اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

اسلام کے عقائد(دوسری جلد )25%

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 122564 / ڈاؤنلوڈ: 4697
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(دوسری جلد )

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

فقال لا هله إمكثوا ...لعلى ء اتيكم منها بقبس

۸ _ آگ كا ظاہر ہونا اور حضرت موسى (ع) كو رسالت عطا كرنے كيلئے خلوت كا فراہم ہونا ايك اہم اور پيغمبر اكرم(ص) كيلئے قابل توجہ واقعہ تھا _هل ا تى ك حديث موسى إذ رء ا نارا

''إذ'' ظرف ہے ''حديث'' كيلئے جو سابقہ آيت ميں تھا اور اس آيت كريمہ ميں استفہام پيغمبر اكرم(ص) كو اس ماجرا كى طرف توجہ كى ترغيب دلانے كيلئے ہے_

۹ _ فطرى اور قدرتى امور انبياء كو رسالت عطا كرنے كے بارے ميں خداتعالى كے ارادے كے عملى ہونے كيلئے تجلى گاہ ہيں _

قدرتى مقدمات ( راستہ گم كردينا ، آگ كى ضرورت كا احساس اور ...) فراہم كركے حضرت موسى كو كوہ طور پر كھينچ لانا _ جيسا كہ بعد والى آيات سے معلوم ہوتاہے مذكورہ نكتے كو بيان كررہاہے)إذ رء اناراً لعلى ء اتيكم منها بقبس

انبياء:انكى نبوت كا سرچشمہ ۹

گھرانہ:اسكى ضروريات پورى كرنا ۷

خداتعالى :اسكے ارادے كى تجلى گاہ ۹

عمل:پسنديدہ عمل ۷

قدرتى عوامل:انكا كردار ۹

كوہ طور:اسكى آگ ۳، ۴، ۵، ۶_اسكى آگ كى اہميت ۸

محمد(ص) :آپ(ص) اور حضرت موسى كا قصہ ۸

موسى (ع) :انكے قصے كى اہميت ۸; انكى بشارتيں ۳; انكے گھر والے ۴، ۶; انكے گھروالوں كى سرگردانى ۱; انكى سرگردانى ۱ ، ۳; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵; انكے گھروالوں كا رات كا سفر ۱; ۱نكا رات كا سفر۱; آپ وادى طوى ميں ۳، ۴; آپ كوہ طور ميں ۵; آپكے ہم سفر ۳،۴

۲۱

آیت ۱۱

( فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِي يَا مُوسَى )

پھر جب موسى اس آگ كے قريب آئے تو آواز دى گئي كہ اے موسى (۱۱)

۱ _ حضرت موسى (ع) نے آگ ديكھنے كے بعد اپنے گھر والوں سے جدا ہوكر آگ كى طرف حركت كى _

رء ا نار اً فلما ا تيه

۲ _ جس آگ كا حضرت موسى نے مشاہدہ كيا تھا وہ واقعى چيز تھى اور حضرت موسى نے اپنے آپ كو اس تك پنہچايا _

فلما ا تيه

۳ _ حضرت موسى (ع) جب آگ كے قريب پہنچے تو آپ نے ايك آواز سنى كہ جس ميں حضرت موسى (ع) كو نام كے ساتھ پكارا جارہا تھا_فلما اتيها نودى يا موسى

۴ _ ''يا موسى ''كى صدا اچانك تھى اور جو نہى حضرت موسى (ع) وہاں پہنچے فوراً انہيں اسكے ساتھ مخاطب كيا گيا_

فلما ا تيها نودى يا موسى

۵ _ حضرت موسى (ع) نے ''يا موسى '' كى آواز دينے والے كو نہ پہچانا _نودى يا موسى

''نودي''كا مجہول آنا اور بعد والى آيت ميں جملہ ''فإنى ا نا ربك'' بتاتا ہے كہ حضرت موسى نے آواز سننے كے بعد پہلے مرحلے ميں اس آواز دينے والے كو نہ پہچانا _

كوہ طور:اسكى آگ ۱; اسكى آگ كى حقيقت ۲

موسى (ع) :انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵; انكو ندادينے والا ۵; آپ كوہ طور ميں ۲، ۳، ۴; آپ كو ندا ۳، ۴

۲۲

آیت ۱۲

( إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى )

ميں تمھارا پروردگار ہوں لہذا اپنى جوتيوں كو اتار دو كہ تم طوى نام كى ايك مقدس اور پاكيزہ وادى ميں ہو (۱۲)

۱ _ صحرائے سينا ميں واقع وادى طوى ميں خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كے ساتھ بات كى _

ى موسى إنى ا نا ربك إنك بالواد المقدس طويً

''واد'' وادى كا مخفف ہے يعنى پہاڑوں كے درميان كى وہ جگہ كہ جہاں سے سيلاب گزرتا ہے ( مصباح) ''طوي'' ممكن ہے كوہ طور كے نيچے والے درے كا نام ہو ( لسان العرب) اس صورت ميں يہ ( الواد المقدس) كيلئے عطف بيان يا بدل ہوگا اور ممكن ہے يہ گھڑى اور لخطے كے معنى ميں ہو(لسان العرب) تو اس صورت ميں يہ ظرف ہوگا '' المقدس'' كيلئے يعنى وہ درّہ كہ جو كچھ وقت (اشارہ ہے خداتعالى كے حضرت موسى كے ساتھ ہم كلام ہونے كے لحظے كى طرف)كيلئے مقدس ہوگيا ہے _

۲ _ خداتعالى نے موسى كے ساتھ مخاطب ہوتے ہوئے انہيں اپنا تعارف كرايا او رسمجھايا كہ تو اپنے پروردگار كے حضور ميں ہے اوراسكى كلام سن رہا ہے _ياموسى إنى ا ناربك

۳ _ وادى طوى ميں خداتعالى كا موسى (ع) كے ساتھ ہم كلام ہونا خداتعالى كى حضرت موسى (ع) كى نسبت ربوبيت كا ايك جلوہ تھا _ياموسى إنى ا نا ربك

۴ _ خداتعالى نے موسى (ع) كو حكم ديا كہ اپنے پروردگار كے حضور كے احترام ميں اپنے جوتے اتاركر مقدس وادى ميں ننگے پاؤں قدم ركھے _فاخلع نعليك انك بالواد المقدس طويً

۵ _ پروردگار كے حضور ميں اور اسكے كلام كو سنتے وقت ادب و احترام كا خيال ركھنا ضرورى ہے _

إنى ا نا ربك فاخلع نعليك

''فاخلع'' كى ''إنى ا ناربك'' پر تفريع بتاتى ہے كہ خداتعالى كے ساتھ بات كرتے وقت مكمل طور پر ادب كا خيال ركھنا ضرورى ہے_ اور چونكہ جب بھى خداتعالى انسان كے ساتھ بات كرتا ہے اس ميں كوئي نہ كوئي واسطہ ہوتا ہے اسلئے كہا جاسكتا ہے كہ قرآن اور ديگر كلمات الہى كى تلاوت كے وقت بھى ادب كى مكمل طور پر رعايت كرنا ضرورى ہے_مقدس مقامات كى حرمت كى حفاظت اور ان كا احترام كرنا ضرورى ہے،جملہ''انك بالواد ...'' ''فاخلع''كى علت بيان كرنے كيلئے ہے اور جس حكم كى علت واضح ہو اسے اس جيسے ديگر موارد ميں بھى اجرا كرنا ضرورى ہوتا ہے_

۲۳

۶ _مقدس مقامات كى حفاظت اور ان كا احترام كرنا ضرورى ہے_فاخلع نعليك إنك بالواد المقدس طويً

جملہ''إنك بالواد ...''،''فاخلع''كے لئے علت ہے اور پروہ حكم كہ جس كى علت ظاہر ہو دوسرے مشابہ مقامات پربھى لگايا جاتا ہے_

۷ _ جوتے اتاركر پابرہنہ ہوجانا مقدس مقامات كے احترام كاسب سے زيادہ واضح نمونہ ہے _فاخلع نعليكإنك بالواد المقدس طويً

۸ _ كوہ طور كے پاس واقع وادى طوى پاك و پاكيزہ اور لائق احترام سرزمين ہے _إنك بالواد المقدس طويً سرزمين مقدس يعنى وہ سرزمين جو طہارت معنوى ركھتى ہو (مفردات راغب)

۹ _ (كوہ طور سے نيچے ) سرزمين طوى ميں جوتوں كے ساتھ داخل ہونا، جائز نہيں ہے _فاخلع نعليكإنك بالواد المقدس طويً ''اخلع'' كے حكم كى''إنك بالواد المقدس'' كے ذريعے علت بيان كرنا بتاتا ہے كہ يہ حكم سب زمانوں ميں سب انسانوں كيلئے ہے_

۱۰ _ جن مقامات ميں خداتعالى اپنے انبياء اور اپنے بندوں كے ساتھ ہم كلام ہوتا ہے وہ پاك و پاكيزہ مقدس اور لائق احترام جگہيں ہيں _ياموسى إنيّ ا ناربك إنك بالواد المقدس طويً اگر چہ آيت كريمہ ميں وادى طوى كے تقدس كى دليل نہيں آئي ليكن مجموعى طور پر آيت كريمہ خداتعالى كے تكلم اور اس سرزمين كے تقدس كے ارتباط كو بيان كررہى ہے _ چا ہے پہلے سے اس كا مقدس ہونا بات كرنے كيلئے اس كے انتخاب كا سبب بنا ہو يا خداتعالى كا بات كرنا اسكے مقدس ہونے كا سبب بنا ہو _

۱۱ _''عن ا بى عبدالله (ع) قال: قال الله عزوجل لموسى (ع) '' فاخلع نعليك'' لا نّها كانت من جلد حمار ميت ; امام صادق(ع) سے روايت ہے كہ خداتعالى نے موسى (ع) كو فرمايا ''فاخلع نعليك'' كيونكہ انكے جوتے گدھے كے مردار كى كھال كے بنے ہوئے تھے_(۱)

____________________

۱ ) علل الشرائع ص ۶۶ ب ۵۵ ح ۱، بحارالانوار ج ۱۳ ص ۶۴ ح ۱ _

۲۴

۱۲ _'' عن الصادق جعفر بن محمد (ع) إنّه قال: فى قول الله عزوجل لموسي(ع) ''فاخلع نعليك'' قال: يعنى إدفع خوفيك، يعنى خوفه من ضياع ا هله و قد خلفها تمخض،و خوفه من فرعون'' خداتعالى نے حضرت موسى كو جو فرمايا تھا ''فاخلع نعليك'' اسكے بارے ميں امام صادق(ع) سے روايت ہے كہ آپ نے فرمايا يعنى اپنے آپ سے دو خوف دور كردے اپنى بيوى كے فوت ہوجانے كا خوف كہ جسے بچہ پيدا كرنے كى حالت ميں چھوڑ كر آئے تھے اور فرعون كا خوف _(۱)

مقدس مقامات:انكا احترام ۶، ۷; ان ميں جوتے اتارنا ۷

خداتعالى :اس كا كلام سننے ميں ادب ۵; اسكے اوامر ۴; اسكے انبياء كے ساتھ ہم كلام ہونے كى جگہ كا پاكيزہ ہونا ۱۰; اسكے انبياء كے ساتھ ہم كلام ہونے كى جگہ كا تقدس ۱۰; اسكى موسى كے ساتھ گفتگو ۲، ۳; اسكى موسى كے ساتھ گفتگو كى جگہ ۱; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۳

وادى طوي:اس كا احترام ۸، ۹; اسكى پاكيزگى ۸; اس كا تقدس ۸; اسكى فضيلت ۱; اس ميں جوتے اتارنا ۹; اسكى جغرافيائي موقعيت ۸

روايت : ۱۱، ۱۲

موسى (ع) :انكو حكم ۴; انكا خوف ۱۲; انكى شرعى ذمہ دارى ۴; انكے جوتوں كى نوعيت ۱۱; ان كا قصہ ۱، ۲، ۴; انكا تربيت كرنے والا ۳; آپ وادى طوى ميں ۳; آپ خدا كے حضور ميں ۲، ۴; آپ كے جوتے ۴

آیت ۱۳

( وَأَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوحَى )

اور ہم نے كو منتخب كرليا ہے لہذا جو وحى كى جارہى ہے اسے غور سے سنو (۱۳)

۱ _ خداتعالى نے موسى (ع) كو اپنے پيغمبر كے طور پر چن ليا اور وادى طوى ميں انہيں رسالت كيلئے منتخب ہونے

____________________

۱ ) علل الشرائع ص۶۶ ب ۵۵ ح ۲_ بحارالانوار ج ۱۳ ص ۶۴ ح ۲ _

۲۵

سے مطلع فرمايا _و ا نا ا خترتك فاستمع لما يوحى ''لما يوحى '' كے قرينے سے موسى (ع) كے منتخب ہونے سے مراد انكا پيغمبرى اور وحى الہى كا بوجھ اٹھانے كيلئے منتخب ہونا ہے _

۲ _ موسى (ع) خداتعالى كے برگزيدہ اور اپنے زمانے ميں وحى كے حاصل كرنے اور پيغام الہى كے پہچانے كيلئے بہترين شخص تھے _و ا نا ا خترتك ''اختيار'' مادہ ''خير'' سے ہے اور اس كا معنى ''اصطفائ'' ( ہر چيز ميں سے خالص كو اٹھالينا) ہے ( لسان العرب)

۳ _ انبياخداتعالى كى برگزيدہ ہستياں ہيں _و ا نا ا خترتك فاستمع لما يوحى

۴ _ خداتعالى نے موسى (ع) كو رسالت كيلئے انتخاب كرنے كے بعد انہيں وحى كو دريافت كرنے اور اسے غور سے سننے كا حكم ديا _و ا نا ا خترتك فاستمع لما يوحى

۵ _ ( كوہ طور كے نيچے ) وادى طوى ميں خداتعالى كا حضرت موسى (ع) كے ساتھ بات كرنا،وحى كى صورت ميں تھا _

فاستمع لما يوحى

بعد والى آيت كريمہ ميں جملہ''إننى ا نا الله ''، ''ما يوحي'' كيلئے بدل ہے پس كوہ طور كے نيچے جو كچھ حضرت موسى سے كہا گيا تھا وہ وحى تھى _

۶ _ كلام الہى كو سنتے وقت اس پر كان لگانا ضرورى ہے _فاستمع لما يوحى

اگر چہ مخاطب حضرت موسى (ع) ہيں ليكن خداتعالى نے انہيں وحى كا سامنا كرتے وقت جو آداب سكھائے انہيں قرآن ميں بيان فرمايا ہے تا كہ سب كيلئے مفيد ہوں _

انبياء:انكا برگزيدہ ہونا ۳

خدا كے برگزيدہ بندے: ۳خداتعالى :اسكے اوامر ۴; اسكى حضرت موسى كے ساتھ گفتگو ۵_

موسى (ع) :انكا برگزيدہ ہونا ۱، ۲، ۴; انكى شرعى ذمہ دارى ۴; انكى معاشرتى شخصيت ۲; انكا مقام ۱، ۲، ۴; آپ وادى طوى ميں ۱، ۵; آپكى نبوت ۱، ۴، ۵; آپ كى طرف وحى ۵

وحى :اسے كان لگا سننا ۴; اسے كان لگا كر سننے كى اہميت۶

۲۶

آیت ۱۴

( إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي )

ميں اللہ ہوں ميرے علاوہ كوئي خدا نہيں ہے ميرى عبادت كرو اور ميرى ياد كے لئے نماز قائم كرو (۱۴)

۱ _ خداتعالى كا يكتا ہونا اور اسكے علاوہ كسى معبود كا حقيقت نہ ركھنا وادى طوى ميں خدا كى طرف سے موسى (ع) كو وحى كا مركزى عنوان _إننى ا نا الله لا إله إلا ا نا

۲ _ ( كوہ طور كے نيچے ) وادى طوى ميں خداتعالى نے موسى (ع) كو سمجھايا كہ اسے الله تعالى مخاطب كررہا ہے اور وہ خدا كا كلام سن رہا ہے_إنّنى ا نا الله

۳ _ گفتگو كے آغاز ميں مخاطب كو اپنا تعارف كرانا دوسروں كے ساتھ ہم كلام ہونے اور بات كرنے كے آداب ميں سے ہے _ياموسى ...إنّنى ا نا الله

خداتعالى نے ''يا موسى ''(ع) كى آواز كے ساتھ انہيں سمجھايا كہ مجھے تيرے نام كا علم ہے پھر موسى (ع) كے ساتھ سخن كے آغاز ميں اسے اپنا تعارف كرايا تاكہ طرفين كى شناخت كے ساتھ گفتگو كا سلسلہ آگے بڑھے _

۴ _ خدا كے علاوہ كسى معبود كى كوئي حقيقت نہيں اور نہ كوئي لائق عبادت ہے _إننى ا نا الله لا إله إلا ا نا

''إلہ'' كا معنى ہے معبود اور آيت كريمہ ميں اس سے مراد ''معبود حق'' ہے كيونكہ باطل معبودوں كا وجود قابل انكار نہيں ہے _

۵ _ موسى (ع) اپنى نبوت اور وحى حاصل كرنے سے پہلے بھى خداتعالى كى معرفت ركھتے تھے اور اسكى ربوبيت كو مانتے تھے _إنى ا نا ربك إنّنى ا نا الله لا إله إلا ا نا

يہ دو جملے '' إنى ا نا ربك'' اور ''إنّنى ا نا الله '' بتارہے ہيں كہ موسى (ع) پہلے سے ہى ان ناموں

۲۷

كو پہچانتے تھے اور ان كا اعتقاد ركھتے تھے اور كوہ طور ميں انہوں نے ''ربّ'' اور ''الله '' كو صاحب آواز پر منطبق كيا _

۶ _ خداتعالى كى عبادت كے ضرورى ہونے اور غير خدا كى پرستش سے پرہيز كى تاكيد، حضرت موسى (ع) كى نبوت كے آغاز ميں خدا كى طرف سے انہيں پہلى نصيحت_لا إله إلا ا نا فاعبدني

۷ _ لوگوں كو خداتعالى اور اسكى وحدانيت سے آشنا كرانا انہيں خدا كى عبادت كى دعوت دينے كا پيش خيمہ ہے _

إننى ا نا الله لا إله إلا ا نا فاعبدني ''فاعبدني'' ميں ''فائ'' سابقہ جملہ پر تفريع كيلئے ہے كہ جس ميں خداتعالى اور اسكى وحدانيت كا تعارف كرايا گيا ہے _

۸ _ مخلصانہ عبادت خداتعالى كے حضور ميں سب سے بڑا فريضہ ہے حتى كہ انبياء كيلئے بھى _إننى ا نا الله لا إله إلاا نا فاعبدني

۹ _ خداتعالى كا يكتا ہونا ( توحيد ذاتي) اسكے لئے مخلصانہ عبادت كو مختص كرنے( توحيد عبادي) كے ضرورى ہونے كى دليل ہے _إننى ا نا الله لا إله إلا ا نا فاعبدني

۱۰ _ نماز كى پابندى اور اسے قائم كرنے كا حكم وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) كو ديئے گئے پہلے عملى پروگراموں ميں سے تھا _ا قم الصلوة ''اقامہ نماز'' ( نماز قائم كرنا ) اسكى پابندى كے ساتھ ہے_

۱۱ _ نماز قائم كرنا خداتعالى كے حضور ميں عبوديت كا سب سے واضح جلوہ ہے _فاعبدنى و ا قم الصلوة

۱۲ _ نماز ديگر سب عبادتوں سے زيادہ اہم ہے _فاعبدنى و ا قم الصلوة

سب عبادات ميں سے صرف نماز كا ذكر كرنا ديگر عبادات كے مقابلے ميں اس عمل كے خاص مرتبے اور برتر ہونے كو بيان كرتا ہے _

۱۳ _ دين موسى (ع) ميں نماز تشريع ہوچكى تھى _و ا قم الصلوة

۱۴ _ خداتعالى كى طرف توجہ اور اسكى ياد ميں ہونا نماز كے اہداف اور ثمرات ميں سے ہے _و ا قم الصلوة لذكري

۱۵ _ نماز ميں ذكر خدا كا ہونا خداتعالى كى طرف سے اسے قائم كرنے كى نصيحت اورشوق دلانے كا سبب ہے _

ا قم الصلوة لذكري ''لذكري'' ممكن ہے نماز كے نتيجے كو بيان كررہا ہو كہ نماز دلوں ميں يادخدا كو زندہ كرتى ہے اور ممكن

۲۸

ہے اس سے مراد نماز كا اذكار الہى پر مشتمل ہونا ہو يعنى نماز قائم كرنا اسلئے واجب ہے كہ اس ميں ذكر خدا ہے _

۱۶ _ ضرورى ہے كہ نماز اور ديگر عبادتيں مخلصانہ اور صرف ياد خدا كيلئے ہوں _فاعبدنى و ا قم الصلوة لذكري

''لذكري'' ميں ''ذكر'' كا ياء متكلم كے ساتھ مختص ہونا مذكورہ نكتے كو بيان كررہا ہے يعنى ''لذكرى لا لذكر غيري'' _

۱۷ _ خداتعالى كى ياد اور اسكى طرف توجہ تمام عبادات كا مشتركہ فلسفہ ہے _فاعبدنى و ا قم الصلوة لذكري

جس طرح ''لذكري'' ''ا قم الصلوة'' كى علت كو بيان كررہا ہے ہوسكتا ہے ''فاعبدنى '' كى علت كا بيان بھى ہو _

۱۸ _ ضرورى ہے كہ ہميشہ خدا كى ياد ميں رہيں اور اسكے ذكر سے غافل نہ ہوں _لذكري

۱۹ _''عن ا بى جعفر(ع) قال: إذا فاتتك صلاة فذكرتها فى وقت ا خرى فإن كنت تعلم ا نّك إذا صليت التى فاتتك كنت من الا خرى فى وقت فابدا بالتى فاتتك فإن الله عزوجل يقول: ا قم الصلاة لذكري'' ; امام باقر(ع) سے روايت ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا: جب بھى تجھ سے كوئي نماز چھوٹ جائے اور دوسرى نماز كے وقت ميں ياد آئے تو اگر تجھے معلوم ہو كہ نماز قضا كے انجام دينے كے بعد واجب نماز كو اس كے وقت ميں بجالانے كى فرصت بچ جائيگى تو پہلے قضا نماز كو انجام دے كيونكہ خداتعالى نے فرماياہے'' ا قم الصلوة لذكري'' ( اس فقہى نكتے كا استفادہ اس چيز كے پيش نظر ہے كہ '' لذكري'' كا لام ''توقيت'' كيلئے ہو كہ جس كے نتيجے ميں آيت كا معنى يہ ہوگا '' ا قم الصلوة وقت تذكيرى إيّاك'') ( يعنى نماز قائم كر جس وقت تجھے اسكى ياد دلا دوں مترجم) _

انبياء :انكى شرعى ذمہ دارى ۸

شرعى ذمہ داري:سب سے اہم شرعى ذمہ دارى ۸

توحيد:توحيد ذاتى كے اثرات ۹; توحيد كى اہميت ۱; توحيد عبادى كى اہميت ۶، ۱۶; توحيد كى طرف دعوت كى اہميت ۷; توحيد عبادى ۴; توحيد عبادى كى علل ۹

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۴

خداتعالى :

۲۹

اسكے اوامر ۶; خداشناسى كى دعوت كى اہميت ۷; اسكى نصيحت ۱۵; اسكى موسى كے ساتھ گفتگو ۲

ياد :ياد خدا كى اہميت ۱۴، ۱۷، ۱۸; نماز ميں ياد خدا ۱۵

روايت :۹۱

سخن:اسكے آداب ۳

شرك:اس سے اجتناب كى اہميت ۶

عبادت:اس ميں خلوص ۱۶; اس ميں خلوص كى اہميت ۸; عبادت خدا كا پيش خيمہ ۷; عبادات كا فلسفہ ۱۷

عبوديت:اسكى نشانياں ۱۱

معاشرت:اسكے آداب ۳

موسى (ع) :انكى شرعى ذمہ دارى ۶; انكى خداشناسى ۵; آپ وادى طوى ميں ۱، ۲; آپ نبوت سے پہلے ۵; انكى طرف وحى ۱، ۱۰

نماز:اسكے احكام ۱۹; اس ميں خلوص ۱۶; اسے قائم كرنے كى اہميت ۱۰، ۱۱ ; اسكى اہميت ۱۲; اسكى نصيحت ۱۵; اس كا فلسفہ ۱۴، ۱۵; يہ آسمانى اديان ميں ۱; يہ يہوديت ميں ۱۳; نماز قضا كا وقت ۱۹

وحى :اسكى تعليمات ۱

آیت ۱۵

( إِنَّ السَّاعَةَ ءاَتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَى )

يقينا وہ قيامت آنے والى ہے اور ميں اسے چھپائے رہوں گا تا كہ ہر نس كو اس كى كوشش كا بدلہ ديا جاسكے (۱۵)

۱ _ قيامت كا آنا حتمى ہے _إن السّاعة ء اتية

۳۰

۲ _ ''ساعة '' قيامت كا ايك نام ہے _إن السّاعة ء اتية

''ساعة'' يعنى وقت كا ايك حصہ بہت سارى آيات ميں قيامت كو ''ساعة '' سے تعبير كيا گيا ہے اور يہ قيامت كے مشہور ناموں ميں سے ايك نام بن گيا ہے _

قيامت كو يہ نام يا تو اسلئے ديا گيا ہے كہ سارى مخلوقات ايك وقت ميں محشور ہوں گى اور يا اسلئے كہ اسكے برپا ہونے كا وقت ايك مختصر لحظہ ہے _( لسان العرب سے اقتباس)

۳ _ قيامت پر ايمان دين موسى كے اہم ترين اعتقادى اركان ميں سے ہے _نودى يا موسى إن السّاعة ء اتية

۴ _ قيامت اور اسكى خصوصيات سے مطلع ہونے كا ذريعہ صرف خداتعالى كى طرف سے آئي ہوئي معلومات ہيں _

ا كاد ا خفيه ''ا خفيہا'' كا خداتعالى كى طرف اسناد بتاتا ہے كہ اگر اس نے قيامت كے بارے ميں بات نہ كى ہوتى تو ہمارے لئے اس سے مطلع ہونے كا كوئي راستہ نہ تھا_

۵ _ خداتعالى نے اپنے ارادہ سے قيامت كے برپا ہونے كے وقت كو انسان سے مخفى ركھا ہے _ا كاد ا خفيه

قاموس ميں آيا ہے كہ اس آيت ميں ''ا كاد'' ''ا ريد'' كے معنى ميں ہے اور ''ا كاد ا خفيہا'' يعنى ميرا ارادہ ہے كہ اسے مخفى ركھوں پس قيامت كو مخفى ركھنے سے مراد اسكے وقوع پذير ہونے كے وقت كو مخفى ركھنا ہوگا نہ خود اسكے وقوع كو مخفى ركھنا _

۶ _ قيامت كا واقع ہونا اچانك ہے _ا كاد ا خفيه

۷ _ ايك ايك انسان كو بدلہ دينا قيامت كے برپا ہونے كا فلسفہ _ء اتية لتجزى كل نفس

''لتجزى '' يا تو ''آتية'' كى علت كا بيان ہے اور '' ا كاد ا خفيہا'' جملہ معترضہ ہے اور يا يہ آيت كريمہ ميں مذكور دونوں چيزوں يعنى قيامت كا آنا اور خداتعالى كى طرف سے اسكى خبردينے كا مخفى ركھنا كى علت كا بيان ہے اور يا يہ صرف ''ا خفيہا'' كى علت كو بيان كررہا ہے ، مذكورہ مطلب پہلے دو احتمالوں كى بناپر ہے _

۸ _ انسان كا قيامت كے برپا ہونے كے وقت سے آگاہ نہ ہونا اسكے اپنے كاموں كى پابندى كرنے اور پھر جزا و سزا كا مستحق بننے كا پيش خيمہ ہے _ا كاد ا خفيها لتجزى كل نفس بما تسعى

مذكورہ بالا نكتے ميں''لتجزى '' كے لام كو''ا كاد ا خفيها'' كى تعليل كيلئے ليا گيا ہے پس جملہ كى تركيب در حقيقت يوں ہوگى''لتسعى كل نفس فتجزى بما تسعى '' خلاصہ اس سے مراد يہ ہوگا كہ ميں نے ارادہ كيا ہے كہ

۳۱

قيامت كو مخفى ركھوں تا كہ سب لوگ اپنى كوشش جارى ركھيں اور اپنے كردار كے نتائج كو ديكھ ليں _ يہ ايك نفسيانى چيز ہے كہ اگر انہيں اپنى موت اور جہان ہستى كى نابودى كا وقت معلوم ہوجائے تو انسان اپنى بہت سى كوششوں كو ترك كرديگا _

۹ _ انسان اپنى دائمى اور مستمر كوششوں اور كردار كے مقابلے ميں ذمہ دار ہے _لتجزى كل نفس بما تسعى

''عمل'' كى جگہ پر مادہ ''سعى '' كا استعمال ممكن اسلئے ہو كہ وہ برائياں جن پر اصرار نہيں كيا جاتا ان سے چشم پوشى كى جائيگى اور يہ نيك اعمال كى نسبت مداومت كى نصيحت ہے _

۱۰ _ دنيا، كوشش كى جگہ اور آخرت جزا و سزا اور اپنى كوشش كا نتيجہ لينے كى جگہ ہے _إنّ السّاعة ء اتية لتجزى كل نفس بما تسعى

۱۱ _ دنيا ميں انسانوں كے اعمال كا بدلہ دينے كيلئے ضرورى وسائل اور گنجاش نہيں ہے _الساعة ء اتية لتجزى كل نفس بما تسعى

بدلہ دينے كيلئے قيامت كے برپا ہونے كا ضرورى ہونا اس چيز كى طرف اشارہ ہے كہ دنيا انسان كى اچھى اور برى كوششو ں كا بدلہ دينے كى گنجائش نہيں ركھتى لہذا ايك اور دن اور حالات فراہم كرنے كى ضرورت ہے تا كہ بدلہ ديا جاسكے _

۱۲ _ انسان كا جزا و سزا پانا خود اسكى كوشش و كردار كا نتيجہ ہے _لتجزى كل نفس بما تسعى

۱۳ _ميدان قيامت ميں حاضر ہونا اور اپنے دنياوى اعمال كے بدلے كا سامنا كرنا سب انسانوں كا انجام ہے _

إنّ السّاعة لتجزى كل نفس بما تسعى

۱۴ _ انسان كا عبادت اور نماز ميں سعى و كوشش كرنا قيامت ميں حتمى جزا ركھتا ہے _فاعبدنى و ا قم الصلوة لتجزى كل نفس بما تسعى

آخرت:اس كا كردار ۱۰

انسان:اسكى اخروى پاداش ۱۰، ۱۳; اس كا محشور ہونا ۱۳; اس كا انجام ۱۳; اسكى ذمہ دارى ۹

ايمان :قيامت پر ايمان كى اہميت ۳

پاداش:اس كا پيش خيمہ ۸; اسكے عوامل ۱۲; اخروى پاداش كے عوامل ۱۴; دنياوى پاداش كا محدود ہونا ۱۱; اسكى جگہ ۱۰

۳۲

كوشش:اس كا پيش خيمہ ۸

خداتعالى :اسكے ارادے كے اثرات ۵; اسكى تعليمات كى اہميت ۴

دنيا :اس كا كردار ۱۰

الساعة: ۲

عبادت:اسكے لئے كوشش كے اثرات ۱۴

عمل:اسكے اثرات ۱۲; اسكى فرصت ۱۰; اس كا ذمہ دار ۹

قيامت :اس ميں پاداش ۷; اس كا حتمى ہونا ۱; اسكے مخفى ہونے كا فلسفہ ۸; اسكے برپا ہونے كا فلسفہ ۷; اس ميں سزا ۷; اسكے مخفى ہونے كا سرچشمہ ۵; اسكے علم كا سرچشمہ ۴; اس كا اچانك ہونا ۶; اس كے نام ۲; اس كا وقت ۵

سزا :اس كا پيش خيمہ ۸; اسكے عوامل ۱۲; دنياوى سزا كا محدود ہونا ۱۱; اسكى جگہ ۱۰

نماز:اسكے لئے كوشش كے اثرات ۱۴

يہوديت:اسكے اركان ۳

آیت ۱۶

( فَلاَ يَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَنْ لاَ يُؤْمِنُ بِهَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَتَرْدَى )

اور خبردار تمھيں قيامت كے خيال سے وہ شخص روك نہ دے جس كا ايمان قيامت پر نہيں ہے اور جس نے اپنے خواہشات كى پيروى كى ہے كہ اس طرح تم ہلاك ہو جاؤگے (۱۶)

۱ _ خداتعالى نے وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) كو منكرين قيامت كى طرف سے انہيں قيامت كى طرف متوجہ ہونے سے روكنے كے خطرے سے آگاہ كيا اور انہيں انكے مكر و فريب سے ڈرايا _

فاعبدني فلا يصّدنّك عنها من لا يؤمن بها ''عنها'' ، ''بها'' كى ضميروں كا مرجع ''الساعة'' ہے جو گذشتہ آيت ميں تھا _

۲ _ كفار كو لوگوں كے ايمان ميں طمع ركھنے سے مايوس كرنا اور ان كے مؤمنين كو فريب دينے كاميابى كے ذرائع كو ختم كرنا ضرورى ہے _فلا يصّدنّك عنها من لايؤمن به

۳۳

مفسرين نے كہا ہے كہ ''لايصّدنّك'' كى نہى اگر چہ ظاہرى طور پر كفار كو ہے ليكن در حقيقت يہ سبب كو وجود ميں لانے سے نہى ہے يعنى اے موسى تو اور ديگر مؤمنين اس طرح عمل نہ كريں كہ كفار تمہيں ايمان سے باز ركھ سكيں _

۳ _ كفار كے شكوك و شبہات پيدا كرنے اور ان كے دباؤ كے مقابلے ميں دين الہى كى حفاظت كرنا ضرورى ہے _

فلايصّدنّك عنها من لا يؤمن به

۴ _ انبياء كى كفار كے فريب اور وسوسوں سے رہائي خداتعالى كى راہنمائي اور نصيحتوں كے سائے ميں ہے _

فلا يصّدنّك عنها من لا يؤمن به

۵ _ دين الہى اور خدائي پروگراموں كے منكر لوگوں كو دين اور اس پر عمل كى طرف مائل ہونے سے روكنے كے درپے ہيں _*''عنہا'' اور ''بہا'' كى ضميروں كا مرجع ممكن ہے وہ تمام تعليمات اور ہدايات ( توحيد عبادت اور نماز كا لازمى ہونا، معاد اور جزا و سزا ) ہوں جنكى حضرت موسى (ع) كو وادى طوى ميں تعليم دى گئي تھي_

۶ _ ہوا و ہوس نفسانى كى پيروى كا نتيجہ قيامت كا انكار اور اس پرايمان كا نہ ہوناہے _من لا يؤمن بها و اتبع هوى ه

''اتبع'' ماضى ہے اور اس كا ''لايؤمن'' جو مضارع ہے پر عطف كيا گيا ہے تا كہ اسكى علت كو بيان كرے اور دلالت كرے كہ ہوس كى پيروى جو ماضى ميں انجام پائي مستقبل ميں آخرت كے ساتھ عدم ايمان كا سبب ہے _

۷ _ خواہشات نفسانى معاد اور آخرت ميں سزا و جزا كے اعتقاد كے بارے ميں اشكال كرنے كى بنياد ہے _

فلا يصّدنّك عنها من اتبع هوى ه

۸ _ دينى اعتقادات ميں قيامت اور اعمال كى جزا و سزا پر ايمان خاص اہميت كا حامل ہے _الساعة ء اتية فلا يصّدنّك عنه

۹ _ تباہى اور ہلاكت، آخرت كى طرف عدم توجہ اور اعمال كى جزا و سزا سے بے اعتنائي كا انجام ہے _

فلا يصّدنّك عنها فتردى

''تردى '' ''ردي'' بمعنى ہلاكت سے مشتق ہے اوريہ منكرين معاد كے شكوك و شبہات پيدا كرنے كے انجام كو بيان كر رہا ہے _

۱۰ _ خواہشات نفسانى كى پيروى تباہى و ہلاكت كا سبب

۳۴

ہے _فلايصّدنّك عنها من اتبع هوى ه فتردى

آيت كريمہ فريب كھائے ہوئے ہوا پرست لوگوں كو ہلاك شدہ سمجھتى ہے پس حتمى طور پر خود ہوا پرست لوگوں كا يہى انجام ہوگا _

انبياء:انكى نجات كا سرچشمہ ۴

ايمان:قيامت پر ايمان كى اہميت ۸

خداتعالى :اس كا ڈرانا ۱; اسكى نصيحتوں كى اہميت ۴

دين:دينى آسيب شناسى ۵،۶; اصول دين ۸; اسكى حفاظت ۳

غفلت:قيامت سے غفلت كا خطرہ ۱; آخرت سے غفلت كا انجام ۹; عمل كى پاداش سے غفلت كا انجام ۹; عمل كى سزا سے غفلت كا انجام ۹

قيامت :اسے جھٹلانے والوں كا مكر، ۱

كفار:انكى مايوسى كى اہميت ۲; انكى دشمنى ۵; انكى دين دشمني۵; انكا شكوك و شبہات پيدا كرنا ۳; انكے مكر سے ممانعت ۲; انكے مكر سے نجات ۴

كفر:قيامت كے كفر كا پيش خيمہ ۶

تمايلات :دين كى طرف تمايل سے ممانعت ۵

معاد:اسكے بارے ميں شكوك و شبہات كا سرچشمہ ۷

موسى (ع) :انكا قصہ ۱; انكى طرف وحى ۱; انہيں خبردار كرنا ۱

ہلاكت:اسكے عوامل ۹ ، ۱۰

ہواپرستي:اسكے اثرات ۶، ۷، ۱۰

۳۵

آیت ۱۷

( وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَا مُوسَى )

اور اے موسى يہ تمھارے داہنے ہاتھ ميں كيا ہے (۱۷)

۱ _ حضرت موسى (ع) جب آگ لانے كيلئے اپنے گھروالوں سے جدا ہوئے تو انكا ڈنڈا بھى انكے ہمراہ تھا_

و ما تلك بيمينك يا موسى

''تلك'' مونث كى طرف اشارہ كرنے كيلئے ہے اور دلالت كر رہا ہے كہ جو كچھ حضرت موسى كے ہاتھ ميں تھا اس پر ''خشبہ '' يا ''عودہ'' ( ڈنڈا) كا اطلاق مسلم ہے پس حضرت موسى (ع) سے طلب كيا گيا تھا كہ وہ جواب ميں اس ڈنڈے كى خصوصيات بيان كريں تا كہ وہ متوجہ رہيں كہ كيا چيز سانپ ميں تبديل ہوگى _قابل ذكر ہے كہ بعد والى آيت كے جملے ''ا ہش بہا على غنمي'' سے استفادہ ہوتا ہے كہ موسى (ع) كے كوہ طور پر آنے سے پہلے وہ ڈنڈا انكے ہمراہ تھا _

۲ _ خداتعالى نے وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) سے چاہا كہ وہ اپنے ڈنڈے كى خصوصيات بيان كريں _

و ما تلك بيمينك يا موسى

۳ _ خداتعالى ، موسى (ع) كيلئے خاص لطف و كرم ركھتا تھا _و ما تلك بيمينك يا موسى

واضح ہے كہ خداتعالى كا موسى (ع) سے سوال مطلع ہونے كيلئے نہيں تھا بلكہ يہ سوال باب گفتگو كا آغاز ہوسكتا ہے اور موسى (ع) كو انكے ڈنڈے كے معمولى نہ ہونے كى طرف متوجہ كرنا اضطراب اور خوف كو بھى دور كرتا ہے اس سوال كو پيش كرنا اور دوبارہ ''ى موسى '' كے ساتھ مخاطب كرنا موسى (ع) كيلئے الله تعالى كے لطف و كرم كے اظہار كى علامت ہے_

خداتعالى :اسكى نصيحتيں ۲

كوہ طور :اسكى آگ ۱

لطف خدا:

۳۶

يہ جنكے شامل حال ہے ۳

موسى (ع) :انكو نصيحت ۲; انكا ڈنڈا ۱; انكے فضائل ۳; انكاقصہ ۱، ۲; انكے ڈنڈے كى خصوصيات ۲

آیت ۱۸

( قَالَ هِيَ عَصَايَ أَتَوَكَّأُ عَلَيْهَا وَأَهُشُّ بِهَا عَلَى غَنَمِي وَلِيَ فِيهَا مَآرِبُ أُخْرَى )

انھوں نے كہا كہ يہ ميرا عصا ہے جس پر ميں تكيہ كرتا ہوں اور اس ے اپنى بكريوں كے لئے درختوں كى پتياں جھاڑتا ہوں اور اس ميں ميرے اور بہت سے مقاصد ہيں (۱۸)

۱ _ حضرت موسى (ع) نے خداتعالى كے اس سوال كہ آپ كے ہاتھ ميں كيا ہے كے جواب ميں عرض كيا يہ ميرا ڈنڈا ہے _و ما تلك بيمينك يا موسى ...قال هى عصاي

۲ _ موسى (ع) نے ڈنڈے پر سہارا لينا اور اپنى بكريوں كيلئے درختوں كے كمزور پتوں كو گرانا ڈنڈے كے فوائد شمار كئے _

''ہش'' كا معنى ہے پتے گرانے كيلئے خشك درخت كو ڈنڈا مارنا ( لسان العرب) يہ كلمہ ان چيزوں كے بارے ميں استعمال ہوتا ہے جو ملائم ہوں اور سخت نہ ہوں (مفردات راغب) ''على غنمي'' ميں ''علي'' كا استعمال بكريوں كے پتوں سے استفادہ كرنے كيلئے درخت كے نيچے موجود ہونے كى طرف اشارہ ہے _

۳ _ حضرت موسى (ع) نے سہارا لينے اور درختوں كے پتے گرانے كے علاوہ اپنے ڈنڈے كو متعدد ضروريات پورى كرنے كيلئے كارساز قرارديا _ولى فيها مارب ا خرى

''مارب'' كے مفرد ''ماربہ'' كا معنى ہے حاجت اور نياز ( مصباح )

۴ _ہاتھ ميں ڈنڈا پكڑنا اور چلنے اور كھڑا ہونے ميں اس كا سہارا لينا ايك مطلوب اور مفيد كام ہے _

۳۷

و ما تلك بيمينك هى عصاى ا توكؤا عليه

موسي(ع) سے منقول سخن ميں سہارا لينے كو ديگر فوائد پر مقدم كرنا اس فائدے كے ديگر فوائد سے اہم ہونے كى علامت ہے_ اور يہ اہميت حضرت موسى (ع) كى جسمانى صحت بلكہ آپكى جسمانى توانمندى كے پيش نظر زيادہ واضح ہوجاتى ہے _

۵ _ مدين سے مصر جاتے ہوئے حضرت موسى (ع) كے ہمراہ بكرياں تھيں كہ جنہيں آپ خود چراتے تھے_ا هش بها على غنمي ''غنم'' يعنى بكرياں اور يہ كلمہ خود اپنے لفظ سے مفرد نہيں ركھتا اورايك بكرى كو كہا جاتا ہے ''شاة'' (مصباح)_

۶ _ جس سرزمين ميں حضرت موسى (ع) نے جانور ركھے ہوئے تھے اور انہيں چراتے تھے اس ميں ايسے درخت تھے كہ جنكے پتے جانوروں كى غذا كيلئے مناسب تھے _و ا هش بها على غنمى

۷ _ حضرت موسى (ع) نے خداتعالى كے ساتھ ہم كلام ہونے كى فرصت كو غنيمت شمار كيا اور اس سے لذت اٹھا رہے تھے _ما تلك قال هى عصاى ا توكؤا عليها و ا هش ولى فيها ما رب ا خرى

خدا تعالى كے سوال كے جواب ميں جملہ ''ہى عصاى '' كافى تھا لذا ديگر جملوں كا اضافہ كرنا حضرت موسى (ع) كے خدا كے ساتھ ہم كلام ہونے كے اشتياق كو بيان كررہاہے_

۸ _ خداتعالى كى خواہش پر عمل كرنے ميں تمام احتمالات كو انجام دينا ضرورى ہے _

ما تلك هى عصاى ا توكؤا ولى فيها م َارب ا خرى

حضرت موسى (ع) كے ''ہى عصاي'' پر اكتفا نہ كرنے كے بارے ميں كہا گيا ہے كہ اس جواب كے واضح ہونے نے حضرت موسى (ع) كو اس فكر ميں ڈال ديا كہ شايد مقصود ڈنڈے كے فوائد ہوں اور اسى احتمال كى بناپر انہوں نے بعد والے جواب اپنى زبان پر جارى كئے_

اصول عمليہ:اصالة الاحتياط ۸

شرعى ذمہ داري:اس پر عمل كرنے كى كيفيت ۸

خداتعالى :اسكى موسى (ع) كے ساتھ گفتگو ۷; اسكے ساتھ گفتگو كى لذت ۷

ڈنڈا:اسكے فوائد ۴/عمل:پسنديدہ عمل ۴

موسى (ع) :انكى بكريوں كى غذا ۶; انكا ريوڑچرانا ۵; انكا ڈنڈا ۱; انكے ڈنڈے كے فوائد ۲، ۳; انكا قصہ ۱، ۵، ۶; انكى بكرياں ۵; انكى معنوى لذات ۷; انكے جانور چرانے كى جگہ ۶

۳۸

آیت ۱۹

( قَالَ أَلْقِهَا يَا مُوسَى )

ارشاد ہوا تو موسى اسے زمين پر ڈال دو (۱۹)

۱ _ خداتعالى نے وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) كو حكم ديا كہ اپنا ڈنڈا زمين پر پھينكيں _قال ا لقها يا موسى

۲ _ خداتعالى كى حضرت موسى (ع) كے ساتھ گفتگو انكے ساتھ لطف و كرم اور را فت كے اظہار كے ہمراہ تھى _

ى موسى قال ا لقها يا موسى

نام كا تكرار مخاطب كے ساتھ كامل محبت كے اظہار كى علامت ہے_ ان آيات كريمہ ميں آيات كے محبت آميز لہجے كے علاوہ خطاب الہى ميں چند مرتبہ حضرت موسي(ع) كے نام كا تكرار ہوا ہے كہ جو خداتعالى كى انكے ساتھ خاص عنايت اور لطف كى علامت ہے _ -

خداتعالى :اسكے اوامر ۱; اسكى موسى (ع) كے ساتھ گفتگو ۲

خداتعالى كا لطف:يہ جنكے شامل حال ہے ۲

موسى (ع) :انكا ڈنڈے كو پھينكنا ۱; انكے فضائل ۲; انكا قصہ ۱

آیت ۲۰

( فَأَلْقَاهَا فَإِذَا هِيَ حَيَّةٌ تَسْعَى )

اب جو موسى نے ڈال ديا تو كيا ديكھا كہ وہ سانپ بن كر دوڑ رہا ہے (۲۰)

۱ _ حضرت موسى (ع) نے حكم خداوندى سے اپنا ڈنڈا زمين پر پھينكا _

۳۹

فا لقى ها

۲ _ پھينكے جانے كے بعد حضرت موسى (ع) كا ڈنڈا متحرك سانپ ميں تبديل ہوگيا _فا لقى ها فإذا هى حية تسعى

۳ _ حضرت موسى (ع) كے ڈنڈے كا پھينكاجانا اور اس كا سانپ ميں تبديل ہونا ايك ہى وقت ميں تھا _

فإذا هى حية ''إذا'' مفاجات كيلئے ہے اور پہلے اور بعد والے جملوں كے وقت كے ايك ہونے پر دلالت كرتا ہے _

۴ _ خداتعالى كا ڈنڈے كے بارے ميں حضرت موسى (ع) سے سوال آپ كو معجزہ اور آيت دكھانے كيلئے آپكى ذہنى آمادگى اور ضرورى ما حول بنانے كى خاطر تھا _و ما تلك بيمينك فا لقيها فإذا هى حية

خداتعالى كے جواب ميں حضرت موسى (ع) كا ڈنڈے كے قدرتى خواص كى وضاحت كرنا انكے ذہن ميں مناسب آمادگى پيدا كررہا ہے تا كہ ڈنڈے كى دو حالتوں كا موازنہ كرنے كے بعد اسكى نئي حالت كے معجزہ ہونے كے بارے ميں انہيں كوئي شك نہ ہو _

۵ _ حضرت موسى (ع) كاڈنڈا سانپ ميں تبديل ہونے كے بعد جان ركھتا تھا اور اپنى مرضى سے اچھل كود كررہا تھا _

حية تسعى خداتعالى نے بعد والى آيات ميں حضرت موسى (ع) اور جادوگروں كے مقابلہ كى داستان ميں جادوگروں كے بارے ميں فرمايا ہے_''يخيّل إليه من سحرهم ا نها تسعى '' اس كا ''تسعى '' ( جو اس آيت ميں ہے) كے ساتھ مقابلہ كرنے سے حضرت موسى (ع) ڈنڈے كى حركت كے حقيقى ہونے كاپتا چلتا ہے_

خداتعالى :اسكے سوال كا فلسفہ ۴

ڈنڈا:اس كا سانپ ميں تبديل ہونا ۲، ۳، ۵

موسى (ع) :انكا ڈنڈے كو پھينكنا ۱; ان ميں آمادگى پيدا كرنا ۴; ان سے سوال ۴; انكے ڈنڈے كا تبديل ہونا ۲; انكا شرعى ذمہ دارى پر عمل ۱; انكا قصہ ۱، ۲; انكا معجزہ ۴; انكے ڈنڈے كى خصوصيات ۲، ۳، ۵

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

وہ لوگ جو آحاد اور ضیعف روایات کوعقائد میں قبو ل کرتے ہیں اور اس کا شد ت کے سا تھ دفاع کرتے ہیں ، نیز اسی بنا پر مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں،''سلفی حضرات '' اور اہل سنت کے اخبا ریوں کو تو جہ کر نا چاہئے کہ روایات میں '' حق و باطل اورسچ وجھوٹ ، ناسخ و منسوخ ،عا م و خاص، محکم و متشا بہ حفظ ( حقیقت )ووہم ''سب کچھ پائے جاتے ہیں ۔( ۱ )

بہت جلد ہی اس مو ضو ع کی مز ید شرح و وضا حت پیش کی جائے گی۔

____________________

(۱) نہج البلاغہ : خطبہ ۲۱۰.

۲۰۱

۳۔ اسلامی عقائد دو حصّوں پر مشتمل ہیں: ضروری و نظری:

ضروری اسلامی عقائد:

ضروری وہ ہیں جن کا کوئی مسلما ن انکا ر نہیں کرتا مگر یہ کہ دین کے دائرہ سے خارج ہو جائے کیو نکہ ضروری کا شمار ، دین کے بدیہیات وواضحات میں ہو تا ہے جیسے: تو حید ، نبوت اور معا دوغیرہ۔

نظری اسلامی عقائد:

نظری وہ ہیں جو تحقیق و بر ہان ، شاہد و دلیل کا محتا ج ہو اور اس میں صاحبان آراء و مذا ہب کا اختلاف ممکن ہو ، ضروری عقائد کا منکر کافر ہو جاتا ہے لیکن نظری عقائدکے منکر تکفیر سے روکا گیا ہے۔

۴۔ عقیدہ میں قیا س اور استحسان کی کوئی اہمیت نہیں جا نتے ہیں۔

۵۔ حکم صریح عقلی کی حکم صحیح نقلی سے مقافقت پر ایما ن رکھتے ہیں اس شرط کے ساتھ کہ تمام اوصا ف لازم کی ان دونوں میں ر عایت کی گئی ہو اور کبھی بھی ظن و گمان کو یقین کی جگہ قرار نہیں دیتے وہ لوگ کبھی ضیعف خبر سے استناد نہیں کرتے اور نہ ہی خبر واحد کو صحیح متو اتر کی جگہ اپنا تے ہیں۔

۶۔ ذاتی اجتہا د، خیال بافی اور گمان آفرینی سے عقائد میں اجتناب کرتے ہوئے ان تعبیروں سے جو بدعت شمار ہو تی ہیں کنارہ کشی اختیا ر کر تے ہیں ۔

۷۔ ﷲ کے تمام انبیاء اوربارہ ا ئمہ کو صلوا ت ﷲ اجمعین معصو م جانتے ہیں اور اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے آثار نیز صحیح و معتبر روایات پر ایمان رکھنا وا جب ہے اور مجتہد ین حضرات ان آثا ر میں کبھی درست اور صوا ب کی راہ اختیا ر کرتے ہیں تو کبھی خطا کر جاتے ہیں ، لیکن وہ اجتہا د کی تما م شرطوں کی رعا یت کریں اور اپنی تمام کوششوں اورصلا حیتوں کو بروئے کار لائیں تو معذورقرار پائیں گے ۔

۸۔ امت کے درمیا ن ایسے لوگ بھی ہیں جنھیں ''محدَّث'' اور'' مُلھَم'' کہتے ہیں : نیز ایسے لوگ بھی ہیں جو صحیح خواب دیکھتے ہیں اور اس کے ذریعہ حقائق تک رسائی حا صل کرتے ہیں ،لیکن یہ ساری باتیں اثبات چاہتی ہیں اور ان کااستعمال ذاتی عقیدہ کی حد تک ہے اوراس پر عمل انفرادی دائرہ سے آگے نہیں بڑھتا۔

۲۰۲

۹۔عقائد میں منا ظرہ اور منا قشہ اگر افہا م و تفہیم کے قصد سے آداب تقویٰ کی رعا یت کے ساتھ ہو تو پسند یدہ ہے، لیکن یہ انسان کا فریضہ ہے کہ جو نہیں جانتا اس کے بارے میں کچھ نہ کہے ،بحث ومنا ظرہ اگر ضد،ہٹ دھرمی ، خود نمائی کے ساتھ نا زیبا کلمات اور بد اخلا قی کے ذریعہ ہو تو یہ امر نا پسندیدہ اور قبیح ہے اور اس سے عقیدہ کی حفا ظت کے لئے اجتناب واجب ہے۔

۱۰ ۔ ''بدعت''دین کے نام پر ایک اختراعی اور جعلی چیز ہے جو کہ دین سے تعلق نہیں رکھتی اور نہ ہی شریعت میں کوئی اصل رکھتی ہے کبھی ایسی چیز کو بھی '' بدعت'' کہہ دیتے ہیں کہ اگر دقت اور غور و خو ض سے کام لیا جائے تو وہ '' بدعت'' نہیں ہے، جیسا کہ بعض ان چیزوں کو جو'' سنت'' نہیں ہیں سنت کہہ دیتے ہیں ، لہٰذا فتویٰ دینے سے پہلے غور و فکر کر نا لا زم ہے۔( ۱ )

۱۱ ۔''تکفیر'' کے بارے میں غور و فکر اور دقت نظر واجب ہے اس لئے کہ جب تک کسی کا کفر خود اس کے قرار یا قطعی بینہ ذریعہ ثابت نہ ہو اس کے بارے میں کفر کا حکم جائیز نہیں ہے ، کیو نکہ( تکفیر) حد شر عی کا با عث ہے اور حد شرعی کے بارے میں فقہی قاعدہ یہ ہے کہ ''اِنَّ الحدود تدرأبالشبھا ت'' حدود شبہات سے بر طرف ہو جاتے ہیں اور دوسروںکو کافر سمجھنا عظیم گنا ہ ہے مگر یہ کہ حق ہو۔

۱۲ ۔ اختلا فی موارد میں '' کتاب، سنت اور عترت'' کی طرف رجوع کرنا واجب ہے جیسا کہ رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا ہے اور خدا وند عالم اس کے بارے میں فرما تا ہے:

( و لو ردُّوهُ أِلی الرسو ل و أِلی أولی الأمر منهم لعلمه الذین یستنبطو نه منهم و لولافضل ﷲ علیکم و رحمته لا تَّبعتُمُ الشَّیطان اِلاَّ قلیلا ً ) ( ۲ )

اوراگر( حوادث اور پیش آنے والی باتوں کے سلسلہ میں ) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور صاحبان امرکی طرف رجوع کریں تو انہیںبنیا دی مسا ئل سے آگا ہی و آشنائی ہو جائے گی ، اگر تم پرخدا کی رحمت اور اس کا فضل نہ ہو تا تو کچھ لوگوں کے علا وہ تم سب کے سب شیطان کی پیروی کرتے۔

____________________

(۱)سید مرتضی علی ابن الحسین الموسوی ( وفات ۴۳۶ ھ ، رسائل الشریف المرتضی ، رسالة الحدود والحقائق.

(۲) نساء ۸۳

۲۰۳

۱۳ ۔ خدا وند عالم کے صفات سے متعلق اہل بیت کا نظریہ یہ ہے:

'' خدا وند عالم؛ حی ،قادر اور اس کا علم ذاتی ہے ، یعنی حیات ،قدرت اورعلم عین ذات ِ باری تعا لیٰ ہے، خدا وند سبحان( مشبہّہ اور بد عت گزا روں جیسے ابو ہا شم جبائی کے قول کے بر خلاف) زائد بر ذات صفات و

احوال سے منزہ و مبرا ہے، یہ ایسا نظریہ ہے جس پر تمام اما میہ اور معتز لہ( ما سوا ان لوگو ں کے جن کا ہم نے نام لیا ہے ) اکثر مر جئہ تمام زیدیہ اور اصحا ب حدیث و حکمت کے ایک گروہ کا اتفاق ہے( ۱ ) ان کا اثبا ت و تعطیل کے درمیا ن ایک نظریہ ہے یعنی با و جو د یکہ خدا وند سبحا ن کو زا ئد بر ذات صفات رکھنے سے منزہ جانتے ہیں لیکن ﷲ کے اسمائے حسنیٰ اور صفات سے متعلق بحث کو ممنوع اور بے فا ئدہ نہیں جانتے ہیں''۔

۱۴ ۔وہ لوگ '' حسن و قبح'' عقلی کے معتقد ہیں اور کہتے ہیں : بعض اشیاء کے '' حسن و قبح'' کا درک کرنا عقل کے نزدیک بد یہی اور آشکار ہے۔

____________________

(۱)شیخ مفید؛'' اوا ئل المقا لات'' ص ۱۸

۲۰۴

اہل بیت کی راہ قرآ ن کی راہ ہے

اسلامی عقا ئد میں مکتب اہل بیت کوجب بد یہی معلو مات اور باعظمت یقینیات کے ساتھ موازنہ کیا جاتاہے تو اس کی فوقیت و برتری کی تجلی کچھ زیادہ ہی نمایاںہو جاتی ہے، ہم اس کے کچھ نمو نوں کی طرف اشارہ کررہے ہیں:

۱ ۔ تو حید کے بارے میں :

توحید کے سلسلے میں اہل بیت کا مکتب قرآن کریم کی تعلیم کی بنیا د پر خدا وند عالم کو مخلوقات سے ہر قسم کی تشبیہ اور مثال و نظیر سے بطور مطلق منزہ قرار دیتا ہے جیسا کہ ارشاد ہوا :

( لیس کمثله شیئ وهو السمیع البصیر ) ( ۱ )

کوئی چیز اس ( خدا ) کے جیسی نہیں ہے اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے ۔

اسی طرح نگا ہوں سے رویت خدا وندی کو قرآن کریم کے الہام کے ذریعہ مردود جانتا ہے ، جیسا کہ ارشاد ہوا:( لا تد رکه الأبصا روهوید رک الأبصاروهواللّطیف الخبیر ) ( ۲ )

نگا ہیں ( آنکھیں ) اسے نہیں دیکھتیں لیکن وہ تمام آنکھو ں کو دیکھتا ہے اور وہ لطیف و آگا ہ ہے۔

نیز مخلوقات کے صفات سے خدا کی تو صیف کر نا مخلو قات کی طرف سے نا ممکن جا نتا ہے ، جیسا کہ ارشاد ہوا:

الف ۔( سبحا نه وتعا لیٰ عمّایصفون ) ( ۳ )

جو کچھ وہ تو صیف کرتے ہیں خدا اس سے منزہ اور بر تر ہے!

ب ۔( سبحان ربک ربّ العزّة عمّایصفون ) ( ۴ )

____________________

(۱)شوری ۱۱

(۲) انعام ۱۰۳

(۳) انعام ۱۰۰

(۴)صافات۱۸۰

۲۰۵

تمہا را پروردگارپروردگا رِ عزت ان کی تو صیف سے منزہ اور مبرا ہے ۔

۲ ۔عدل کے بارے میں :

مکتب اہل بیت نے خدا سے ہر قسم کے ظلم وستم کی نفی کی ہے اور ذات باری تعا لیٰ کو عد ل مطلق جا نتا ہے،جیسا کہ خدا وند عالم نے فرمایا :

الف۔( اِنّ ﷲ لایظلم مثقال ذرة )

بیشک خدا وند عالم ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا ۔

ب۔( ان ﷲ لایظلم الناس شیئاً و لکن الناس أنفسهم یظلمون ) ( ۱ )

بیشک خداوند عا لم لوگوں کے اوپر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا بلکہ لوگ خود اپنے اوپر کچھ بھی ظلم کرتے ہیں ۔

۳۔ نبوت کے بارے میں :

نبوت کے بارے میں مکتب اہل بیت کا نظریہ یہ ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام مطلقاً معصوم ہیں ، کیونکہ خدا وند عالم کا ارشاد ہے :

الف: ۔( وما کا ن لنبیٍ أن یغلّ ومن یغلل یأت بماغلّ یوم القیامة ) ( ۲ )

اور کوئی پیغمبر خیا نت نہیں کرتااورجو خیا نت کرے گاقیا مت کے دن جس چیز میں خیانت کی ہے اسے اپنے ہمرا ہ لائے گا۔

ب:۔( قل اِنیّ أخاف اِن عصیت ربیّ عذا ب یومٍ عظیمٍ ) ( ۳ )

( اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم )کہہ دو! میں بھی اگر اپنے رب کی نافرمانی کروں تواس عظیم دن کے عذا ب سے خوف زدہ ہوں۔

ج :۔( ولو تقوَّل علینا بعض الأقا ویلِ)(لاخذ نا منه با لیمین ثُمَّ لقطعنا منه الوتین ) ( ۴ )

اگر وہ (پیغمبر) ہم پر جھوٹا الزام لگا تا تو ہم ا سے قدرت کے ساتھ پکڑ لیتے، پھر اس کے دل کی رگ کو قطع کر دیتے۔

اسی طرح مکتب اہل بیت تمام فر شتوں کو بھی معصوم جا نتا ہے ، کیو نکہ خدا وند عالم نے فرمایا ہے:

____________________

(۱)یونس ۴۴ (۲) آل عمران ۱۶۱ (۳) انعام ۱۵. (۴)حاقہ۴۴۔۴۶

۲۰۶

( علیهاملا ئکة غلا ظ شدا دلا یعصو ن ﷲ ماأمر هم ویفعلو ن ما یؤمرون )

اُس ( جہنم ) پر سخت گیر اور درشت مزا ج فرشتے مامور ہیں اور کبھی خدا کی جس کے بارے میں اس نے حکم دیا ہے نا فرما نی نہیں کرتے اور جس پر وہ مامور ہیںاس پر عمل کرتے ہیں۔( ۱ )

۴ ۔امامت کے بارے میں :

مکتب اہل بیت کہتا ہے : امامت یعنی ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دینی اور دنیا وی امور میں نیا بت یہ ایک ایسا ﷲ کا عہد و پیمان ہے کہ جو غیر معصوم کو نہیں ملتا ، کیو نکہ ، خدا وند عالم نے فرمایا ہے:

( واِذ ابتلیٰ اِبرا هیم ربُّه بکلما ت فا تمّهنّ قال اِنّی جا علک للناس اِماما ً قال و من ذُرّ یتی قال لا ینا ل عهدی الظّالمین ) ( ۲ )

اور جب ابرا ہیم ـکو ان کے رب ّ نے چند کلمات ( طریقو ں ) سے آزمایا اور وہ بحسن و خوبی اس سے عہدہ بر آہو گئے تو خدا وند عالم نے فر مایا : میں نے تم کو لوگو ں کا امام اور پیشوا قرار دیا ! ابرا ہیم نے عرض کیا : میری ذریت میں بھی اس عہد کو قرار دے گا؟ فر مایا : میرا یہ عہد ظالموں کو نصیب نہیں ہو گا ۔

آیت شریفہ کے (مضمو ن اور ابرا ہیم کے امتحا ن دینے کی کیفیت) سے نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ تمام رسولوں ، انبیاء اور ائمہ کے خوا ب جھوٹ سے محفو ظ بلکہ صادق ہوتے ہیں اور خدا وند عالم انھیں خواب میں بھی غلطی اور اشتباہ سے محفوظ رکھتا ہے ۔( ۳ )

جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے وہ راہ اہل بیت کی قرآن کریم سے مطا بقت اور ہماہنگی کا ایک نمونہ تھا۔

____________________

(۱) تحریم۶

(۲) بقرہ ۱۲۴

(۳) شیخ مفید ، اوائل المقا لا ت، ص ۴۱۔

۲۰۷

مکتب اہل بیت میں ''عقل'' کا مقام

مکتب اہل بیت کا نظریہ عقل کے استعمال اور اس کی اہمیت کے متعلق ایک درمیا نی نظریہ ہے جو معتزلہ کی تند روئی اور شدت پسندی سے اور اہل حدیث کے ظاہر بین افراد کی سستی اور جمود سے محفو ظ ہے ۔

شیخ مفید(متوفی ۴۱۳ ھ) کہتے ہیں:

یہ جو بات اما میہ کے مخا لفین کہتے ہیں:'' تمہا رے ائمہ کی امامت پر صر یح اخبار تو اتر کی حد کو نہیں پہنچتے ہیں اور آحاد خبریں حجت نہیں ہیں'' ہمارے مکتب کے لئے ضرر رساں نہیںہے اور ہماری حجت و دلیل کو بے اعتبار نہیںکرتی ، کیو نکہ ہماری خبریں '' عقلی دلا ئل کے ہمراہ ہے ، یعنی وہ دلا ئل ما ضی میں جن کی تفصیل اما موں کی امامت اور ان کے صفا ت کے بارے میں گزر چکی ہے ، وہ دلا ئل (جیسا ہمارے مخا لفین نے تصور کیا ہے) اگر باطل ہوں ، تو '' ائمہ پر نص کے وجوب کے عقلی دلا ئل'' بھی باطل ہو جائیں گے ۔''( ۱ )

اور یہ بھی کہتے ہیں:'' ہم خدا کی مرضی اور اس کی تو فیق سے ، اس کتا ب میں مکتب شیعہ اور مکتب معتزلہ کے درمیا ن فرق اور عدلیہ شیعہ اور عدلیہ معتز لہ کے درمیا ن افترا ق وجدا ئی کے اسباب کا اثبات کریں گے۔''( ۲ )

شیخ صدوق محمدبن با بویہ (متوفی ۳۸۱ ھ) فر ماتے ہیں: '' خدا وند عالم کسی سبب کی سمت دعوت نہیں دیتا مگر یہ کہ اس کی حقا نیت کو عقو ل میں اجاگر کر دے اور اگر اس کی حقانیت کو عقلوں میں اجاگر اور روشن نہ کیا ہو تو دعوت نا روا اور بے جا ہو گی اور حجت نا تمام کہلا ئے گی ، کیو نکہ اشیا ء اپنے اشکال کو جمع کرنے والی اور اپنی ضد کے بارے میں خبر دینے وا لی ہیں، لہٰذا اگر عقل میں رسو لوں کے انکا ر کی جگہ اور گنجائش ہو تی تو خداوندعالم کسی پیغمبر کو ہرگزمبعوث نہ کرتا۔ ''( ۳ )

____________________

(۱)شیخ مفید؛ '' المسائل الجارودیہ'' ص۴۶، طبع، شیخ مفید،ہزار سالہ عالمیکانفرنس ،قم، ۱۴۱۳ھ

(۲)شیخ مفید؛ ''اوائل المقالات فی المذاہب و المختارات''

(۳) ابن بابویہ ؛ ''کمال الدین و تمام النعمة '' طبع سنگی ، تہران ، ۱۳۰۱ ھ

۲۰۸

مزید کہتے ہیں: اس سلسلہ میں صحیح بات یہ ہے کہ کہا جا ئے : ہم نے خدا کو اس کی تا ئید و نصرت سے پہچانا، کیو نکہ ، اگر خدا کو اپنی عقل کے ذریعہ پہچا نا تو وہی عقل عطا کر نے والا ہے اور اگر ہم نے اسے انبیائ، رسولوں اور اس کی حجتوں کے ذریعہ پہچا نا تو اسی نے تمام انبیاء رسو لوں اور ائمہ کا انتخاب کیا ہے اور اگر اپنے نفس کے ذریعہ معر فت حا صل کی تو اس کا بھی وجو د میں لا نے وا لا خدا وند ذوالجلا ل ہے لہٰذا اسی کے ذریعہ ہم نے اس کو پہچا نا۔ ''( ۱ )

اس طرح سے عقل کا استعمال اور اس سے استفا دہ کر نا ، یعنی اس کا کتاب ، سنت اور ائمہ معصو مین کے ہمرا ہ کر نا اہل بیت کی رو ش کے علاوہ کہیں کسی دوسری اسلا می روش میں نہیں ملتا ہے۔

امام جعفر صادق ـاس سلسلہ میں فر ماتے ہیں :''لولا الله ماعرفنا ولولانحن ماعرف الله '' اگر خدا نہ ہو تا تو ہم پہچا نے نہیںجاتے اور اگر ہم نہ ہوتے تو خدا پہچا نا نہیں جاتا۔( ۲ )

اس حدیث کی شرح میں شیخ صدوق کہتے ہیں: یعنی اگر خدا کی حجتیں نہ ہو تیں تو خدا جیسا کہ وہ مستحق اور سزا وار ہے پہچا نا نہیں جاتا اور اگر خدا نہ ہو تا تو خدا کی حجتیں پہچا نی نہیں جاتیں۔''( ۳ )

کلا می منا ظرہ اور اہل بیت ـ کا نظریہ

گزشتہ بحثو ں میں ان لوگو ں کے نظر یہ سے آگا ہ ہوچکے جو دین میں بطور مطلق ہر طرح کے بحث و مناظرہ کو ممنو ع جانتے ہیں نیز ان لو گوں کے نظریہ سے آشنا ہو ئے جو معتدل رہتے ہوئے اقسام منا ظرہ کے درمیان تفصیل اور جدائی کے قا ئل ہیں۔

اہل بیت کی روش بھی اس سلسلے میں معتدل اوردر میا نی ہے، وہ لوگ کتاب خدا وند ی کی پیر وی میں جدال کی دو قسم کرتے ہیں:

۱ ۔جدا ل حسن

۲ ۔ جدا ل قبیح

خدا وند متعال فرما تا ہے:

____________________

(۱) توحید شیخ صدوق ؛ ص ۲۹۰.(۲)توحید صدو ق، ص۲۹۰(۳)توحید صدو ق، ص۲۹۰

۲۰۹

( اُدع اِلیٰ سبیل ربک بالحکمة والموعظة الحسنة وجادلهم با لتی هی احسن اِنَّ ربّک هواعلم بمن ضلَّ عن سبیله وهوأعلم بالمهتدین )

( لوگو ں کو) حکمت اور نیک مو عظہ کے ذریعہ سے اپنے ربّ کے راستہ کی طرف دعوت دو اور ان سے نیک روش سے جدا ل و منا ظرہ کرو تمہا را ربّ ان لوگوں کے حال سے جو اس کی راہ سے بھٹک چکے اور گمراہ ہوگئے ہیں زیا دہ وا قف ہے اور وہی ہدا یت یا فتہ افراد کو بہتر جانتا ہے۔( ۱ )

اس سلسلہ میں شیخ مفید فر ماتے ہیں:

( ہمارے ائمہ)صادقین نے اپنے شیعوں کے ایک گروہ کو حکم دیا کہ وہ اظہا ر حق سے بازرہیں اوراپنا تحفظ کریں'' اور حق کو اپنے اندر دین کے دشمنو ں سے چھپا ئے رکھیں اوران سے ملا قات کے وقت اس طرح برتاؤ کریں کہ مخا لف ہونے کا شبہ ان کے ذہن سے نکل جائے، کیو نکہ یہ روش اس گروہ کے حا ل کے لئے زیا دہ مفید تھی ، نیز اسی حا ل میں شیعوں کے ایک دوسرے گروہ کو حکم دیا کہ مخا لفین سے بحث و مناظرہ کرکے انھیں حق کی سمت دعوت دیں ،کیو نکہ ہما رے ائمہ جا نتے تھے کہ اس طریقہ سے انھیں کو ئی نقصان نہیں پہنچے گا۔''( ۲ )

شیخ مفید کی اپنی گفتگو میں '' صا دقین'' سے مراد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عترت سے '' منصوص ائمہ'' ہیں کہ خداوندعالم نے اپنی کتا ب میں جن کی طہارت کی گو ا ہی دی اور انھیں گناہ و معصیت سے پاک و پاکیزہ قرار دیا اور انھیں مخا طب قرار دے کر فر مایا ہے:

( اِنّما یر ید ﷲ لیذ هب عنکم الرّجس أهل البیت ویطهِّرَکم تطهیرا ً ) ( ۳ )

خدا وند عالم کا صرف یہ ارادہ ہے کہ تم اہل بیت سے ہر قسم کے رجس کو دور رکھے اور تمھیں پاک و پاکیز ہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

خدا وند عالم نے امت اسلامی کو بھی تقوائے الٰہی اور عقیدہ و عمل میں ان حضرات کی ہمرا ہی کی طرف دعوت دیتے ہو ئے فر ماتا ہے:

( یا أیها الذ ین آ منوا اتّقوا ﷲ وکونو امع الصَّا دقین ) ( ۴ )

اے اہل ایمان ! تقوائے الٰہی اختیا ر کرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ!

____________________

(۱)نحل ۱۲۵(۲)شیخ مفید ؛'' تصحیح الاعتقاد ''ص ۶۶.(۳) احزاب ۳۳ .(۴)توبہ ۱۱۹.

۲۱۰

بیشک وہ ایسے امام ہیں جن کے اسما ئے گرامی کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صرا حت کے ساتھ بیان فر مایا اور ہر ایک امام نے اپنے بعد والے امام کا بارہ اماموں تک واضح اور آشکار تعار ف کرا یا ہے، ان کے اولین وآخرین کے نام اور عدد پر نص اورصراحت رسول گرامیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت میں مو جو د ہے ، جو چا ہے رجو ع کر سکتا ہے۔( ۱ )

عقل وحی کی محتا ج ہے

منجملہ ان باتوں کے جو عقل و شرع کے درمیان ملا زمہ کے متعلق مکتب اہل بیت میں تا کید کرتی ہیں وہ صدوق رحمة ﷲ علیہ کی یہ بات ہے ،وہ کہتے ہیں:( عقل وحی کی محتا ج ہے) لیکن حضرت ابرا ہیم خلیل کا استدلال کہ ز ہرہ کی طرف نظر کر کے اس کے بعد چا ند اس کے بعد سورج کی طرف نظر کرکے ان کے ڈوبنے کے وقت کہا :

( یا قوم اِنّی بریٔ ممّا تشرکون ) ( ۲ )

اے میری قوم! میں ان شر کا ء سے جو تم خدا کے لئے قرار دیتے ہو بیزار ہوں۔

یہ کلام اس وجہ سے تھا کہ آپ ملہم نبی اور الہام خدا وندی کے ذریعہ مبعوث پیغمبر تھے، کیو نکہ خدا وند عالم نے خود ہی فر مایا ہے:

( و تلک حُجَّتُنا ئَ اتینا ها اِبرا هیم علیٰ قو مه ) ( ۳ )

یہ ہمارے دلا ئل تھے جن کو ہم نے ابرا ہیم کو ان کی قوم کے مقا بلہ میں عطا کیا ۔

اور تما م لوگ ابرا ہیم کے مانند ( غیبی الہام کے مالک) نہیں ہیں ، اگر ہم تو حید کی شنا خت میں خدا کی نصرت اوراس کی شناسائی کرا نے سے بے نیاز ہو تے اور عقلی شنا خت ہمارے لئے کا فی ہو تی تو خدا وند سبحان پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نہیں فرماتا:

( فا علم ٔانّه لا اِله اِلاَّ ﷲ ) ( ۴ )

پھر جان لو کہ ﷲ کے علا وہ کو ئی معبو د نہیں ہے۔

ابن بابویہ کی مراد یہ ہے کہ عقل بغیر وحی کی نصرت و تا ئید کے جیسا خدا کو پہچا ننا چاہئے نہیں پہچا ن سکتی ، نہ

____________________

(۱)ابن عباس،جوہری '' مقتضب الاثر فی ا لنص علی عدد الائمہ الاثنی عشر''؛ابن طولون الدمشقی، الشذرات الذھبیہ فی ائمہ الاثناء عشریہ''؛المفید، المسائل الجارودےة ،ص ۴۵، ۴۶.طبع ہزار سالہ شیخ مفید کانفرس قم،۱۳ ۱۴ھ ؛''اثبات الھداةبالنصوص والمعجزات''شیخ حر عاملی تحقیق: ابو طالب تجلیل طبع قم، ۱۴۰۱ھ ، ملاحظہ ہو

(۲) سورہ انعام ۷۸.(۳)سورہ انعام ۸۳. (۴)سورہ محمد ۱۹.

۲۱۱

یہ کہ عقلی نتا ئج بے اعتبار ہیں۔( ۱ )

یہی مطلب شیخ مفید کی بات کا بھی ہے کہ فر ماتے ہیں : عقل مقد مات اور نتا ئج میں وحی کی محتا ج ہے۔( ۲ )

لیکن اسی حال میں ،وہ خو د عقل کے استعما ل کو عقائد اسلا می کے سمجھنے میں تقو یت دیتے ہیں اور کہتے ہیں: خدا کے بارے میں گفتگو کر نے کی مما نعت صرف اس لئے ہے کہ خلق سے خدا کی مشا بہت اور ظلم و ستم کی خالق کی طرف نسبت دینے سے لوگ با ز آئیں۔( ۳ )

انھوں نے عقل و نظر کے استعمال کے لئے مخا لفین سے احتجا ج کرنے میں دلیل پیش کی ہے اور ان لوگوں کو فکر (رائے )و نظر کے اعتبا ر سے نا تواں اور ضعیف تصور کرتے ہوئے فر ما تے ہیں :

'' عقل و نظر کے استعما ل سے رو گردانی کی باز گزشت تقلید کی طرف ہے کہ جس پر پوری امت کا اتفاق ہے کہ وہ مذموم اور نا پسند ہے۔''( ۴ )

نقل کا مرتبہ

پہلے ہم ذکر کر چکے ہیں کہ '' عقل '' اہل بیت کے مکتب میں اپنی تمام تر ارزش و اہمیت کے با وجود ''معرفت دینی '' میں نور وحی سے بے نیا ز نہیں ہے اور اس سے کو ئی بھی کلا می اور اسلامی مکتب فکر انکا ر نہیں کرتا، جو کچھ بحث ہے نقل پر اعتماد کے حدود کے سلسلے میں ہے ، کیو نکہ نقل ( یہا ں پر اس سے مراد حدیث ہے چو نکہ قرآن کریم کی نقل متو اتر اور قطعی ہے ) کبھی ہم تک متو اتر صورت میں پہنچتی ہے ، یعنی راویوں اور نا قلین کی کثرت کی وجہ سے ہر طرح کے شکو ک و شبہا ت بر طرف ہو جاتے ہیں، اس طرح سے کہ انسان کو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یا عترت طاہرہ یا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب سے حدیث صا در ہو نے کا اطمینا ن پیدا ہو جاتا ہے، لیکن کبھی حدیث اس حد کو نہیں پہنچتی ہے، بلکہ صرف ظن قوی یا گمان ضعیف حا صل ہو تا ہے اور کبھی اس حد تک پہنچتی ہے کہ اسے خبر واحد کہتے ہیں ، یعنی وہ خبر جو ایک آدمی نے روایت کی ہو اورصرف ایک شخص اس خبرکے معصو م سے صا در ہو نے کا مد ّ عی ہواس حالت میں بھی بہت سارے مقا مات پر شک و جہل کی طرف ما ئل ظن اور گمان پیدا ہوتا ہے۔

مکتب اہل بیت کا اس آخری حالت میں موقف یہ ہے:

____________________

(۱) توحید :ص ۲۹۲.(۲)شیخ مفید ؛ '' اوائل المقالات '' ص ۱۱۔۱۲.(۳)تصحیح الاعتقاد بصواب الانتقاد : ص ۲۶، ۲۷.(۴)تصحیح الاعتقاد بصواب الانتقاد : ص ۲۸، طبع شدہ یا اوائل المقالات ، تبریز ، ۱۳۷۰ ، ھ ، ش

۲۱۲

'' اس طرح کی روایات کے صدق و صحت پر اگر کوئی قرینہ نہ ہو توقا بل اعتماد اور لا ئق استنا د نہیں ہیں۔''

عقائد میں خبر واحد کا بے اعتبار ہو نا

مکتب اہل بیت میں خبر واحد پر بے اعتما دی جب عقید تی مسا ئل تک پہنچتی ہے توجو کچھ ہم نے کہا اس سے بھی زیا دہ شدید ہو جا تی ہے ، کیو نکہ عقائد اپنی اہمیت کے ساتھ ضیعف دلا ئل اور کمزور برا ہین سے ثا بت نہیں ہوتے ہیں ،با لخصوص ہمارے زمانہ میں جب کہ ہمارے اور رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نیز سلف صالح کے زمانے میں کافی فا صلہ ہوگیاہے اور ہم پرفرض ہے کہ کافی کو شش و تلا ش کے ساتھ مشکو ک اور گمان آور باتوں سے اجتناب کرتے ہوئے یقینیا ت یقین کرنے والی باتیں یا جو ان سے نز دیک ہوں ان کی طرف رخ کریں، تاکہ ان فتنوں اور جدلی اختلافات اور جنجالوں میں واقع ہونے سے محفوظ رہیںجودین اور امت کے اتحا د کو بزرگترین خطرہ سے دوچار کرتے ہیں۔

شیخ مفید اس سلسلے میں فرما تے ہیں :

'' ہمارا کہنا یہ ہے کہ حق یہ ہے کہ اخبار آحاد سے آگاہی اور ان پر عمل کرناواجب نہیں ہے اور کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ اپنے دین میں خبر واحد کے ذریعہ قطع و یقین تک پہنچے مگر یہ کہ اس خبر کے ہمرا ہ کو ئی قرینہ ہو جو اس کے راوی کے بیان کی صدا قت پر دلا لت کرے ،یہ مذ ہب تمام شیعہ کا اور بہت سے معتز لہ ، محکمہ کا اور مرجئہ کے ایک گروہ کا ہے کہ جو عامہ کے فقیہ نما افراد اوراصحاب رائے کے خلاف ہے ۔''( ۱ )

جی ہاں! عقید تی مسا ئل میں مکتب اہل بیت کے پیرو محتا ط ہیں کیو نکہ اہل بیت نے اپنے ما ننے وا لوں کو احتیاط کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ لوگوں میں سب سے زیادہ صاحب ورع وہ ہے جو شبہا ت کے وقت اپنا قدم روک لے اور احتیا ط سے کام لے۔

بحث کا خاتمہ

اب ہم اپنی بحث کے خاتمہ پرعقائد اسلامی سے متعلق مکتب اہل بیت علیہم السلام کی روش بیان کرنے اس سے اس نتیجہ پر پہنچے کہ اہل بیت کا نہج اور راستہ جیسا کہ گزشتہ صفحات میں بیان ہو چکا ہے کامل اور اکمل نہج اور راستہ ہے ، جو اپنی جگہ پر شناخت کے تمام وسا ئل سے بہر ہ مند ہے ،مثا ل کے طور پر الہٰیا ت کے مسائل اور باری تعالیٰ کے صفات کو تجر بہ کی راہ سے درک نہیں کرتا ، کیونکہ یہ مسا ئل ایسے وسائل کی دسترس سے

____________________

(۱)اوائل المقالات ، ص ۱۰۰،طبع تبریز ۱۳۷۰ ،ھ ش.

۲۱۳

دور ہیں ، اسی طرح ایک وسیلہ پر جمو د اوراڑے رہنے جیسے با طنی اشرا ق اورصوفی عشق و ذوق کو بھی جا ئز نہیں سمجھتا، جس طرح کہ عقل کے بارے میں بھی زیادہ روی اور غلو سے کام نہیں لیتا اور اسے مستقل اور تمام امور (منجملہ ان کے غیب اورنہاں نیز جزئیات معاد) کا درک کرنے والا نہیں جانتا اور وحی (نقل)کے بارے میں کہتا ہے کہ وحی کا درک کرنا نور عقل سے استفادہ کئے بغیر نا ممکن ہے۔

اہل بیت کا مکتب یہ ہے کہ جو بھی روایت ، سنت اور نقل کی صورت میں ہو-جب تک کہ اس کی نسبت کی صحت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ائمہ اور صحا بہ کی طرف ثا بت نہ ہو نیز جب تک اس کا تمام نصوص اورقرآن کی تصریحات سے مقابلہ نہ کرلے اور اس کے عام و خاص ، ناسخ و منسوخ ، محکم و متشا بہ اور حقیقت و مجا ز کو پہچا ن نہ لے، اس وقت -تک اس کے قبول کرنے میں سبقت نہیں کرتا، مختصر یہ کہ مکتب اہل بیت علیہم السلام اس ''اجتہا د '' پر موقوف ہے جونصوص سے شرعی مقصود کے سمجھنے میں جد و جہد اور قوت صرف کرنے اور اپنی تما م تر تو انائی کا استعمال کر نے کے معنی میں ہے، اس کے با وجود نقد وتحقیق اور علمی منا ظرہ اور منا قشہ سے -جب تک عوا طف وجذبات کو بر انگیختہ نہ کیا جائے، یا دشمنی نہ پیدا ہو- نہ صرف یہ کہ منع نہیں کرتا بلکہ اسے راہ پروردگار کی طرف دعوت ، جدال احسن،حکمت اور مو عظۂ حسنہ سمجھتا ہے ، جیسا کہ خدا وند متعال نے فرمایا ہے:

( و الّذین آمنوا وعملو االصا لحا ت لا نُکلّف نفساً اِلَّاو سعها اولآ ئک أصحاب الجنّة هم فیها خا لدون)( ونزعنا ما فی صدورهم من غلّ تجری من تحتهم الأنهاروقالوا ألحمد للّه الذی هدا نا لهٰذا وما کُنا لنهتدی لو لاأن هدا نا ﷲ لقد جائت رُسل ربّنا بالحقّ و نو دوا أن تلکم الجنّةأورثتمو ها بما کنتم تعملون ) ( ۱ )

اورجو لوگ ایمان لا ئے اور عمل صا لح انجام دیا ہم کسی کو اس کی طاقت سے زیا دہ تکلیف نہیں دیتے، وہ اہل بہشت ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے اور جو ان کے دلوں میں کینہ ہے، اسے ہم نے یکسر ختم کردیا ہے ، ان کے نیچے نہریں جا ری ہیں،وہ کہتے ہیں: خدا کی ستا ئش اور اس کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس راستہ کی ہدایت کی'' ایسا راستہ کہ اگر خدا ہماری ہدا یت نہ کرتا تو ہم راہ گم کر جاتے! یقینا ہمارے ربّ کے رسول حق لائے !( '' ایسے مو قع پر) ان سے کہا جا ئے گا : یہ بہشت ان اعمال کے عوض اور بدلے میں جو تم نے انجام دئے ہیں، تمھیںبطور میرا ث ملی ہے ۔

____________________

(۱)اعراف ۴۲،۴۳

۲۱۴

روایات میں آغا ز خلقت اور مخلوقات کے بعض صفات

۱ ۔مسعو دی کی روایت کے مطابق آغاز خلقت:

مسعودی اپنی سند کے ساتھ حضرت امام علی سے روایت کرتا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابتدائے خلقت کو اپنے مختصر سے خطبہ میں اس طرح بیان فرما یا ہے:

''فسح الٔارض علی ظهر الماء ، وأخرج من الماء دخا نا ً فجعله السما ء ، ثم استجلبهما اِلی الطا عة فا ذعنتابا لا ستجا بة ، ثم أنشأ ﷲ الملا ئکة من انٔوار ابٔدعها و ارواح اختر عها ، و قرن بتو حید ه نبوَّ ة محمد صلی ﷲ علیه وآله و سلم فشهرت فِی السماء قبل بعثته فیِ الٔارض ، فلما خلق ﷲ آ دم أ بان فضله للملا ئکة، و أرا هم ما خصّه به من سا بق العلم من حیث عرَّ فه عند استنبا ئه ِ ا يّا ه أ سماء ا لا شیا ء ، فجعل ﷲ آدم محرا باً وکعبة وبا با ً و قبلة أ سجد الیها الٔا بر ار و الر وحا نیین الأ نوار ثم نبّه آدم علی مستو د عه ، وکشف له عن خطر ما ائتمنه علیه ، بعد ما سما ه اِ ما ما ً عند الملا ئکة'' ( ۱ )

اس( خدا )نے پا نی کی پشت پر ز مین بچھا ئی اور پانی سے بھا پ اور دھوا ں نکا لا اور اسے آسما ن بنایا ، پھر ان دونوں کو اطا عت کی دعوت دی ، ان دونوں نے بھی عا جزانہ جو اب دیا اور لبیک کہی، اس کے بعد اس نور سے جسے خود پیدا کیا تھا اور اس روح سے جسے خود ایجا د کیا تھا فرشتوں کی تخلیق کی ، اپنی تو حید و یکتا پر ستی سے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبو ت کو وابستہ کیا اس وجہ سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زمین پر مبعوث ہو نے سے پہلے آسمان پر مشہور تھے ،جب خدا نے حضرت آدم کو خلق کیا تو ان کی فو قیت و بر تری فر شتو ں پربرملاوآشکا ر کی ،نیز علم و دانش کی وہ خصوصیت جو اس نے پہلے ہی حقیقت اشیا ء کے بارے میں خبر دینے کے واسطے آدم کودے رکھی تھی ، فر شتو ں

____________________

(۱)مروج الذہب ، ج۱ ، ص ۴۳

۲۱۵

کوبتائی،پس خدا نے آدم کو محرا ب، کعبہ ، باب اور قبلہ قرار دیا تا کہ نیک لو گ ، رو حا نی اور نو را نی افراد اس کی طرف سجدہ کو آئیں، پھر انھیں (فر شتو ں کے سا منے اما م پکا رنے کے بعد) ان کے اما نت دار ہو نے سے آگاہ کیا اوراس کے خطرات اور ا س کی لغز شو ں کو ان کے سا منے نما یا ں کیا ۔

۲ ۔نہج البلا غہ کے پہلے خطبہ میں خلقت و آفرینش کا آ غاز:

'' أنشا ٔ الخلق اِنشا ئً ، و ابتدأ ه ابتدا ء ً ، بلا رو يّة أ جا لها ، ولا تجر بة استفا د ها ، و لا حر کة أ حد ثها، ولا هما مة نفس اضطر ب فیها، أ حا ل الا شیا ء لاوقا تها ، و لأ م بین مختلفا تها، و غرَّز غرا ئز ها ، و ألز مها أشبا حها؛ عالما ً بها قبل ابتدا ئها ، محیطاً بحدود ها وأنتها ئها ، عا رفا ً بقر ائنها و أحنا ئها، ثمّ أ نشأ سبحا نه فتق الأجوا ئ، و شق الأرجا ئ، و سکا ئک الهوا ئ، فأجری فیها ما ئً متلا طماً تیاّ ره ، مترا کما ً زخّا ره، حمله علی متن الریح العا صفة، والز عزع القا صفة، فأ مر ها بردّه، وسلّطها علی شدّه و قر نها الی حدّه؛ الهواء من تحتها فتیق، و الما ء من فو قها دفیق ، ثم أنشأ سبحا نه ریحا ً اعتقم مهبّها، وأ دا م مر بّها ، و أعصف مجرا ها ، و أبعد منشاها ، فأ مر ها بتصفیق الماء الزّخّا ر، و اِثا رة موج البحا ر، فمخضته مخض السّقا ئ، و عصفت به عصفها با لفضا ئ، تردُّ أوُّ له اِلی آخره و سا جیه اِلی ما ئره، حتیّ عبّ عبا به، و رمی با لزّبد رکامه، فر فعه فی هو اء منفتق، وجوّ منفهق ، فسوی منه سبع سموات جعل سفلا هنَّ موجا ً مکفو فا ً، وعلیا هنَّ سقفا ً محفو ظا ً، و سمکاً مر فوعا ً، بغیرعمد ید عمها ، ولا دسار ینظمها ، ثم زيّنها بز ینة الکوا کب، وضیا ء الثوا قب، وأ جری فیها سرا جاً مستطیرا ً، وقمرا ً منیرا ً، فی فلک دائر، وسقف سائر، ورقیم ما ئر ''

اس نے بغیر غور و خوض اور سابق تجربہ کے اور ہرطرح کی اثر پذیری، انفعا ل اور دا خلی اضطرا ب سے دور مخلوقات کو پیدا کیا اور مو جو دات کو ان کے ظرف زمان میں ایجا د اور ثا بت کیا ،ان کے تفاوت اور اختلاف کو مناسب پیوند اور ان کی سرشت کو ایک خو شگوار تر کیب بخشی، جبکہ خلقت سے پہلے ہی ان کی کیفیت کو جا نتا تھا اور ان کی ابتداء انتہا ء ، حدود اور ما ہیت اور ان کی حقیقت پر محیط تھا، ہر ایک کی فطرت اور سر شت اس کے ملازم اور ہمرا ہ قرار دی۔

پھر فضا کو وسعت بخشی اور اس کے اطراف و اکناف اور ہواؤں کے طبقات ایجاد کئے پھر اس میں مو ج مارتے، سر کش ،مضطرب اور تہ بہ تہ،تلاطم خیز پا نی کوجاری کیا۔

۲۱۶

اور اس کو تند و تیز اور پر صلابت ہواؤ ں کے دائرہ ٔ اقتدار میں دیااور اس کو حکم دیا تاکہ اس کو گرنے اور ٹوٹنے سے روکے اور محکم طور پر اس کے دائرہ ٔ کار میں اس کی حفاظت کرے ، حالانکہ اس کے نیچے ہوا پھیلی اور کھلی ہوئی تھی اور اس کے اوپر پانی اچھلنے اچھل رہا تھا ۔

پھر اس کے بعد دوسری عقیم ہوا پیدا کی تاکہ ہمیشہ پانی کے ساتھ رہے ، اور اسے مرکز پر روک کر اس کے جھونکو ںکو تیز کردیا اور اس کے میدان کو وسیع تر بنا دیا ،پھر اس کو حکم دیا تاکہ اس آب زخار کو تھپیڑے لگائے اور سمندر کی موجوں کو جنبش اور تحریک میں لائے اور دریا کے ٹھہرے ہوئے پانی کو موج آفرینی پر مجبور کرے، چنانچہ اس ہوا نے پر سکون اور ٹھہرے ہوئے دریا کو مشک آب کے مانند متھ ڈالااور اس زور کی ہوا چلی کہ اس کے تھپیڑوں نے اس کے اول و آخر اور ساکن و متحرک ،سب کو آپس میں ملادیا ، یہاں تک کہ پانی کی ایک سطح بلند ہوگئی اور اس کے اوپر تہ بہ تہ جھاگ پیدا ہو گیا پھر اس کے جھاگ کو کھلی ہوئی ہوا اور وسیع فضا میں بلندی پر لے گیا اور اس سے ساتوں آسمان بنائے ایسے آسمان جن کے نچلے طبقہ کو موج ثابت اور اوپری طبقہ کو بلندو محفوظ چھت اور بے ستون سائبان قرار دیا ، پھر ان کو ستاروں اور نورانی شہابوں سے زینت بخشی اور ضو فگن آفتاب اور روشن ماہتاب کی قندیلیں آسمانِ پُر نقش و نگار،فلک دوار، سائبان سیار اور صفحہ ٔ تاباں و زر نگار میں لگائیں ۔

کلمات کی تشریح

۱ ۔''الرّو يّة'' : تفکر اور غور و خوض۔

۲ ۔''هما مة النفس'' : روح کا متا ثر ہو نا اور اثر قبو ل کرنا۔

۳ ۔''أحال الا شیاء لأوقا تها'' مو جو دات کو ان کے ظرف زمان میں عدم سے عا لم وجود میں لایا۔

۴ ۔''لأم'': اتصال اور ہم آہنگی بخشی یعنی ان کے تفاوت و اختلاف کو تناسب و توافق بخشا ، جس طرح جسم و روح کے پیو ند اور اتصال سے انسان کی تر کیب دل آرا کو وجود بخشا:

''( فتبا رک ﷲ أحسن الخا لقین'' )

۲۱۷

۵ ۔''غرَّ ز الغرا ئز'' : غرا ئز غر یز ہ کی جمع سر شت اور طبعیت کے معنی میں ہے یعنی ہر مو جو د میں ایک خا ص سر شت قرار دی۔

۶ ۔''ألز مها أشبا حها'' : شَبَح،اشیا ء کا وہمی سایہ اور ان کی خیالی تصویر اور یہا ں پر مقصود یہ ہے کہ ہر خو اور طبیعت کے مالک کو جدا نہ ہو نے وا لی سر شت اور طبیعت کے ہمرا ہ قرار دیا ہے، مثال کے طو ر پر ایک بہادر اور دلیر انسان ڈر پوک اور خو فزدہ نہیں ہوسکتا۔

۷ ۔''عا رفا ً بقرا ئنها وأحنا ئها'' :

قرا ئن قرین کی جمع مصا حب اور ہمرا ہ کے معنی میں ہے اور احنا ء حَنْو کی جمع، پہلو اور ہر ٹیڑ ھے پن اور کجی کے معنی میں ہے خواہ وہ جثہ ہو یا غیر جثہ لیکن یہا ں پر پو شیدہ چیزوں سے کنا یہ ہے ، یعنی خدا وند عالم تمام موجودات کے تمام صفا ت اور ان کی طبیعتوں، خصلتوں سے آگا ہ اور باخبرہے۔

۸ ۔'' أنشأ سبحا نہ: فتق الأ جواء و شقُّ الأرجاء وسکا ئک الھوائ.

فتق الا جوائ'' فضا ؤ ںکا شگا ف''شق الارجائ'' گرد و نواح اور اطراف کا کشا دہ کرنا ، ''سکا ئک الھوا''فضا اور ہوا کے اوپری حصے یعنی : خدا وند عالم نے کشا دہ فضا اور اس کے ما فوق ہوا کو تمام عالم ہستی کے اطراف میں خلق کیا اور اسے پھیلا دیا۔

۹ ۔'' متلا طم''، ٹھا ٹھیں مارنے والا، تھپیڑے کھا نے والا ، موج مارنے والا۔

۱۰۔'' تیاّ ر '': مو ج، حرکت اور جنبش ۔

۱۱ ۔ ''مترا کم '': ڈھیر، جمع شدہ( تہہ بہ تہہ)۔

۱۲۔''زخاّر'' لبر یز اور ایک پرایک سوار ۔

۱۳ ۔''الریح العا صفہ'' : تیز و تند اور طو فان خیز ہوا۔

۱۴ ۔'' الزَّ عز عُ القا صفھة'': تیز و تند ہوا ،گرج اور کڑک کے ساتھ ہوا ۔

۱۵ ۔'' دفیق'': جہندہ اور اچھلنے والا۔

۱۶ ۔'' اعتقم مھبّھا'' : اس کے چلنے والے رخ کو عقیم اور با نجھ بنا دیا،یعنی اس ہوا کی خا صیت صرف پانی کو تحریک اور جنبش دینا ہے۔

۲۱۸

۱۷ ۔''اَدام مُر بھا'': ہمیشہ اس کے ہمراہ رہی۔

۱۸ ۔''أمر ھا بتصفیقِ الما ء الز ّ خا ر و اثا ر ة مو ج البحا ر''

اسے حکم دیا تا کہ اس لبر یز اور انبوہ کو تھپیڑے لگائے اور اس پر آپ دریا کو جنبش اور ہیجان میں لائے۔

۱۹ ۔'' مخض السقائ'' : وہ مشک جسے گردش دے کر(متھ کر) اس کے اندر دہی سے مکھن نکا لتے ہیں یعنی یہ ہوا اس پا نی کو اس مشک کے مانند گر دش دیتی ہے جس سے مٹھا اور مکھن نکا لتے ہیں۔

۲۰ ۔ ''عصفت بہ عصفا ً با لفضائ'':

اسے شدت کے ساتھ ادھر اورادھرجھکورے دیتی ہے۔

۲۱ ۔''حتّی عب ّ عبا بُہ و رفی با لز بد رکا مہ''

یہاں تک کے ایک دوسرے پر ڈھیر لگ گیا اور اس کی جنبش اور ڈھیر سے جھاگ پیدا ہوگیا ۔

۲۲ ۔ ''مُنفتق'': کھلا ہوا اور کشا دہ۔

۲۳ ۔'' منفھق'' : وسیع و عر یض

۲۴ ۔''سفلیٰ '': نچلا

۲۵ ۔'' عُلیا'' :اوپری۔

۲۶ ۔''مکفو ف'':رکا ہوا ،ٹھہرا ہوا ۔

۲۷ ۔''سمک '': بلند چھت۔

۲۸ ۔ '' دسا ر'': مسمار، کیل، ریسمان اور بندھن۔

۲۹ ۔ ''ثوا قب'' : ثا قب کی جمع ہے نور افشان یا نو را نی شہا ب۔

۳۰ ۔''فلک '': آسمان۔

۳۱ ۔''رقیم'' : متحر ک لو ح اور صفحہ۔

۲۱۹

قرآن کریم میں '' کَوْن و ہستی ''یا'' عا لم طبیعت ''( ۱ )

کلمۂ'' کون'' اور'' ہستی'' خارجی مو جو دات اور ظوا ہر طبیعت کو بیان کرتا ہے یعنی تمام مخلو قات انسان ، حیوان ، ستارے، سیارے، کہکشا ں اور دیگر مو جودات سب کو شا مل ہے۔

''کون '' اور '' ہستی'''' مک میلا ن''( ۲ ) کے دائرة المعارف کے مطا بق ، ان اجسام کے مجموعہ سے مرکب ہے جو شنا خت کے قا بل ہیں ، جیسے : زمین ، چا ند، سورج ، اجرام منظو مۂ شمشی ، کہکشائیں اور ان کے درمیان کی دیگر اشیاء ، اسی طرح چٹا نوں، معادن ( کا نیں ) مٹی، گیس، حیوا نات ، انسان اور دیگر ثابت اور متحرک اجسام کو بھی شا مل ہے۔

منجمین اور ماہرین فلکیات نے مجبوری اور نا چا ری کی بناپر لفط'' کون'' کوآسمانی فضا اور اجرام کے معنی میں استعمال کیاہے، جبکہ مجموعہ ہستی کی وسعت اور کشادگی اتنی ہے کہ زمین آسمان، چاند سورج اور دیگر سیا رے اس بیکراں، وسیع و عریض مجموعہ کے چھو ٹے چھوٹے نقطے ہیں یہ خورشید اس کہکشا ں کا صرف ایک ستارہ ہے کہ جس میں سو ملین( ایک ارب) کے قریب ستارے پائے جاتے ہیں ! اور یہی ہماری زمین اور وہ دیگر سیارے جو سورج کے ارد گرد چکر لگا تے ہیں اور اس عا لم کے نظم کو وجود میں لا تے ہیں ، ہم انسا نوں کی نگا ہ میں بہت عظیم اور وسیع نظر آتے ہیں۔

ہماری زمین سے سورج کا فا صلہ تقر یبا ً ۹۳ملین میل کا ہے اور یہ انسان کی نظر میں کا فی لمبی اور طولانی

____________________

(۱) اقتباس از مقالہ ٔ '' حافظ محمد سلیم '' ،مجلۂ ثقافتی ، نشریہ ٔ سفارت پاکستان ، دمشق، فروری ۔مارچ ، ۱۹۹۱ ئ.

(۲) MACMILLAN ENCILOPEDIA

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303