اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

اسلام کے عقائد(دوسری جلد )18%

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 122641 / ڈاؤنلوڈ: 4700
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(دوسری جلد )

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

ملک الموت اسے جنت کی بشارت دیں گے۔ پھر منکر و نکیر جنت کی خوشخبری دیں گے۔ دیکھو جو محبت اہل بیت(ع) پر مرا جنت میں یوں سنوار کر لے جایا جائے گا جیسے دلہن اپنے خاوند کے گھر لے جائی جاتی ہے۔ دیکھو جو محبت اہل بیت(ع) پر مرا اس کے لیے قبر میں دو دروازے جنت کے کھول دیے جائیں گے۔ دیکھو جو محبت اہلبیت(ع) پر مر اس کی قبر کو اﷲ زیارت گاہ ملائکہ رحمت بنادے گا۔ دیکھو جو محبت آل محمد(ص) پر مرا وہ سنت و جماعت پر مرے گا۔ دیکھو جو بغض آلِ محمد(ص) پر مرا وہ قیامت کے دن یوں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا “ یہ رحمت خدا سے مایوس ہے”۔”

غرضیکہ آخر خطبہ تک آپ(ع) نے اسی کی توضیح فرمائی ہے۔ یہ خطبہ حضرت(ص) کا خطبہ عصما(1) کے نام سے مشہور ہے اور تمام محققین علماء اہلسنت نے اپنی کتابوں میں اس خطبہ کو درج کیا ہے۔ اس خطبہ میں آںحضرت(ص) نے بہتوں کی تمناؤں پر پانی پھیر دیا تھا ان احادیث کے کل مضامین متواتر ہیں خصوصا بطریق اہلبیت(ع) تو اور زیادہ آںحضرت(ص)  نےآل محمد(ص) کے اس قدر فضائل جو بیان کیے۔ ان کی محبت کی اتنی تاکید جو کی۔ ان کی ولایت کو بکرات و مرات اٹھتے بیٹھتے بیان جو کیا وہ کیا صرف اس وجہ سے کہ یہ حضرات آپ(ص) کے عزیز و قرابت دار تھے؟ اس بنا پر تو رسول(ص) کی شان عوام کی شان سے بھی پست ہوجاتی ہے، بلکہ رسول(ص) نے اتنا اہتمام صرف

--------------

1 ـ  امام ثعلبی نے اس حدیث کو اپنی تفسیر کبیر میں آیت مودت  کی تفسیر میں جریر بن عبداﷲ بجلی سے روایت کیا ہے اور علامہ زمخشری ن بطور مسلمات اس حدیث کو اپنی تفسیر میں درج کیا ہے۔

۶۱

اس لیے کیا کہ یہ حضرات خدا کی مکمل حجت تھے ، اس کی شریعت کے سرچشمہ تھے اور امر و نہی میں رسول (ص) کے قائم مقام تھے اور رسول(ص) کی ہدایت و تبلیغ سے اثر پذیر ہونے کا بہت ہی روشن اور واضح نمونہ تھے۔ لہذا جو ان سے اسی حیثیت سے کہ یہ حجت خدا ہیں، جانشین رسول(ص) ہیں اور رسول اسلام کا مکمل ترین نمونہ ہیں محبت کرے گا وہ خدا کی محبت بھی رکھنے والا ہے اور رسول(ص) کی بھی۔ اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ خدا سے بھی بغض رکھنے والا ہے اور رسول(ص) کے بھی۔ آںحضرت(ص) فرماچکے ہیں کہ ہم سے بس وہی محبت رکھے گا جو مومن و پرہیزگار ہے اور وہی بغض رکھے گا جو منافق و بدبخت(1) ہے۔ اسی وجہ سے فرزدق نے ان حضرات کی شان میں کہا ہے۔

                     من معشر حبهم دين و بغضهم                 کفرو قربهم منجی و معتصم

                     ان عد اهل التقی کانوا ائمتهم          او قيل من خير اهل الارض قيلهم

“ یہ امام زین العابدین(ع) اس جماعت سے ہیں جن کی محبت دین اور جن کی دشمنی کفر ہے۔ اور جن سے نزدیکی ذریعہ نجات اور جائے پناہ ہے۔ اگر پرہیزگار لوگ شمار کیے جائیں تو یہ اہل بیت(ع) ان کے امام و پیشوا ہوں گے یا اگر یہ سوال کیا جائے کہ بہترین اہل ارض کون ہے ، تو یہی جواب ملے گا کہ یہ اہل بیت(ع) نبی(ص) ہیں۔”

اور امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :

“ میں اور میری پاکیزہ نسل اور میری نیکو کار عترت بچپن میں تمام لوگوں سے زیادہ حلیم اور بڑے ہوکر سب سے زیادہ علم والے ہیں اور ہمارے ذریعہ سے خدا جھوٹ کو زائل کرے گا۔ ہمارے ذریعہ

--------------

1 ـ  صواعق محرقہ باب11۔

۶۲

سے خونخوار بھیڑیوں کے دانت توڑے گا۔ ہمارے ذریعہ تمھیں رہائی دلائے گا اور تمھاری گردنوں کی رسی جدا کرے گا۔ خدا ہم سے ابتدا کرتا ہے اور ہم پر ختم(1) ۔”

لہذا ہم نے جو آلِ محمد(ص) کو ان کے اغیار پر ترجیح دی اور مقدم سمجھا تو اس لیے کہ خداوندِ عالم نے انہیں سب پر مقدم رکھا اور ہر ایک پر ترجیح دی یہاں تک کہ نماز میں ان پر درود بھیجنا تمام بندوں پر واجب قرار دیا گیا۔ اگر کوئی پوری نماز پڑھ ڈالے اور ان پر درود نہ بھیجے تو اس کی نماز صحیح ہی نہیں ہوسکتی خواہ وہ کیسا ہی صاحب فضل کیوں نہ ہو، بلکہ ہر نماز گزار کے لیے ضروری ہے کہ اس طرح نماز پڑھے کہ نماز میں ان پر درود بھیجے جس طرح کلمہ شہادتین کا ادا کرنا ضروری ہے بغیر تشہد کے نماز نہیں اسی طرح بغیر درود کے صحیح نہیں۔ اہل بیت علیہم السلام کی یہ وہ منزلت ہے ، یہ وہ درجہ و مرتبہ ہے جس کے سامنے تمام امت کی گردنیں خم ہوگئیں اور آپ نے جن اماموں کا ذکر کیا ہے ان کی نگاہیں بھی اہل بیت(ع) کے علوئے مرتبت کے آگے خیرہ ہوگئیں۔ امام شافعی فرماتے ہیں

                     يا اهل بيت رسول اﷲ حسبکم                         فرض من اﷲ فی القرآن انزله

                     کفاکم من عظيم الفضل انکم                         من لم يصل عليکم لاصلاة له

“ اے اہل بیت(ع) رسول(ص) خدا آپ لوگوں کی محبت خداوند عالم نے اپنے نازل کردہ قرآن میں فرض بتائی ہے۔ آپ کی بزرگی و بلندی فضل و شرف کے لیے بس یہی کافی ہے کہ جو نماز میں آپ پر درود

-------------

[1] ـ  عبدالغنی بن سعید نے ایضاع الاشکال میں اس روایت کو درج کیا ہے۔ کنزالعمال جلد 6 صفحہ 296 پر بھی موجود ہے۔

۶۳

 نہ بھیجے اس کی نماز ، نماز ہی نہیں۔”

یہ چند دلیلین جو اہلِ بیت(ع) پیغمبر(ص) کی اطاعت واتباع اور ان کے قدم بہ قدم چلنے کو واجب بتاتی ہیں احادیثِ نبوی(ص) سے پیش کر کے ختم کرتا ہوں یہی آپ کے لیے کافی ہوں گے۔ قرآن مجید میں بے شمار محکم آیتیں ہیں ان کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ بس اہل بیت(ع) ہی کی پیروی واجب و لازم ہے۔ آپ جو کہ خود صاحب فہم و بصیرت ہیں اور ذکی اور ذہین ہیں اس لیے میں اشارہ کیے دیتا ہوں آپ کلام مجید کا مطالعہ فرمائیں آسانی سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا۔

                                                                             ش

۶۴

مکتوب نمبر6

ہماری تحریر پر اظہار پسندیدگی

آپ کا مکتوب گرامی پاکر شرف یاب ہوا۔ آپ کی قوت تحریر، زور بیان علمی تبحر اور محققانہ شان کا میں قائل ہوگیا۔ آپ نے تو کوئی گوشہ باقی نہیں رکھا اور تحقیقات کے خزانے آنکھوں کے سامنے کردیے۔

حیرت و دہشت کہ مذکورہ احادیث اور جمہور کی روش کو ایک کیونکر کیا جائے؟

جب میں نے آپ کے استدلال پر غور و فکر کیا اور آپ کے ادلہ و برہین پر گہری نگاہ کی تو میں عجیب تردد کے عالم میں پڑگیا ۔ میں آپ کے ادلہ پر نظر

۶۵

 کرتا ہوں تو انھیں بالکل ناقابل رد دیکھتا ہوں جتنے ثبوت آپ نے پیش کیے ہیں ان کو دیکھتا ہوں تو سوا تسلیم کرنے کے کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔ جب ائمہ اہل بیت(ع) کے متعلق سوچتا ہوں تو خدا و رسول(ص) کے نزدیک ان کی وہ منزلت معلوم ہوتی ہے کہ سوا عاجزی و خاکساری سے سر جھکا دینے کے کوئی چارہ نہیں اور جب جمہور مسلمین اور سواد اعظم پر نظر کرتا ہوں تو ان کا طرز عمل ادلہ کے مفہوم کے بالکل برعکس ہے۔ ادلہ بتاتے ہیں کہ بس ان ہی کی پیروی واجب ہے اور جمہور ہرکس و ناکس کی پیروی کرنے پر تیار لیکن اہل بیت(ع) کی پیروی پر آمادہ نہیں۔ میں عجیب کش مکش میں مبتلا ہوں گویا دو نفسوں کی کھینچا تانی میں پڑگیا ہوں۔ ایک نفس کہتا ہے کہ ادلہ کی پیروی کی جائے اور دوسرا کہتا ہے کہ اکثریت اور سواد اعظم کی روش پر چلنا چاہیے۔ ایک نفس نے تو اپنے کو آپ کے حوالے کردیا ہے اور آپ کے ہاتھ سے جانے واالا نہیں لیکن دوسرا جو ہے وہ اپنے عناد کی وجہ سے آپ کے ہاتھ میں جانے پر تیار نہیں اور نافرمانی پر تلا ہوا ہے۔

کلام مجید سے ادلہ کی خواہش

آپ کتابِ خدا سے کچھ اور ایسی قطعی دلیلیں پیش کرتے جو یہ سرکش نفس بھی قابو میں آجاتا۔ اور رائے عامہ کی متابعت کی دھن دماغ سے نکلتی۔

                                                     س

جواب مکتوب

کلام مجید سے دلائل

آپ بحمدہ ان لوگوں میں سے ہیں جو کلام مجید پر گہری نظر رکھتے ہیں اور

۶۶

 اس کے رموز و اسرار ظاہر و باطن سے واقف ہیں آپ خود غور فرمائیے کہ کیا اور کسی کے متعلق بھی ایسی واضح آیتیں نازل ہوئیں جیسی کہ اہل بیت(ع) طاہرین(ع) کی شان میں نازل ہوئیں۔ کیا کلام مجید کی محکم آیتوں نے سوا اہل بیت(ع) کے کسی اور کی طہارت و پاکیزگی کا حکم لگایا(1) ۔”

اہل بیت(ع) کے لیے جیسی آیتِ تطہیر نازل ہوئی کیا دنیا بھر کے لوگوں میں سے کسی ایک کے لیے نازل ہوئی(2) ۔؟

کیا قرآن مجید نے اہل بیت(ع) کے علاوہ کسی اور کی محبت و مودت واجب ہونے کو بتایا ہے(3) ؟

کیا آیہ مباہلہ اہلبیت(ع) کے علاوہ کسی اور کے متعلق لے کر جبرائیل(ع) نازل ہوئے(4) ؟

--------------

1 ـ جیسا کہ آیت تطہیر ان سے ہر رجس و گندگی دور ہونے کو بتاتی ہے۔

2 ـ ہرگز نہیں۔ اہلبیت(ع) کی یہ وہ فضیلت و شرف ہے جس میں ان کا کوئی  شریک نہیں۔

3 ـ ہرگز نہیں، بلکہ صرف انھیں کے ساتھ یہ فضیلت مخصوص ہے۔ خداوند کریم نے بس انھیں کی محبت فرض قرار دی ہے اور اس مخصوص فضیلت سے ان کو ہر کہہ ومہ پر شرف بخشا چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہہ دو اے رسول(ص) کہ ہم تم سے اپنی رسالت کا کوئی اجر نہیں طلب کرتے سوا اپنے قرابتداروں کی محبت کے اور جو شخص نیکی حاصل کرےگا( یعنی ان سے محبت رکھے گا) ہم اس کے لیے اس کی خوبی میں اضافہ کریںگے۔ بے شک اﷲ (محبت رکھنے والوں کو) برا بخشنے والا ہے ( اور ان کی محبت کا برا قدر دان ہے) تفسیر ثعلبی میں ابن عباس سے روایت ہے کہ نیکی سے آل محمد(ص) کی دوستی مراد ہے اور علامہ زمخشری صاحب کشاف نے سدی سے یہی روایت کی ہے دیکھیے تفسیر کشاف جلد3، صفحہ 68 مطبوعہ مصر۔

4 ـ آیہ مباہلہ بھی بس انھیں کے متعلق بالخصوص نازل ہوئی چنانچہ ارشاد خداوند عالم ہے ۔ کہہ دو اے رسول(ص) کہ ( اچھا میدن میں آؤ) ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ۔

۶۷

کیا اہل بیت(ع) کے علاوہ سورہ ہل اتی کسی اور کی شان میں قصیدہ مدحیہ بن کر نازل ہوا(1) ؟

کیا اہل بیت(ع) ہی خدا کی وہ رسی نہیں جن کے متعلق خدا نے فرمایا ہے؟

“ وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَميعاً وَ لا تَفَرَّقُوا”( آل عمران، 103)

     “ تم سب خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور پراگندہ نہ ہو(2)

کیا اہل بیت(ع) ہی  وہ صادقین نہیں ہیں جن کے متعلق خدا فرماتا ہے:

--------------

1 ـ  پورا سورہ ہل اتی اہلبیت(ع) کی مدح اور ان کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہوا ہے۔

2 ـ  امام ثعلبی نے اپنی تفسیر میں بسلسلہ اسناد ابان بن تغلب سے انھوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے امام جعفر صادق(ع) فرماتے ہیں کہ ہم وہ خدا کی رسی ہیں جن کے متعلق خدا نے فرمایا ہے کہ خدا کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو اور پراگندہ نہ ہو۔ ابن حجر مکی نے فصل اول باب 11 صواعق محرقہ مین دو آیتیں اکھٹا کی ہیں جو اہل بیت(ع) کے متعلق نازل ہوئیں چنانچہ اس آیت کو ان آیات میں شمار کیا ہے اور انھوں نے بھی ثعلبی سے نقل کر کے امام جعفر صادق علیہ السلام کا قول ذکر کیا ہے “ رشفتہ الصادی” میں امام شافعی کے یہ اشعار مذکور ہیں۔

 ولما رايت الناس قد ذهبت بهم             مذاهبهم فی ابحر الغی والجهل

 رکبت علی اسم اﷲ فی سفن النجا       وهم اهل بيت المصطفی خاتم الرسل

 وامسکت حبل اﷲ وهو ولاؤهم           کما قد امرنا بالتمسک بالحبل

جب میں نے دیکھا کہ اہل بیت(ع) کے بارےمیں لوگوں کو ان کے مذہب گمراہی و جہالت کے سمندر میں لے جارہے ہیں تو میں خدا کا نام لے کر سفینہ نجات پر سوار ہوگیا یعنی حضرت محمد مصطفی خاتم المرسلین(ص) کے اہل بیت کے ساتھ ہوگیا اور میں نے خدا کی رسی جو ان اہل بیت(ع) کی محبت واطاعت ہے مضبوطی سے پکڑ لی۔ جیسا کہ ہمیں حکم بھی دیا گیا ہے کہ خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو۔

۶۸

وَ كُونُوا مَعَ الصَّادِقينَ(1) (توبہ، 119)

کیا ہل بیت(ع) ہی وہ خدا کی راہ نہیں جس کے متعلق خدا نے فرمایا ہے:

 “وَ أَنَّ هذا صِراطي‏ مُسْتَقيماً فَاتَّبِعُوهُ(2) (آل عمران، 153 )

کیا اہل بیت(ع) ہی خدا کا وہ واحد راستہ نہیں جس کےمتعلق خدا نے امتِ اسلام کو حکم دیا :

وَ لا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبيلِهِ ” (آل عمران، 153 )

اہلبیت (ع) کو چھوڑ کر دوسری راہیں نہ اختیار کرو کہ اصلی راستہ ہی سے جدا ہوجاؤ۔

کیا اہل بیت(ع) ہی وہ اولی الامر نہیں جن کے متعلق خدا نے فرمایا ہے:

 “يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا أَطيعُوا اللَّهَ وَ أَطيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ” ( النساء، 59 )

 “ اے ایماندارو! اطاعت کرو خدا کی اور اس کے رسول(ص) اور تم میں سے جو اولی الامر ہیں(3) ۔”

--------------

1 ـ صادقین سے مراد یہاں حضرت رسول خدا(ص) اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام ہیں جیسا کہ ہماری صحیح اور متواتر حدیثیں بتاتی ہیں ہمارے علاوہ حضرات اہل سنت کے یہاں بھی حدیثیں موجود ہیں جو بتاتی ہیں کہ صادقین سے مراد یہی حضرات ہیں جیسا کہ حافظ ابونعیم اور موفق ابن احمد نے روایت کی ہے اور ان سے ابن حجر سے صواعق محرقہ باب 11 صفحہ20 پر نقل کیا ہے۔

2 ـ امام محمد باقر و جعفرصادق علیہم السلام فرماتے ہیں کہ صراط مستقیم سے مراد امام ہے اور ( لا تتبعوا السبیل دوسری راہیں نہ اختیار کرو) سے مقصود یہ ہے کہ گمراہ کرنے والے اماموں کی پیروی نہ کرو کہ اصلی راستہ ( یعنی ہم سے ) تم جدا ہوجاؤ۔

[1] ـ ثقہ الاسلام محمد بن یعقوب کلینی نے بسند صحیح بریدہ عجلی سے روایت کی ہے بریدہ کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر (ع) سے قول خدادندِ عالم “أَطيعُوا اللَّهَ وَ أَطيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ” کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے جواب میں یہ آیت پڑھی۔“ النساء : 51   أَ لَمْ تَرَ إِلَى الَّذينَ أُوتُوا نَصيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَ الطَّاغُوتِ وَ يَقُولُونَ لِلَّذينَ كَفَرُوا هؤُلاءِ أَهْدى‏ مِنَ الَّذينَ آمَنُوا سَبيلاً ” کیا تم ان لوگوں کو نہیں دیکھتے جنھیں تھوڑا بہت کتاب کا علم ملا ہے وہ شیطان اور طاغوت پر ایمان رکھتے ہیں اور کفر اختیار کرنے والوں کو کہتے ہیں کہ یہ ایمان لانے والوں سے زیادہ راہ راست پر ہیں یہ گمراہی اور ضلالت کے اماموں اور جہنم کی طرف لے جانے والوں کےمتعلق کہتے ہیں کہ آل محمد(ص) سے زیادہ راہ ہدایت پانے والے ہیں۔“ أُولئِكَ الَّذينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ وَ مَنْ يَلْعَنِ اللَّهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ نَصيراً ” یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی ہے اور جس پر خدا لعنت کرے اس کا کسی کو مددگار نہ پاؤگے۔

۶۹

کیا اہلبیت(ع) ہی وہ صاحبان ذکر نہیں جن کے متعلق خدا نے فرمایا ہے :

فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ

“ اگر تم نہیں جانتے تو صاحبان ذکر سے پوچھو (1) ۔”

کیا اہل بیت(ع) ہی وہ مومنین نہیں جن کے متعلق خدا کا ارشاد ہے:

وَ مَنْ يُشاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ ما تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدى‏ وَ يَتَّبِعْ غَيْرَ سَبيلِ الْمُؤْمِنينَ نُوَلِّهِ ما تَوَلَّى وَ نُصْلِهِ جَهَنَّمَ”  ( النساء، 115)

“ جو شخص ہدایت کا راستہ واضح ہوجانے کے بعد رسول(ص) کی مخالفت

--------------

1 ـ امام ثقلبی نے اپنی تفسیر میں جناب جابر سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو امیرالمومنین(ع) نے فرمایا کہ ہم ہی وہ اہل ذکر ہیں یہی جملہ ائمہ طاہرین(ع) سے منقول ہے علامہ بحرینی نے بیس سے زیادہ حدیثیں 35 باب میں درج کی ہیں سب کا مضمون یہی ہے۔

۷۰

 کرے گا اور مومنین کا راستہ چھوڑ کر دوسری راہ چلے گا ہم اس کو اس کی روگردانی کا مزا چکھائیں گے(1) ۔”

کیا اہل بیت(ع) ہی وہ ہادی نہیں جن کے متعلق فرمایا ہے: 

إِنَّما أَنْتَ مُنْذِرٌ وَ لِكُلِّ قَوْمٍ هادٍ ” (الرعد، 7)

“ اے رسول(ص) تم ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کے لیے ایک ہادی ہے(2) ۔”

اور کیا اہلبیت(ع) ہی وہ لوگ نہیں جن پر خدا نے اپنی نعمتیں نازل کیں اور جن کے متعلق خداواند عالم سے سورہ فاتحہ میں ارشاد فرمایا ہے:

“اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقيمَ صِراطَ الَّذينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ” ( فاتحه، 6-7)

--------------

1 ـ ابن مردویہ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ مشاقہ( مخالفت) رسول(ص) سے مراد یہاں علی(ع) کی شان میں اختلاف کرنا ہے اور من بعدما تبین لہ الہدی میں ہدی کا جو لفظ ہے اس سے مراد شان امیرالمومنین(ع) ہے یعنی امیرالمومنین(ع) کی شان و جلالت واضح ہونے کے بعد جو اس میں چون وچرا کرے۔ عیاشی نے بھی اپنی تفسیر میں اسی مضمون کی حدیث درج کی ہے ۔ ائمہ طاہرین(ع) سے بکثرت صحیح اور متواتر حدیثیں مروی ہیں جو بتاتی ہیں کہ سبیل مومنین سے مراد انہیں ائمہ طاہرین(ع) کا مسلک ہے۔

2 ـ ثعلبی نے اس آیت کی تفسیر میں جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول(ص) نے اپنا ہاتھ اپنے سینے پر رکھا کہ میں ڈرانے والا ہوں اور علی(ع) ہادی ہیں اور اے علی(ع) ! تمہارے ہی ذریعے ہدایت پانے والے ہدایت پائیں گے۔ اس مضمون کی متعدد حدیثیں مفسرین ، محدثین نے جناب ابن عباس سے روایت کی ہیں۔ محمد بن مسلم سے مروی ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا ہر امام اپنے زمانے کا ہادی ہے اور امام محمد باقر(ع) نے فرمایا ہے اس آیت کی تفسیر میں کی منذر سے مراد رسول(ص) اور ہادی سے مراد حضرت علی(ع) ہیں پھر آپ نے فرمایا کہ قسم بخدا یہ بات اب تک ہم میں چلی آرہی ہے۔

۷۱

“ خداوند ہمیں راہ راست کی ہدایت کر ان لوگوں کی راہ جن پر تونے اپنی نعمتیں نازل فرمائیں(1) ۔”

اور دوسری جگہ فرمایا ہے:

“  فَأُولئِكَ مَعَ الَّذينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَ الصِّدِّيقينَ وَ الشُّهَداءِ وَ الصَّالِحينَ ” ( نساء ، 69)

“ اور وہ مومنین بندے ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر خدا نے اپنی نعمت نازل کی ہے(2) ۔”

کیا خداوند عالم نے انھیں کے لیے ولایت عامہ نہیں قرار دی اور رسول(ص) کے بعد ولایت کا انحصار انھیں میں نہیں کردیا ۔ پڑھیے یہ آیت :

إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذينَ آمَنُوا الَّذينَ يُقيمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَ هُمْ راكِعُونَ ” (المائدة،55   )

“ اے لوگو! تمہارا ولی خدا ہے اور اس کا رسول(ص) اور وہ لوگ جو ایمان لائے ، جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوة دیتے ہیں(3) ۔”

--------------

1ـ ثعلبی اپنی تفسیر میں بسلسلہ تفسیر سورہ فاتحہ ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ صراطِ مستقیم سے مراد محمد(ص) وآل(ع) محمد(ص) کا راستہ ہے اور وکیع بن جراح سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے انھوں نے سفیان ثوری سے انھوں نے سدی سے انھوں نے اسباط و مجاہد سے اور انھوں نے جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ “اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقيمَ ” کا مطلب یہ ہے کہ تم کہو اے معبود محمد وآل محمد(ص) کی محبت کی طرف ہماری رہنمائی کر۔

2ـ کوئی شبہ نہیں کہ ائمہ علیہم السلام سید و سردار ہیں جملہ صدیقین و شہداء و صالحین کے۔

3 ـ تمام مفسرین کا اجماع و اتفاق ہے جیسا کہ علامہ قوشجی نے شرح تجرید مین اس کا اعتراف کیا ہے ( اور یہ علامہ قوشجی اشاعرہ کے ائمہ سے ہیں) کہ یہ آیت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی جب آپ نے نماز میں بحالت رکوع انگوٹھی خیرات کی تھی۔ امام نسائی نے بھی اپنی صحیح میں عبداﷲ بن سلام سے روایت کی ہے کہ یہ آیت امیرالمومنین علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی اسی طرح صاحب المجمع بن الصحاح الستہ نے بھی سورہ مائدہ کی تفسیر میں اس آیت کے امیرالمومنین(ع) کی شان مین نازل ہونے کی روایت کی ہے ثعلبی نے بھی اپنی تفسیر میں اس آیت کے امیرالمومنین (ع) کی شان میں نازل ہونے کی روایت کی ہے۔

۷۲

اور کیا خدا نے مغفرت کو مختص نہیں کردیا صرف ان لوگوں کے ساتھ جو توبہ کریں اور ایمان لائیں اور عمل صالح کریں اور ساتھ ساتھ ولایتِ آلِ محمد(ص) کی طرف ہدایت یاب بھی ہوں جیسا کہ خود خداوند عالم نے فرمایا ہے:

وَ إِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَ آمَنَ وَ عَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى‏” ( طہ، 82)

“ بے شک میں بخشنے والا ہوں اس کو جو توبہ کرے ایمان لائے اور عمل صالح کرے پھر ہدایت یاب بھی ہو(1) ۔”

--------------

1 ـ  ابن حجر نے صواعق محرقہ فصل اول باب 11 میں لکھا ہے ان کی اصل عبارت کا ترجمہ یہ ہے : آٹھویں آیت میں اﷲ تعالی فرماتا ہے : بے شک میں بخشنے والا ہوں اس کو جو توبہ کرے ، ایمان لائے اور عمل صالح کرے اور ساتھ ساتھ ہدایت یاب بھی ہو” ثابت نباتی کہتے ہیں کہ یعنی ولایت اہل بیت(ع) کی طرف ہدایت یاب ہو۔ امام محمد باقر(ع) و جعفرصادق(ع) سے بھی یہی مضمون مروی ہے۔ اس کے بعد ابن حجر نے امام محمد باقر(ع) کے اس قول کا بھی ذکر کیا ہے جو آپ نے حارث بن یحی سے فرمایا تھا کہ اے حارث ، کیا دیکھتے نہیں کہ خداوند عالم نے کیونکر شرط قرار دی ہے کہ انسان کو توبہ ایمان و عمل صالح اس وقت تک نفع بخش نہیں جب تک ہماری ولایت کی طرف راہ نہ پائے پھر آپ نے اپنی اسناد سے حضرت امیرالمومنین(ع) سے دریافت فرمائی ہے کہ اگر کوئی شخص توبہ بھی کرے ایمان بھی لائے عمل صالح بھی کرے مگر ہماری ولایت کی طرف ہدایت یافتہ نہ ہو اور ہمارے حق کو پہچانتا نہ ہو تو کوئی چیز بھی اس کے لیے فائدہ بخش نہ ہوگی۔ حافظ ابونعیم نے بھی عون بن ابی جعفر سے انھوں نے اپنے باپ سے انھوں نے حضرت علی(ع) سے اسی مضمون کی روایت کی ہے۔ امام حاکم نے امام محمد باقر(ع) وجعفر صادق(ع) ثابت بنائی انس بن مالک ان حضرات میں سے ہر شخص سے اس مضمون کی حدیث روایت کی ہے۔

۷۳

کیا انھیں کی ولایت وہ امانت نہیں  جس کے متعلق خداوند عالم کا ارشاد ہے(1) :

 “إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمانَةَ عَلَى السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ وَ الْجِبالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَها وَ أَشْفَقْنَ مِنْها وَ حَمَلَهَا الْإِنْسانُ إِنَّهُ كانَ ظَلُوماً جَهُولاً ” (احزاب، 72  )

“ ہم نے امانت کو آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں پر پیش کیا سب نے اس کا بوجھ اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے خائف ہوئے اور انسان نے اٹھالیا اور وہ تو ظالم و جاہل ہی ہے۔”

کیا اہل بیت  علیہم السلام ہی صلح و سلامتی نہیں جس میں داخل ہونے کا خداوند عالم نے حکم دیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد الہی ہے :

 “يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَ لا تَتَّبِعُوا خُطُواتِ الشَّيْطانِ ” (البقرة : 208)

“ اے لوگو! سب کے سب سلامتی میں داخل ہو جاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو(2)

--------------

1 ـ دیکھیے اس آیت کے معنی جو تفسیر صافی اور تفسیر علی بن ابراہیم قمی میں بیان کیے گئے ہیں۔ نیز ابن بابویہ نے امام محمد باقر علیہ السلام و امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے  اور علامہ بحرینی نے اس آیت کی تفسیر میں کتاب غایتہ المرام باب 115 میں حضرات اہلسنت کی حدیثیں درج کی  ہیں اسے بھی ملاحظہ فرمائیے۔

2 ـ علامہ بحرینی نے کتاب غایتہ المرام کے باب 224 میں بارہ صحیح حدیثیں اس آیت کے ولایت امیرالمومنین (ع9 وائمہ طاہرین(ع) کے بارے میں نازل ہونے کے متعلق لکھی ہیں اور باب 223 میں لکھا ہے کہ اصفہانی اموی نے امیرالمومنین(ع) سے متعدد طریق سے اس کی روایت کی ہے۔

۷۴

کیا اہل بیت(ع) ہی وہ نعمتِ خداوند عالم نہیں جس کے متعلق ارشاد الہی ہے :

 “ ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعيمِ ” ( التکاثر، 8)

“ قیامت کے دن ضرور بالضرور تم سے اس نعمت کا سوال کیا جائے گا(1) ۔”

کیا حضرت سرورکائنات(ص) کو اسی نعمت کے پہنچانے کا تاکیدی حکم نہیں ہوا؟ اور اتنی سختی نہیں کی گئی جو دھمکی سے مشابہ تھی؟ جیسا کہ آیت کا اندازہ بتاتا ہے:

  “يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ” (مائدہ، 67)

“ اے رسول(ص) پہنچا دو اس چیز کو جو تم پر تمھارے پروردگار کی جانب سے نازل ہوئی اگر تم نے ایسا نہ کیا تو گویا تم نے کار رسالت انجام ہی نہیں دیا ۔ تم ڈرو نہیں خدا تمہیں لوگوں سے محفوظ رکھے گا(2) ۔”

--------------

1 ـ  علامہ بحرینی نے غایتہ المرام باب اڑتالیس میں 3 حدیثیں حضرات اہلسنت کے طریقوں سے لکھی ہیں جن سے مستفاد ہوتا ہے کہ نعیم سے مراد یہاں ولایت حضرت سرورکائنات(ص) اور امیرالمومنین(ع) اور ائمہ طاہرین علیہم السلام ہے جس سے خداوند عالم نے بندوں کو سر فراز کیا اور باب 49 میں شیعوں کی 12 صحیح حدیثیں اسی مضمون کی درج کی ہیں۔

2 ـ ایک دو نہیں بکثرت محدثین جیسے امام واحدی و غیرہ نے اپنی کتاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۷۵

۷۶

۷۷

وارد ہوئی ہیں اور درحقیقت ان حضرات کی ولایت ہے بھی ایسی ہی اہمیت کی حامل کیونکہ ان کی ولایت ان چیزوں میں سے ہے جن کی تبلیغ کے لیے خداوند عالم نے انبیاء مبعوث کیے۔ انباء و اوصیاء کے ذریعے اپنی حجتیں قائم کیں ، جیسا کہ آیہ :

 “وَ سْئَلْ مَنْ أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ (1) مِنْ رُسُلِنا ”( زخرف، 45)

“ ہمارے ان رسولوں سے پوچھو جنھیں ہم نے تم سے پیشتر بھیجا تھا۔”

کی تفسیر میں علماء نے صراحت فرمائی ہے بلکہ ان کی ولایت تو وہ مہتم باشان امر ہے جس کا خداوند عالم نے روزِ الست ارواح خلق سے عہد وپیمان لیا، جیسا کہ :

 “وَ إِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَني‏ آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَ أَشْهَدَهُمْ عَلى‏ أَنْفُسِهِمْ أَ لَسْتُ بِرَبِّكُمْ قالُوا بَلى‏ (2) ”( اعراف، 172)

“ اور اے رسول(ص) وہ وقت بھی یاد دلاؤ جب تمھارے پروردگار نے آدم(ع) کی اولاد سے یعنی پشتوں سے باہر نکال  کر ان کی اولاد سے خود ان کے مقابلے میں اقرار کرالیا۔ پوچھا کہ کیا میں تمھارا پروردگار نہیں ہوں۔ تو سب کے سب بولے ۔ہاں۔”

کی تفسیر بتاتی ہے۔ انھیں ذواتِ مقدسہ سے وسیلہ حاصل کر کے آدم(ع) نے وہ کلمات سیکھے جن کے ذریعے ان کی توبہ قبول ہوئی(3) ۔

یہی وہ حضرات ہیں جن کی وجہ سے خداوند عالم نے امت سے اپنا عذاب دور رکھا۔(4)

--------------

1 ـ حلیتہ الاولیاء ، ابونعیم اصفہانی، تفسیر ثعلبی، تفسیر نیشاپوری۔

2 ـ فردوس الاخبار، علامہ دیلمی باب 14، صفحہ 304۔

3 ـ تفسیر در منثور جلد1، صفحہ61، کنزالعمال، جلد1، صفحہ234، ینابیع المودہ، صفحہ79۔

4ـ  صواعق محرقہ، تفسیر آیہ “وما کان اﷲ ليعذب ه م الخ”

۷۸

یہ زمین والوں کے لیے جائے پناہ اور خدا تک پہنچنے کا ذریعہ و وسیلہ ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن سے حسد کیا گیا اور خداوند عالم نے ان کے بارے میں فرمایا :  “أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلى‏ ما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ (1) ” (نساء، 54)

“ یہ لوگ کیوں جل رہے ہیں ہمارے ان مخصوص لوگوں سے جن کے دامن میں ہم نے اپنے فضل سے نعمتیں بھر دی ہیں۔”یہی وہ علم میں راسخ حضرات ہیں جن کے متعلق خداوند عالم نے فرمایا :“وَ الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا (2) ” ( آل عمران، 7)

“ علم میں گڑے ہوئے سمائے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔”یہی وہ اعراف کے رجال ہیں جن کے متعلق خداوند عالم کا ارشاد ہے: “  وَ عَلَى الْأَعْرافِ رِجالٌ يَعْرِفُونَ كُلاًّ بِسيماهُمْ (3) ”( الاعراف، 46)

--------------

1 ـ صواعق محرقہ، باب 11، آیت6۔

2 ـ ثقتہ الاسلام علامہ کلینی نے امام جعفر صادق(ع) سے روایت کی ہے “ ہم ہی وہ لوگ ہیں جن کی اطاعت خدا نے فرض کی۔ ہم ہی راسخون فی العلم ہیں، ہم ہی وہ لوگ ہیں جن سے حسد کیا گیا۔ ” جناب شیخ نے بھی تہذیب میں امام جعفر صادق(ع)  سے اس حدیث کی روایت کی ہے۔

3ـ ینابیع المودة صفحہ 83، روح البیان جلد1 ، صفحہ 723، ابن عباس سے مروی ہے کہ اعراف صراط سے ایک بلند جگہ ہے جس پر عباس، حمزہ، علی، اور جعفر ذوالجناحین ہوں گے، وہ اپنے دوستداروں کو ان کے روشن چہروں سے اور اپنے دشمنوں کو ان کے سیاہ چہروں سے پہچان لیں گے۔ امام حاکم نےبسلسلہ اسناد حضرت علی(ع) سے روایت کی ہے کہ ہم بروز قیامت جنت ونار کے درمیان کھڑے ہوں گے جس نے ہماری مدد کی ہوگی اسے ہم پہچان کر جنت میں اور جس نے دشمن رکھا ہوگا اسے جہنم میں داخل کریںگے اسی مضمون کی وہ حدیث کی تاکید کرتی ہے جو دار قطنی نے روایت کی ہے( ملاحظہ ہو صواعق محرقہ باب نہم) حضرت علی(ع) نے ان چھ آدمیوں سے جنھیں حضرت عمر نے اپنے بعد خلیفہ مقرر کرنے کے لیے صاحبان شوری قرار دیا تھا ایک طولانی گفتگو میں کہا میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ تم میں میرے سوا کوئی بھی ایسا ہے جس کے بارے میں پیغمبر(ص) نے فرمایا اےعلی(ع) تم بروز قیامت قسیم نار و جنت ہوگے لوگوں نے کہا نہیں آپ کے سوا اور کسی کے متعلق رسول(ص) نے ایسا نہیں فرمایا۔ علامہ ابن حجر ( اس حدیث کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے جیساکہ عنترہ نے امام رضا(ع) سے روایت کی ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا اے علی (ع) تم قسیم نار وجنت ہو تم جنت سے کہو گے یہ تیرے لیے ہے اور یہ میرے لیے۔ علامہ ابن حجر فرماتے ہیں کہ سماک نے دریافت کی ہے کہ ابوبکر نے حضرت علی(ع) سے کہا میں نے پیغمبر(ص) کو ارشاد فرماتے سنا ہے “ پل صراط سے بس وہی گزرے گا جسے علی(ع) نے پروانہ راہداری دیا ہو۔”

۷۹

“ اعراف پر ایسے مرد ہوں گے جو ہر شخص کو بہشتی ہو یا جہنمی اس کی پیشانی سے پہچان لیں گے۔”

یہی وہ رجال صدق ہیں جن کے متعلق ارشاد ہوا :

 “  رِجالٌ صَدَقُوا ما عاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضى‏ نَحْبَهُ وَ مِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَ ما بَدَّلُوا تَبْديلاً ” ( احزاب، 23)

“ ایمانداروں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ خدا سے انھوں نے جان نثاری کا جو عہد کیا تھا اسے پورا کردکھایا۔ ان میں سے بعض وہ ہیں جو مر کر اپنا وقت پورا کر گئے اور ان میں سے بعض حکم خدا کے منتظر بیٹھے ہیں اور ان لوگوں نے اپنی بات ذرا بھی نہیں بدلی(1) ۔”

--------------

1 ـ علامہ ابن حجر نے صواعق محرقہ ، باب 9 میں تحریر کیا ہے کہ حضرت امیرالمومنین(ع) منبر کوفہ پر تشریف رکھتے تھے کہ کسی نے اس آیت کے متعلق سوال کیا۔ آپ نے فرمایا یہ آیت میرے اور میرے چچا حمزہ اور چچازاد بھائی عبیدہ بن حارث کے متعلق نازل ہوئی۔ عبیدہ تو بروز بدر واصل بحق ہوئے۔ چچا حمزہ احد میں شہید ہوئے رہ گیا میں سو میں اس بدبخت ترین مردم کا انتظار کررہا ہوں جو میری ڈاڑھی کو میرے سر کے خون سے خضاب آلود کرےگا۔ میرے حبیب محمد مصطفی(ص) مجھے بتا گئے ہیں۔ امام حاکم نے بھی اس مضمون کی حضرت علی(ع) سے روایت کی ہے۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

خدا وند عالم باطل کو محو ونابود اور حق کو اپنے فرمان سے ثا بت و استوار رکھتا ہے،یعنی باطل کے آثار کو مٹا دیتا ہے۔

آیات کی تفسیر

خدا وند سبحان ان آیات میں فرماتا ہے :کفار قریش نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے درخواست کی کہ ان کے لئے معجزات پیش کریں خدا وند عالم نے ان کی نوع درخواست کو بھی سورۂ اسراء میں بیان کرتے ہوئے فرمایا:

( و قالوا لن نؤمن لک حتیٰ تفجر لنا من الأرض ینبوعاً)( أو تُسقط السماء کما زعمت علینا کسفا ً أو تأتی بﷲ و الملا ئکة قبیلا ً ) ( ۱ )

اورانھوں نے کہا: ہم اس وقت تک ہرگز تم پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ تم اس سر زمین سے جوش مارتا چشمہ نہ جاری کردو یا آسمان کے ٹکڑے (جیسا کہ خیال کرتے ہو) ہمارے سر پر نازل کر دو، یا خدا اور فرشتوں کو ہمارے سامنے حاضرلے آؤ۔

سورۂ رعد کی ۳۸ ویں آیت میں فرماتا ہے:

(و ما کان لرسولٍ أن یأتی بآےة)

کوئی پیغمبر حق نہیں رکھتا کہ جو معجزہ اس سے طلب کیا گیا ہے پیش کر ے''الا باذن ﷲ'' مگر خدا کے اذن سے، کیو نکہ ہر کام کے لئے جو مکتوب الٰہی میں مقدر ہے ایک خاص وقت اور زمانہ ہو تا ہے۔

خدا وند عالم بعد کی آیت میں بغیر فا صلہ کے، نوشتہ ٔ تقدیر کے استثناء کو بیان کرتے ہو ئے فرماتا ہے: (یمحو ﷲ ما یشائ)خدا جو چاہتا ہے محو کر دیتا ہے، یعنی خدا کا ہاتھ بندھا ہوا (مجبور) نہیں ہے وہ جب چاہے

رزق ، اجل ،سعادت اور شقاوت اس مکتوب مقدر(نوشتۂ تقدیر) میں بد ل دیتا ہے،و یثبت ما یشائ'' اور (مکتوبات میں سے ) جس کو چاہتا ہے ثابت اور باقی رکھتا ہے ، کیو نکہ'' وعندہ أمّ الکتاب''، اصل کتاب تقدیر و سر نو شت یعنی ''لوح محفوظ'' جس میں کسی قسم کی تبدیلی اور تغییر نہیں ہے وہ خدا کے پاس ہے۔

اسی وجہ سے اس کے بعد فرماتا ہے:

( واِن ما نرینّک بعض الذی نعد هم )

____________________

(۱)اسراء ۹۰، ۹۲

۱۶۱

اور اگر کچھ ایسے عذاب جن کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے تمھیں (زمان حیات میں ) دکھادیں ''او نتوفینک'' یا تمہیں(اس سے پہلے) موت دے دیں '' فانما علیک البلا غ'' ہر حال میں تم صرف ابلاغ کرنے والے ہو اور بس۔

اس آیت کی تفسیر میں طبری، قر طبی اور ابن کثیر نے ایک روایت ذکر کی ہے جو ہمارے مدعیٰ کی تائید کرتی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:دوسرے خلیفہ عمر ابن خطاب نے خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے کہا:

''اللّهمّ اِن کنت کتبتنِی فِی أهل السعادة فا ثبتنِی فیها و اِن کنت کتبتنیِ فی أهل الشقا وة و الذنب فا محنِی و اثبتنیِ فِی أهل السعادة و المغفرة فاِنّک تمحو ما تشاء و تثبت وعندک أم ّالکتاب''

خدایا !اگر تو نے مجھے سعادت مندوں کے زمر ہ میں قرار دیا ہے تو ان کے درمیان مجھے استوار کر دے اور اگر بد بختوں کے زمرہ میں مجھے قرار دیا ہے تو اشقیاء کی صف سے نکال کر سعیدوں کی صف میں شا مل کر دے کیونکہ تو جو چاہتاہے محو کر دیتاہے اور جو چاہتاہے ثابت اور قائم رکھتا ہے اور اصل کتاب تیرے پاس ہے۔

''ابی وائل'' کا قول ذکر کیا جاتاہے وہ بارہا کہتاتھا:

''اللّھمّ اِن کنت کتبتنا أشقیاء فا مح وا کتبنا سعدائ،واِن کنت کتبتنا سعداء فاثبتنا فاِ نک تمحو ما تشاء و تثبت و عندک أمّ الکتاب''

خدایا! اگر تو نے ہمیں بد بختوں کے زمرہ میں قرار دیا ہے تو ان کے درمیان سے ہمارا نام مٹا کر نیک بختوں کے زمرہ میں درج کر دے اور اگر نیک بختوں کے زمرہ میں قرار دیا ہے تواس پر ہمیں ثا بت رکھ کیونکہ تو جو چاہے محو کر دے اور جو چاہے ثابت اور باقی رکھے اور اصلی کتاب تیرے ہی پاس ہے۔( ۱ )

بحار الانوار میں مذکور ہے:

(و اِن کنت من الأ شقیا ء فا محنیِ من الأ شقیاء واکتبنیِ من السعداء فأنّک قلت فِی کتا بک المنزّل علیٰ نبیک صلوا تک علیه و أ له یمحو ﷲ ما یشاء و یثبت و عنده أٔم الکتاب )( ۲ )

____________________

(۱) دونوں ہی حدیث طبری نے آیت کی تفسیر کے ذیل میں ذکر کی ہے ،ابو وائل شقیق ابن سلمہ کو فی ہے، اس کے حا لا ت زندگی تہذیب التہذیب ،ج ۱۰،ص۳۵۴ پر اس طرح ہیں : وہ ثقہ ہے اور مخضرم: (جاہلیت اور اسلام) دونوں ہی کو درک کیا) ہے صحابہ اور تابعین کے زمانے میں مو جود تھا اور عمر بن عبد العزیز کی خلافت کے زمانے میں سو سا ل کی زندگی میں دار فانی کو وداع کیا۔

(۲)بحار الانوار ج۹۸،ص۱۶۲

۱۶۲

اور اگر میں بدبخت اور شقی ہوں تو ان کے زمرہ سے مٹا کر نیک بختوں کے زمرہ میں شامل کر دے ، کیونکہ تو نے ہی اپنی اس کتاب میں جسے تو نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل کی ہے فرما یا ہے :خدا جو چاہتا ہے بر قرار رکھتا ہے اور جو چاہتاہے محو اورزائل کر دیتا ہے اور اصل کتاب اسی کے پاس ہے۔

قر طبی نے بھی اس روایت کے ذیل میں جو اس نے صحیح بخاری اور مسلم سے نقل کی ہے ، اس معنی پر استدلال کیا ہے ۔

روایت کہتی ہے :رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''من سرّه أن یبسط له فیِ رزقه و يُنسَأ له فیِ أثر ه (اجله) فلیصل رَحِمَه'' ( ۱ )

جو شخص وسعت رزق اور عمر کی زیاد تی سے خو شنود و شاد ہوناچاہتا ہے،اسے چاہئے کہ اپنے اقرباء و اعزاء کے ساتھ نیکی کرے۔

ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ ان سے کسی سائل نے یہ سوال کیا : عمر اور اجل میں کس طرح زیادتی اور اضا فہ ہو تا ہے؟ ا نھوںنے کہا: خدا وند عزو جل نے فرمایا ہے:

( هو الذیِ خلقکم من طینٍ ثَّم قضیٰ أجلا ً و أجل مسمّی عنده )

وہ ذات جس نے تمھیں مٹی سے خلق کیا پھر ایک مدت معین کی، لیکن یقینی اجل (مدت) اسی کے پاس ہے۔( ۲ )

ابن عباس نے کہا : آیت میں پہلی اجل (موت) بندہ کی اجل ہے پیدائش سے موت تک اور دوسری اجل یعنی جو خدا کے پاس ہے۔موت کے بعد سے قیامت تک ہے جو کہ برزخ میں گزارتاہے اور کوئی خدا کے علاوہ اسے نہیں جانتا ، اگر کوئی بندہ خدا سے خوف کھائے اور''صلہ رحم'' بجا لائے تو خدا اس کی بر زخی عمر کو کم کرتا ہے اور پہلی عمر میں اضا فہ کر دیتاہے اور اگر نافرمانی کر ے اور قطع رحم ( رشتہ داری ختم کر ے) کرے تو خدااس کی دنیا وی عمر کم کر کے بر زخی عمرمیں اضا فہ کر دیتا ہے۔،،( ۳ )

ابن کثیر نے اس استد لال میں اضافہ کر تے ہو ئے ایک بات کہی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے: یہ بات اس روایت سے جو احمد ، نسائی اور ابن ماجہ نے بیان کیا ہے ہم آہنگ ہے، ان لوگوں نے ذکر کیا ہے کہ رسول

____________________

(۱)صحیح بخاری ،ج۳، ص ۳۴ کتاب الادب، باب ۱۲،۱۳ اور صحیح مسلم ، ص ۱۹۸۲، حدیث ۲۰ ۲۱،صلہ رحم کے باب سے اور مسند احمد ، ج ۳، ص ۲۴۷ ،۲۶۶ ج،۵، ص ۷۶.

(۲)انعام۲.

(۳)تفسیر قر طبی ، ج۹،ص ۳۲۹، ۳۳۱.

۱۶۳

خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

(اِنَّ الرجل لیحرم الرزق با لذنب یصیبه و لایردّ القدر اِلّا الد عاء و لا یز ید فی العمر اِلّا البرّ )( ۱ )

انسان کبھی گناہ کے باعث روزی سے محروم ہو جاتا ہے اور اس بلا و سر نوشت کو دعا کے علاوہ کوئی اور چیز ٹال نہیں سکتی اور نیکی کے علاوہ کوئی چیزاس کی عمر میں اضا فہ نہیں کر سکتی۔

دوسری حدیث میں ارشاد ہوا:

''انَّ الدعاء و القضا ء لیعتلجان بین السماء و ألارض'' ( ۲ )

دعا اور سر نو شت آسمان و زمین کے ما بین آپس میں مبا رزہ کر تی ہیں۔

جو ہم نے ذکر کیا ہے اس آیت کے معنی کے ذیل میں بیان کئے گئے رخوں میں سے ایک تھا، دیگر وجوہات بھی آیت کے معنی کے ذیل میں لوگوں نے بیان کی ہیں ، جیسے یہ بات :''محوو اثبات'' سے مراد آیت میں کسی حکم کامحو کرنا اور دوسرے حکم کا اثبات ہے ، یعنی احکام شر یعت کا نسخ کرنا اورزیادہ صحیح اور درست یہ ہے کہ ہم کہیں: مقصود آیت سب کو شامل ہے ، جیسا کہ قرطبی نے بھی اسی نظریہ کو انتخاب کر تے ہوئے کہا ہے:

'' یہ آیت عام ہے اور ہرچیز کو شامل ہے اور یہ اظہر ہے اور خدا زیادہ جاننے والا ہے''( ۳ )

طبری اور سیو طی نے ابن عباس سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اس آیت:

( یمحو ﷲ ما یشا ء ویثبت و عنده ام الکتاب )

کے سلسلہ میں کہا ہے کہ خدا ہر سال کے امور کو شب قدر میں معین فرماتا ہے سوائے نیک بختی اور بد بختی کے...( ۴ )

ب:۔ خدا وند سبحان سورۂ یو نس میں فرماتا ہے:

( فلولاکانت قر ية آمنت فنفعها اِیما نها اِلّاقوم یونس لمّاآمنوا کشفنا عنهم عذاب الخزیِ فیِ الحيٰوة الدُّ نیا ومتَّعنا هم اِلیٰ حینٍ ) ( ۵ )

کیوں شہر و آبادی کے لوگوں میں کسی نے ایمان قبول نہیںکیا تا کہ انھیں ان کا ایمان فائدہ پہنچائے جز یونس کی قوم کے کہ جب وہ ایمان لائی،تو دنیا وی زندگی میں ذلت وخواری کا عذاب ان سے ہٹا لیا اور ایک مدت تک انھیں فیضیا ب کیا ۔

____________________

(۱)مقدمہ سنن ابن ماجہ ، باب ۱۰، حدیث ۹۰.(۲) تفسیر ابن کثیر، ج،۲،ص۵۱۹.(۴) تفسیر قرطبی،ج،۲،ص۳۲۹.(۵)تفسیر طبری،ج ۱۳،ص۱۱۱ و تفسیر سیو طی،ج،۴،ص۶۵عبارت طبری کی ہے.

۱۶۴

کلمات کی تشریح

۱۔''کشفنا'': ہم نے زائل کیا ،مٹا دیااور اٹھا لیا۔

۲۔''خزیِ'': خواری،ذلت ورسوائی۔

۳۔''حین'': نا معلوم وقت اور زمانہ جس کی کمی و زیادتی معلوم اور معین نہیں ہے۔

آیت کی تفسیر

تفسیر طبری،قرطبی اور مجمع البیان میں مذ کور داستان کے مطا بق حضرت یو نس کی داستان کا خلاصہ یوں ہے:

یونس کی قوم موصل کی سر زمین نینوا میں زندگی گز ار رہی تھی اور بتوں کی پوجا کر تی تھی ، خدا وند عالم نے یونس کو ان کی طرف بھیجا تا کہ انھیں اسلام کی دعوت دیں اور بت پر ستی سے روکیں ، انھوں نے انکار کیا۔ ان میں سے دو آدمی ایک عا بد اور ایک عالم نے حضرت یو نس کی پیر وی کی، عابد نے حضرت یو نس سے درخواست کی کہ اس قوم کے خلاف نفر ین و بد دعا کریں لیکن عالم نے انھیں منع کیا اور کہا : ان پر نفرین نہ کریں، کیو نکہ خدا آپ کی دعا توقبو ل کرلے گا لیکن اپنے بندوں کی ہلاکت پسند نہیں کرے گا ! یونس نے عابد کی بات مان لی اور نفرین کر دی ،خدانے فرمایا فلاں دن عذاب نازل ہو گا ،یونس نے انھیں اس کی خبر دی، جب عذاب کا وقت قریب آگیا تو یو نس اس عابد کے ساتھ باہر نکل گئے لیکن وہ عالم ان کے درمیان موجود رہا، قوم یو نس نے اپنے آپ سے کہا:ہم نے اب تک یو نس سے کوئی جھوٹ نہیں دیکھا ، ہو شیار رہو اگر وہ آج رات تمہا رے درمیان رہے تو پھر کوئی عذاب نہیں ہے لیکن اگر باہر نکل گئے تو یقین کرو کہ کل صبح تم پر عذاب آنا یقینی ہے ،جب آدھی رات ہوئی تو یو نس ان کے درمیا ن سے ا علانیہ نکل گئے، جب ان لو گوں نے یہ جان لیا اور عذاب کے آثار مشاہدہ کئے اور اپنی ہلا کت کا یقین کر لیا تو اس عالم کے پاس گئے اس نے ان لوگوں سے کہا : خدا کی بارگاہ میں گر یہ و زاری کرو وہ تم پر رحم کر ے گا اور تم سے عذاب کو دور کر دے گا بیا بان کی طرف نکل جاؤ عورتوں بچوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دواور حیوا نوںاوران کے بچوںکے درمیا ن جدائی پیدا کر دو پھر دعا کرو اور گر یہ کرو ۔

۱۶۵

ان لوگوں نے ایسا ہی کیا عورتوں بچوں اور چو پا یوں کے ہمرا ہ صحرا کی طرف نکل پڑے، لباس پشمی پہنااور ایمان و تو بہ کا اظہار کیا اور اپنی نیت کو خالص کیا اور تمام مائوںکے خواہ (انسانوں کی ہوں یا حیوا نات )کی اور ان کے بچوں کے درمیان جدائی پیدا کر دی پھر گریہ و زاری ، نالہ و فریاد میں مشغول ہوگئے جب آوا زیںغم و اندوہ میں ڈوب گئیں اورفریادیںگونج گئیں تو نالہ و اندوہ کے ساتھ خدا کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے : خدا یا جو کچھ یو نس نے پیش کیا ہے ہم اس پر ایمان لائے تو خدا نے انھیں بخش دیا اوران کے گناہ معاف کرکے ان کی دعا قبول کر لی اور ان کے سر وں پر سایہ فگن عذاب کو ان سے بر طرف کر دیا...۔

خدا وند عالم نے قوم یو نس سے عذاب کو اس طرح ان کے تو بہ کر نے کے بعدبر طرف کر دیا، ہاں ، خدا جو چا ہتا ہے محو کر تا یا اسے بر قرار رکھتا ہے۔

ج: خدا وند سبحان سورۂ اعرا ف میں فرماتا ہے:

( ووأعد نا موسی ثلا ثین لیلةً و أتممنا ها بعشر ٍ فتمَّ میقات ربّه أر بعین لیلةً ) ( ۱ )

اور ہم نے مو سیٰ کے ساتھ ۳۰ رات کا وعدہ کیا اور اسے دیگر ۱۰ شب سے مکمل کیا یہاں تک ان کے رب کا وعدہ چا لیس شب میں تمام ہو گیا۔

سورہ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے۔

( واِذا وأعد نا مو سیٰ أر بعین لیلة ثُمَّ اتّخذ تم العجل من بعده و أنتم ظا لمون )

اورجب ہم نے موسیٰ کے ساتھ چالیس شب کا وعد ہ کیا اور تم نے اس کے بعد جب کہ ظالم و ستمگر تھے،گو سا لہ تیارکرلیا۔( ۲ )

____________________

(۱)اعراف۱۴۲.

(۲)بقرہ:۵۱.

۱۶۶

چہارم : بداء مکتب خلفا ء کی روایات میں

طیا لسی، احمد ، ابن سعد اور تر مذی ایک روایت نقل کر تے ہیں جس کا خلاصہ طیا لسی کی عبارت میں یوں ہے:

''قال رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلی ﷲ علیه وآله وسلم:انَّ ﷲ أریٰ آدم ذر يَّته فرأ یٰ رجلا ً أز هرسا طعاًنو ره، قال: یا ربّ من هذا؟ قال : هذا ابنک داود! قال : یا ربّ فما عمره ؟ قال: ستوّن سنة! قال: یا ربِّ زد فی عمرهِ! قال : لا .اِلّا تزیده من عمر ک ! قال وما عمری ؟ قال: ألف سنة! قال آدم! فقد و هبتُ له أر بعین سنة من عمری فلمَّاحضرهُ الموتُ و جا ئَ ته الملا ئکةُ قال : قد بقِی من عمریِ أربعون سنة، قٰا لُوا اِنّک قد وهبتهالد اود''

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فر مایا : خدا وند عالم نے آدم کو ا ن کی نسل دکھا ئی ، تو آدم نے ان کے درمیان ایک نو رانی صورت مرد کو دیکھا ، عرض کیا: خدا یا : یہ کون ہے؟ فر مایا: یہ تمہارے فر زند داؤد ہیں! عرض کیا: خدا یا ! اس کی عمر کتنی ہے ؟ فر مایا: ساٹھ سال! آدم نے کہا : پالنے والے! میرے اس فرزند کی عمر میں اضافہ فرما ! ارشاد قدرت ہوا: نہیں ، مگر یہ کہ تم خود اپنی عمر سے اس کی عمر میں اضافہ کردو ، دریافت کیا : پالنے والے ! میری عمر کتنی ہے ؟ فرمایا :ہزار سال ، آدم نے کہا : میں نے اپنی عمر کے چالیس سال اسے بخش دیئے چنانچہ جب ان کی وفات کا زمانہ قر یب آیا اور فرشتے روح قبض کر نے کے لئے ان کے سر ہانے آئے تو انھوں نے کہا : ابھی تو میر ی عمر کے چالیس سال باقی ہیں ! انھوں نے کہا : آپ نے خود ہی اسے داؤد کو بخش دیا ہے۔( ۱ ) یہ روایت اور اس کے علاوہ ، '' صلہ رحم'' کے آثار کے بارے میں اور اس کے مانند ہم نے مکتب خلفاء کی روایات سے جو کچھ پیش کیا ہے وہ سب'' یمحوﷲ ما یشا ء و یثبت وعندہ ام الکتاب''کے مصادیق میں سے ہے ، ائمہ اہل بیت نے'' محوو اثبا ت'' کو بداء کے نام سے ذکرکیاہے کہ انشاء ﷲ پانچویں حصّہ میں اس کی تحقیق اور بر رسی کر یں گے۔

پنجم: بداء ائمہ اہل بیت کی روایات میں

بحار میں حضرت امام جعفر صادق سے ذکر کیا ہے کہ آپ نے فرمایا :

''ما بعث ﷲ عزَّ وجل نبیا ً حتیٰ یأ خذ علیه ثلاث خصا لٍ: الا قرارُ با لعبو دية، و خلع الأنداد، و انَّ ﷲ یقدم ما یشا ء و یؤخرما یشائ ''( ۲ ) خدا وند عالم نے کسی پیغمبر کو اس وقت تک مبعوث نہیں کیا جب تک کہ اس سے تین چیزوں کا مطا لبہ نہیں کیا: خدا کی بند گی کا اقرار ،اس کے لئے ہر طرح کے شریک اور ہمتا کی نفی اور یہ کہ خدا جسے چاہے مقدم کر دے

____________________

(۱)مسندطیالسی ص۳۵۰ح۲۶۹۲؛مسند احمد ج۱ ،ص ۲۵۱،۲۹۸،۳۷۱؛طبقات ا بن سعد چاپ یورپ، ج۱، پہلا حصہ ص۷تا۹؛ سنن ترمذی،ج۱۱، ص۱۹۶ ۱۹۷ ؛ سورئہ اعراف کی تفسیر میں ۔ اور علامہ مجلسی نے تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ اس روایت کو بحار الانوار ج۴ ص ۱۰۲ ،۱۰۳ میں درج کیا ہے۔ (۲)بحارج۴،ص۱۰۸، بہ نقل از توحید صدوق.

۱۶۷

اور جسے چاہے مو ٔ خر کر دے۔

امام جعفر صادق نے اس معنی کو ایک دوسرے بیان میں لفظ''محوو اثبات'' کے ذریعہ ذکر کرتے ہو ئے فرمایا ہے۔

''ما بعث ﷲ نبیا ً قط حتیٰ یأ خذ علیه ثلا ثا ً: ِالا قرارُ با لعبودية ،و خلع الٔا ند اد، و انَّ ﷲ یمحو ما یشا ئُ و یثبت ما یشائُ'' ( ۱ )

خدا وند عالم نے کسی نبی کو مبعوث نہیں کیا مگر یہ کہ اس سے تین چیزوں کا مطا لبہ کیا : خدا کی عبو دیت کا اقرار ، خدا کے لئے کسی کو شریک اور ہمتا قرار نہ دینا اور یہ کہ جو چاہے محو کر دے اور جو چاہے باقی ر کھے۔

ایک تیسری روایت میں (محو و اثبات ) کو بدا ء کا نام دیا ہے جس کا خلاصہ یوں ہے:

'' ما تنبَّأنبیّ قط حتیٰ يُقِرَّلله تعا لی با لبدائ ''( ۲ )

کسی پیغمبر نے کبھی پیغمبری کا لباس نہیں پہنا مگر یہ کہ خدا وندمتعال کے لئے ان امور کا اعتراف کیا ہوانہی اعترافات میں بداء کااعتراف ہے ۔

امام رضا سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا :

'' ما بعث نبیا قط اِلّا بتحر یم الخمر و اَن یقرّ له با لبدائ'' ( ۳ )

خدا وند متعال نے کبھی کسی پیغمبر کو مبعوث نہیں کیا مگر یہ کہ شراب کی حر مت کے ساتھ اوریہ کہ بداء (محو و اثبات) کا خدا کے حق میں اعتراف کرے۔

دوسری روایت میں حضرت امام جعفر صادق نے محوو اثبات کے زمانہ کی بھی خبر دیتے ہو ئے فرمایا:

'' اِذا کان لیلة القدر نز لت الملا ئکة و الرّ وح و الکتبة الیٰ سما ء الدُنیا فیکتبون ما یکون من قضا ء ﷲ تعا لیٰ فی تلک السنة فاِ ذا أراد ﷲ أن يْقدِّم شیئا ً أو یؤخرأو ینقص شیئاً أمر الملک أن یمحو ما یشا ئُ ثُمّ أثبت الذی أراد''

جب شب قدر ہو تی ہے تو فر شتے، روح اور کاتب قضاء وقدر آسمان دنیا کی طرف نازل ہو تے ہیں اور جو کچھ اس سال خدا وند عالم نے مقرر فرمایا ہے اسے لکھتے ہیں ، اگر کسی چیز کو خدا مقدم یا مو خر یا کم کر نا چاہتا ہے

____________________

(۱)بحارج۴،ص۱۰۸، بہ نقل از توحید صدوق

(۲)بحارج۴،ص۱۰۸، بہ نقل از توحید صدوق

(۳)بحارج۴،ص۱۰۸، بہ نقل از توحید صدوق

۱۶۸

تو مامور فر شتے کو حکم دیتا ہے کہ اسے اسی طرح جیسے چاہتا ہے محو ونابود کرے یا ثابت و برقرار ر کھے۔( ۱ )

حضرت امام باقر ـنے بھی ایک دوسرے بیان میں اس کی خبر دی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے :

'' تَنز ل فیها الملا ئکة و الکتبة اِلی السماء فیکتبون ما هو کائن فی أمرالسّنه و ما یصیب العباد فیها، قال: و أمر مو قوف لله تعا لیٰ فیه المشیئة يُقد م منه ما یشا ئُ و ئو خر ما یشائُ و هو قو له تعا لیٰ : یمحو ﷲ ما یشاء ویثبتُ وعنده أم الکتاب'' ( ۲ )

شب قدر میں فرشتے اور کاتب قضاء وقدر آسمان دنیا کی طرف آتے ہیں اور جو کچھ اس سال ہو نے والا ہے اور جو کچھ اس سال بندہ کو پہنچنے والا ہے ، سب کچھ لکھ لیتے ہیں ، فرمایا : اورکچھ ایسے امور ہیں جن کا تعلق مشیت خدا وندی سے ہے جسے چاہے مقدم کر دے اور جسے چاہے موخر کر دے ،یہی خدا وند متعال کے کلام کے معنی ہیں کہ فرماتا ہے:

( یمحوا ﷲ ما یشاء و یثبت و عنده أم الکتاب ) ( ۳ )

حضرت امام باقر ـ نے دوسری حدیث میں اس آیت:( و لن یؤخر ﷲ نفساً اِذا جاء أجلھا)(خداوندعالم جسکی موت کاوقت آگیاہواس کی موت کبھی تاخیر میں نہیں ڈالتا ) کے ذیل میں فرمایا : ''جب موت آتی ہے اور آسمانی کاتبین اسے لکھ لیتے ہیں تو اس موت کوخدا وند عالم تاخیر میں نہیں ڈالتا''۔

علّا مہ مجلسی نے بحارالانوارکے اسی باب میں اسی داستان کو جس میں آدم نے اپنی عمر کے چالیس سال حضرت داؤد کو بخش دئے تھے، ذکر کیا ہے اور ہم نے اسے مکتب خلفاء کی روایات میں ذکر کیا ہے:( ۴ )

بداء کے یہ معنی ائمہ اہل بیت کی روایات میں تھے لیکن''بدائ'' کے یہ معنی کہ خدا کے لئے کوئی نئی اور جدید رائے کس کام میں ظاہرہوتی ہے جسے وہ اس سے پہلے نہیں جانتا تھا !! معاذﷲیہ نظریہ مکتب اہل بیت میں مردود اور انکار شد ہ ہے اور اس سے ہم خداکی پناہ مانگتے ہیں، اس سلسلہ میں ائمہ اہل بیت کا نظریہ وہی ہے جسے علّا مہ مجلسی نے امام صادق سے ذکر کیا ہے کہ امام نے فرمایا :

''مَن زعم انَّ ﷲ عزَّوجل یبد و له فی شیئٍ لم یعلمه أمس فأ بروا منه'' ( ۵ )

جو شخص خدا وند متعال کے بارے میں کسی امر سے متعلق یہ خیال کرے کہ اس کے لئے نئی اور جدید رائے

____________________

(۱)بحار ج۴،ص۹۹ تفسیر علی بن ابراہیم سے نقل .(۲)بحار ج ۴، ص۱۰۲ ، نقل از امالی شیخ مفید(۳)بحار ج ۴، ص۱۰۲ ، نقل از تفسیر علی بن ابراہیم(۴)بحار ج ۴، ص۱۰۲ ،بہ نقل از علل الشرائع(۵)بحار ج۴ ص۱۱۱بہ نقل از اکمال الدین

۱۶۹

ظاہر ہوئی ہے جسے وہ اس سے قبل نہیں جانتا تھا تو ایسے لوگوں سے دوری اور بیزاری اختیار کرو۔

عقیدہ ٔ بدا کا فائدہ

اگرکسی شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ بعض وہ انسان جو نیک بختوں کے زمرہ میں واقع ہوتے ہیں کبھی ان کی حالت بد لتی نہیں ہے اور کبھی بد بختوں کی صف میں واقع نہیں ہو ںگے اور بعض انسان جو کہ بد بختوں کی صف میں ہیں ان کی بھی حالت کبھی نہیں بدلے گی اوروہ نیک بختوں کی صف میں شامل نہیں ہوں گے اور قلم تقدیر، انسان کی سر نوشت بد لنے سے خشک ہوچکا ہے اور رک گیا ہے، اگر ایسا تصور صحیح ہو تو کبھی گناہ گار اپنے گناہ سے تو بہ ہی نہیں کر ے گا بلکہ اپنے کام کا سلسلہ جاری رکھے گا، کیو نکہ وہ سونچ چکا ہے کہ شقاوت اور بد بختی اس کی یقینی اور قطعی سر نوشت ہے اور اس میں تبدیلی نا ممکن ہے ! دوسری طرف ، شیطا ن نیکو کار بندوں کو وسوسہ کرے گا کہ تم نیک بخت ہو،اشقیاء اور بد بختوں کے زمرہ میں داخل نہیں ہوگے اورعبادت و اطاعت میں سستی پیدا کر نے کے لئے اتنا وسوسہ کا فی ہے اورپھراس کے ساتھ ایسا کر ے گا جو نہیں ہو نا چاہئے ۔

بعض مسلمان جنھوں نے'' مشیت '' کے سلسلہ میں واردآیات و روایات کے معا نی واضح اور کامل طور سے درک نہیں کئے مختلف گروہ میں تقسیم ہو گئے ہیں ، ایک گروہ کاخیال ہے کہ انسان اپنے کاموں میں مجبور ہے اور دوسرے گروہ کا عقیدہ ہے کہ تمام امور انسان کے حوالے اور پر چھوڑ دئے گے ہیں ہم آئندہ بحث میں انشاء ﷲ اس مو ضو ع کی تحقیق کر کے راہ حق و صوا ب کی شناسائی کریں گے ۔

۱۷۰

۷

جبر و تفویض اور اختیار

الف: جبر کے لغوی معنی

''جبر'' لغت میں زورزبر دستی سے کوئی کام کرانے کو کہتے ہیں اور ''مجبور'' اس کو کہتے ہیں جس کوزور زبردستی سے کوئی کام کرایا جائے ۔

ب: جبر اسلامی عقائد کے علماء کی اصطلاح میں

''جبر'' اس اصطلاح میں یہ ہے : خدا وند عالم نے بندوں کو جو اعمال وہ بجالاتے ہیں ان پر مجبور کیا ہے،خواہ نیک کام ہو یا بد ،براہو یا اچھا وہ بھی اس طرح سے کہ بندہ اس سلسلہ میں اس کی نا فرمانی ،خلاف ورزی اور ترک فعل پر ارادہ واختیار نہیں رکھتا۔

مکتب جبر کے ماننے والوں کا عقیدہ یہ ہے انسان کو جو کچھ پیش آتا ہے وہی اس کی پہلے سے تعین شدہ سر نوشت ہے، انسان مجبور ہے وہ کوئی اختیار نہیں رکھتا ہے ،یہ اشاعرہ کا قول ہے۔( ۱ )

ج: تفویض کے لغوی معنی

تفویض لغت میں حوالہ کرنے اور اختیار دینے کے معنی میں ہے۔

د: تفویض اسلا می عقائد کے علما ء کی اصطلاح میں

''تفویض'' اس اصطلاح میں یعنی: خدا وند عالم نے بندوں کے امور (افعال )خود ان کے سپرد کر دئے ہیں جو

____________________

(۱) اشاعرہ کی تعریف اور ان کی شناخت کے لئے شہر ستانی کی کتاب ملل و نحل کے حا شیہ میں ( الفصل فی الملل و الا ھواء و النحل) ابن حزم، ج،۱،ص۱۱۹،تا ۱۵۳،ملاحظہ ہو.

۱۷۱

چاہیں آزادی اوراختیا ر سے انجام دیں اور خدا وند عالم ان کے افعا ل پر کوئی قدرت نہیں رکھتا، یہ فرقۂ ''معتزلہ'' کا قول ہے۔( ۱ )

ھ: اختیار کے لغو ی معنی

'' اختیار'' لغت میں حق انتخاب کے معنی میں ہے ، انتخاب کرنا پسند کرنا اور انتخاب میں آزاد ہو نے کو اختیار کہتے ہیں۔

و: اختیار اسلامی عقائدکے علماء کی اصطلاح میں

خدا وند عالم نے اپنے بندوں کو اپنے انبیا ء اور رسولوں کے ذریعہ بعض امور میں مکلف بنایایعنی ان کے انجام دینے کا مطالبہ کیا تو بعض سے نہی اور ممانعت فرمائی، خدا نے کسی کام کے انجام دینے یا اس کے ترک یعنی نہ کرنے کی بندوں کو قدرت عطا کی جو امور وہ انجام دیتے ہیں ان کے انتخاب کا انھیںحق دیا اور کسی کو اس سلسلہ میں مجبور نہیں کیا ، پھر اس کے بعد ان سے مطالبہ کیا ہے کہ اس کی امر و نہی میں اطاعت کریں ۔اس موضوع سے متعلق استد لال انشاء ﷲآئندہ بحث میں آئے گا۔

____________________

(۱) ''معتز لہ'' کی شناخت کے لئے شہر ستانی کی کتاب ملل و نحل ،ابن حزم کے حاشیہ (الفصل فی الملل والا ھواء و النحل) ج۱، ص ۵۵، ۵۷ پر ملاحظہ ہو۔

۱۷۲

(۸)

قضا و قدر

الف:۔ قضا و قدر کے معنی

ب:۔قضا و قدر کے بارے میں ائمہ اہل بیت کی روایات

ج:۔سوال و جواب

قضا وقدر کے معنی

'' قضا و قدر'' کا مادہ مختلف اور متعدد معا نی میں استعما ل ہو ا ہے جو کچھ اس بحث سے متعلق ہے اسے ذکر کرتے ہیں۔

الف:۔ مادّۂ قضا کے بعض معانی:

۱۔ ''قضا'' دو آپس میں جھگڑ نے والوں کے درمیا ن قضا وت اور فیصلہ کرنے کے معنی میں ہے، جیسے۔

( انَّ ربّک یقضی بینهم یوم القیا مة فیما کا نوا فیه یختلفون ) ( ۱ )

تمہا را پر وردگار قیا مت کے دن جس چیز کے بارے میں وہ لوگ اختلا ف کرتے تھے ان کے درمیان قضاوت اور فیصلہ کر ے گا۔

۲۔ ''قضا'' آگاہ کر نے کے معنی میں ہے ،جیسے خدا وند عالم کا قول لوط کی داستان سے متعلق اور ان کو ان کی قوم کے نتا ئج سے آگا ہ کرنا کہ فرماتا ہے :

( وقضینا اِلیه ذلک الأمر انَّ دابرهٰؤلاء مقطوع مُّصبحینَ )

ہم نے لوط کو اس موضوع سے با خبر کر دیا کہ ہنگا م صبح سب کے سب بیخ وبن سے اکھاڑ دئے جائیں گے۔( ۲ )

۳۔ '' قضا '' واجب کرنے اور حکم دینے کے معنی میں ہے ،جیسے:

( و قضیٰ ربّک ألا تعبد وا اِلاّ اِيّا هُ ) ( ۳ )

____________________

(۱) یونس ۹۳ .(۲)حجر ۶۶ (۳) اسراء ۲۳

۱۷۳

تمہا رے رب کا حکم ہے کہ اس کے علاوہ کسی کی پر ستش نہ کرو۔

۴۔'' قضا '' تقد یر اور ارادہ کے معنی میں ہے ، جیسے :

( واِذا قضیٰ أمراً فأِ نّما یقو ل له کن فیکون ) ( ۱ )

جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتاہے ، تو صرف کہتا ہے ہو جا ، تو ہو جاتی ہے۔

( هو الذی خلقکم من طین ثُمَّ قضیٰ أجلا ) ً)( ۲ )

وہ ایسا خدا ہے جس نے تمھیں مٹی سے خلق کیا ہے ،پھر ( ہر ایک کے لئے) ایک مدت مقدر(معین) فرمائی، یعنی انسان کی حیات کے لئے ایک معین مقدار اور اندا زہ قرار دیا ۔

ب:مادہ ٔ قد ر کے بعض معا نی

۱۔قدر ؛ یعنی قادر ہوا ، اقدام کی قدرت پیدا کی ، ''قادر'' یعنی تو انا اور ''قدیر'' یعنی قدرت مند. خدا وند متعال سورہ ٔ یٰس میں فرماتا ہے:

( أو لیس الذی خلق السّموات و الأرض بقٰدرٍ علیٰ أن یخلق مثلهم ) ( ۳ )

آیا جس نے زمین و آسمان کو زیور تخلیق سے آراستہ کیا ہے وہ ا س جیسا خلق کر نے پر قادر نہیں ہے؟

سورۂ بقرہ ۲۰،میں ارشاد فرماتا ہے:

( ولوشاء ﷲ لذهب بسمعهم وأبصا رهم اِنَّ ﷲ علیٰ کلّ شی ئٍ قدیر ) ( ۴ )

اگر خدا چاہے تو ان کے کانوں اور آنکھوں کو زائل کر دے ، کیو نکہ ، خدا وند عالم ہر چیز پر قادر ہے ۔یعنی خدا وند عا لم ہر کام کے انجام دینے پر جس طرح اس کی حکمت اقتضا ء کرتی ہے قادر ہے ۔

۲۔قدر: یعنی تنگی اور سختی میں قرار دیا ،'' قَدَرَ الرزق علیہ ویقدر'' یعنی اسے معیشت کی تنگی میں قرار دیا اور دیتا ہے ۔خدا سورۂ سبا کی ۳۶ ویں آیت میں فرماتا ہے:

( قل اِنّ ربّی یبسط الرّزق لمن یشا ء و یقدر )

کہو: خدا وند عالم جس کے رزق میں چاہتا ہے اضا فہ کرتا ہے اور جس کے رزق میں چاہتا ہے تنگی کرتا ہے۔

۳۔ قَدَرَ :تد بیر کی اور اندا زہ لگا یا ،'' قد ر ﷲ الامر بقدرہ ''خدا وند سبحا ن نے اسکی تد بیر کی یا

____________________

(۱)بقرہ ۱۱۷(۲) انعام ۲(۳)یس۸۱(۴)بقرہ۲۰

۱۷۴

اس کے واقع ہو نے کا خواہشمند ہو ا، جیسا کہ سورۂ قمر کی بارہو یں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

( وفجَّر ناالأرض عیوناً فا لتقی الما ء علی أمر ٍ قد قدر )

اورہم نے زمین کوشگا ف کیا اور چشمے نکالے اور یہ دو نوں پا نی ( بارش اور چشمے کے ) تد بیر اور خواہش کے بقدر آپس میں مل گئے ۔

ج:۔ قدَّر کے معنیٰ

۱۔قدر '' یعنی اس نے حکم کیا ، فرمان دیا ، قَدَّرَ ﷲ الأمر یعنی خدا وند رحمان نے حکم صادر فر مایا اور فرمان دے دیا کہ کام، اس طرح سے ہو جیسا کہ سورۂ نمل کی ۵۷ ویں آیت میں لوط کی بیوی کے بارے میں فرماتا ہے:

( فأ نجینا ه و أهله اِلّاامرأ ته قدّرنا ها من الغا بر ین )

ہم نے انھیں (لوط) اور ان کے اہل و عیال کو نجات دی ،جز ان کی بیوی کے کہ ہم نے فرمایا : وہ پیچھے رہ جانے والوں میں ہو گی، یعنی ہما را حکم اور فرمان یہ تھا کہ وہ عورت ہلاک ہو نے والوں میں رہے گی۔

۲۔''قَدَّر'' یعنی مدارا ت کی ، تو قف و تامل اور تفکر کیا ،'' قدرفی الامر'' یعنی کام کی انجام دہی میں تو قف و تامل کیا اور اس کے ساتھ رفق و مدارا ت کی، جیسا کہ خدا وند عالم سورہ سبا کی ۱۱ ویں آیت میں داؤد سے فر ماتا ہے :

( أن أعمل سابغا ت وقدّرفی السّرد )

مکمل اور کشادہ ز ر ہیں بناؤ نیز اس کے بنانے میں غور و خوض اور نر می سے کام لو ۔

یعنی زرہ بنانے میں جلد بازی سے کام نہ لو بلکہ کافی غور و فکر ،توجہ اور دقت کے ساتھ زرہ بناؤ تاکہ تمہارے کام کا نتیجہ محکم اور استوار ہو۔

۱۷۵

د: ۔ قدرکے معنی

۱۔قَدَر:مقدار، اندازہ اور کمیت کے معنی میں استعما ل ہوا ہے جیسا کہ سورۂ حجر کی ۲۱ ویں آیت میں ارشاد ہو تا ہے:

( واِن من شی ئٍ اِلاّ عند نا خزا ئنه و ما ننزّ له اِلاّ بقدرمّعلو م ) ٍ)

اور جو کچھ ہے اس کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور ہم معین انداز ہ اور مقدار کے علاوہ نازل نہیں کرتے ۔

۲ ۔ قدر: زمان و مکان کے معنی میں استعمال ہو ا ہے، جیسا کہ سورۂ مر سلات کی ۲۰ ویں تا۲۲ ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

( ألم نخلقکّم مِّن مّائٍ مّهینٍ ، فجعلناه فی قرارٍمکینٍ اِلیٰ قدرٍمعلوم )

کیا ہم نے تم کو پست اور معمو لی پانی سے خلق نہیں کیا ، اس کے بعد ہم نے اسے محفوظ اور آمادہ جگہ پر قرار دیا، معین اور معلوم زما نہ تک ؟ !

۳۔قدر: قطعی اور نا فذ حکم کے معنی میں ، قَدَرُ ﷲ خدا وند سبحان کا قطعی، نا فذ اور محکم حکم ، جیسا کہ سورۂ احزاب کی ۳۸ ویں آیت میں ارشاد ہو تا ہے:

( سنّة ﷲ فی الَّذ ین خلوا من قبل و ُکان أمر ﷲ قدراً مّقد ورا ً )

ﷲ کی یہ سنت گز شتگان میں بھی جاری تھی اور خدا کا فرمان قطعی اور، نافذ ہو نے والا ہے۔

قول مؤلف:

شاید قضا و قدر کے متعدد معنی اور اس کی خدا وند منّا ن کی طرف نسبت باعث ہو ئی کہ بعض مسلمان غلط فہمی کا شکار ہو گئے ہیں اور اس طرح خیال کرتے ہیںکہ ''قضا و قدر'' کے معنی قرآن و حدیث میں یہ ہیں کہ انسان اپنی زندگی میں جو کچھ کر تا ہے خواہ نیک ہو یا بد اسی''قضا و قدر'' اور سر نوشت کی بنیا د پر ہے،جسے خدا وند عالم نے اس کی خلقت سے پہلے اسکے لئے مقرر کر دیا تھا۔جیسا کہ ہماری روایتوں میں کلمہ قدری کا اطلاق ''جبری ''اور'' تفویضی'' دونوں پر ہوا ہے۔

اور اس اطلا ق کی بنا پر کلمہ''قدر'' کسی شۓ اوراس کی ضد دونوں کا نام ہو جا تا ہے، جیسے کلمہ'' قرئ'' کہ حیض '' اور پاکی'' دونوں کا نام ہے یعنی متضاد معنی میں استعما ل ہوا ہے۔

خا تمہ میں قدریوں کے اقوال اور ان کے جواب سے اس بنا ء پر صرف نظر کرتے ہیں کہ کہیں بحث طولانی نہ ہو جائے اور صرف ان احا دیث پر اکتفا ء کر تے ہیں جن میں ان کے جوابات پائے جا تے ہیں، تاکہ خدا کی تا ئید و تو فیق سے ، جواب کے علاوہ موضوع کی تو ضیح اور تشریح بھی ہو جائے۔

۱۷۶

قضا و قدر سے متعلق ائمہ اہل بیت کی روایات

پہلی روایت:

صدوق نے کتا ب تو حید میں اپنی سند کے سلسلہ کو امام حسن مجتبی تک لے جاتے ہوئے اور ابن عسا کر نے تاریخ میں اپنی سند کے ساتھ ابن عباس سے نقل کیا ہے: (عبارت صدوق کی ہے)

'' دخل ر جل من أهل العراق علی أمیر المؤمین فقال : اخبر نا عن خروجنا الی اهل الشام أبقضا ء من ﷲ وقدر ؟

فقال له أمیر المومنین أجل یا شیخ ، فوﷲ ما علو تم تلعة ولا هبطتم بطن واد ٍ الّا بقضا ء ٍ من ﷲ و قدر ٍ ، فقال الشیخ: عند ﷲ احتسب عنا ئی یا أمیر المومنین ، فقال مهلا ً یا شیخ! لعلک تظن قضا ء ً حتما ً و قدرا ً لا ز ما ً، لو کان کذلک لبطل الثواب وا لعقاب و الامر والنهی و الزَّ جر، و لسقط معنی الوعید والو عد ، و لم یکن علی مسیء ٍ لا ئمة و لا لمحسن محمدة ، و لکا ن المحسن او لیٰ با للا ئمة من المذ نب و المذ نب او لی با لاحسا ن من المحسن تلک مقا لة عبدة الا وثان و خصماء الرحمان و قد رية هذه الأمة و مجو سها، یا شیخ! ان ﷲ عز وجل کلف تخییرا ً، ونهی تحذیرا، واعطی علی القلیل کثیرا ً و لم یعص مغلو با ، و لم یطع مکر هاً و لم یخلق السموا ت و الأر ض و ما بینهما با طلا ً ذلک ظن الذین کفروا فو یل للذین کفر وا من النّا ر''

ایک عرا قی حضرت امیر المو مین کے پاس آیا اور کہا : کیا ہمارا شا میوں کے خلاف خروج '' ْقضا و قدر الٰہی '' کی بنیا د پر ہے ؟ امام نے اس سے فر مایا ! ہاں ، اے شیخ ! خدا کی قسم کسی بلندی پرنہیں گئے اور نہ ہی کسی وادی کے درمیان اترے مگر ! قضا وقدر الہٰی

۱۷۷

کے تحت ایسا ہوا ہے، اس شخص نے کہا : امید کرتا ہوں کی میری تکلیف خدا کے نز دیک کسی اہمیت کی حامل ہو۔( ۱ )

امام نے اس سے کہا :ٹھہر جا اے شیخ ! شاید تو نے خیال کیا کہ ہم قضا و قدر کو بیان کررہے ہیں اگر ایسا ہوتو ثواب و عقاب ، امر و نہی اور زجر سب باطل ہو جائے ، ڈرانا اور بشارت دینا بے معنی ہو جائے ، نہ گنا ہگار کی ملا مت بجا ہوگی اورنہ نیکو کار کی ستا ئش روا ، بلکہ نیکو کار بد کار کی بہ نسبت ملامت کا زیا دہ سزا وار ہو گا( ۲ ) اور گنا ہگا ر نیکی کا نیک شخص سے زیادہ سزاوار ہوگا،یہ سب بت پر ستوں ، خدا وند رحما ن کے دشمنوں اوراس امت کے ''قدریوں'' اور مجو سیوں کی باتیں ہیں ! اے شیخ! خدا وند عز وجل نے بندوں کو مکلف بنا یا ہے تا کہ وہ اپنے اختیار سے کام کریں اور انھیں نہی کی تا کہ وہ خود اس سے باز رہیں اور معمولی کام پر زیا دہ جزا دے ، مغلوب ہو کر یعنی شکست خوردگی کے عالم میں اس کی نافرمانی نہیں ہو ئی اور زبر دستی اس کی اطا عت نہیں ہو ئی اس نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان تمام مو جو دات کو بے کار اور لغو پیدا نہیں کیا ، یہاں لو گوں کا گمان ہے جو کا فر ہوگئے ہیں ، پس ان لوگوں پر وائے ہو جو آتش جہنم کے عذاب کا انکار کرتے ہیں۔( ۳ )

روای کہتا ہے: وہ شخص اٹھا اور یہ ا شعار پڑھنے لگا:

أنت الاِمام الذّی نرجو بطا عته :: یوم النِّجا ة من الرّحمن غفرا ناً

أوضحت من دینِنا ما کان مُلتبساً :: جزا ک ر بُّک عنّا فیه اِحسا نا ً

فلیس معذرة فی فعل فا حشة :: قدکُنت راکبها فسقا ً و عصیا نا ً

تم و ہی امام ہو جس کی اطا عت کے ذریعہ قیا مت کے دن ہم خدا وند رحمن سے عفو و بخشش کے امید وار ہیں ۔ تم نے ہمارے دین سے یکبا رگی تمام شکوک و شبہات کو دور کر دیا ہم تمہا رے رب سے در خواست کرتے ہیں کہ وہ تمھیں اس کی نیک جز ا دے۔ لہٰذا اس واضح او رروشن بیان کے بعدمجھ سے کوئی گناہ سر زد نہ

____________________

(۱)یعنی اگر ہمارا خرو ج اور جہاد کر نا'' قضا و قدر'' الٰہی کی بنیا د پر ہے تو جز ا کے مستحق نہیں ہیں ، پس میں امید وار ہوںکہ ہماری مشقت وزحمت راہ خدا میں محسوب ہو اورہم ان لوگوں کے اعمال کی ردیف میں واقع ہو جو قیا مت کے دن خدا کے فضل ورحمت کے سایہ میں ہوں گے۔

(۲) کیو نکہ دو نوں در اصل مسا وی اور برا بر ہیں چو نکہ عمل ان کے ارادہ اور اختیار سے نہیں تھا، دوسری طرف چو نکہ نیکو کار لوگوں کی ستا ئش کا مستحق ہو تا ہے اوراسے اپنا حق سمجھتا ہے جب کہ ایسا نہیںہے ، اس گمان و خیال کی بنیاد پر وہ شخص گنا ہگار سے زیا دہ ملامت کا حقدار ہے، کیو نکہ گناہ گارلو گوں کی ملا مت کا نشا نہ بنتا ہے اور وہ خو د کو اس ملامت کا مستحق جا نتا ہے جب کہ ایسا نہیں ہے ، لہٰذا اس پر احسا ن ہو نا چاہئے تا کہ لوگوں کے آزارو اذیت اور ان کی سر ز نش و ملا مت بر داشت کر نے کی اس سے تلا فی کر ے، نہ کہ نیکو کا ر پر احسان ہونا چاہیئے سے۔

(۳)سورہ ٔ ص کی ۲۷ ویں آیت سے اقتبا س ہے.

۱۷۸

ہو کہ جس پر نہ معذرت کر سکوں اور نہ میری نجا ت ہو ۔

دوسری روایت

ائمہ اہل بیت میں سے چھٹے امام حضرت امام جعفر صادق سے دوسری رو ایت ذکر کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

''اِنَّ النا س فی القدر علیٰ ثلا ثة أو جه: ر جل زعم أنَّ ﷲ عزَّو جلّ أجبر النّا س علیٰ المعا صی فهذا قد ظلم ﷲ فی حکمه فهو کا فر، ورجل یز عم انَّ الأمر مفوَّض الیهم فهذا قد أو هن ﷲ فی سلطا نه فهو کا فر ، و رجل یز عم انَّ ﷲ کلَّف العباد ما يُطیقون و لم يُکلَّفهم ما لا يُطیقون و اِذاأحسن حمد ﷲ واِذا أسا ئَ استغفر ﷲ فهذا مسلم با لغ'' ( ۱ )

''قدر'' کے مسئلہ میں لوگ تین گروہ میں تقسیم ہیں:

۱۔ جس کا یہ عقیدہ ہے کہ خدا وند عزو جل نے لوگوں کو گناہ پر مجبور کیا ہے ،اس نے فرمان خدا وندی کے بارے میں خدا پر ظلم کیا ہے اور وہ کافر ہے۔

۲۔ جس کا عقیدہ ہے کہ تمام امور لو گوں کے سپر د کر دئے گئے ہیں،اس نے خدا کواس کی قدرت اور بادشا ہی میں ضعیف و نا توا ں تصور کیا ہے لہٰذا وہ بھی کا فر ہے۔

۳۔جس کا عقیدہ یہ ہے کہ خدا وندسبحان نے بندوں کو انھیں چیزوں پر مکلف بنایا ہے جن کی وہ طاقت رکھتے ہیں اور جن کی وہ طاقت نہیں رکھتے اس کا ان سے مطا لبہ نہیں کیا ہے، وہ جب بھی کو ئی نیک کام کرتا ہے تو خدا کی حمد ادا کر تا ہے اور اگر کوئی بُرا فعل سر زد ہو تا ہے تو خدا سے مغفر ت اور بخشش طلب کرتا ہے ، یہ وہی مسلما ن ہے جس نے حق کو درک کیا ہے۔

تیسری روایت:

ائمہ اہل بیت میں سے آٹھو یں امام ، حضرت امام علی بن مو سیٰ الر ضا سے ہے کہ آپ نے فرما یا:

۱۔''انَّ ﷲ عزّ وجلَّ لم یطع بِأِکراهٍ، ولم یعص بغلبةٍ و لم يُهمل العباد فی ملکه، هو المالک لما مَلَّکَهم و القا در علیٰ ما أقد ر هم علیه فاِن ائتمر العباد بطا عته لم یکن ﷲ منها

____________________

(۱)توحید صدوق، ص۳۶۰،۳۶۱.

۱۷۹

صا دّا ً، و لا منها ما نعا ً، واِنِ أئتمر وا بمعصیتهِ فشا ء أن یحول بینهم و بین ذلک فعل و اِن لم یحل و فعلوهُ فلیس هو الذّی اد خلهم فیه'' ( ۱ )

خدا وند عالم کی جبر و اکرا ہ کے ذریعہ اطا عت نہیں کی گئی ہے نیز ضعف و شکست اور مغلو ب ہو نے کی بنا پر اس کی نا فرمانی نہیں کی گئی، اس نے اپنے بندوں کو اپنی حکو مت اور مملکت میں لغو و بیہو دہ نہیں چھو ڑا ہے، وہ ان تمام چیزوں کا جس پر انھیں اختیا ر دیا ہے مالک ہے اوران تمام امور پر جس کی تو انائی دی ہے قا در ہے اگر بندے اطاعت گزار ہوں تو خدا ان کے را ستوں کو بند نہیں کر ے گا اور اطا عت سے انھیں نہیں رو کے گا اور اگر وہ لوگ نافر مانی و عصیا ن کے در پے ہوں گے اور وہ چا ہے کہ گناہ اور ان کے درمیا ن فا صلہ ہو جائے تو وہ کر دے گا اور اگر گناہ سے نہ رو کا اور انھوں نے گناہ انجام دیا، تو اس نے ان لوگوںکو گناہ کے راستہ نہیں پرڈالاہے۔

یعنی جو انسا ن خدا کی اطاعت کرتا ہے وہ اس اطاعت و پیر وی پر مجبور نہیں ہے اور جو انسا ن خدا کی نافرمانی کرتا ہے وہ ﷲ کی مر ضی اورا س کے ارادہ پر غا لب نہیں آگیا ہے بلکہ یہ خو د خدا ہے جو یہ چا ہتا ہے کہ بندہ اپنے کا م میں آزاد و مختار ہو۔

۲۔ اور فرمایا: خدا وند متعا ل فرماتا ہے:

( یاابن آدم بمشیئتی کُنت انت الذّی تشائُ لنفسک ما تشائ، و بقوَّ تی ادَّ یت الیّ فرا ئضی، و بنعمتی قویت علی معصیتی، جعلتک سمیعا ً بصیرا ً قو يّاً، ما اصا بک من حسنةٍ فمن ﷲ و ما أصا بک من سيِّئة ٍ فمن نفسک ) ( ۲ )

اے فرزند آدم! میری مشیت اور مر ضی سے تو انتخاب کر نے وا لا ہو گیا ہے اور جو چاہتا ہے اپنے لئے اختیا ر کر لیتا ہے اور میری ہوئی طا قت سے میرے واجبا ت بجا لا تا ہے اور میری ہی نعمتیں ہیں جن کے ذریعہ تو میری نا فرمانی پر قادرہے ، میں نے تجھے سننے والا، دیکھنے والا اور طا قتو ر بنایا ہے(پس یہ جان لے کہ) جو کچھ تجھے نیکی حاصل ہو تی ہے وہ خدا کی طرف سے ہے اور جو بد ی تجھ تک پہنچتی ہے تیری وجہ سے ہے۔

ایک دوسری روایت میں آیا ہے :

''عملت با لمعا صی بقو تی التی جعلتها فیک'' ( ۳ )

ہم نے جو تو انائی تیرے وجود میں قراردی تونے اس کی وجہ سے گنا ہ کا ارتکاب کیا ۔

____________________

(۱)توحید صدوق ص۳۶۱ .(۲) تو حید صدو ق، ص ۳۲۷، ۳۴۰ اور ۳۶۲ اور کافی ،ج، ۱،ص ۱۶۰، سورہ نسا ء ۷۹.(۳) تو حید صدوق، ص ۳۶۲.

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303