اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

اسلام کے عقائد(دوسری جلد )0%

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

اسلام کے عقائد(دوسری جلد )

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

صفحے: 303
مشاہدے: 118257
ڈاؤنلوڈ: 4163


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 118257 / ڈاؤنلوڈ: 4163
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(دوسری جلد )

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد 2

مؤلف:
اردو

عبد وعبادت

عَبَدَ :اس نے اطاعت کی''عبودیت'' یعنی: عاجزی و فرو تنی اورخضوع و خشوع کے ساتھ اطاعت بجالانااور''عبادت'' یعنی نہایت خضوع وخشوع اور فر وتنی وعاجزی کے ساتھ اطاعت کرناجو '' عبودیت''سے زیادہ بلیغ ہے۔

الف: عبودیت

سورہ حمد میں ''ربّ العالمین''کے ذکر کے بعد جملہ''ایاّک نعبد'' آیا ہے اس میں عبودیت بمعنی ٔ اطاعت ہے ،یعنی ہم صرف تیری ہی اطاعت کرتے ہیں۔

امام جعفر صادق ـ نے بھی ایک حدیث میں فرمایا ہے :

''مَن أطاع رجلاً فی معصية فقد عبده ''( ۱ )

جو شخص کسی انسان کی معصیت اور گناہ میں اطاعت کرے گویااس نے اسکی عبادت کی ہے۔

جیسا کہ ظاہر ہے عبادت و اطاعت ایک ساتھ اور ایک معنی میں استعمال ہو ئے ہیں۔امام علی رضا کی گفتگو میں بھی ہے کہ دوسرے کی بات سننے کو،جو ایک قسم کی اطاعت اور اس کی پیروی ہے،''عبادت'' سمجھاگیاہے، جیسا کہ فرمایا:

''مَن أصغیٰ اِلی ناطق فقد عبده فاِن کان الناطق عن ﷲ عزّ و جلّ فقد عبد ﷲ،واِن کان الناطق عن أبلیس فقد عبدأبلیس'' ( ۲ )

جو شخص کسی قائل کی آواز پر کان دھرے اس نے اس کی عبادت کی ہے اب اگر قائل خدا وند عالم کی بات کرے تو خدا کی عبادت کی اور اگر ابلیس کی بات کرے تو ابلیس کی عباد ت کی۔

عبادت: باشعور موجودات کے لئے اختیاری ہے لیکن دیگر مخلوقات کے لئے تسخیری اور غیر اختیاری

____________________

(۱)اصول کافی ج ۲، ص ۳۹۸(۲) عیون اخبار الرضا،ص۳۰۳، ح۶۳؛ وسایل الشیعہ ج۱۸، ص ۹۲ ح ۱۳

۱۴۱

ہے، جیسا کہ خدا وند سبحان نے فرمایا :

( یا أيّها الناس اعبد واربّکم الذی خلقکم و الذین من قبلکم.. ) .)( ۱ )

اے لوگو !اپنے رب کی عبادت کرو ،وہی جس نے تمکو اور تم سے پہلے والوں کو زیور تخلیق سے آراستہ کیا ہے۔

اوردیگر مو جودات کے بارے میں فرمایا :

( وللّه یسجد ما فی السموات وما فی الٔارض من دابة والملا ئکة وهم لا یستکبرون ) ( ۲ )

تمام وہ چیزیں جو آسمان وزمین میں پائی جاتی ہیں چلنے والی ہوں یا فرشتے خدا کے لئے سجدہ( عاجزی اور فرونتی) کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے ہیں۔

ب: عبد

عبد کے چار معنی ہیں:

۱۔غلام کے معنی میں جیسے سورۂ نمل میں خدا ارشاد فرماتا ہے:

( ضرب ﷲ مثلاً عبدا ً مملوکاً لا یقدر علیٰ شیئٍ ) ( ۳ )

خدا وند عالم نے ایک ایسے غلام مملوک کی مثال دی ہے جو کسی چیز پر قادر نہیں ہے۔

اس عبد کی جمع عبید ہے جیسا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمایا :

''مَن خرج ِالینا من العبید فهوحرّ'' ( ۴ )

جو غلام بھی ہماری سمت (اسلام کی طرف)آجائے وہ آزاد ہے۔

۲۔''عبد'' بندہ ہونے کے معنی میں بھی ہے اس کی سب سے زیادہ روشن اور واضح مثال خدا وند عالم کے ارشاد میں ہے کہ فرمایا:

( ِان کلّ مَن فی السموات والأر ض اِلّا أتی الرحمن عبداً ) ( ۵ )

زمین وآسمان کے ما بین کوئی نہیں ہے مگر یہ کہ بند گی کی حالت میں خدا وند رحمان کے سامنے آئے۔

اس معنی میں بھی عبد کی جمع ''عبید'' (بندے) ہے جیسے :

( و أنّ ﷲ لیس بظلام للعبید ) ( ۶ )

____________________

(۱)سورہ ٔ بقرہ ۲۱. (۲) نحل ۴۹(۳) نحل ۷۵(۴) مسند احمد ج۱، ص ۲۴۸ (۵)مریم ۹۳۔(۶)انفال ۵۱ ۔

۱۴۲

خدا وند عالم اپنے بندوںپر ظلم نہیں کرتا ہے۔

۳۔ ۴۔عبد؛،عبادت کرنے والے اور خدمت گزار بندہ کے معنی میں ہے جس کے بارے میں ''عابد'' کی تعبیر زیادہ بلیغ ہے، اس کی دو قسم ہے:

الف:خدا کا خالص'' عبد'' اورحقیقی بندہ ہونا جس کی جمع عباد آتی ہے جیسے خدا وند عالم کاکلام ان کے موسیٰ اور اوران کے جوان ساتھی کی داستان کی حکایت میں ہے،وہ فرماتا ہے:

( فوجدا عبداً من عبادنا آتینا ه رحمة من عند نا ) ( ۱ )

ا ن دونوںنے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ کو پایا جسے ہم نے اپنی خاص رحمت سے نوزا تھا۔

ب۔اور دنیا کا'' عبد'' بندہ ہونا یعنی جو شخص اپنا تمام ہم و غم اور اپنی تمام توانائی دنیا اور دنیا طلبی کے لئے وقف کر دے،یہاں بھی عبد کی جمع''عبید'' ہے جیسا کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' تَعِسَ عبد الدرھم وعبد الدینار''درہم ودینار کا بندہ ہلاک ہوگیا۔( ۲ )

اور چو نکہ پروردگار عالم بندوں کی ہدایت اور لوگوں کے ارشاد کے لئے امر ونہی کرتا ہے لہٰذا جو شخص فرمان خدا وندی کی اطاعت کرتاہے ا سے کہتے ہیں: (عَبَدَا لرّبَّ)اس نے خدا وند رحمان کی عبادت وبندگی کی، وہ عابد ہے یعنی:اس نے خدا کی اطاعت کی ہے اور و ہ پروردگار کا مطیع وفرمانبردار ہے۔

اور چونکہ''الہ''معبود کے معنی میں ہے اور اس کے لئے دینی مراسم منعقد کئے جاتے ہیں، کہتے ہیں: ''عَبَدَ فلان اِلا لہَ''فلاں نے خدا کی عبادت کی (پرستش کی)وہ عابد(پر ستش کرنے والا ہے)یعنی وہ دینی مراسم خدا کے لئے انجام دیتا ہے۔( ۳ )

جن صفات کو''الوہیت'' کی بحث میں '' الہٰ'' کے صفات میں شمار کیاہے اور ربوبیت کی بحث میں ان تمام صفات کورب ّ کے صفات سے جانا ہے وہ سارے کے سارے ﷲ ربّ العالمین کے صفات ہیں ، ﷲ ربّ العالمین کے صفات میں ایک دوسری صفت یہ ہے کہ ہر چیز کا جاری و ساری ہونا اس کی مشیت اور اس کی مرضی سے ہے اور ہم انشاء ﷲآئندہ بحث میں اس کی وضاحت کر یں گے۔

____________________

(۱)کہف:۶۵ (۲) سنن ابن ماجہ ص۱۳۸۶(۳)جو کچھ ہم نے''عبد'' کے بارے میں ذکر کیا ہے وہ مندرجہ ذیل کتابوں سے مادہ عبد کے مطالب کا خلاصہ ہے، جوہری کی کتاب صحاح ،مفردات القرآن راغب ،قاموس اللغة فیروز آبادی، معجم الفاط القرآن الکریم ،طبع مصر، ہم نے ان سب کی عبارت کو مخلوط کر کے ایک سیاق و اسلوب کے ساتھ بیان کیا ہے.

۱۴۳

۵

ربّ العالمین کی مشیت

الف ۔مشیت کے معنی

ب: رزق میں خدا کی مشیت

ج:ہدایت میں خدا کی مشیت

د: رحمت وعذاب میں خدا کی مشیت

۱- لغت اور قرآن کریم میں مشیت کے معنی

الف:مشیت کے لغوی معنی

مشیت کے لغوی معنی؛ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور اس معنی میں لوگ بھی ارادہ ومشیت کے مالک ہوتے ہیں ،خدا وند کریم نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:( اِنّ هذه تذکرة فمن شاء اتّخذا الیٰ ربّه سبیلاً ) ( ۱ )

یہ یاد دہانی ہے،لہٰذا جو چاہے اپنے پروردگار کی طرف راہ اختیار کرے۔یعنی اگر انسان چاہے اور ارداہ کرے کہ خدا کی سمت راہ انتخاب کرے تو وہ مکمل آزادی اور اپنے ارادہ واختیار کے ساتھ اس بات پر قادر ہے،اسی آیت سے ملتا جلتا مضمون سورہ مدثر کی ۵۵ ویں آیت عبس کی بارہویں آیت تکویر کی اٹھائیسویں آیت اور کہف کی ۹۲ آیت ویں وغیرہ میں بھی ذکر ہوا ہے،خدا وند سبحان نے لغوی مشیت کی نسبت بھی اپنے طرف دیتے ہوئے فرمایا:

۱۔( الم تر اِلی ربّک کیف مدّ الظلّ و لو شاء لجعله ساکناً ) ( ۲ )

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کس طرح تمہارے ربّ نے سایہ کو دراز کردیا؟اوراگر چاہتا تو ساکن کر دیتا.

۲۔( فاما الذین شَقُوا ففی النار لهم فیها زفیر و شهیق)( خالدین فیها ما دامت السموات و الأرض الا ما شاء ربّک انّ ربّک فعال لما يُرید)( وأما الذین سعدوا ففی الجنة خالدین فیها ما دامت السموات و الأرض الا ماشاء ربک عطائً غیر مجذوذٍ ) ( ۳ ) لیکن جو بد بخت ہو چکے ہیں،تو وہ آتش جہنم میں ہیں اور ان لوگوں کے لئے وہاں زفیر اور شہیق( آہ و نالہ وہ فریاد) ہے اور جب تک زمین وآسمان کا قیام ہے وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے مگر جو تمہارا رب چاہے اور تمہارا رب جو چاہتاہے انجام دیتا ہے، رہے وہ لوگ جو نیک بخت اور خوش قسمت ہیں وہ جنت میں ہیں اور

____________________

(۱) مزمل ۱۹ ؛ انسان ۲۹ (۲)فرقان ۴۶.(۳)ہود۱۰۶ ۱۰۸

۱۴۴

جب تک زمین وآسما ن کا قیام ہے وہ اس میں رہیں گے جز اس کے جو تمہارا رب چاہے یہ ایک دائمی بخشش ہے۔

ان دو آیتوںکے مانند سورۂ اسراء کی ۸۶ ویںاور فرقان کی ۵۱ ویںآیت میں بھی ذکر ہوا ہے۔

لیکن گزشتہ آیات کے معنی یہ ہیں:

۱۔خدا وندعالم نے پہلی جگہ فرمایا:

( الم تریٰ الی ربک کیف مدّ الظل و لو شاء لجعله ساکناً )

یعنی خدا وند عالم نے کس طرح ظہر کے بعد ،سورج کے مغرب سے قریب ہو نے کے تناسب سے سایہ کو مشرق کی جانب پھیلا دیایہاں تک کہ ڈوب کر شب میں اپنی آخر ی حد داخل ہو گیا اوراگر''چاہتا''تو سایہ کو ہمیشہ ساکن ہی رہنے دیتا ، سایہ کا دراز ہونا اوراس کا حرکت کرنا خدا کی مشیت اور اس کے ارادہ پر ہے اور مرضی الٰہی سے باہر نہیں ہے۔

۲۔ خدا نے دوسرے مقام پر فرمایا: اہل جہنم ہمیشہ کیلئے آتش میں ہیں اور اہل بہشت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بہشت میں ہیںاور یہ خدا کی قدرت اور مشیت کے تحت ہے اور اس کی مرضی اور مشیت سے خارج نہیں ہے۔

ب:مشیت؛ قرآنی اصطلاح میں

قرآن مجید میں جب بھی کلمات رزق، ہدایت،عذاب،رحمت اور ان کے مشتقات کے بعد ''مشیت خدا کی'' بحث ہو تی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ رزق وروزی ،ہدایت اور اس کے مانند دوسرے امور کا جاری ہونا ان سنتوں کی بنیاد پرہے جنہیں خدا وند عالم نے اپنی حکمت کے اقتضا ء سے معین فرمایا ہے اور خدا کی سنت ان امور میں نا قابل تبدیل ہے اور وہ اس آیت کے مصادیق و افراد میں سے ہیں جیسا کہ فرماتا ہے:

( سنة ﷲ و لن تجد لسنة ﷲ تبدیلاً ) ( ۱ )

یہ سنت الٰہی ہےاور سنت الٰہی میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہو تی ہے۔

جیسا کہ سورہ فاطر میں بھی ارشاد فرماتا ہے:

( فلن تجد لسنة ﷲ تبدیلاً و لن تجد لسنة ﷲ تحویلاً )

سنت خدا وندی میں کبھی تبدیلی نہیں پاؤ گے اور سنت الٰہی میں کبھی تغیر نہیں پاؤ گے۔

____________________

(۱)سورۂ احزاب ۶۲ اور فتح ۲۳.

۱۴۵

دوم ۔ رزق وروزی میں خدا کی مشیت

۱۔خدا وند عالم سورۂ شوریٰ میں فرماتا ہے:

( له مقا لید السموات و الأرض یبسط الرّزق لمن یشائُ و یقدر اِ ّنه بکل شیء ٍ علیم ) ( ۱ )

آسمانوں اور زمینوں کی کنجیاں اس سے مخصوص ہیں،جس کی روزی میں چاہتا ہے وسعت عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ا س کی روزی تنگ کر دیتا ہے وہ تمام چیزوں سے آگاہ ہے۔

سورئہ عنکبوت میں فرمایا ہے:

( وکأيّن من د ابةٍ لا تحمل رزقها ﷲ یر زقها و اِيّا کم و هو السمیع العلیم و لئِن سألتهم مَن خلق السموات والأرض و سخر الشمس و القمر لیقو لنّ ﷲ فأنّی یوفکون ﷲ یبسط الرّزق لمَن یشاء من عباده و یقدر له ِانّ ﷲ بکلّ شیٍئٍ علیم ولئن سا لتهم من نزّل من السماء مائً فأ حیا به الٔارض من بعد موتها لیقو لُنَّ ﷲ قل الحمد لله بل أکثر هم لا یعقلون ) ( ۲ )

کتنے چلنے والے ایسے ہیں جو اپنا رزق حمل کرنے کی قدرت نہیں رکھتے خداانھیں اور تمھیں روزی دیتا ہے وہ سننے اور جاننے والا ہے اور جب بھی ان سے سوال کرو گے : کس نے زمین وآسمان کو پیدا کیا ہے اور سورج اور چاند کو مسخر کیا ہے ؟ توکہیں گے:''ﷲ'' پھر اس حال میں وہ لوگ کیسے منحرف ہو تے ہیں؟خدا اپنے بندوں میں جس کی روزی میں چاہتا ہے وسعت بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس کی روزی تنگ کر دیتا ہے خداوند عالم تمام چیزوں سے آگاہ ہے اور اگر ان سے پوچھو کہ کس نے آسمان سے پانی نازل کیا اور اس کے ذریعہ مردہ زمین کو زندہ کیا؟ کہیں گے: ''ﷲ'' کہو!حمد و ستائش خدا سے مخصوص ہے لیکن ان میں بہت سے لوگ نہیں جانتے ہیں۔

۳۔سورۂ سبا میں فرمایا:

____________________

(۱)شوریٰ۱۲

(۲) عنکبوت۶۰تا۶۳.

۱۴۶

( قل اِنَّ ربّیِ یبسط الرّزق لمَن یشاء من عباده و یقد ر له و ما أنفقتم من شیئٍ فهو يُخلفهُ وهوخیرالرّا زقین ) ( ۱ )

کہو! خدا اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کے رزق میں وسعت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس کا رزق تنگ کر دیتا ہے اور تم جو بھی خرچ کرتے ہو اس کی جگہ پرْ کر دیتا ہے اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔

۴۔سورہ اسراء میں ارشاد ہو تا ہے:

( ولا تجعل یدک مغلو لةً اِلی عنفک ولاتبسطها کلّ البسطِ فتقعد ملوماً محسوراً)(اِنَّ ربّک یبسط الرّزق لمَن یشاء ویقدر اِنّه کان بعباده خبیراً بصیراً)( ولا تقتلوا أولادکم خشية اِملاقٍ نحن نر زقهم و اِيّاکم اِنَّ قتلهم کان خطئاً کبیرا)( و لا تقر بوا مال الیتیم اِلّا با لتی هی أحسن حتیٰ یبلغ أشدّ ه و أو فو ا بالعهد اِنّ العهدکان مسوؤ لاً)( و أوفوا الکیل اِذا کلتم و زنوا با لقسطاس المستقیم ذلک خیر و أحسن تاویلاً ) (۲)

اپنے ہاتھوں کو پس گردن بندھاہوا قرار نہ دو ( تاکہ انفاق سے رک جاؤ) اور نہ ہی اتنا پھیلادو کہ سرزنش کے مستحق قرار پاؤ اور حسرت کا نشانہ بن جاؤ ،یقینا ًخدا جس کے رزق میں چاہتا ہے وسعت دیتا ہے اور جس کے رزق میں چاہتا ہے تنگی کر دیتا ہے،اپنے فرزندوں کو فقر و فاقہ کے خوف سے قتل نہ کرو ہم انھیں اور تمھیں روزی عنایت کرتے ہیںیقینا ً ان کا قتل کرنا ایک عظیم گناہ ہےاور یتیم کے مال سے بہترین طریقہ کے علاوہ قر یب نہ ہو نا جب تک کہ بلوغ کونہ پہنچ جائے اور اپنے عہد وپیمان کو وفا کرو کہ عہد وپیمان کے متعلق سوال ہوگا! اور جب کسی چیز کو تولو تو تو لنے کا حق ادا کرو اور صحیح ترازو سے وزن کرو کہ یہ بہتر اور نیک انجام کاذریعہ ہے۔

۵۔سورۂ آل عمران میں فرمایا:

( قل أللّهم مالک الملک تؤتیِ الملک من تشائُ و تنزع الملک ممّن تشاء و تعزّ مَن تشاء و تذّل مَن تشاء بیدک الخیر اِنّک علیٰ کلّ شیئٍ قدیر تولج اللیل فی النهار و تو لج النهار فی اللّیل و تخرج الحیَِّ من الميّت و تخرج الميّت من الحیِّ و تر زق مَن تشاء بغیرحسابٍ ) ( ۳ )

کہو!: خدا وندا! تو ہی حکو متوں کا مالک ہے جسے چاہتا ہے حکومت دیتاہے اور جس سے چاہتا ہے حکومت چھین لیتا ہے جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل ورسوا کر دیتاہے تما م خوبیاں تیر ے ہاتھ میں

____________________

(۱)سبا۳۹

(۲)اسراء ۲۹ تا ۳۵

۱۴۷

ہیں اورتو ہر چیز پر قادر ہے ،رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو شب میں ، اور مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ نکالتا ہے اور جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔

خدا کی مشیت کیسی اور کس طرح ہے؟

اعمال کی جز ا کی بحث میں ہم نے ذکر کیا کہ خدا وند عالم نے رزق کی وسعت ''صلہ رحم'' میں قرار دی ہے یعنی کوئی اپنے اعزاء و اقرباء سے صلہ رحم کرتا ہے تو اس کے رزق میں اضافہ ہو تا ہے اور انسان اپنے باپ کی صلاح و درستی کے آثار بعنوان میراث پاتا ہے ،جیسا کہ حضرت موسی اور بندہ ٔخدا حضرت خضر کی داستان میں گزر چکا ہے کہ گر تی ہوئی دیوار کو گر نے سے بچایا تا کہ اس کے نیچے دو یتیموں کا،کہ جن کا باپ صالح انسان تھا ،مد فون خزانہ بر باد نہ ہو جائے اور وہ دونوں بالغ ہو نے اور سن شعور تک پہنچنے کے بعداسے باہر نکالیں! یہ خدا کی مشیت و ارادہ کے دو نمو نے روزی عطا کرنے کے سلسلہ میں ہیں جو ثابت اور ناقابل تبدیل الٰہی سنت کی بنیاد پر جاری ہوتے ہیں ۔

____________________

(۱) آل عمران ۲۶، ۲۷

۱۴۸

سوم :مشیت خداوندی ہدایت اور راہنمائی میں

انسان کی ہدایت قرآن کریم کی رو سے دو قسم کی ہے:

۱۔ہدا یت اسلامی احکام اور عقائد کی تعلیم کے معنی میں

۲۔ ہدایت ایمان اور عمل صالح کی تو فیق کے معنی میں

قرآن کریم پہلی قسم کی ہدایت کی زیادہ تر پیغمبروں کی طرف نسبت دیتا ہے جنھیں خدا وند عالم نے اسلامی عقائدو احکام کی تبلیغ اور ا پنی پیغام رسا نی کے لئے انسانوں کی طرف بھیجا ہے اور کبھی خود خدا کی طرف نسبت دیتاہے کہ اس نے پیغمبروں کو دین اسلام کے ساتھ بھیجا ہے۔

قرآن کریم دوسری نوع ہد ایت کی نسبت خدا وند عالم کی طرف دیتا ہے اور کبھی مشیت کے ذکر کے ساتھ کہ ہدایت خدا کی مرضی اور اس کی خواہش ہے اور کبھی''مشیت'' کے ذکرکے بغیر۔

خدا وند عالم نے ہدایت کی دونوں قسموں سے بہرہ ور ہونے کی شرط لوگوں کا انتخاب اور پسندیدگی نیزاس کو حاصل کرنے کے لئے ان کے عملی اقدام کو قرار دیا ہے، اس کا بیان درجہ ذیل سہ گانہ مباحث میں کیاجارہا ہے:

الف: تعلیمی ہدایت

قرآن کریم لوگوں کی تعلیمی ہدایت کی تبلیغ اسلام کے معنی میں کبھی انبیاء کی طرف نسبت دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( و اِنّک لتهدی اِلیٰ صراط مستقیم ، صراط ﷲ الذی له ما فی السموات و ما فیِ الأرض اِلَا اِلیٰ ﷲ تصیر الأ مور )

اوریقیناً تم راہ راست کی طرف ہدایت کرتے ہواس خدا وند عالم کے راستے کی جانب کہ جو کچھ زمین وآسمان کے درمیان ہے

۱۴۹

سب اسی کا ہے ،آگاہ ہو جاؤ !تمام امور کی بازگشت خدا کی طرف ہے۔( ۱ )

اور کبھی انبیاء کے ہدایت کرنے کی خدا کی طرف نسبت دیتے ہوئے فرماتا ہے :

۱۔( و جعلنا هم أئمة یهدون بأمرنا ) ( ۲ )

اورہم نے انھیں پیشوا قرار دیا جو ہمارے فرمان کی ہدایت کرتے ہیں۔

۲۔( هوالذِی أرسل رسوله بالهدیٰ ودین الحقّ لیظهره علیٰ الدین کلّه ) ( ۳ )

وہ ایسی ذات ہے جس نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث کیا تا کہ اسے تمام ادیان پر غالب اورکامیاب کرے۔

اسی معنی میں آسمانی کتابوں کی طرف بھی ہدایت کی نسبت دیتے ہوئے فرماتا ہے:

۱۔( شهررمضان الذی انزل فیه القرآن هُدیً للناس وبيّناتٍ مِن الهدیٰ والفُرقانِِ ) ( ۴ )

ماہ رمضان ایک ایسا مہینہ ہے جس میں لوگوں کی ہدایت کرنے والا قرآن نازل کیا گیا اس میں ہدایت کی نشا نیاں اور حق و باطل کے درمیان جدائی ہے۔

۲۔( و أنزل التّوراة و الٔانجیل من قبل هدیً للناس ) ( ۵ )

لوگوں کی ہد ایت کے لئے پہلے توریت اور انجیل نازل فرمائی ہے۔

کبھی تعلیمی ہد ایت کی نسبت بلا واسطہ خدا کی طرف دیتے ہوئے فرمایا:

۱۔( ألم نجعل له عینین و لساناًو شفتین و هدیناه النّجد ین ) ( ۶ )

کیا ہم نے انسان کو دو آنکھیں نہیں دیں؟ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دئے؟ اور اسے راہ خیر وشر کی طرف ہدایت نہیں کی؟!

۲۔( و أمّا ثمود فهد ینا هم فا ستحبّوا العمیٰ علی الهدیٰ ) ( ۷ )

اور ہم نے قوم ثمود کی ہدایت کی لیکن انھوں نے ضلا لت اور نا بینائی کو ہدایت پر تر جیح دی۔

بنا براین خدا کبھی تعلیمی ہدایت اور آموزش اسلام کی نسبت پیغمبروں اور اپنی کتابوں کی طرف دیتا ہے اور کبھی اپنی پاک و پاکیزہ ذات کی طرف !اور یہ اس اعتبار سے ہے کہ خوداسی نے ان کتابوں کے ہمراہ لوگوں کی تعلیم کے لئے پیغمبروں کو بھیجا ہے۔

____________________

(۱)شوریٰ ۵۲،۵۳ (۲)انبیاء ۷۳(۳)توبہ ۳۳(۴) بقرہ ۱۸۵ (۵)آ ل عمراان۲،۳ (۶) بلد۸،۱۰ (۷) فصلت ۱۷

۱۵۰

انشاء اآئندہ بحث میں انسا ن کی ہدایت قبول کرنے یا نہ کرنے کی کیفیت تحقیق کے ساتھ بیان کریں گے۔

ب:انسان اور ہدایت یا گمراہی کاانتخاب

قرآنی آیات میں غور و خوض کر نے سے ہم درک کرتے ہیں کہ لوگ ہمیشہ انبیاء کے مبعوث ہونے اور آسمانی کتاب کے نازل ہو نے کے بعد دو گروہ میں تقسیم ہوئے ہیں: ایک گروہ ہدایت کو گمرا ہی پر ترجیح دیتا ہے اور اس کا انتخاب کرتا ہے اور دوسرا گروہ ضلالت و گمراہی کو ہدایت پر ترجیح و فوقیت دیتا ہے۔ اس سلسلہ میں درج ذیل آیات پر توجہ فرما ئیں:

۱ ۔( اِنّما أمرت أن اعبد ربّ هذه البلدة)( و أن أتلوا القرآن فمَن أهتدیٰ فِاّنما یهتدیِ لنفسه و مَن ضلَّ فقل اِنّما أنا من المنذ رین ) ( ۱ )

مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر کے ربّ کی عبادت کر وں اور قرآن کی تلاوت کروںلہٰذا جس نے ہدایت پائی اسنے اپنے فائدہ میں ہدایت پائی اور جو گمراہ ہو ا تو اس سے کہو ہم تو صرف ڈرانے والے ہیں۔

۲۔( قل یا أيّها الناس قد جاء کم الحقّ من ربّکم فمَن اهتدیٰ فاِنّما یهتدیِ لنفسه و مَن ضلَّ فِا ّنما یضلُّ علیها و ما أنا علیکم بوکیلٍ ) ( ۲ )

کہو: اے لوگو! تمہارے ربّ کی جانب سے حق تمہاری طرف آچکا ہے ،لہٰذا جو ہدایت پائے وہ اپنے نفع میں ہدایت یا فتہ ہوا ہے اور جو گمراہ ہو جائے تنہا اپنے ضرر میں گمراہ ہوا ہے اور میں تم پر وکیل نہیں ہوں۔

۳۔( مَن اهتدیٰ فاِنّما یتهدی لنفسه و مَن ضلَّ فاِ نّما یضلّ علیها ولا تزر واز رة وزرأخریٰ و ما کنّا معذّ بین حتیٰ نبعث رسولاً ) ( ۳ )

جو ہدایت پائے وہ اپنے فائدہ میں ہدایت یافتہ ہوا ہے اور جو گمراہ ہو جائے ا پنے ضرر اورنقصان میں گمراہ ہوا ہے اورکوئی بھی کسی دوسرے کے گناہ کا بار نہیں اٹھا ئے گا اور ہم اس وقت تک کسی کومعذب نہیں کرتے جب تک کہ کوئی پیغمبر مبعوث نہ کردیں۔

____________________

(۱)نمل ۹۱ ، ۹۲ (۲)یونس ۱۰۸

(۳)اسراء ۱۵

۱۵۱

ہدایت طلب انسان اور ﷲ کی امدا د(توفیق)

خدا وند عالم سورۂ مریم میں ہدایت طلب انسان کی ہدایت خواہی کے بارے میں فرماتا ہے:

( و یزید ﷲ الذین اهتدوا هُدیً ) ( ۱ )

اور وہ لوگ جو راہ ہدایت گامزن ہیں خدا ان کی ہدا یت میں اضافہ کردیتا ہے۔

سورۂ محمد میں ارشاد ہوتا ہے:

( والذین اهتدوازادهم هدیً واتا هم تقواهم ) ( ۲ )

وہ لوگ جو ہدایت یافتہ ہیں ،خدا وند عالم نے ان کی ہدایت میں اضافہ کیا اور انھیں روح تقوی عطا کی۔

جو لوگ ﷲ کے رسولوں کی آمد کے بعد ہدایت کا انتخاب کرتے ہوئے راہ خدا میں مجاہدت کرتے ہیں وہ لوگ توفیق الٰہی کے سزاوار ہوتے ہیں لیکن جن لوگوں نے پیغمبروں کی تکذیب کی اور اپنی نفسا نی خواہشات کا اتبا ع کیا ، ان کی گمرا ہی یقینی ہے۔

خدا دونوں گروہ کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( والذین جاهدوا فینا لنهد ینّهم سُبُلنا واِنَّ ﷲ لمع المُحسنینَ ) ( ۳ )

جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں یقینا ہم انھیں اپنی راہوں کی ہدایت کرتے ہیں اور خدا وند عالم نیکو کاروں کے ہمراہ ہے ۔

۲۔( ولقد بعثنا فی کل أمةٍ رسولاً ان اْعبدواﷲ واْجتنبواالطاغوت فمنهم من هدی ﷲ ومنهم من حقت علیه الضلا لة فسیروا فی الأرض فانظر وا کیف کان عا قبة المکذ بین ان تحرص علی هدا هم فان ﷲ لا یهدی من یضلُّ ومالهم من ناصرین ) ( ۴ )

ہم نے ہر امت کے درمیان ایک رسول مبعوث کیا تا کہ ﷲ کی عبادت کرو اور طاغوت سے دوری اختیار کرو !بعض کی خدا نے ہدایت کی اور بعض کی گمرا ہی ثابت ہوئی لہٰذا روئے زمین کی سیر کرو اوردیکھو کہ تکذیب کر نے والوں کا ا نجام کیا ہوا ؟ اگر ان کی ہدایت پر اصرار کرو گے تو (جان لو کہ) خدا جسے گمراہ کر دے

____________________

(۱) مریم، ۷۶(۲)محمد۱۷(۳) عنکبوت ۶۹ (۴)نحل ۳۶، ۳۷

۱۵۲

کبھی اس کی ہدایت نہیں کرتا اورایسے لوگوں کا کوئی ناصر ومد د گار نہیں ہے۔

۳۔( فر یقاً هدیٰ و فر یقاً حقّ علیهم الضلا لة اِنّهم اتّخذ واالشیاطین أولیاء من دون ﷲ و یحسبون أنّهم مهتدون ) ( ۱ )

خدا نے بعض گروہ کی ہدایت کی اور بعض گروہ کی گمرا ہی ان پرمسلط اور ثابت ہوگئی ہے کہ ان لوگوں نے شیاطین کو خدا کی جگہ اپنا ولی قرار دیا ہے اور خیال یہ کرتے ہیں کہ ہدایت یا فتہ ہیں۔

اس طرح کی ہدایت ''مشیت الٰہی'' کے ساتھ ہدایت ہے اسکی شرح آگے بیان کی جا رہی ہے۔

ج: ہدایت یعنی مشیت الٰہی سے ایمان و عمل کی توفیق

ہد ایت؛ ایمان وعمل میں مشیت الٰہی کے اشارے پرتوفیق الٰہی کے معنی میں پر سورہ بقرہ ، نور اور یونس کی درج ذیل آیات میں اس طرح وارد ہوئی ہے:

( وﷲ یهدی من یشاء اِلیٰ صراط مستقیم ) ( ۲ )

خدا جسے چاہے راہ راست کی ہدایت کرتا ہے۔

سورۂ انعام میں آیا ہے :

( من یشأ ﷲ یضلله و من یشأ یجعله علی صراط مستقیم ) ( ۳ )

خدا جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے صراط مستقیم پر قرا ر دیتا ہے ۔

سورۂ قصص میں آیاہے:

( اِنّک لا تهدی مَن أحببت و لکنّ ﷲ یهدی مَن یشاء و هوأعلم با لمهتدین ) ( ۴ )

جسے تم چاہو اسے ہدایت نہیں کر سکتے لیکن خدا جسے چاہے اس کی ہد ایت کرتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں سے زیادہ آگاہ ہے۔

کلمات کی تشریح

۱۔''صراط مستقیم'': صراط،آشکار اور واضح راستہ،مستقیم ایسا سیدھا جس میں کوئی کجی نہ ہو۔

____________________

(۱)اعراف ۳۰(۲) بقرہ۱۴۲،۲۱۳؛نور۴۶؛یونس۲۵ .(۳)انعام ۳۹(۴)قصص ۵۶.

۱۵۳

دین کے صراط مستقیم کوخداوند سبحان نے سورۂ حمد میں اس طرح بیان کیا ہے:

( صراط الذین أنعمت علیهم غیرالمغضوب علیهم ولاالضّا لین ) ( ۱ )

ان لوگوں کی واضح اور آشکار راہ جنھیں تونے نعمت دی ہے ،نہ ان لوگوںکی جن پر تو نے اپنا غضب نازل کیا ہے اور نہ ہی گمرا ہوں کی۔

خدا وند عالم نے سورۂ مریم میں جن لوگوں پر اپنی نعمت نازل کی ہے ان کو بیان کیا ہے اور زکریا،یحییٰ، مریم اور عیسیٰ علیہم السلام کی داستان نقل کر نے کے بعد فرماتاہے :و اذکر فی الکتاب ابراہیم اس کتاب( قرآن ) میں ابراہیم کو یاد کرو واذکر فی الکتاب موسیٰ اس کتاب میں موسیٰ کو یاد کروواذکر فی الکتاب اسماعیل اس کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو اذکر فی الکتاب ادریس اس کتاب میں ادریس کو یاد کرو۔

اس کے بعد فرماتاہے :

( أولآء ک الذین أنعم ﷲ علیهم من النّبيّین من ذرّية آدم)(و ممّن هدینا و اجتبینا اِذا تتلی علیهم آیات الرحمن خرّوا سجّداً و بکّیاً ) ( ۲ )

یہ وہ انبیاء ہیں آدم کی ذریت سے، جن پر خداوند سبحان نے نعمت نازل کی ہے اور ان لوگوں میں سے جنھیں ہم نے ہدایت کی اور انتخاب کیا جب ان پرآیات الٰہی کی تلاوت ہوتی ہے تو سجدہ کرتے ہوئے اوراشک بہاتے ہوئے خاک پر گر پڑتے ہیں۔

ان لوگوں کی صراط اور راہ دین اسلام ہے اور ان کی سیرت اور روشِ زندگی اس پر عمل ،وہی جس کی لوگوں کووہ دعوت دیتے تھے۔

۲۔''مغضوب علیھم'': جن لوگوں پر غضب نازل ہوا ،اس کی مصداق صرف قوم یہود تھی جس کا خداوند متعال نے سورۂ بقرہ میں تعارف کراتے ہوئے فرمایاہے:

( وضربت علیهم الذلّة و المسکنة و باء وا بغضبٍٍ مِن ﷲ ذلک بأ نّهم کانوا یکفرون بآ یات ﷲ و یقتلون النّبيّین بغیر الحقّ ذلک بما عصوا وکانوا یعتدون ) ( ۳ )

ان کے لئے ذلت و خواری ، رسوائی اوربیچار گی معین ہوئی اور خدا کے غیظ و غضب کے مستحق قرار

____________________

(۱)سورہ فاتحہ ۷(۲)مریم ۵۸.(۳)سورہ بقرہ ۶۱.

۱۵۴

پائے اور یہ اس وجہ سے ہوا کہ وہ آیات الٰہی کا انکار کرتے تھے اور پیغمبروں کو نا روا قتل کرتے تھے اوریہ ان کی نافر مانی اور تجاوز کی وجہ سے تھا۔انھیں تعبیرات کے مانند ان کے بارے میں سورۂ آل عمران( آیت:۱۱۲) میں بھی آیاہے۔

۳۔''ولاالضالین'': ضالین؛ گمراہ افراد ، وہ تمام لوگ جو اسلام سے منحرف اوررو گرداں ہیں ، جیسا کہ سورۂ آل عمران کی ۸۵- ۹۰ ویںآیت میں صراحت کے ساتھ فرماتاہے:

( و مَن یبتغ غیر الِاسلام دیناً فلن یقبل منه)( و أولئک هم الضّالّون )

جو بھی دین اسلام کے علاوہ کسی اور دین کا انتخاب کرے تو اس سے قبول نہیں کیا جائے گا وہی گمراہ لوگ ہیں۔

۴۔''یھدی'' : ہدایت کرتا ہے، اس کی شرح''ربّ العالمین'' کی بحث میں ملاحظہ کیجیے۔

چہارم : ﷲ کی مشیت عذاب اور رحمت میں

عذاب ورحمت کے سلسلہ میں مشیت الٰہی کا بیان قرآن کریم میں چند مقا مات پر منجملہ ان کے سورہ اعراف میں ہوا ہے ،خدا وند عالم موسیٰ کی دعا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( و اکتب لنا فِی هذه الدّنیا حسنة و فِی الٔاخرة اِنّا هد نا اِلیک قال عذابِی اصیب به مَن أشاء و رحمتِی وسعت کل شیئٍ فسأ کتبها للذین یتّقون و یؤ تون الزّکاة و الذین هم بآ یا تنا یؤ منون الذین یتّبعون الر سول النّبیِ الأ میِ الذی یجد ونه مکتوباً عند هم فی التوراة و الأِنجیل یأ مر هم با لمعروف و ینها هم عن المنکر و یحلَ لهم الطیبات و یحرّم علیهم الخبائث و یضع عنهم اِصر هم و الأغلا ل التیِ کانت علیهم فالذ ین آمنوا به و عزّروه ونصروه و اتّبعوا النور الذِی أنزل معه أ ولئک هم المفلحون ) ( ۱ )

(موسیٰ نے کہا:) اور ہمارے لئے اس دنیا اور آخرت میں نیکی معین کردے ہم تیری طرف لوٹ چکے ہیں، فرمایا : اپنا عذاب جس تک چاہوں گا پہنچا دوں گا اور میری رحمت تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے اس کو ان لوگوں کے لئے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں ، زکاة دیتے ہیں اور وہ لوگ جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں مقرر کروںگا، وہ لوگ اس پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور نبی امی کا اتباع کرتے ہیں ایسا پیغمبر جس کے صفات اپنے پاس موجود توریت و انجیل میں لکھاہوا پاتے ہیں ،جوان لوگوں کو نیکی کا حکم دیتا ہے اور منکر(برائی) سے روکتا ہے ان کے لئے پا کیزہ چیزوں کو حلال کرتا ہے اور نا پاک چیزوں کو حرام کرتا ہے اور سنگین اور وزنی بار (بوجھ) نیز وہ زنجیریں جس میں وہ جکڑ ے ہوئے تھے انھیں ان سے آزاد کرتا ہے ،پس ، جو لوگ اس پرایمان لائے اوراس کی عزت و توقیر کی اور اس کی نصرت فرمائی اور اس نور کی جو اس کے ساتھ نازل ہوا اس کی پیروی کی، وہی لوگ کا میاب ہیں۔

____________________

(۱)اعراف ۱۵۶،۱۵۷

۱۵۵

سورۂ انبیاء میں فرماتا ہے:

( اِقترب للناس حسابهم و هم فی غفلة ٍ معرضون)( ما یأتیهم من ذکرٍ من ربهم محدث اِلّااستمعوه و هم یلعبون)(لا هية قلو بهم و أسرّ وا النّجویٰ الذین ظلموا هل هذا اِلّا بشر مثلکم أفتا تون السحر و أنتم تبصرون)( قال ربّیِ یعلم القول فی السماء و الأرض و هو السمیع العلیم)( بل قالو ا أضغاث أحلا مٍ ٍ بل افتراه بل هو شاعر فلیا تنا بآيةٍ کما أرسل الأوّلون)( ما آمنت قبلهم من قريةٍ أهلکنا ها أفهُم یؤمنون)( و ما أر سلنا قبلک ألّا ر جالاً نو حیِ اِلیهم فسئلوا أهل الذِّکر أن کنتم لاتعلمون)( وما جعلنا هم جسداً لا یأ کلون الطعام و ما کانوا خالد ین)( ثَّم صد قنا هم الو عد فأ نجینا هم و مَن نشائُ و أهلکنا المسر فین)( لقد أنزلنا اِلیکم کتا باً فیه ذکر کم أفلا تعقلون ) ( ۱ )

لوگوں کا یوم حساب ان سے نز دیک ہو گیا اوروہ لوگ اسی طرح غفلت اور بے خبری کے عالم میں پڑے منحرف اور رو گرداں ہیں، جب بھی ان کے ربّ کی جانب سے ان کے لئے کوئی نئی یاد دہانی ان کے پاس آتی ہے تو اسے سنکر کھلواڑ بناتے اور استہزا ء کرتے ہیں،ان کے دل لہو ولعب اور بے خبری میں مشغول ہیں اور ظالموں نے سر گوشی میں کہا : کیا یہ تمھارے جیسے انسان کے علاوہ کچھ اور ہے ؟ کیادیکھنے کے با وجود سحر و جادو کے پیچھے دوڑتے ہو؟ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہا : میرا رب زمین و آسمان کی تمام گفتگو کو جانتا ہے وہ سننے والا اور دانا ہے ، بلکہ ان لوگوں نے کہا: ( یہ سب وحی نہیں ہے) بلکہ یہ سب خوابِ پریشان کا مجموعہ ہے، یاخدا کی طرف اس کی جھوٹی نسبت دی گئی ہے، نہیں بلکہ وہ ایک شاعر ہے !اسے ہمارے لئے کوئی معجزہ پیش کر نا چاہیے جس طرح گز شتہ انبیا ء بھیجے گئے تھے ، ان سے پہلے کی آبادیوں میں سے جن کو ہم نے نابود کر دیا ہے کوئی بھی ایمان نہیں لایا آیا یہ لوگ ایمان لائیں گے ؟ ہم نے تم سے پہلے ،جز ان مردوںکے جن پر ہم نے وحی کی کسی کو نہیں بھیجا ، پس تم لوگ اگر نہیں جانتے توجاننے والوں سے دریافت کر لو ۔ہم نے پیغمبروں کو ایسے اجسام میں قرار نہیں دیا ،جنہیںغذا کی ضرورت نہ ہو ، وہ لوگ عمر جاوداں بھی نہیں رکھتے تھے! پھر ہم نے ان سے جو وعدہ کیا تھااسے سچ کر دکھایا ،پس ان کو اور جنھیں ہم نے چاہا نجات دی اور زیادتی کرنے وا لوں کو ہلاک کر ڈالا ، ہم نے تم پر ایک کتاب نازل کی جس میں تمہاری یاد آوری اور بلندی کا سر مایہ ہے کیاتم درک نہیں کرتے ؟

____________________

(۱)انبیاء ۱۔۱۰

۱۵۶

سورۂ اسراء میں فرمایا :

( من کان یر ید العا جلة عجّلنا له فیها ما نشاء لمن نر ید ثمّ جعلنا له جهنم یصلا ها مذمو ماً مد حو راً ) ( و من اراد الآخر ة و سعی لها سعیها و هو مؤمن فاولائک کان سعیهم مشکورا ً ) کلا نمد هو لا ء هولائِ من عطا ء ر بّک و ما کان عطائُ ربک محظورا ً ) ( ۱ )

جو شخص زود گزر دنیا کی زند گی چاہے، تو ہم جو چا ہیں گے جسے چاہیں گے اس دنیا میں اسے دیدیں گے ،پھر جہنم اس کے لئے معین کریں گے تا کہ مردود بار گاہ اور راندہ درگاہ ہوکر اس کا جز ء لازم ہو جا ئے اور جو کوئی آخرت کاطلب گار ہو اوراس کے لئے کوشاں ر ہے، درانحالیکہ مومن ہو ،اس کی کوشش و تلاش کی جزا دی جائے گی ، ان دو گروہوں میں سے ہر ایک گروہ کی امداد کریں گے ،یہ تمہارے پر وردگار کی عطا ہے اور تمہارے رب کی عطاکسی پر بند نہیںہے ۔

سورۂ انسان میں فرماتا ہے:

( انَّ هٰئو لا ئِ يُحبّون العا جلة و یذ رون وراء هم یوما ً ثقیلا ً انََّ هذ ه تذ کرة فمن شائَ اتّخذ الیٰ ربّه سبیلا ً و ما تشا ء ون اِلّا أن یشاء ﷲ اِنَّ ﷲ کان علیما ً حکیما ید خل من یشاء فی رحمته والظا لمین أعدّ لهم عذا باً ألیماً ) ( ۲ )

یہ لوگ دنیا کی زود گزر زند گی چاہتے ہیں اور سخت دن کو پس پشت ڈال دیتے ہیں، یہ ایک یاد آوری ہے، پس جو چاہے اپنے رب کی طرف ایک راہ انتخاب کرے اور تم لوگ وہی چاہتے ہو جو خداچاہتا ہے ،خدا دانا اور حکیم ہے ،وہ جس کو چا ہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کر لیتا ہے اور اس نے ستمگروں کے لئے درد ناک عذاب مہیا کر رکھا ہے۔یہ'' رب العا لمین ''کے'' ارادہ'' اور ''مشیت'' کے معنی تھے،خدا وند متعال کے جملہ صفات میں سے ایک یہ ہے کہ جس چیز کو چاہتا ہے'' محو یا اثبات'' کرتا ہے اس کے معنی انشاء ﷲآئندہ بحث میں بیان کریں گے۔

____________________

(۱)اسراء ۱۸تا۲۰.

(۲)انسان۲۷تا۳۱.

۱۵۷

۶

بدا یا محو و اثبات

الف:۔ بداء کے معنی

ب:۔بداء ؛ اسلامی عقا ئد کے علماء کی اصطلاح میں

ج:۔بداء ؛ قرآن کریم کی رو شنی میں

د:۔ بداء سے متعلق مکتب خلفاء کی روایات

ھ:۔ بداء کے بارے میں ا ئمۂ اہل یبت کی روایات

اوّل: بداء کے لغوی معنی

بداء کے لغت میں دو معنی ہیں:

۱۔''بَدَأَ الْاَمْرُ بُدُوًّاو بَدَاْئً'' :یعنی یہ مو ضوع واضح و آشکار ہوا ، لہٰذا بداء کے ایک معنی آشکار اور واضح ہو نے کے ہیں۔

۲ ۔''بَدَاَ لَهُ فیِ اْلَاَمْرُ کَذَاْ '' : اس مو ضوع میں اس کے لئے ایسی رائے پیدا ہوئی، ایک نیا نظریہ ظاہرہوا۔

دوم: اسلامی عقائد کے علماء کی اصطلاح میں بداء کے معنی

اسلامی عقائد کے علماء نے کہا ہے :بداء خدا وند عالم کے بارے میں کسی ایسی چیز کا آشکار کرنا ہے ،جو بندوں پر مخفی ہو لیکن اس کا ظہور ان کے لئے ایک نئی بات ہو، اس بنا پر ، جن لوگوں کا خیال ہے کہ بداء سے مراد خدا کے بارے میں یہ ہے کہ حق تعا لیٰ کے لئے بھی مخلوقات کی طرح ایک نیا خیال اور ایک نئی رائے (اس کے علاوہ جو بداء سے پہلے تھی )پیدا ہوئی تو، وہ حددرجہ غلط فہمی کا شکار ہیں، سچ مچ خدا وند عالم اس سے کہیں زیادہ بلند و بر تر ہے جو وہ خیال کرتے ہیں۔

سوم: بداء قرآن کریم کی رو شنی میں

الف؛ خدا وند متعال سورہ رعد کی ۷ ویں اور ۲۷ ویں آیت میں فرماتا ہے :

( و یقول الذین کفروا لولا أنزل علیه آية من ربّه )

۱۵۸

اورجنھوں نے کفر اختیار کیا وہ کہتے ہیں : کیوں (ہماری پسند سے) کوئی آیت یا معجزہ اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل نہیں ہوا؟

ب : پھر اسی سورہ کی۳۸ویں تا۴۰ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( و ما کان لرسولٍ ٍ اِن یأتی باية اِلّابِأِذن ﷲ لکلّ أجل کتاب)( یمحو ﷲ ما یشاء و یثبت و عنده ام الکتاب)(و اِن ما نر ینّک بعض الذی نعد هم أو نتو فّینّک فاِنّما علیک البلاغ و علینا الحساب )

کسی پیغمبر کے لئے سزاوار نہیں ہے کہ اذن خدا وندی کے بغیر کوئی آیت یا معجزہ پیش کر دے ہر مدت اور زمانہ کے لئے ایک سر نوشت (نوشتہ مقرر)ہے، خدا جسے چاہتا ہے محو و نابود کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اپنی جگہ پر ثابت اورباقی رکھتا ہے اور ام الکتاب (لوح محفوظ)اس کے پاس ہے، اگر اس کا کچھ حصّہ جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے تمھیں دکھا دیں یا تمھیں ( وقت معین سے قبل) موت دیدیں، بہر صورت جو کچھ تمہاری ذمہ داری ہے وہ تبلیغ و پیغام ر سا نی ہے اور ( ان کا) حساب ہم پرہے۔

کلمات کی تشریح

۱۔''آےة'': آیت؛ لغت میں واضح و آشکار نشا نی اور علامت کوکہتے ہیں جیسا کہ اس شاعر نے کہا ہے:

وفی کلّ شیئٍ له آية :: تد ل علیٰ انّه واحد

اور ہر چیز میں اس کے وجود کی واضح و آشکارنشانی ہے جواس کے واحد اور یکتا ہو نے پر دلا لت کرتی ہے۔

انبیاء کے معجز ات کو آیت اس لئے کہتے ہیں کہ وہ ان کے صدق کی علامت اور قدرت الٰہی پر ایک دلیل ہے، وہی پرور دگارجس نے اس طرح کے معجزات پیش کر نے کی انہیںطاقت دی ہے جیسے مو سیٰ کا عصا اور جناب صالح کا ناقہ ،جیسا کہ سورۂ شعرا کی ۷۶ ویں اور اعراف کی ۷۳ ویں آیات میں بیان ہوا ہے۔

اسی طرح قرآن کریم نے انواع عذاب کو جسے خداوندسبحان نے کا فرامتوں پر نازل کیا آیت کا نام دیا ہے ،جیسا کہ سورۂ شعراء میں قوم نوح کے متعلق فرماتا ہے:

( ثمّ أغرقنابعد البا قین ، اِنّ فی ذلک لآ یة ً ) ( ۱ )

____________________

(۱)شعرائ ۱۲۰، ۱۲۱

۱۵۹

پھر ہم نے باقی رہ جانے والوں کو غرق کر دیا یقینااس میں علامت اور نشانی ہے۔

اور قوم ہود کے بارے میں فر ماتا ہے:

( فکذّ بوه فأهلکنا هم انَّ فی ذالک لَآ ية ) ً)( ۱ )

ان لوگوں نے اپنے پیغمبر(ہود) کی تکذ یب کی، ہم نے بھی انھیں نابود کر دیا، بیشک اس میں (عقلمندوں کے لئے )ایک آیت اور نشانی ہے۔ اور سورۂ اعراف میں قوم فرعون کے بارے میں ارشاد ہوا:

( فأ رسلنا علیهم الطوفان والجراد والقمل والضَّفا دع والدَّ م آیاتٍ مفصَّلات ) ( ۲ )

پھر ہم نے طوفان ،ٹڈ یاں ، جوں ،منیڈ ھک، کھٹمل اور خون کی صورت میں ان پر عذاب نازل کیا کہ ہر ایک جدا جداآیات اور نشانیاں تھیں۔

۲۔''اجل'': محدود مدت ، وقت، زمانہ، سر انجام،خاتمہ، انتہا۔

یہ جو کہا جاتاہے کہ فلاں کی اجل آ گئی یعنی مر گیااور اس کی مدت حیات تمام ہو گئی اور یہ جو کہا جاتا ہے: اس کے لئے ایک اجل (مدت) معین کی گئی ہے ،یعنی اس کے لئے ایک محدود وقت قرار دیاگیا ہے۔

۳۔'' کتاب'': کتاب کے مختلف اور متعد د معانی ہیں، لیکن یہاں پر اس سے مراد لکھی ہوئی مقداریا معین و مشخص مقدارہے،جیسے ''لکلّ أجل کتاب'' کے معنی، جو آیت میں مذکور ہیں، یہ ہیں کہ معجزہ پیش کر نے کا زمانہ پیغمبر کے ذریعہ پہلے سے معین ہے، یعنی ہرایک زمانہ کی ایک معین سر نو شت ہے ۔

۴۔''یمحو'': محو کرتا ہے، زائل کرتا ہے،مٹاتا ہے، محو لغت میں باطل کرنے اور نابود کرنے کے معنی میں ہے،جیسا کہ خدا وند عالم سورۂ اسراء کی ۱۲ ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

( فمحونا آية اللیل وجعلنا آية النهار مبصرة )

پھر ہم نے شب کی علامت کو مٹا دیا اور دن کی علامت کو روشنی بخش قرار دیا۔

اور سورۂ شوریٰ کی ۲۴ ویں آیت میں فرماتا ہے:

( ویمح ﷲ الباطل و یحق الحق بکلماته )

____________________

(۱) شعراء ۱۳۹(۲)اعراف ۱۳۳

۱۶۰