اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

اسلام کے عقائد(دوسری جلد )25%

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 122602 / ڈاؤنلوڈ: 4697
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(دوسری جلد )

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

عبد وعبادت

عَبَدَ :اس نے اطاعت کی''عبودیت'' یعنی: عاجزی و فرو تنی اورخضوع و خشوع کے ساتھ اطاعت بجالانااور''عبادت'' یعنی نہایت خضوع وخشوع اور فر وتنی وعاجزی کے ساتھ اطاعت کرناجو '' عبودیت''سے زیادہ بلیغ ہے۔

الف: عبودیت

سورہ حمد میں ''ربّ العالمین''کے ذکر کے بعد جملہ''ایاّک نعبد'' آیا ہے اس میں عبودیت بمعنی ٔ اطاعت ہے ،یعنی ہم صرف تیری ہی اطاعت کرتے ہیں۔

امام جعفر صادق ـ نے بھی ایک حدیث میں فرمایا ہے :

''مَن أطاع رجلاً فی معصية فقد عبده ''( ۱ )

جو شخص کسی انسان کی معصیت اور گناہ میں اطاعت کرے گویااس نے اسکی عبادت کی ہے۔

جیسا کہ ظاہر ہے عبادت و اطاعت ایک ساتھ اور ایک معنی میں استعمال ہو ئے ہیں۔امام علی رضا کی گفتگو میں بھی ہے کہ دوسرے کی بات سننے کو،جو ایک قسم کی اطاعت اور اس کی پیروی ہے،''عبادت'' سمجھاگیاہے، جیسا کہ فرمایا:

''مَن أصغیٰ اِلی ناطق فقد عبده فاِن کان الناطق عن ﷲ عزّ و جلّ فقد عبد ﷲ،واِن کان الناطق عن أبلیس فقد عبدأبلیس'' ( ۲ )

جو شخص کسی قائل کی آواز پر کان دھرے اس نے اس کی عبادت کی ہے اب اگر قائل خدا وند عالم کی بات کرے تو خدا کی عبادت کی اور اگر ابلیس کی بات کرے تو ابلیس کی عباد ت کی۔

عبادت: باشعور موجودات کے لئے اختیاری ہے لیکن دیگر مخلوقات کے لئے تسخیری اور غیر اختیاری

____________________

(۱)اصول کافی ج ۲، ص ۳۹۸(۲) عیون اخبار الرضا،ص۳۰۳، ح۶۳؛ وسایل الشیعہ ج۱۸، ص ۹۲ ح ۱۳

۱۴۱

ہے، جیسا کہ خدا وند سبحان نے فرمایا :

( یا أيّها الناس اعبد واربّکم الذی خلقکم و الذین من قبلکم.. ) .)( ۱ )

اے لوگو !اپنے رب کی عبادت کرو ،وہی جس نے تمکو اور تم سے پہلے والوں کو زیور تخلیق سے آراستہ کیا ہے۔

اوردیگر مو جودات کے بارے میں فرمایا :

( وللّه یسجد ما فی السموات وما فی الٔارض من دابة والملا ئکة وهم لا یستکبرون ) ( ۲ )

تمام وہ چیزیں جو آسمان وزمین میں پائی جاتی ہیں چلنے والی ہوں یا فرشتے خدا کے لئے سجدہ( عاجزی اور فرونتی) کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے ہیں۔

ب: عبد

عبد کے چار معنی ہیں:

۱۔غلام کے معنی میں جیسے سورۂ نمل میں خدا ارشاد فرماتا ہے:

( ضرب ﷲ مثلاً عبدا ً مملوکاً لا یقدر علیٰ شیئٍ ) ( ۳ )

خدا وند عالم نے ایک ایسے غلام مملوک کی مثال دی ہے جو کسی چیز پر قادر نہیں ہے۔

اس عبد کی جمع عبید ہے جیسا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمایا :

''مَن خرج ِالینا من العبید فهوحرّ'' ( ۴ )

جو غلام بھی ہماری سمت (اسلام کی طرف)آجائے وہ آزاد ہے۔

۲۔''عبد'' بندہ ہونے کے معنی میں بھی ہے اس کی سب سے زیادہ روشن اور واضح مثال خدا وند عالم کے ارشاد میں ہے کہ فرمایا:

( ِان کلّ مَن فی السموات والأر ض اِلّا أتی الرحمن عبداً ) ( ۵ )

زمین وآسمان کے ما بین کوئی نہیں ہے مگر یہ کہ بند گی کی حالت میں خدا وند رحمان کے سامنے آئے۔

اس معنی میں بھی عبد کی جمع ''عبید'' (بندے) ہے جیسے :

( و أنّ ﷲ لیس بظلام للعبید ) ( ۶ )

____________________

(۱)سورہ ٔ بقرہ ۲۱. (۲) نحل ۴۹(۳) نحل ۷۵(۴) مسند احمد ج۱، ص ۲۴۸ (۵)مریم ۹۳۔(۶)انفال ۵۱ ۔

۱۴۲

خدا وند عالم اپنے بندوںپر ظلم نہیں کرتا ہے۔

۳۔ ۴۔عبد؛،عبادت کرنے والے اور خدمت گزار بندہ کے معنی میں ہے جس کے بارے میں ''عابد'' کی تعبیر زیادہ بلیغ ہے، اس کی دو قسم ہے:

الف:خدا کا خالص'' عبد'' اورحقیقی بندہ ہونا جس کی جمع عباد آتی ہے جیسے خدا وند عالم کاکلام ان کے موسیٰ اور اوران کے جوان ساتھی کی داستان کی حکایت میں ہے،وہ فرماتا ہے:

( فوجدا عبداً من عبادنا آتینا ه رحمة من عند نا ) ( ۱ )

ا ن دونوںنے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ کو پایا جسے ہم نے اپنی خاص رحمت سے نوزا تھا۔

ب۔اور دنیا کا'' عبد'' بندہ ہونا یعنی جو شخص اپنا تمام ہم و غم اور اپنی تمام توانائی دنیا اور دنیا طلبی کے لئے وقف کر دے،یہاں بھی عبد کی جمع''عبید'' ہے جیسا کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' تَعِسَ عبد الدرھم وعبد الدینار''درہم ودینار کا بندہ ہلاک ہوگیا۔( ۲ )

اور چو نکہ پروردگار عالم بندوں کی ہدایت اور لوگوں کے ارشاد کے لئے امر ونہی کرتا ہے لہٰذا جو شخص فرمان خدا وندی کی اطاعت کرتاہے ا سے کہتے ہیں: (عَبَدَا لرّبَّ)اس نے خدا وند رحمان کی عبادت وبندگی کی، وہ عابد ہے یعنی:اس نے خدا کی اطاعت کی ہے اور و ہ پروردگار کا مطیع وفرمانبردار ہے۔

اور چونکہ''الہ''معبود کے معنی میں ہے اور اس کے لئے دینی مراسم منعقد کئے جاتے ہیں، کہتے ہیں: ''عَبَدَ فلان اِلا لہَ''فلاں نے خدا کی عبادت کی (پرستش کی)وہ عابد(پر ستش کرنے والا ہے)یعنی وہ دینی مراسم خدا کے لئے انجام دیتا ہے۔( ۳ )

جن صفات کو''الوہیت'' کی بحث میں '' الہٰ'' کے صفات میں شمار کیاہے اور ربوبیت کی بحث میں ان تمام صفات کورب ّ کے صفات سے جانا ہے وہ سارے کے سارے ﷲ ربّ العالمین کے صفات ہیں ، ﷲ ربّ العالمین کے صفات میں ایک دوسری صفت یہ ہے کہ ہر چیز کا جاری و ساری ہونا اس کی مشیت اور اس کی مرضی سے ہے اور ہم انشاء ﷲآئندہ بحث میں اس کی وضاحت کر یں گے۔

____________________

(۱)کہف:۶۵ (۲) سنن ابن ماجہ ص۱۳۸۶(۳)جو کچھ ہم نے''عبد'' کے بارے میں ذکر کیا ہے وہ مندرجہ ذیل کتابوں سے مادہ عبد کے مطالب کا خلاصہ ہے، جوہری کی کتاب صحاح ،مفردات القرآن راغب ،قاموس اللغة فیروز آبادی، معجم الفاط القرآن الکریم ،طبع مصر، ہم نے ان سب کی عبارت کو مخلوط کر کے ایک سیاق و اسلوب کے ساتھ بیان کیا ہے.

۱۴۳

۵

ربّ العالمین کی مشیت

الف ۔مشیت کے معنی

ب: رزق میں خدا کی مشیت

ج:ہدایت میں خدا کی مشیت

د: رحمت وعذاب میں خدا کی مشیت

۱- لغت اور قرآن کریم میں مشیت کے معنی

الف:مشیت کے لغوی معنی

مشیت کے لغوی معنی؛ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور اس معنی میں لوگ بھی ارادہ ومشیت کے مالک ہوتے ہیں ،خدا وند کریم نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:( اِنّ هذه تذکرة فمن شاء اتّخذا الیٰ ربّه سبیلاً ) ( ۱ )

یہ یاد دہانی ہے،لہٰذا جو چاہے اپنے پروردگار کی طرف راہ اختیار کرے۔یعنی اگر انسان چاہے اور ارداہ کرے کہ خدا کی سمت راہ انتخاب کرے تو وہ مکمل آزادی اور اپنے ارادہ واختیار کے ساتھ اس بات پر قادر ہے،اسی آیت سے ملتا جلتا مضمون سورہ مدثر کی ۵۵ ویں آیت عبس کی بارہویں آیت تکویر کی اٹھائیسویں آیت اور کہف کی ۹۲ آیت ویں وغیرہ میں بھی ذکر ہوا ہے،خدا وند سبحان نے لغوی مشیت کی نسبت بھی اپنے طرف دیتے ہوئے فرمایا:

۱۔( الم تر اِلی ربّک کیف مدّ الظلّ و لو شاء لجعله ساکناً ) ( ۲ )

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کس طرح تمہارے ربّ نے سایہ کو دراز کردیا؟اوراگر چاہتا تو ساکن کر دیتا.

۲۔( فاما الذین شَقُوا ففی النار لهم فیها زفیر و شهیق)( خالدین فیها ما دامت السموات و الأرض الا ما شاء ربّک انّ ربّک فعال لما يُرید)( وأما الذین سعدوا ففی الجنة خالدین فیها ما دامت السموات و الأرض الا ماشاء ربک عطائً غیر مجذوذٍ ) ( ۳ ) لیکن جو بد بخت ہو چکے ہیں،تو وہ آتش جہنم میں ہیں اور ان لوگوں کے لئے وہاں زفیر اور شہیق( آہ و نالہ وہ فریاد) ہے اور جب تک زمین وآسمان کا قیام ہے وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے مگر جو تمہارا رب چاہے اور تمہارا رب جو چاہتاہے انجام دیتا ہے، رہے وہ لوگ جو نیک بخت اور خوش قسمت ہیں وہ جنت میں ہیں اور

____________________

(۱) مزمل ۱۹ ؛ انسان ۲۹ (۲)فرقان ۴۶.(۳)ہود۱۰۶ ۱۰۸

۱۴۴

جب تک زمین وآسما ن کا قیام ہے وہ اس میں رہیں گے جز اس کے جو تمہارا رب چاہے یہ ایک دائمی بخشش ہے۔

ان دو آیتوںکے مانند سورۂ اسراء کی ۸۶ ویںاور فرقان کی ۵۱ ویںآیت میں بھی ذکر ہوا ہے۔

لیکن گزشتہ آیات کے معنی یہ ہیں:

۱۔خدا وندعالم نے پہلی جگہ فرمایا:

( الم تریٰ الی ربک کیف مدّ الظل و لو شاء لجعله ساکناً )

یعنی خدا وند عالم نے کس طرح ظہر کے بعد ،سورج کے مغرب سے قریب ہو نے کے تناسب سے سایہ کو مشرق کی جانب پھیلا دیایہاں تک کہ ڈوب کر شب میں اپنی آخر ی حد داخل ہو گیا اوراگر''چاہتا''تو سایہ کو ہمیشہ ساکن ہی رہنے دیتا ، سایہ کا دراز ہونا اوراس کا حرکت کرنا خدا کی مشیت اور اس کے ارادہ پر ہے اور مرضی الٰہی سے باہر نہیں ہے۔

۲۔ خدا نے دوسرے مقام پر فرمایا: اہل جہنم ہمیشہ کیلئے آتش میں ہیں اور اہل بہشت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بہشت میں ہیںاور یہ خدا کی قدرت اور مشیت کے تحت ہے اور اس کی مرضی اور مشیت سے خارج نہیں ہے۔

ب:مشیت؛ قرآنی اصطلاح میں

قرآن مجید میں جب بھی کلمات رزق، ہدایت،عذاب،رحمت اور ان کے مشتقات کے بعد ''مشیت خدا کی'' بحث ہو تی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ رزق وروزی ،ہدایت اور اس کے مانند دوسرے امور کا جاری ہونا ان سنتوں کی بنیاد پرہے جنہیں خدا وند عالم نے اپنی حکمت کے اقتضا ء سے معین فرمایا ہے اور خدا کی سنت ان امور میں نا قابل تبدیل ہے اور وہ اس آیت کے مصادیق و افراد میں سے ہیں جیسا کہ فرماتا ہے:

( سنة ﷲ و لن تجد لسنة ﷲ تبدیلاً ) ( ۱ )

یہ سنت الٰہی ہےاور سنت الٰہی میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہو تی ہے۔

جیسا کہ سورہ فاطر میں بھی ارشاد فرماتا ہے:

( فلن تجد لسنة ﷲ تبدیلاً و لن تجد لسنة ﷲ تحویلاً )

سنت خدا وندی میں کبھی تبدیلی نہیں پاؤ گے اور سنت الٰہی میں کبھی تغیر نہیں پاؤ گے۔

____________________

(۱)سورۂ احزاب ۶۲ اور فتح ۲۳.

۱۴۵

دوم ۔ رزق وروزی میں خدا کی مشیت

۱۔خدا وند عالم سورۂ شوریٰ میں فرماتا ہے:

( له مقا لید السموات و الأرض یبسط الرّزق لمن یشائُ و یقدر اِ ّنه بکل شیء ٍ علیم ) ( ۱ )

آسمانوں اور زمینوں کی کنجیاں اس سے مخصوص ہیں،جس کی روزی میں چاہتا ہے وسعت عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ا س کی روزی تنگ کر دیتا ہے وہ تمام چیزوں سے آگاہ ہے۔

سورئہ عنکبوت میں فرمایا ہے:

( وکأيّن من د ابةٍ لا تحمل رزقها ﷲ یر زقها و اِيّا کم و هو السمیع العلیم و لئِن سألتهم مَن خلق السموات والأرض و سخر الشمس و القمر لیقو لنّ ﷲ فأنّی یوفکون ﷲ یبسط الرّزق لمَن یشاء من عباده و یقدر له ِانّ ﷲ بکلّ شیٍئٍ علیم ولئن سا لتهم من نزّل من السماء مائً فأ حیا به الٔارض من بعد موتها لیقو لُنَّ ﷲ قل الحمد لله بل أکثر هم لا یعقلون ) ( ۲ )

کتنے چلنے والے ایسے ہیں جو اپنا رزق حمل کرنے کی قدرت نہیں رکھتے خداانھیں اور تمھیں روزی دیتا ہے وہ سننے اور جاننے والا ہے اور جب بھی ان سے سوال کرو گے : کس نے زمین وآسمان کو پیدا کیا ہے اور سورج اور چاند کو مسخر کیا ہے ؟ توکہیں گے:''ﷲ'' پھر اس حال میں وہ لوگ کیسے منحرف ہو تے ہیں؟خدا اپنے بندوں میں جس کی روزی میں چاہتا ہے وسعت بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس کی روزی تنگ کر دیتا ہے خداوند عالم تمام چیزوں سے آگاہ ہے اور اگر ان سے پوچھو کہ کس نے آسمان سے پانی نازل کیا اور اس کے ذریعہ مردہ زمین کو زندہ کیا؟ کہیں گے: ''ﷲ'' کہو!حمد و ستائش خدا سے مخصوص ہے لیکن ان میں بہت سے لوگ نہیں جانتے ہیں۔

۳۔سورۂ سبا میں فرمایا:

____________________

(۱)شوریٰ۱۲

(۲) عنکبوت۶۰تا۶۳.

۱۴۶

( قل اِنَّ ربّیِ یبسط الرّزق لمَن یشاء من عباده و یقد ر له و ما أنفقتم من شیئٍ فهو يُخلفهُ وهوخیرالرّا زقین ) ( ۱ )

کہو! خدا اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کے رزق میں وسعت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس کا رزق تنگ کر دیتا ہے اور تم جو بھی خرچ کرتے ہو اس کی جگہ پرْ کر دیتا ہے اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔

۴۔سورہ اسراء میں ارشاد ہو تا ہے:

( ولا تجعل یدک مغلو لةً اِلی عنفک ولاتبسطها کلّ البسطِ فتقعد ملوماً محسوراً)(اِنَّ ربّک یبسط الرّزق لمَن یشاء ویقدر اِنّه کان بعباده خبیراً بصیراً)( ولا تقتلوا أولادکم خشية اِملاقٍ نحن نر زقهم و اِيّاکم اِنَّ قتلهم کان خطئاً کبیرا)( و لا تقر بوا مال الیتیم اِلّا با لتی هی أحسن حتیٰ یبلغ أشدّ ه و أو فو ا بالعهد اِنّ العهدکان مسوؤ لاً)( و أوفوا الکیل اِذا کلتم و زنوا با لقسطاس المستقیم ذلک خیر و أحسن تاویلاً ) (۲)

اپنے ہاتھوں کو پس گردن بندھاہوا قرار نہ دو ( تاکہ انفاق سے رک جاؤ) اور نہ ہی اتنا پھیلادو کہ سرزنش کے مستحق قرار پاؤ اور حسرت کا نشانہ بن جاؤ ،یقینا ًخدا جس کے رزق میں چاہتا ہے وسعت دیتا ہے اور جس کے رزق میں چاہتا ہے تنگی کر دیتا ہے،اپنے فرزندوں کو فقر و فاقہ کے خوف سے قتل نہ کرو ہم انھیں اور تمھیں روزی عنایت کرتے ہیںیقینا ً ان کا قتل کرنا ایک عظیم گناہ ہےاور یتیم کے مال سے بہترین طریقہ کے علاوہ قر یب نہ ہو نا جب تک کہ بلوغ کونہ پہنچ جائے اور اپنے عہد وپیمان کو وفا کرو کہ عہد وپیمان کے متعلق سوال ہوگا! اور جب کسی چیز کو تولو تو تو لنے کا حق ادا کرو اور صحیح ترازو سے وزن کرو کہ یہ بہتر اور نیک انجام کاذریعہ ہے۔

۵۔سورۂ آل عمران میں فرمایا:

( قل أللّهم مالک الملک تؤتیِ الملک من تشائُ و تنزع الملک ممّن تشاء و تعزّ مَن تشاء و تذّل مَن تشاء بیدک الخیر اِنّک علیٰ کلّ شیئٍ قدیر تولج اللیل فی النهار و تو لج النهار فی اللّیل و تخرج الحیَِّ من الميّت و تخرج الميّت من الحیِّ و تر زق مَن تشاء بغیرحسابٍ ) ( ۳ )

کہو!: خدا وندا! تو ہی حکو متوں کا مالک ہے جسے چاہتا ہے حکومت دیتاہے اور جس سے چاہتا ہے حکومت چھین لیتا ہے جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل ورسوا کر دیتاہے تما م خوبیاں تیر ے ہاتھ میں

____________________

(۱)سبا۳۹

(۲)اسراء ۲۹ تا ۳۵

۱۴۷

ہیں اورتو ہر چیز پر قادر ہے ،رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو شب میں ، اور مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ نکالتا ہے اور جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔

خدا کی مشیت کیسی اور کس طرح ہے؟

اعمال کی جز ا کی بحث میں ہم نے ذکر کیا کہ خدا وند عالم نے رزق کی وسعت ''صلہ رحم'' میں قرار دی ہے یعنی کوئی اپنے اعزاء و اقرباء سے صلہ رحم کرتا ہے تو اس کے رزق میں اضافہ ہو تا ہے اور انسان اپنے باپ کی صلاح و درستی کے آثار بعنوان میراث پاتا ہے ،جیسا کہ حضرت موسی اور بندہ ٔخدا حضرت خضر کی داستان میں گزر چکا ہے کہ گر تی ہوئی دیوار کو گر نے سے بچایا تا کہ اس کے نیچے دو یتیموں کا،کہ جن کا باپ صالح انسان تھا ،مد فون خزانہ بر باد نہ ہو جائے اور وہ دونوں بالغ ہو نے اور سن شعور تک پہنچنے کے بعداسے باہر نکالیں! یہ خدا کی مشیت و ارادہ کے دو نمو نے روزی عطا کرنے کے سلسلہ میں ہیں جو ثابت اور ناقابل تبدیل الٰہی سنت کی بنیاد پر جاری ہوتے ہیں ۔

____________________

(۱) آل عمران ۲۶، ۲۷

۱۴۸

سوم :مشیت خداوندی ہدایت اور راہنمائی میں

انسان کی ہدایت قرآن کریم کی رو سے دو قسم کی ہے:

۱۔ہدا یت اسلامی احکام اور عقائد کی تعلیم کے معنی میں

۲۔ ہدایت ایمان اور عمل صالح کی تو فیق کے معنی میں

قرآن کریم پہلی قسم کی ہدایت کی زیادہ تر پیغمبروں کی طرف نسبت دیتا ہے جنھیں خدا وند عالم نے اسلامی عقائدو احکام کی تبلیغ اور ا پنی پیغام رسا نی کے لئے انسانوں کی طرف بھیجا ہے اور کبھی خود خدا کی طرف نسبت دیتاہے کہ اس نے پیغمبروں کو دین اسلام کے ساتھ بھیجا ہے۔

قرآن کریم دوسری نوع ہد ایت کی نسبت خدا وند عالم کی طرف دیتا ہے اور کبھی مشیت کے ذکر کے ساتھ کہ ہدایت خدا کی مرضی اور اس کی خواہش ہے اور کبھی''مشیت'' کے ذکرکے بغیر۔

خدا وند عالم نے ہدایت کی دونوں قسموں سے بہرہ ور ہونے کی شرط لوگوں کا انتخاب اور پسندیدگی نیزاس کو حاصل کرنے کے لئے ان کے عملی اقدام کو قرار دیا ہے، اس کا بیان درجہ ذیل سہ گانہ مباحث میں کیاجارہا ہے:

الف: تعلیمی ہدایت

قرآن کریم لوگوں کی تعلیمی ہدایت کی تبلیغ اسلام کے معنی میں کبھی انبیاء کی طرف نسبت دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( و اِنّک لتهدی اِلیٰ صراط مستقیم ، صراط ﷲ الذی له ما فی السموات و ما فیِ الأرض اِلَا اِلیٰ ﷲ تصیر الأ مور )

اوریقیناً تم راہ راست کی طرف ہدایت کرتے ہواس خدا وند عالم کے راستے کی جانب کہ جو کچھ زمین وآسمان کے درمیان ہے

۱۴۹

سب اسی کا ہے ،آگاہ ہو جاؤ !تمام امور کی بازگشت خدا کی طرف ہے۔( ۱ )

اور کبھی انبیاء کے ہدایت کرنے کی خدا کی طرف نسبت دیتے ہوئے فرماتا ہے :

۱۔( و جعلنا هم أئمة یهدون بأمرنا ) ( ۲ )

اورہم نے انھیں پیشوا قرار دیا جو ہمارے فرمان کی ہدایت کرتے ہیں۔

۲۔( هوالذِی أرسل رسوله بالهدیٰ ودین الحقّ لیظهره علیٰ الدین کلّه ) ( ۳ )

وہ ایسی ذات ہے جس نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث کیا تا کہ اسے تمام ادیان پر غالب اورکامیاب کرے۔

اسی معنی میں آسمانی کتابوں کی طرف بھی ہدایت کی نسبت دیتے ہوئے فرماتا ہے:

۱۔( شهررمضان الذی انزل فیه القرآن هُدیً للناس وبيّناتٍ مِن الهدیٰ والفُرقانِِ ) ( ۴ )

ماہ رمضان ایک ایسا مہینہ ہے جس میں لوگوں کی ہدایت کرنے والا قرآن نازل کیا گیا اس میں ہدایت کی نشا نیاں اور حق و باطل کے درمیان جدائی ہے۔

۲۔( و أنزل التّوراة و الٔانجیل من قبل هدیً للناس ) ( ۵ )

لوگوں کی ہد ایت کے لئے پہلے توریت اور انجیل نازل فرمائی ہے۔

کبھی تعلیمی ہد ایت کی نسبت بلا واسطہ خدا کی طرف دیتے ہوئے فرمایا:

۱۔( ألم نجعل له عینین و لساناًو شفتین و هدیناه النّجد ین ) ( ۶ )

کیا ہم نے انسان کو دو آنکھیں نہیں دیں؟ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دئے؟ اور اسے راہ خیر وشر کی طرف ہدایت نہیں کی؟!

۲۔( و أمّا ثمود فهد ینا هم فا ستحبّوا العمیٰ علی الهدیٰ ) ( ۷ )

اور ہم نے قوم ثمود کی ہدایت کی لیکن انھوں نے ضلا لت اور نا بینائی کو ہدایت پر تر جیح دی۔

بنا براین خدا کبھی تعلیمی ہدایت اور آموزش اسلام کی نسبت پیغمبروں اور اپنی کتابوں کی طرف دیتا ہے اور کبھی اپنی پاک و پاکیزہ ذات کی طرف !اور یہ اس اعتبار سے ہے کہ خوداسی نے ان کتابوں کے ہمراہ لوگوں کی تعلیم کے لئے پیغمبروں کو بھیجا ہے۔

____________________

(۱)شوریٰ ۵۲،۵۳ (۲)انبیاء ۷۳(۳)توبہ ۳۳(۴) بقرہ ۱۸۵ (۵)آ ل عمراان۲،۳ (۶) بلد۸،۱۰ (۷) فصلت ۱۷

۱۵۰

انشاء اآئندہ بحث میں انسا ن کی ہدایت قبول کرنے یا نہ کرنے کی کیفیت تحقیق کے ساتھ بیان کریں گے۔

ب:انسان اور ہدایت یا گمراہی کاانتخاب

قرآنی آیات میں غور و خوض کر نے سے ہم درک کرتے ہیں کہ لوگ ہمیشہ انبیاء کے مبعوث ہونے اور آسمانی کتاب کے نازل ہو نے کے بعد دو گروہ میں تقسیم ہوئے ہیں: ایک گروہ ہدایت کو گمرا ہی پر ترجیح دیتا ہے اور اس کا انتخاب کرتا ہے اور دوسرا گروہ ضلالت و گمراہی کو ہدایت پر ترجیح و فوقیت دیتا ہے۔ اس سلسلہ میں درج ذیل آیات پر توجہ فرما ئیں:

۱ ۔( اِنّما أمرت أن اعبد ربّ هذه البلدة)( و أن أتلوا القرآن فمَن أهتدیٰ فِاّنما یهتدیِ لنفسه و مَن ضلَّ فقل اِنّما أنا من المنذ رین ) ( ۱ )

مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر کے ربّ کی عبادت کر وں اور قرآن کی تلاوت کروںلہٰذا جس نے ہدایت پائی اسنے اپنے فائدہ میں ہدایت پائی اور جو گمراہ ہو ا تو اس سے کہو ہم تو صرف ڈرانے والے ہیں۔

۲۔( قل یا أيّها الناس قد جاء کم الحقّ من ربّکم فمَن اهتدیٰ فاِنّما یهتدیِ لنفسه و مَن ضلَّ فِا ّنما یضلُّ علیها و ما أنا علیکم بوکیلٍ ) ( ۲ )

کہو: اے لوگو! تمہارے ربّ کی جانب سے حق تمہاری طرف آچکا ہے ،لہٰذا جو ہدایت پائے وہ اپنے نفع میں ہدایت یا فتہ ہوا ہے اور جو گمراہ ہو جائے تنہا اپنے ضرر میں گمراہ ہوا ہے اور میں تم پر وکیل نہیں ہوں۔

۳۔( مَن اهتدیٰ فاِنّما یتهدی لنفسه و مَن ضلَّ فاِ نّما یضلّ علیها ولا تزر واز رة وزرأخریٰ و ما کنّا معذّ بین حتیٰ نبعث رسولاً ) ( ۳ )

جو ہدایت پائے وہ اپنے فائدہ میں ہدایت یافتہ ہوا ہے اور جو گمراہ ہو جائے ا پنے ضرر اورنقصان میں گمراہ ہوا ہے اورکوئی بھی کسی دوسرے کے گناہ کا بار نہیں اٹھا ئے گا اور ہم اس وقت تک کسی کومعذب نہیں کرتے جب تک کہ کوئی پیغمبر مبعوث نہ کردیں۔

____________________

(۱)نمل ۹۱ ، ۹۲ (۲)یونس ۱۰۸

(۳)اسراء ۱۵

۱۵۱

ہدایت طلب انسان اور ﷲ کی امدا د(توفیق)

خدا وند عالم سورۂ مریم میں ہدایت طلب انسان کی ہدایت خواہی کے بارے میں فرماتا ہے:

( و یزید ﷲ الذین اهتدوا هُدیً ) ( ۱ )

اور وہ لوگ جو راہ ہدایت گامزن ہیں خدا ان کی ہدا یت میں اضافہ کردیتا ہے۔

سورۂ محمد میں ارشاد ہوتا ہے:

( والذین اهتدوازادهم هدیً واتا هم تقواهم ) ( ۲ )

وہ لوگ جو ہدایت یافتہ ہیں ،خدا وند عالم نے ان کی ہدایت میں اضافہ کیا اور انھیں روح تقوی عطا کی۔

جو لوگ ﷲ کے رسولوں کی آمد کے بعد ہدایت کا انتخاب کرتے ہوئے راہ خدا میں مجاہدت کرتے ہیں وہ لوگ توفیق الٰہی کے سزاوار ہوتے ہیں لیکن جن لوگوں نے پیغمبروں کی تکذیب کی اور اپنی نفسا نی خواہشات کا اتبا ع کیا ، ان کی گمرا ہی یقینی ہے۔

خدا دونوں گروہ کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( والذین جاهدوا فینا لنهد ینّهم سُبُلنا واِنَّ ﷲ لمع المُحسنینَ ) ( ۳ )

جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں یقینا ہم انھیں اپنی راہوں کی ہدایت کرتے ہیں اور خدا وند عالم نیکو کاروں کے ہمراہ ہے ۔

۲۔( ولقد بعثنا فی کل أمةٍ رسولاً ان اْعبدواﷲ واْجتنبواالطاغوت فمنهم من هدی ﷲ ومنهم من حقت علیه الضلا لة فسیروا فی الأرض فانظر وا کیف کان عا قبة المکذ بین ان تحرص علی هدا هم فان ﷲ لا یهدی من یضلُّ ومالهم من ناصرین ) ( ۴ )

ہم نے ہر امت کے درمیان ایک رسول مبعوث کیا تا کہ ﷲ کی عبادت کرو اور طاغوت سے دوری اختیار کرو !بعض کی خدا نے ہدایت کی اور بعض کی گمرا ہی ثابت ہوئی لہٰذا روئے زمین کی سیر کرو اوردیکھو کہ تکذیب کر نے والوں کا ا نجام کیا ہوا ؟ اگر ان کی ہدایت پر اصرار کرو گے تو (جان لو کہ) خدا جسے گمراہ کر دے

____________________

(۱) مریم، ۷۶(۲)محمد۱۷(۳) عنکبوت ۶۹ (۴)نحل ۳۶، ۳۷

۱۵۲

کبھی اس کی ہدایت نہیں کرتا اورایسے لوگوں کا کوئی ناصر ومد د گار نہیں ہے۔

۳۔( فر یقاً هدیٰ و فر یقاً حقّ علیهم الضلا لة اِنّهم اتّخذ واالشیاطین أولیاء من دون ﷲ و یحسبون أنّهم مهتدون ) ( ۱ )

خدا نے بعض گروہ کی ہدایت کی اور بعض گروہ کی گمرا ہی ان پرمسلط اور ثابت ہوگئی ہے کہ ان لوگوں نے شیاطین کو خدا کی جگہ اپنا ولی قرار دیا ہے اور خیال یہ کرتے ہیں کہ ہدایت یا فتہ ہیں۔

اس طرح کی ہدایت ''مشیت الٰہی'' کے ساتھ ہدایت ہے اسکی شرح آگے بیان کی جا رہی ہے۔

ج: ہدایت یعنی مشیت الٰہی سے ایمان و عمل کی توفیق

ہد ایت؛ ایمان وعمل میں مشیت الٰہی کے اشارے پرتوفیق الٰہی کے معنی میں پر سورہ بقرہ ، نور اور یونس کی درج ذیل آیات میں اس طرح وارد ہوئی ہے:

( وﷲ یهدی من یشاء اِلیٰ صراط مستقیم ) ( ۲ )

خدا جسے چاہے راہ راست کی ہدایت کرتا ہے۔

سورۂ انعام میں آیا ہے :

( من یشأ ﷲ یضلله و من یشأ یجعله علی صراط مستقیم ) ( ۳ )

خدا جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے صراط مستقیم پر قرا ر دیتا ہے ۔

سورۂ قصص میں آیاہے:

( اِنّک لا تهدی مَن أحببت و لکنّ ﷲ یهدی مَن یشاء و هوأعلم با لمهتدین ) ( ۴ )

جسے تم چاہو اسے ہدایت نہیں کر سکتے لیکن خدا جسے چاہے اس کی ہد ایت کرتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں سے زیادہ آگاہ ہے۔

کلمات کی تشریح

۱۔''صراط مستقیم'': صراط،آشکار اور واضح راستہ،مستقیم ایسا سیدھا جس میں کوئی کجی نہ ہو۔

____________________

(۱)اعراف ۳۰(۲) بقرہ۱۴۲،۲۱۳؛نور۴۶؛یونس۲۵ .(۳)انعام ۳۹(۴)قصص ۵۶.

۱۵۳

دین کے صراط مستقیم کوخداوند سبحان نے سورۂ حمد میں اس طرح بیان کیا ہے:

( صراط الذین أنعمت علیهم غیرالمغضوب علیهم ولاالضّا لین ) ( ۱ )

ان لوگوں کی واضح اور آشکار راہ جنھیں تونے نعمت دی ہے ،نہ ان لوگوںکی جن پر تو نے اپنا غضب نازل کیا ہے اور نہ ہی گمرا ہوں کی۔

خدا وند عالم نے سورۂ مریم میں جن لوگوں پر اپنی نعمت نازل کی ہے ان کو بیان کیا ہے اور زکریا،یحییٰ، مریم اور عیسیٰ علیہم السلام کی داستان نقل کر نے کے بعد فرماتاہے :و اذکر فی الکتاب ابراہیم اس کتاب( قرآن ) میں ابراہیم کو یاد کرو واذکر فی الکتاب موسیٰ اس کتاب میں موسیٰ کو یاد کروواذکر فی الکتاب اسماعیل اس کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو اذکر فی الکتاب ادریس اس کتاب میں ادریس کو یاد کرو۔

اس کے بعد فرماتاہے :

( أولآء ک الذین أنعم ﷲ علیهم من النّبيّین من ذرّية آدم)(و ممّن هدینا و اجتبینا اِذا تتلی علیهم آیات الرحمن خرّوا سجّداً و بکّیاً ) ( ۲ )

یہ وہ انبیاء ہیں آدم کی ذریت سے، جن پر خداوند سبحان نے نعمت نازل کی ہے اور ان لوگوں میں سے جنھیں ہم نے ہدایت کی اور انتخاب کیا جب ان پرآیات الٰہی کی تلاوت ہوتی ہے تو سجدہ کرتے ہوئے اوراشک بہاتے ہوئے خاک پر گر پڑتے ہیں۔

ان لوگوں کی صراط اور راہ دین اسلام ہے اور ان کی سیرت اور روشِ زندگی اس پر عمل ،وہی جس کی لوگوں کووہ دعوت دیتے تھے۔

۲۔''مغضوب علیھم'': جن لوگوں پر غضب نازل ہوا ،اس کی مصداق صرف قوم یہود تھی جس کا خداوند متعال نے سورۂ بقرہ میں تعارف کراتے ہوئے فرمایاہے:

( وضربت علیهم الذلّة و المسکنة و باء وا بغضبٍٍ مِن ﷲ ذلک بأ نّهم کانوا یکفرون بآ یات ﷲ و یقتلون النّبيّین بغیر الحقّ ذلک بما عصوا وکانوا یعتدون ) ( ۳ )

ان کے لئے ذلت و خواری ، رسوائی اوربیچار گی معین ہوئی اور خدا کے غیظ و غضب کے مستحق قرار

____________________

(۱)سورہ فاتحہ ۷(۲)مریم ۵۸.(۳)سورہ بقرہ ۶۱.

۱۵۴

پائے اور یہ اس وجہ سے ہوا کہ وہ آیات الٰہی کا انکار کرتے تھے اور پیغمبروں کو نا روا قتل کرتے تھے اوریہ ان کی نافر مانی اور تجاوز کی وجہ سے تھا۔انھیں تعبیرات کے مانند ان کے بارے میں سورۂ آل عمران( آیت:۱۱۲) میں بھی آیاہے۔

۳۔''ولاالضالین'': ضالین؛ گمراہ افراد ، وہ تمام لوگ جو اسلام سے منحرف اوررو گرداں ہیں ، جیسا کہ سورۂ آل عمران کی ۸۵- ۹۰ ویںآیت میں صراحت کے ساتھ فرماتاہے:

( و مَن یبتغ غیر الِاسلام دیناً فلن یقبل منه)( و أولئک هم الضّالّون )

جو بھی دین اسلام کے علاوہ کسی اور دین کا انتخاب کرے تو اس سے قبول نہیں کیا جائے گا وہی گمراہ لوگ ہیں۔

۴۔''یھدی'' : ہدایت کرتا ہے، اس کی شرح''ربّ العالمین'' کی بحث میں ملاحظہ کیجیے۔

چہارم : ﷲ کی مشیت عذاب اور رحمت میں

عذاب ورحمت کے سلسلہ میں مشیت الٰہی کا بیان قرآن کریم میں چند مقا مات پر منجملہ ان کے سورہ اعراف میں ہوا ہے ،خدا وند عالم موسیٰ کی دعا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( و اکتب لنا فِی هذه الدّنیا حسنة و فِی الٔاخرة اِنّا هد نا اِلیک قال عذابِی اصیب به مَن أشاء و رحمتِی وسعت کل شیئٍ فسأ کتبها للذین یتّقون و یؤ تون الزّکاة و الذین هم بآ یا تنا یؤ منون الذین یتّبعون الر سول النّبیِ الأ میِ الذی یجد ونه مکتوباً عند هم فی التوراة و الأِنجیل یأ مر هم با لمعروف و ینها هم عن المنکر و یحلَ لهم الطیبات و یحرّم علیهم الخبائث و یضع عنهم اِصر هم و الأغلا ل التیِ کانت علیهم فالذ ین آمنوا به و عزّروه ونصروه و اتّبعوا النور الذِی أنزل معه أ ولئک هم المفلحون ) ( ۱ )

(موسیٰ نے کہا:) اور ہمارے لئے اس دنیا اور آخرت میں نیکی معین کردے ہم تیری طرف لوٹ چکے ہیں، فرمایا : اپنا عذاب جس تک چاہوں گا پہنچا دوں گا اور میری رحمت تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے اس کو ان لوگوں کے لئے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں ، زکاة دیتے ہیں اور وہ لوگ جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں مقرر کروںگا، وہ لوگ اس پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور نبی امی کا اتباع کرتے ہیں ایسا پیغمبر جس کے صفات اپنے پاس موجود توریت و انجیل میں لکھاہوا پاتے ہیں ،جوان لوگوں کو نیکی کا حکم دیتا ہے اور منکر(برائی) سے روکتا ہے ان کے لئے پا کیزہ چیزوں کو حلال کرتا ہے اور نا پاک چیزوں کو حرام کرتا ہے اور سنگین اور وزنی بار (بوجھ) نیز وہ زنجیریں جس میں وہ جکڑ ے ہوئے تھے انھیں ان سے آزاد کرتا ہے ،پس ، جو لوگ اس پرایمان لائے اوراس کی عزت و توقیر کی اور اس کی نصرت فرمائی اور اس نور کی جو اس کے ساتھ نازل ہوا اس کی پیروی کی، وہی لوگ کا میاب ہیں۔

____________________

(۱)اعراف ۱۵۶،۱۵۷

۱۵۵

سورۂ انبیاء میں فرماتا ہے:

( اِقترب للناس حسابهم و هم فی غفلة ٍ معرضون)( ما یأتیهم من ذکرٍ من ربهم محدث اِلّااستمعوه و هم یلعبون)(لا هية قلو بهم و أسرّ وا النّجویٰ الذین ظلموا هل هذا اِلّا بشر مثلکم أفتا تون السحر و أنتم تبصرون)( قال ربّیِ یعلم القول فی السماء و الأرض و هو السمیع العلیم)( بل قالو ا أضغاث أحلا مٍ ٍ بل افتراه بل هو شاعر فلیا تنا بآيةٍ کما أرسل الأوّلون)( ما آمنت قبلهم من قريةٍ أهلکنا ها أفهُم یؤمنون)( و ما أر سلنا قبلک ألّا ر جالاً نو حیِ اِلیهم فسئلوا أهل الذِّکر أن کنتم لاتعلمون)( وما جعلنا هم جسداً لا یأ کلون الطعام و ما کانوا خالد ین)( ثَّم صد قنا هم الو عد فأ نجینا هم و مَن نشائُ و أهلکنا المسر فین)( لقد أنزلنا اِلیکم کتا باً فیه ذکر کم أفلا تعقلون ) ( ۱ )

لوگوں کا یوم حساب ان سے نز دیک ہو گیا اوروہ لوگ اسی طرح غفلت اور بے خبری کے عالم میں پڑے منحرف اور رو گرداں ہیں، جب بھی ان کے ربّ کی جانب سے ان کے لئے کوئی نئی یاد دہانی ان کے پاس آتی ہے تو اسے سنکر کھلواڑ بناتے اور استہزا ء کرتے ہیں،ان کے دل لہو ولعب اور بے خبری میں مشغول ہیں اور ظالموں نے سر گوشی میں کہا : کیا یہ تمھارے جیسے انسان کے علاوہ کچھ اور ہے ؟ کیادیکھنے کے با وجود سحر و جادو کے پیچھے دوڑتے ہو؟ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہا : میرا رب زمین و آسمان کی تمام گفتگو کو جانتا ہے وہ سننے والا اور دانا ہے ، بلکہ ان لوگوں نے کہا: ( یہ سب وحی نہیں ہے) بلکہ یہ سب خوابِ پریشان کا مجموعہ ہے، یاخدا کی طرف اس کی جھوٹی نسبت دی گئی ہے، نہیں بلکہ وہ ایک شاعر ہے !اسے ہمارے لئے کوئی معجزہ پیش کر نا چاہیے جس طرح گز شتہ انبیا ء بھیجے گئے تھے ، ان سے پہلے کی آبادیوں میں سے جن کو ہم نے نابود کر دیا ہے کوئی بھی ایمان نہیں لایا آیا یہ لوگ ایمان لائیں گے ؟ ہم نے تم سے پہلے ،جز ان مردوںکے جن پر ہم نے وحی کی کسی کو نہیں بھیجا ، پس تم لوگ اگر نہیں جانتے توجاننے والوں سے دریافت کر لو ۔ہم نے پیغمبروں کو ایسے اجسام میں قرار نہیں دیا ،جنہیںغذا کی ضرورت نہ ہو ، وہ لوگ عمر جاوداں بھی نہیں رکھتے تھے! پھر ہم نے ان سے جو وعدہ کیا تھااسے سچ کر دکھایا ،پس ان کو اور جنھیں ہم نے چاہا نجات دی اور زیادتی کرنے وا لوں کو ہلاک کر ڈالا ، ہم نے تم پر ایک کتاب نازل کی جس میں تمہاری یاد آوری اور بلندی کا سر مایہ ہے کیاتم درک نہیں کرتے ؟

____________________

(۱)انبیاء ۱۔۱۰

۱۵۶

سورۂ اسراء میں فرمایا :

( من کان یر ید العا جلة عجّلنا له فیها ما نشاء لمن نر ید ثمّ جعلنا له جهنم یصلا ها مذمو ماً مد حو راً ) ( و من اراد الآخر ة و سعی لها سعیها و هو مؤمن فاولائک کان سعیهم مشکورا ً ) کلا نمد هو لا ء هولائِ من عطا ء ر بّک و ما کان عطائُ ربک محظورا ً ) ( ۱ )

جو شخص زود گزر دنیا کی زند گی چاہے، تو ہم جو چا ہیں گے جسے چاہیں گے اس دنیا میں اسے دیدیں گے ،پھر جہنم اس کے لئے معین کریں گے تا کہ مردود بار گاہ اور راندہ درگاہ ہوکر اس کا جز ء لازم ہو جا ئے اور جو کوئی آخرت کاطلب گار ہو اوراس کے لئے کوشاں ر ہے، درانحالیکہ مومن ہو ،اس کی کوشش و تلاش کی جزا دی جائے گی ، ان دو گروہوں میں سے ہر ایک گروہ کی امداد کریں گے ،یہ تمہارے پر وردگار کی عطا ہے اور تمہارے رب کی عطاکسی پر بند نہیںہے ۔

سورۂ انسان میں فرماتا ہے:

( انَّ هٰئو لا ئِ يُحبّون العا جلة و یذ رون وراء هم یوما ً ثقیلا ً انََّ هذ ه تذ کرة فمن شائَ اتّخذ الیٰ ربّه سبیلا ً و ما تشا ء ون اِلّا أن یشاء ﷲ اِنَّ ﷲ کان علیما ً حکیما ید خل من یشاء فی رحمته والظا لمین أعدّ لهم عذا باً ألیماً ) ( ۲ )

یہ لوگ دنیا کی زود گزر زند گی چاہتے ہیں اور سخت دن کو پس پشت ڈال دیتے ہیں، یہ ایک یاد آوری ہے، پس جو چاہے اپنے رب کی طرف ایک راہ انتخاب کرے اور تم لوگ وہی چاہتے ہو جو خداچاہتا ہے ،خدا دانا اور حکیم ہے ،وہ جس کو چا ہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کر لیتا ہے اور اس نے ستمگروں کے لئے درد ناک عذاب مہیا کر رکھا ہے۔یہ'' رب العا لمین ''کے'' ارادہ'' اور ''مشیت'' کے معنی تھے،خدا وند متعال کے جملہ صفات میں سے ایک یہ ہے کہ جس چیز کو چاہتا ہے'' محو یا اثبات'' کرتا ہے اس کے معنی انشاء ﷲآئندہ بحث میں بیان کریں گے۔

____________________

(۱)اسراء ۱۸تا۲۰.

(۲)انسان۲۷تا۳۱.

۱۵۷

۶

بدا یا محو و اثبات

الف:۔ بداء کے معنی

ب:۔بداء ؛ اسلامی عقا ئد کے علماء کی اصطلاح میں

ج:۔بداء ؛ قرآن کریم کی رو شنی میں

د:۔ بداء سے متعلق مکتب خلفاء کی روایات

ھ:۔ بداء کے بارے میں ا ئمۂ اہل یبت کی روایات

اوّل: بداء کے لغوی معنی

بداء کے لغت میں دو معنی ہیں:

۱۔''بَدَأَ الْاَمْرُ بُدُوًّاو بَدَاْئً'' :یعنی یہ مو ضوع واضح و آشکار ہوا ، لہٰذا بداء کے ایک معنی آشکار اور واضح ہو نے کے ہیں۔

۲ ۔''بَدَاَ لَهُ فیِ اْلَاَمْرُ کَذَاْ '' : اس مو ضوع میں اس کے لئے ایسی رائے پیدا ہوئی، ایک نیا نظریہ ظاہرہوا۔

دوم: اسلامی عقائد کے علماء کی اصطلاح میں بداء کے معنی

اسلامی عقائد کے علماء نے کہا ہے :بداء خدا وند عالم کے بارے میں کسی ایسی چیز کا آشکار کرنا ہے ،جو بندوں پر مخفی ہو لیکن اس کا ظہور ان کے لئے ایک نئی بات ہو، اس بنا پر ، جن لوگوں کا خیال ہے کہ بداء سے مراد خدا کے بارے میں یہ ہے کہ حق تعا لیٰ کے لئے بھی مخلوقات کی طرح ایک نیا خیال اور ایک نئی رائے (اس کے علاوہ جو بداء سے پہلے تھی )پیدا ہوئی تو، وہ حددرجہ غلط فہمی کا شکار ہیں، سچ مچ خدا وند عالم اس سے کہیں زیادہ بلند و بر تر ہے جو وہ خیال کرتے ہیں۔

سوم: بداء قرآن کریم کی رو شنی میں

الف؛ خدا وند متعال سورہ رعد کی ۷ ویں اور ۲۷ ویں آیت میں فرماتا ہے :

( و یقول الذین کفروا لولا أنزل علیه آية من ربّه )

۱۵۸

اورجنھوں نے کفر اختیار کیا وہ کہتے ہیں : کیوں (ہماری پسند سے) کوئی آیت یا معجزہ اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل نہیں ہوا؟

ب : پھر اسی سورہ کی۳۸ویں تا۴۰ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( و ما کان لرسولٍ ٍ اِن یأتی باية اِلّابِأِذن ﷲ لکلّ أجل کتاب)( یمحو ﷲ ما یشاء و یثبت و عنده ام الکتاب)(و اِن ما نر ینّک بعض الذی نعد هم أو نتو فّینّک فاِنّما علیک البلاغ و علینا الحساب )

کسی پیغمبر کے لئے سزاوار نہیں ہے کہ اذن خدا وندی کے بغیر کوئی آیت یا معجزہ پیش کر دے ہر مدت اور زمانہ کے لئے ایک سر نوشت (نوشتہ مقرر)ہے، خدا جسے چاہتا ہے محو و نابود کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اپنی جگہ پر ثابت اورباقی رکھتا ہے اور ام الکتاب (لوح محفوظ)اس کے پاس ہے، اگر اس کا کچھ حصّہ جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے تمھیں دکھا دیں یا تمھیں ( وقت معین سے قبل) موت دیدیں، بہر صورت جو کچھ تمہاری ذمہ داری ہے وہ تبلیغ و پیغام ر سا نی ہے اور ( ان کا) حساب ہم پرہے۔

کلمات کی تشریح

۱۔''آےة'': آیت؛ لغت میں واضح و آشکار نشا نی اور علامت کوکہتے ہیں جیسا کہ اس شاعر نے کہا ہے:

وفی کلّ شیئٍ له آية :: تد ل علیٰ انّه واحد

اور ہر چیز میں اس کے وجود کی واضح و آشکارنشانی ہے جواس کے واحد اور یکتا ہو نے پر دلا لت کرتی ہے۔

انبیاء کے معجز ات کو آیت اس لئے کہتے ہیں کہ وہ ان کے صدق کی علامت اور قدرت الٰہی پر ایک دلیل ہے، وہی پرور دگارجس نے اس طرح کے معجزات پیش کر نے کی انہیںطاقت دی ہے جیسے مو سیٰ کا عصا اور جناب صالح کا ناقہ ،جیسا کہ سورۂ شعرا کی ۷۶ ویں اور اعراف کی ۷۳ ویں آیات میں بیان ہوا ہے۔

اسی طرح قرآن کریم نے انواع عذاب کو جسے خداوندسبحان نے کا فرامتوں پر نازل کیا آیت کا نام دیا ہے ،جیسا کہ سورۂ شعراء میں قوم نوح کے متعلق فرماتا ہے:

( ثمّ أغرقنابعد البا قین ، اِنّ فی ذلک لآ یة ً ) ( ۱ )

____________________

(۱)شعرائ ۱۲۰، ۱۲۱

۱۵۹

پھر ہم نے باقی رہ جانے والوں کو غرق کر دیا یقینااس میں علامت اور نشانی ہے۔

اور قوم ہود کے بارے میں فر ماتا ہے:

( فکذّ بوه فأهلکنا هم انَّ فی ذالک لَآ ية ) ً)( ۱ )

ان لوگوں نے اپنے پیغمبر(ہود) کی تکذ یب کی، ہم نے بھی انھیں نابود کر دیا، بیشک اس میں (عقلمندوں کے لئے )ایک آیت اور نشانی ہے۔ اور سورۂ اعراف میں قوم فرعون کے بارے میں ارشاد ہوا:

( فأ رسلنا علیهم الطوفان والجراد والقمل والضَّفا دع والدَّ م آیاتٍ مفصَّلات ) ( ۲ )

پھر ہم نے طوفان ،ٹڈ یاں ، جوں ،منیڈ ھک، کھٹمل اور خون کی صورت میں ان پر عذاب نازل کیا کہ ہر ایک جدا جداآیات اور نشانیاں تھیں۔

۲۔''اجل'': محدود مدت ، وقت، زمانہ، سر انجام،خاتمہ، انتہا۔

یہ جو کہا جاتاہے کہ فلاں کی اجل آ گئی یعنی مر گیااور اس کی مدت حیات تمام ہو گئی اور یہ جو کہا جاتا ہے: اس کے لئے ایک اجل (مدت) معین کی گئی ہے ،یعنی اس کے لئے ایک محدود وقت قرار دیاگیا ہے۔

۳۔'' کتاب'': کتاب کے مختلف اور متعد د معانی ہیں، لیکن یہاں پر اس سے مراد لکھی ہوئی مقداریا معین و مشخص مقدارہے،جیسے ''لکلّ أجل کتاب'' کے معنی، جو آیت میں مذکور ہیں، یہ ہیں کہ معجزہ پیش کر نے کا زمانہ پیغمبر کے ذریعہ پہلے سے معین ہے، یعنی ہرایک زمانہ کی ایک معین سر نو شت ہے ۔

۴۔''یمحو'': محو کرتا ہے، زائل کرتا ہے،مٹاتا ہے، محو لغت میں باطل کرنے اور نابود کرنے کے معنی میں ہے،جیسا کہ خدا وند عالم سورۂ اسراء کی ۱۲ ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

( فمحونا آية اللیل وجعلنا آية النهار مبصرة )

پھر ہم نے شب کی علامت کو مٹا دیا اور دن کی علامت کو روشنی بخش قرار دیا۔

اور سورۂ شوریٰ کی ۲۴ ویں آیت میں فرماتا ہے:

( ویمح ﷲ الباطل و یحق الحق بکلماته )

____________________

(۱) شعراء ۱۳۹(۲)اعراف ۱۳۳

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

عوامل اختلاف كے ساتھ قاطعيت كے ساتھ نمٹنے واكے رہبر تھے _إنى خشيت ا ن تقول فرقت بين بنى إسرائيل

۲۰ _ انتشار و افتراق ڈالنے كا الزام حضرت ہارون(ع) كيلئے سخت اور ناقابل برداشت تھا _إنى خشيت ا ن تقول فرقت بين بنى إسرائيل حضرت ہارون(ع) كا تفرقہ ڈالنے كے الزام سے خوف كلمہ ''خشيت'' كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ جس ميں خوف كے ہمراہ بڑا شمار كرنا بھى ہے اسكے ان كے لئے سخت ناگوار ہونے پر دلالت كرتا ہے_

۲۱ _ لمبى ڈاڑھي، اديان آسمانى كے ماننے والوں كى تاريخ ميں مطلوب وضع قطع كا حصہ رہى ہے _لا تأخذ بلحيتي

۲۲ _''على بن سالم عن ا بيه قال: قلت لابى عبدالله (ع) ا خبرنى عن هارون لم قال لموسي(ع) يابن ا م و لم يقل يابن ا بى فقال: إنّ العداوات بين الاخوة ا كثرها تكون اذا كانوا بنى علات و متى كانوا بنى ا م قلت العداوة بينهم قال: قلت له : فلم ا خذ برا سه يجره اليه و بلحيته و لم يكن له فى اتخاذهم العجل و عبادتهم له ذنب؟ فقال: انّما فعل ذلك به لأنه لم يفارقهم لما فعلوا ذلك و لم يلحق بموسى (ع) و كان اذا فارقهم ينزل بهم العذاب ; على ابن سالم نے اپنے باپ سے نقل كيا ہے كہ اس نے كہا ميں نے امام صادق (ع) كى خدمت ميں عرض كيا مجھے حضرت ہارون(ع) كے بارے ميں بتايئےہ انہوں نے كيوں اپنے بھائي موسى (ع) سے كہا''اے ميرى ماں كے بيٹے ...'' اور نہيں كہا اے ميرے باپ كے بيٹے؟ تو امام(ع) نے فرمايا بھائيوں كے درميان اس وقت دشمنى زيادہ ہوتى ہے جب ان كى مائيں مختلف ہوں اور اگر انكى ماں ايك ہو تو ان كے درميان دشمنى كم ہوتى ہے_ ميں نے امام(ع) سے عرض كيا كيوں حضرت موسى (ع) نے اپنے بھائي كى داڑھى پكڑ كر اسے اپنى طرف كھينچا تھا جبكہ اس قوم كى بچھڑا پرستى ميں ہارون(ع) كا كوئي قصور نہيں تھا امام نے فرمايا اس لئے كہ وہ بچھڑا پرستى كے زمانے ميں ان سے جدا ہوكر موسي(ع) كے ساتھ ملحق نہ ہوئے اور اگر انہيں چھوڑ ديتے تو ان پر عذاب نازل ہوجاتا _(۱)

۲۳ _''عن ا بى جعفر (ع) قال: انّ ا مير المؤمنين (ع) خطب الناس فقال: كان هارون ا خا موسى لابيه و ا مّه ; امام محمد باقر(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا اميرالمؤمنين (ع) نے لوگوں كو خطبہ ديا پھر فرمايا ہارون(ع) ،حضرت موسى (ع) كے

____________________

۱ ) علل الشرائع ص ۶۸ ب ۵۸ ح ۱; نورالثقلين ج ۳ ص ۷۲ ج ۲۷_

۱۸۱

باپ اور ماں كى طرف سے بھائي تھے_(۱)

اتحاد:اسكى اہميت ۱۴/انبياء (ع) :ان كا اثر قبول كرنا ۶; ان كے احساسات كو تحريك كرنا ۶; انكے علم كا دائرہ ۱۰

اہم و مہم: ۱۴/ان كے درج۱۵

بنى اسرائيل:انكى بچھڑا پرستى كے اثرات ۱، ۲; انكے اتحاد كى اہميت ۱۲; يہ موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں ۱۷; انكى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۱۲، ۱۷; انكى گمراہى كو بيان كرنا ۸; ان كے بچھڑا پرستوں كى حكمرانى ۱۷; ان كے اختلاف كا خطرہ ۱۱; ان كے بچھڑا پرستوں كے ساتھ نمٹنے كى روش ۸; انكى گمراہى كے عوامل ۳; انكى بچھڑا پرستى كے عوامل ۳; ان كے بچھڑا پرستوں كا مقابلہ ۱۱

جمود:اس سے اجتناب ۱۶/شرعى ذمہ داري:اس پرعمل كى روش ۱۶

خود:خود كا دفاع ۹

روايت :۲۲، ۲۳/داڑھي:اسكى تاريخ ۲۱; يہ آسمانى اديان ميں ۲۱

غضب:پسنديدہ غضب ۴/ملزمين:ان كے حقوق ۹

موسى (ع) :انكا اتحاد كو اہميت دينا ۱۳; انكا باپ اور ماں كى طرف سے بھائي ۲۳; انكا مادرى بھائي ۷، ۲۲; انكى سوچ ۳، ۱۹; ان كے جذبات كو تحريك كرنا ۵; انكى نصيحتيں ۱۳; انكا سلوك ۲; ان كے غضب كے عوامل ۱; انكا غضب ۲، ۵; انكى قاطعيت ۱۹; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۵، ۸، ۱۳، ۱۷، ۱۸; يہ اور ہارون(ع) ۱۹

ہارون(ع) :ان كا مہلت طلب كرنا ۸; انكا باپ اور ماں كى طرف سے بھائي ۲۳; انكا مادرى بھائي ۷، ۲۲; انكے ساتھ سلوك ۲; انكو اتحاد كى نصيحت ۱۳; ان پر اختلاف ڈالنے كى تہمت ۲۰; ان كے رد عمل كا اظہار نہ كرنے كى وجوہات ۱۲; انكا شرعى ذمہ دارى پر عمل كرنا ۱۸; انكا قصہ ۲، ۳، ۵، ۸، ۱۲، ۱۳، ۱۸، ۲۰; انكى داڑھى پكڑنا ۲; انكا سر پكڑنا ۲; انكا مواخذہ ۲; انكا ذمہ دارى قبول كرنا ۱۸; انكا كردار و تأثير ۳، ۵; يہ موسي(ع) كے عدم موجودگى ميں ۱۸

ہدايت:اس كا پيش خيمہ ۱۴

____________________

۱ ) كافى ج ۸ ص ۷۲ ص ۴; نور الثقلين ج ۲ ص ۷۲ ح ۲۷۲_

۱۸۲

آیت ۹۵

( قَالَ فَمَا خَطْبُكَ يَا سَامِرِيُّ )

پھر موسى نے سامرى سے كہا كہ تيرا كيا حال ہے (۹۵)

۱ _ حضرت موسي(ع) نے بنى اسرائيل كى توبيخ اور ہارون(ع) كے ساتھ سختى سے نمٹنے كے بعد،بنى اسرائيل كى بچھڑا پرستى ميں سامرى كى بلا واسطہ مداخلت كوديكھ كر اس سے بازپرس اور تفتيش كى _قال فما خطبك يا سامريّ

۲ _ سنہرى بچھڑا بنانے اور لوگوں كو گمراہ كرنے ميں سامرى كے ہدف اور مقصد كے بارے ميں سوال ، حضرت موسي(ع) كے بازپرسى كے موارد ميں سےفماخطبك يا سامري

بعض اہل لغت كے نزديك ''خطب'' كامعنى ہے سبب امر (لسان العرب) زمخشرى نے اسے طلب كے معنى ميں قرار ديا ہے اس كا مطلب يہ ہے كہ ''ما خطبك'' يعنى تيرے كام كا سبب يا تيرا مطلوب اور مقصود كيا تھا؟نيز اس كلمے كے معانى ميں سے ''شأن'' اور ''امر'' بھى شمار كئے گئے ہيں (قاموس)

۳ _ لوگوں كے اعتقادى او رفكرى انحرافات كے بارے ميں تحقيق اور ان كے علل و اسباب كى شناخت ضرورى ہے _

قال فما خطبك يا سامري مسلّم ہے كہ سامرى كا كام، انحراف، مذموم اور حضرت موسي(ع) كے اعتقادات كے مخالف تھا اسكے باوجود حضرت موسى (ع) اسكے كام كے بارے ميں سوال كر كے اسكے علل و اسباب جاننا چاہتے ہيں _

۴_ حضرت موسى (ع) نڈر، اور مضبوط ارادي اور بلند همت والي شخص تهي_يا هرون . قال فما خطبك يا سامري

قال ياقوم قال

حضرت موسي(ع) نے ميقات سے واپسى كے بعد تن تنہا بنى اسرائيل كے سردار و رعايا اور فردو گروہ كى باز پرس كى اور ان كے غالب نظام كے ساتھ ٹكرائے اور ان سب سے قوت كے ساتھ مخاطب ہوئے يہ روش، انكى شجاعت اور بلند ہمت ہونے كى علامت ہے _

بنى اسرائيل:انكى تاريخ ۱، ۲; انكى سرزنش۱;

۱۸۳

انكى گمراہى كے عوال ۲; انكى بچھڑا پرستى كے عوامل۱

سامري:اس كا گمراہ كرنا ۲; اسكى مجسمہ سازى كا مقصد ۲; اس كا قصہ ۱، ۲;اس كا مواخذہ۱،۲; اس كا نقش و تاثير ۱

گمراہي:اسكے عوامل تلاش كرنا ۳موسى (ع)ان كا ارادہ ۴; انكے سلوك كى روش ۱; انكى طرف سے سرزنش ۱; انكى شجاعت ۴; انكے فضائل ۴; انكى قدرت ۴; انكا قصہ ۱، ۲; پہ اور ہاورن(ع) ۱

ہارون(ع) :ان كا قصہ ۱

آیت ۹۶

( قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي )

اس نے كہا كہ ميں نے وہ ديكھا ہے جو ان لوگوں نے نہيں ديكھا ہے تو ميں نے نمائں دہ پروردگار كے نشان قدم كى ايك مٹھى خاك اٹھالى اور اس كو گوسالہ كے اندر ڈال ديا اور مجھے ميرے نفس نے اسى طرح سمجھايا تھا (۹۶)

۱ _ سامرى اس بات كا مدعى تھاكہ وہ ممتاز فكر، درك حقائق اور ان علوم كا مالك ہے كہ جن سے دوسرے لوگ بے بہرہ ہيں _قال بصرت بمالم يبصروا به

فعل ''بصر'' اس وقت آنكھ كے ساتھ ديكھنے كے بارے ميں استعمال ہوتا ہے كہ جب اسكے ہمراہ قلبى ادراك بھى ہو اور ايسے موارد ميں اس كا استعمال نہايت كم ہے كہ جہاں قلبى ادراك نہ ہو (مفردات راغب)اس بارے ميں كہ سامرى كى اس بات سے مراد كيا تھى كئي احتمالات ذكر كئے گئے ہيں ، ان ميں سے ايك يہ ھے كہ مجھے ايسے فنون و حقائق سے آگاہى حاصل ہوئي كہ جن كى بناپر ميں رسالت كے اثرات سے زيادہ ا ستفادہ كرسكا اور دوسرے لوگ اس سے محروم رہے _

۲ _ سامرى كو بنى اسرائيل پر علمى برترى حاصل تھى _قال بصرت بمالم يبصروا به

۳ _ سامرى نے اپنے علم و آگاہى كى مدد سے خدا كے ايك بھيجے رسولوں ميں سے ايك رسول كے بعض آثار اور تعليمات تك دسترسى حاصل كى اور انہيں اپنے اختيار ميں لے ليا _بصرت فقبضت قبضةً من ا ثر الرسول

ممكن ہے''أثر الرسول'' سے مراد وہ علم و اسرار ہوں كہ جو حضرت موسى (ع) اورہارون(ع) يا ان سے پہلے كے انبياء كے پاس تھے اوروہ سامرى كے ہاتھ لگ گئے تھے اور اس نے اپنے نفس كى گمراہى كے ذريعے انہيں لوگوں كو گمراہ كرنے كيلئے

۱۸۴

استعمال كياہو_''الرسول'' كا ''ال'' دلالت كررہا ہے كہ سامرى كے مد نظر شخص كو حضرت موسي(ع) بھى پہچانتے تھے ليكن گويا سامرى نے دوسرے لوگوں كے ماجرا كى حقيقت تك نہ پہنچنے كى خاطر بنى اسرائيل كے عام لوگوں كيلئے رسول كا نام اور اس كا اثر معين نہ كيا_

۴ _ بنى اسرائيل كو گمراہ كرنے اور ان كے درميان بچھڑا پرستى كو ترويج دينے كيلئے دين اور تعليمات آسمانى سے سوء استفادہ كرنا،حضرت موسى (ع) كے سامنے سامرى كے اعترافات ميں سے تھا _فنبذته

ممكن ہے ''نبذتہا'' ميں ''نبذ'' اپنے حقيقى معنى ''يعنى آثار رسالت كو دور پھينكنا'' ميں ہو اور ممكن ہے مجاز اور خداكے رسولوں كى تعليمات سے سوء استفادہ كے معنى ميں ہو دوسرے معنى كى بنياد پر سامرى اعتراف كرتا ہے كہ اس نے اپنى معلومات سے غلط استفادہ كر كے انہيں ضائع اور نابود كرديا _

۵ _ سامرى نے اپنى خصوصى اور الہى معلومات كى بے اعتنائي كر كے اور انہيں دور پھينك كر بچھڑا سازى اور لوگوں كو گمراہ كرنا شروع كرديا _فنبذتها و كذلك سولت لى نفسي

مندرجہ بالا آيت كے معانى ميں ايك احتمالى معنى يہ ہے كہ ''نبذتہا'' سے مراد معلومات (بصرت قبضت) سے بے اعتنائي كرنا ہو يعنى سامرى نے اعتراف كيا تھا كہ ميں نے الہى علوم و دانش كہ جو ميں نے انبياء سے حاصل كئے تھے_ كو دور پھينك ديا اسكے نتيجے ميں اپنے نفس سے دھوكہ كھا كريہ سب انجام دے ديا _

۶ _ سامرى كا مرتد ہونا،بنى اسرائيل كے انحراف كا سبب بنا _فنبذته

۷ _ خطا كرنا اور نفس كى تسويل (نفس كا عمل كو مزين كر كے پيش كرنا) بازپرسى كے وقت سامرى كے اعترافات ميں سے _قالبصرت و كذلك سولت لى نفسي

''تسويل'' كا معنى ہے كسى چيز كو دوسرے كى نظر ميں خوبصورت كر كے اور محبوب صورت ميں پيش كرنا تا كہ وہ مخصوص بات كے كہنے يا خاص كام كے انجام دينے پر مجبور ہو جائے (لسان العرب) بعض نے اسے ''سول''بمعني'' استرخا'' (نرمى و آساني) سے مشتق قرار ديا ہے اور اسے آسان كرنے كے معنى ميں ليا ہے _

۸ _ نفس كى فريب كارى اور اسكى ظاہرسازى نے سامرى كو بنى اسرائيل ميں بچھڑا پرستى والا انحراف پيدا كرنے پر مجبور كيا _و كذلك سولت لى نفسي ايسے موارد ميں ''كذلك'' ايك چيز كو اپنے ساتھ تشبيہ دينے كيلئے ہوتا ہے اس بناپر سامرى كا

۱۸۵

اس تشبيہ سے مراد يہ كہ ہے ميرى نفسانى تسويلات كيلئے خود اسى تسويل_ كہ جو لوگوں كو بچھڑاپرستى كى دعوت دينا ہے_ سے بہتر مثال نہيں ہے _

۹ _ نفس كے وسوسے اور تسويلات،لوگوں كو گمراہ كرنے اور انحراف پيدا كرنے كى خاطر دين و دانش كے استعمال كيلئے زمينہ ہموار كرتے ہيں _بصرت فنبذتها و كذلك سولت لى نفسي

جو كچھ سامرى كے ہاتھ ميں تھا جو خود اسكى اور بہت سارے لوگوں كى گمراہى كا سبب بنا وہ علوم و معارف تھے كہ جنہيں اس نے لوگوں كو گمراہ كرنے كيلئے استعمال كيا _

۱۰ _ نفس كى تسويلات (برے اور ناروا كاموں كو خوبصورت كر كے پيش كرنا) ايسا خطرہ جو افراد اور جوامع كيلئے كمين لگائے ہوئے ہے_و كذلك سوّلت لى نفسي

۱۱ _ ناروا كاموں كو خوبصورت بنانا،انسانى نفس كى خصوصيات ميں سے ہے _و كذلك سولت لى نفسي

۱۲ _ انسان كے لئے اپنے نفس كى تسويلات كے مقابلے ميں ہوشيار رہنا ضرورى ہے_و كذلك سوّلت لى نفسي

اقرار:ناپسنديدہ عمل كو خوبصورت بنانے كا اقرار ۷

انبيائ(ع) :ان كے علم تك دسترسى ۳

بنى اسرائيل:انكى تاريخ ۴، ۶، ۷، ۸; انكى گمراہى كے عوامل ۶; انكى بچھڑا پرستى كے عوامل ۸

معاشرہ:معاشرتى آسيب شناسى ۹، ۱۰; اسكے انحطاط كے عوامل ۱۰

خداتعالى :اسكى تعليمات سے بے اعتنائي ۵

دين:اس سے سوء استفادہ كرنے كا پيش خيمہ ۹; اس سے سوء استفادہ كرنا ۴

سامري:اسكے مرتد ہونے كے اثرات ۶; اسكى خواہش پرستى كے اثرات ۸; اسكے گمراہ كرنے كا آلہ ۴; اسكے دعوے ۱; اس كا گمراہ كرنا ۵، ۷، ۸; اس كا اقرار ۴، ۷; اسكى تبليغ كى روشن۴; اس كا سود استفادہ ۴; اس كا علم ۱، ۲; اسكے فضائل۲; اس كا قصہ ۳، ۴، ۵، ۶، ۷; اسكى مجسمہ سازى ۵; اسكے علم كا سرچشمہ۳/عمل:ناپسنديدہ عمل كو خوبصورت بنانے كے اثرات ۱۰; ناپسنديدہ عمل كو خوبصورت بنانا۱۱/لوگ:لوگوں كو گمراہ كرنے كا پيش خيمہ ۹

خواہش پرستي:اسكے اثرات ۹، ۱۱; اسكے مقابلے ميں ہوشيارى كى اہميت ۱۲

۱۸۶

آیت ۹۷

( قَالَ فَاذْهَبْ فَإِنَّ لَكَ فِي الْحَيَاةِ أَن تَقُولَ لَا مِسَاسَ وَإِنَّ لَكَ مَوْعِداً لَّنْ تُخْلَفَهُ وَانظُرْ إِلَى إِلَهِكَ الَّذِي ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفاً لَّنُحَرِّقَنَّهُ ثُمَّ لَنَنسِفَنَّهُ فِي الْيَمِّ نَسْفاً )

موسى نے كہا كہ اچھا جا دور ہوجا اب زندگانى دنيا ميں تيرى سزا يہ ہے كہ ہر ايك سے بہى كہتاپھرے گا كہ مجھے چھونا نہيں اور آخرت ميں ايك خاص وعدہ ہے جس كى مخالفت نہيں ہوسكتى اور اب ديكھ اپنے خدا كو جس كے گرد تونے اعتكاف كر ركھا ہے كہ ميں اسے جلاكر خاكستر كردوں گا اور اس كى راكھ دريا ميں اڑادوں گا (۹۷)

۱ _ حضرت موسى (ع) نے سامرى كى عدالتى كاروائي كے بعد اسكے فورى طور پر معاشرے سے نكل جانے، تنہا ہوجانے اور پورى زندگى ميں لوگوں كے ساتھ اسكى قطع تعلقى كا فيصلہ سنايا _قال فاذهب فإن لك فى الحى وة إن تقول لامساس

''فاذہب'' كى ''فائ'' اس بات پر دلالت كرنے كے علاوہ كہ سامرى كے نكل جانے كا حكم اس كے خلاف فيصلے پر مترتب تھا اسكے فورى ہونے پر بھى دلالت كرتا ہے ''مساس'' باب مفاعلہ كا مصدر ہے اور ''لامساس'' كا مطلب ہے ہر قسم كے رابطے اور تعلق كى نفى يعنى تو اپنى زندگى ميں اس انجام كا مستحق ہے كہ تيرى پہلى اور آخرى بات اپنى بے كسى اور اس بات كى خبردينا ہوگى كہ تيرے ساتھ كوئي بھى رابطے ميں نہيں ہے_

۲ _ دين موسى (ع) ميں دہتكارنا اور تن تنہا كردينا،مرتدوں اور گمراہ كرنے والوں كى سزا تھيقال فاذهب فإن لك فى الحى وة ا ن تقول لا مساس ''لامساس'' كے بارے ميں دو رائے كا اظہار كيا گيا ہے ۱_ يہ حضرت موسى (ع) كى طرف سے عدالتى فيصلہ تھا ۲_ يہ سامرى كے بارے ميں حضرت موسى (ع) كى نفرين ہے مذكورہ مطلب پہلى رائے كے مطابق ہے _

۳ _ سامرى كا لوگوں سے دور ہونے اور لوگوں كا اس سے دور ہونے سے دوچار ہونا اسكے بارے ميں حضرت موسي(ع) كى نفرين كا نتيجہ تھا_فإن لك فى الحيوة ا ن تقول لامساس

جيسا كہ بعض مفسرين نے كہا ہے احتمال ہے كہ ''فإن لك فى الحياة ...'' سامرى كے بارے ميں حضرت موسي(ع) كى نفرين ہو _ يعنى سامرى اپنى خاص نفسياتى يا جسمانى بيمارى ميں مبتلا ہوجائے كہ لوگ اس سے دور رہيں اور وہ لوگوں سے دورى اختيار كرے _

۱۸۷

۴ _ لوگوں سے رابطہ ختم ہونا اور معاشرے سے دہتكاراجانا اور تنہا ہوجانا ايسى سزاتھى كہ جو سامرى كيلئے سزاوار تھي_

قال فاذهب فإن لك لامساس

''لك'' كا ''لام'' سامرى كے استحقاق پر دلالت كرتا ہے اور (پچھلى آيت ميں مذكور) ''نبذتہا'' كو مد نظر ركھتے ہوئے كہا جاسكتا ہے كہ معاشرے سے دھتكارا جانا سامرى كى طرف سے رسالت كے آثار كو درو پھينكنے والے گناہ كے مناسب سزا تھى _

۵ _ معاشرے كو گمراہ كرنے والے عناصر سے پاك كرنا اور ان كے اور لوگوں كے دو طرفہ روابط كو منقطع كرنا ضرورى ہے_قال فاذهب لامساس

۶ _ سامرى كو دنياوى سزا كے علاوہ آخرت ميں حتمى اور قطعى سزا كا سامنا ہوگا _لك فى الحياة و إن لك موعداً لن تخلفه

''موعد'' ''وعدہ، وعدہ كى جگہ اور وعدہ كا وقت كے معانى ميں استعمال ہوتا ہے اور ظاہراً اس سے مراد وہ عذاب ہے جس كا قيامت ميں وعدہ ديا گيا ہے_

۷ _ گمراہ قائدين دنياوى سزا كى وجہ سے اخروى سزا سے معاف نہيں ہوں گے _فى الحى وة لامساس و إن لك موعداً لن تخلفه

۸ _ خداتعالى كى بعض دھمكيوں كا قطعى ہونا _موعدا لن تخلفه ''لن تخلفہ'' مجہول ہے اور اس كا غير مذكورہ فاعل خداتعالى ہے _

۹ _ سامرى خود بھى اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے بچھڑے كى پرستش كرتا تھا _و انظر إلى إلهك الذى ظلت عليه عاكف

''الہك'' سامرى كے معبود كى تحقير كے علاوہ اس بات پر بھى دلالت كرتا ہے كہ خود سامرى نے بھى اسے معبود كے طور پر قبول كر ركھا تھا_

۱۰ _ سامرى نے خود كو اپنے دست ساز بچھڑے كى مكمل نگرانى كا پابند بناركھا تھا اور مسلسل اسكے ہمراہ رہتا_ظلت عليه عاكف ''ظلت''،''ظللت'' (تو اس پر كاربند تھا) كا مخفف ہے ''عكوف'' كا معنى ہے كسى چيز كو چمٹا رہنا اور اسى سے دائمى سركشى ہے (مصباح) اور''ظلت عليه عاكفاً'' يعنى اسكى طرف تيرى بہت توجہ تھى اور تو ہميشہ اس كا ديدار كررہا تھا _

۱۱ _ سامرى كے بچھڑے كو مكمل طور پر جلاكر اسكے آثار كو ختم كردينا اور اسكى راكھ كو دريا ميں پھينك دينا سامرى كے

۱۸۸

سنہرے بچھڑے كے بارے ميں حضرت موسى (ع) كى قطعى اور مؤكد تصميم _و انظر إلى إلهك لنحرقنه ثم لننسفنه فى اليم نسف (''لنحرقنہ'' كے مصدر) تحريق كا معنى ہے زيادہ جلانا (مصباح) نسف كامعنى ہے جڑ سے اكھاڑنا، گرادينا اور ہوا ميں منتشر كردينا (قاموس)قابل ذكرہے كہ آيت ميں آخرى معنى زيادہ مناسب لگ رہا ہے پس ''ثم لننسفنہ'' يعنى بچھڑے كو جلانے كے بعد ( اسے راكھ كرنا) اسكى راكھ كو دريا ميں پھينك ديں گے _

۱۲ _ سامرى كے بچھڑے كو جلانا اور اسكى راكھ كو دريا ميں پھينكنا ،سامرى اور ديگر لوگوں كے سامنے انجام پايا_و انظر لنحرقنه ثم لننسفنه فى اليم ''انظر'' حضرت موسي(ع) كى طرف سے سامرى كو حكم ہے اور ظاہراً اس سے مراد جلانے اور دريا ميں پھينكنے والے پروگرام كا نظارہ كرنا ہے_ ''لنحرقنہ'' اور ''لننسفنہ'' كى جمع كى ضمير ميں موقع پر لوگوں كے حاضر ہونے كو بيان كر رہى ہيں _

۱۳ _ حضرت موسى (ع) نے سامرى كے بچھڑے كو نابود كرنے كيلئے بنى اسرائيل كى مدد كا انتظام كيا تھا اور آپ انہيں اس كام ميں شريك كرنے پر مصمم تھے_لنحرقنه ثم لننسفنه ''لنحرقنه' ' اور ''لننسفنہ'' كى جمع كى ضمير يں مذكورہ مطلب كو بيان كررہى ہيں _

۱۴ _ سامرى كے بچھڑے كو تراش كر اسے ناقابل استعمال برادے ميں تبديل كرنا اور پھر اسے دريا ميں منتشر كردينا بنى اسرائيل كے بچھڑا پرستى والے انحراف كا قلع قمع كرنے كيلئے حضرت موسي(ع) كا پروگرام _لنحرقنه

''حرق'' اور ''تحريق'' كے معانى ميں سے ايك نرم كرنا اور پگھلانا ہے _اور ''تحريق'' اسكے تسلسل اور شدت پر دلالت كر رہا ہے (لسان العرب) مذكورہ مطلب اسى معنى كى بناپر ہے_

۱۵ _ شرك كے فكرى اور عينى ذرائع كے ساتھ مقابلہ كرنا اور انہيں نابود كرنا،بنى اسرائيل كى بچھڑاپرستى كے خلاف حضرت موسي(ع) كى روش_إلهك الذي لنحرقنه ثم لننسفنه

سامرى كے بچھڑے كو جلانا چند جہات سے قابل تامل ہے ۱: نابود كرنے اور اسے لوگوں كى نظروں سے مٹا دينے كى جہت سے تا كہ دوبارہ اسكى طرف مائل نہ ہوجائيں ۲: اس سنہرے بچھڑے كو جلاكر راكھ كردينے سے ظاہر بينوں كيلئے اس كے معبود نہ ہونے كو ثابت كرنا _ پہلى جہت عينى اور دوسرى فكرى ہے_

۱۶ _ شرك اور غير خدا كى پرستش كى جڑوں كو كاٹنا اور لوگوں

۱۸۹

كى زندگى سے اسكے آثار كو محو كردينا ضرورى ہے _إلهك لنحرقنه ثم لننسفنه فى اليم نسف

۱۷ _ مادى اور فنى اقدار كو شرك كے خلاف مقابلے اور اسكے آثار اور ذرائع كو نابود كرنے ميں سستى كاموجب نہيں بننا چاہے_و انظر إلى إلهك لنحرقنه ثم لننسفنه فى اليم نسف باوجود اسكے كہ سامرى كا بچھڑا قيمتى دھاتوں سے بنايا گيا تھا اور اس سے صحيح استفادے كا امكان تھا حضرت موسي(ع) نے جلانے اور نابود كردينے كا حكم ديا كيونكہ صحيح عقائد كى حفاظت اور اعتقادى انحرافات كے ساتھ مقابلے كى قدر و قيمت مادى اقدار كے ساتھ قابل قياس نہيں ہے_

ہنرى آثار:انكا كردار ۱۷

مدد طلب كرنا:بنى اسرائل سے مدد طلب كرنا ۱۳

بنى اسرائيل:انكى تاريخ ۱، ۳، ۱۳، ۱۴، ۱۵; انكى بچھڑا پرستى كے خلاف مبارزت كى روش ۱۴، ۱۵; انكا كردار نقش و ۱۳

خداتعالى :اسكى دھمكيوں كا قطعى ہونا ۸

راہنما:گمراہى كے راہنماؤں كى اخروى سزا ۷; گمراہى كے راہنماؤں كى دنيوى سزا ۷

سامري:اسكے بچھڑے كو دريا برد ہ كرنا ۱۱، ۱۲; اسكى جلا وطنى ۱; اسكے بچھڑے كونابود كرنے كى روش ۱۴; اسكے بچھڑے كو جلانا ۱۱، ۱۲; اسے مطرود كرنا ۳، ۴، ۶; اس كا قصہ ۱، ۳، ۹، ۱۰; اسكے ساتھ قطع تعلقى ۱; اسكى اخروى سزا كا قطعى ہونا ۶; اسكى دنيوى سزا ۶; اسكى سزا ۴; اسكى بچھڑا پرستى ۹; اسكے بچھڑے كى نگرانى ۱۰; اسكے خلاف عدالتى كا روائي۱; اسكے بچھڑے كى نابودى ۱۳; اس پر نفرين ۳; اس كا كردار ونقش ۱۰

شرك دشمني:اسكى اہميت ۱۶، ۱۷

گمراہ لوگ:انكے ساتھ نمٹنے كى روش ۵; انہيں مطرود كرنا۵; انكے ساتھ قطع تعلقي۵

مرتد:اسكے احكام ۲; اسكى جلا وطني۲; يہ يہوديت ميں ۲

موسي(ع) (ع) :انكى نفرين كے اثرات ۳; انكى تصميم ۱۱; انكى شرك دشمنى كى روشء ۱۵; انكا قصہ ۱، ۳، ۱۱، ۱۲، ۱۳، ۱۴، ۱۵; انكا فيصلہ۱; يہ اور سامرى كا بچھڑ ۱۱

يہوديت:اسكى تعليمات ۲

۱۹۰

آیت ۹۸

( إِنَّمَا إِلَهُكُمُ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَسِعَ كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً )

يقينا تم سب كا خدا صرف اللہ ہے جس كے علاوہ كوئي خدا نہيں ہے اور وہى ہر شے كا وسيع علم ركھنے والا ہے (۹۸)

۱ _ لوگوں كو عبادت ميں توحيد كى طرف متوجہ كرنا، حضرت موسي(ع) كا سامرى كے بچھڑے كو جلا كر راكھ كردينے كا مقصد_لنحرقنه إنما إلهكم الله

ظاہراً يہ آيت حضرت موسي(ع) كى اپنى قوم كے ساتھ گفتگو كا تسلسل ہے _ سامرى كے خلاف عدالتى كاروائي اور اسكے خلاف فيصلے نيز اسكے بچھڑے كو نابود كرنے كے بعد ان بيانات كو پيش كرناكى تصميم اس پورے واقعے كا نتيجہ ہے اور يہ اس نكتے كو بيان كر رہا ہے كہ حضرت موسي(ع) نے يہ نتيجہ (شرك كا ابطال اور توحيد كا اثبات) اخذ كرنے كيلئے يہ سب كام انجام ديئے تھے _

۲ _ صرف الله تعالى ،انسانوں كا حقيقى معبود ہے _إنما إلهكم الله

۳ _ ''الله '' عالم ہستى كے واحد حقيقى معبود كا مخصوص نام ہے_إنما إلهكم الله الذى لا إله إلا هو

۴ _ انسان كا حقيقى معبود،عالم ہستى كا يكتا معبود ہےإنما إلهكم الله الذى لا إله إلا هو

''الذي ...'' كا وصف تعليل كيلئے ہے يعنى چونكہ ''الله '' وہ ذات ہے كہ كائنات ميں اسكے سوا كوئي معبود بر حق نہيں ہے لذا تمہارا خدا بھى وہى ہے_

۵ _ كائنات كى تمام مخلوقات،خدائے يكتا كے علم ميں ہيںالله الذي وسع كل شيء علم

''علماً''،''وسع'' كے فاعل كيلئے تميز ہے يعنى خداتعالى علم و آگاہى كے لحاظ سے تمام مخلوقات پر محيط ہے _

۶ _ وہ معبود لائق عبادت ہے جو شريك سے بے نياز ہو اس كا علم مطلق ہو اور سب چيزوں پر محيط ہو _

إنما إلهكم الله وسع كل شيء علم

۱۹۱

''وسع'' كا جملہ ''لا إلہ إلا ہو'' كيلئے بدل ہے اور يہ دونوں '' إنما إلہكم ...'' كيلئے تعليل ہيں _

اسما و صفات : الله ۳

انسان:اس كا معبود ۴

توحيد:توحيد عبادى كى اہميت ۱; توحيد عبادي۴

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۲; اسكے علم كى وسعت ۵

سامري:اسكے بچھڑے كو نابود كرنے كا فلسفہ ۱سچامعبود ۲، ۴

اس كا احاطہ ۶; اس كا بے مثال ہونا ۶; اس كا بے نياز ہونا ۶; اسكى شرائط ۶; اس كا علم ۶; اس كا نام ۳

موجودات:ان كا علم ۵

موسى (ع) :انكے اہداف ۱

آیت ۹۹

( كَذَلِكَ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنبَاء مَا قَدْ سَبَقَ وَقَدْ آتَيْنَاكَ مِن لَّدُنَّا ذِكْراً )

اور ہم اسى طرح گذشتہ دور كے واقعات آپ سے بيان كرتے ہيں اور ہم نے اپنى بارگاہ سے آپ كو قرآن بھى عطا كرديا ہے (۹۹)

۱ _ سابقہ اقوام كى سرگذشت نقل كرنے ميں قرآنى روش كى طرف توجہ كرنا ضرورى ہے _كذلك نقص عليك من ا نباء ما قد سبق ''كذلك'' دوسروں كى سرگذشت كے نقل كرنے كو موسي(ع) كى داستان كے نقل كرنے كے ساتھ تشبيہ دينے كيلئے ہے اور آيت كا ذيل ''آتيناك ذكراً'' اس نكتے كو بيان كر رہا ہے كہ خداتعالى ان قصوں ميں بھى پندآموز نكات كا انتخاب كر كے انہيں قرآن ميں بيان كرتاہے جيسا كہ اس نے حضرت موسى (ع) اور بنى اسرائيل كى دوستان ميں كيا ہے_

۲ _ گذشتہ انبياء (ع) اور امتوں كى اخبار كو مسلسل نقل كرنا، خداتعالى كا پيغمبر (ص) كے ساتھ ايك وعدہ _

۱۹۲

كذلكنقص عليك من ا نباء ما قد سبق

''نقص عليك ...''گذشتہ لوگوں كى تاريخ كے گوشوں كو نقل كرنے كے سلسلے ميں خداتعالى كا وعدہ ہے_

۳ _ قرآن مجيد كى داستانيں ،تاريخى واقعيات سے ماخوذ ہيںنقص عليك من ا نباء ما قد سبق

''نبا'' خبر كے معنى ميں ہے ''ما قد سبق'' يعنى وہ جو ماضى ميں واقع ہوچكا ہے نہ يہ كہ صرف خيالى اور غير واقعى امور ہوں _

۴ _ قرآن مجيد خداتعالى كى طرف سے پيغمبر اكرم(ص) كيلئے ايك عظيم عطيہ اور نصيحت گيرى اور ہوشيار رہنے كا ايك ذريعہ ہے _و قد ء اتيناك من لدنّا ذكرا

''ذكرا'' كا نكرہ ہونا اسكى عظمت پر دلالت كرتا ہے (بعد والى آيت ميں ) ''من ا عرض عنہ'' قرينہ ہے كہ ذكر سے مراد قرآن ہے_

۵ _ قرآن كريم ميں گذشتہ لوگوں كى داستانوں كو نقل كرنا يادآورى اور بيدار كرنے كيلئے ہے _نقص عليك من ا نباء ما قد سبق ذكرا

۶ _ نصيحت گيرى اور سبق حاصل كرنے كيلئے قرآن كى داستانوں ميں غور و فكر كرنا ضرورى ہے _نقص عليك من ا نبا ئ ذكرا

۷ _ ''ذكر'' قرآن مجيد كے ناموں اور اوصاف ميں سے ہے_و قد ء اتيناك من لدنا ذكرا

۸ _ قرآن مجيد كى داستانيں ،خداتعالى كے علم كے سرچشمہ سے نازل ہوئي ہيں نہ يہ كہ دوسروں كى باتوں سے مأخوذہوں _

من لدنا

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كے ساتھ وعدہ ۲

تدبر:قرآن كے قصوں ميں تدبر ۶

خداتعالى :اسكے عطيات ۴; اس كا علم ۸; اسكے وعدے ۲

ذكر: ۷قرآن مجيد:اس ميں تاريخ ۱، ۲; اسكى تعليمات كى روش ۱; اس كى فضيلت ۴; اسكے قصوں كا فلسفہ۵; اسكے نزول كا فلسفہ ۴; اسكے قصوں كا سرچشمہ ۸; اسكے نام ۷; اسكے قصوں كى حقيقت ۳

نعمت:قرآن كى نعمت۴

ياددہاني:پيغمبر كوياد دہانى ۴; اسكے عوامل ۴، ۵، ۶

۱۹۳

آیت ۱۰۰

( مَنْ أَعْرَضَ عَنْهُ فَإِنَّهُ يَحْمِلُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وِزْراً )

جو اس سے اعراض كرے گا وہ قيامت كے دن اس ا نكار كا بوجھ اٹھائے گا (۱۰۰)

۱ _ قرآن مجيد اور اسكى نصيحتوں سے روگردانى كرنے والے قيامت كے دن اپنے كندھوں پر گناہ كا بھارى بوجھ اٹھائے ہوئے ہوں گے _من أعرض عند فإنه يحمل يوم القيامة وزرا

۲ _ قرآن مجيد سے روگردانى گناہ ہے اور قيامت والے دن يہ انسان كے دامنگير ہوگى _من أعرض عنه فإنه يحمل يوم القيامة وزرا

۳ _ قرآن اور اسكى نصيحتوں سے روگردانى كرنے والے دنيا ميں انحراف اور گناہ ميں گرفتار ہوتے ہيں _

ء اتيناك من لدنا ذكراً_ من أعرض عنه فانه يحمل وزرا

جملہ '' فإنہ يحمل ...'' ممكن ہے قرآن مجيد سے اعراض كرنے والوں كے ديگر گناہوں ميں گرفتار ہونے كو بيان كررہا ہو يعنى يہ لوگ اس روگردانى كى وجہ سے دنيا ميں گناہ كے جال ميں پھنس جائيں گے اور قيامت ميں اس كے بوجھ تلے اور اسے اٹھائے ہوئے ہوں گے_

۴ _ قيامت،انسان كے دنياوى اعمال كے ظہور كا دن ہے _من أعرض عنه فإنه يحمل يوم القيامة وزرا

''وزر'' كا معنى ہے پھارى بوجھ اور چونكہ گناہ بھى گناہ گار كے كا ندھے پر بھارى بوجھ ہوتا ہے اس لئے اسے بھى ''وزر'' كہتے ہيں (مفردات راغب) ''حمل وزر'' اس چيز كى حكايت كررہا ہے كہ قيامت كے دن گناہ، گناہ گار كے كندھے پر بوجھ كى صورت ميں ظاہر ہوگا_

۵ _ قرآن مجيد اور اسكى نصيحتوں كى طرف توجہ قيامت والے دن بوجھ كے ہلكا ہونے اور نجات كا سبب ہے _

من أعرض عنه فإنه يحمل يوم القيامة وزرا

جس طرح قرآن مجيدسے روگردانى قيامت كے دن بوجھ كے بھارى ہونے اور پريشانى كا سبب ہے اسى طرح قرآن مجيد كى طرف پلٹنا اور اسكے ساتھ تمسك قيامت والے دن انسان كے بوجھ كے ہلكا كرنے اور اسكى نجات كا سبب ہے_

۱۹۴

۶ _ قرآن مجيد، قيامت والے دن اعمال كے پركھنے كا محور اور ميزان ہے _من أعرض عنه فإنه يحمل يوم القيامة وزرا

آيت كا منطوق دلالت كرر ہا ہے كہ قرآن سے روگردانى ''وزر'' آور ہے اور اس كا مفہوم يہ ہے كہ اسكى طرف توجہ نجات كا سبب ہے پس قيامت كے دن انسان كے اعمال اور عقائد كى قدر و قيمت كا معيار اس كى قرآن سے دورى اور نزديكى ہوگى اور اس ذريعہ سے اس كيلئے ثواب و عقاب كى درجہ بندى ہوگى _

ذكر:قرآن كے ذكر كے اثرات ۵

عمل:اس كا ميزان ۶

قرآن مجيد:اس سے روگردانى كے اثرات ۳; اس سے روگردانى كرنے والوں كے گناہ كا سنگين ہونا۱; اس سے روگردانى كرنے والوں كى گمراہى ۳; اس سے روگردانى كرنے كا گناہ ۲; اس سے روگردانى كرنے والے قيامت ميں ۱; اس كا اخروى كردار ۶

قيامت:اس ميں پاداش ۴; اس ميں عمل كا مجسم ہونا ۴; اس ميں حقائق كا ظہور ۴; اس ميں سزا ۴; اسكى خصوصيات ۴

گمراہي:اسكے عوامل ۳

گناہ:اسكے عوامل ۳

نجات:اخروى نجات كے عوامل ۵

آیت ۱۰۱

( خَالِدِينَ فِيهِ وَسَاء لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حِمْلاً )

اور پھر اسى حال ميں رہے گا اور قيامت كے دن يہ بہت بڑا بوجھ ہوگا (۱۰۱)

۱ _ قرآن مجيد سے اعراض كرنے كى سزا،قيامت ميں بھارى بوجھ كى طرح اعراض كرنے والوں كے گندھوں پر ہوگي_

من ا عرض عنه وزراً خلدين فيه حملا

''حمل'' اس اٹھائي ہوئي چيز كو كہتے ہيں كہ جو سر يا پشت پر اٹھائے ہوئے وزن كى طرح آشكار ہو (لسان العرب) اور اس كا نكرہ ہونا اسكے بھارى ہونے كو بيان كررہا _

۲ _ قرآن مجيد سے روگردانى كرنے والوں كى اخروى سز

۱۹۵

اور نتائج ابدى ہوں گے اور كبھى جدا نہيں ہوں گے _وزرا خلدين فيه و ساء لهم

''فيہ'' كى ضمير كا مرجع ''وزرا'' ہے جو گذشتہ آيت ميں تھا ''وزر'' ميں خلود اور ہميشگى كا معنى اسكے اثرات اور نتائج كا دائمى ہونا _

۳ _ قيامت كے دن قرآن مجيد سے روگردانى كا وزر اور عقوبت روگردانى كرنے والوں كے كندھوں پر ناگوار اور مشقت بار وزن ہوگا _وزراً و ساء لهم يوم القيامة حملًا

۴ _ اخروى سزائيں ،دنيوى اعمال كا تجسم ہيں _فإنه يحمل يوم القيامة وزراً خلدين فيه حملًا

گناہ گاروں كا وزر اور گناہ ميں ہميشہ رہنا اس چيز كو بيان كررہا ہے كہ قيامت كى عقوبتيں اور مشكلات دنياوى اعمال كا تجسم ہيں كيونكہ وہ اپنے گناہ ميں ہميشہ ہيں _

۵ _ قيامت،گناہ گاروں كى سزا كا دن ہے_وساء لهم يوم القيامة حملا

عذاب:اس ميں ہميشہ رہنا ۲

عمل:اس كا مجسم ہونا ۴

قرآن مجيد:اس سے روگردانى كرنے والوں كى سزا كا سخت ہونا۳; اس سے روگردانى كرنے والوں كى سزا كا سنگين ہونا ۱; اس سے روگردانى كرنے والوں كى اخروى سزا ۱، ۲

قيامت:اسكى خصوصيات ۵

سزا:اخروى سزا كى حقيقت ۴

گناہ گار لوگ:انكى اخروى سزا ۵

آیت ۱۰۲

( يَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّورِ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ زُرْقاً )

جس دن صور پھونكا جائے گا اور ہم تمام مجرمين كو بدلے ہوئے رنگ ميں اكٹھا كريں گے (۱۰۲)

۱ _ صور (بگل يا صورت اور پيكر ) ميں پھونكا جانا،روز قيامت كے واقعات ميں سے ہے _يوم ينفخ فى الصور

ممكن ہے صوران دو معنوں ميں سے ايك ميں ہو_ ۱_سينگ كے

۱۹۶

معنى ميں تو اس صورت ميں مراد بگل ميں پھونكاجانا ہوگا كيونكہ قديم زمانے ميں جانوروں كے سينگ ميں سوراخ كر كے اس سے بناتے تھے ۲_ ممكن ہے صور''صورة'' كى جمع ہو تو اس صورت ميں مراد مردوں كے جسموں اور پيكروں ميں پھونكاجانا ہوگا تا كہ وہ زندہ ہوجائيں بعض آيات كہ جن ميں كلمہ '' صور'' آيا ہے دوسرے معنى كے ساتھ سازگار نہيں ہيں _

۲ _ صور ميں پھونكاجانا اور قيامت ميں محشور ہونا ايسے دو واقعات ہيں جو ايك دوسرے كے ساتھ مربوط ہيں _يوم ينفخ فى الصور و نحشر المجرمين ''حشر'' كا ''نفخ صور'' پر عطف بتاتا ہے قيامت كے برپا ہونے كے سلسلے ميں يہ دو واقعات آپس ميں مربوط ہيں _

۳ _ قيامت،مردوں كے اجساد ميں دوبارہ روحوں كے پھونكے جانے كا دن _*يوم ينفخ فى الصور

مذكورہ مطلب اس احتمال كى بناپر ہے كہ ''صور'' ''صورة'' كى جمع اور ''اجساد'' كے معنى ميں ہو_

۴ _ مجرمين جس لحظے قيامت ميں حاضر ہوں گے پريشانى كے ساتھ اپنے انجام پر نظر يں لگائے مبہوت اور حيرت زدہ ہوں گے _و نحشرالمجرمين يومئذ زرقا

''زرقاً''،''المجرمين'' كيلئے حال ہے اور اس كا مفرد ''ارزق'' يا ''رزقائ'' اس شخص كو كہاجاتا ہے كہ جس كى آنكھ كى سفيدى اسكى سياہى كو ڈھانپ لے (لسان العرب) يہ حالت مجرمين كے ٹكٹكى باندھ كر ديكھنے كى علامت ہے اور ان كے شديد اندرونى اضطراب كو بيان كررہى ہے بعض لوگوں كا كہنا ہے كہ آنكھ كے سفيدہونے كا لازمہ اس كا اندھا ہونا ہے (لسان العرب)_

۵ _ قيامت ميں مجرمين كا محشور ہونا شديد رنج،الم اور وحشت كے ساتھ ہوگا _و ساء لهم يوم القيامة حملاً نحشر المجرمين يومئذ زرقا ''حملا'' اور ''زرقا'' قيامت كے دن منكرين قرآن كى پريشان حالى اور سخت حالات پر دلالت كررہے ہيں

۶ _ قيامت كے دن مجرمين نيل پڑے اور اترے ہوئے چہروں كے ساتھ محشور ہوں گے _*و نحشرالمجرمين يومئذ زرقا

ممكن ہے (''زرقاً'' كے مفرد) ''ا رزق'' يا ''زرقائ'' سے مراد لاجوردى رنگ ہوكہ جسے آسمانى رنگ يا نيلگوں بھى كہا جاتا ہے يہ صفت اگرچہ عام طور پر آنكھو كيلئے استعمال ہوتى ہے ليكن آنكھ كے غير ميں بھى استعمال ہوتى ہے (لسان العرب) مذكورہ مطلب اس بنياد پر ہے كہ ''زرقاً'' مجرمين كى جسمانى حالت كو بيان كررہا ہو_

۷ _ قيامت انسانوں كے جمع اور اكٹھا ہونے كا دن _نحشر المجرمين

''حشر'' كا معنى ہے جمع كرنا (لسان العرب) اور اس ميں چلانے كا معنى ہى ملحوظ ہوتا ہے _

۱۹۷

۸ _ قيامت برپا كرنا اور اس ميں مجرمين كو حاضر كرنا خداتعالى كے اختيار ميں اور اسكے ارادے كے ساتھ مربوط ہے _نحشر

۹ _ قرآن مجيد سے روگردانى كرنے والے ايسے مجرم ہيں جن كا برا انجام ہے _ء اتينك من أعرض و نحشر المجرمين يومئذ زرقا

انسان:اس ميں روح پھونكنا ۳

خداتعالى :اسكے ارادے كے اثرات ۸

قرآن مجيد:اس سے روگردانى كرنے والوں كا انجام ۹

قيامت :اس ميں جمع ہونا ۷; اس ميں محشورہونا ۲; اس ميں آنكھ خيرہ ہونا ۴; اسكے برپا ہونے كا سرچشمہ ۴; اس ميں صور پھونكنا ۱، ۲; اسكى خصوصيات ۱، ۳، ۷

گناہ گار لوگ:انكى اخروى حيرت ۴; ان كا اخروى خوف ۵; انكے چہرے كا رنگ ۶; انكى آنكھ كا خيرہ ہونا ۴; انكا برا انجام ۹; انكے محشور ہونے كا سرچشمہ۸; انكى اخروى پريشاني۴; ان كے محشور ہونے كى خصوصيات ۵

مردے:انہيں آخرت ميں زندہ كرنا ۳

آیت ۱۰۳

( يَتَخَافَتُونَ بَيْنَهُمْ إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا عَشْراً )

يہ سب آپس ميں يہ بات كر رہے ہوں گے كہہم دنيا ميں صرف دس ہى دن تو رہے ہيں (۱۰۳)

۱ _ گناہ گار اور قرآن سے روگردانى كرنے والے روز قيامت ايك دوسرے كے ساتھ آہستہ آہستہ باتيں كريں گے _

يتخفتون بينهم

''خفت'' كا مطلب ہے بات كو مخفى ركھنا (لسان العرب) ''يتخافتون'' باب تفاعل سے ہے اور اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ ايك دوسرے كے ساتھ گفتگو كرتے وقت انكى آواز سنائي نہيں ديں گى قابل ذكر ہے كہ (بعد والى آيات ميں مذكور) ''خشعت الا صوات للرحمان'' قرينہ ہے كہ خداتعالى كى عظمت كے احساس اور اسكى رحمت كى توقع نے مجرمين كو آوازيں ا نيچى ركھنے پر مجبور كيا _

۱۹۸

۲ _ برزخ ميں ٹھہرنے كى مدت كا اندازہ قيامت كے دن قرآن سے روگردانى كرنے والوں كى آپس ميں خفيہ گفتگو كا حصہ _

يتخفتون بينهم إن لبثتم

اپنے ٹھہرنے كى مدت كے بارے ميں مجرمين كا سوال _ اس قرينے كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ دنيا ميں انكى عمر يں بہت مختلف تھيں _ موت كے بعد گزرنے والى مدت كے بارے ميں سوال ہے_

۳ _ مجرمين اور قرآن سے روگردانى كرنے والا ايك گروہ،قيامت كے دن برزخ ميں اپنے ٹھہرنے كى مدت كا اندازہ دس دن لگائے گا _إن لبثتم إلا عشرا

''لبث'' كا معنى ہے ٹھہرنا اور بعد والى آيت ميں مذكورہ ''يوماً''قرينہ ہے كہ ''عشراً'' سے مراددس دن ہيں يہ كلمہ اگر چہ صرف مو نث (جيسے ليالي) كيلئے استعمال ہوتا ہے ليكن اگر تميز محذوف ہو تو مذكر (جيسے ايام) كيلئے بھى استعمال ہوتاہے _

۴ _ موت سے روز قيامت تك كا فاصلہ،حاضرين قيامت كى نظر ميں بہت ہى كم اور معمولى فاصلہ ہے_

يتخفون بينهم إن لبثتم إلا عشرا

۵ _ قيامت ميں بھى بعض لوگوں كيلئے بعض حقائق مخفى رہيں گے _يتخفتون بينهم إن لبثتم إلا عشرا

جملہ ''يتخفتون'' بتاتا ہے كہ''إن لبثتم إلا عشراً'' كا محتوا مجرمين كى گفتگو كا محور تھا نہ يہ كہ اس پر ان كا اتفاق رائے ہو اور مختلف نظريات كا پيش كرنا ان ميں سے بعض كيلئے حقيقت كے مشخص نہ ہونے سے حكايت كرتا ہے_

عدد:دس كا عدد ۳عالم برزخ

اسكى مدت كا كم ہونا ۴; اسكى مدت ۲، ۳

قرآن مجيد:اس سے روگردانى كرنے والوں كى آخرى سرگوشياں ۱، ۲، ۳

قيامت:اس ميں حقائق كا مخفى رہنا ۵

گناہ گار لوگ:انكى اخروى سرگوشياں ۱

موت:اس كا قيامت تك كا فاصلہ ۴

۱۹۹

آیت ۱۰۴

( نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ إِذْ يَقُولُ أَمْثَلُهُمْ طَرِيقَةً إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا يَوْماً )

ہم ان كى باتوں كو خوب جانتے ہيں جب ان كا سب ہے ہوشيار يہ كہہ رہا تھا كہ تم لوگ صرف ايك دن رہے ہو (۱۰۴)

۱ _ الله تعالى ،قيامت كے دن مجرمين كى برزخ ميں ان كے ٹھہرنے كى مدت كے بارے ميں ايك دوسرے كے ساتھ گفتگو كے بارے ميں سب سے زيادہ آگاہ ہے_إن لبثتم إلا عشراً نحن أعلم بما يقولون

''ما يقولون'' يعنى جو وہ كہتے ہيں او رممكن ہے اس سے مراد مجرمين كى طرف سے آپس ميں بولے گئے جملے ہوں اور ممكن ہے اس سے مراد وہ موضوع ہو كہ جسكے بارے ميں مجرمين اظہار نظر كرتے ہيں مذكورہ مطلب ميں پہلا احتمال مد نظر ركھا گيا ہے _

۲ _ خداتعالى سے كوئي چيز مخفى نہيں ہے _يتخفتون نحن أعلم بما يقولون

۳ _ خداتعالى برزخ ميں انسانوں كے ٹھہرنے كى مدت كے بارے ميں سب سے زيادہ آگاہ ہے _نحن أعلم بما يقولوں

''ما يقولون'' كے دو احتمالى معنوں ميں سے ايك كى بنياد پر اس سے مراد وہ موضوع ہے كہ جو روز قيامت مجرمين كى گفتگو كا محور ہوگا _

۴ _ روز قيامت سب سے زيادہ صحيح فكر والے مجرمين سب كيلئے برزخ ميں ٹھہرنے كى مدت كا اندازہ ايك دن لگائيں گے _

إذ يقول ا مثلهم طريقة إن لبثتم إلا يوما ''ا مثلهم طريقةً'' اس شخص كو كہا جاتا ہے جو افراد ميں سے سب سے زيادہ منصف اور حق پرستوں كے سب سے زيادہ مشابہ ہو اور جو كچھ كہتا ہو زيادہ اطمينان سے كہتا ہو (قاموس) _

۵ _ برزخ كى تھوڑى سى مدت كاايك دن يا اس سے زيادہ اندازہ لگانا،ايك نادرست اور حقيقت سے دور انداز ہ ہے

نحن أعلم إذ يقول إلا يوما ''إذ'' ،''أعلم'' كيلئے ظرف ہے اور اس سے مراد يہ ہے كہ صحيح ترين فكروالے مجرمين كى طرف سے اظہار رائے كى صورت ميں بھى خداتعالى سب سے زيادہ آگاہ ہے_ اور يہ چيز كنايہ ہے كہ ان ميں

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303