اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

اسلام کے عقائد(دوسری جلد )0%

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

اسلام کے عقائد(دوسری جلد )

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

صفحے: 303
مشاہدے: 117637
ڈاؤنلوڈ: 4091


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 117637 / ڈاؤنلوڈ: 4091
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(دوسری جلد )

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد 2

مؤلف:
اردو

وہ لوگ جو آحاد اور ضیعف روایات کوعقائد میں قبو ل کرتے ہیں اور اس کا شد ت کے سا تھ دفاع کرتے ہیں ، نیز اسی بنا پر مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں،''سلفی حضرات '' اور اہل سنت کے اخبا ریوں کو تو جہ کر نا چاہئے کہ روایات میں '' حق و باطل اورسچ وجھوٹ ، ناسخ و منسوخ ،عا م و خاص، محکم و متشا بہ حفظ ( حقیقت )ووہم ''سب کچھ پائے جاتے ہیں ۔( ۱ )

بہت جلد ہی اس مو ضو ع کی مز ید شرح و وضا حت پیش کی جائے گی۔

____________________

(۱) نہج البلاغہ : خطبہ ۲۱۰.

۲۰۱

۳۔ اسلامی عقائد دو حصّوں پر مشتمل ہیں: ضروری و نظری:

ضروری اسلامی عقائد:

ضروری وہ ہیں جن کا کوئی مسلما ن انکا ر نہیں کرتا مگر یہ کہ دین کے دائرہ سے خارج ہو جائے کیو نکہ ضروری کا شمار ، دین کے بدیہیات وواضحات میں ہو تا ہے جیسے: تو حید ، نبوت اور معا دوغیرہ۔

نظری اسلامی عقائد:

نظری وہ ہیں جو تحقیق و بر ہان ، شاہد و دلیل کا محتا ج ہو اور اس میں صاحبان آراء و مذا ہب کا اختلاف ممکن ہو ، ضروری عقائد کا منکر کافر ہو جاتا ہے لیکن نظری عقائدکے منکر تکفیر سے روکا گیا ہے۔

۴۔ عقیدہ میں قیا س اور استحسان کی کوئی اہمیت نہیں جا نتے ہیں۔

۵۔ حکم صریح عقلی کی حکم صحیح نقلی سے مقافقت پر ایما ن رکھتے ہیں اس شرط کے ساتھ کہ تمام اوصا ف لازم کی ان دونوں میں ر عایت کی گئی ہو اور کبھی بھی ظن و گمان کو یقین کی جگہ قرار نہیں دیتے وہ لوگ کبھی ضیعف خبر سے استناد نہیں کرتے اور نہ ہی خبر واحد کو صحیح متو اتر کی جگہ اپنا تے ہیں۔

۶۔ ذاتی اجتہا د، خیال بافی اور گمان آفرینی سے عقائد میں اجتناب کرتے ہوئے ان تعبیروں سے جو بدعت شمار ہو تی ہیں کنارہ کشی اختیا ر کر تے ہیں ۔

۷۔ ﷲ کے تمام انبیاء اوربارہ ا ئمہ کو صلوا ت ﷲ اجمعین معصو م جانتے ہیں اور اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے آثار نیز صحیح و معتبر روایات پر ایمان رکھنا وا جب ہے اور مجتہد ین حضرات ان آثا ر میں کبھی درست اور صوا ب کی راہ اختیا ر کرتے ہیں تو کبھی خطا کر جاتے ہیں ، لیکن وہ اجتہا د کی تما م شرطوں کی رعا یت کریں اور اپنی تمام کوششوں اورصلا حیتوں کو بروئے کار لائیں تو معذورقرار پائیں گے ۔

۸۔ امت کے درمیا ن ایسے لوگ بھی ہیں جنھیں ''محدَّث'' اور'' مُلھَم'' کہتے ہیں : نیز ایسے لوگ بھی ہیں جو صحیح خواب دیکھتے ہیں اور اس کے ذریعہ حقائق تک رسائی حا صل کرتے ہیں ،لیکن یہ ساری باتیں اثبات چاہتی ہیں اور ان کااستعمال ذاتی عقیدہ کی حد تک ہے اوراس پر عمل انفرادی دائرہ سے آگے نہیں بڑھتا۔

۲۰۲

۹۔عقائد میں منا ظرہ اور منا قشہ اگر افہا م و تفہیم کے قصد سے آداب تقویٰ کی رعا یت کے ساتھ ہو تو پسند یدہ ہے، لیکن یہ انسان کا فریضہ ہے کہ جو نہیں جانتا اس کے بارے میں کچھ نہ کہے ،بحث ومنا ظرہ اگر ضد،ہٹ دھرمی ، خود نمائی کے ساتھ نا زیبا کلمات اور بد اخلا قی کے ذریعہ ہو تو یہ امر نا پسندیدہ اور قبیح ہے اور اس سے عقیدہ کی حفا ظت کے لئے اجتناب واجب ہے۔

۱۰ ۔ ''بدعت''دین کے نام پر ایک اختراعی اور جعلی چیز ہے جو کہ دین سے تعلق نہیں رکھتی اور نہ ہی شریعت میں کوئی اصل رکھتی ہے کبھی ایسی چیز کو بھی '' بدعت'' کہہ دیتے ہیں کہ اگر دقت اور غور و خو ض سے کام لیا جائے تو وہ '' بدعت'' نہیں ہے، جیسا کہ بعض ان چیزوں کو جو'' سنت'' نہیں ہیں سنت کہہ دیتے ہیں ، لہٰذا فتویٰ دینے سے پہلے غور و فکر کر نا لا زم ہے۔( ۱ )

۱۱ ۔''تکفیر'' کے بارے میں غور و فکر اور دقت نظر واجب ہے اس لئے کہ جب تک کسی کا کفر خود اس کے قرار یا قطعی بینہ ذریعہ ثابت نہ ہو اس کے بارے میں کفر کا حکم جائیز نہیں ہے ، کیو نکہ( تکفیر) حد شر عی کا با عث ہے اور حد شرعی کے بارے میں فقہی قاعدہ یہ ہے کہ ''اِنَّ الحدود تدرأبالشبھا ت'' حدود شبہات سے بر طرف ہو جاتے ہیں اور دوسروںکو کافر سمجھنا عظیم گنا ہ ہے مگر یہ کہ حق ہو۔

۱۲ ۔ اختلا فی موارد میں '' کتاب، سنت اور عترت'' کی طرف رجوع کرنا واجب ہے جیسا کہ رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا ہے اور خدا وند عالم اس کے بارے میں فرما تا ہے:

( و لو ردُّوهُ أِلی الرسو ل و أِلی أولی الأمر منهم لعلمه الذین یستنبطو نه منهم و لولافضل ﷲ علیکم و رحمته لا تَّبعتُمُ الشَّیطان اِلاَّ قلیلا ً ) ( ۲ )

اوراگر( حوادث اور پیش آنے والی باتوں کے سلسلہ میں ) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور صاحبان امرکی طرف رجوع کریں تو انہیںبنیا دی مسا ئل سے آگا ہی و آشنائی ہو جائے گی ، اگر تم پرخدا کی رحمت اور اس کا فضل نہ ہو تا تو کچھ لوگوں کے علا وہ تم سب کے سب شیطان کی پیروی کرتے۔

____________________

(۱)سید مرتضی علی ابن الحسین الموسوی ( وفات ۴۳۶ ھ ، رسائل الشریف المرتضی ، رسالة الحدود والحقائق.

(۲) نساء ۸۳

۲۰۳

۱۳ ۔ خدا وند عالم کے صفات سے متعلق اہل بیت کا نظریہ یہ ہے:

'' خدا وند عالم؛ حی ،قادر اور اس کا علم ذاتی ہے ، یعنی حیات ،قدرت اورعلم عین ذات ِ باری تعا لیٰ ہے، خدا وند سبحان( مشبہّہ اور بد عت گزا روں جیسے ابو ہا شم جبائی کے قول کے بر خلاف) زائد بر ذات صفات و

احوال سے منزہ و مبرا ہے، یہ ایسا نظریہ ہے جس پر تمام اما میہ اور معتز لہ( ما سوا ان لوگو ں کے جن کا ہم نے نام لیا ہے ) اکثر مر جئہ تمام زیدیہ اور اصحا ب حدیث و حکمت کے ایک گروہ کا اتفاق ہے( ۱ ) ان کا اثبا ت و تعطیل کے درمیا ن ایک نظریہ ہے یعنی با و جو د یکہ خدا وند سبحا ن کو زا ئد بر ذات صفات رکھنے سے منزہ جانتے ہیں لیکن ﷲ کے اسمائے حسنیٰ اور صفات سے متعلق بحث کو ممنوع اور بے فا ئدہ نہیں جانتے ہیں''۔

۱۴ ۔وہ لوگ '' حسن و قبح'' عقلی کے معتقد ہیں اور کہتے ہیں : بعض اشیاء کے '' حسن و قبح'' کا درک کرنا عقل کے نزدیک بد یہی اور آشکار ہے۔

____________________

(۱)شیخ مفید؛'' اوا ئل المقا لات'' ص ۱۸

۲۰۴

اہل بیت کی راہ قرآ ن کی راہ ہے

اسلامی عقا ئد میں مکتب اہل بیت کوجب بد یہی معلو مات اور باعظمت یقینیات کے ساتھ موازنہ کیا جاتاہے تو اس کی فوقیت و برتری کی تجلی کچھ زیادہ ہی نمایاںہو جاتی ہے، ہم اس کے کچھ نمو نوں کی طرف اشارہ کررہے ہیں:

۱ ۔ تو حید کے بارے میں :

توحید کے سلسلے میں اہل بیت کا مکتب قرآن کریم کی تعلیم کی بنیا د پر خدا وند عالم کو مخلوقات سے ہر قسم کی تشبیہ اور مثال و نظیر سے بطور مطلق منزہ قرار دیتا ہے جیسا کہ ارشاد ہوا :

( لیس کمثله شیئ وهو السمیع البصیر ) ( ۱ )

کوئی چیز اس ( خدا ) کے جیسی نہیں ہے اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے ۔

اسی طرح نگا ہوں سے رویت خدا وندی کو قرآن کریم کے الہام کے ذریعہ مردود جانتا ہے ، جیسا کہ ارشاد ہوا:( لا تد رکه الأبصا روهوید رک الأبصاروهواللّطیف الخبیر ) ( ۲ )

نگا ہیں ( آنکھیں ) اسے نہیں دیکھتیں لیکن وہ تمام آنکھو ں کو دیکھتا ہے اور وہ لطیف و آگا ہ ہے۔

نیز مخلوقات کے صفات سے خدا کی تو صیف کر نا مخلو قات کی طرف سے نا ممکن جا نتا ہے ، جیسا کہ ارشاد ہوا:

الف ۔( سبحا نه وتعا لیٰ عمّایصفون ) ( ۳ )

جو کچھ وہ تو صیف کرتے ہیں خدا اس سے منزہ اور بر تر ہے!

ب ۔( سبحان ربک ربّ العزّة عمّایصفون ) ( ۴ )

____________________

(۱)شوری ۱۱

(۲) انعام ۱۰۳

(۳) انعام ۱۰۰

(۴)صافات۱۸۰

۲۰۵

تمہا را پروردگارپروردگا رِ عزت ان کی تو صیف سے منزہ اور مبرا ہے ۔

۲ ۔عدل کے بارے میں :

مکتب اہل بیت نے خدا سے ہر قسم کے ظلم وستم کی نفی کی ہے اور ذات باری تعا لیٰ کو عد ل مطلق جا نتا ہے،جیسا کہ خدا وند عالم نے فرمایا :

الف۔( اِنّ ﷲ لایظلم مثقال ذرة )

بیشک خدا وند عالم ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا ۔

ب۔( ان ﷲ لایظلم الناس شیئاً و لکن الناس أنفسهم یظلمون ) ( ۱ )

بیشک خداوند عا لم لوگوں کے اوپر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا بلکہ لوگ خود اپنے اوپر کچھ بھی ظلم کرتے ہیں ۔

۳۔ نبوت کے بارے میں :

نبوت کے بارے میں مکتب اہل بیت کا نظریہ یہ ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام مطلقاً معصوم ہیں ، کیونکہ خدا وند عالم کا ارشاد ہے :

الف: ۔( وما کا ن لنبیٍ أن یغلّ ومن یغلل یأت بماغلّ یوم القیامة ) ( ۲ )

اور کوئی پیغمبر خیا نت نہیں کرتااورجو خیا نت کرے گاقیا مت کے دن جس چیز میں خیانت کی ہے اسے اپنے ہمرا ہ لائے گا۔

ب:۔( قل اِنیّ أخاف اِن عصیت ربیّ عذا ب یومٍ عظیمٍ ) ( ۳ )

( اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم )کہہ دو! میں بھی اگر اپنے رب کی نافرمانی کروں تواس عظیم دن کے عذا ب سے خوف زدہ ہوں۔

ج :۔( ولو تقوَّل علینا بعض الأقا ویلِ)(لاخذ نا منه با لیمین ثُمَّ لقطعنا منه الوتین ) ( ۴ )

اگر وہ (پیغمبر) ہم پر جھوٹا الزام لگا تا تو ہم ا سے قدرت کے ساتھ پکڑ لیتے، پھر اس کے دل کی رگ کو قطع کر دیتے۔

اسی طرح مکتب اہل بیت تمام فر شتوں کو بھی معصوم جا نتا ہے ، کیو نکہ خدا وند عالم نے فرمایا ہے:

____________________

(۱)یونس ۴۴ (۲) آل عمران ۱۶۱ (۳) انعام ۱۵. (۴)حاقہ۴۴۔۴۶

۲۰۶

( علیهاملا ئکة غلا ظ شدا دلا یعصو ن ﷲ ماأمر هم ویفعلو ن ما یؤمرون )

اُس ( جہنم ) پر سخت گیر اور درشت مزا ج فرشتے مامور ہیں اور کبھی خدا کی جس کے بارے میں اس نے حکم دیا ہے نا فرما نی نہیں کرتے اور جس پر وہ مامور ہیںاس پر عمل کرتے ہیں۔( ۱ )

۴ ۔امامت کے بارے میں :

مکتب اہل بیت کہتا ہے : امامت یعنی ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دینی اور دنیا وی امور میں نیا بت یہ ایک ایسا ﷲ کا عہد و پیمان ہے کہ جو غیر معصوم کو نہیں ملتا ، کیو نکہ ، خدا وند عالم نے فرمایا ہے:

( واِذ ابتلیٰ اِبرا هیم ربُّه بکلما ت فا تمّهنّ قال اِنّی جا علک للناس اِماما ً قال و من ذُرّ یتی قال لا ینا ل عهدی الظّالمین ) ( ۲ )

اور جب ابرا ہیم ـکو ان کے رب ّ نے چند کلمات ( طریقو ں ) سے آزمایا اور وہ بحسن و خوبی اس سے عہدہ بر آہو گئے تو خدا وند عالم نے فر مایا : میں نے تم کو لوگو ں کا امام اور پیشوا قرار دیا ! ابرا ہیم نے عرض کیا : میری ذریت میں بھی اس عہد کو قرار دے گا؟ فر مایا : میرا یہ عہد ظالموں کو نصیب نہیں ہو گا ۔

آیت شریفہ کے (مضمو ن اور ابرا ہیم کے امتحا ن دینے کی کیفیت) سے نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ تمام رسولوں ، انبیاء اور ائمہ کے خوا ب جھوٹ سے محفو ظ بلکہ صادق ہوتے ہیں اور خدا وند عالم انھیں خواب میں بھی غلطی اور اشتباہ سے محفوظ رکھتا ہے ۔( ۳ )

جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے وہ راہ اہل بیت کی قرآن کریم سے مطا بقت اور ہماہنگی کا ایک نمونہ تھا۔

____________________

(۱) تحریم۶

(۲) بقرہ ۱۲۴

(۳) شیخ مفید ، اوائل المقا لا ت، ص ۴۱۔

۲۰۷

مکتب اہل بیت میں ''عقل'' کا مقام

مکتب اہل بیت کا نظریہ عقل کے استعمال اور اس کی اہمیت کے متعلق ایک درمیا نی نظریہ ہے جو معتزلہ کی تند روئی اور شدت پسندی سے اور اہل حدیث کے ظاہر بین افراد کی سستی اور جمود سے محفو ظ ہے ۔

شیخ مفید(متوفی ۴۱۳ ھ) کہتے ہیں:

یہ جو بات اما میہ کے مخا لفین کہتے ہیں:'' تمہا رے ائمہ کی امامت پر صر یح اخبار تو اتر کی حد کو نہیں پہنچتے ہیں اور آحاد خبریں حجت نہیں ہیں'' ہمارے مکتب کے لئے ضرر رساں نہیںہے اور ہماری حجت و دلیل کو بے اعتبار نہیںکرتی ، کیو نکہ ہماری خبریں '' عقلی دلا ئل کے ہمراہ ہے ، یعنی وہ دلا ئل ما ضی میں جن کی تفصیل اما موں کی امامت اور ان کے صفا ت کے بارے میں گزر چکی ہے ، وہ دلا ئل (جیسا ہمارے مخا لفین نے تصور کیا ہے) اگر باطل ہوں ، تو '' ائمہ پر نص کے وجوب کے عقلی دلا ئل'' بھی باطل ہو جائیں گے ۔''( ۱ )

اور یہ بھی کہتے ہیں:'' ہم خدا کی مرضی اور اس کی تو فیق سے ، اس کتا ب میں مکتب شیعہ اور مکتب معتزلہ کے درمیا ن فرق اور عدلیہ شیعہ اور عدلیہ معتز لہ کے درمیا ن افترا ق وجدا ئی کے اسباب کا اثبات کریں گے۔''( ۲ )

شیخ صدوق محمدبن با بویہ (متوفی ۳۸۱ ھ) فر ماتے ہیں: '' خدا وند عالم کسی سبب کی سمت دعوت نہیں دیتا مگر یہ کہ اس کی حقا نیت کو عقو ل میں اجاگر کر دے اور اگر اس کی حقانیت کو عقلوں میں اجاگر اور روشن نہ کیا ہو تو دعوت نا روا اور بے جا ہو گی اور حجت نا تمام کہلا ئے گی ، کیو نکہ اشیا ء اپنے اشکال کو جمع کرنے والی اور اپنی ضد کے بارے میں خبر دینے وا لی ہیں، لہٰذا اگر عقل میں رسو لوں کے انکا ر کی جگہ اور گنجائش ہو تی تو خداوندعالم کسی پیغمبر کو ہرگزمبعوث نہ کرتا۔ ''( ۳ )

____________________

(۱)شیخ مفید؛ '' المسائل الجارودیہ'' ص۴۶، طبع، شیخ مفید،ہزار سالہ عالمیکانفرنس ،قم، ۱۴۱۳ھ

(۲)شیخ مفید؛ ''اوائل المقالات فی المذاہب و المختارات''

(۳) ابن بابویہ ؛ ''کمال الدین و تمام النعمة '' طبع سنگی ، تہران ، ۱۳۰۱ ھ

۲۰۸

مزید کہتے ہیں: اس سلسلہ میں صحیح بات یہ ہے کہ کہا جا ئے : ہم نے خدا کو اس کی تا ئید و نصرت سے پہچانا، کیو نکہ ، اگر خدا کو اپنی عقل کے ذریعہ پہچا نا تو وہی عقل عطا کر نے والا ہے اور اگر ہم نے اسے انبیائ، رسولوں اور اس کی حجتوں کے ذریعہ پہچا نا تو اسی نے تمام انبیاء رسو لوں اور ائمہ کا انتخاب کیا ہے اور اگر اپنے نفس کے ذریعہ معر فت حا صل کی تو اس کا بھی وجو د میں لا نے وا لا خدا وند ذوالجلا ل ہے لہٰذا اسی کے ذریعہ ہم نے اس کو پہچا نا۔ ''( ۱ )

اس طرح سے عقل کا استعمال اور اس سے استفا دہ کر نا ، یعنی اس کا کتاب ، سنت اور ائمہ معصو مین کے ہمرا ہ کر نا اہل بیت کی رو ش کے علاوہ کہیں کسی دوسری اسلا می روش میں نہیں ملتا ہے۔

امام جعفر صادق ـاس سلسلہ میں فر ماتے ہیں :''لولا الله ماعرفنا ولولانحن ماعرف الله '' اگر خدا نہ ہو تا تو ہم پہچا نے نہیںجاتے اور اگر ہم نہ ہوتے تو خدا پہچا نا نہیں جاتا۔( ۲ )

اس حدیث کی شرح میں شیخ صدوق کہتے ہیں: یعنی اگر خدا کی حجتیں نہ ہو تیں تو خدا جیسا کہ وہ مستحق اور سزا وار ہے پہچا نا نہیں جاتا اور اگر خدا نہ ہو تا تو خدا کی حجتیں پہچا نی نہیں جاتیں۔''( ۳ )

کلا می منا ظرہ اور اہل بیت ـ کا نظریہ

گزشتہ بحثو ں میں ان لوگو ں کے نظر یہ سے آگا ہ ہوچکے جو دین میں بطور مطلق ہر طرح کے بحث و مناظرہ کو ممنو ع جانتے ہیں نیز ان لو گوں کے نظریہ سے آشنا ہو ئے جو معتدل رہتے ہوئے اقسام منا ظرہ کے درمیان تفصیل اور جدائی کے قا ئل ہیں۔

اہل بیت کی روش بھی اس سلسلے میں معتدل اوردر میا نی ہے، وہ لوگ کتاب خدا وند ی کی پیر وی میں جدال کی دو قسم کرتے ہیں:

۱ ۔جدا ل حسن

۲ ۔ جدا ل قبیح

خدا وند متعال فرما تا ہے:

____________________

(۱) توحید شیخ صدوق ؛ ص ۲۹۰.(۲)توحید صدو ق، ص۲۹۰(۳)توحید صدو ق، ص۲۹۰

۲۰۹

( اُدع اِلیٰ سبیل ربک بالحکمة والموعظة الحسنة وجادلهم با لتی هی احسن اِنَّ ربّک هواعلم بمن ضلَّ عن سبیله وهوأعلم بالمهتدین )

( لوگو ں کو) حکمت اور نیک مو عظہ کے ذریعہ سے اپنے ربّ کے راستہ کی طرف دعوت دو اور ان سے نیک روش سے جدا ل و منا ظرہ کرو تمہا را ربّ ان لوگوں کے حال سے جو اس کی راہ سے بھٹک چکے اور گمراہ ہوگئے ہیں زیا دہ وا قف ہے اور وہی ہدا یت یا فتہ افراد کو بہتر جانتا ہے۔( ۱ )

اس سلسلہ میں شیخ مفید فر ماتے ہیں:

( ہمارے ائمہ)صادقین نے اپنے شیعوں کے ایک گروہ کو حکم دیا کہ وہ اظہا ر حق سے بازرہیں اوراپنا تحفظ کریں'' اور حق کو اپنے اندر دین کے دشمنو ں سے چھپا ئے رکھیں اوران سے ملا قات کے وقت اس طرح برتاؤ کریں کہ مخا لف ہونے کا شبہ ان کے ذہن سے نکل جائے، کیو نکہ یہ روش اس گروہ کے حا ل کے لئے زیا دہ مفید تھی ، نیز اسی حا ل میں شیعوں کے ایک دوسرے گروہ کو حکم دیا کہ مخا لفین سے بحث و مناظرہ کرکے انھیں حق کی سمت دعوت دیں ،کیو نکہ ہما رے ائمہ جا نتے تھے کہ اس طریقہ سے انھیں کو ئی نقصان نہیں پہنچے گا۔''( ۲ )

شیخ مفید کی اپنی گفتگو میں '' صا دقین'' سے مراد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عترت سے '' منصوص ائمہ'' ہیں کہ خداوندعالم نے اپنی کتا ب میں جن کی طہارت کی گو ا ہی دی اور انھیں گناہ و معصیت سے پاک و پاکیزہ قرار دیا اور انھیں مخا طب قرار دے کر فر مایا ہے:

( اِنّما یر ید ﷲ لیذ هب عنکم الرّجس أهل البیت ویطهِّرَکم تطهیرا ً ) ( ۳ )

خدا وند عالم کا صرف یہ ارادہ ہے کہ تم اہل بیت سے ہر قسم کے رجس کو دور رکھے اور تمھیں پاک و پاکیز ہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

خدا وند عالم نے امت اسلامی کو بھی تقوائے الٰہی اور عقیدہ و عمل میں ان حضرات کی ہمرا ہی کی طرف دعوت دیتے ہو ئے فر ماتا ہے:

( یا أیها الذ ین آ منوا اتّقوا ﷲ وکونو امع الصَّا دقین ) ( ۴ )

اے اہل ایمان ! تقوائے الٰہی اختیا ر کرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ!

____________________

(۱)نحل ۱۲۵(۲)شیخ مفید ؛'' تصحیح الاعتقاد ''ص ۶۶.(۳) احزاب ۳۳ .(۴)توبہ ۱۱۹.

۲۱۰

بیشک وہ ایسے امام ہیں جن کے اسما ئے گرامی کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صرا حت کے ساتھ بیان فر مایا اور ہر ایک امام نے اپنے بعد والے امام کا بارہ اماموں تک واضح اور آشکار تعار ف کرا یا ہے، ان کے اولین وآخرین کے نام اور عدد پر نص اورصراحت رسول گرامیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت میں مو جو د ہے ، جو چا ہے رجو ع کر سکتا ہے۔( ۱ )

عقل وحی کی محتا ج ہے

منجملہ ان باتوں کے جو عقل و شرع کے درمیان ملا زمہ کے متعلق مکتب اہل بیت میں تا کید کرتی ہیں وہ صدوق رحمة ﷲ علیہ کی یہ بات ہے ،وہ کہتے ہیں:( عقل وحی کی محتا ج ہے) لیکن حضرت ابرا ہیم خلیل کا استدلال کہ ز ہرہ کی طرف نظر کر کے اس کے بعد چا ند اس کے بعد سورج کی طرف نظر کرکے ان کے ڈوبنے کے وقت کہا :

( یا قوم اِنّی بریٔ ممّا تشرکون ) ( ۲ )

اے میری قوم! میں ان شر کا ء سے جو تم خدا کے لئے قرار دیتے ہو بیزار ہوں۔

یہ کلام اس وجہ سے تھا کہ آپ ملہم نبی اور الہام خدا وندی کے ذریعہ مبعوث پیغمبر تھے، کیو نکہ خدا وند عالم نے خود ہی فر مایا ہے:

( و تلک حُجَّتُنا ئَ اتینا ها اِبرا هیم علیٰ قو مه ) ( ۳ )

یہ ہمارے دلا ئل تھے جن کو ہم نے ابرا ہیم کو ان کی قوم کے مقا بلہ میں عطا کیا ۔

اور تما م لوگ ابرا ہیم کے مانند ( غیبی الہام کے مالک) نہیں ہیں ، اگر ہم تو حید کی شنا خت میں خدا کی نصرت اوراس کی شناسائی کرا نے سے بے نیاز ہو تے اور عقلی شنا خت ہمارے لئے کا فی ہو تی تو خدا وند سبحان پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نہیں فرماتا:

( فا علم ٔانّه لا اِله اِلاَّ ﷲ ) ( ۴ )

پھر جان لو کہ ﷲ کے علا وہ کو ئی معبو د نہیں ہے۔

ابن بابویہ کی مراد یہ ہے کہ عقل بغیر وحی کی نصرت و تا ئید کے جیسا خدا کو پہچا ننا چاہئے نہیں پہچا ن سکتی ، نہ

____________________

(۱)ابن عباس،جوہری '' مقتضب الاثر فی ا لنص علی عدد الائمہ الاثنی عشر''؛ابن طولون الدمشقی، الشذرات الذھبیہ فی ائمہ الاثناء عشریہ''؛المفید، المسائل الجارودےة ،ص ۴۵، ۴۶.طبع ہزار سالہ شیخ مفید کانفرس قم،۱۳ ۱۴ھ ؛''اثبات الھداةبالنصوص والمعجزات''شیخ حر عاملی تحقیق: ابو طالب تجلیل طبع قم، ۱۴۰۱ھ ، ملاحظہ ہو

(۲) سورہ انعام ۷۸.(۳)سورہ انعام ۸۳. (۴)سورہ محمد ۱۹.

۲۱۱

یہ کہ عقلی نتا ئج بے اعتبار ہیں۔( ۱ )

یہی مطلب شیخ مفید کی بات کا بھی ہے کہ فر ماتے ہیں : عقل مقد مات اور نتا ئج میں وحی کی محتا ج ہے۔( ۲ )

لیکن اسی حال میں ،وہ خو د عقل کے استعما ل کو عقائد اسلا می کے سمجھنے میں تقو یت دیتے ہیں اور کہتے ہیں: خدا کے بارے میں گفتگو کر نے کی مما نعت صرف اس لئے ہے کہ خلق سے خدا کی مشا بہت اور ظلم و ستم کی خالق کی طرف نسبت دینے سے لوگ با ز آئیں۔( ۳ )

انھوں نے عقل و نظر کے استعمال کے لئے مخا لفین سے احتجا ج کرنے میں دلیل پیش کی ہے اور ان لوگوں کو فکر (رائے )و نظر کے اعتبا ر سے نا تواں اور ضعیف تصور کرتے ہوئے فر ما تے ہیں :

'' عقل و نظر کے استعما ل سے رو گردانی کی باز گزشت تقلید کی طرف ہے کہ جس پر پوری امت کا اتفاق ہے کہ وہ مذموم اور نا پسند ہے۔''( ۴ )

نقل کا مرتبہ

پہلے ہم ذکر کر چکے ہیں کہ '' عقل '' اہل بیت کے مکتب میں اپنی تمام تر ارزش و اہمیت کے با وجود ''معرفت دینی '' میں نور وحی سے بے نیا ز نہیں ہے اور اس سے کو ئی بھی کلا می اور اسلامی مکتب فکر انکا ر نہیں کرتا، جو کچھ بحث ہے نقل پر اعتماد کے حدود کے سلسلے میں ہے ، کیو نکہ نقل ( یہا ں پر اس سے مراد حدیث ہے چو نکہ قرآن کریم کی نقل متو اتر اور قطعی ہے ) کبھی ہم تک متو اتر صورت میں پہنچتی ہے ، یعنی راویوں اور نا قلین کی کثرت کی وجہ سے ہر طرح کے شکو ک و شبہا ت بر طرف ہو جاتے ہیں، اس طرح سے کہ انسان کو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یا عترت طاہرہ یا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب سے حدیث صا در ہو نے کا اطمینا ن پیدا ہو جاتا ہے، لیکن کبھی حدیث اس حد کو نہیں پہنچتی ہے، بلکہ صرف ظن قوی یا گمان ضعیف حا صل ہو تا ہے اور کبھی اس حد تک پہنچتی ہے کہ اسے خبر واحد کہتے ہیں ، یعنی وہ خبر جو ایک آدمی نے روایت کی ہو اورصرف ایک شخص اس خبرکے معصو م سے صا در ہو نے کا مد ّ عی ہواس حالت میں بھی بہت سارے مقا مات پر شک و جہل کی طرف ما ئل ظن اور گمان پیدا ہوتا ہے۔

مکتب اہل بیت کا اس آخری حالت میں موقف یہ ہے:

____________________

(۱) توحید :ص ۲۹۲.(۲)شیخ مفید ؛ '' اوائل المقالات '' ص ۱۱۔۱۲.(۳)تصحیح الاعتقاد بصواب الانتقاد : ص ۲۶، ۲۷.(۴)تصحیح الاعتقاد بصواب الانتقاد : ص ۲۸، طبع شدہ یا اوائل المقالات ، تبریز ، ۱۳۷۰ ، ھ ، ش

۲۱۲

'' اس طرح کی روایات کے صدق و صحت پر اگر کوئی قرینہ نہ ہو توقا بل اعتماد اور لا ئق استنا د نہیں ہیں۔''

عقائد میں خبر واحد کا بے اعتبار ہو نا

مکتب اہل بیت میں خبر واحد پر بے اعتما دی جب عقید تی مسا ئل تک پہنچتی ہے توجو کچھ ہم نے کہا اس سے بھی زیا دہ شدید ہو جا تی ہے ، کیو نکہ عقائد اپنی اہمیت کے ساتھ ضیعف دلا ئل اور کمزور برا ہین سے ثا بت نہیں ہوتے ہیں ،با لخصوص ہمارے زمانہ میں جب کہ ہمارے اور رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نیز سلف صالح کے زمانے میں کافی فا صلہ ہوگیاہے اور ہم پرفرض ہے کہ کافی کو شش و تلا ش کے ساتھ مشکو ک اور گمان آور باتوں سے اجتناب کرتے ہوئے یقینیا ت یقین کرنے والی باتیں یا جو ان سے نز دیک ہوں ان کی طرف رخ کریں، تاکہ ان فتنوں اور جدلی اختلافات اور جنجالوں میں واقع ہونے سے محفوظ رہیںجودین اور امت کے اتحا د کو بزرگترین خطرہ سے دوچار کرتے ہیں۔

شیخ مفید اس سلسلے میں فرما تے ہیں :

'' ہمارا کہنا یہ ہے کہ حق یہ ہے کہ اخبار آحاد سے آگاہی اور ان پر عمل کرناواجب نہیں ہے اور کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ اپنے دین میں خبر واحد کے ذریعہ قطع و یقین تک پہنچے مگر یہ کہ اس خبر کے ہمرا ہ کو ئی قرینہ ہو جو اس کے راوی کے بیان کی صدا قت پر دلا لت کرے ،یہ مذ ہب تمام شیعہ کا اور بہت سے معتز لہ ، محکمہ کا اور مرجئہ کے ایک گروہ کا ہے کہ جو عامہ کے فقیہ نما افراد اوراصحاب رائے کے خلاف ہے ۔''( ۱ )

جی ہاں! عقید تی مسا ئل میں مکتب اہل بیت کے پیرو محتا ط ہیں کیو نکہ اہل بیت نے اپنے ما ننے وا لوں کو احتیاط کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ لوگوں میں سب سے زیادہ صاحب ورع وہ ہے جو شبہا ت کے وقت اپنا قدم روک لے اور احتیا ط سے کام لے۔

بحث کا خاتمہ

اب ہم اپنی بحث کے خاتمہ پرعقائد اسلامی سے متعلق مکتب اہل بیت علیہم السلام کی روش بیان کرنے اس سے اس نتیجہ پر پہنچے کہ اہل بیت کا نہج اور راستہ جیسا کہ گزشتہ صفحات میں بیان ہو چکا ہے کامل اور اکمل نہج اور راستہ ہے ، جو اپنی جگہ پر شناخت کے تمام وسا ئل سے بہر ہ مند ہے ،مثا ل کے طور پر الہٰیا ت کے مسائل اور باری تعالیٰ کے صفات کو تجر بہ کی راہ سے درک نہیں کرتا ، کیونکہ یہ مسا ئل ایسے وسائل کی دسترس سے

____________________

(۱)اوائل المقالات ، ص ۱۰۰،طبع تبریز ۱۳۷۰ ،ھ ش.

۲۱۳

دور ہیں ، اسی طرح ایک وسیلہ پر جمو د اوراڑے رہنے جیسے با طنی اشرا ق اورصوفی عشق و ذوق کو بھی جا ئز نہیں سمجھتا، جس طرح کہ عقل کے بارے میں بھی زیادہ روی اور غلو سے کام نہیں لیتا اور اسے مستقل اور تمام امور (منجملہ ان کے غیب اورنہاں نیز جزئیات معاد) کا درک کرنے والا نہیں جانتا اور وحی (نقل)کے بارے میں کہتا ہے کہ وحی کا درک کرنا نور عقل سے استفادہ کئے بغیر نا ممکن ہے۔

اہل بیت کا مکتب یہ ہے کہ جو بھی روایت ، سنت اور نقل کی صورت میں ہو-جب تک کہ اس کی نسبت کی صحت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ائمہ اور صحا بہ کی طرف ثا بت نہ ہو نیز جب تک اس کا تمام نصوص اورقرآن کی تصریحات سے مقابلہ نہ کرلے اور اس کے عام و خاص ، ناسخ و منسوخ ، محکم و متشا بہ اور حقیقت و مجا ز کو پہچا ن نہ لے، اس وقت -تک اس کے قبول کرنے میں سبقت نہیں کرتا، مختصر یہ کہ مکتب اہل بیت علیہم السلام اس ''اجتہا د '' پر موقوف ہے جونصوص سے شرعی مقصود کے سمجھنے میں جد و جہد اور قوت صرف کرنے اور اپنی تما م تر تو انائی کا استعمال کر نے کے معنی میں ہے، اس کے با وجود نقد وتحقیق اور علمی منا ظرہ اور منا قشہ سے -جب تک عوا طف وجذبات کو بر انگیختہ نہ کیا جائے، یا دشمنی نہ پیدا ہو- نہ صرف یہ کہ منع نہیں کرتا بلکہ اسے راہ پروردگار کی طرف دعوت ، جدال احسن،حکمت اور مو عظۂ حسنہ سمجھتا ہے ، جیسا کہ خدا وند متعال نے فرمایا ہے:

( و الّذین آمنوا وعملو االصا لحا ت لا نُکلّف نفساً اِلَّاو سعها اولآ ئک أصحاب الجنّة هم فیها خا لدون)( ونزعنا ما فی صدورهم من غلّ تجری من تحتهم الأنهاروقالوا ألحمد للّه الذی هدا نا لهٰذا وما کُنا لنهتدی لو لاأن هدا نا ﷲ لقد جائت رُسل ربّنا بالحقّ و نو دوا أن تلکم الجنّةأورثتمو ها بما کنتم تعملون ) ( ۱ )

اورجو لوگ ایمان لا ئے اور عمل صا لح انجام دیا ہم کسی کو اس کی طاقت سے زیا دہ تکلیف نہیں دیتے، وہ اہل بہشت ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے اور جو ان کے دلوں میں کینہ ہے، اسے ہم نے یکسر ختم کردیا ہے ، ان کے نیچے نہریں جا ری ہیں،وہ کہتے ہیں: خدا کی ستا ئش اور اس کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس راستہ کی ہدایت کی'' ایسا راستہ کہ اگر خدا ہماری ہدا یت نہ کرتا تو ہم راہ گم کر جاتے! یقینا ہمارے ربّ کے رسول حق لائے !( '' ایسے مو قع پر) ان سے کہا جا ئے گا : یہ بہشت ان اعمال کے عوض اور بدلے میں جو تم نے انجام دئے ہیں، تمھیںبطور میرا ث ملی ہے ۔

____________________

(۱)اعراف ۴۲،۴۳

۲۱۴

روایات میں آغا ز خلقت اور مخلوقات کے بعض صفات

۱ ۔مسعو دی کی روایت کے مطابق آغاز خلقت:

مسعودی اپنی سند کے ساتھ حضرت امام علی سے روایت کرتا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابتدائے خلقت کو اپنے مختصر سے خطبہ میں اس طرح بیان فرما یا ہے:

''فسح الٔارض علی ظهر الماء ، وأخرج من الماء دخا نا ً فجعله السما ء ، ثم استجلبهما اِلی الطا عة فا ذعنتابا لا ستجا بة ، ثم أنشأ ﷲ الملا ئکة من انٔوار ابٔدعها و ارواح اختر عها ، و قرن بتو حید ه نبوَّ ة محمد صلی ﷲ علیه وآله و سلم فشهرت فِی السماء قبل بعثته فیِ الٔارض ، فلما خلق ﷲ آ دم أ بان فضله للملا ئکة، و أرا هم ما خصّه به من سا بق العلم من حیث عرَّ فه عند استنبا ئه ِ ا يّا ه أ سماء ا لا شیا ء ، فجعل ﷲ آدم محرا باً وکعبة وبا با ً و قبلة أ سجد الیها الٔا بر ار و الر وحا نیین الأ نوار ثم نبّه آدم علی مستو د عه ، وکشف له عن خطر ما ائتمنه علیه ، بعد ما سما ه اِ ما ما ً عند الملا ئکة'' ( ۱ )

اس( خدا )نے پا نی کی پشت پر ز مین بچھا ئی اور پانی سے بھا پ اور دھوا ں نکا لا اور اسے آسما ن بنایا ، پھر ان دونوں کو اطا عت کی دعوت دی ، ان دونوں نے بھی عا جزانہ جو اب دیا اور لبیک کہی، اس کے بعد اس نور سے جسے خود پیدا کیا تھا اور اس روح سے جسے خود ایجا د کیا تھا فرشتوں کی تخلیق کی ، اپنی تو حید و یکتا پر ستی سے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبو ت کو وابستہ کیا اس وجہ سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زمین پر مبعوث ہو نے سے پہلے آسمان پر مشہور تھے ،جب خدا نے حضرت آدم کو خلق کیا تو ان کی فو قیت و بر تری فر شتو ں پربرملاوآشکا ر کی ،نیز علم و دانش کی وہ خصوصیت جو اس نے پہلے ہی حقیقت اشیا ء کے بارے میں خبر دینے کے واسطے آدم کودے رکھی تھی ، فر شتو ں

____________________

(۱)مروج الذہب ، ج۱ ، ص ۴۳

۲۱۵

کوبتائی،پس خدا نے آدم کو محرا ب، کعبہ ، باب اور قبلہ قرار دیا تا کہ نیک لو گ ، رو حا نی اور نو را نی افراد اس کی طرف سجدہ کو آئیں، پھر انھیں (فر شتو ں کے سا منے اما م پکا رنے کے بعد) ان کے اما نت دار ہو نے سے آگاہ کیا اوراس کے خطرات اور ا س کی لغز شو ں کو ان کے سا منے نما یا ں کیا ۔

۲ ۔نہج البلا غہ کے پہلے خطبہ میں خلقت و آفرینش کا آ غاز:

'' أنشا ٔ الخلق اِنشا ئً ، و ابتدأ ه ابتدا ء ً ، بلا رو يّة أ جا لها ، ولا تجر بة استفا د ها ، و لا حر کة أ حد ثها، ولا هما مة نفس اضطر ب فیها، أ حا ل الا شیا ء لاوقا تها ، و لأ م بین مختلفا تها، و غرَّز غرا ئز ها ، و ألز مها أشبا حها؛ عالما ً بها قبل ابتدا ئها ، محیطاً بحدود ها وأنتها ئها ، عا رفا ً بقر ائنها و أحنا ئها، ثمّ أ نشأ سبحا نه فتق الأجوا ئ، و شق الأرجا ئ، و سکا ئک الهوا ئ، فأجری فیها ما ئً متلا طماً تیاّ ره ، مترا کما ً زخّا ره، حمله علی متن الریح العا صفة، والز عزع القا صفة، فأ مر ها بردّه، وسلّطها علی شدّه و قر نها الی حدّه؛ الهواء من تحتها فتیق، و الما ء من فو قها دفیق ، ثم أنشأ سبحا نه ریحا ً اعتقم مهبّها، وأ دا م مر بّها ، و أعصف مجرا ها ، و أبعد منشاها ، فأ مر ها بتصفیق الماء الزّخّا ر، و اِثا رة موج البحا ر، فمخضته مخض السّقا ئ، و عصفت به عصفها با لفضا ئ، تردُّ أوُّ له اِلی آخره و سا جیه اِلی ما ئره، حتیّ عبّ عبا به، و رمی با لزّبد رکامه، فر فعه فی هو اء منفتق، وجوّ منفهق ، فسوی منه سبع سموات جعل سفلا هنَّ موجا ً مکفو فا ً، وعلیا هنَّ سقفا ً محفو ظا ً، و سمکاً مر فوعا ً، بغیرعمد ید عمها ، ولا دسار ینظمها ، ثم زيّنها بز ینة الکوا کب، وضیا ء الثوا قب، وأ جری فیها سرا جاً مستطیرا ً، وقمرا ً منیرا ً، فی فلک دائر، وسقف سائر، ورقیم ما ئر ''

اس نے بغیر غور و خوض اور سابق تجربہ کے اور ہرطرح کی اثر پذیری، انفعا ل اور دا خلی اضطرا ب سے دور مخلوقات کو پیدا کیا اور مو جو دات کو ان کے ظرف زمان میں ایجا د اور ثا بت کیا ،ان کے تفاوت اور اختلاف کو مناسب پیوند اور ان کی سرشت کو ایک خو شگوار تر کیب بخشی، جبکہ خلقت سے پہلے ہی ان کی کیفیت کو جا نتا تھا اور ان کی ابتداء انتہا ء ، حدود اور ما ہیت اور ان کی حقیقت پر محیط تھا، ہر ایک کی فطرت اور سر شت اس کے ملازم اور ہمرا ہ قرار دی۔

پھر فضا کو وسعت بخشی اور اس کے اطراف و اکناف اور ہواؤں کے طبقات ایجاد کئے پھر اس میں مو ج مارتے، سر کش ،مضطرب اور تہ بہ تہ،تلاطم خیز پا نی کوجاری کیا۔

۲۱۶

اور اس کو تند و تیز اور پر صلابت ہواؤ ں کے دائرہ ٔ اقتدار میں دیااور اس کو حکم دیا تاکہ اس کو گرنے اور ٹوٹنے سے روکے اور محکم طور پر اس کے دائرہ ٔ کار میں اس کی حفاظت کرے ، حالانکہ اس کے نیچے ہوا پھیلی اور کھلی ہوئی تھی اور اس کے اوپر پانی اچھلنے اچھل رہا تھا ۔

پھر اس کے بعد دوسری عقیم ہوا پیدا کی تاکہ ہمیشہ پانی کے ساتھ رہے ، اور اسے مرکز پر روک کر اس کے جھونکو ںکو تیز کردیا اور اس کے میدان کو وسیع تر بنا دیا ،پھر اس کو حکم دیا تاکہ اس آب زخار کو تھپیڑے لگائے اور سمندر کی موجوں کو جنبش اور تحریک میں لائے اور دریا کے ٹھہرے ہوئے پانی کو موج آفرینی پر مجبور کرے، چنانچہ اس ہوا نے پر سکون اور ٹھہرے ہوئے دریا کو مشک آب کے مانند متھ ڈالااور اس زور کی ہوا چلی کہ اس کے تھپیڑوں نے اس کے اول و آخر اور ساکن و متحرک ،سب کو آپس میں ملادیا ، یہاں تک کہ پانی کی ایک سطح بلند ہوگئی اور اس کے اوپر تہ بہ تہ جھاگ پیدا ہو گیا پھر اس کے جھاگ کو کھلی ہوئی ہوا اور وسیع فضا میں بلندی پر لے گیا اور اس سے ساتوں آسمان بنائے ایسے آسمان جن کے نچلے طبقہ کو موج ثابت اور اوپری طبقہ کو بلندو محفوظ چھت اور بے ستون سائبان قرار دیا ، پھر ان کو ستاروں اور نورانی شہابوں سے زینت بخشی اور ضو فگن آفتاب اور روشن ماہتاب کی قندیلیں آسمانِ پُر نقش و نگار،فلک دوار، سائبان سیار اور صفحہ ٔ تاباں و زر نگار میں لگائیں ۔

کلمات کی تشریح

۱ ۔''الرّو يّة'' : تفکر اور غور و خوض۔

۲ ۔''هما مة النفس'' : روح کا متا ثر ہو نا اور اثر قبو ل کرنا۔

۳ ۔''أحال الا شیاء لأوقا تها'' مو جو دات کو ان کے ظرف زمان میں عدم سے عا لم وجود میں لایا۔

۴ ۔''لأم'': اتصال اور ہم آہنگی بخشی یعنی ان کے تفاوت و اختلاف کو تناسب و توافق بخشا ، جس طرح جسم و روح کے پیو ند اور اتصال سے انسان کی تر کیب دل آرا کو وجود بخشا:

''( فتبا رک ﷲ أحسن الخا لقین'' )

۲۱۷

۵ ۔''غرَّ ز الغرا ئز'' : غرا ئز غر یز ہ کی جمع سر شت اور طبعیت کے معنی میں ہے یعنی ہر مو جو د میں ایک خا ص سر شت قرار دی۔

۶ ۔''ألز مها أشبا حها'' : شَبَح،اشیا ء کا وہمی سایہ اور ان کی خیالی تصویر اور یہا ں پر مقصود یہ ہے کہ ہر خو اور طبیعت کے مالک کو جدا نہ ہو نے وا لی سر شت اور طبیعت کے ہمرا ہ قرار دیا ہے، مثال کے طو ر پر ایک بہادر اور دلیر انسان ڈر پوک اور خو فزدہ نہیں ہوسکتا۔

۷ ۔''عا رفا ً بقرا ئنها وأحنا ئها'' :

قرا ئن قرین کی جمع مصا حب اور ہمرا ہ کے معنی میں ہے اور احنا ء حَنْو کی جمع، پہلو اور ہر ٹیڑ ھے پن اور کجی کے معنی میں ہے خواہ وہ جثہ ہو یا غیر جثہ لیکن یہا ں پر پو شیدہ چیزوں سے کنا یہ ہے ، یعنی خدا وند عالم تمام موجودات کے تمام صفا ت اور ان کی طبیعتوں، خصلتوں سے آگا ہ اور باخبرہے۔

۸ ۔'' أنشأ سبحا نہ: فتق الأ جواء و شقُّ الأرجاء وسکا ئک الھوائ.

فتق الا جوائ'' فضا ؤ ںکا شگا ف''شق الارجائ'' گرد و نواح اور اطراف کا کشا دہ کرنا ، ''سکا ئک الھوا''فضا اور ہوا کے اوپری حصے یعنی : خدا وند عالم نے کشا دہ فضا اور اس کے ما فوق ہوا کو تمام عالم ہستی کے اطراف میں خلق کیا اور اسے پھیلا دیا۔

۹ ۔'' متلا طم''، ٹھا ٹھیں مارنے والا، تھپیڑے کھا نے والا ، موج مارنے والا۔

۱۰۔'' تیاّ ر '': مو ج، حرکت اور جنبش ۔

۱۱ ۔ ''مترا کم '': ڈھیر، جمع شدہ( تہہ بہ تہہ)۔

۱۲۔''زخاّر'' لبر یز اور ایک پرایک سوار ۔

۱۳ ۔''الریح العا صفہ'' : تیز و تند اور طو فان خیز ہوا۔

۱۴ ۔'' الزَّ عز عُ القا صفھة'': تیز و تند ہوا ،گرج اور کڑک کے ساتھ ہوا ۔

۱۵ ۔'' دفیق'': جہندہ اور اچھلنے والا۔

۱۶ ۔'' اعتقم مھبّھا'' : اس کے چلنے والے رخ کو عقیم اور با نجھ بنا دیا،یعنی اس ہوا کی خا صیت صرف پانی کو تحریک اور جنبش دینا ہے۔

۲۱۸

۱۷ ۔''اَدام مُر بھا'': ہمیشہ اس کے ہمراہ رہی۔

۱۸ ۔''أمر ھا بتصفیقِ الما ء الز ّ خا ر و اثا ر ة مو ج البحا ر''

اسے حکم دیا تا کہ اس لبر یز اور انبوہ کو تھپیڑے لگائے اور اس پر آپ دریا کو جنبش اور ہیجان میں لائے۔

۱۹ ۔'' مخض السقائ'' : وہ مشک جسے گردش دے کر(متھ کر) اس کے اندر دہی سے مکھن نکا لتے ہیں یعنی یہ ہوا اس پا نی کو اس مشک کے مانند گر دش دیتی ہے جس سے مٹھا اور مکھن نکا لتے ہیں۔

۲۰ ۔ ''عصفت بہ عصفا ً با لفضائ'':

اسے شدت کے ساتھ ادھر اورادھرجھکورے دیتی ہے۔

۲۱ ۔''حتّی عب ّ عبا بُہ و رفی با لز بد رکا مہ''

یہاں تک کے ایک دوسرے پر ڈھیر لگ گیا اور اس کی جنبش اور ڈھیر سے جھاگ پیدا ہوگیا ۔

۲۲ ۔ ''مُنفتق'': کھلا ہوا اور کشا دہ۔

۲۳ ۔'' منفھق'' : وسیع و عر یض

۲۴ ۔''سفلیٰ '': نچلا

۲۵ ۔'' عُلیا'' :اوپری۔

۲۶ ۔''مکفو ف'':رکا ہوا ،ٹھہرا ہوا ۔

۲۷ ۔''سمک '': بلند چھت۔

۲۸ ۔ '' دسا ر'': مسمار، کیل، ریسمان اور بندھن۔

۲۹ ۔ ''ثوا قب'' : ثا قب کی جمع ہے نور افشان یا نو را نی شہا ب۔

۳۰ ۔''فلک '': آسمان۔

۳۱ ۔''رقیم'' : متحر ک لو ح اور صفحہ۔

۲۱۹

قرآن کریم میں '' کَوْن و ہستی ''یا'' عا لم طبیعت ''( ۱ )

کلمۂ'' کون'' اور'' ہستی'' خارجی مو جو دات اور ظوا ہر طبیعت کو بیان کرتا ہے یعنی تمام مخلو قات انسان ، حیوان ، ستارے، سیارے، کہکشا ں اور دیگر مو جودات سب کو شا مل ہے۔

''کون '' اور '' ہستی'''' مک میلا ن''( ۲ ) کے دائرة المعارف کے مطا بق ، ان اجسام کے مجموعہ سے مرکب ہے جو شنا خت کے قا بل ہیں ، جیسے : زمین ، چا ند، سورج ، اجرام منظو مۂ شمشی ، کہکشائیں اور ان کے درمیان کی دیگر اشیاء ، اسی طرح چٹا نوں، معادن ( کا نیں ) مٹی، گیس، حیوا نات ، انسان اور دیگر ثابت اور متحرک اجسام کو بھی شا مل ہے۔

منجمین اور ماہرین فلکیات نے مجبوری اور نا چا ری کی بناپر لفط'' کون'' کوآسمانی فضا اور اجرام کے معنی میں استعمال کیاہے، جبکہ مجموعہ ہستی کی وسعت اور کشادگی اتنی ہے کہ زمین آسمان، چاند سورج اور دیگر سیا رے اس بیکراں، وسیع و عریض مجموعہ کے چھو ٹے چھوٹے نقطے ہیں یہ خورشید اس کہکشا ں کا صرف ایک ستارہ ہے کہ جس میں سو ملین( ایک ارب) کے قریب ستارے پائے جاتے ہیں ! اور یہی ہماری زمین اور وہ دیگر سیارے جو سورج کے ارد گرد چکر لگا تے ہیں اور اس عا لم کے نظم کو وجود میں لا تے ہیں ، ہم انسا نوں کی نگا ہ میں بہت عظیم اور وسیع نظر آتے ہیں۔

ہماری زمین سے سورج کا فا صلہ تقر یبا ً ۹۳ملین میل کا ہے اور یہ انسان کی نظر میں کا فی لمبی اور طولانی

____________________

(۱) اقتباس از مقالہ ٔ '' حافظ محمد سلیم '' ،مجلۂ ثقافتی ، نشریہ ٔ سفارت پاکستان ، دمشق، فروری ۔مارچ ، ۱۹۹۱ ئ.

(۲) MACMILLAN ENCILOPEDIA

۲۲۰