اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

اسلام کے عقائد(دوسری جلد )25%

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 122582 / ڈاؤنلوڈ: 4697
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(دوسری جلد )

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب : اسلام کے عقائد(دوسری جلد )

مؤلف : علامہ سید مرتضی عسکری

مترجم : اخلاق حسین پکھناروی

تصحیح : سید اطہر عباس رضوی (الٰہ آبادی)

نظر ثانی: ہادی حسن فیضی

پیشکش: معاونت فرہنگی، ادارۂ ترجمہ

ناشر: مجمع جہانی اہل بیت

کمپوزنگ : وفا

طبع اول : ۱۴۲۸ھ ۔ ۲۰۰۷ئ

تعداد : ۳۰۰۰

۳

قال الله تعالی:

( اِنّما يُرِ يْدُ ﷲ ُلِيُذْ هِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبِيْتِ وَيُطَهِّرَکُمْ تَطْهِيْرا )

ارشاد رب العزت ہے:

اللہ کا صرف یہ ارادہ ہے کہ تم اہل بیت سے ہر قسم کے رجس کو دور رکھے اور تمھیں پاک و پاکیز ہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

قال رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

''انی تارک فیکم الثقلین، کتاب ﷲ، وعترتی اهل بیتی ما ان تمسکتم بهما لن تضلّوا ابدا وانهما لن یفترقا حتّیٰ یردا علیّ الحوض''

حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں:(ایک) کتاب خدا اور (دوسری) میری عترت اہل بیت (علیہم السلام)، اگر تم انھیں اختیار کئے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہوگے، یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں''۔

( اختلاف عبارت کے ساتھ : صحیح مسلم: ۱۲۲۷، سنن دارمی: ۴۳۲۲، مسند احمد: ج۳، ۱۴، ۱۷، ۲۶، ۵۹. ۳۶۶۴ و ۳۷۱. ۱۸۲۵اور ۱۸۹، مستدرک حاکم: ۱۰۹۳، ۱۴۸، ۵۳۳. و غیرہ.)

۴

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے ہوں تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب

۵

اسلام کی پشت پناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصرحاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، فاضل علّام سید مرتضی عسکری کی گرانقدر کتاب'' عقائد اسلام در قرآن کریم ''کو فاضل جلیل مولانا اخلاق حسین پکھناروی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۶

مقدمہ :

اسلام کے عقا ئد قرآن کریم کی رو شنی میں(۱)

علّامہ سید مرتضی عسکری نے جو کچھ نصف صدی کے زیادہ سے عرصہ میں تحریر کیا ہے، مباحث کے پیش کرنے اور اس کی ارتقائی جہت گیری میں ممتاز اور منفرد حیثیت کے مالک ہیں، ان کی تحقیقات اور ان کے شخصی تجر بے اس طو لا نی مدت میں ان کے آثار کے خلوص وصفا میں اضا فہ کر تے ہیں ،وہ انھیں طو لا نی تحقیقات کی بنیاد پر اپنے اسا سی پر وگرا م کو اسلامی معا شرہ میں بیان اور اجراء کر تے ہیں، ایسے دقیق اور علمی پرو گرام جوہمہ جہت استوار اور متین ہیں ،روزافزوں ان کے استحکا م اور حسن میں اضا فہ ہو تا رہتاہے اور مباحث کا دائرہ وسیع تر اور ثمر بخش ہو جا تا ہے نیز افراط وتفر یط اور اسا سی نقطہ ٔ نگاہ سے عقب نشینی اور انصراف سے مبر ا ہے اوریہ ایسی چیز ہے جو مباحث کے مضمون اور اس کے وسیع اور دائمی نتا ئج سے مکمل واضح ہے۔

علا مہ عسکری کا علمی اور ثقا فتی پر وگرام واضح ہدف کا ما لک ہو تا ہے : ان کی کوشش رہتی ہے کہ اسلامی میراث کو تحر یفات اور افتراپردازیوں سے پاک و صاف پیش کر یں،جن تحر یفات اور افتراپردازیوں کا دشوار اور پیچیدہ حا لا ت میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیا ت کے بعد اسلام کو سامنا ہوا ،ان کی کوشش ہے کہ اسلام کی حقیقت واصا لت نیز اس کے خا لص اور پاک وصاف منبع تک رسائی حاصل کر یںاور اس کے بعد اسلام کو جیسا تھا نہ کہ جیسا ہو گیا پاک و صا ف اور خا لص انداز سے امت اسلا میہ کے سا منے پیش کر یں۔

اسلامی تہذ یب میں اس طرح کا ہدف لے کر چلنا ابتدائے امر میں کوئی نئی اور منحصر بہ فرد چیز نہیں تھی، کیونکہ ایسی آرزو اورتمنا بہت سارے اسلا می مفکرین ما ضی اور حا ل میں رکھتے تھے اور رکھتے ہیں ،لیکن جو چیز علّامہ عسکری کو دوسروں سے ممتا زکر تی ہے اور انھیں خاص حیثیت کی ما لک بنا تی ہے وہ یہ ہے کہ وہ جز ئی اور محدود اصلا ح کی فکر میں نہیں ہیں تا کہ ایک نظر کو دوسری نظر سے اور ایک فکر کو دوسری فکر سے موازنہ کرتے

____________________

(۱) ''سلیم الحسنی'' کے مقالے کا ترجمہ کچھ تلخیص کے ساتھ جو عر بی زبان کے''الوحدة''نامی رسالہ میں شائع ہوا ہے،نمبر ۱۷۶،شوال ۱۴۱۵ ھ ،ص ۳۸.

۷

ہوئے تحقیق کریں، نیز اپنے نقد وتحلیل کی روش کو دوسروں کو قا نع کر نے کے لئے محدود قضیہ کے ارد گرد استعمال کریں بلکہ وہ اسلام اور اسلامی میراث میں تحر یف اور کجر وی کے اصل سر چشمے کی تلا ش میں رہتے ہیں تا کہ شنا خت کے بعد اس کا علاج کرنے کے لئے کما حقہ قد م اٹھا ئیں؛ اور چو نکہ تحریف اور انحراف وکجروی کو قضیہ واحد ہ کی صورت میں دیکھتے ہیں لہٰذا اصلی اور خا لص اسلام تک رسا ئی کو بھی بغیر ہمہ جا نبہ تحقیق و بر رسی کے جو کہ تمام اطراف وجوا نب کو شا مل اورحا وی ہو، بعید اور غیر ممکن تصور کر تے ہیں ؛ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے تمام جو انب اور فروعات کی تحقیق و بر رسی کیلئے کمر بستہ نظر آتے ہیں ، نیز خود ساختہ مفروضوں اور قبل از وقت کی قضا وت سے اجتناب کرتے ہیں، اسی لئے تمام تا ریخی نصو ص جیسے روایات،احا دیث اور داستان وغیرہ جو ہم تک پہنچی ہیں ان سب کے ساتھ ناقدانہ طرز اپناتے ہیں اور سب کو قا بل تحقیق مو ضو ع سمجھتے ہیں اور کسی ایک کو بھی بے اعتراض اور نقص و اشکال سے مبرانہیں جا نتے وہ صر ف علمی اور سا لم بحث و تحقیق کو قرآن کریم اور قطعی اور موثق سنت کے پرتو میں ہر کھوٹے کھرے کے علا ج اور تشخیص کی تنہا راہ سمجھتے ہیں تا کہ جھو ٹ اور سچ اور انحرا ف کے مقا بل اصا لت کی حد و مرز مشخص ہوجا ئے۔

علّا مہ عسکری نے اپنے تمام علمی کا ر نا موں، مشہو ر تا لیفا ت اور شہرہ آفاق مکتو بات کی اسی رو ش پر بنیا د رکھی ہے اور ان کو رشتۂ تحر یر میں لا ئے ہیں ، ایسی تا لیفا ت جو مختلف علمی مید انوں میں ہیں لیکن اصلی و اسا سی مقصد میں ایک دوسرے کے ہمراہ ہیں اور اس ہدف کے تحقق کی راہ میں سب ہم آواز ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اگر علّا مہ عسکری کو تا ریخ نگا ر یا تاریخ کامحقق کہیں تو ہماری یہ بات دقیق اور صحیح نہیں ہوگی ، جبکہ یہ ایک ایسا عنوان ہے جو بہت سارے قا رئین کے اذ ہا ن میں ( ان کی عبد ﷲ ابن سبانا می کتاب کے وجود میں آنے کے بعد چالیس سا ل پہلے سے اب تک )را سخ اور جا گز یں ہو چکا ہے۔

ہا ں علا مہ عسکر ی مور خ نہیں ہیں، بلکہ وہ ایک ایسے پر وگرام کے بانی اور مؤسس ہیں جو جا مع اور وسیع ہے جس کی شا خیں اور فر وعات ، اسلا می میرا ث کے تمام جوانب کو اپنے احا طہ میں لئے ہو ئے ہیں، وہ جہاں بھی ہوں انحرا ف و کجروی اور اس کے حدود کے خواہاں اور اس کی چھان بین کر نے والے ہیں ، تاکہ اصلی اور خا لص اسلا م کی شنا سائی اور اس کا اثبات کرسکیں، شاید یہ چیزاسی کتاب (عقائد اسلام در قرآن کر یم ) میں معمو لی غور و فکرسے حا صل ہو جا ئے گی ،ایسی کتاب جس کی پہلی جلد تقر یبا ۵۰۰ صفحات پر مشتمل عر بی زبان میں منتشر ہو چکی ہے۔

۸

یہ کتاب اسلام کے خا لص اور صا ف ستھرے عقائد کو قرآن کر یم سے پیش کر تی ہے،چنانچہ جنا ب علّامہ عسکر ی خود اس حقیقت کو بیان کر تے ہو ئے کتا ب کے مقد مہ میں فر ماتے ہیں: '' میں نے دیکھا کہ قرآن کریم اسلا می عقائد کو نہا یت سا دگی اور کامل اندا ز میں بیان کر تا ہے ، اس طرح سے کہ ہر عا قل عر بی زبان سے ایسا آشنا جو سن رشد کو پہونچ چکا ہے اسے بخو بی سمجھتا اور درک کرتا ہے ''علا مہ عسکر ی اس کتاب میں نرم اور شگفتہ انداز میں علماء پر اعترا ض کر تے ہو ئے فر ما تے ہیں:

اسلامی عقائد میں یہ پیچید گی ، الجھاؤاوراختلاف وتفرقہ اس وجہ سے ہے کہ علما ء نے قرآ ن کی تفسیر میں فلسفیوں کے فلسفہ، صوفیوں کے عرفان، متکلمین کے کلام ، اسرا ئیلیات اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف منسو ب دیگر غیر تحقیقی روا یات پر اعتماد کیا ہے اور قرآن کر یم کی آیا ت کی ان کے ذریعہ تا ویل اور تو جیہ کی ہے اور اپنے اس کار نامہ سے اسلام کے عقائد میں طلسم ، معمے اور پہیلیاں گڑھ لی ہیں کہ جسے صرف فنون بلا غت، منطق، فلسفہ اور کلا م میں علماء کی علمی روش سے وا قف حضرا ت ہی سمجھتے ہیں اور یہی کام مسلما نوں کے( درمیان ) مختلف گروہوں،معتز لہ،اشا عرہ ،مر جئہ وغیرہ میں تقسیم ہو نے کا سبب بن گیا ہے ۔

لہٰذا یہ کتاب اپنی ا ن خصو صیات اور امتیا زات کے ساتھ جن کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے یقینا یہ بہت اچھی کتاب ہے جو اسلامی علوم کے دوروں کے اعتبار سے بہتر ین درسی کتاب ہو سکتی ہے۔

اس کتاب کے پڑھنے وا لوں کو محسوس ہو گا کہ ہمارے استاد علّامہ عسکری نے عقائد پیش کر نے میں ایک خا ص تر تیب اور انسجام کی رعا یت کی ہے اس طرح سے کہ گز شتہ بحث، آئندہ بحث کے لئے مقد مہ کی حیثیت رکھتی ہے ، نیز اس تک پہو نچنے اور درک کرنے کا را ستہ ہے اور قا رئین محتر م کو قدرت عطا کرتی ہے کہ عقائد اسلام کو دقت نظر اور علمی گہرا ئی کے ساتھ حاصل کر یں، چنا نچہ قارئین عنقر یب اس بات کو درک کرلیں گے کہ آئندہ مبا حث کو درک کر نے کے لئے لا زمی مقد مات سے گز ر چکے ہیں۔

اس کتاب میں مصنف کی دیگر تالیفات کی طرح لغو ی اصطلا حوں پر خاص طر سے تکیہ کیا گیا ہے ، وہ سب سے پہلے قا رئین کواصطلاح لغا ت کی تعر یفوں کے متعلق لغت کی معتبر کتا بوں سے آشنا کرا تے ہیں، پھر مورد بحث کلمات اور لغا ت نیز ان کے اصل مادوں کی الگ الگ تو ضیح و تشریح ،اسلا می اور لغوی اصطلا ح کے اعتبار سے کر تے ہیں تا کہ اسلا می اور لغو ی اصطلا ح میں ہر ایک کے اسباب اختلا ف اور جہا ت کو آشکا ر کریں اور ان زحمتوں اور کلفتوں کواس لئے بر داشت کر تے ہیں تا کہ بحث کی راہ ہموا ر کریں اور صحیح اور اساسی استفادہ اورنتیجہ اخذ کرنے کا امکا ن فر اہم کر یں۔

۹

اس وجہ سے قا رئین کتاب کے مطا لعہ سے احساس کر یں گے کہ اسلا می عقید ے کو کا مل اور وسیع انداز میں جدید اور واضح علمی روش کے ساتھ نیز کسی ابہام وپیچید گی کے بغیر حا صل کرلیا ہے ؛ا ور اس کا مطا لعہ کر نے کے بعد دیگر اعتقا دی کتا بوں کی طرف رجو ع کر نے سے خو د کو بے نیاز محسوس کریں گے اوریہ ایسی خوبی ہے جو دیگر کتا بوں میں ند رت کے ساتھ پا ئی جا تی ہے ، با لخصوص اعتقا دی کتابیں جو کہ ابہام ، پیچید گی اور تکرار سے علمی واسلامی سطح میں مشہور ہیں،اسی طرح قارئین اس کتاب میں اسلام کے ہمہ جا نبہ عقائد کو درک کرکے قرآن کر یم اور اس کی نئی تفسیری روش کے سمجھنے کیلئے خود کو نئی تلاش کے سامنے دیکھتے ہیں،یہ سب اس خاص اسلوب اور روش کا مرہون منت ہے جسے علّا مہ عسکری نے قرآنی آیات سے استفادہ کے پیش نظر استعمال کیا ہے۔

علّا مہ سید مرتضی ٰ عسکری کی کتاب قرآنی اور اعتقا دی تحقیقات میں مخصوص مرتبہ کی حا مل ہے ،انھوں نے اس کتاب کے ذریعہ اسلام کے اپنے اصلی پر وگراموں کو نافذ کر نے میں ایک بلند قدم اٹھا یا ہے ۔

مباحث کی سرخیاں

۱۔حضرت آدم کے بعد:حضرت نوح، حضرت ابراہیم ،حضرت موسی ، حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد مصطفی صلوات ﷲ علیہم اجمعین کی شریعتوں میں نسخ:

الف۔ حضرت آدم ، نوح اورابراہیم کی شریعت میں یگانگت اور اتحاد.

ب۔ نسخ و آیت کے اصطلاحی معنی.

ج۔آیۂ کریمہ''ما ننسخ من آےة''اور آیہ کریمہ '' اذا بد لنا آےة مکان آےة''کی تفسیر.

د۔ حضرت موسیٰ کی شریعت بنی اسرائیل سے مخصوص تھی اور حضرت خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت کے بعد ختم ہو گئی

ھ۔ ایک پیغمبر کی شریعت میں نسخ کے معنی.

۲۔رب العالمین انسان کو آثار عمل کی جزا دیتا ہے

الف۔ دنیوی جزا.

ب۔ اخروی جزا

۱۰

ج۔ موت کے وقت

د۔ قبر میں

ھ۔محشر اور قیامت میں

و۔بہشت ودوزخ میں

ز۔صبر کی جزا.

عمل کی جزا ء آ ئندہ والوں کی میراث.

شفاعت، بعض اعمال کی جزا ہے.

عمل کا حبط ہونا بعض اعمال کی سزا ہے

جن اور انسان عمل کی جزا ء پانے میں برابر ہیں.

۳۔''رب العالمین ''کے اسماء اور صفات

الف ۔اسم کے معنی.

ب ۔رحمان.

ج۔ رحیم.

د۔ذوالعرش اور رب العرش.

۴۔''وللہ الاسماء الحسنیٰ '' کے معنی

الف ۔ﷲ.

ب ۔کرسی.

۵۔ ﷲرب العالمین کی مشیت

الف۔ مشیت کے معنی.

ب۔ رزق وروزی.

د: رحمت و عذاب

ج ۔ہدایت وراہنمائی.

۱۱

۶۔بدا یا محو و اثبات( یمحوﷲ ما یشاء و یثبت)

الف۔بداکے معنی.

ب۔ بداعلمائے عقائد کی اصطلاح میں

ج۔ بدأ قرآن کریم کی روشنی میں

د۔ بدامکتب خلفاء کی روایات میں

ھ۔ بدامکتب اہل بیت (ع) کی روایات میں

۷۔جبر و تفویض اور اختیار نیز ان کے معنی.

۸۔ قضا و قدر

ا لف۔ قضا و قدر کے معنی.

ب۔ ائمہ اہل بیت کی روایات قضا و قدر سے متعلق.

ج ۔سوال وجواب.

۱۲

(۱)

۱۔صاحبان شریعت پیغمبروں کے زمانے میں نسخ

الف: حضرت آدم اور نوح کی شریعتیں

ب : نسخ و آیت کی اصطلاح اور ہر ایک کے معنی.

ج : آیۂ کریمہ ''ما ننسخ من آیة ''اور آیۂ کریمہ: ''واذا بدلنا آیة مکان آیة.. .''کی تفسیر

د: موسی کی شریعت بنی اسرائیل سے مخصوص تھی اور خاتم الانبیاء کی بعثت کے بعد ختم ہوگئی.

(۱)

انبیاء علیہم السلام کی شریعتیں

اس بحث میں قرآن کریم اور اسلامی روایات کی جانب رجوع کرتے ہوئے صر ف ان امور کو بیان کریںگے جن سے صاحبان شریعت پیغمبروں کے زمانے میں (نسخ) کا موضوع واضح اور روشن ہو جائے ، اسی لئے ہود ،صالح ، شعیب جیسے پیغمبروں کا تذکرہ نہیں کریں گے جن کی امتیں نابودہو چکی ہیں ،بلکہ ہماری گفتگوان پیغمبر وں سے مخصوص ہے جنکی شریعتیں ان کے بعد بھی زندہ رہیں،جیسے حضرت آدم ، نوح، ابراہیم ، موسیٰ ، عیسیٰ اور محمد صلوات ﷲ علیھم اجمعین اور اس کو ہم زمانے کی ترتیب کے ساتھ ذکر کریں گے۔

حضرت آدم ، نوح ، ابراہیم اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعتوںمیں اتحاد و یگانگت

اوّل: حضرت آدم ابوالبشر

روایات میں منقول ہے کہ حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :روز جمعہ تمام ایاّم کا سردار ہے اور خدا کے نزدیک ان میں سب سے عظیم دن ہے، خدا وندعالم نے حضرت آدم کو اسی دن خلق فرمایا اور وہ اسی دن باغ(جنت) میں داخل ہوئے اور اسی دن زمین پر اترے( ۱ ) اور حجرالاسود ان کے ہمراہ نازل کیا گیا ۔( ۲ ) دوسری روایات میں اس طرح آیا ہے : خدا وند عالم نے پیغمبروں، اماموں اور پیغمبروں کے اوصیاء کو جمعہ کے دن خلق فرمایا۔اسی طرح روایات صحیحہ میں آیا ہے کہ جبرائیل حضرت آدم ـ کو حج کیلئے لے گئے اور انہیں مناسک کی

____________________

(۱) صحیح مسلم،ج ۵،ص ۵ کتاب الجمعة باب فضل الجمعة،طبقات ابن سعد،ج۱،طبع یورپ.(۲) مسند احمد،ج۲،ص ۲۳۲،۳۲۷اور۵۴۰۔ اخبار مکہ ازرقی(ت ۲۲۳ھج) طبع، ۱۲۷۵ھج ص ۳۱.

۱۳

انجام دہی کا طریقہ سکھا یا اور بعض روایات میں مذکور ہے:

بادل کے ٹکڑے نے بیت ﷲپر سایہ کیا، جبرائیل نے سا ت بار آدم کو ا س کے ا رد گرد طواف کرایا پھر انہیں صفا و مروہ کی طرف لے گئے اور سات بار ان دونوں کے درمیان سعی(رفت و آمد) کی،پھر اسکے بعد ۹ ذی الحجہ کو عرفات میں لے گئے حضرت آدم نے عرفہ کے دن عصر کے وقت خدا وندعالم کی بارگاہ میں تضرع و زاری کی اور خدا وند عالم نے ان کی توبہ قبول کر لی ،اسکے بعددسویں کی شب کو مشعر الحرام لے گئے تو وہاں آپ صبح تک خدا وندعالم سے راز و نیاز اور مناجات میں مشغول رہے اور دسویں کے دن منیٰ لے گئے تو وہاں پر توبہ کے قبول ہونے کی علامت کے عنوان سے سر منڈوایا پھر دوبارہ انھیں مکّہ واپس لائے اور سات بار کعبہ کا طواف کرایا، اسکے بعد خدا کی خوشنودی کی خاظر نماز پڑھی پھر نماز کے بعد صفا و مروہ کی سمت روانہ ہوئے اور سات بار سعی کی ، خدا وند عالم نے حضرت آدم و حوا کی توبہ قبول کرنے کے بعد دونوں کو آپس میں ملا دیا اور دونوں کو یکجا کر دیا اور حضرت آدم کو پیغمبری کے لئے برگزیدہ فرمایا۔( ۱ )

دوم : ابو الا بنیاء حضرت نوح علیہ السلام

خدا وندسبحان نے سورئہ نوح میں ارشاد فرمایا:

( اِنَّا َرْسَلْنَا نُوحًا ِلَی قَوْمِهِ َنْ َنذِرْ قَوْمَکَ مِنْ قَبْلِ َنْ یَاْتِیَهُمْ عَذَاب َلِیم٭ قَالَ یَاقَوْمِ ِنِّی لَکُمْ نَذِیر مُبِین٭ َانْ اعْبُدُوا ﷲ وَاتَّقُوهُ وَاَطِیعُونِی ٭وَقَالُوا لاَتَذَرُنَّ آلِهَتَکُمْ وَلاَتَذَرُنَّ وَدًّا وَلاَسُوَاعًا وَلاَیَغُوثَ وَیَعُوقَ وَنَسْرًا ) ٭( ۲ )

بیشک ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا اور کہا : اپنی قوم کو ڈرائو، نوح نے کہا:اے قوم ! میں آشکارا ڈرانے والا ہوں تاکہ خدا کی بندگی کرو اور اس کی مخالفت سے پرہیز کرو نیز میری اطاعت کرو۔

ان لوگوں نے کہا :اپنے خداؤں کو نہ چھوڑو اور ودّ ، سواع، یغوث، یعوق اور نسر نامی بتوں کو نہ چھوڑو۔

قرآن کریم میں حضرت نوح کی داستان کا جو حصہ ہماری بحث سے تعلق رکھتا ہے ،وہ سورئہ شوریٰ میں خدا وند متعال کا یہ قول ہے کہ فرماتا ہے:

____________________

(۱) طبقات ابن سعد،طبع یورپ،ج،۱ ص ۱۲،۱۵،۳۶،مسند احمد، ج،۱۔۵ ص ۱۷۸ اور ۲۶۵،مسند طیالسی(حدیث ۴۷۹) بحار الانوار ج۱۱،ص ۱۶۷ اور ۱۹۷ حضرت آدم کی کیفیت حج سے متعلق متعدد اور مختلف روایات پا ئی جاتی ہیں.

(۲) نوح:۲۳۳۲۱.

۱۴

( شَرَعَ لَکم مِّن الدِّ ینِ مَا وَصَّیٰ بِهِ نُوحَاً وَ الَّذِی اَوحینَا اِلیکَ وَ مَا وَ صّیناَ بِه اِبراهِیمَ وَ موَسیٰ وَ عِیسیٰ اَن اَقِیمُواا لدِّینَ وَ لاَ تَتَفَرَّقُوا فیه ) ( ۱ )

وہی آئین و قانون تمہارے لئے تشریع کیا جس کا نوح کو حکم دیا اور جس کی تم کو وحی کی اورابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا ، وہ یہ ہے کہ دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ نہ کرو۔

کلمات کی تشریح

۱۔ودّ، سواع، یغوث اور نسر : علاّمہ مجلسی رحمة ﷲ علیہ حضرت امام جعفر صادق سے بحارالانوار میں ایک روایت ذکر کرتے ہیں جسکا مضمون ابن کلبی کی کتاب الاصنام اور صحیح بخاری میں بھی آیا ہے جس کا خلاصہ اس طرح ہے :

ودّ ، سواع، یغوث اور نسر ، نیکو کار، مومن اور خدا پرست تھے جب یہ لوگ مر گئے تو انکی موت قوم کے لئے غم واندوہ کا باعث اور طاقت فرسا ہوگئی ،ابلیس ملعون نے ان کے ورثاء کے پاس آکر کہا: میں ان کے مشابہ تمھارے لئے بت بنا دیتا ہوں تاکہ ان کو دیکھو اور انس حاصل کر وخدا کی عبادت کرو ،پھر اس نے ان کے مانند بت بنا ئے تو وہ لوگ خدا کی عبادت کرتے اور بتوں کا نظارہ بھی اورجب جاڑے اور برسات کا موسم آیا تو انھیں گھروں کے اندر لے گئے اور مسلسل خدا وند عزیز کی عبادت میں مشغول رہتے ،یہاں تک کہ انکا زمانہ ختم ہوگیا اور ان کی اولاد کی نوبت آگئی وہ لوگ بولے یقینا ہمارئے آباء و اجداد ان کی عبادت کرتے تھے ، اس طرح خدا وندکی عبادت کے بجائے انکی عبادت کرنے لگے، اسی لئے خداوند عالم ان کے قول کی حکایت کرتا ہے:

(وَلاَتَذَرُنَّ وداًّ وَ لا سُواعاً )( ۲ )

۲۔ وصیت : انسان کا دوسرے سے وصیت کرنا یعنی ، ایسے مطلوب اور پسندیدہ کاموں کے انجام دینے کی سفارش اور خواہش کرنا جس میں اس کی خیر و صلاح دیکھتا ہے۔

خدا وندعالم کا کسی چیز کی وصیت کرنا یعنی حکم دنیا اور اس کا اپنے بندوں پر واجب کرنا ہے۔( ۳ )

____________________

(۱)شوری ٰ: ۱۳

(۲) بحار الانوار۔ج۳،ص ۲۴۸ اور ۲۵۲؛ صحیح بخاری،ج۳ ص ۱۳۹ سورہ نوح کی تفسیر کے ذیل میں

(۳) معجم الفاظ القرآن الکریم مادۂ وصی.

۱۵

آیات کی مختصر تفسیر

خدا وندعالم نے گزشتہ آیات میں خبر دی ہے کہ نوح کو انکی قوم کے پاس بھیجا تاکہ انھیں ڈرائیں نوح نے ان سے کہا: میں تمہیں ڈرانے والا(پیغمبر) ہوں اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تم سے کہوں : خدا سے ڈرو اور صرف اسی کی بندگی اور عبادت کرو اور خداوندا عالم کے اوامر اور نواہی کے سلسلے میں میری اطاعت کرو ،ان لوگوںنے انکار کیا اور آپس میں ایک دوسرے سے جواب میں کہا : اپنے خدا کی عبادت سے دستبردار نہ ہونا! خدا وند عالم نے آخری آیتوں میں بھی فرمایا:

اے امت محمد! خداوند عالم نے تمہارے لئے وہی دین قرار دیا ہے جو نوح کے لئے مقرر کیا تھا اور جو کچھ تم پر اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وحی کی ہے یہ وہی چیز ہے جس کا ابراہیم ،موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا گیا تھا ، پھر فرمایا اس دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ اندازی نہ کرو۔( ۱ )

اورجو کچھ اس مطلب پر دلالت کرتا ہے وہی ہے جو خدا وند عالم سورئہ ( صافّات ) میں ارشاد فرماتا ہے:

( سَلام عَلَیٰ نُوحِ فِی العَالَميِنَ اِنَّاکذٰلِکَ نَجزِیَ المُحسِنِینَ اِنَّه مِن عِبَادِنَا المُؤمِنِینَ ثُمَّ اَ غرَقنَا ا لآ خرِینَ وَاِنَّ مِن شِیعتِه لاَ بِراهِیمَ اِذ جَا ئَ رَبَّهُ بِقلبٍ سَليِم ) ( ۲ )

عالمین کے درمیان نوح پر سلام ہو ہم اسی طرح نیکو کاروںکو جزا دیتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے مومن بندوں میں تھے ،پھر دوسروں کو غرق کر دیا اور ابراہیم ان کے شیعوں میں سے تھے ، جبکہ قلب سلیم کے ساتھ بارگاہ خدا وندی میں آئے۔

شیعہ یعنی ثابت قدم اور پائدار گروہ جو اپنے حاکم و رئیس کے فرمان کے تحت رہے،شیعہ شخص ، یعنی اسکے دوست اور پیرو۔( ۳ )

اس لحاظ سے، آیت کے معنی: (ابراہیم نوح کے شیعہ اور پیرو کارتھے)یہ ہوںگے کہ ابراہیم حضرت نوح کی شریعت کی پیروی اور اس کی تبلیغ کرتے تھے۔

خدا وندعالم کی توفیق و تائید سے آئندہ مزید وضاحت کریں گے۔

____________________

(۱)آیت کی تفسیر کے ذیل میں تفسیر تبیان اور مجمع البیان میں ملاحظہ ہو

(۲) آیت کی تفسیر کے ذیل میں تفسیر ''تبیان'' ملاحظہ ہو(۳) لسان العرب مادہ :شیع

۱۶

سوم : خلیل خدا حضرت ابرا ہیم ـ

ہماری بحث میں حضرت ابراہیم سے مربوط آیات درج ذیل ہیں:

الف۔سورہ حج َ :

( وَ اِذ بَوّ انا لِابراهیم مکان البیتِ ان لا تشرک بی شیئا وطهر بیتی للطا ئفین و القائمین والرکع السجود٭ واذن فی الناس بالحج یأ توک رجالا و علیٰ کل ضامر یأ تین من کلّ فج عمیق ٭ لیشهدوا منافع لهم و یذکروا اسم ﷲ فی أیام معلومات علی مارزقهم من بهیمة الا نعام ) ( ۱ )

اورجب ہم نے ابراہیم کیلئے گھر( بیت اللہ) کو ٹھکانا بنایا توان سے کہا : کسی چیز کومیرے برابر اور میرا شریک قرار نہ دو اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں ،قیام کرنے والوں ، رکوع اور سجودکرنے والوںکے لئے پاک و پاکیزہ رکھو اور لوگوں کو حج کی دعوت دو تا کہ پیادہ اور لا غر سواریوں پر سوار دور دراز راہ سے تمھاری طرف آئیں ، تا کہ اپنے منافع کا مشاہدہ کریں اور خدا وند عالم کا نام معین ایام میں ان چوپایوں پر جنھیں ہم نے انکا رزق قرار دیا ہے اپنی زبان پر لائیں:

ب ۔ سورئہ بقرہ:

( و اِذ جعلنا البیت مثابةً للناس و امناً و اتّخد وا من مقام اِبراهیم مصلی و عهدنا الی ابراهیم و اسماعیل ان طهرابیتی للطائفین و العا کفین و الرکع السجود... واذ یرفع أبراهیم القواعد من البیت و اسماعیل ربّنا تقبّل منا اِنک اَنت السمیع العلیم ربنا واجعلنا مسلمین لک و من ذریتنا أمة مسلمة لک و أرنا منا سکنا وتب علینا اِنّک اَنت التوّاب الرحیم ) ( ۲ )

اورجب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کا ٹھکانہ اور ان کے امن و امان کا مرکز بنایا اور ان سے فرمایا مقام ابراہیم کو اپنا مصّلیٰ قرار دو اور ابراہیم و اسما عیل کو حکم دیا کہ میرے گھر کوطواف کرنے والوں ،مجاورں ،رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوںکے لئے پاک و پاکیزہ رکھو اور جب ابراہیم و اسما عیل خانہ کعبہ کی

____________________

(۱) حج۲۶۔۲۸

(۲) بقرہ ۱۲۵۔۱۲۸

۱۷

دیواریں بلند کر رہے تھے تو کہا : خدایا ہم سے اسے قبول فرما اس لئے کہ تو سننے اور دیکھنے والا ہے ،خدایا !ہمیں اپنا مسلمان اور مطیع و فرما نبردار قرار دے اور ہماری ذریت سے بھی ایک فرمانبردار ، مطیع ومسلمان امت قرار دے نیز ہمیں اپنی عبادت کا طریقہ بتا اور ہماری توبہ قبول کر اس لئے کہ تو توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے۔

ج۔ سورئہ بقرہ :

( و قالو ا کونوا هوداً او نصاریٰ تهتدوا قل بل ملّة ابراهیم حنیفاً و ما کان من المشرکین قولو ا آمنّا با لله و ما أنزل الینا و ما أنز ل ا لیٰ اِبراهیم واِسماعیل و اسحٰق ویعقوب و الأِسباط وما أوتی موسیٰ وعیسیٰ و ما أوتیٰ النبيّون من ربّهم لا نفرق بین أحد منهم و نحن له مسلمون ) ( ۱ )

اور انھوں نے کہا : یہودی یا نصرانی ہو جائو تاکہ ہدایت پائو؛ ان سے کہو : بلکہ حضرت ابراہیم کے خالص اور محکم آئین کااتباع کرو کیونکہ وہ کبھی مشرک نہیں تھے ان سے کہو ہم خدا پر ایمان لائے ، نیزاس پر بھی جو ہم پر نازل ہوا ہے اور جو کچھ ابراہیم ،اسماعیل ، اسحق ،یعقوب اور انکی نسل سے ہو نے والے پیغمبروں پر نازل ہوا ہے ، نیز جو کچھ موسیٰ ،عیسیٰ اور تمام انبیاء پر خداوندا عالم کی جانب سے نازل کیا گیا ہے ہم ان میں سے کسی کو بھی ایک دوسرے سے الگ نہیں جانتے اور ہمصرف خدا کے فرمان کے سامنے سراپا تسلیم ہیں۔

د۔سورئہ آل عمران:

( ما کان اِبراهیم یهودیاً ولانصرانیاً و لکن کان حنیفاً مسلماً و ما کان من المشرکین ) ( ۲ )

ابرا ہیم نہ تو یہودی تھے اور نہ ہی نصرانی بلکہ وہ ایک خالص خدا پر ست اور مسلمان تھے اور وہ کبھی مشرک نہیں تھے۔

نیز اسی سورہ میں :

( قل صدق ﷲ فاتبعوا ملّة ابراهیم حنیفاً وما کا ن من المشرکین ) ( ۳ )

کہو! خداوند عالم نے سچ کہا ہے ،لہٰذا براہیم کے خالص آئین کی پیروی کرو کیونکہ وہ کبھی مشرک نہیں تھے۔

____________________

(۱) بقرہ ۱۳۵ و ۱۳۶(۲) آل عمران۶۸(۳)آل عمران۹۵

۱۸

ہ۔ سورئہ انعام:

( قل انّنی هدانی ربّی الی صراط مستقیم دیناً قیماً ملّة ابراهیم حنیفا وما کان من المشرکین ) ( ۱ )

کہو! ہمارے خدانے ہمیں راہ راست کی ہدایت کی ہے استوار و محکم دین اور ابراہیم کے خالص آئین کی وہ کبھی مشرک نہیں تھے۔

ز۔سورئہ نحل:

( ثمّ أوحینا الیک ان اتّبع ملّة اِبراهیم حنیفاًو ما کان من المشرکین ) ( ۲ )

پھر ہم نے تم کو وحی کی کہ ابراہیم جو کہ خالص اور استوار ایمان کے مالک تھے نیز مشرکوں میں نہیں تھے ان کے آئین کی پیروی کرو۔

کلمات کی تشریح:

۱۔ بوّانا: ھّیأنا :ہم نے آمادہ کیا ،جگہ دی اوراسے تمکن بخشا۔

۲۔اَذِّن: اعلان کرو ، دعوت دو ،صدا دو ،لفظ اذا ن کا مادہ یہی کلمہ ہے۔

۳۔ رجالاً: پا پیادہ ، جو سواری نہ رکھتا ہو،راجل یعنی پیادہ ( پیدل چلنے والا)

۴۔البھیمة: ہر طرح کے چوپائے۔

۵۔ ضامر: دبلا پتلا لاغر اندام اونٹ۔

۶۔فجّ: پہاڑوں کے درمیان درّہ کو کہتے ہیں۔

۷۔مثابة: اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں لوگ رجوع کرتے ہیں:

( و أِذجعلنا البیت مثابة للناس )

یعنی ہم نے گھر کو حجاج کے لئے رجوع اورباز گشت کی جگہ قرار دی تاکہ لوگ جوق در جوق اس کی طرف آئیں، نیز ممکن ہے ثواب کی جگہ مراد ہو ، یعنی لوگ مناسک حج و عمرہ کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ ثواب و

____________________

(۱) انعام ۱۶۱

(۲) نحل۱۲۳

۱۹

جزاکے بھی مالک ہوں،نیز ان کے امن و امان کی جگہ ہے۔

۸۔(مناسکنا،عباداتنا )''نُسک ''خدا کی عبادت اور وہ عمل جو خدا سے نزدیکی اور تقرب کا باعث ہو ،جیسے حج میں قربانی کرنا کہ ذبح شدہ حیوان کو '' نسیکہ''کہتے ہیں ؛ منسک عبادت کی جگہ اورمناسک: عرفات ،مشعر اور منیٰ وغیرہ میں اعمال حج اور اس کے زمان و مکان کو کہتے ہیں۔

۹۔ مقام ابراہیم :کعبہ کے مقابل روئے زمین پر ایک پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشانات ہیں۔

۱۰۔ حنیف : استوار، خالص ، ضلا لت و گمراہی سے راہ راست اور استقامت کی طرف مائل ہونے والا ؛ حضرت ابراہیم کی شریعت کا نام ''حنیفیہ'' ہے۔

۱۱۔قِیماً، قِیماور قَےِّم: ثابت مستقیم اور ہر طرح کی کجی اور گمراہی سے دور۔

۱۲۔ ملة۔ دین، حق ہو یا باطل ، اس لحا ظ سے جب بھی خدا ، پیغمبر اور مسلمان کی طرف منسوب ہو اس سے مراد دین حق ہے۔

آیات کی مختصر تفسیر:

خدا وندا عالم فرماتا ہے: اے پیغمبر!اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے ابراہیم کو خانہ کعبہ کی جگہ سے آگاہ کیا تاکہ اس کی تعمیر کر یں اور جب ابراہیم و اسماعیل خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے تو وہ دونوںاپنے پروردگار کو آواز دیتے ہوئے کہہ رہے تھے : خدا یا !ہم سے اس عمل کو قبول کر اور ہمیں اپنا مطیع و فرما نبردار مسلمان بندہ قرار دے، نیز ہماری ذریت سے ایک سراپا تسلیم رہنے والی مسلمان امت قرار دے، نیز ہمیں اپنی عبادت کا طریقہ بتا ،خدا وند سبحان نے انکی دعا قبول کر لی ، ابراہیم نے خواب میں دیکھا کہ اپنے بیٹے اسماعیل کو راہ خدا میں قربان کر رہے ہیں(۱ ) اس وقت اسماعیل سن رشد کو پہنچ چکے تھے اور باپ کے ساتھ کعبہ کی تعمیر میں مشغول تھے، ابراہیم نے خواب میں جو کچھ دیکھا تھا اسماعیل کو اس سے آگاہ کر دیا، انھوں نے کہا : بابا آپ جس امر پرمامور ہیںاسے انجام دیجئے ،آپ مجھے عنقریب صابروں میں پائیں گے، لہٰذا جب دونوں فرمان خدا وندی کے سامنے سراپا تسلیم ہو گئے اور ابراہیم نے اپنے بیٹے اسماعیل کو زمین پر لٹا دیا تاکہ راہ خدا

____________________

(۱) پیغمبر جو خواب میں دیکھتا ہے وہ ایک قسم کی وحی ہو تی ہے۔

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

۱۰ _ انبيا كے معجزوں كامؤمنين كے مفاد كيلئے استعمال ہونا _فاضرب لهم

دريا ميں خشك راستے كا كھل جانا منكرين كيلئے حضرت موسى كى رسالت كو ثابت كرنے كيلئے انجام نہيں پايا بلكہ اس سے مقصود بنى اسرائيل كو نجات دينا اور فرعونيوں كو ہلاك كرنا تھا _

۱۱ _ سب بنى اسرائيل كو ايك ہى راستے سے دريا عبور كرديا گيا _*فاضرب لهم طريقاً فى البحر

اگر ''طريقاً'' سے مراد جنس نہ ہو تو يہ وحدت پر دلالت كريگا _

۱۲ _ حضرت موسى (ع) مصر سے ہجرت كے دوران راستے ميں فرعون كى فوج كا سامنا كرنے اور ديگر مشكلات پيش آنے كى وجہ سے پريشان تھے _ا سر بعبادي لا تخف دركاً و لا تخشى

''درك''كا معنى ہے ملحق ہونا، پہنچ جانا نيز يہ رد عمل كے معنى ميں بھى آيا ہے (قاموس) ہر قسم كا پيچھا كرنے اور رد عمل كى نفى نيز ہجرت كے راستے كے امن ہونے كے سلسلے ميں حضرت موسى كو اطمينان بخشنا اس بات كى علامت ہے كہ پيچھا كرنے نير زاستے كى ديگر پريشانيوں كيلئے حالات سازگار تھے _

۱۳ _ خداتعالى نے حضرت موسى كو اطمينان دلايا كہ مصر سے ہجرت كے سفر ميں نہ تو دشمن كى فوج كا سامنا ہوگا اور نہ ہى ان كيلئے كوئي دوسرى بڑى مشكل كھڑى ہوگي_أسر بعبادي لاتخف دركاً و لا تخشى

''لاتخشي'' كے متعلق كا حذف ہونا ہر ايسى چيز كے منتفى ہونے كو بيان كررہا ہے كہ جو ڈر اور خوف كا سبب بنے جيسے دريا ميں غرق ہونے كا احتمال يا ديگر ايسى مشكلات جنكى پيشين گوئي نہيں ہوسكتي

بنى اسرائيل:انكى آمادگى ۷; انكى تاريخ ۱، ۲، ۵، ۷، ۸، ۱۱; ان كا شكنجہ ۵; انكا دريا سے عبور كرنا۱ ۱; انكا بحيرہ احمر سے عبور كرنا ۸; انكا دريائے نيل سے عبور كرنا ۸; ان پر لطف و كرم ۵; انكى ہجرت كا راستہ ۳، ۸، ۱۱; انكى ہجرت كى خصوصيات ۲; انكى ہجرت ۷، ۱۳; انكى رات كے وقت ہجرت ۱

خداتعالى :اسكے ارادے كى حكمرانى ۹; اسكے اوامر كو اجرا كرنے والے ۹

قدرتى وسائل:انكا مطيع ہونا ۹

فرعون:اسكے شكنجوں سے نجات ۷فرعوني:انكاخطرہ ۱۲

خدا كا لطف و كرم:

۱۴۱

يہ جنكے شامل حال ہے ۵، ۶

مؤمنين:انكے مفادات ۱۰

مظلومين:انكا حامى ۶

معجزہ:اس كا كردار ۱۰

موسى :انكا اطمينان ۱۳; انكى رسالت ۱، ۸; انكا قصہ ۱، ۸، ۱۲، ۱۳;انكى پريشانى ۱۳; انكى طرف وحى ۳، ۴; انكى ہدايت ۴

وحى :اس كا كردار ۲

آیت ۷۸

( فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُودِهِ فَغَشِيَهُم مِّنَ الْيَمِّ مَا غَشِيَهُمْ )

تب فرعون نے اپنے لشكر سميت ان لوگوں كا پيچھا كيا اور دريا كى موجوں نے انھيں باقاعدہ ڈھانك ليا (۷۸)

۱ _ حضرت موسى (ع) ،خدا كے حكم كے مطابق رات كے وقت بنى اسرائيل كو مصر سے لے كر چلے اور انہيں دريا سے گزارا _أسر بعبادى فا تبعهم

''فا تبعہم'' كى ''فا'' فصيحہ ہے يعنى اپنے سے قبل چند محذوف جملوں سے حكايت كرر ہى ہے ان جملوں كا خلاصہ يہ ہے كہ موسى ،(ع) بنى اسرائيل كو مصر سے لے كرچلے اور فرعونيوں كو بھى انكى روانكى كى اطلاع ہوگئي_

۲ _ بنى اسرائيل كى مصر سے روانگى كے بعد،فرعون اور اسكے لشكر نے ان كا پيچھا كيا _فا تبعهم فرعون وجنوده

۳ _ بنى اسرائيل كا پيچھا كرنے ميں خود فرعون اپنى فوج كى كمان كررہا تھا _فا تبعهم فرعون بجنوده

۴ _ بنى اسرائيل كا مصر ميں رہنا اور ان كا دوسروں سے جدا نہ ہونا فرعون اور فرعونيوں كى زندگى كا مسئلہ تھا _

أسر بعبادي فا تبعهم فرعون بجنوده

بنى اسرائيل كا پيچھا كرنا اور انہيں ہجرت سے روكنے كى كوشش كرنا اس نكتے كو بيان كر رہا ہے كہ بنى اسرائيل كامصر كے معاشرے سے جدا ہونا ان كيلئے سنگين نتائج اور نقصان كا سبب تھا _

۱۴۲

۵ _ بنى اسرائيل كا پيچھا كرنے ميں فرعونى دريا كے خشك راستے ميں داخل ہوئے _طريقاً فى البحر يبساً فا تبعهم فرعون بجنوده

۶ _ سمندر كى بڑى اور خطرناك لہروں نے فرعون اور اس كے لشكر كو گھير كہ نہيں نگل ليا _فغشيهم من اليم ما غشيهم

''يمّ'' كا معنى ہے سمندر نيز اس كا اطلاق اس بڑے دريا پر بھى ہوتا ہے جس كا پانى ميٹھا ہو ( لسان العرب) ''غشاوہ'' ( غشى كا مصدر) ڈھانپنے اور گھير لينے كے معنى ميں ہے ''ما غشيہم'' كا ابہام، ان لہروں كے عظيم ہونے كو بيان كررہا ہے كہ جو فرعونيوں كے غرق ہونے كا سبب بنيں _

۷ _ قدرتى وسائل،خداتعالى كے ارادے كے سامنے مجبور ہيں اوروہ اسكے حكم كو اجرا كرنے والے ہيں _

طريقاً فى البحر يبساً فغشيهم من اليم ما غشيهم

حضرت موسى (ع) كے عبور كرنے كيلئے دريا كا كھل جانا اور فرعونيوں كے داخل ہونے كے بعد اس كا مل جانا دونوں اعجاز كى صورت ميں اور خداتعالى كے حكم سے تھے _

بنى اسرائيل:انكى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۴،۵; انكا پيچھا كرنا ۲، ۳، ۵; انكا دريا سے عبور كرنا ۱; انكى ہجرت كا راستہ ۱; مصر ميں انكى رہائش كا كردار ۴; انكى رات كے وقت ہجرت ۱

خداتعالى :اسكے ارادے كى حكمرانى ۷; اسكے اوامر كو اجرا كرنے والے ۷

قدرتى وسائل:انكا كردار ۷

فرعون:اسكى حكومت كى بقا كے عوامل ۴; اس كا غرق ہونا ۶; يہ اور بنى اسرائيل ۲; اسكے لشكر كا كمانڈر ۳; اسكى كمان ۳

فرعونى :ان كا غرق ہونا ۶; يہ دريا ميں ۵; يہ اور بنى اسرائيل ۲; انكى حركت كا راستہ ۵

موسى :ان كا شرعى ذمہ دارى پر عمل كرنا ۱; انكا قصہ ۱، ۶

۱۴۳

آیت ۷۹

( وَأَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهُ وَمَا هَدَى )

اور فرعون نے در حقيقت اپنى قوم كو گمراہ ہى كيا ہے ہدايت نہيں دى ہے (۷۹)

۱ _ اپنى عوام كى گمراہى ميں فرعون كا بنيادى اور مركزى كردار تھا _و ا ضل فرعون قومه

۲ _ لوگوں كے گمراہى يا ہدايت ميں معاشروں كے حكمرانوں اور رہنماؤں كا بہت مؤثر كردار ہے_

و ا ضل فرعون قومه

۳ _ لوگوں كو ہدايت كرنا،حكمرانوں اور پيشواؤں كى ذمہ داريوں ميں سے ہے _و ا ضل فرعون قومه و ما هدى

''ا ضل'' اور ''ماہدى '' كا معنى ايك ہے اور يہ ايك ہى معنى كا دوسرے لفظ كے ساتھ تكرار ہے شايد ''ماہدى '' كا جملہ اس لئے آيا ہے كہ حكمرانوں اور رہنماؤں سے جس چيز كى توقع ہے وہ لوگوں كو ہدايت كرنا ہے_

۴ _ فرعونيوں كى نابودى اور ان كے نظام حكومت كا ختم ہوجانا انكے فرعون كى پيروى كے نتائج ميں سے تھا_

فغشيهم و ا ضل فرعون قومه و ما هدى

رہبر:انكى ذمہ دارى ۳; انكا نقش و كردار ۲ راھبر; ان كا گمراہ كرنا ۲; انكا ہدايت كرنا ۲

فرعون:اسكى پيروى كے اثرات۴; اس كا گمراہ كرنا ۱

فرعوني:انكى گمراہى كے عوامل ۱_انكى ہلاكت كے عوامل۴

گمراہي:اسكے عوامل ۲

لوگ:انكى ہدايت كى اہميت ۳

ہدايت :اسكے عوامل ۲

۱۴۴

آیت ۸۰

( يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ قَدْ أَنجَيْنَاكُم مِّنْ عَدُوِّكُمْ وَوَاعَدْنَاكُمْ جَانِبَ الطُّورِ الْأَيْمَنَ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى )

بنى اسرائيل ۱ ہم نے تم كو تمھارے دشمن سے نجات دلائي ہے اور طور كى داہنى طرف سے توريت دينے كا وعدہ كيا ہے اور من و سلوى بھى نازل كيا ہے (۸۰)

۱ _ فرعون بنى اسرائيل كادشمن تھااوروہ انہيں تباہ كرنے كے در پے تھا _فأتبعهم فرعون يا بنى إسرائيل قد ا نجيناكم من عدوكم

۲ _ خداتعالى نے بنى اسرائيل كو فرعون كے خطرے سے نجات دلائي اور انہيں اسكى اسارت سے رہائي عطا كى _

فأتبعهم فرعون ى بنى إسرائيل قد ا نجيناكم من عدوكم

۳ _ بنى اسرائيل كے دريا سے عبور كرنے كے بعد خداتعالى نے انكے ساتھ گفتگو كا فيصلہ كيا اور انہيں قريبى رابطے كا وعدہ ديا_و وعدناكم جانب الطور الا يمن

(بعد والى آيات كے جملے) ''و ما ا عجلك عن قومك ياموسى '' قرينہ ہے كہ ''واعدناكم'' كامتعلق حضرت موسى (ع) كے ساتھ گفتگو اور سرگوشى كرنے كا وعدہ تھا يہ وعدہ اگر چہ سب بنى اسرائيل كے ساتھ نہيں تھا ليكن چونكہ اسكے فوائد (جيسے تورات كا نزول) سب كيلئے تھے لہذا اسے سب بنى اسرائيل پر ايك نعمت كے عنوان سے ياد كيا گيا_

۴ _ كوہ طور كى دائيں جانب،بنى اسرائيل كے خداتعالى كى دعوت كا جواب دينے كيلئے شرفياب ہونے كى وعدہ گاہ _

و وعدناكم جانب الطور الا يمن

''ا يمن'' كا معنى ہے ''يمين'' يعنى دائيں طرف اور ''طوركے دائيں جانب'' سے مراد اسكى دائيں جانب كى فضا يا دامن ہے_

۵ _ كوہ طور ايك مبارك اور خداتعالى كى مورد عنايت جگہ_و وعدنكم جانب الطور الا يمن

مذكورہ بالا مطلب ميں ''ا يمن'' كو ''يمن'' كے مادہ سے ليا گيا ہے اور يہ مبارك كے معنى ميں ہے يہ كلمہ اگر چہ ''جانب'' كى صفت ہے ليكن كسى چيز كے جز كى صفت خود اس كل چيز (كل) كى بھى صفت شمار ہوئي ہے وعدہ گاہ كے طور پر كوہ طور كا انتخاب اسكے خاص امتياز كى علامت ہے_

۱۴۵

۶ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كے زمانے كے بنى اسرائيل پر كھانے كى چيزيں ''من و سلوى '' نازل كيں _

ونزلنا عليكم المن و السلوى

''منّ'' وہ قطرات ہيں جو آسمان سے درختوں اور پتھروں كے اوپر نازل ہوكر شہد كى صورت اختيار كر جاے ہيں انكا ذائقہ ميٹھا ہوتا ہے اور درخت كے شيرے كى طرح خشك ہوجاتے ہيں (قاموس) بعض مفسرين نے اس كا معنى ترنگبين كيا ہے_

''سلوى '' كبوتر جيسا ايك پرندہ ہے كہ جس كى ٹانگيں اور گردن لمبى ہوتى ہيں اسكى رفتار تيز او راس كا رنگ بٹير كے رنگ جيسا ہوتا ہے (مصباح) بعض نے اسے وہى بٹير قرار ديا ہے _

۷ _ بنى اسرائيل پر من و سلوى كا نزول انكے فرعون كے چنگل سے نجات حاصل كرنے اور بيابان ميں ٹھہرنے كے بعد تھا_قد ا نجيناكم وعدناكم و نزلنا عليكم المن و السلوى

''من و سلوى '' كا نزول اس علاقے كے كھانے پينے كى عام چيزوں سے خالى ہونے اور انكے ٹھہرنے كى جگہ كے بيابان ہونے كى علامت ہے_

۸ _ ''من و سلوى '' كا نزول ان معجزات ميں سے تھا جو حضرت موسى كى قوم كو دكھائے گئے _و نزلنا

كھانے پينے كى چيزوں ميں سے ''من و سلوى '' كا مخصوص ہونا اور ان كے بنى اسرائيل پر نزول كى ياد ہانى كرانا ان كے نزول كے غير معمولى ہونے كى علامت ہے_

۹ _ بنى اسرائيل كو فرعونيوں سے نجات دينا،انہيں گفتگو كيلئے كوہ طور پر آنے كى دعوت دينا اور ان پر من و سلوى نازل كرنا حضرت موسى (ع) كے زمانے كے بنى اسرائيل پر خداتعالى كى نعمتيں _يابنى اسرائيل قد ا نجيناكم و نزلنا عليكم المن ا لسلوى

۱۰ _ حضرت موسى (ع) كے زمانے كے بنى اسرائيل،تاريخ كے برجستہ اور بہت ہى قابل تامل ابواب ركھنے والے ہيں _ا نجيناكم وعدنكم و نزّلنا

۱۱ _ تاريخ كے ان حساس لمحوں اور اہم واقعات كو ياد كرنا ضرورى ہے كہ جن ميں خداتعالى كا لطف و كرم نازل ہوا _

ا نجيناكم وعدناكم و نزّلنا

۱۲ _ ستمگر دشمن كے چنگل سے نجات دينا، اس دشمن كو

۱۴۶

نابود كرنا، مكتب اور زندگى كا لائحہ عمل دينا اور رزق عطا كرنا خداتعالى كى عظيم ترين نعمتوں ميں سے ہيں _

ا نجيناكم وعدناكم نزلنا عليكم المن و السلوى

تين قسم كى نعمتوں كى صورت ميں بنى اسرائيل پر احسان كو بيان كيا گيا ہے نجات، طور كے مقام پر ضابطہ حياط كا عطا كرنا(تورات) اور انہيں رزق عطا كرنا اس سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ تين چيزيں خداتعالى كى عظيم نعمتوں ميں سے ہيں _

مقدس مقامات :۵

بنى اسرائيل:يہ بيابان ميں ۷; يہ ميقات ميں ۴; انكى تاريخ ۲، ۶، ۷، ۱۰; ان كے دشمن ۱; انكى دعوت ۹; انكى نجات ۲، ۷، ۹; ان پر بٹير كا نزول ۶; ان پر ترنگبين كا نزول ۶; ان پر سلوى كا نزول ۶، ۷، ۸; ان پر منّ كا نزول ۶، ۷، ۸; انكى نعمتيں ۷، ۹; ان كے ساتھ وعدہ ۳

خداتعالى :اسكى بنى اسرائيل كے ساتھ گفتگو ۳، ۴; اس كا نجات بخشنا ۲; اسكى نعمتيں ۹، ۱۲; اسكے وعدے ۳

كھانے كى چيزيں :سلوى ۶; من ۶

ذكر :تاريخ كے ذكر كى اہميت ۱۱

فرعون:اسكى دشمنى ۱; اس سے نجات ۲، ۷

فرعوني:ان سے نجات ۹

كوہ طور:اس كا تقدس ۵; اسكى طرف دعوت ۹; اسكى دائيں طرف ۴; اس ميں مناجات ۹

موسى (ع) :انكا معجزہ ۸

نعمت:اسكے درجے ۱۲; سلوى والى نعمت كا نزول ۹; من والى نعمت كا نزول ۹; دين والى نعمت ۱۲; روزى والى نعمت ۱۲; ظالموں سے نجات والى نعمت ۱۲; دشمنوں كى ہلاكت والى نعمت ۱۲

۱۴۷

آیت ۸۱

( كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَلَا تَطْغَوْا فِيهِ فَيَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبِي وَمَن يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي فَقَدْ هَوَى )

تم ہمارے پاكيزہ رزق كو كھاؤ اور اس ميں سركشى اور زيادتى نہ كرو كہ تم پر ميرا غضب نازل ہوجائے كہ جس پر ميرا غضب نازل ہوگيا وہ يقينا برباد ہوگيا (۸۱)

۱ _ من و سلوى ،خداتعالى كى طرف سے بنى اسرائيل كيلئے عطيہ اور پاكيزہ و خوش ذائقہ قسم كى روزى تھى _

و نزلنا عليكم المن والسلوى كلوا من طيبت ما رزقناكم

''طيب'' اس چيز كو كہتے ہيں كہ جس سے انسان كے نفس اور حواس كو لذت حاصل ہو (مفردات راغب) ''طاب'' يعنى لذيذ اور پاكيزہ ہوگيا (قاموس) البتہ ''طيب'' كا ايك معنى حلال بھى ہے ليكن چونكہ ہر رزق الہى حلال ہے لہذا وہ معنى كہ جس كا مطلب رزق كى حلال و حرام كى طرف تقسيم ہو مناسب معنى نہيں ہے_

۲ _پاكيزہ اور خوش ذائقہ رزق سے بہرہ مند ہونا،خداتعالى كى طرف سے بنى اسرائيل كو نصيحت_كلوا من طيبت ما رزقناكم

۳ _ دين موسى (ع) ميں صحيح و سالم غذا اور اصول صحت پر توجہ _كلوا من طيبت ما رزقناكم

۴ _ كھانے كى چيزيں ،خداتعالى كا رزق اور اس كا عطيہ ہيں _كلوا من طيبت ما رزقناكم

۵ _ خداتعالى ،انسان كو روزى دينے والا ہے_رزقناكم

۶ _ خداتعالى كى روزى انسان كيلئے پاكيزہ اور خوشگوار عطيہ ہے _طيبت ما رزقناكم

''طيبات'' كى ''ما رزقناكم'' كى طرف اضافت ممكن ہے بيانيہ ہو اور اس نكتے كو بيان كرنے كيلئے ہو كہ جو كچھ ہم نے تمہيں روزى دى ہے وہ طيب اور پاك و پاكيزہ ہے _

۷ _ خداتعالى كے عطيات اور نعمتوں كو اپنے اوپر حرام كرناايك ناروا عمل اور بے جا پرہيز ہے_كلوا من طيبت ما رزقناكم

طيبات سے استفادہ كرنے كى نصيحت اس كام كے افراط پر مبنى رياضتوں كے مقابلے ميں برتر ہونے كى علامت ہے_

۸ _ روزى اور وسائل سے بہرہ مندى كا جواز اسكے مزاج كے موافق ہونے كا مرہون منت ہے _

كلوا من طيبت ما رزقناكم

۹ _ خداتعالى كى نعمتوں سے استفادہ كرنا اور انہيں بے كار نہ ركھنا انكے عطا كرنے كا اصلى ہدف ہے_

۱۴۸

'' مارزقناكم'' ايسا عنوان ہے كہ جو ''كلوا'' كى علت كے مقام ميں اور مخاطب كو نعمت سے استفادہ كرنے كے لازمى ہونے كى طرف متوجہ كر رہا ہے اور اس بات سے حكايت كرتا ہے كہ ہم نے يہ رزق تمہيں ديا ہے تا كہ يہ تمہارى غذا ہو پس اسكے استعمال سے دريغ نہ كرو_

۱۰ _ كھانے پينے كى چيزوں ميں اصل اور قاعدہ اوليہ حليت ہے_كلوا من طيبت ما رزقناكم

۱۱ _ دريا كو عبور كرنے كے بعد،بنى اسرائيل كے ٹھكانے ميں سالم غذا كے وسائل نہيں تھے اور اس ميں خراب اور انسانى مزاج كے منافى غذائي چيزيں تھيں _كلوا من طيبت ما رزقناكم و لا تطغوا فيه

۱۲ _ نعمتوں سے استفاہ كرنے ميں قوانين الہى اور اعتدلال كى حد سے تجاوز نہ كرنا،خداتعالى كى بنى اسرائيل كو نصيحت _

كلوا من طيبت و لاتطغوا فيه

۱۳ _ نعمات الہى سے استفادہ كرنے ميں حدود اور اعتدال كى حفاظت كرنا اور اس ميں اسراف و تبذير اور ناشكرى سے پرہيز كرنا ضرورى ہے _كلوا من طيبت ما زرقناكم و لا تطغوا فيه

نعمتوں كے بارے ميں سركشى كاواضح مصداق كفران، ناشكري، اسراف اور تبذير ہے _

۱۴ _ الله تعالى كى نعمتوں اور رزق سے استفادہ كرنے كيلئے خاص احكام اور قواعد و ضوابط ہيں _كلوا من طيبت و لا تطغوا فيه ''طغيان'' كا معنى ہے حد سے تجاوز كرنا_ بنى اسرائيل كو طيبات سے استفادہ كرنے ميں طغيان سے نہى اس بات سے حكايت كرتى ہے كہ طيبات سے استفادہ كرنے كے قواعد و ضوابط اور حدود ہيں كہ جن سے خروج طغيان شمار ہوتا ہے_

۱۵ _ كھانے كى چيزوں ميں طغيان كرنے كے خطرناك اسباب موجود ہيں _كلوا ولا تطغوا فيه

''فيہ'' كى ضمير كا مرجع ممكن ہے ''كلوا'' كا مصدر (يعنى ''اكل'') ہو اور ممكن ہے اس كا مرجع ''ما رزقناكم'' كا ''ما '' ہو اس لحاظ سے كہ اس كا ''كلوا'' فعل كے ساتھ ارتباط ہے ہر صورت ميں مذكورہ بالا مطلب حاصل كيا جاسكتا ہے_

۱۶ _ خداتعالى كى نعمتوں كے سلسلے ميں حد سے تجاوز كرنا ستم گروں كى حكمرانى سے آزادى حاصل كرنے والے معاشروں كيلئے ايك خطرہ _ا نجيناكم من عدوكم كلوا لاتطغوا فيه

بنى اسرائيل كو طغيان سے نہى ان كے دريا سے عبور

۱۴۹

كرنے اور فرعونيوں كے ظلم و ستم سے نجات حاصل كرنے كے بعد ذكر ہوئي ہے اس موقع پر اس مسئلے كو چھيڑنا ايسے حالات ميں طغيان كى طرف لے جانے والے اسباب كے وجود كو بيان كرتا ہے_

۱۷ _ نعمتوں سے استفادہ كرنے ميں حد سے تجاوز كرنا (ناشكري، اسراف ...) غضب الہى كے نزول اور اسكے انسان پر مسلط ہونے كے اسباب فراہم كرتا ہے_كلوا و لاتطغوا فيه فيحل عليكم غضبي

''يحلّ'' يعنى ''ينزل'' غضب كا نزول اسكے مكمل طور پرمستقر ہونے سے كنايہ ہے_

۱۸ _سقوط اور ہلاكت ان معاشروں اور افراد كا حتمى مقدر ہے كہ جن پر خدا تعالى كا غضب ہو_

و من يحلل عليه غضبى فقد هوى

۱۹ _ خداتعالى كى نعمتوں كے سلسلے ميں طغيان كرنا اور حد اعتدال سے خارج ہونا بہت بڑا گنا ہ ہے_

و لاتطغوا و من يحلل عليه غضبى فقد هوى

نعمتوں كے سلسلے ميں طغيان كرنے والوں پر غضب الہى ان كے گناہ كے بڑا ہونے كى علامت ہے _

۲۰ _راوى كہتا ہے ميں امام باقر(ع) كے حضور ميں تھا كہ عمر و بن عبيد داخل ہوا اور امام(ع) سے كہنے لگا آپ (ع) پر قربان ہوجاؤں الله تبارك و تعالى كے فرمان'' و من يحلل عليه غضبى فقد هوي'' ميں غضب سے كيا مراد ہے؟ فرمايا يہ عذاب ہے اے عمر و بيشك جو شخص يہ گمان كرے كہ خداتعالى ايك حال سے دوسرے حال ميں منتقل ہوتا ہے تو اس نے مخلوق كى صفت كے ساتھ اسے متصف كيا ہے اور خداتعالى كو كوئي چيز حركت نہيں ديتى تا كہ اس ميں تبديلى آئے(۱)

اسراف:اسكے اثرات ۱۷; اس سے اجتناب كى اہميت ۱۳; اس كا گناہ ۱۹

انسان:اس كا مزاج ۸//بنى اسرائيل:انكى تاريخ ۱۱; انكو نصيحت ۲، ۱۲; انكى روزي۱، ۲; ان كے طيبات ۱; انكى رہائش گاہ ۱۱; انكى نعمتيں ۱//تجاوز:اس سے اجتناب كرنا ۱۲

غذا:اس ميں حفظان صحت كى اہميت ۲//معاشرہ:اسكى آسيب شناسى ۱۶

خداتعالى :اسكى نصيحتيں ۲، ۱۲; اس كا رازق ہونا ۴، ۵; اسكے غضب كا پيش خيمہ ۱۷; اسكى نعمتوں كا فلسفہ ۹; اسكے غضب سے مراد ۲۰; اسكى نعمتيں ۱، ۶

____________________

۱ ) كافى ج۱ ص ۱۱۰ ح ۵ نورالثقلين ج ۳ ص ۳۸۶ ح ۸۹_

۱۵۰

كھانے كى چيزيں :انكا كردار ۱۵

روايت ۲۰//روزي:اس سے استفادہ كے شرائط ۸; اس كا سرچشمہ ۵

زہد:اس ميں افراط كا ناپسنديدہ ہونا ۷

طغيان:اسكے اثرات ۱۷; اس كا پيش خيمہ ۱۵، ۱۶; اس كا گناہ ۱۹

طيبات:ان سے استفادہ كرنا ۴

عمل:ناپسنديدہ عمل ۷//قواعد فقہيہ: ۱۰//قاعدہ حليت ۱۰

كفران:كفران نعمت كے اثرات ۱۷; كفران نعمت سے اجتناب كرنا ۱۳; كفران نعمت كا گناہ ۱۹

گناہان كبيرہ: ۱۹

جن پر خدا كا غضب ہے:انكا انجام ۱۸; انكى ہلاكت ۱۸

نعمت:اسكے احكام ۴; اس سے استفادہ كرنا ۹; اس سے استفادہ كرنے ميں اعتدال ۱۲، ۱۳; اس سے استفادہ كرنے كے شرائط ۱۴; اسكے حرام كرنے كا ناپسند ہونا ۷; كھانے كى چيزوں كى نعمت ۴; روزى والى نعمت ۶; سلوى والى نعمت ۱; طيبات والى نعمت ۶; منّ والى نعمت ۱

يہوديت:اس ميں حفظان صحت ۳; اس ميں غذا ۳

آیت ۸۲

( وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِّمَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحاً ثُمَّ اهْتَدَى )

اور ميں بہت زيادہ بخشنے والا ہوں اس شخص كے لئے جو توبہ كرلے اور ايمان لے آئے اور نيك عمل كرے اور پھر راہ ہدايت پر ثابت قدم رہے (۸۲)

۱ _خداوند متعال،بہت بجشنے والا ہے_و إنى لغفار

۲ _ شرك، كفر اور عصيان سے توبہ كرنے والے با ايمان لوگ كہ جو عمل صالح انجام ديتے ہيں اور ہدايت كے پيچھے جاتے ہيں قطعا مغفرت الہى كے مستحق قرار پائيں گے _وإنى لغفار لمن تاب و امن ثم اهتدي گذشتہ آيت قرينہ ہے كہ توبہ سے مراد كھانے كى چيزوں كے سلسلے ميں حد سے تجاوز كرنے والے گناہ سے توبہ ہے اور چونكہ

۱۵۱

''تاب'' كے بعد ايمان كى بات كى گئي ہے اس لئے يہ شرك و كفر كے گناہ سے توبہ كو بھى شامل ہے_

۳ _ توبہ، ايمان، عمل صالح اور ہدايت كے پيچھے جانا مغفرت الہى كے حصول كے ذرائع ہيں _و إنى لغفار ثم اهتدي

اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ توبہ، ايمان اور عمل صالح خود ہدايت يافتہ ہونے سے حكايت كرتے ہيں ''ثم اہتدي'' ہدايت پر باقى رہنے اور مسلسل اس كے پيچھے رہنے كو بيان كر رہا ہے_

۴ _ رہبانيت كو اپنا نے والے اور فضول خرچى كرنے والے اگر توبہ كر ليں تو مغفرت الہى ان كے شامل حال ہو جائيگي

كلوا و لا تطغوا و إنى لغفار لمن تاب

۵ _ گناہ گاروں اور مغضوبين كيل ے خدا تعالى كى طرف سے توبہ اور واپس پلٹنے كاراستہ كھلا ہے_يحلل غضبى و إنى لغفار لمن تاب حد سے تجاوز كرنے والوں كو دھمكى دينے كے بعد خدا تعالى كى مغفرت واسعہ پر تأكيد گناہ گاروں كو بخشش الہى كا اميدوار كرنے اور راہ توبہ كے كھلا ہونے كو بيان كرنے كيلئے ہے_

۶ _ گناہ سے توبہ كا ضرورى ہونا اديان آسمانى كى مشتركہ تعليمات ميں سے ہے _و إنى لغفار لمن تاب

۷ _ عمل صالح كے انجام كا ضرورى ہونا،سب اديان الہى كے احكام ميں سے ہے_و إنى لغفار لمن تاب و ء امن و عمل صالح

۸ _ توبہ كرنے والے اور نيك كردار مؤمنين كيلئے خدا تعالى كى مغفرت وسيع اور عام ہے_و إنى لغفار لمن تاب

''غفار'' مبالغہ كا صيغہ ہے اور مؤمنين اور نيك كردار توبہ كرنے والوں كے سلسلے ميں بخشش الہى كے وسيع ہونے پر دلالت كر رہا ہے

۹ _ آسمانى اديان كى تربيت كى روش ميں بشارت اور انذار ايك دوسرے كو مكمل كرنے والے ہيںو لا تطغوا فيه فيحلل عليكم غضبي و إنى لغفار

۱۰ _ حد سے تجاوز كرنا ايمان كو تباہ كرنے والا ہے_و لا تطغوا فيه و إنى لغفار لمن تاب و امن طغيان كے بعد نئے ايمان كى بات ممكن ہے اس نكتے كو بيان كرنے كيلئے ہو كہ طغيان ايمان كو ختم كر ديتا ہے اور يا اسے بہت نقصان پہنچاتا ہے_

۱۱ _ بڑھتى ہوئي اور تكامل كا راستہ طے كر تى ہوئي ہدايت، توبہ، ايمان اور عمل صالح كا نتيجہ _لمن تاب و امن و عمل صالحاً ثم اهتدي ممكن ہے '' ثم اہتدي'' ہدايت كے اعلى مراتب اور بلند درجات كى طرف ناظر ہو كہ جو

۱۵۲

توبہ، ايمان اور عمل صالح كے نتيجے ميں حاصل ہوتے ہيں يہ نكتہ باب افتعال كہ جو مطاوعہ كيلئے آتا ہے كے معنى كو مد نظر ركھتے ہوئے زيادہ واضح ہوتا ہے_

۱۲ _ ہدايت ايسى چيز ہے كہ جس ميں رشد و تكامل ہو سكتا ہے_تاب و ء امن و عمل صالحاً ثم اهتدي

۱۳ _ توبہ كى قبوليت اور گناہوں كى بخشش انہيں ہميشہ ترك كرنے اور نئے گناہ سے پرہيز كے ساتھ مشروط ہے_

و إنى لغفار لمن تاب ثم اهتدي ''ثم اہتدي'' كہ جو توبہ كے بعد والے مرحلے كى طرف ناظر ہے اس نكتہ كو بيان كر رہا ہے كہ اگر راہ ہدايت كو چھوڑ ديا جائے اور جس گناہ سے توبہ كى تھى اسے دوبارہ انجام ديا جائے تو مغفرت الہى انسان كے شامل حال نہيں ہو گي_

بخشش:اس كا پيش خيمہ۳_ اسكى شرائط۱۳ _ يہ جنكے شامل حال ہے ۲

اديان آسماني:انكى تعليمات ۶، ۷، ۹_ انكى ہم آہنگي۶

اسما و صفات:غفار //ايمان:اسكے اثرات۲، ۳، ۱۱_ اسكے زوال كے عوامل۱۰

تائبين:انكى بخشش ۲، ۸//تربيت:اس ميں انذار۹_ اس ميں بشارت۹_ اسكى روش ۹

توبہ:اسكے اثرات ۱۱_ يہ اديان آسمانى ميں ۶; اسكى قبوليت كے شرائط۱۳

خدا تعالي:اسكى بخشش ۱_ اسكى بخشش كا پيش خيمہ ۳، ۴; اسكى بخشش كى وسعت ۸

شرك:اسكى بخشش كے شرائط۲، ۳

صالحين:انكى بخشش۸

طغيان:اسكے اثرات۱۰

عصيان:اسكى بخشش كے شرائط ۲

عمل صالح:اسكے اثرات ۲، ۳، ۱۱;اسكى اہميت ۷

كفر:اسكى بخشش كے شرائط۲

گناہ:اس سے اجتناب ۱۳

۱۵۳

گناہ گار لوگ;انكى توبہ۵

مؤمنين:انكى بخشش۸

اسراف كرنے والے:انكى توبہ كے اثرات ۴_ انكى بخشش كے شرائط۴

خدا كے مغضوب لوگ:انكى توبہ۵

ہدايت:اسے قبول كرنے كے اثرات ۳_ اس كا زيادہ ہونا ۱۲_ اسكے زيادہ ہونے كا پيش خيمہ ۱۱_ اسكے مراتب۱۲

آیت ۸۳

( وَمَا أَعْجَلَكَ عَن قَوْمِكَ يَا مُوسَى )

اور اے موسى تمھيں قوم كو چھوڑ كر جلدى آنے پر كس شے نے آمادہ كيا ہے (۸۳)

۱ _ خدا تعالى نے حضرت موسي(ع) اور ان كى قوم كے ساتھ كوہ طور كے قريب گفتگو كرنا طے فرمايا تھا _

وعدناكم جانب الطور الا يمن و ما ا عجلك عن قومك

اس سورت كى آيت ۸۰ ميں (كوہ طور ميں ) بنى اسرائيل كے ساتھ خدا تعالى كے وعدے كى بات ہوئي تھى ظاہرا ''ماا عجلك'' _ كہ جو حضرت موسي(ع) كے وعدہ گاہ ميں آنے كے سلسلے ميں عجلت كرنے سے حاكى ہے _ اسى وعدے كے ساتھ مربوط ہے_

۲ _ وعدہ گاہ ميں پہنچنے كيلئے حضرت موسي(ع) اپنى قوم كے ہمراہ آنے پر مأمور _و ا عجلك عن قومك يا موسى

حضرت موسى (ع) سے خدا تعالى كا سوال _ بعد والى آيت ميں ان كے جواب كے قرينے سے _ توبيخى اور ملامت كے مقام ميں ہے اس سرزنش سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت موسي(ع) نے اپنى قوم كو چھوڑ كر اور ان سے جدا ہو كر ترك اولى كا ارتكاب كيا تھا اور انہيں چاہے تھا كہ اپنى قوم كے ہمراہ چلتے اور ان پر سبقت نہ كرتے_

۳ _ وعدہ گاہ ميں پہنچنے كيلئے حضرت موسي(ع) نے جلد سے كام ليا اور اپنى قوم پر سبقت كى _و ماا عجلك عن قومك يا موسى

۴ _ وعدہ گاہ پر پہنچنے ميں حضرت موسي(ع) كے قوم پر سبقت كرنے كى وجہ سے خدا تعالى نے ان سے بازپرس كي_

و ما ا عجلك عن قومك يا موسى

۵ _ كوہ طور پر آنے ميں عجلت سے كام لينے كے بارے ميں خدا تعالى كا حضرت موسي(ع) سے سوال كرنا خدا تعالى كى ان

۱۵۴

كے ساتھ پہلى گفتگو نہيں تھي_و ما ا عجلك ''و ما ا عجلك'' ميں ''واو''محذوف پر عطف كيلئے ہے يعنى حضرت موسي(ع) (ع) كے كوہ طور پر حاضر ہونے كے بعد بات يا باتيں ہوئيں اس وقت يہ سوال اٹھا يا گيا_

۶ _ انبياء الہى تمام مراحل اور پروگراموں ميں اپنى امت اور قوم كے ہمراہ رہنے پر مأمور ہيں _و ما ا عجلك عن قومك يا موسي(ع) وعدہ گاہ پر پہنچنے كيلئے حضرت موسي(ع) كے اپنى قوم سے جدا ہونے كى وجہ سے ان كا مؤاخذہ ہونا بتاتا ہے كہ يہ چيز ضرورى ہے كہ كسى بھى حالات ميں انبياء اپنى قوم سے جدا نہ ہوں _

۷ _ ضرورى ہے كہ انبيائ، خدا تعالى كے حكم كى بغير اپنى قوم سے جدا نہ ہوں _و ما ا عجلك عن قومك يا موسي(ع)

۸ _ ضرورى ہے كہ دينى راہنما تمام ميدانوں ميں لوگوں كے ساتھ ساتھ رہيں _و ما اعجلك عن قومك يا موسي(ع)

انبيائ(ع) :انكى ذمہ داري۶، ۷

بنى اسرائيل:وعدہ گاہ ميں ان كے نمائندے۱، ۲

خداتعالي:اسكى طرف سے سرزنش۴، ۵;اسكى موسي(ع) كے ساتھ گفتگو۵

دينى راہنما:انكى ذمہ داري۸

لوگ:ان كے ہمرا ہ رہنے كى اہميت ۶، ۷، ۸

موسي(ع) :انكى عجلت كے اثرات ۴; انكا عجلت سے كام لينا ۳، ۵;انكا قصہ ۱، ۲، ۳;انكا مؤاخذہ ۴، ۵; انكى ذمہ دارى ۲; يہ وعدہ گاہ ميں ۳، ۴

آیت ۸۴

( قَالَ هُمْ أُولَاء عَلَى أَثَرِي وَعَجِلْتُ إِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضَى )

موسى نے عرض كى كہ وہ سب ميرے پيچھے آرہے ہيں اور ميں نے راہ خير ميں اس لئے عجلت كى ہے كو تو خوش ہوجائے (۸۴)

۱ _حضرت موسي(ع) نے وعدہ گاہ پر آنے كے سلسلے ميں اپني قوم پر سبقت كرنے كى وجہ يہ قرار دى كہ انہيں اپنى قوم كے بارے ميں اطمينان تھا كہ وہ انكى پيروى كرے گى اور وعدہ گاہ تك كى مسافت طے كرے گي_قال هم ا ولا، على أثري ''أولا'' اسم اشارہ بعيد كيلئے ہے اور ''اثر'' كا معنى ہے ہر چيز كا باقى ماندہ علامت اس لئے پاؤں كے نشان كو بھى اثر

۱۵۵

كتے ہيں _ ''اثر''پيچھے چلنے اور اتباع كرنے كے معنى ميں بھى آتا ہے (مقابيس اللغة)چنانچہ آيت كريمہ كامعنى يہ بنے گا كہ يہ وہى جماعت ہے جو ميرے پاؤں كے نشان پر چلتے ہوئے وعدہ گاہ كى طرف رواں رواں ہے يا يہ كہ وہ ميرے پيچھے وعدہ گاہ كى طرف آر ہے ہيں _

۲ _ وعدہ گاہ ميں حضرت موسي(ع) اپنى قوم سے تھوڑا سا پہلے پہنچے_و ماا عجلك قال هم ا ولاء على أثري

حضرت موسي(ع) كى طرف سے ان كے ہمراہيوں كا مورد اشارہ قرار پانابتا تاہے كہ وہ حضرت موسي(ع) كى نظروں ميں تھے اور وعدہ گاہ ميں پہنچنے كيلئے انہيں زيادہ وقت نہيں چاہے تھا_ بنابراين وعدہ گاہ ميں حضرت موسي(ع) كے وارد ہونے اور انكى قوم كے وارد ہونے كے درميان زيادہ فاصلہ نہيں تھا_

۳ _ موسي(ع) كى قوم تھوڑے وقت كے بعد،حضرت موسي(ع) كے اور انكے پاؤں كے نشانات پر وعدہ گاہ كى طرف روا نہ ہوئي_و ما ائعجلك قال هم ا ولاء على ا ثري

۴ _ حضرت موسي(ع) طے شدہ وقت اور اپنى قوم سے پہلے وعدہ گاہ ميں پہنچنے كو خدا تعالى كى رضا حاصل كرنے كا سبب سمجھتے تھے_و ما ا عجلك و عجلت إليك رب لترضي

۵ _ حضرت موسي(ع) كو اپنے پروردگار كى ملاقات، اسكے ساتھ گفتگو اور اسكى رضا كو حاصل كرنے كا شوق انكے وعدہ گاہ كى طرف آنے ميں عجلت كرنے كا سبب بنا_و عجلت إليك رب لترضي

۶ _ كار خير ميں جلدى كرنے اور وعدے كى وفا ميں عجلت سے كام لينا خدا تعالى كى رضا كے حاصل كرنے كا سبب ہے_

و ما ا عجلك وعجلت إليك رب لترضي اگر چہ اپنى قوم سے جدا ہونے كى وجہ سے خدا تعالى نے حضرت موسي(ع) سے بازپرس كى ليكن اس جلدى سے ان كے ہدف پر تنقيد نہيں كى گئي اس كا مطلب يہ ے كہ وعدے كى و فا ميں جلدى كرنا اور وعدہ گاہ ميں حاضر ہوجانا بذات مطلوب كام تھا_

۷ _ عبادت،خدا تعالى كى رضا كو حاصل كرنے كا ذريعہ ہے_عجلت إليك رب لترضي

۸ _ ہر كام كى خوبى اسكے نيت خير كے ساتھ انجام پانے كے علاوہ خدا تعالى كے ديگر احكام اور خواہشات كے ساتھ ہم آہنگ ہونے ميں مخفى ہے _و ما ا عجلك و عجلت إليك رب لترضي با وجود اس كے كہ حضرت موسي(ع) جلدى كرنے ميں نيت خير ركھتے تھے ليكن ان سے بازپرس ہونا اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ عمل كى بلندى كيلئے

۱۵۶

صرف نيت خير ركھنا كافى نہيں ہے بلكہ ضرورى ہے كہ اس عمل كا ديگر دليلوں كے ساتھ موازنہ كيا جائے اگر ان كے كا منافى نہ ہو تو اس كا احترام كيا جائے_

۹ _ انبياء (ع) خدا تعالى كى رضا كے موارد كى تشخيص كيلئے خدا تعالى كى ہدايت اوررہنمائي كے محتاج ہيں _و ما ا عجلك عجلت إليك رب لترضي

۱۰ _ خداتعالى كى ربوبيت كا تقاضا ہے نيت خير ركھنے والوں اور كار خير ميں سبقت كرنے والوں كو جزا دى جائے_

و عجلت إليك رب لترضي

۱۱ _ سفر كے دوران ہم سفروں كے ہمراہ رہنا اور راستے ميں ان سے جدا نہ ہوناسفر كے آداب ميں سے ہے_

و ما ا عجلك قال هم ا ولاء على أثري

انبياء(ع) :انكى معنوى ضروريات۹; انكى ہدايت۹

بنى اسرائيل:وعدہ گاہ ميں ان كے نمائندے ۱، ۲، ۳

شرعى فريضہ:اس پر عمل ۸

خداتعالي:اسكى ربوبيت كے اثرات ۱۱; اسكى رضا كى تشخيص كا پيش خيمہ ۹; اسكى رضا كا پيش خيمہ۴، ۶، ۷; اسكى موسي(ع) كے ساتھ گفتگو۵

عبادت:اسكے اثرات۷

عمل:عمل خير ميں پيش قدمى كے اثرات ۶_ عمل خير ميں پيش قدمى كرنے والوں كى جزا ۱۱;عمل خير كى جزا كا پيش خيمہ ۱۱; عمل خير كى شرائط۸; عمل خير ميں نيت۸

سفر:اسكے آداب۱۲

موسي(ع) :انكى سوچ۴; انكى پيروي۱; انكى عجلت ۱، ۲، ۴; انكے تمايلات ۵; انكى عجلت كے عوامل ۵; انكا قصہ، ۲، ۳، ۵; انكى خدا كے ساتھ ملاقات ۵; آپ وعدہ گاہ ميں ۱، ۲، ۳، ۴، ۵

ضروريات:خداتعالى كى ہدايت كى ضرورت۹

نيت:اسكے اثرات۸//وعدہ:اسكى وفا ميں جلدى كرنے كے اثرات ۶

ہم سفر:انكے ہمراہ رہنا ۱۲

۱۵۷

آیت ۸۵

( قَالَ فَإِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِن بَعْدِكَ وَأَضَلَّهُمُ السَّامِرِيُّ )

ارشاد ہوا كہ ہم نے تمھارے بعد تمھارى قوم كا امتحان ليا اور سامرى نے انھيں گمراہ كرديا ہے (۸۵)

۱ _ حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں بنى اسرائيل كو آزمائش الہى كا سامنا _فإنا قد فتنا قومك من بعدك

''من بعدك'' يعنى (اے موسي(ع) ) بعد اسكے كہ تو اپنى قوم سے جدا ہوا اور ان كى نظروں سے غائب ہوا _ قابل ذكر ہے كہ ''فتنہ'' در اصل اس سونے اور چاندى كے بارے ميں استعمال ہوتا ہے جسے آگ كے ساتھ پگھلا كر اچھے اور برے كو جدا كر ليا گيا ہو_ (مصباح) اور آيت كريمہ ميں اس سے مراد آزمائش ہے كہ جو اچھے اور برے انسانوں كى تشخيص كا ذريعہ ہے_

۲ _ حضرت موسي(ع) ،وعدہ گاہ ميں اور وحى كے ذريعے اپنى عدم موجود گى ميں بنى اسرائيل كى آزمائش اور ان كے گمراہ ہونے سے آگاہ ہوئے_و عجلت إليك فإنا قد فتنا قومك من بعدك

۳ _ حقائق كے بارے ميں حضرت موسي(ع) كے علم كا محدود ہونا_فإنا قد فتنا قومك

۴ _ سامرى حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں بنى اسرائيل كى گمراہى كا سبب بنا_و ا ضلهم السامري

''سامري'' ايك شخص كا نام ہے جو بنى اسرائيل سے تھا اور انكى گمراہى كا سبب بنا _

۵ _ معاشرے ميں الہى پيشوا كا وجود، انحراف سے بچانے كيلئے بنيادى كردار كا حامل ہوتاہے_فانا قد فتنا قومك من بعدك واضلهم السامري

''من بعدك'' بتاتاہے كہ حضرت موسي(ع) كے اپنى قوم كے درميان نہ ہونے سے اس گمراہى كے مقدمات كا آغاز ہوا_

۶ _ ہر معاشرے كے برجستہ افراد اور شخصيات اس كى تاريخ اور اجتماعى وقائع ميں مؤثر كردار كے حامل ہوتے ہيں _

من بعدك

۱۵۸

۷ _ انبياء كى امتيں اپنے رہبروں كى عدم موجودگى كى صورت ميں آزمائش الہى سے دوچار _فإنا قد فتنا قومك من بعدك

حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں بنى اسرائيل كے آزمائے جانے كى خبر كے ذريعے تمام امتوں كو خبردار كيا جا رہا ہے كہ اپنے پيشواؤں كے كى عدم موجودگي(انكى موت يا عدم موجودگي)كے زمانے ميں كافى حد تك ہوشيار رہيں تا كہ آزمائشوں سے سربلندى كے ساتھ نكل سكيں _

۸ _ خاص اوقات ميں امتوں كيلئے امداد الہى كا مطلب يہ نہيں ہے كہ وہ بعد والے مراحل ميں آزمائشوں سے معاف ہيں _

قد ا نجيناكم فإنا قد فتنا قومك من بعدك

۹ _ حضرت موسي(ع) كے عوام سے جدا ہونے اور ان سے سبقت لينے كے سلسلے ميں خدا تعالى كا ان پر اعتراض آپ كى عدم موجودگى ميں ان كے درميان انحراف پيدا ہونے كى وجہ سے تھا_و ما ا عجلك فإنا قد فتنا قومك من بعدك

۱۰ _ گمراہى كے عوامل، خداتعالى كى طرف سے لوگوں كى آزمائش كے ذرائع اور اسكى قدرت كے سامنے مجبور رہيں _

فتنا و ا ضلهم السامري با وجود اس كے كہ سامرى كا گمراہ كرنا خود اسكى طرف منسوب ہے ليكن اسے آزمائش الہى كا مصداق قرار ديا گيا ہے اس كا مطلب يہ ہے كہ خدا تعالى اسكے كام پر تسلط ركھتا تھا ليكن اس نے اسے اپنى مرضى سے آزاد چھوڑا_

۱۱ _ بنى اسرائيل كا مرتد ہونا اور ان كے درميان بچھڑا پرستى كا وجود ميں آنا ان كے دريا سے عبور كرنے كے بعد تھا_

يا بنى إسرائيل قد ا نجيناكم من عدوّكم فتنا قومك من بعدك

آزمائش:اس كا ذريعہ۱۰

امتيں :انكى آزمائش۸ _انكى امداد۸_ انكى آزمائش كا پيش خيمہ۷_ انكى گمراہى كا پيش خيمہ۷_ انكى گمراہي۸

معاشرتى انحرافات:انكے موانع۵

بنى اسرائيل:اس كا مرتد ہونا۱۱; اسكى آزمائش۱، ۲;يہ موسي(ع) كى غيبت ميں ۱، ۲، ۴، ۹; اسكى تاريخ ۱، ۲، ۴، ۱۱;اس كى گمراہى كا پيش خيمہ۹;سكى گمراہى كے عوامل۴; اسكى گمراہى ۲;اسكى بچھڑا پرستي۱۱

تاريخ:اسكے تحولات ميں مؤثر عوامل۶

معاشرتى تحولات:اس ميں مؤثر عوامل ۶

خداتعالي:اسكى آزمائش۱، ۱۰; اسكى امداد ۸;اسكى طرف سے سرزنش ۹;اسكى قدرت۱۰

۱۵۹

رہبر:انكا نقش و كردار۶

دينى راہنما:انكا معاشرتى كردار۵;انكانقش و كردار۷

سامري:اس كا گمراہ كرنا ۴

گمراہي:اس كے عوامل كا كردار۱۰

موسي(ع) :انكى عجلت۹;ان كے مؤاخذے كا فلسفہ۹; انكا قصہ ۲، ۴، ۹; ان كے علم كا ائرہ ۳; انكى طرف وحى ۲

وحي:اس كا كردار۲

آیت ۸۶

( فَرَجَعَ مُوسَى إِلَى قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفاً قَالَ يَا قَوْمِ أَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْداً حَسَناً أَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ أَمْ أَرَدتُّمْ أَن يَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌ مِّن رَّبِّكُمْ فَأَخْلَفْتُم مَّوْعِدِي )

يہ سن كر موسى اپنى قوم كى طرف محزون اور غصہ ميں بھرے ہوئے پلٹے اور كہا كہ اے قوم كيا تمھارے رب نے تم سے بہترين وعدہ نہيں كيا تھا اور كيا اس عہد ميں كچھ زيادہ طول ہوگيا ہے ياتم نے يہى چاہا كہ تم پر پروردگار كا غضب وارد ہوجائے اس لئے تم نے ميرے وعدہ كى مخالفت كى (۸۶)

۱ _ حضرت موسي(ع) بنى اسرائيل كى گمراہى سے آگاہ ہونے كے بعد، شديد غم و غصے كے ساتھ ان كى طرف واپس پلٹے_

و ا ضلهم السامرى فرجع موسى إلى قومه غضبانا ا سف

اس سلسلے ميں قران كى ديگر آيات نيزخود ان آيات ميں موجود قرائن كو مد نظر ركھتے ہوئے ايسے لگتا ہے كہ بنى اسرائيل كا سامرى كے ذريعے گمراہ ہونا حضرت موسي(ع) كے چاليس دن كے ميقات كے دوران ہوا اور حضرت موسي(ع) كا اپنى قوم كى طرف لوٹنا بھى اس ميقات كے مكمل ہونے كے بعد تھا بعض اہل لغت كے بقول''غضبان'' اس شخص كو كہا جاتا ہے جو شديد غضب ميں ہو اور ''ا سف''اس غصے والے شخص كو كہا جاتا ہے جس كو كسى چيز پر افسوس ہو (لسان العرب)

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303