجل (مدت) معین کی گئی ہے ،یعنی اس کے لئے ایک محدود وقت قرار دیاگیا ہے۔

۳۔'' کتاب'': کتاب کے مختلف اور متعد د معانی ہیں، لیکن یہاں پر اس سے مراد لکھی ہوئی مقداریا معین و مشخص مقدارہے،جیسے ''لکلّ أجل کتاب'' کے معنی، جو آیت میں مذکور ہیں، یہ ہیں کہ معجزہ پیش کر نے کا زمانہ پیغمبر کے ذریعہ پہلے سے معین ہے، یعنی ہرایک زمانہ کی ایک معین سر نو شت ہے ۔

۴۔''یمحو'': محو کرتا ہے، زائل کرتا ہے،مٹاتا ہے، محو لغت میں باطل کرنے اور نابود کرنے کے معنی میں ہے،جیسا کہ خدا وند عالم سورۂ اسراء کی ۱۲ ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

( فمحونا آية اللیل وجعلنا آية النهار مبصرة )

پھر ہم نے شب کی علامت کو مٹا دیا اور دن کی علامت کو روشنی بخش قرار دیا۔

اور سورۂ شوریٰ کی ۲۴ ویں آیت میں فرماتا ہے:

( ویمح ﷲ الباطل و یحق الحق بکلماته )

____________________

(۱) شعراء ۱۳۹(۲)اعراف ۱۳۳

۱۶۰

خدا وند عالم باطل کو محو ونابود اور حق کو اپنے فرمان سے ثا بت و استوار رکھتا ہے،یعنی باطل کے آثار کو مٹا دیتا ہے۔

آیات کی تفسیر

خدا وند سبحان ان آیات میں فرماتا ہے :کفار قریش نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے درخواست کی کہ ان کے لئے معجزات پیش کریں خدا وند عالم نے ان کی نوع درخواست کو بھی سورۂ اسراء میں بیان کرتے ہوئے فرمایا:

( و قالوا لن نؤمن لک حتیٰ تفجر لنا من الأرض ینبوعاً)( أو تُسقط السماء کما زعمت علینا کسفا ً أو تأتی بﷲ و الملا ئکة قبیلا ً ) ( ۱ )

اورانھوں نے کہا: ہم اس وقت تک ہرگز تم پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ تم اس سر زمین سے جوش مارتا چشمہ نہ جاری کردو یا آسمان کے ٹکڑے (جیسا کہ خیال کرتے ہو) ہمارے سر پر نازل کر دو، یا خدا اور فرشتوں کو ہمارے سامنے حاضرلے آؤ۔

سورۂ رعد کی ۳۸ ویں آیت میں فرماتا ہے:

(و ما کان لرسولٍ أن یأتی بآےة)

کوئی پیغمبر حق نہیں رکھتا کہ جو معجزہ اس سے طلب کیا گیا ہے پیش کر ے''الا باذن ﷲ'' مگر خدا کے اذن سے، کیو نکہ ہر کام کے لئے جو مکتوب الٰہی میں مقدر ہے ایک خاص وقت اور زمانہ ہو تا ہے۔

خدا وند عالم بعد کی آیت میں بغیر فا صلہ کے، نوشتہ ٔ تقدیر کے استثناء کو بیان کرتے ہو ئے فرماتا ہے: (یمحو ﷲ ما یشائ)خدا جو چاہتا ہے محو کر دیتا ہے، یعنی خدا کا ہاتھ بندھا ہوا (مجبور) نہیں ہے وہ جب چاہے

رزق ، اجل ،سعادت اور شقاوت اس مکتوب مقدر(نوشتۂ تقدیر) میں بد ل دیتا ہے،و یثبت ما یشائ'' اور (مکتوبات میں سے ) جس کو چاہتا ہے ثابت اور باقی رکھتا ہے ، کیو نکہ'' وعندہ أمّ الکتاب''، اصل کتاب تقدیر و سر نو شت یعنی ''لوح محفوظ'' جس میں کسی قسم کی تبدیلی اور تغییر نہیں ہے وہ خدا کے پاس ہے۔

اسی وجہ سے اس کے بعد فرماتا ہے:

( واِن ما نرینّک بعض الذی نعد هم )

____________________

(۱)اسراء ۹۰، ۹۲

۱۶۱

اور اگر کچھ ایسے عذاب جن کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے تمھیں (زمان حیات میں ) دکھادیں ''او نتوفینک'' یا تمہیں(اس سے پہلے) موت دے دیں '' فانما علیک البلا غ'' ہر حال میں تم صرف ابلاغ کرنے والے ہو اور بس۔

اس آیت کی تفسیر میں طبری، قر طبی اور ابن کثیر نے ایک روایت ذکر کی ہے جو ہمارے مدعیٰ کی تائید کرتی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:دوسرے خلیفہ عمر ابن خطاب نے خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے کہا:

''اللّهمّ اِن کنت کتبتنِی فِی أهل السعادة فا ثبتنِی فیها و اِن کنت کتبتنیِ فی أهل الشقا وة و الذنب فا محنِی و اثبتنیِ فِی أهل السعادة و المغفرة فاِنّک تمحو ما تشاء و تثبت وعندک أم ّالکتاب''

خدایا !اگر تو نے مجھے سعادت مندوں کے زمر ہ میں قرار دیا ہے تو ان کے درمیان مجھے استوار کر دے اور اگر بد بختوں کے زمرہ میں مجھے قرار دیا ہے تو اشقیاء کی صف سے نکال کر سعیدوں کی صف میں شا مل کر دے کیونکہ تو جو چاہتاہے محو کر دیتاہے اور جو چاہتاہے ثابت اور قائم رکھتا ہے اور اصل کتاب تیرے پاس ہے۔

''ابی وائل'' کا قول ذکر کیا جاتاہے وہ بارہا کہتاتھا:

''اللّھمّ اِن کنت کتبتنا أشقیاء فا مح وا کتبنا سعدائ،واِن کنت کتبتنا سعداء فاثبتنا فاِ نک تمحو ما تشاء و تثبت و عندک أمّ الکتاب''

خدایا! اگر تو نے ہمیں بد بختوں کے زمرہ میں قرار دیا ہے تو ان کے درمیان سے ہمارا نام مٹا کر نیک بختوں کے زمرہ میں درج کر دے اور اگر نیک بختوں کے زمرہ میں قرار دیا ہے تواس پر ہمیں ثا بت رکھ کیونکہ تو جو چاہے محو کر دے اور جو چاہے ثابت اور باقی رکھے اور اصلی کتاب تیرے ہی پاس ہے۔( ۱ )

بحار الانوار میں مذکور ہے:

(و اِن کنت من الأ شقیا ء فا محنیِ من الأ شقیاء واکتبنیِ من السعداء فأنّک قلت فِی کتا بک المنزّل علیٰ نبیک صلوا تک علیه و أ له یمحو ﷲ ما یشاء و یثبت و عنده أٔم الکتاب )( ۲ )

____________________

(۱) دونوں ہی حدیث طبری نے آیت کی تفسیر کے ذیل میں ذکر کی ہے ،ابو وائل شقیق ابن سلمہ کو فی ہے، اس کے حا لا ت زندگی تہذیب التہذیب ،ج ۱۰،ص۳۵۴ پر اس طرح ہیں : وہ ثقہ ہے اور مخضرم: (جاہلیت اور اسلام) دونوں ہی کو درک کیا) ہے صحابہ اور تابعین کے زمانے میں مو جود تھا اور عمر بن عبد العزیز کی خلافت کے زمانے میں سو سا ل کی زندگی میں دار فانی کو وداع کیا۔

(۲)بحار الانوار ج۹۸،ص۱۶۲

۱۶۲

اور اگر میں بدبخت اور شقی ہوں تو ان کے زمرہ سے مٹا کر نیک بختوں کے زمرہ میں شامل کر دے ، کیونکہ تو نے ہی اپنی اس کتاب میں جسے تو نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل کی ہے فرما یا ہے :خدا جو چاہتا ہے بر قرار رکھتا ہے اور جو چاہتاہے محو اورزائل کر دیتا ہے اور اصل کتاب اسی کے پاس ہے۔

قر طبی نے بھی اس روایت کے ذیل میں جو اس نے صحیح بخاری اور مسلم سے نقل کی ہے ، اس معنی پر استدلال کیا ہے ۔

روایت کہتی ہے :رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''من سرّه أن یبسط له فیِ رزقه و يُنسَأ له فیِ أثر ه (اجله) فلیصل رَحِمَه'' ( ۱ )

جو شخص وسعت رزق اور عمر کی زیاد تی سے خو شنود و شاد ہوناچاہتا ہے،اسے چاہئے کہ اپنے اقرباء و اعزاء کے ساتھ نیکی کرے۔

ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ ان سے کسی سائل نے یہ سوال کیا : عمر اور اجل میں کس طرح زیادتی اور اضا فہ ہو تا ہے؟ ا نھوںنے کہا: خدا وند عزو جل نے فرمایا ہے:

( هو الذیِ خلقکم من طینٍ ثَّم قضیٰ أجلا ً و أجل مسمّی عنده )

وہ ذات جس نے تمھیں مٹی سے خلق کیا پھر ایک مدت معین کی، لیکن یقینی اجل (مدت) اسی کے پاس ہے۔( ۲ )

ابن عباس نے کہا : آیت میں پہلی اجل (موت) بندہ کی اجل ہے پیدائش سے موت تک اور دوسری اجل یعنی جو خدا کے پاس ہے۔موت کے بعد سے قیامت تک ہے جو کہ برزخ میں گزارتاہے اور کوئی خدا کے علاوہ اسے نہیں جانتا ، اگر کوئی بندہ خدا سے خوف کھائے اور''صلہ رحم'' بجا لائے تو خدا اس کی بر زخی عمر کو کم کرتا ہے اور پہلی عمر میں اضا فہ کر دیتاہے اور اگر نافرمانی کر ے اور قطع رحم ( رشتہ داری ختم کر ے) کرے تو خدااس کی دنیا وی عمر کم کر کے بر زخی عمرمیں اضا فہ کر دیتا ہے۔،،( ۳ )

ابن کثیر نے اس استد لال میں اضافہ کر تے ہو ئے ایک بات کہی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے: یہ بات اس روایت سے جو احمد ، نسائی اور ابن ماجہ نے بیان کیا ہے ہم آہنگ ہے، ان لوگوں نے ذکر کیا ہے کہ رسول

____________________

(۱)صحیح بخاری ،ج۳، ص ۳۴ کتاب الادب، باب ۱۲،۱۳ اور صحیح مسلم ، ص ۱۹۸۲، حدیث ۲۰ ۲۱،صلہ رحم کے باب سے اور مسند احمد ، ج ۳، ص ۲۴۷ ،۲۶۶ ج،۵، ص ۷۶.

(۲)انعام۲.

(۳)تفسیر قر طبی ، ج۹،ص ۳۲۹، ۳۳۱.

۱۶۳

خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

(اِنَّ الرجل لیحرم الرزق با لذنب یصیبه و لایردّ القدر اِلّا الد عاء و لا یز ید فی العمر اِلّا البرّ )( ۱ )

انسان کبھی گناہ کے باعث روزی سے محروم ہو جاتا ہے اور اس بلا و سر نوشت کو دعا کے علاوہ کوئی اور چیز ٹال نہیں سکتی اور نیکی کے علاوہ کوئی چیزاس کی عمر میں اضا فہ نہیں کر سکتی۔

دوسری حدیث میں ارشاد ہوا:

''انَّ الدعاء و القضا ء لیعتلجان بین السماء و ألارض'' ( ۲ )

دعا اور سر نو شت آسمان و زمین کے ما بین آپس میں مبا رزہ کر تی ہیں۔

جو ہم نے ذکر کیا ہے اس آیت کے معنی کے ذیل میں بیان کئے گئے رخوں میں سے ایک تھا، دیگر وجوہات بھی آیت کے معنی کے ذیل میں لوگوں نے بیان کی ہیں ، جیسے یہ بات :''محوو اثبات'' سے مراد آیت میں کسی حکم کامحو کرنا اور دوسرے حکم کا اثبات ہے ، یعنی احکام شر یعت کا نسخ کرنا اورزیادہ صحیح اور درست یہ ہے کہ ہم کہیں: مقصود آیت سب کو شامل ہے ، جیسا کہ قرطبی نے بھی اسی نظریہ کو انتخاب کر تے ہوئے کہا ہے:

'' یہ آیت عام ہے اور ہرچیز کو شامل ہے اور یہ اظہر ہے اور خدا زیادہ جاننے والا ہے''( ۳ )

طبری اور سیو طی نے ابن عباس سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اس آیت:

( یمحو ﷲ ما یشا ء ویثبت و عنده ام الکتاب )

کے سلسلہ میں کہا ہے کہ خدا ہر سال کے امور کو شب قدر میں معین فرماتا ہے سوائے نیک بختی اور بد بختی کے...( ۴ )

ب:۔ خدا وند سبحان سورۂ یو نس میں فرماتا ہے:

( فلولاکانت قر ية آمنت فنفعها اِیما نها اِلّاقوم یونس لمّاآمنوا کشفنا عنهم عذاب الخزیِ فیِ الحيٰوة الدُّ نیا ومتَّعنا هم اِلیٰ حینٍ ) ( ۵ )

کیوں شہر و آبادی کے لوگوں میں کسی نے ایمان قبول نہیںکیا تا کہ انھیں ان کا ایمان فائدہ پہنچائے جز یونس کی قوم کے کہ جب وہ ایمان لائی،تو دنیا وی زندگی میں ذلت وخواری کا عذاب ان سے ہٹا لیا اور ایک مدت تک انھیں فیضیا ب کیا ۔

____________________

(۱)مقدمہ سنن ابن ماجہ ، باب ۱۰، حدیث ۹۰.(۲) تفسیر ابن کثیر، ج،۲،ص۵۱۹.(۴) تفسیر قرطبی،ج،۲،ص۳۲۹.(۵)تفسیر طبری،ج ۱۳،ص۱۱۱ و تفسیر سیو طی،ج،۴،ص۶۵عبارت طبری کی ہے.

۱۶۴

کلمات کی تشریح

۱۔''کشفنا'': ہم نے زائل کیا ،مٹا دیااور اٹھا لیا۔

۲۔''خزیِ'': خواری،ذلت ورسوائی۔

۳۔''حین'': نا معلوم وقت اور زمانہ جس کی کمی و زیادتی معلوم اور معین نہیں ہے۔

آیت کی تفسیر

تفسیر طبری،قرطبی اور مجمع البیان میں مذ کور داستان کے مطا بق حضرت یو نس کی داستان کا خلاصہ یوں ہے:

یونس کی قوم موصل کی سر زمین نینوا میں زندگی گز ار رہی تھی اور بتوں کی پوجا کر تی تھی ، خدا وند عالم نے یونس کو ان کی طرف بھیجا تا کہ انھیں اسلام کی دعوت دیں اور بت پر ستی سے روکیں ، انھوں نے انکار کیا۔ ان میں سے دو آدمی ایک عا بد اور ایک عالم نے حضرت یو نس کی پیر وی کی، عابد نے حضرت یو نس سے درخواست کی کہ اس قوم کے خلاف نفر ین و بد دعا کریں لیکن عالم نے انھیں منع کیا اور کہا : ان پر نفرین نہ کریں، کیو نکہ خدا آپ کی دعا توقبو ل کرلے گا لیکن اپنے بندوں کی ہلاکت پسند نہیں کرے گا ! یونس نے عابد کی بات مان لی اور نفرین کر دی ،خدانے فرمایا فلاں دن عذاب نازل ہو گا ،یونس نے انھیں اس کی خبر دی، جب عذاب کا وقت قریب آگیا تو یو نس اس عابد کے ساتھ باہر نکل گئے لیکن وہ عالم ان کے درمیان موجود رہا، قوم یو نس نے اپنے آپ سے کہا:ہم نے اب تک یو نس سے کوئی جھوٹ نہیں دیکھا ، ہو شیار رہو اگر وہ آج رات تمہا رے درمیان رہے تو پھر کوئی عذاب نہیں ہے لیکن اگر باہر نکل گئے تو یقین کرو کہ کل صبح تم پر عذاب آنا یقینی ہے ،جب آدھی رات ہوئی تو یو نس ان کے درمیا ن سے ا علانیہ نکل گئے، جب ان لو گوں نے یہ جان لیا اور عذاب کے آثار مشاہدہ کئے اور اپنی ہلا کت کا یقین کر لیا تو اس عالم کے پاس گئے اس نے ان لوگوں سے کہا : خدا کی بارگاہ میں گر یہ و زاری کرو وہ تم پر رحم کر ے گا اور تم سے عذاب کو دور کر دے گا بیا بان کی طرف نکل جاؤ عورتوں بچوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دواور حیوا نوںاوران کے بچوںکے درمیا ن جدائی پیدا کر دو پھر دعا کرو اور گر یہ کرو ۔

۱۶۵

ان لوگوں نے ایسا ہی کیا عورتوں بچوں اور چو پا یوں کے ہمرا ہ صحرا کی طرف نکل پڑے، لباس پشمی پہنااور ایمان و تو بہ کا اظہار کیا اور اپنی نیت کو خالص کیا اور تمام مائوںکے خواہ (انسانوں کی ہوں یا حیوا نات )کی اور ان کے بچوں کے درمیان جدائی پیدا کر دی پھر گریہ و زاری ، نالہ و فریاد میں مشغول ہوگئے جب آوا زیںغم و اندوہ میں ڈوب گئیں اورفریادیںگونج گئیں تو نالہ و اندوہ کے ساتھ خدا کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے : خدا یا جو کچھ یو نس نے پیش کیا ہے ہم اس پر ایمان لائے تو خدا نے انھیں بخش دیا اوران کے گناہ معاف کرکے ان کی دعا قبول کر لی اور ان کے سر وں پر سایہ فگن عذاب کو ان سے بر طرف کر دیا...۔

خدا وند عالم نے قوم یو نس سے عذاب کو اس طرح ان کے تو بہ کر نے کے بعدبر طرف کر دیا، ہاں ، خدا جو چا ہتا ہے محو کر تا یا اسے بر قرار رکھتا ہے۔

ج: خدا وند سبحان سورۂ اعرا ف میں فرماتا ہے:

( ووأعد نا موسی ثلا ثین لیلةً و أتممنا ها بعشر ٍ فتمَّ میقات ربّه أر بعین لیلةً ) ( ۱ )

اور ہم نے مو سیٰ کے ساتھ ۳۰ رات کا وعدہ کیا اور اسے دیگر ۱۰ شب سے مکمل کیا یہاں تک ان کے رب کا وعدہ چا لیس شب میں تمام ہو گیا۔

سورہ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے۔

( واِذا وأعد نا مو سیٰ أر بعین لیلة ثُمَّ اتّخذ تم العجل من بعده و أنتم ظا لمون )

اورجب ہم نے موسیٰ کے ساتھ چالیس شب کا وعد ہ کیا اور تم نے اس کے بعد جب کہ ظالم و ستمگر تھے،گو سا لہ تیارکرلیا۔( ۲ )

____________________

(۱)اعراف۱۴۲.

(۲)بقرہ:۵۱.

۱۶۶

چہارم : بداء مکتب خلفا ء کی روایات میں

طیا لسی، احمد ، ابن سعد اور تر مذی ایک روایت نقل کر تے ہیں جس کا خلاصہ طیا لسی کی عبارت میں یوں ہے:

''قال رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلی ﷲ علیه وآله وسلم:انَّ ﷲ أریٰ آدم ذر يَّته فرأ یٰ رجلا ً أز هرسا طعاًنو ره، قال: یا ربّ من هذا؟ قال : هذا ابنک داود! قال : یا ربّ فما عمره ؟ قال: ستوّن سنة! قال: یا ربِّ زد فی عمرهِ! قال : لا .اِلّا تزیده من عمر ک ! قال وما عمری ؟ قال: ألف سنة! قال آدم! فقد و هبتُ له أر بعین سنة من عمری فلمَّاحضرهُ الموتُ و جا ئَ ته الملا ئکةُ قال : قد بقِی من عمریِ أربعون سنة، قٰا لُوا اِنّک قد وهبتهالد اود''

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فر مایا : خدا وند عالم نے آدم کو ا ن کی نسل دکھا ئی ، تو آدم نے ان کے درمیان ایک نو رانی صورت مرد کو دیکھا ، عرض کیا: خدا یا : یہ کون ہے؟ فر مایا: یہ تمہارے فر زند داؤد ہیں! عرض کیا: خدا یا ! اس کی عمر کتنی ہے ؟ فر مایا: ساٹھ سال! آدم نے کہا : پالنے والے! میرے اس فرزند کی عمر میں اضافہ فرما ! ارشاد قدرت ہوا: نہیں ، مگر یہ کہ تم خود اپنی عمر سے اس کی عمر میں اضافہ کردو ، دریافت کیا : پالنے والے ! میری عمر کتنی ہے ؟ فرمایا :ہزار سال ، آدم نے کہا : میں نے اپنی عمر کے چالیس سال اسے بخش دیئے چنانچہ جب ان کی وفات کا زمانہ قر یب آیا اور فرشتے روح قبض کر نے کے لئے ان کے سر ہانے آئے تو انھوں نے کہا : ابھی تو میر ی عمر کے چالیس سال باقی ہیں ! انھوں نے کہا : آپ نے خود ہی اسے داؤد کو بخش دیا ہے۔( ۱ ) یہ روایت اور اس کے علاوہ ، '' صلہ رحم'' کے آثار کے بارے میں اور اس کے مانند ہم نے مکتب خلفاء کی روایات سے جو کچھ پیش کیا ہے وہ سب'' یمحوﷲ ما یشا ء و یثبت وعندہ ام الکتاب''کے مصادیق میں سے ہے ، ائمہ اہل بیت نے'' محوو اثبا ت'' کو بداء کے نام سے ذکرکیاہے کہ انشاء ﷲ پانچویں حصّہ میں اس کی تحقیق اور بر رسی کر یں گے۔

پنجم: بداء ائمہ اہل بیت کی روایات میں

بحار میں حضرت امام جعفر صادق سے ذکر کیا ہے کہ آپ نے فرمایا :

''ما بعث ﷲ عزَّ وجل نبیا ً حتیٰ یأ خذ علیه ثلاث خصا لٍ: الا قرارُ با لعبو دية، و خلع الأنداد، و انَّ ﷲ یقدم ما یشا ء و یؤخرما یشائ ''( ۲ ) خدا وند عالم نے کسی پیغمبر کو اس وقت تک مبعوث نہیں کیا جب تک کہ اس سے تین چیزوں کا مطا لبہ نہیں کیا: خدا کی بند گی کا اقرار ،اس کے لئے ہر طرح کے شریک اور ہمتا کی نفی اور یہ کہ خدا جسے چاہے مقدم کر دے

____________________

(۱)مسندطیالسی ص۳۵۰ح۲۶۹۲؛مسند احمد ج۱ ،ص ۲۵۱،۲۹۸،۳۷۱؛طبقات ا بن سعد چاپ یورپ، ج۱، پہلا حصہ ص۷تا۹؛ سنن ترمذی،ج۱۱، ص۱۹۶ ۱۹۷ ؛ سورئہ اعراف کی تفسیر میں ۔ اور علامہ مجلسی نے تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ اس روایت کو بحار الانوار ج۴ ص ۱۰۲ ،۱۰۳ میں درج کیا ہے۔ (۲)بحارج۴،ص۱۰۸، بہ نقل از توحید صدوق.

۱۶۷

اور جسے چاہے مو ٔ خر کر دے۔

امام جعفر صادق نے اس معنی کو ایک دوسرے بیان میں لفظ''محوو اثبات'' کے ذریعہ ذکر کرتے ہو ئے فرمایا ہے۔

''ما بعث ﷲ نبیا ً قط حتیٰ یأ خذ علیه ثلا ثا ً: ِالا قرارُ با لعبودية ،و خلع الٔا ند اد، و انَّ ﷲ یمحو ما یشا ئُ و یثبت ما یشائُ'' ( ۱ )

خدا وند عالم نے کسی نبی کو مبعوث نہیں کیا مگر یہ کہ اس سے تین چیزوں کا مطا لبہ کیا : خدا کی عبو دیت کا اقرار ، خدا کے لئے کسی کو شریک اور ہمتا قرار نہ دینا اور یہ کہ جو چاہے محو کر دے اور جو چاہے باقی ر کھے۔

ایک تیسری روایت میں (محو و اثبات ) کو بدا ء کا نام دیا ہے جس کا خلاصہ یوں ہے:

'' ما تنبَّأنبیّ قط حتیٰ يُقِرَّلله تعا لی با لبدائ ''( ۲ )

کسی پیغمبر نے کبھی پیغمبری کا لباس نہیں پہنا مگر یہ کہ خدا وندمتعال کے لئے ان امور کا اعتراف کیا ہوانہی اعترافات میں بداء کااعتراف ہے ۔

امام رضا سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا :

'' ما بعث نبیا قط اِلّا بتحر یم الخمر و اَن یقرّ له با لبدائ'' ( ۳ )

خدا وند متعال نے کبھی کسی پیغمبر کو مبعوث نہیں کیا مگر یہ کہ شراب کی حر مت کے ساتھ اوریہ کہ بداء (محو و اثبات) کا خدا کے حق میں اعتراف کرے۔

دوسری روایت میں حضرت امام جعفر صادق نے محوو اثبات کے زمانہ کی بھی خبر دیتے ہو ئے فرمایا:

'' اِذا کان لیلة القدر نز لت الملا ئکة و الرّ وح و الکتبة الیٰ سما ء الدُنیا فیکتبون ما یکون من قضا ء ﷲ تعا لیٰ فی تلک السنة فاِ ذا أراد ﷲ أن يْقدِّم شیئا ً أو یؤخرأو ینقص شیئاً أمر الملک أن یمحو ما یشا ئُ ثُمّ أثبت الذی أراد''

جب شب قدر ہو تی ہے تو فر شتے، روح اور کاتب قضاء وقدر آسمان دنیا کی طرف نازل ہو تے ہیں اور جو کچھ اس سال خدا وند عالم نے مقرر فرمایا ہے اسے لکھتے ہیں ، اگر کسی چیز کو خدا مقدم یا مو خر یا کم کر نا چاہتا ہے

____________________

(۱)بحارج۴،ص۱۰۸، بہ نقل از توحید صدوق

(۲)بحارج۴،ص۱۰۸، بہ نقل از توحید صدوق

(۳)بحارج۴،ص۱۰۸، بہ نقل از توحید صدوق

۱۶۸

تو مامور فر شتے کو حکم دیتا ہے کہ اسے اسی طرح جیسے چاہتا ہے محو ونابود کرے یا ثابت و برقرار ر کھے۔( ۱ )

حضرت امام باقر ـنے بھی ایک دوسرے بیان میں اس کی خبر دی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے :

'' تَنز ل فیها الملا ئکة و الکتبة اِلی السماء فیکتبون ما هو کائن فی أمرالسّنه و ما یصیب العباد فیها، قال: و أمر مو قوف لله تعا لیٰ فیه المشیئة يُقد م منه ما یشا ئُ و ئو خر ما یشائُ و هو قو له تعا لیٰ : یمحو ﷲ ما یشاء ویثبتُ وعنده أم الکتاب'' ( ۲ )

شب قدر میں فرشتے اور کاتب قضاء وقدر آسمان دنیا کی طرف آتے ہیں اور جو کچھ اس سال ہو نے والا ہے اور جو کچھ اس سال بندہ کو پہنچنے والا ہے ، سب کچھ لکھ لیتے ہیں ، فرمایا : اورکچھ ایسے امور ہیں جن کا تعلق مشیت خدا وندی سے ہے جسے چاہے مقدم کر دے اور جسے چاہے موخر کر دے ،یہی خدا وند متعال کے کلام کے معنی ہیں کہ فرماتا ہے:

( یمحوا ﷲ ما یشاء و یثبت و عنده أم الکتاب ) ( ۳ )

حضرت امام باقر ـ نے دوسری حدیث میں اس آیت:( و لن یؤخر ﷲ نفساً اِذا جاء أجلھا)(خداوندعالم جسکی موت کاوقت آگیاہواس کی موت کبھی تاخیر میں نہیں ڈالتا ) کے ذیل میں فرمایا : ''جب موت آتی ہے اور آسمانی کاتبین اسے لکھ لیتے ہیں تو اس موت کوخدا وند عالم تاخیر میں نہیں ڈالتا''۔

علّا مہ مجلسی نے بحارالانوارکے اسی باب میں اسی داستان کو جس میں آدم نے اپنی عمر کے چالیس سال حضرت داؤد کو بخش دئے تھے، ذکر کیا ہے اور ہم نے اسے مکتب خلفاء کی روایات میں ذکر کیا ہے:( ۴ )

بداء کے یہ معنی ائمہ اہل بیت کی روایات میں تھے لیکن''بدائ'' کے یہ معنی کہ خدا کے لئے کوئی نئی اور جدید رائے کس کام میں ظاہرہوتی ہے جسے وہ اس سے پہلے نہیں جانتا تھا !! معاذﷲیہ نظریہ مکتب اہل بیت میں مردود اور انکار شد ہ ہے اور اس سے ہم خداکی پناہ مانگتے ہیں، اس سلسلہ میں ائمہ اہل بیت کا نظریہ وہی ہے جسے علّا مہ مجلسی نے امام صادق سے ذکر کیا ہے کہ امام نے فرمایا :

''مَن زعم انَّ ﷲ عزَّوجل یبد و له فی شیئٍ لم یعلمه أمس فأ بروا منه'' ( ۵ )

جو شخص خدا وند متعال کے بارے میں کسی امر سے متعلق یہ خیال کرے کہ اس کے لئے نئی اور جدید رائے

____________________

(۱)بحار ج۴،ص۹۹ تفسیر علی بن ابراہیم سے نقل .(۲)بحار ج ۴، ص۱۰۲ ، نقل از امالی شیخ مفید(۳)بحار ج ۴، ص۱۰۲ ، نقل از تفسیر علی بن ابراہیم(۴)بحار ج ۴، ص۱۰۲ ،بہ نقل از علل الشرائع(۵)بحار ج۴ ص۱۱۱بہ نقل از اکمال الدین

۱۶۹

ظاہر ہوئی ہے جسے وہ اس سے قبل نہیں جانتا تھا تو ایسے لوگوں سے دوری اور بیزاری اختیار کرو۔

عقیدہ ٔ بدا کا فائدہ

اگرکسی شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ بعض وہ انسان جو نیک بختوں کے زمرہ میں واقع ہوتے ہیں کبھی ان کی حالت بد لتی نہیں ہے اور کبھی بد بختوں کی صف میں واقع نہیں ہو ںگے اور بعض انسان جو کہ بد بختوں کی صف میں ہیں ان کی بھی حالت کبھی نہیں بدلے گی اوروہ نیک بختوں کی صف میں شامل نہیں ہوں گے اور قلم تقدیر، انسان کی سر نوشت بد لنے سے خشک ہوچکا ہے اور رک گیا ہے، اگر ایسا تصور صحیح ہو تو کبھی گناہ گار اپنے گناہ سے تو بہ ہی نہیں کر ے گا بلکہ اپنے کام کا سلسلہ جاری رکھے گا، کیو نکہ وہ سونچ چکا ہے کہ شقاوت اور بد بختی اس کی یقینی اور قطعی سر نوشت ہے اور اس میں تبدیلی نا ممکن ہے ! دوسری طرف ، شیطا ن نیکو کار بندوں کو وسوسہ کرے گا کہ تم نیک بخت ہو،اشقیاء اور بد بختوں کے زمرہ میں داخل نہیں ہوگے اورعبادت و اطاعت میں سستی پیدا کر نے کے لئے اتنا وسوسہ کا فی ہے اورپھراس کے ساتھ ایسا کر ے گا جو نہیں ہو نا چاہئے ۔

بعض مسلمان جنھوں نے'' مشیت '' کے سلسلہ میں واردآیات و روایات کے معا نی واضح اور کامل طور سے درک نہیں کئے مختلف گروہ میں تقسیم ہو گئے ہیں ، ایک گروہ کاخیال ہے کہ انسان اپنے کاموں میں مجبور ہے اور دوسرے گروہ کا عقیدہ ہے کہ تمام امور انسان کے حوالے اور پر چھوڑ دئے گے ہیں ہم آئندہ بحث میں انشاء ﷲ اس مو ضو ع کی تحقیق کر کے راہ حق و صوا ب کی شناسائی کریں گے ۔

۱۷۰

۷

جبر و تفویض اور اختیار

الف: جبر کے لغوی معنی

''جبر'' لغت میں زورزبر دستی سے کوئی کام کرانے کو کہتے ہیں اور ''مجبور'' اس کو کہتے ہیں جس کوزور زبردستی سے کوئی کام کرایا جائے ۔

ب: جبر اسلامی عقائد کے علماء کی اصطلاح میں

''جبر'' اس اصطلاح میں یہ ہے : خدا وند عالم نے بندوں کو جو اعمال وہ بجالاتے ہیں ان پر مجبور کیا ہے،خواہ نیک کام ہو یا بد ،براہو یا اچھا وہ بھی اس طرح سے کہ بندہ اس سلسلہ میں اس کی نا فرمانی ،خلاف ورزی اور ترک فعل پر ارادہ واختیار نہیں رکھتا۔

مکتب جبر کے ماننے والوں کا عقیدہ یہ ہے انسان کو جو کچھ پیش آتا ہے وہی اس کی پہلے سے تعین شدہ سر نوشت ہے، انسان مجبور ہے وہ کوئی اختیار نہیں رکھتا ہے ،یہ اشاعرہ کا قول ہے۔( ۱ )

ج: تفویض کے لغوی معنی

تفویض لغت میں حوالہ کرنے اور اختیار دینے کے معنی میں ہے۔

د: تفویض اسلا می عقائد کے علما ء کی اصطلاح میں

''تفویض'' اس اصطلاح میں یعنی: خدا وند عالم نے بندوں کے امور (افعال )خود ان کے سپرد کر دئے ہیں جو

____________________

(۱) اشاعرہ کی تعریف اور ان کی شناخت کے لئے شہر ستانی کی کتاب ملل و نحل کے حا شیہ میں ( الفصل فی الملل و الا ھواء و النحل) ابن حزم، ج،۱،ص۱۱۹،تا ۱۵۳،ملاحظہ ہو.

۱۷۱

چاہیں آزادی اوراختیا ر سے انجام دیں اور خدا وند عالم ان کے افعا ل پر کوئی قدرت نہیں رکھتا، یہ فرقۂ ''معتزلہ'' کا قول ہے۔( ۱ )

ھ: اختیار کے لغو ی معنی

'' اختیار'' لغت میں حق انتخاب کے معنی میں ہے ، انتخاب کرنا پسند کرنا اور انتخاب میں آزاد ہو نے کو اختیار کہتے ہیں۔

و: اختیار اسلامی عقائدکے علماء کی اصطلاح میں

خدا وند عالم نے اپنے بندوں کو اپنے انبیا ء اور رسولوں کے ذریعہ بعض امور میں مکلف بنایایعنی ان کے انجام دینے کا مطالبہ کیا تو بعض سے نہی اور ممانعت فرمائی، خدا نے کسی کام کے انجام دینے یا اس کے ترک یعنی نہ کرنے کی بندوں کو قدرت عطا کی جو امور وہ انجام دیتے ہیں ان کے انتخاب کا انھیںحق دیا اور کسی کو اس سلسلہ میں مجبور نہیں کیا ، پھر اس کے بعد ان سے مطالبہ کیا ہے کہ اس کی امر و نہی میں اطاعت کریں ۔اس موضوع سے متعلق استد لال انشاء ﷲآئندہ بحث میں آئے گا۔

____________________

(۱) ''معتز لہ'' کی شناخت کے لئے شہر ستانی کی کتاب ملل و نحل ،ابن حزم کے حاشیہ (الفصل فی الملل والا ھواء و النحل) ج۱، ص ۵۵، ۵۷ پر ملاحظہ ہو۔

۱۷۲

(۸)

قضا و قدر

الف:۔ قضا و قدر کے معنی

ب:۔قضا و قدر کے بارے میں ائمہ اہل بیت کی روایات

ج:۔سوال و جواب

قضا وقدر کے معنی

'' قضا و قدر'' کا مادہ مختلف اور متعدد معا نی میں استعما ل ہو ا ہے جو کچھ اس بحث سے متعلق ہے اسے ذکر کرتے ہیں۔

الف:۔ مادّۂ قضا کے بعض معانی:

۱۔ ''قضا'' دو آپس میں جھگڑ نے والوں کے درمیا ن قضا وت اور فیصلہ کرنے کے معنی میں ہے، جیسے۔

( انَّ ربّک یقضی بینهم یوم القیا مة فیما کا نوا فیه یختلفون ) ( ۱ )

تمہا را پر وردگار قیا مت کے دن جس چیز کے بارے میں وہ لوگ اختلا ف کرتے تھے ان کے درمیان قضاوت اور فیصلہ کر ے گا۔

۲۔ ''قضا'' آگاہ کر نے کے معنی میں ہے ،جیسے خدا وند عالم کا قول لوط کی داستان سے متعلق اور ان کو ان کی قوم کے نتا ئج سے آگا ہ کرنا کہ فرماتا ہے :

( وقضینا اِلیه ذلک الأمر انَّ دابرهٰؤلاء مقطوع مُّصبحینَ )

ہم نے لوط کو اس موضوع سے با خبر کر دیا کہ ہنگا م صبح سب کے سب بیخ وبن سے اکھاڑ دئے جائیں گے۔( ۲ )

۳۔ '' قضا '' واجب کرنے اور حکم دینے کے معنی میں ہے ،جیسے:

( و قضیٰ ربّک ألا تعبد وا اِلاّ اِيّا هُ ) ( ۳ )

____________________

(۱) یونس ۹۳ .(۲)حجر ۶۶ (۳) اسراء ۲۳

۱۷۳

تمہا رے رب کا حکم ہے کہ اس کے علاوہ کسی کی پر ستش نہ کرو۔

۴۔'' قضا '' تقد یر اور ارادہ کے معنی میں ہے ، جیسے :

( واِذا قضیٰ أمراً فأِ نّما یقو ل له کن فیکون ) ( ۱ )

جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتاہے ، تو صرف کہتا ہے ہو جا ، تو ہو جاتی ہے۔

( هو الذی خلقکم من طین ثُمَّ قضیٰ أجلا ) ً)( ۲ )

وہ ایسا خدا ہے جس نے تمھیں مٹی سے خلق کیا ہے ،پھر ( ہر ایک کے لئے) ایک مدت مقدر(معین) فرمائی، یعنی انسان کی حیات کے لئے ایک معین مقدار اور اندا زہ قرار دیا ۔

ب:مادہ ٔ قد ر کے بعض معا نی

۱۔قدر ؛ یعنی قادر ہوا ، اقدام کی قدرت پیدا کی ، ''قادر'' یعنی تو انا اور ''قدیر'' یعنی قدرت مند. خدا وند متعال سورہ ٔ یٰس میں فرماتا ہے:

( أو لیس الذی خلق السّموات و الأرض بقٰدرٍ علیٰ أن یخلق مثلهم ) ( ۳ )

آیا جس نے زمین و آسمان کو زیور تخلیق سے آراستہ کیا ہے وہ ا س جیسا خلق کر نے پر قادر نہیں ہے؟

سورۂ بقرہ ۲۰،میں ارشاد فرماتا ہے:

( ولوشاء ﷲ لذهب بسمعهم وأبصا رهم اِنَّ ﷲ علیٰ کلّ شی ئٍ قدیر ) ( ۴ )

اگر خدا چاہے تو ان کے کانوں اور آنکھوں کو زائل کر دے ، کیو نکہ ، خدا وند عالم ہر چیز پر قادر ہے ۔یعنی خدا وند عا لم ہر کام کے انجام دینے پر جس طرح اس کی حکمت اقتضا ء کرتی ہے قادر ہے ۔

۲۔قدر: یعنی تنگی اور سختی میں قرار دیا ،'' قَدَرَ الرزق علیہ ویقدر'' یعنی اسے معیشت کی تنگی میں قرار دیا اور دیتا ہے ۔خدا سورۂ سبا کی ۳۶ ویں آیت میں فرماتا ہے:

( قل اِنّ ربّی یبسط الرّزق لمن یشا ء و یقدر )

کہو: خدا وند عالم جس کے رزق میں چاہتا ہے اضا فہ کرتا ہے اور جس کے رزق میں چاہتا ہے تنگی کرتا ہے۔

۳۔ قَدَرَ :تد بیر کی اور اندا زہ لگا یا ،'' قد ر ﷲ الامر بقدرہ ''خدا وند سبحا ن نے اسکی تد بیر کی یا

____________________

(۱)بقرہ ۱۱۷(۲) انعام ۲(۳)یس۸۱(۴)بقرہ۲۰

۱۷۴

اس کے واقع ہو نے کا خواہشمند ہو ا، جیسا کہ سورۂ قمر کی بارہو یں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

( وفجَّر ناالأرض عیوناً فا لتقی الما ء علی أمر ٍ قد قدر )

اورہم نے زمین کوشگا ف کیا اور چشمے نکالے اور یہ دو نوں پا نی ( بارش اور چشمے کے ) تد بیر اور خواہش کے بقدر آپس میں مل گئے ۔

ج:۔ قدَّر کے معنیٰ

۱۔قدر '' یعنی اس نے حکم کیا ، فرمان دیا ، قَدَّرَ ﷲ الأمر یعنی خدا وند رحمان نے حکم صادر فر مایا اور فرمان دے دیا کہ کام، اس طرح سے ہو جیسا کہ سورۂ نمل کی ۵۷ ویں آیت میں لوط کی بیوی کے بارے میں فرماتا ہے:

( فأ نجینا ه و أهله اِلّاامرأ ته قدّرنا ها من الغا بر ین )

ہم نے انھیں (لوط) اور ان کے اہل و عیال کو نجات دی ،جز ان کی بیوی کے کہ ہم نے فرمایا : وہ پیچھے رہ جانے والوں میں ہو گی، یعنی ہما را حکم اور فرمان یہ تھا کہ وہ عورت ہلاک ہو نے والوں میں رہے گی۔

۲۔''قَدَّر'' یعنی مدارا ت کی ، تو قف و تامل اور تفکر کیا ،'' قدرفی الامر'' یعنی کام کی انجام دہی میں تو قف و تامل کیا اور اس کے ساتھ رفق و مدارا ت کی، جیسا کہ خدا وند عالم سورہ سبا کی ۱۱ ویں آیت میں داؤد سے فر ماتا ہے :

( أن أعمل سابغا ت وقدّرفی السّرد )

مکمل اور کشادہ ز ر ہیں بناؤ نیز اس کے بنانے میں غور و خوض اور نر می سے کام لو ۔

یعنی زرہ بنانے میں جلد بازی سے کام نہ لو بلکہ کافی غور و فکر ،توجہ اور دقت کے ساتھ زرہ بناؤ تاکہ تمہارے کام کا نتیجہ محکم اور استوار ہو۔

۱۷۵

د: ۔ قدرکے معنی

۱۔قَدَر:مقدار، اندازہ اور کمیت کے معنی میں استعما ل ہوا ہے جیسا کہ سورۂ حجر کی ۲۱ ویں آیت میں ارشاد ہو تا ہے:

( واِن من شی ئٍ اِلاّ عند نا خزا ئنه و ما ننزّ له اِلاّ بقدرمّعلو م ) ٍ)

اور جو کچھ ہے اس کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور ہم معین انداز ہ اور مقدار کے علاوہ نازل نہیں کرتے ۔

۲ ۔ قدر: زمان و مکان کے معنی میں استعمال ہو ا ہے، جیسا کہ سورۂ مر سلات کی ۲۰ ویں تا۲۲ ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

( ألم نخلقکّم مِّن مّائٍ مّهینٍ ، فجعلناه فی قرارٍمکینٍ اِلیٰ قدرٍمعلوم )

کیا ہم نے تم کو پست اور معمو لی پانی سے خلق نہیں کیا ، اس کے بعد ہم نے اسے محفوظ اور آمادہ جگہ پر قرار دیا، معین اور معلوم زما نہ تک ؟ !

۳۔قدر: قطعی اور نا فذ حکم کے معنی میں ، قَدَرُ ﷲ خدا وند سبحان کا قطعی، نا فذ اور محکم حکم ، جیسا کہ سورۂ احزاب کی ۳۸ ویں آیت میں ارشاد ہو تا ہے:

( سنّة ﷲ فی الَّذ ین خلوا من قبل و ُکان أمر ﷲ قدراً مّقد ورا ً )

ﷲ کی یہ سنت گز شتگان میں بھی جاری تھی اور خدا کا فرمان قطعی اور، نافذ ہو نے والا ہے۔

قول مؤلف:

شاید قضا و قدر کے متعدد معنی اور اس کی خدا وند منّا ن کی طرف نسبت باعث ہو ئی کہ بعض مسلمان غلط فہمی کا شکار ہو گئے ہیں اور اس طرح خیال کرتے ہیںکہ ''قضا و قدر'' کے معنی قرآن و حدیث میں یہ ہیں کہ انسان اپنی زندگی میں جو کچھ کر تا ہے خواہ نیک ہو یا بد اسی''قضا و قدر'' اور سر نوشت کی بنیا د پر ہے،جسے خدا وند عالم نے اس کی خلقت سے پہلے اسکے لئے مقرر کر دیا تھا۔جیسا کہ ہماری روایتوں میں کلمہ قدری کا اطلاق ''جبری ''اور'' تفویضی'' دونوں پر ہوا ہے۔

اور اس اطلا ق کی بنا پر کلمہ''قدر'' کسی شۓ اوراس کی ضد دونوں کا نام ہو جا تا ہے، جیسے کلمہ'' قرئ'' کہ حیض '' اور پاکی'' دونوں کا نام ہے یعنی متضاد معنی میں استعما ل ہوا ہے۔

خا تمہ میں قدریوں کے اقوال اور ان کے جواب سے اس بنا ء پر صرف نظر کرتے ہیں کہ کہیں بحث طولانی نہ ہو جائے اور صرف ان احا دیث پر اکتفا ء کر تے ہیں جن میں ان کے جوابات پائے جا تے ہیں، تاکہ خدا کی تا ئید و تو فیق سے ، جواب کے علاوہ موضوع کی تو ضیح اور تشریح بھی ہو جائے۔

۱۷۶

قضا و قدر سے متعلق ائمہ اہل بیت کی روایات

پہلی روایت:

صدوق نے کتا ب تو حید میں اپنی سند کے سلسلہ کو امام حسن مجتبی تک لے جاتے ہوئے اور ابن عسا کر نے تاریخ میں اپنی سند کے ساتھ ابن عباس سے نقل کیا ہے: (عبارت صدوق کی ہے)

'' دخل ر جل من أهل العراق علی أمیر المؤمین فقال : اخبر نا عن خروجنا الی اهل الشام أبقضا ء من ﷲ وقدر ؟

فقال له أمیر المومنین أجل یا شیخ ، فوﷲ ما علو تم تلعة ولا هبطتم بطن واد ٍ الّا بقضا ء ٍ من ﷲ و قدر ٍ ، فقال الشیخ: عند ﷲ احتسب عنا ئی یا أمیر المومنین ، فقال مهلا ً یا شیخ! لعلک تظن قضا ء ً حتما ً و قدرا ً لا ز ما ً، لو کان کذلک لبطل الثواب وا لعقاب و الامر والنهی و الزَّ جر، و لسقط معنی الوعید والو عد ، و لم یکن علی مسیء ٍ لا ئمة و لا لمحسن محمدة ، و لکا ن المحسن او لیٰ با للا ئمة من المذ نب و المذ نب او لی با لاحسا ن من المحسن تلک مقا لة عبدة الا وثان و خصماء الرحمان و قد رية هذه الأمة و مجو سها، یا شیخ! ان ﷲ عز وجل کلف تخییرا ً، ونهی تحذیرا، واعطی علی القلیل کثیرا ً و لم یعص مغلو با ، و لم یطع مکر هاً و لم یخلق السموا ت و الأر ض و ما بینهما با طلا ً ذلک ظن الذین کفروا فو یل للذین کفر وا من النّا ر''

ایک عرا قی حضرت امیر المو مین کے پاس آیا اور کہا : کیا ہمارا شا میوں کے خلاف خروج '' ْقضا و قدر الٰہی '' کی بنیا د پر ہے ؟ امام نے اس سے فر مایا ! ہاں ، اے شیخ ! خدا کی قسم کسی بلندی پرنہیں گئے اور نہ ہی کسی وادی کے درمیان اترے مگر ! قضا وقدر الہٰی

۱۷۷

کے تحت ایسا ہوا ہے، اس شخص نے کہا : امید کرتا ہوں کی میری تکلیف خدا کے نز دیک کسی اہمیت کی حامل ہو۔( ۱ )

امام نے اس سے کہا :ٹھہر جا اے شیخ ! شاید تو نے خیال کیا کہ ہم قضا و قدر کو بیان کررہے ہیں اگر ایسا ہوتو ثواب و عقاب ، امر و نہی اور زجر سب باطل ہو جائے ، ڈرانا اور بشارت دینا بے معنی ہو جائے ، نہ گنا ہگار کی ملا مت بجا ہوگی اورنہ نیکو کار کی ستا ئش روا ، بلکہ نیکو کار بد کار کی بہ نسبت ملامت کا زیا دہ سزا وار ہو گا( ۲ ) اور گنا ہگا ر نیکی کا نیک شخص سے زیادہ سزاوار ہوگا،یہ سب بت پر ستوں ، خدا وند رحما ن کے دشمنوں اوراس امت کے ''قدریوں'' اور مجو سیوں کی باتیں ہیں ! اے شیخ! خدا وند عز وجل نے بندوں کو مکلف بنا یا ہے تا کہ وہ اپنے اختیار سے کام کریں اور انھیں نہی کی تا کہ وہ خود اس سے باز رہیں اور معمولی کام پر زیا دہ جزا دے ، مغلوب ہو کر یعنی شکست خوردگی کے عالم میں اس کی نافرمانی نہیں ہو ئی اور زبر دستی اس کی اطا عت نہیں ہو ئی اس نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان تمام مو جو دات کو بے کار اور لغو پیدا نہیں کیا ، یہاں لو گوں کا گمان ہے جو کا فر ہوگئے ہیں ، پس ان لوگوں پر وائے ہو جو آتش جہنم کے عذاب کا انکار کرتے ہیں۔( ۳ )

روای کہتا ہے: وہ شخص اٹھا اور یہ ا شعار پڑھنے لگا:

أنت الاِمام الذّی نرجو بطا عته :: یوم النِّجا ة من الرّحمن غفرا ناً

أوضحت من دینِنا ما کان مُلتبساً :: جزا ک ر بُّک عنّا فیه اِحسا نا ً

فلیس معذرة فی فعل فا حشة :: قدکُنت راکبها فسقا ً و عصیا نا ً

تم و ہی امام ہو جس کی اطا عت کے ذریعہ قیا مت کے دن ہم خدا وند رحمن سے عفو و بخشش کے امید وار ہیں ۔ تم نے ہمارے دین سے یکبا رگی تمام شکوک و شبہات کو دور کر دیا ہم تمہا رے رب سے در خواست کرتے ہیں کہ وہ تمھیں اس کی نیک جز ا دے۔ لہٰذا اس واضح او رروشن بیان کے بعدمجھ سے کوئی گناہ سر زد نہ

____________________

(۱)یعنی اگر ہمارا خرو ج اور جہاد کر نا'' قضا و قدر'' الٰہی کی بنیا د پر ہے تو جز ا کے مستحق نہیں ہیں ، پس میں امید وار ہوںکہ ہماری مشقت وزحمت راہ خدا میں محسوب ہو اورہم ان لوگوں کے اعمال کی ردیف میں واقع ہو جو قیا مت کے دن خدا کے فضل ورحمت کے سایہ میں ہوں گے۔

(۲) کیو نکہ دو نوں در اصل مسا وی اور برا بر ہیں چو نکہ عمل ان کے ارادہ اور اختیار سے نہیں تھا، دوسری طرف چو نکہ نیکو کار لوگوں کی ستا ئش کا مستحق ہو تا ہے اوراسے اپنا حق سمجھتا ہے جب کہ ایسا نہیںہے ، اس گمان و خیال کی بنیاد پر وہ شخص گنا ہگار سے زیا دہ ملامت کا حقدار ہے، کیو نکہ گناہ گارلو گوں کی ملا مت کا نشا نہ بنتا ہے اور وہ خو د کو اس ملامت کا مستحق جا نتا ہے جب کہ ایسا نہیں ہے ، لہٰذا اس پر احسا ن ہو نا چاہئے تا کہ لوگوں کے آزارو اذیت اور ان کی سر ز نش و ملا مت بر داشت کر نے کی اس سے تلا فی کر ے، نہ کہ نیکو کا ر پر احسان ہونا چاہیئے سے۔

(۳)سورہ ٔ ص کی ۲۷ ویں آیت سے اقتبا س ہے.

۱۷۸

ہو کہ جس پر نہ معذرت کر سکوں اور نہ میری نجا ت ہو ۔

دوسری روایت

ائمہ اہل بیت میں سے چھٹے امام حضرت امام جعفر صادق سے دوسری رو ایت ذکر کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

''اِنَّ النا س فی القدر علیٰ ثلا ثة أو جه: ر جل زعم أنَّ ﷲ عزَّو جلّ أجبر النّا س علیٰ المعا صی فهذا قد ظلم ﷲ فی حکمه فهو کا فر، ورجل یز عم انَّ الأمر مفوَّض الیهم فهذا قد أو هن ﷲ فی سلطا نه فهو کا فر ، و رجل یز عم انَّ ﷲ کلَّف العباد ما يُطیقون و لم يُکلَّفهم ما لا يُطیقون و اِذاأحسن حمد ﷲ واِذا أسا ئَ استغفر ﷲ فهذا مسلم با لغ'' ( ۱ )

''قدر'' کے مسئلہ میں لوگ تین گروہ میں تقسیم ہیں:

۱۔ جس کا یہ عقیدہ ہے کہ خدا وند عزو جل نے لوگوں کو گناہ پر مجبور کیا ہے ،اس نے فرمان خدا وندی کے بارے میں خدا پر ظلم کیا ہے اور وہ کافر ہے۔

۲۔ جس کا عقیدہ ہے کہ تمام امور لو گوں کے سپر د کر دئے گئے ہیں،اس نے خدا کواس کی قدرت اور بادشا ہی میں ضعیف و نا توا ں تصور کیا ہے لہٰذا وہ بھی کا فر ہے۔

۳۔جس کا عقیدہ یہ ہے کہ خدا وندسبحان نے بندوں کو انھیں چیزوں پر مکلف بنایا ہے جن کی وہ طاقت رکھتے ہیں اور جن کی وہ طاقت نہیں رکھتے اس کا ان سے مطا لبہ نہیں کیا ہے، وہ جب بھی کو ئی نیک کام کرتا ہے تو خدا کی حمد ادا کر تا ہے اور اگر کوئی بُرا فعل سر زد ہو تا ہے تو خدا سے مغفر ت اور بخشش طلب کرتا ہے ، یہ وہی مسلما ن ہے جس نے حق کو درک کیا ہے۔

تیسری روایت:

ائمہ اہل بیت میں سے آٹھو یں امام ، حضرت امام علی بن مو سیٰ الر ضا سے ہے کہ آپ نے فرما یا:

۱۔''انَّ ﷲ عزّ وجلَّ لم یطع بِأِکراهٍ، ولم یعص بغلبةٍ و لم يُهمل العباد فی ملکه، هو المالک لما مَلَّکَهم و القا در علیٰ ما أقد ر هم علیه فاِن ائتمر العباد بطا عته لم یکن ﷲ منها

____________________

(۱)توحید صدوق، ص۳۶۰،۳۶۱.

۱۷۹

صا دّا ً، و لا منها ما نعا ً، واِنِ أئتمر وا بمعصیتهِ فشا ء أن یحول بینهم و بین ذلک فعل و اِن لم یحل و فعلوهُ فلیس هو الذّی اد خلهم فیه'' ( ۱ )

خدا وند عالم کی جبر و اکرا ہ کے ذریعہ اطا عت نہیں کی گئی ہے نیز ضعف و شکست اور مغلو ب ہو نے کی بنا پر اس کی نا فرمانی نہیں کی گئی، اس نے اپنے بندوں کو اپنی حکو مت اور مملکت میں لغو و بیہو دہ نہیں چھو ڑا ہے، وہ ان تمام چیزوں کا جس پر انھیں اختیا ر دیا ہے مالک ہے اوران تمام امور پر جس کی تو انائی دی ہے قا در ہے اگر بندے اطاعت گزار ہوں تو خدا ان کے را ستوں کو بند نہیں کر ے گا اور اطا عت سے انھیں نہیں رو کے گا اور اگر وہ لوگ نافر مانی و عصیا ن کے در پے ہوں گے اور وہ چا ہے کہ گناہ اور ان کے درمیا ن فا صلہ ہو جائے تو وہ کر دے گا اور اگر گناہ سے نہ رو کا اور انھوں نے گناہ انجام دیا، تو اس نے ان لوگوںکو گناہ کے راستہ نہیں پرڈالاہے۔

یعنی جو انسا ن خدا کی اطاعت کرتا ہے وہ اس اطاعت و پیر وی پر مجبور نہیں ہے اور جو انسا ن خدا کی نافرمانی کرتا ہے وہ ﷲ کی مر ضی اورا س کے ارادہ پر غا لب نہیں آگیا ہے بلکہ یہ خو د خدا ہے جو یہ چا ہتا ہے کہ بندہ اپنے کا م میں آزاد و مختار ہو۔

۲۔ اور فرمایا: خدا وند متعا ل فرماتا ہے:

( یاابن آدم بمشیئتی کُنت انت الذّی تشائُ لنفسک ما تشائ، و بقوَّ تی ادَّ یت الیّ فرا ئضی، و بنعمتی قویت علی معصیتی، جعلتک سمیعا ً بصیرا ً قو يّاً، ما اصا بک من حسنةٍ فمن ﷲ و ما أصا بک من سيِّئة ٍ فمن نفسک ) ( ۲ )

اے فرزند آدم! میری مشیت اور مر ضی سے تو انتخاب کر نے وا لا ہو گیا ہے اور جو چاہتا ہے اپنے لئے اختیا ر کر لیتا ہے اور میری ہوئی طا قت سے میرے واجبا ت بجا لا تا ہے اور میری ہی نعمتیں ہیں جن کے ذریعہ تو میری نا فرمانی پر قادرہے ، میں نے تجھے سننے والا، دیکھنے والا اور طا قتو ر بنایا ہے(پس یہ جان لے کہ) جو کچھ تجھے نیکی حاصل ہو تی ہے وہ خدا کی طرف سے ہے اور جو بد ی تجھ تک پہنچتی ہے تیری وجہ سے ہے۔

ایک دوسری روایت میں آیا ہے :

''عملت با لمعا صی بقو تی التی جعلتها فیک'' ( ۳ )

ہم نے جو تو انائی تیرے وجود میں قراردی تونے اس کی وجہ سے گنا ہ کا ارتکاب کیا ۔

____________________

(۱)توحید صدوق ص۳۶۱ .(۲) تو حید صدو ق، ص ۳۲۷، ۳۴۰ اور ۳۶۲ اور کافی ،ج، ۱،ص ۱۶۰، سورہ نسا ء ۷۹.(۳) تو حید صدوق، ص ۳۶۲.

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303