اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

اسلام کے عقائد(دوسری جلد )18%

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 122563 / ڈاؤنلوڈ: 4697
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(دوسری جلد )

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

میں قربان کریں تو خدا وند عالم نے آواز دی : اے ابراہیم !تم نے اپنے خواب کو سچ کر دکھا یا!کیو نکہ اسمٰعیل کو ذبح کرنے میں مشغول ہو گئے تھے اور یہ وہی چیز تھی جس کا انھوںنے خواب میں مشاہدہ کیا تھا ، انھوں نے خواب میں یہ نہیں دیکھا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذ بح کر چکے ہیں اسی اثنا میں خدا نے دنبہ کو اسماعیل کا فدیہ قرار دیا اور ابراہیم کے سامنے فراہم کردیا اور انھوں نے اسی کی منیٰ میں قربانی کی ۔

خدا وند عالم نے ابراہیم کو حکم دیا کہ حج کااعلان کردیں کہ عنقریب لوگ پاپیادہ اورسواری سے دور دراز مسافت طے کر کے حج کے لئے آئیں گے اور خدا وندعالم نے اس گھر کو امن و امان کی جگہ اور ثواب کا مقام قرار دیا اور حکم دیا کہ لوگ مقام ابراہیم کو اپنا مصلیٰ( نماز کی جگہ) بنا ئیں۔

خدا وند عالم دیگرآیات میں ابراہیم کے دین اور ملت کے بارے میں خبر دیتے ہو ئے فرماتا ہے :

ابراہیم خالص اور راسخ العقیدہ مسلمان تھے ، وہ نہ تو مشرک تھے اور نہ یہودی اور نصرانی ، جیسا کہ بعض اہل کتاب کا خیال ہے ، خداوندعالم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم آئین ابراہیم کی پیروی کریں اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس کام کے لئے مخصوص فرماتے ہو ئے ارشاد فرمایا کہ وہ لوگو ں سے کہیں:

ہمارے خدا نے ہمیں راہ راست کی ہدایت کی ہے ، جواستوار دین اور حضرت ابراہیم کی پاکیزہ ملت جوکہ شرک سے رو گرداں اور اسلام کی طرف مائل تھے منجملہ حضرت خاتم الا نبیاء کا اپنے جد ابراہیم کی شریعت کی پیروی میں مناسک حج بجا لا نا بھی ہے اس طرح کہ جیسے انہوں نے حکم دیا تھا ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی امت بھی ایسا ہی کرتی ہے اور مناسک حج اسی طرح سے بجا لاتی ہے جس طرح ابراہیم خلیل الر حمن نے انجام دیا تھا۔

بحث کا نتیجہ

جمعہ کا دن حضرت آدم اور ان تمام لوگوں کے لئے جوان کے زمانے میں زندگی گزار رہے تھے مبارک دن تھا، یہ دن حضرت خاتم الانبیا ء اور ان کی امت کے لئے بھی ہمیشہ کے لئے مبارک ہے۔

خانہ خدا کا حج آدم ، ابراہیم اور خاتم الانبیاء نیز ان کے ماننے والے آج تک بجا لا تے ہیں اور اسی طرح ابد الآبادتک بجا لا تے رہیں گے، خدا وند عالم نے حضرت خاتم الا نبیاء اوران کی امت کے لئے وہی دین اور آئین مقرر فرما یا جو نوح کے لئے تھا اورحضرت ابراہیم حضرت نوح کے پیرو اور ان کی شریعت کے تابع تھے ،اسی لئے خدا وند عالم نے خا تم الانبیاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کی امت کو حکم دیا کہ شریعت ابرا ہیم اور ان کے محکم اور پائدار دین کے تابع ہوں۔

۲۱

پیغمبروں کی شریعتوں میں حضرت آدم سے پیغمبر خاتمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے اور اگرکچھ ہے بھی تو وہ گزشتہ شریعت کی آئندہ شریعت کے ذریعہ تجد ید ہے اور کبھی اس کی تکمیل ہے، یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ حضرت آدم نے حج کیا اور حضرت ابراہیم نے خانہ کعبہ کی تعمیر کرکے حج کی بعض علا متوں کی تجد ید کی اور خا تم الانبیا ئصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے احرام کے میقا توں کی تعیین کی مقام ابراہیم کو مصلیٰ بنایا اور تمام نشانیوں کی وضاحت کر کے اس کی تکمیل کی۔

خدا وند سبحان نے اسلا می احکام کواس وقت کے انسانوں کی ضرورت کے مطابق حضرت آدم کے لئے ارسال فرمایا جو انسان اپنی کھیتی باڑی اور جانورں کے ذریعہ گز ر اوقات کرتا تھا اور شہری تہذیب و تمدن سے دور تھا ،جب نسل آدمیت کا سلسلہ آگے بڑھا اور حضرت نوح کے زمانے میں آبادیوںکا وجود ہوا اور بڑے شہروں میں لوگ رہنے لگے تو انھیں متمدن اور مہذ ب افراد کے بقدر وسیع تر قانون کی ضرورت محسوس ہو ئی ، (انسان کی تجارتی ، سماجی اور گونا گوں مشکلات کو دیکھتے ہوئے جن ضرورتوں کا بڑے شہروں میں رہنے والوں کو سامنا ہوتاہے) تو خدا وندعالم نے اسلامی احکام کی جتنی ضرورت تھی حضرت نوح پر نازل کیا ،تا کہ ان کی ضرورتوں کی تکمیل ہو سکے جس طرح خاتم الا نبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرزمانے کی ضرورت کے مطابق احکام نازل فرمائے

گزشتہ امتیں عام طور پر اپنے نبیوں کے بعد منحرف ہوکر شرک کی پجاری ہو گئیں جیسا کہ اولاد آدم کا کام حضرت نوح کے زمانے میں بت پرستی تھا ،ایسے ماحول میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب سے پہلے خالق کی توحید کی دعوت دی اور بتوں کی عبادت کو ترک کرنے کا حکم دیا جیسا کہ حضرت نوح ، ابراہیم اور حضرت خاتم الانبیاء تک تمام نبیوں کا یہی دستور اور معمول رہاہے چنانچہ آ نحضرت عرب کے بازاروں اور حجاج کے خیموں میں رفت و آمد رکھتے اور فرماتے تھے (لااله الا ﷲ ) کہو !کا میاب ہو گے! کبھی بعض امتوں کے درمیان ان کے سرکش اور طاغوت صفت رہبر نے '' ربوبیت'' کا دعوی کیا جیسے نمرود ملعون نے حضرت ابراہیم کے ساتھ ان کے پروردگار کے بارے میں احتجاج کیا اور سرکش اور طاغی فرعون نے (انا ربکّم الا علیٰ )کی رٹ لگائی ،ایسے حالات میں خدا کے پیغمبر سب سے پہلے اپنی دعوت کا آغاز تو حید ربوبی سے کرتے تھے ، جیسا کہ ابر اہیم نے نمرود سے کہا:( ربّی الذی یحیی و یمیت ) میرا پر وردگار وہ ہے جو زندہ کرتا اور موت دیتا ہے۔

۲۲

اور حضرت موسیٰ نے فرعون سے کہا :

( ربّنا الذی اعطیٰ کلّ شیئٍ خلقه ثمّ هدیٰ ) ۔( ۱ )

ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر مو جود کو اس کی خلقت کے تمام لوازم عطا کئے ،اس کے بعد ہدایت فر مائی۔

حضرت موسیٰ کی فر عون سے اس گفتگو کی تشریح سورئہ اعلی میں موجود ہے:

(سبّح اسم ربّک الأ علیٰ ۔ الذی خلق فسوّیٰ ۔ و الذی قدّر فھدیٰ ۔ و الذی أخرج المرعیٰ ۔ فجعلہ غثاء ً أ حویٰ)( ۲ )

اپنے بلند مرتبہ اور عالی شان پروردگار کے نام کو منزہ سمجھو ، وہی جس نے زیور تخلیق سے منظم و آراستہ فرمایا ، وہی جس نے تقدیر معین کی ہے اور پھر ہدایت فرمائی ، وہ جس نے چرا گاہ کو وجود بخشا پھر اسے خشک اور سیاہ بنادیا ۔

سورئہ اعراف میں بیان ہوتا ہے :

( اِنّ ربّکم ﷲ الذی خلق السّموات و الا ٔرض ) ( ۳ )

بیشک تمہارا ربّ وہ خدا ہے جس نے آسمان و زمین خلق کیا ہے۔

اس بنا پر بعض گزشتہ امتیں بنیادی عقیدہ تو حید سے منحرف ہوجاتی تھیں جیسے حضرت نوح اور ابراہیم وغیرہ کی قومیں اور بعض عمل کے اعتبار سے اسلام سے منحرف ہو جاتی تھیںجیسے قوم لوط اور شعیب کے کرتوت.

اگر قرآن کریم ، پیغمبروں کی رو ایات ،انبیا ء کے آثار اور اخبار اسلامی مدارک میں بغور مطالعہ اورتحقیق کی جائے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ بعد والے پیغمبر خدا وند عالم کی جانب سے پہلے والے پیغمبروں پر نازل شدہ شریعت کی تجدید کرنے والے رہے ہیں ، ایسی شریعت جو امتوں کی طرف سے محو اور تحریف ہو چکی تھی ، اس لئے خدا نے ہمیں حکم دیا کہ ہم کہیں:

( آمنّا بﷲ و ما أنزل الینا و ما أنزل ِالیٰ ابراهیم و اِسما عیل و اِسحق و یعقوب و الأسباط و ما أوتی مو سیٰ و عیسیٰ و ما أو تی ٰ النبيّون من ربّهم لا نفرّق بین أحد منهم ونحن له مسلمون ) ( ۴ )

کہو کہ ہم خدا اور جو کچھ خدا کی طرف سے ہم پر نازل ہوا ہے اس پر ایمان لا ئے ہیںنیز ان تمام چیزوں پر بھی جو ابر اہیم، اسماعیل ، اسحق ، یعقوب اور انکی نسل سے ہو نے والے پیغمبروں پر نازل ہوئی ہیں ، نیزجو کچھ

____________________

(۱) طہ۵۰ (۲) اعلی ۱ ۔ ۵ (۳)اعراف۵۴ (۴)بقرہ ۱۳۶

۲۳

موسیٰ، عیسیٰ اور تمام انبیا ء کو خدا کی جانب سے دیا گیا ، ہم ان میں سے کسی ایک کو بھی کسی سے جدا تصوّر نہیں کرتے ہم تو صرف اور صرف فرمان خدا وندی کے سامنے سراپا تسلیم ہیں ۔

سوال:

ممکن ہے کوئی سوال کرے: اگر پیغمبروں کی شر یعتیں ایسی ہی ہیں جیسا کہ آپ بیان کرتے ہیں تو انبیاء کی شریعتوں میں نسخ کے معنی ٰ کیا ہوں گے کہ خدا و ندعالم ارشاد فرماتا ہے :

( ما ننسخ من آيةٍ أوننسها نات بخیر منها أو مثلها الم تعلم أنّ ﷲ علی کلّ شیئٍ قدیر ) ( ۱ )

(کوئی حکم ہم اس وقت تک نسخ نہیں کرتے یا اسکے نسخ کو تاخیر میں نہیں ڈالتے جب تک کہ اس سے بہتر یا ا س جیسا نہ لے آئیں کیا تم نہیں جانتے کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے)۔

نیز خدا وند عالم کی اس گفتگو میں ''تبدیل'' کے کیا معنی ہیں کہ فرما تا ہے:

( و اِذا بدّلنا آية مکان آية و ﷲ اعلم بما ینزّ ل قالو اِنّما أنت مفتر بل أکثرهم لا یعلمون ) ( ۲ )

(اور جب ہم ایک آیت کو دوسری آیت سے تبدیل کرتے ہیں ( کسی حکم کو نسخ کرتے ہیں ) توخدا بہتر جانتا ہے کہ کونسا حکم نازل کرے ، کہتے ہیں: تم افترا پردازی کرتے ہو ، بلکہ ان میں زیادہ تر لوگ نہیں جانتے)

جواب:

ہم اسکے جواب میں کہیں گے : یہاں پر بحث دو موضوع سے متعلق ہے:

۱۔ اصطلا ح ''نسخ'' اور اصطلا ح'' آیت''

۲۔مذکورہ آیات کے معنی.

انشاء ﷲ آئندہ بحث میں اس کے متعلق چھان بین اور تحقیق کریں گے۔

____________________

(۱)سورہ ٔ بقرہ ۱۰۶

(۲)سورہ ٔ نحل ۱۰۱.

۲۴

۲

نسخ وآیت کی اصطلا ح اور ان کے معنی

اوّل۔ نسخ:

نسخ؛ لغت میں ایک چیز کو بعد میں آنے والی چیزکے ذریعہ ختم کرنے کو کہتے ہیں جیسے کہتے ہیں: ''نسخت الشمس الظل'' سورج نے سایہ ختم کردیا ۔

نسخ؛ اسلامی اصطلاح میں : ایک شریعت کے احکام کو دوسری شریعت کے احکام کے ذریعہ ختم کرنا ہے، جیسے گزشتہ شریعتوں کے بعض احکام کا خاتم الانبیاء کی شریعت کے احکام سے نسخ یعنی ختم کرنا ہے، اسی طرح خاتم الانبیاء کی شریعت میں وقتی حکم کا دائمی حکم سے نسخ کرنا ، جیسے مدینہ میں فتح مکہ سے پہلے مہاجرین و انصار کے درمیان عقد اخوت کی بنیاد پرمیراث پانا رائج تھا جوفتح مکہ کے بعداعزاء واقارب کے میراث پانے کے حکم سے منسوخ ہوگیا۔( ۱ )

دوم ۔ آیت:

آیت؛ اسلامی اصطلاح میں تین معنی کے درمیان ایک مشترک لفظ ہے:

۱۔ انبیاء کے معجزہ کے معنی میں جیسا کہ موسیٰ ابن عمران سے سورئہ نمل میں خدا ارشاد فرماتا ہے :

( وأدخل یدک فی جیبک تخرج بیضاء من غیر سوئٍ فی تسع آیاتٍ الیٰ فرعون و قومهِ ) ( ۲ )

____________________

(۱) تفسیر طبری،ج۱۰،ص ۲۶،۲۷،تفسیر ابن کثیر ج،۲، ص۳۲۸ اور ۲۲۱ اور تفسیر الدر المنثور،ج۲،ص ۲۰۷.

(۲) نمل۱۲.

۲۵

اپنے ہاتھ کو گریبان میں داخل کرو تاکہ سفید درخشاں اور بے عیب باہر آئے یہ انھیں نُہ گانہ معجزوں میں شامل ہے جن کے ہمراہ فرعون اور اس کے قوم کی جانب مبعوث کئے جا رہے ہو۔

۲۔ قرآنی الفاظ کی ترکیب جس کی تعیین شمارہ کے ذریعہ کی گئی ہے ، جیسا کہ سورئہ نمل میں ارشاد ہوتا ہے:

( طٰس تلک آیات القرآن وکتاب مبین )

طٰس ، یہ قرآنی آیتیں اور ایک کھلی ہوئی کتاب ہے۔

۳۔ کتاب الہٰی کے ایک یاچند حصّے جس میں شریعت کا کوئی حکم بیان کیا گیاہو۔( ۱ )

لہٰذا معلوم ہوا کہ قرآن کے بعض حصّوں کا آیت نام رکھنے سے مقصود اسکا مدلول اور معنی ہے یعنی وہ حکم جو اس حصّہ میں آیاہے اور '' نسخ '' اسی حکم سے متعلق ہے اور قرآن کے ان الفاظ کو شامل نہیں ہے جو کہ اس حکم پر دلالت کرتے ہیں۔

اور یہ بھی معلوم ہوا کہ مشترک الفاظ کے معنی ، کلام میں موجود قرینے سے جو کہ مقصود پر دلالت کرتا ہے معین ہو تے ہیں۔

یہ نسخ اور آیت کے اسلامی اصطلا ح میں معنی تھے اوراب موضوع بحث دو آیتوں کی تفسیر نقل کرتے ہیں:

____________________

(۱) اس بات کی مبسو ط اور مفصل شرح ((القرآن الکریم و روایات المدرستین)) کی دوسری جلد کی مصطلحات کی بحث میں مذ کور ہوئی ہے۔

۲۶

۳

آیۂ نسخ اور آیۂ تبدیل کی تفسیر

آیۂ نسخ :

نسخ کی آیت سورئہ بقرہ میں ( ۴۰ سے ۱۵۲)آیات کے ضمن میں آئی ہے اس ضمن میں جو کچھ ہماری بحث سے متعلق ہوگااسے ذکر کررہے ہیں:

( یَابَنِی ِسْرَائِیلَ اذْکُرُوا نِعْمَتِی الَّتِی َنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وََوْفُوا بِعَهْدِی ُوفِ بِعَهْدِکُمْ وَِیَّایَ فَارْهَبُونِی (۴۰) وَآمِنُوا بِمَا َنزَلْتُ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَکُمْ وَلاَتَکُونُوا َوَّلَ کَافِرٍ بِهِ وَلاَتَشْتَرُوا بِآیَاتِی ثَمَنًا قَلِیلًا وَِیَّایَ فَاتَّقُونِی (۴۱) وَلاَتَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ وََنْتُمْ تَعْلَمُونَ (۴۲) یَابَنِی ِسْرَائِیلَ اذْکُرُوا نِعْمَتِی الَّتِی َنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وََنِّی فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعَالَمِینَ (۴۷) وَاتَّقُوا یَوْمًا لاَتَجْزِی نَفْس عَنْ نَفْسٍ شَیْئًا وَلاَیُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَة وَلاَیُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْل وَلاَهُمْ یُنصَرُونَ (۴۸) وَِذْ َخَذْنَا مِیثَاقَکُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمْ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَیْنَاکُمْ بِقُوَّةٍ وَاذْکُرُوا مَا فِیهِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ ) ( ۱ )

اے بنی اسرئیل !ان نعمتو ں کو یاد کرو ، جو ہم نے تمہارے لئے قرار دی ہیں ؛ اورجو تم نے ہم سے عہد و پیمان کیا ہے اس کو وفا کرو ،تا کہ میں بھی تمہارے عہد و پیمان کو وفا کروں اور صرف مجھ سے ڈرو اور جو کچھ میں نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لا ؤ، جو تمہا ری کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور تم لوگ سب سے پہلے اس کے انکار کرنے والے نہ بنو، نیز میری آیات کو معمولی قیمت پر فروخت نہ کرو اور صرف مجھ سے ڈرو اور حق کو باطل سے مخلوط نہ کرو اور جو حقیقت تم جانتے ہو اسے نہ چھپاؤ اے بنی اسرائیل !جو تم پر میں نے اپنی نعمتیں نازل کی

____________________

(۱)سورئہ بقرہ ۴۰ ۔ ۶۳

۲۷

ہیں اور تمہیں عالمین پر بر تری اور فضیلت دی ہے اسے یاد کرو نیز اس دن سے ڈرو ، جس دن کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا اور کسی کی کسی کے بارے میں شفاعت قبول نہیں کی جائے گی اور نہ ہی کسی کاکسی سے تاوان لیا جائے گا اور کسی صورت مدد نہیں کی جائے گی ، اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد و پیمان لیا تھا نیز کوہِ طور کو تمہارے اوپر قرار دیا جو کچھ ہم نے تمہیں عطا کیا ہے مضبوطی سے پکڑ لو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد رکھو شاید پرہیز گار ہو جائو۔

( وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسَی الْکِتَابَ وَقَفَّیْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ وَآتَیْنَا عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنَاتِ وََیَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ اَفَکُلَّمَا جَائَکُمْ رَسُول بِمَا لاَتَهْوَی َنفُسُکُمْ اسْتَکْبَرْتُمْ فَفَرِیقًا کَذَّبْتُمْ وَفَرِیقًا تَقْتُلُونَ (۸۷) وَقَالُوا قُلُوبُنَا غُلْف بَلْ لَعَنَهُمْ ﷲ بِکُفْرِهِمْ فَقَلِیلًا مَا یُؤْمِنُونَ (۸۸) وَلَمَّا جَائَهُمْ کِتَاب مِنْ عِنْدِ ﷲ مُصَدِّق لِمَا مَعَهُمْ وَکَانُوا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُونَ عَلَی الَّذِینَ کَفَرُوا فَلَمَّا جَائَهُمْ مَا عَرَفُوا کَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ ﷲ عَلَی الْکَافِرِینَ (۸۹) بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهِ َنفُسَهُمْ َنْ یَکْفُرُوا بِمَا َنزَلَ ﷲ بَغْیًا َنْ یُنَزِّلَ ﷲ مِنْ فَضْلِهِ عَلَی مَنْ یَشَائُ مِنْ عِبَادِهِ فَبَائُوا بِغَضَبٍ عَلَی غَضَبٍ وَلِلْکَافِرِینَ عَذَاب مُهِین (۹۰) وَِذَا قِیلَ لَهُمْ آمِنُوا بِمَا َنزَلَ ﷲ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا ُنزِلَ عَلَیْنَا وَیَکْفُرُونَ بِمَا وَرَائَهُ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَهُمْ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ َنْبِیَائَ ﷲ مِنْ قَبْلُ ِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ (۹۱) وَلَقَدْ جَائَکُمْ مُوسَی بِالْبَیِّنَاتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمْ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وََنْتُمْ ظَالِمُونَ ) ( ۱ )

ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اوران کے بعد بلا فاصلہ پیغمبروں کو بھیجا ؛ اور عیسیٰ ابن مریم کو واضح و روشن دلائل دئے اور اس کی روح القدس کے ذریعہ تائید کی ، کیا ایسا نہیں ہے کہ جب بھی کوئی پیغمبر تمہاری نفسانی خواہشات کے خلاف کوئی چیز لایا، تم نے سرکشی اور طغیانی دکھائی اور ایک گروہ کو جھٹلایا اور کچھ کو قتل کر ڈالا ؟ توان لوگوں نے کہا : ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں !نہیں ،بلکہ خدا وند عالم نے انھیں ا ن کے کفر کی وجہ سے اپنی رحمت سے دور رکھا ہے پس بہت کم لوگ ایمان لاتے ہیں اور جب خدا کی طرف سے ان کے پاس کتاب آئی جو کہ ان کے پاس موجود کتاب میں نشانیوں کے مطابق تھی اور اس سے پہلے اپنے آپ کو کافروں پر کامیابی کی نوید دیتے تھے ، ان تمام باتوں کے باوجود جب یہ کتاب اور شناختہ شدہ پیغمبر ان کے پاس آیا تو اسکا انکار کر گئے لہٰذا کافروں پر خدا کی لعنت ہو ، بہت برے انداز میں انھوں نے اپنا سودا کیا کہ

____________________

(۱)بقرہ ۸۷۔۹۲

۲۸

ناحق خدا کی نازل کردہ آیات کا انکا ر کر گئے اور اس بات پر کہ خدا وندعالم اپنے بندوں میں سے جس کے پاس چاہے اپنی آیات ارسال کرے اعتراض کرنے لگے! لہٰذا دوسروں کے غیظ و غضب سے کہیں زیادہ غیظ و غضب میں گرفتار ہو گئے اور کافروں کے لئے رسوا کن عذاب ہے اور جب ان سے کہا جاتا ہے : جو خدا نے بھیجا ہے اس پر ایمان لے آؤ ، تو وہ کہتے ہیں : ہم تو اس پر ایمان لائیں گے جو ہم پر نازل ہوا ہے اور اسکے علاوہ کے منکر ہوجاتے ہیں جب کہ وہ حق ہے اور انکی کتاب کی بھی تصدیق کرتاہے، کہو: اگر تم لوگ ایمان دار ہو تو پھر کیوں خدا کے پیغمبروں کو اس کے پہلے قتل کرتے تھے ؟اور موسیٰ نے ان تمام معجزات کو تمہارے لئے پیش کیا لیکن تم نے ان کے بعد ظالمانہ انداز میں گو سالہ پرستی شروع کردی۔

( وَلَقَدْ َنزَلْنَا ِلَیْکَ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ وَمَا یَکْفُرُ بِهَا ِلاَّ الْفَاسِقُونَ (۹۹) وَلَوْ َنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَة مِنْ عِنْدِ ﷲ خَیْر لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ (۱۰۳) مَا یَوَدُّ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ َهْلِ الْکِتَابِ وَلاَالْمُشْرِکِینَ َنْ یُنَزَّلَ عَلَیْکُمْ مِنْ خَیْرٍ مِنْ رَبِّکُمْ وَﷲ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ یَشَائُ وَﷲ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ (۱۰۵) مَا نَنسَخْ مِنْ آیَةٍ َوْ نُنسِهَا نَْتِ بِخَیْرٍ مِنْهَا َوْ مِثْلِهَا َلَمْ تَعْلَمْ َنَّ ﷲ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیر ) ( ۱ )

ہم نے تمہارے لئے روشن نشانیاں ارسال کیں اور بجز کفار کے کوئی ان کا انکار نہیں کرتا اور اگر وہ لوگ ایمان لاکر پرہیز گار ہو جاتے تو خدا کے پاس جو ان کے لئے جزا ہے وہ بہتر ہے اگر وہ علم رکھتے کافراہل کتاب اور مشرکین یہ نہیں چاہتے کہ تمہارے خدا کی طرف سے تم پر خیر وبرکت نازل ہو، جبکہ خدا جسے چاہے اپنی رحمت کواس سے مختص کردے اور خدا وند عالم عظیم فضل کا مالک ہے ، جب بھی ہم کوئی حکم نسخ کرتے ہیں یا تاخیر میں ڈالتے ہیں تواس سے بہتر یااسی کے مانند پیش کرتے ہیں کیا تمھیں نہیں معلوم کہ خدا وندعالم ہر چیز پر قادر ہے؟

( وَدَّ کَثِیر مِنْ َهْلِ الْکِتَابِ لَوْ یَرُدُّونَکُمْ مِنْ بَعْدِ ِیمَانِکُمْ کُفَّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ َنفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ الْحَقُّ وَقَالُوا لَنْ یَدْخُلَ الْجَنَّةَ ِلاَّ مَنْ کَانَ هُودًا َوْ نَصَارَی تِلْکَ َمَانِیُّهُمْ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَکُمْ ِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ (۱۱۱) بَلَی مَنْ َسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِن فَلَهُ َجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلاَخَوْف عَلَیْهِمْ وَلاَهُمْ یَحْزَنُونَ (۱۱۲)وَلَنْ تَرْضَی عَنْکَ الْیَهُودُ وَلاَالنَّصَارَی )

____________________

(۱) بقرہ۹۹۔۱۰۶

۲۹

( حَتَّی تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ ِنَّ هُدَی ﷲ هُوَ الْهُدَی وَلَئِنْ اتَّبَعْتَ َهْوَائَهُمْ بَعْدَ الَّذِی جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ مَا لَکَ مِنْ ﷲ مِنْ وَلِیٍّ وَلاَنَصِیرٍ ) ( ۱ )

بہت سارے اہل کتاب از روئے کفر وحسد(جو کہ ان کے رگ و ریشہ میں سرایت کرچکاہے) آرزومندہیں کہ تمہیں اسلام اور ایمان کے بعد کفر کی طرف لوٹا دیں جبکہ ان پر حق مکمل طور پر واضح ہو چکاہے...۔ اورکہتے ہیںکوئی بھی یہود و نصاریٰ کے علاوہ بہشت میں داخل نہیں ہوگا ،یہ انکی آرزوئیں ہیں ان سے کہو : اگر سچ کہتے ہو تو اپنی دلیل پیش کرو ، یقینا جو کوئی اپنے آپ کو خدا کے سامنے سراپاتسلیم کردے اور پرہیزگار ہو جائے تو خدا کے نزدیک اس کی جزا ثابت ہے نہ ان پر کسی قسم کا کوئی خوف ہے اور نہ ہی وہ محزون و مغموم ہوگا ،یہود و نصاریٰ تم سے کبھی راضی نہیں ہوں گے ، مگر یہ کہ تم ان کے آئین کا اتباع کرو ، ان سے کہو: ہدایت صرف اور صرف ﷲ کی ہدایت ہے اور اگر آگاہ ہونے کے باوجودان کے خواہشات کا اتباع کرو گے تو خدا کی طرف سے کوئی تمہارا ناصر و مدد گار نہ ہوگا :

( یَابَنِی ِسْرَائِیلَ اذْکُرُوا نِعْمَتِی الَّتِی َنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وََنِّی فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعَالَمِینَ (۱۲۲) وَاتَّقُوا یَوْمًا لاَتَجْزِی نَفْس عَنْ نَفْسٍ شَیْئًا وَلاَیُقْبَلُ مِنْهَا عَدْل وَلاَتَنفَعُهَا شَفَاعَة وَلاَهُمْ یُنصَرُونَ ) ( ۲ )

اے بنی اسرائیل! جو نعمتیں ہم نے تمھیں عطا کی ہیں اور تم کوتمام عالمین پر فضیلت و برتری عطا کی ہے اسے یاد کرو اوراس دن سے ڈرو جس دن کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا اور کسی سے کوئی تاوان نہیں لیا جائے گا اورکوئی شفاعت اسے فائدہ نہیں دے گی اور کسی صورت مدد نہیں ہو گی۔

خدا وندعالم نے ا ن آیات کے ذکرکے بعد ایک مقدمہ کی تمہید کے ساتھ جس کے بعض حصّے کو اس سے قبل حضرت ابراہیم اور اسماعیل کے خانہ کعبہ بنانے کے سلسلے میں ہم نے ذکر کیا ہے، فرمایا:

الف:( واِذ یرفع أبراهیم القواعدمن البیت و أِسماعیل ) ( ۳ )

اورجبکہ حضرت ابراہیم و اسماعیل خانہ کعبہ کی دیواریں بلند کر رہے تھے ۔

ب:( واِذ جعلنا البیت مثابة للنّاس و أمناً ) ( ۴ )

اورجب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کے رجوع کا مرکز اور امن و امان کی جگہ قرار دی۔

____________________

(۱) بقرہ۱۱۹۔۱۲۰(۲) بقرہ۱۲۲،۱۲۳(۳) بقرہ ۱۲۷(۴) بقرہ ۱۲۵

۳۰

ج:( و عهدنا الیٰ أبراهیم و أسماعیل أن طهرا بیتی للطّا ئفین و العاکفین و الرّکّع السجود ) ( ۱ )

اورہم نے ابراہیم و اسماعیل سے عہد لیا کہ ہمارے گھر کو طواف کرنے والوں ، مجاورں ، رکوع اورسجدہ کرنے والوں کے لئے پاک و پاکیزہ رکھیں ۔

خدا وند عالم ایسی تمہید کے ذریعہ'' نسخ ''کا موضو ع معین کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( قَدْ نَرَی تَقَلُّبَ وَجْهِکَ فِی السَّمَائِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَیْثُ مَا کُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَکُمْ شَطْرَهُ وَِنَّ الَّذِینَ ُوتُوا الْکِتَابَ لَیَعْلَمُونَ َنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَمَا ﷲ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُونَ (۱۴۴) وَلَئِنْ َتَیْتَ الَّذِینَ ُوتُوا الکِتَابَ بِکُلِّ آیَةٍ مَا تَبِعُوا قِبْلَتَکَ وَمَا َنْتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ...(۱۴۵) الَّذِینَ آتَیْنَاهُمْ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَهُ کَمَا یَعْرِفُونَ َبْنَائَهُمْ وَِنَّ فَرِیقًا مِنْهُمْ لَیَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ یَعْلَمُونَ ) ( ۲ )

ہم آسمان کی جانب تمھاری انتظار آمیز نگاہوں کو دیکھتے ہیں یقینا ہم تمہیںاس قبلہ کی جانب جسے تم دوست رکھتے ہو واپس کردیں گے لہٰذا اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف موڑ لو اور جہاں کہیں بھی رہو اپنا رخ اسی جانب رکھو، یقینا جن لوگوں کو آسمانی کتاب دی گئی ہے بخوبی جانتے ہیں کہ یہ فرمان حق ہے جو کہ تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے اور خدا وند عالم جو وہ کرتے ہیںاس سے غافل نہیں ہے اور اگر اہل کتاب کیلئے تمام آیتیں لے آؤ تب بھی وہ تمہارے قبلہ کا اتباع نہیں کریں گے اور تم بھی ان کے قبلہ کا اتباع نہیں کرو گے ، جن لوگوں کو ہم نے آ سمانی کتاب دی ہے اس( پیغمبر ) کو وہ اپنے فرزندوں کی طرح جا نتے اور پہچانتے ہیں ، یقینا ان میں سے کچھ لوگ حق کو دانستہ طور پر چھپا تے ہیں۔

خداوندعالم اہل کتاب کی مسلمانوں سے (تعویض قبلہ کے سلسلہ میں ) جنگ وجدال کی بھی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( سَیَقُولُ السُّفَهَائُ مِنْ النَّاسِ مَا وَلاَّهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمْ الَّتِی کَانُوا عَلَیْهَا قُلْ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ یَهْدِی مَنْ یَشَائُ ِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ (۱۴۲)...وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِی کُنتَ عَلَیْهَا ِلاَّ لِنَعْلَمَ مَنْ یَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ یَنقَلِبُ عَلَی عَقِبَیْهِ وَِنْ کَانَتْ لَکَبِیرَةً ِلاَّ عَلَی الَّذِینَ هَدَی ﷲ وَمَا

____________________

(۱) بقرہ ۱۲۵

(۲) بقرہ ۱۴۴تا۱۴۶

۳۱

( کَانَ ﷲ لِیُضِیعَ ِیمَانَکُمْ ِنَّ ﷲ بِالنَّاسِ لَرَئُ وف رَحِیم ) ( ۱ )

عنقریب نا عاقبت اندیش اور بیوقوف لوگ کہیںگے :کس چیز نے انھیں اس قبلہ سے جس پروہ تھے پھیردیا ہے؟کہو ؛مغرب ومشرق سب خدا کے ہیں خدا جسے چاہے راہ راست کی ہدایت کرتا ہے،ہم نے اس (پہلے) قبلہ کو جس پرتم تھے صرف اس لئے قرار دیا تھا تاکہ وہ افراد جو پیغمبر کا اتباع کرتے ہیں ان لوگوں سے جو جاہلیت کی طرف لوٹ سکتے ہیں ممتاز اور مشخص ہو جائیں یقینا یہ حکم ان لوگوں کے علاوہ جن کی خدا نے ہدایت کی ہے دشوار تھا اور خدا کبھی تمہا رے ایمان کو ضایع نہیں کرے گا ،کیوں کہ خدا وند عالم لوگوں کی نسبت رئوف ومہربان ہے۔

آیۂ تبدیل :

آیۂ تبدیل سورئہ نحل میں ۱۰۱سے ۱۲۴ آیات کے ضمن میں ذکر ہو ئی ہے،( ۲ ) ہم اس بحث سے مخصوص آیات کا ذکر کریں گے، خدا وند عالم فرماتاہے :

( وَِذَا بَدَّلْنَا آیَةً مَکَانَ آیَةٍ وَﷲ َعْلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوا ِنَّمَا َنْتَ مُفْتَرٍ بَلْ َکْثَرُهُمْ لاَیَعْلَمُونَ (۱۰۱)قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِنْ رَبِّکَ بِالْحَقِّ لِیُثَبِّتَ الَّذِینَ آمَنُوا وَهُدًی وَبُشْرَی لِلْمُسْلِمِینَ (۱۰۲) ِنَّمَا یَفْتَرِی الْکَذِبَ الَّذِینَ لاَیُؤْمِنُونَ بِآیَاتِ ﷲ وَُوْلَئِکَ هُمْ الْکَاذِبُونَ (۱۰۵)فَکُلُوا مِمَّا رَزَقَکُمْ ﷲ حَلاَلاً طَیِّبًا وَاشْکُرُوا نِعْمَةَ ﷲ ِنْ کُنْتُمْ ِیَّاهُ تَعْبُدُونَ (۱۱۴) ِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ الْمَیْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِیرِ وَمَا ُهِلَّ لِغَیْرِ ﷲ بِهِ فَمَنْ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَلاَعَادٍ فَِنَّ ﷲ غَفُور رَحِیم (۱۱۵) وَلاَتَقُولُوا لِمَا تَصِفُ َلْسِنَتُکُمْ الْکَذِبَ هَذَا حَلاَل وَهَذَا حَرَام لِتَفْتَرُوا عَلَی ﷲ الْکَذِبَ ِنَّ الَّذِینَ یَفْتَرُونَ عَلَی ﷲ الْکَذِبَ لاَیُفْلِحُونَ (۱۱۶) وَعَلَی الَّذِینَ هَادُوا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَیْکَ مِنْ قَبْلُ ...(۱۱۸) ثُمَّ َوْحَیْنَا ِلَیْکَ َنْ اتَّبِعْ مِلَّةَ ِبْرَاهِیمَ حَنِیفًا وَمَا کَانَ مِنْ الْمُشْرِکِینَ (۱۲۳) ِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَی الَّذِینَ اخْتَلَفُوا فِیهِ ) ( ۳ )

اور جب ہم ایک آیت کو دوسری آیت سے تبدیل کرتے ہیں ( ایک حکم کو کسی حکم کی جگہ قرار دیتے ہیں) خدا بہتر جانتا ہے کہ کونساحکم نازل کرے کہتے ہیں: تم افترا پردازی کرتے ہو ! نہیں بلکہ اکثریت ان کی نہیں جانتی، کہو :اسے روح القدس نے تمہارے پروردگار کی جانب سے حق کے ساتھ نازل کیا ہے تاکہ با ایمان

____________________

(۱)بقرہ ۱۴۲،۱۴۳(۲) بحث کی مزید شرح و تفصیل نیز اس کے مدارک و ماخذ ''قرآن کر یم اور مدر ستین کی روایات'': ج ۱، بحث : اسلامی اصطلاحات کے ضمن میں ملاحظہ کریں گے۔(۳) نحل: ۱۰۱ ۱۰۲ ۱۰۵ ۱۴ ۱ ۱۱۵ ۱۱۶ ۱۱۸ ۱۲۳ ۱۲۴.

۳۲

افراد کو ثابت قدم رکھے نیز مسلمانوں کے لئے ہدایت و بشارت ہو ،صرف وہ لوگ افترا پردازی کرتے ہیں جو خدا پر ایمان نہیں رکھتے وہ لوگ خود ہی جھوٹے ہیں ، لہٰذا جو کچھ تمہارے لئے خدا نے روزی معین کی ہے اس سے حلال اور پاکیزہ کھائو اور نعمت خدا وندی کا شکریہ ادا کرو ، اگر اس کی عبادت اور پرستش کر تے ہو ۔ خداوندعالم نے تم پر صرف مردار ، خون ،سور کا گوشت اور وہ تمام اشیاء جن پر خدا کانام نہ لیا گیا ہو حرام کیا ہے،لیکن جو مجبور و مضطر ہو جائے (اس کے لئے کوئی مضائقہ نہیں ) جبکہ حد سے زیادہ تجاوز و تعدی نہ کرے خدا وند عالم بخشنے والا اورمہربان ہے اوراس جھوٹ کی بنا پر جو کہ تمہاری زبان سے جاری ہوتا ہے نہ کہو:''یہ حلال ہے اور وہ حرام ہے'' تاکہ خدا پر افتراء اور بہتان نہ ہو، یقینا جو لوگ خدا پر افتراء پردازی کرتے ہیں کامیاب نہیں ہو ں گے ، جو کچھ اس سے پہلے ہم نے تمہارے لئے بیان کیا ہے، یہود پر حرام کیا ہے، پھر تم پر وحی نازل کی کہ ابراہیم کے آئین کی پیروی کر و جو کہ خالص اور محکم ایمان کے مالک تھے اور مشرکوں میں نہیں تھے ،سنیچر کا دن صرف ان لوگوں کے برخلاف اور ضرر میں قرار دیا گیا ، جو لوگ اس دن کے بارے میں اختلاف ونزاع کرتے تھے۔

لیکن جن چیز وں کی خدا وندعالم نے گزشتہ زما نہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے حکایت کی ہے اور اس سورہ کی ۱۱۸ویںآیت میں اس کا ذکر فرمایا ہے وہ یہ ہے:

الف:۔سورہ آل عمران کی ۹۳ ویں آیت:

( کل الطعام کان حلاّ لِبنی أسرائیل ألا ما حرّم أسرائیل علی نفسه )

تمام غذائیں بنی اسرائیل کے لئے حلال تھیں جز ان چیزوںکے جسے اسرائیل (یعقوب) نے اپنے آپ پر حرام کرلیاتھا۔

ب: ۔سورئہ انعام کی ۱۴۶ ویں آیت:

( وماعلی الذین هادواحرّمنا کلّ ذی ظفر و من البقر و الغنم حرّمنا علیهم شحومهما اِلا ما حملت ظهور هما أو الحوایا أو ما اختلط بعظم ذلک جزیناهم ببغیهم و اِنّا لصادقون ) ( ۱ )

____________________

(۱)اسرائ۲

۳۳

اور ہم نے یہودیوں پر تمام ناخن دار حیوانوں کو حرام کیا (وہ حیوانات جن کے کھر ملے ہو تے ہیں) گائے ،بھیڑ سے صرف چربی ان پر حرام کی ، جز اس چربی کے جو ان کی پشت پر پائی جاتی ہے اورپہلوؤں کے دو نوںطرف ہوتی ہے، یا وہ جو ہڈیوں سے متصل ہوتی ہے، یہ کیفر و سزا ہم نے ان کے ظا لمانہ رویہ کی وجہ سے دی ہے اور ہم سچّے ہیں۔

کلمات کی تشریح:

۱۔ (مصدقاً لما معکم)یعنی قرآن اور پیغمبر کے صفات ، پیغمبر کے مبعوث ہو نے اور آپ پر قرآن نازل ہونے کے بارے میں توریت کے اخبار کی تصدیق کرتے ہیں ، جیسا کہ توریت کے سفرتثنیہ کے ۳۳ ویں باب( میں طبع ریچارڈ واٹس لندن ۱۸۳۱ء عربی زبان میں )آیا ہے اور اس کا ترجمہ یہ ہے ۔

یہ ہے وہ دعائے خیر جسے مرد خدا حضرت موسیٰ نے اپنی موت سے پہلے بنی اسرائیل پر پڑھی تھی اور فرمایا تھا : خدا وندعالم سینا سے نکلا اور ساعیر سے نور افشاں ہوا اور کوہ فاران سے آشکار ہوا اور اس کے ہمراہ ہزاروںپاکیزہ افراد ہیں، اس کے داہنے ہاتھ میں آتشیںشریعت ہے، لوگوں کو دوست رکھتا ہے ، تمام پاکیزہ لوگ اس کی مٹھی میں ہیں جو لوگ ان سے قریب ہیں اس کی تعلیم قبول کرتے ہیں، موسیٰ نے ہمیں ایسی سنت کا فرمان دیا جو جماعت یعقوب کی میراث ہے. یہی نص( ریچارڈ واٹس لندن ۱۸۳۹ ء ،فارسی زبان میں ) اس طرح ہے:

۳۳واں باب

۱۔ یہ ہے وہ دعائے خیر جو موسیٰ مرد خدا نے اپنے مرنے سے قبل بنی اسرائیل پر پڑھی تھی ۔

۲۔ اور کہا :خدا وندعالم سینا سے برآمد ہوا اور سعیر سے نمودار ہوا اور کوہ فاران سے نور افشاں ہوا اور دس ہزار مقرب اور برگزیدہ لوگوں کے سا تھ و ارد ہوا اور اس کے داہنے ہاتھ سے آتش بار شریعت ان لوگوں تک پہنچی۔

۳۔بلکہ تبائل کو دوست رکھا اور اس کے تمام مقدسات تیرے قبضہ اور اختیار میں ہیں اور مقربین در گاہ تیری قدم بوسی کرتے ہوئے تیری تعلیم قبول کریں گے

۳۴

۴۔ موسیٰ نے ہمیں ایسی شریعت کا حکم دیا جو بنی یعقوب کی میراث ہے.....

یہی نص طبع آکسفورڈ یونیورسٹی( ۱ ) لندن میں (بغیر تاریخ طبا عت )صفحہ نمبر ۱۸۴ پر اس طرح آئی ہے:

یہ انگریزی نص فارسی زبان میں مذکورہ نص سے یکسانیت اور یگانگت رکھتی ہے:

CHAPTER ۳۳

And this the blessing,where with moses the man of God blessed the children of israel before his death

۲ and he said ,the LORD came from sinai and rose up from seir unto them ;he shined forth from mount paran and he came with ten thousands of saints; from his right hand went ,a fiery law for them

۳ yea,he loved the people ,all his saints are in thy hand :and they sat down at thy feet ;every one shall receive of thy words

۴ moses commanded us a law .even the inheritance of the congreg ation of jacob (۱ )

اس نص میں مذ کور ہے کہ ( وہ دس ہزار مقرب افراد کے ساتھ آیا)یعنی ہزاروں کی عدد معین کیہے ، خواہ پہلی نص میں بغیر اس کے کہ ہزاروں کی تعداد معین کرے آیا ہے: ''اس کے ساتھ ہزاروں پاکیزہ افراد''کیونکہ جس نے غار حرا سے فاران میں ظہور کیا پھر دس ہزارافرادکے ہمراہ مکّہ کی سرزمین پر قدم رکھا وہ خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی ﷲ علیہ و آلہ و سلم ہیں، اہل کتاب نے عصر حاضر میں اس نص میں تحریف کر دی ہے

____________________

(۱)یہ طباعت سرخ اور سیاہ رنگ کے ساتھ(فقط) عہد جدید کے حصّہ میں مشخص ہو گی.

۳۵

تا کہ نبی کی بعثت کے متعلق توریت کی بشارتوں کو چھپا دیں اور ہم نے ( ایک سو پچاس جعلی صحابی) نامی کتاب کی دوسری جلدکی پانچویں تمہید میں اس بات کی تشریح کی ہے ۔

''مصدقا لمامعکم''کی تفسیر میں بحث کا نتیجہ:

توریت کا یہ باب واضح طور پر یہ کہتا ہے : موسیٰ ابن عمران نے اپنی موت سے قبل اپنی وصےّت میں بنی اسرائیل سے کہا ہے : پروردگار عالم نے توریت کو کوہ سینا پر نازل کیا اور انجیل کو کوہِ سعیر پر اور قرآن کو کوہِ فاران ( مکّہ ) پر پھر تیسری شریعت کی خصوصیات شمار کرتے ہوئے فرمایا:

جب وہ مکہ میں آئے گا دس ہزار لوگ اس کے مقربین میں سے اس کے ہمراہ ہوں گے، یہ وہی دس ہزار رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سپاہی ہیں جو فتح مکّہ میں تھے اور یہ تیسری شریعت ، شریعت جہاد ہے۔

اور یہ کہ اس کی امت اس کی تعلیمات کو قبول کرے گی، اس تصریح میں بنی اسرائیل کے موقف کی طرف اشارہ ہے جنھوں نے منحرف ہو کر گو سالہ پرستی شروع کر دی اور اپنے پیغمبر موسیٰ اور تمام انبیاء کرام سے جنگ و جدال کرتے رہے قرآن اور توریت میں اس کا تذکرہ ہوا ہے۔

ہم یہاں پر نہایت ہی ا ختصارسے کام لیں گے، کیونکہ اگر ہم چاہیں کہ وہ تمام بشارتیں جو خاتم الانبیاء کی بعثت سے متعلق ہیں( ان تمام تحریفات کے باوجود جسکے وہ مرتکب ہوئے ہیں) جوکہ باقی ماندہ آسمانی کتابوں کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہیں اور وہ آسمانی کتابیں جو حضرت خاتم الانبیاء کے زمانے میں اہل کتاب کے پاس تھیں ، اگر ہم ان تمام بشارتوںکو پیش کرنے لگیںتو بحث طولانی ہو جائے گی، البتہ انھیں بشارتوں کے سبب خداوند سبحان چندآیات کے بعد فرماتا ہے:

( الذین أتینا هم الکتاب یعرفونه کما یعرفون ابناء هم و أن فریقاً منهم لیکتمون الحقّ و هم یعلمون ) ( ۱ )

جن لوگوں کو ہم نے آسمانی کتاب دی ہے وہ لوگ اس( پیغمبر) کواپنے فرزندوں کی طرح پہچانتے ہیں یقینا ان کے بعض گروہ حق کو دانستہ طور پر چھپا تے ہیں۔

بنابر این مسلم ہے کہ خاتم الانبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قرآن کے ساتھ بعثت، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کی امت کے مخصوص صفات

____________________

(۱)سورہ بقرہ ۱۴۶.

۳۶

ان چیزوں کی تصدیق ہیں جو اہل کتاب کے نزدیک توریت اورانجیل میں ہیں( عالمین کے پر وردگار ہی سے حمدوستائش مخصوص)

۲۔( لاتلبسواالحقّ بالباطل )

حق کوباطل سے مخلوط نہ کرو کہ حقیقت پوشیدہ ہو جائے یا یہ کہ حق کو باطل کے ذریعہ نہ چھپاؤ کہ ا سے مشکوک بنا کر پیش کرو ۔

۳۔''عدل'':فدیہ ، رہائی کے لئے عوض دینا۔

۴۔''قفّینا'':لگاتار ہم نے بھیجا یعنی ایک کے بعد دوسرے کو رسالت دی۔

۵۔''غلف'' جمعِ اغلف جو چیز غلاف اور پوشش میں ہو۔

۶۔''یستفتحونَ''کامیابی چاہتے تھے، جنگ میں دشمن پر فتح حاصل کر نے کیلئے،یعنی اہل کتاب پیغمبر خاتمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نام لے کر اور انہیں شفیع بنا کر خدا کے نزدیک کامیابی چاہتے تھے۔( ۱ )

۷۔''ننسٔھا: نٔوخّر ھا:''اُسے تاخیر میں ڈال دیا ، ننسٔھا ،ننسِئھٰا کا مخفف اور نسأ کے مادہ سے ہے، یعنی ہر وہ حکم جسے ہم نسخ کریں یا اس کے نسخ میں تاخیر کریں تواس سے بہتر یااس کے مانند لاتے ہیں۔

''نُنْسِھا ،نُنْسِیْھا''کا مخفف مادئہ نسی سے جس کے معنی نسیان اور فراموشی کے ہیں ،نہیں ہو سکتا تاکہ اس کے معنی یہ ہو ںکہ جس آیت قرآن کی قرائت لوگوں کے حافظہ سے بھلا دیتے ہیں تواس سے بہتر یا اس کے مانند لے آئیں گے،جیسا کہ بعض لوگوں نے اسی طرح کی تفسیر کی ہے( ۲ ) کیونکہ:

الف ۔خدا وندمعتال نے خود ہی قر آن کی فراموشی اور نسیان سے حفاظت کی ضمانت لی ہے اور فرمایا ہے:(سنقرئک فلا تنسیٰ)ہم تم پر عنقریب قرآن پڑھیں گے اور تم کبھی اسے فراموش نہیں کر و گے۔

ب۔اس بات میں کسی قسم کی کوئی مصلحت نہیں ہے کہ اس کو لوگوں کے حافظہ سے مٹا دیا جائے،جب کہ خدا وندعالم نے خودآیات لوگوں کے پڑھنے کے لئے نازل کی ہیں پھر کیوں ان کے حافظہ سے مٹا دے گا؟

۸۔ھادوا وھودا، ھادوا: یہودی ہوگئے،ھودا جمع ہے ھائد کی یعنی یہودی لوگ۔

۹۔''( فضلتکم علی العا لمین'' ) : یعنی خدا وند عالم نے تم کو اس زمانے میں مصر کے فرعونیوں ،قوم عمالقہ اور دیگر شام والوں پر فوقیت دی ہے۔

____________________

(۱)تفسیر طبری آیہ مذکورہ

(۲) آیت کی تفسیر سے متعلق تفسیر قرطبی، طبری اور سعد ابن ابی وقّاص سے ا ن دونوں کی روایت کی طرف مراجعہ ہو۔

۳۷

۱۰۔شطر:شطر کے کئی معنی ہیں کہ منجملہ ''جہت'' اور ''طرف''ہیں۔

۱۱۔( ''ماکان ﷲ لیضیع ایمانکم'' ) : خدا وند عالم ہر گز ان نمازوں کوجو تحویل قبلہ سے پہلے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے پڑھی ہیںضائع نہیں کرے گا۔

۱۲۔'' أِذا بدّلنا '': جب بھی جا گزیں کریں، ایک حکم کو دوسرے حکم سے تبدیل کر د یں ، عوض اوربدل کے درمیان یہ فرق ہے کہ:عوض جنس کی قیمت ہوتا ہے اور بدل ا صل کا جا گزیں اور قائم مقام ہوتا ہے۔

۱۳۔''روح القدس'' : ایک ایسا فرشتہ جس کے توسط سے خدا وندعالم قرآن،احکام اور اس کی تفسیرپیغمبر پر نازل کرتا تھا ۔

۱۴۔'' ذی ظفر'': ناخن دار یہاں پر مراد ہر وہ حیوان ہے جس کے سم میں شگاف نہیں ہوتا جیسے اونٹ، شتر مرغ ،بطخ ،غاز، وﷲ عالم بالصواب۔

۱۵۔''الحوایا'': آنتیں.

۱۶۔''ما اختلط بعظم'': وہ چربی جو ہڈی سے متصل ہو ۔

تفسیر آیات

۱۔ آیۂ تبدیل:

وہ آیت جو سورئہ نحل کی مکی آیات کے ضمن میں آئی ہے:خدا وند سبحان ان آیات میں فرماتا ہے : جب کبھی ایک آیت کو دوسری آیت کی جگہ قرار دیتے ہیںیعنی گزشتہ شریعت کا کوئی حکم اٹھا کر کوئی دوسرا حکم جو قرآن میں مذکور ہے اس کی جگہ رکھ دیتے ہیں تو ہمارے رسول سے کہتے ہیں:تم جھوٹ بولتے ہو۔

اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! کہو : قرآنی احکام کو مخصوص فرشتہ خدا کی جانب سے حق کے ساتھ لاتا ہے تاکہ مومنین اپنے ایمان پر ثابت قدم رہیں اور مسلمانوں کے لئے ہدایت اور بشارت ہو، تم جھوٹ بولنے والے یا گڑھنے والے نہیں ہو، جھوٹے وہ لوگ ہیں جوآیات الٰہی پر ایمان نہیں رکھتے،یعنی مشرکین،وہ لوگ خود ہی جھوٹے ہیں۔

۳۸

خدا وندعالم اس کے بعد محل اختلاف کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتا ہے: جو کچھ ہم نے تم کو روزی دی ہے جیسے اونٹ کا گوشت اور حیوانات کی چربی اور اسکے مانندجس کو بنی اسرائیل پر ہم نے حرام کیا تھا،حلال و پاکیزہ طور پر کھاؤ،کیونکہ خدا ونداعالم نے اسے تم پر حرام نہیں کیا بلکہ صرف مردار ،خون ،سؤر کا گوشت اور وہ تمام جانور جن پر خدا کا نام نہ لیا گیا ہو ان کا کھانا تم پر حرام کیاہے،سوائے مضطر اور مجبور انسان کے جو کہ اس کے کھانے پر مجبورہو،یہ وہ تمام چیزیں ہیں جو تم پر حرام کی گئی ہیں تم لوگ اپنے پاس سے نہ کہو:''یہ حرام ہے اور وہ حلال ہے''جیسا کہ مشرکین کہتے تھے اور خدا وندعالم نے سؤرہ انعام کی ۱۳۸سے۱۴۰ویں آیات میں اس کی خبر دی ہے کہ یہ سب مشرکوں کا کام ہے ،رہا سوال یہود کا توخدا وندعالم نے ان لوگوں پر مخصوص چیزوں کو حرام کیا تھا جس کا ذکر سورۂ انعام میں آیا ہے۔

رہے تم اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! تو ہم نے تم پر وحی کی :حلال و حرام میں ملّت ابراہیم کے پیرو رہو اور شریعت ابراہیم کے تمام امور میں سے یہ ہے کہ جمعہ کا دن ہفتہ میں آرام کر نے کا دن ہے،لیکن سنیچر تو صرف بنی اسرائیل کے لئے تعطیل کا دن تھا ان پر اس دن کام حرام تھا جیسا کہ سورۂ اعراف کی ۱۶۳ ویں آیت میں مذکور ہے۔

جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے اس کی بنیاد پر تبدیل آیت کے معنی یہاں پر یہ ہیں کہ صرف توریت کے بعض احکام کو قرآن کے احکام سے تبدیل کرناہے اور شریعت اسلامی کی حضرت ابراہیم خلیل ﷲ کی شریعت کی طرف باز گشت ہے ۔

جو چیز ہمارے بیان کی تاکید کرتی ہے، خدا وندسبحان کا فرمان ہے کہ ارشاد فرما تا ہے:

( و اِذا بد لنا آية مکان آية قالوانما مفتر قل نزّله روح القدس )

کیونکہ لفظ'' نزلہ'' میں مذ کر کی ضمیر آیت کے معنی یعنی ''حکم''کی طرف پلٹتی ہے اور اگر بحث اس آیت کی تبدیل کے محورپر ہوتی جو کہ سورہ کا جز ہے تو مناسب یہ تھا کہ خدا وندسبحان فرماتا:''قل نزلھا روح القدس''یعنی مونث کی ضمیر ذکر کرتا نہ مذکر کی( خوب دقت اور غور و خوص کیجئے)۔

۳۹

۲۔آیۂ نسخ:

یہ آیت سورہ بقرہ کی مدنی آیات کے درمیان آئی ہے،خداوندمتعال ان آیات میں فرماتا ہے:

اے بنی اسرائیل ؛خداوندعالم کی نعمتوں کو اپنے اوپر یادکرو اور اس کے عہد وپیمان کووفا (پورا)کروایسا پیمان جو توریت بھیجنے کے موقع پر ہم نے تم سے لیا تھا اور تم سے کہا تھا :جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے اسے محکم انداز میں لے لواورجو کچھ اس میں ہے اسے یادرکھو۔

اس میں خاتم الانبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت سے متعلق بشارت تھی خدا سے اپنے عہد وپیمان کو وفا کروتا کہ خدا بھی اپنے پیمان کو جو تم سے کیاہے وفا کرے اور اپنی نعمتوں کادنیا واخرت میں تم پر اضافہ کرے اور جو کچھ خاتم الانبیاء پرنازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ کہ وہ یقینا جو کچھ تمہارے پاس کتاب خدامیں موجود ہے سب کا اثبات کرتا ہے، حق کو نہ چھپاؤ اوراسے دانستہ طور پر باطل سے پوشیدہ نہ کرو ،خدا وند عالم نے موسیٰ کو کتاب دی اوران کے بعد بھی رسولوں کو بھیجا کہ انھیں میں سے عیسیٰ ابن مریم بھی تھے وہی جن کی خدانے روشن دلائل اور روح القدس کے ذریعہ تائید کی ،کیا ایسا نہیں ہے کہ جب بھی کسی پیغمبر نے تمہارے نفسانی خواہشات کے خلاف کوئی چیز پیش کی تو تم لوگوںنے تکبر سے کام لیا کچھ لوگوں کوجھوٹا کہا اور کچھ کو قتل کر ڈالا؟اور کہا ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں اوران چیزوں کو ہم نہیں سمجھتے ہیں،اب بھی قرآن خدا کی جانب سے تمہارے لئے نازل ہوا ہے اور جو خبریں تمہارے پاس ہیںان سے بھی ثابت ہے پھر بھی تم اس کا انکار کرتے ہو جبکہ تم اس سے پہلے کفار پر کامیابی کے لئے اس کے نام کو اپنے لئے شفیع قرار دیتے تھے اور اب تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آگئے ہیں اور تم لوگ پہچانتے بھی ہو پھر بھی اس کا اور جو کچھ اس پر نازل ہوا ہے ان سب کا انکار کرتے ہو،تم نے خود کو ایک بری قیمت پر بیچ ڈالاکہ جو خدا نے نازل کیا اس کا انکار کرتے ہو، اس بات پر انکار کرتے ہو کہ کیوں خدا نے حضرت اسماعیل کی نسل میں پیغمبر بھیجا حضرت یعقوب کی نسل میں یہ شرف پیغمبری کیوں عطا نہیں کیا؟لہٰذا وہ غضب خدا وندی کا شکار ہوگئے اور کافروں کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

آیت ۳۵

( إِنَّكَ كُنتَ بِنَا بَصِيراً )

يقينا تو ہمارے حالات سے بہتر باخبر ہے (۳۵)

۱ _ حضرت موسى (ع) نے اپنے اور اپنے خاندان كى خصوصيات كے بارے ميں خداتعالى كى گہرى آگاہى كو بيان كر كے اپنے آپ كو خداتعالى كى خواہشات كو قبول كرنے والا اور اسكے انتخاب پر راضى قرار ديا _إنّك كنت بنا بصير

''نا'' سے مراد ہے حضرت موسى (ع) اور انكے اہل و عيال ہيں كہ جن ميں حضرت ہارون بھى شامل ہيں _ حضرت موسى ،(ع) جناب ہارون كيلئے وزارت كى تجويز دينے كے بعد عرض كرتے ہيں _ خداوندا تو مجھے اور ميرے خاندان كو خوب جانتا ہے

اور ميرے بھائي ہارون كى خصوصيات سے بھى آگاہ ہے _ يہ ميرى درخواست ہے ليكن تيرا فيصلہ جو بھى ہو مكمل بصيرت اور آگاہى پر مبنى فيصلہ ہوگا _

۲ _ حضرت موسى (ع) نے اپنى رسالت كے امور كے بارے ميں خداتعالى كى بارگاہ ميں درخواست كرنے كے ساتھ ساتھ، خداتعالى كى مكمل آگاہى كا اعتراف كيا اور اسكے فيصلے كو دقيق اور صحيح قرار ديا _و ا شركه فى ا مري إنّك كنت بنا بصيرا

۳ _ حضرت موسى (ع) نے اپنى اور اپنے بھائي ہارون كى خداتعالى كے ذكر اور تسبيح كے ساتھ دائمى محبت كا اظہار كيا اور خداتعالى كو اس پر گواہ بنايا _إنّك كنت بنا بصيرا

ہوسكتا ہے جملہ'' إنّك ...'' ''كى نسبّحك كثيراً '' كى علت كا بيان ہو يعنى خدايا تو خوب جانتا ہے كہ ميرے اور ميرے بھائي ہارون كے كيا جذبات ہيں اور تيرى تسبيح و ذكر كے ساتھ ہميں كتنى محبت ہے پس ہارون كى وزارت كو قبول كركے ہمارے لئے زيادہ تسبيح و ذكر كا راستہ ہموار فرما _

۴ _ خداتعالى اپنے بندوں كے حالات اور انكى خوبيوں اور خاميوں سے آگاہ ہے _إنّك كنت بنابصيرا

۵ _ خداتعالى كے بندوں كے حالات سے آگاہى كے باوجود اسكى بارگاہ ميں دعا كرنا اور اس سے درخواست كرنا ايك پسنديدہ امر ہے _و ا شركه فى ا مري إنّك كنت بنا بصيرا حضرت موسى (ع) نے اپنے اور ہارون كے حالات

۶۱

سے خداتعالى كى آگاہى كو ذكر كرنے كے باوجود اسكى بارگاہ ميں دعا كى اور اپنى خواہشات كو بيان كيا موسى (ع) كا يہ كام بتاتا ہے كہ خداتعالى كے سب چيزوں سے آگاہ ہونے كے باوجود اسك ى بارگاہ ميں دعا كرنا مطلوب اور كارساز ہے _

اقرار:خدا كى بصيرت كا اقرار ۲

ايمان:خدا كى بصيرت پر ايمان۱

خداتعالى :اسكى بصيرت ۴، ۵; اسكى گواہى ۳

دعا:اسكى فضيلت ۵

محبت:خدا كى تسبيح سے محبت ۳; خدا كے ذكر سے محبت ۳

عمل:پسنديدہ عمل ۵

موسى (ع) :آپكا اقرار ۲; آپكا ايمان ۱; آپكى خواہشات ۲; آپكى معنوى محبت ۳ ; آپ كا مقام رضا ۱

ہارون:انكى معنوى محبت ۳

آیت ۳۶

( قَالَ قَدْ أُوتِيتَ سُؤْلَكَ يَا مُوسَى )

ارشاد ہوا موسى نے تمھارى مراد تمھيں ديدى ہے (۳۶)

۱ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كى تمام درخواستوں كو قبول كرليا اور انہيں شرح صدر اور روانى سے بولنے كى طاقت عطا فرمائي او رہارون كو انكا وزير قرار ديا _قال ربّ قال قد ا وتيت سؤلك يا موسى

''سؤل'' يعنى ايسى حاجت كہ جسے حاصل كرنے كيلئے انسان كا نفس حريص ہو اور اس كا آرزو سے فرق يہ ہے كہ آرزو انسان كى فكر ميں گزرتى ہے ليكن ''سؤل'' كا پيچھا كيا جاتا ہے گويا'' سؤل'' كا درجہ ہميشہ آرزو كے بعد ہوتا ہے _

۲ _ وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) كى دعائيں بہت جلدى قبول ہوئيں _قال ربّ اشرح لى قال قد ا وتيت سؤلك ''ا وتيت'' فعل ماضى مجہول ہے اور اس كا

۶۲

مطلب يہ ہے كہ موسى (ع) كى دعاؤں كى قبوليت وعدے كى صورت ميں اور مستقبل سے مربوط نہيں تھى بلكہ اتنى جلدى ہوئي گويا گذشتہ زمانے ميں _

۳ _ خداتعالى نے وادى طوي( كوہ طور) ميں حضرت موسى كو انكى دعاؤں كى قبوليت سے آگاہ كيا _قد ا وتيت سؤلك

۴ _ مطالبات كے پورا ہونے كيلئے خداتعالى سے دعا اور درخواست مؤثر ہے _قال رب اشرح قال قد ا وتيت سؤلك

حضرت موسى (ع) كے مطالبات كا پورا ہونا انكى بارگاہ خداوندى ميں دعا اور التماس كے بعد تھا اور اس سے خواہشات كے پورا ہونے ميں دعا كے كردار كا پتا چلتا ہے

۵ _ كوہ طور ميں وادى طوى وہ جگہ ہے جہاں حضرت موسى (ع) كو شرح صدر اور روانى سے گفتگو كرنا عطا كيا گيا اور ہارون كو انكا وزير بنايا گيا _قال رب اشرح قال قد ا وتيت سؤلك

۶ _ حضرت ہارون (ع) كو وادى طوى ميں مقام نبوت و رسالت پر فائز كيا گيا _هرون ا خي و ا شركه فى ا مري قد ا وتيت سؤلك اگر ''ا شركہ فى أمري'' سے مراد حضرت ہارون (ع) كيلئے نبوت و رسالت كى دعا ہو تو يہ وادى طوى ميں قبول ہوئي _

۷ _ حضرت موسى (ع) ،عنايات خداوندى كا مركز _ياموسى حضرت موسى (ع) كى دعاؤں كا فوراً قبول ہوجانا اور بار بار ان كے نام كى تصريح سے انكے خداتعالى كے مورد توجہ و عنايت ہونے كا پتا چلتا ہے _

۸ _ ذمہ دار افراد كو ذمہ دارى سپرد كرنے كے ہمراہ انكى ضرورت كے وسائل فراہم كرنا بھى ضرورى ہے_

إذهب إلى ...قال ربّ ...قد ا وتيت سؤلك

حضرت موسى (ع) نے رسالت اور فرعون كى طرف حركت كرنے پر ما مورہونے كے بعد بارگاہ خداوندى ميں اپنى ضروريات اور خواہشات كا تذكرہ كيا_خداتعالى نے بھى اس كا مثبت جواب ديا يہ سب كيلئے درس ہے كہ اگر كسى كو ذمہ دارى دى جائے تو ضرورى ہے كہ اسكى بات سنى جائے، اس كے مطالبے پر توجہ دى جائے اور اسكى ضروريات پورى كى جائيں _خداتعالى :اسكے عطيے۱

دعا:اسكے اثرات ۴ذمہ دار افراد:انكى ضرورت پورى كرنا ۷

كوہ طور:اس كا كردار ۵، ۶لطف خدا:يہ جنكے شامل حال ہے ۷

۶۳

مطالبے:انكے حاصل كرنے كے عوامل۴

موسى (ع) :آپكى دعا كى قبوليت ۱، ۳; آپكى دعا كى جلدى قبوليت ۲; آپكا شرح صدر ۱، ۵; آپكا علم ۳; آپكيفصاحت ۱، ۵; آپ كے فضائل ۷; آپكا قصہ ۱، ۳ ; آپ كوہ طور ميں ۳، ۵

ہارون (ع) :انكے منصوب كرنے كى جگہ ۵; انكے انتخاب كى جگہ ۶; انكى نبوت ۶; انكا كردار ادا كرنا ۱; انكى وزارت ۱، ۵

وادى طوى :اس كا كردار ۵،۶

آیت ۳۷

( وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَيْكَ مَرَّةً أُخْرَى )

اور ہم نے پر ايك اور احسان كيا ہے (۳۷)

۱ _ وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) كى در خواستوں كے مطالبات كا پورا ہونا آپ پرخداتعالى كى جانب سے بھارى نعمت تھى _قدا وتيت سؤلك يا موسى و لقد مننا عليك مرة ا خرى

''منّة'' كا معنى ہے بھارى نعمت (مفردات راغب) _

۲ _ وادى طوى ميں قدم ركھنے سے پہلے بھى حضرت موسى (ع) پرخداتعالى كى توجہ و عنايت اور بھارى نعمت كا نزول ہوا تھا _و لقد مننا عليك مرة أخرى

۳ _ حضرت موسى (ع) كا ماضى ميں عظيم نعمت سے بہرہ مندہونا انكے وادى طوى ميں اپنى درخواستوں كي حتمى قبوليت كے اطمينان كا سبب تھا _و لقدمننا عليك مرة ا خرى

''لقد'' كى تعبير قسم كى علامت ہے_ تاكيد كے ساتھ ماضى كے بارے ميں خبر ، مستقل سے مربوط وعدوں كى نسبت اطمينان پيدا كرنے كيلئے (ا وتيت سؤلك) ہے_

۴ _كوہ طور ميں حضرت موسى (ع) كو جو نعمت عطا كى گئي وہ اس گراں قدر نعمت كے ہم پلہ تھى جو سابقہ زمانے ميں انہيں عطا ہوچكى تھى _و لقد مننا عليك مرةا خرى

۵ _ ماضى و حال كى نعمتوں كو ہميشہ خداتعالى كى منشا سے وابستہ سمجھنا ضرورى ہے _و لقدمننا عليك مرة ا خرى

۶۴

خداتعالى :اسكى مشيت كے اثرات ۵

لطف خدا:يہ جنكے شامل حال ہے ۲ ، ۳

موسى (ع) :آپكى دعا كى قبوليت ۱; آپكى دعا كى قبوليت كى وجوہات ۳; آپكے فضائل ۲، ۳، ۴; آپ كوہ طور ميں ۴; آپ كى نعمتيں ۱، ۳، ۴

نعمت:اسكے درجے ۱، ۳، ۴; يہ جنكے شامل حال ہے ۱، ۲، ۳، ۴

يادكرنا:منعم كو يادكرنا ۵۵

آیت ۳۸

( إِذْ أَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّكَ مَا يُوحَى )

جب ہم نے تمھارى ماں كى طرف ايك خاص وحى كى (۳۸)

۱ _ حضرت موسى (ع) كى والدہ، خدا كى جانب سے وحى اور پيغام وصول كرتى تھيں _إذ ا وحينا إلى ا مك

ممكن ہے ''وحي'' سے مرادخداتعالى كا حضرت موسى (ع) كى والدہ كے ساتھ بات كرنا ہو اور ممكن ہے اس سے مراد الہام ہو حضرت موسى (ع) كى والدہ كے ساتھ خداتعالى كے بعض وعدے كہ جن كا ذكر سورہ قصص ميں آيا ہے پہلے معنى كے ساتھ زيادہ سازگار ہيں _

۲ _ بچپن سے ہى خداتعالى كى خصوصى عنايات حضرت موسى (ع) كے شامل حال تھيں _إذ ا وحينا إلى ا مك ما يوحى

۳ _ خداتعالى كى طرف سے حضرت موسى (ع) كى والدہ كو وحى اور پيغام اسكى حضرت موسى (ع) پر عظيم نعمتوں ميں سے تھا _و لقد مننا إذ ا وحينا إلى ا مك ما يوحى

''اذ'' ظرف ہے ''مننا'' كيلئے يعنى سابقہ آيت ميں ...مذكور نعمت اس وقت تھى _

۴ _ حضرت موسى (ع) كى والدہ كى ان معلومات تك دسترسى جو ان تك پہنچائي گئيں وحى الہى كے علاوہ كسى اور راستے سے ممكن نہيں تھى _ما يوحى

''مايوحى '' (جو وحى كيا جاتا ہے) سے مراد وہ امور ہيں جنكى قاعدتاً وحى كى جائي ہے ورنہ خود انسان ان تك نہيں پہنچ سكتا_

۶۵

۵ _ بيٹے كى عظمت ماں كے مقام كى بلندى كا سبب ہے_إذ ا وحينا إلى ا مك

حضرت موسى (ع) كى والدہ كو جو كچھ بتايا گيا اسكے محتوا سے پتا چلتا ہے كہ اصلى ہدف حضرت موسى (ع) كى حفاظت تھا اگر چہ فطرى طور پر اس سے حضرت موسى (ع) كى والدہ كو بھى سكون ملا_ پس مادر موسى كى وحى الہى تك دسترسى كا سبب حضرت موسى (ع) كى عظمت ہے _

۶ _ حضرت موسى (ع) كى جان كى حفاظت اور انكى والدہ كى پريشانى كو دور كرنا خداتعالى كى تدبير سے ہوا_

إذ ا وحينا إلى ا مك

خداتعالى :اسكى تدبير ۶

بيٹا:اسكے مقام كا كردار ۵

خداتعالى كا لطف:يہ جنكے شامل حال ہے ۲

والدہ:اسكے مقام كا سرچشمہ ۵

موسى (ع) :آپكى والدہ كى پريشانى كو دوركرنا ۶; آپكے فضائل ۲، ۳; آپكا بچپن ۲; آپكى حفاظت ۶; آپكى نعمتيں ۳; آپكى والدہ كى طرف وحى ۱، ۳، ۴

نعمت :اسكے درجے ۳; يہ جنكے شامل حال ہے ۳

وحي:اس كا كردار ۴

آیت ۳۹

( أَنِ اقْذِفِيهِ فِي التَّابُوتِ فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِّ فَلْيُلْقِهِ الْيَمُّ بِالسَّاحِلِ يَأْخُذْهُ عَدُوٌّ لِّي وَعَدُوٌّ لَّهُ وَأَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّي وَلِتُصْنَعَ عَلَى عَيْنِي )

كہ اپنے بچہ كو صندوق ميں ركھ دو اور پھر صندوق كو دريا كے حوالے كردو مو جيس اسے ساحل پر ڈال ديں گى اور ايك ايسا شخص سے اٹھالے گا جو ميرا بھى دشمن ہے اور موسى كا بھى دشمن ہے اور ہم نے ت پر اپنى محبت كا عكس ڈال ديا تا كہ تمھيں ہمارى نگرانى ميں پالاجائے (۳۹)

۱ _ پيدائش كے وقت اور بچپن سے ہى فرعونيوں كى طرف سے حضرت موسى (ع) كى جان كو خطرہ تھا _

ا ن اقذفيه فى التابوت فاقذفيه فى اليمّ

حضرت موسى (ع) كى والدہ كا اپنے بيٹے كو سمندر ميں پھينكنے كا حكم وصول كرنا اس زمانے كے حالات كے سخت ہونے

۶۶

اور حضرت موسى (ع) كى جان كو لاحق خطرے كى علامت ہے_

۲ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كى والدہ كو حكم ديا كہ وہ موسى (ع) كو صندوق ميں ڈال كر دريائے نيل ميں پھينك ديں _ا ن اقدفيه فى التابوت فاقذفيه فى اليّم ''قذف'' كا معنى ہے پھينكنا (مقاييس اللغة) اور ''اقذفيہ'' جو موسى (ع) كو صندوق ميں ڈالنے ميں بھى استعمال ہوا ہے اور پھر صندوق كو پانى ميں پھينكنےميں بھى بتاتا ہے كہ موسى (ع) كو اس طرح صندوق ميں قرار دينا اور پھر پانى ميں پھينكنا ضرورى ہے كہ ہر ديكھنے والا يہ سمجھے كہ اسے دور پھينك ديا گياہے ''تابوت'' يعنى صندوق (نہايہ ابن اثير) ''يمّ'' يعنى سمندر اور آيت ميں اس سے مراد دريائے نيل ہے (لسان العرب) _

۳ _ فرعون كى حكومت ميں بنى اسرائيل كى زندگى بہت دشوار تھى اور انكے لڑكوں كى جان خطرے سے دوچار تھى _

ا ن اقذفيه فى التابوت فاقذفيه فى اليّم

۴ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كى والدہ كو اطمينان دلايا كہ دريائے نيل كا جوش مارتا پانى حضرت موسى (ع) كے صندوق كو ساحل پرپھينك ديگا _فليلقه اليمّ بالساحل دريا كو حكم دياگياكہ وہ صندوق كو ساحل پر پھينك دے مجاز اور اس بات ميں مبالغہ كيلئے ہے كہ پانى كى لہروں كے ہمراہ صندوق كا ساحل تك آنا اور پھر اس كا خشكى پرپھينكا جانا يقينى ہے_

۵ _ حضرت موسى (ع) كى والدہ گرامي، خداتعالى كے پيغام پر ايمان ركھتى تھيں اور انہيں خدا كى جانب سے حضرت موسى (ع) كى حفاظت كا اطمينان تھا _إذ ا وحينا ا ن اقذفيه ...يا خذه عدو بعد والى آيت (إذتمشى ا ختك فرجعناك إلى ا مك ) كے قرينے سے پتا چلتا ہے كہ حضرت موسى (ع) كى والدہ نے وحى الہى كے محتوا پر عمل كيا اور حضرت موسى (ع) كو دريائے نيل كے سپردكرديا_ يہ كام حضرت موسى (ع) كى والدہ كے اس اطمينان كى گواہى ديتا ہے كہ موصولہ پيغام، وحى الہى تھا نيز يہ يہ اس پر انكے مكمل ايمان كى علامت ہے_

۶ _ دريائے نيل،خداتعالى كى جانب سے حضرت موسى (ع) كے صندوق كو ساحل پر پھينكنے پر ما مور تھا _فليلقه اليّم بالساحل جملہ''فليلقه اليّم '' جس طرح مادرموسى (ع) كو سمجھا رہا ہے كہ موسى (ع) كا ساحل پر پھينكا جانا قطعى ہے اس حقيقت كو بھى بيان كررہا ہے كہ پانى امر تكوينى كے ساتھ اس كام كو انجام دينے پرما مور تھا _

۷ _ حقيقى عوامل، خداتعالى كى حكمرانى ميں ہيں اوروہ اسكے فرامين كو عملى كرنے والے ہيں _فليلقه اليم بالساحل

۸ _ جناب موسى (ع) كو پانى ميں پھينكنے سے پہلے آپ كى والدہ كو خداتعالى كى طرف سے يہ اطلاع ہوچكى تھى كہ ايك دشمن كے ذريعے حضرت موسى (ع) كو نجات حاصل ہوگى _ا وحينا يا خذه عدولى و عدوله

۶۷

۹ _ فرعون،خداتعالى اور حضرت موسى (ع) كا دشمن تھا اور موسى (ع) كو پہنچان كرا نہيں نابود كرنے كے درپے تھا _

يا خذه عدولى و عدوله فرعون كى حضرت موسى (ع) كے ساتھ دشمنى وہ بھى انكى خصوصيات كے حامل بچے كى پيدائش سے پہلے بتاتى ہے كہ فوعون نے حضرت موسى (ع) كو پہچاننے كى صورت ميں انہيں قتل كرنے كا عزم كرركھا تھا_

۱۰ _ خداتعالى نے مادر موسى (ع) كى طرف جو وحى كى اس ميں خدا اور انكے بچے كے دشمن كو اس بچے كا نجات دہندہ اور اسكى كفالت كرنے والا متعارف كرايا _يا خذه عدولى و عدوله

۱۱ _ ممكن ہے دشمنان خدا بھى با دل نخواستہ خدا كے محبوب بندوں كے فائدے كيلئے كام كريں _يا خذه عدولى و عدوله

۱۲ _حضرت موسى (ع) كے زمانے ميں دريائے نيل پانى سے پر تھا اور فرعون كى رہائش گاہ سے زيادہ دور نہيں تھا _

فليقه اليّم بالساحل يا خذه عدولي ''يَمّ'' كا معنى ہے سمندر اور دريا كو سمندر كہنا اس ميں پانى كى كثرت سے حكايت كرتا ہے _

۱۳ _ خداتعالى نے اپنى جانب سے حضرت موسى (ع) كو خصوص محبوبيت عطا فرما كر انہيں ہر ديكھنے والے كى نظر ميں محبوب بناديا _وا لقيت عليك محبة منّي ''ا لقيت'' كا ''ا وحينا'' پر عطف ہے كہ جو سابقہ آيت ميں تھا اور پھر ''محبة'' كو نكرہ لانا، جبكہ مقام مدح ہے اسكے خصوصى ہونے كو بيان كرنے كيلئے ہے اور ''مني'' حضرت موسى (ع) كى محبوبيت كے سرچشمے كو بيان كررہا ہے او رسمجھا رہا ہے كہ موسى (ع) كو عطا كردہ محبوبيت كا سرچشمہ ذات بارى تعالى تھى _

۱۴ _ فرعون اور اسكے حاشيہ نشين، موسى (ع) سے بہت محبت كرتے تھے اور انہيں دوست ركھتے تھے _والقيت عليك محبة مني

۱۵ _ خداتعالى مہر و محبت كا سرچشمہ اور اس كا عطا كرنے والا ہے _وا لقيت عليك محبة منّي

۱۶ _ دلوں ميں محبوب ہونا،خداتعالى كى عنايت اور مہربانى ہے _وا لقيت عليك محبة منّي

۱۷ _ فرعونيوں كے دلوں ميں حضرت موسى (ع) كى محبوبيت انكے خداتعالى كى مكمل نگرانى كے ساتھ رشد و تكامل كا پيش خيمہ _ولتصنع على عيني ''لتصنع'' اس چيز كى علت كو بيان كررہا ہے جو كلام كے سياق سے حاصل ہو رہى ہے يعنى''ولتصنع على عينى فعلت ذلك'' جو كچھ ميں نے انجام ديا ہے وہ اسلئے تھا كہ تو ميرى

۶۸

مكمل نگرانى كے ساتھ پروان چڑھے ''صنيع''اور'' صنيعہ''(لتصنع كامادہ اشتقاق ) اس شخص كو كہا جاتا ہے جو كسى دوسرے كا تربيت يافتہ ہو اسى طرح يہ عطا، سخاوت اور احسان كے معنى ميں بھى آيا ہے ( لسان العرب)_

۱۸ _ حضرت موسى (ع) كا دلوں اور دربار فرعون ميں محبوب ہونا انكے لئے احترام اور بڑى خدمت كا سبب بنا _و ا لقيت عليك محبة منى و لتصنع على عيني اگر ''صنيعہ'' ( لتصنع كا مادہ اشتقاق) نيكى كرنے اور كرامت كے معنى ميں ہو تو ''لتصنع'' كا مطلب يہ بنے گا ميں نے تيرى محبت دوسرں كے دلوں ميں قرار دى ہے تاكہ تو ميرى مكمل نگرانى كے ساتھ ان كا مورد احترام و اكرام قرار پائے _

۱۹ _ خداتعالى حضرت موسى (ع) كى زندگى كے آغاز سے ہى ان پر دقيق نظارت ركھتا تھا اور اس نے انكى تربيت اور رشد و تكامل كے ذرائع فراہم كرركھے تھے _ولتصنع على عيني

''على عيني'' ميں ''عين'' سے مراد اس كا مجازى معنى يعنى نگرانى ہے اور ''علي'' دلالت كرتا ہے كہ نظارت الہى ايسى بنياد ہے كہ جس پر حضرت موسى (ع) كى تربيت اور احترام استوار تھے_

۲۰ _ حضرت موسى (ع) كى زندگى خداتعالى كى طرف سے انبياء كى زندگى كے آغاز سے ہى انكى پرورش پر نظارت كا ايك نمونہ _و لتصنع على عيني

۲۱ _ بچپن ہى ميں حضرت موسى (ع) كو پانى ميں پھينك كر انكى جان بچانا، فرعونيوں كے دلوں ميں انكى محبت ڈالنا اور انكى تربيت اور نشو و نماپر نظارت،خداتعالى كى طرف سے حضرت موسى (ع) پر گراں بہا نعمتيں _

مننا عليك مرة ا خرى ا ن اقذفيه و لتصنع على عيني

۲۲ _'' عن ا بى جعفر (ع) قال: ا نزل الله على موسى التابوت و نوديت ا مه ضعيه فى التابوت فاقذفيه فى اليم و هو البحر; امام محمد باقر(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا خداتعالى نے حضرت موسى (ع) پر تابوت نازل كيا

۶۹

اور انكى والدہ كو ندا دى كہ انہيں تابوت ميں ركھ كردريا ميں ڈال ديں _(۱)

۲۳ _'' عن ا بى جعفر (ع) قال: كان موسى لا يراه ا حد إلا ا حبه و هو قول الله : '' و ا لقيت عليك محبّة منّى ...'' ;امام باقر(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ حضرت موسى (ع) اس طرح تھے كہ انہيں كوئي نہيں ديكھتا تھا مگر يہ كہ ان سے محبت كرنے لگتا تھا اور خداتعالى كے فرمان ''والقيت عليك محبة مني'' سے مراد يہى ہے_(۲)

انبياء:انكى تربيت ۲۰//بنى اسرائيل:يہ فرعون كے زمانے ميں ۳; انكى تاريخ ۳; انكى معاشرتيمشكلات ۳جھكاؤ:حضرت موسى (ع) كے طرف جھكاؤ ۱۴

خداتعالى :اسكے اوامر ۲; اسكى تعليمات۰ ۱; اسكے دشمن ۹، ۱۰، ۱۱; اسكے اوامر كو اجرا كرنے والے ۷; اسكى نظارت ۱۹، ۲۰; اس كا كردار ادا كرنا ۱۵ظخدا كا لطف:يہ جنكے شامل حال ہے ۱۶

خدا كے محبوب لوگ:انكے مفادات۱۱ظدريائے نيل:اس كا مطيع ہونا ۶; اسكى تاريخ ۱۲; يہ موسى كے زمانے ميں ۱۲; اس كا جغرافيائي محل وقوع ۱۲

روايت :۲۲، ۲۳ظقدرتيعوامل:انكا كردار ۷

فرعون:اسكى دشمنى ۱، ۹; اس كا ظلم ۳; اسكى محبت ۱۴فرعون كے حاشيہ نشين لوگ:انكى محبت ۱۴

محبت:اس كا سرچشمہ ۱۵، ۱۶موسى (ع) :آپكى محبوبيت كے اثرات ۱۷، ۱۸; آپكى والدہ كا اطمينان ۴،۵; آپكا دريائے نيل ميں امن ۴; آپكى والدہ كا ايمان ۵; آپكى تربيت ۲۱; آپكى كفالت ۱۰; آپكى والدہ كى شرعى ذمہ دارى ۲; آپكے دشمن ۱، ۸، ۹، ۱۰; آپكى نشو و نما كا پيش خيمہ ۱۷، ۱۹; آپكا صندوق ۶; آپكى ماں كا علم ۸; آپكے احترام كے عوامل ۱۸; آپكے فضائل ۱۷، ۱۹، ۲۱، ۲۳; آپكا قصہ ۱، ۲، ۴، ۵، ۶، ۸، ۹، ۱۸، ۲۰، ۲۲; آپكى نگرانى ۴، ۵، ۱۷، ۱۹، ۲۱; آپكى محبوبيت ۲۱، ۲۳; آپكا تربيت كرنے والا ۱۹; آپكى محبوبيت كا سرچشمہ ۱۳; آپ ساحل نيل پر۴، ۶; آپ نيل ميں ۲; آپكو نجات دينے والا ۱۰; آپكى نجات ۸; آپكے صندوق كا نازل ہونا ۲۲; آپكى نعمتيں ۲۱; آپكى والدہ كو وحى ۱۰، ۲۲

نعمت :اسكے درجے ۲۱

وحي:اس پر ايمان لانے والے ۵

____________________

۱ ) تفسيرقمى ج ۲ ص ۱۳۵_ نورالثقلين ج ۴ ص ۱۱۲ ح ۱۷ _ظ ۲ ) تفسير قمى ج ۲ ص ۱۳۵_ نورالثقلين ج ۴ ص ۱۱۲ ح ۱۷_

۷۰

آیت ۴۰

( إِذْ تَمْشِي أُخْتُكَ فَتَقُولُ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى مَن يَكْفُلُهُ فَرَجَعْنَاكَ إِلَى أُمِّكَ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ وَقَتَلْتَ نَفْساً فَنَجَّيْنَاكَ مِنَ الْغَمِّ وَفَتَنَّاكَ فُتُوناً فَلَبِثْتَ سِنِينَ فِي أَهْلِ مَدْيَنَ ثُمَّ جِئْتَ عَلَى قَدَرٍ يَا مُوسَى )

اس وقت كو ياد كرو جب تمھارى بہن جارى تھيں كہ فرعون سے كہيں كہ كيا ميں كسى ايسے كاپتہ بتاؤں جو اس كى كفالت كرسكے اور اس طرح ہم نے تم كو تمھارى ماں كى طرف پلٹاديا تا كہ ان كى آنكھيں ٹھنڈى ہوجائيں اور رنجيدہ نہ ہوں اورتم نے ايك شخص كو قتل كرديا تو ہم نے تمھيں غم سے نجات دے دى او رتمھارا باقاعدہ امتحان لے ليا پھر تم اہل مدين ميں كئي برس تك رہے اس كے بعد تم ايك منزل پر آگئے اے موسى (۴۰)

۱ _ حضرت موسى (ع) كى پيدائش كے وقت انكى ايك بڑى اور رشيدہ بھى تھيں _إذ تمشى ا ختك فتقول هل ا دلكم

موسى (ع) كا پيچھا كرنا، دربار ميں نفوذ اور دايہ كى پيشكش ان سب سے پتا چلتا ہے كہ حضرت موسى (ع) كى بہن اس عمر ميں تھيں كہ ان كاموں اور حيلوں كے سلسلے ميں نہ صرف وہ جسمانى اور فكري

توانمندى سے بہرہ مند تھيں بلكہ انكى بات جاتى سنى اور قبول كى جاتى تھى _

۲ _ حضرت موسى (ع) كى بہن اپنے چھوٹے بھائي كے دريائے نيل ميں پھينكے جانے سے مطلع اور اس كى وجہ سے پريشان تھيں اور قدم بقدم انكے صندوق كا پيچھا كررہى تھيں _

إذ تمشى ا ختك فتقول

حضرت موسى (ع) كى بہن كا انكے پيچھے پيچھے حركت كرنا بتاتا ہے كہ وہ حضرت موسى (ع) كے واقعے ، انكے پانى ميں پھينكے جانے اور مستقبل ميں پيش آنے والے واقعات سے اجمالى طور پر مطلع تھيں _

۷۱

۳ _ حضرت موسى (ع) كى بہن نے اس وقت تك انكا پيچھا كيا جب تك انہيں پانى سے نجات نہ ملى اور جب تك اس نے فرعون كے درباريوں كو موسى (ع) كيلئے دايہ تلاش كرنے كيلئے انكى كوشش كا مشاہدہ نہيں كيا_إذ تمشى ا ختك فتقول هل ا دلكم ''هل ا دلكم'' كا ظاہر يہ ہے كہ حضرت موسى (ع) كى بہن نے فرعونيوں كو موسى اخذ كرتے ہوئے ديكھا اور درباريوں كے پاس جاكر بدون واسطہ انہيں اور جو لوگ دايہ كى تلاش ميں تھے اپنى پيشكش سے آگاہ كيا _

۴ _ فرعون نے حضرت موسى (ع) كى حفاظت اور نگہداشت كاعزم كرليا_هل ا دلكم على من يكفله

دايہ كيلئے تلاش اور كوشش سے پتا چلتا ہے كہ فرعون نے حضرت موسى (ع) كى نگہدارى كا عزم كرليا _

۵ _ حضرت موسى (ع) كى نگہداشت ، خوراك اور ديكھ بھال كے سلسلے ميں دربار فرعون مشكل سے دوچار ہوا _

هل ا دلكم على من يكفله ''هل ا دلكم'' سے پتا چلتا ہے كہ دربار فرعون حضرت موسى (ع) كيلئے دايہ اور سرپرست كى تلاش ميں تھا_ حضرت موسى (ع) كى بہن كى پيشكش كو قبول كرنا بتاتا ہے كہ كسى دربارى كو اس سلسلے ميں كاميابى نہيں ہوئي تھى اور وہ حضرت موسى (ع) كى نگہداشت اور خوراك كے سلسلے ميں پريشان تھے_

۶ _ حضرت موسى (ع) كى بہن نے فرعونيوں كے سامنے اظہار كيا كہ وہ مناسب دايہ متعارف كرانے كيلئے آمادہ ہيں _

هل ا دلكم على من يكفله ''كافل'' اسے كہاجاتا ہے جو كسى كے امور كى انجام دہى كو اپنے ذمے لے (مقاييس اللغة) _

۷ _ حضرت موسى (ع) كى بہن نے فرعونيوں كو مناسب دايہ متعارف كرانے كيلئے اپنى آمادگى كا مكرر اظہار كيا _

فتقول هل ا دلكم فعل مضارع ''تقول'' گذشتہ زمانے ميں كام كے استمرار پر دلالت كررہا ہے _

۸ _ حضرت موسى (ع) كى بہن نے جس دايہ كى پيشكش كى تھى درباريوں نے اسے قبول كرليا _

هل ا دلكم على من يكفله فرجعنك إلى ا مك ''فرجعناك'' ميں ''فا'' فصيحہ ہے يعنى ان محذوف جملوں سے حكايت كرتى ہے كہ جو حضرت موسى كى بہن كى پيشكش كو قبول كرنے پر دلالت كرتے ہيں _

۹ _حضرت موسى كى بہن زيرك اور راز دار تھيں _هل ا دلكم على من يكفله

۱۰ _ فرعونيوں نے حضرت موسى (ع) كو انكى والدہ كے سپرد كيا اور وہ انہيں اپنے گھر لے گئيں _فرجعناك إلى ا مك

موسى (ع) كا اپنى ماں كے پاس واپس آنااس طرح ہے كہ انكى والدہ انہيں اپنے ہمراہ لے گئي ہوں نہ اس طرح كہ انكى نگہداشت كيلئے دربار ميں گئي ہوں _

۷۲

۱۱ _ حضرت موسى (ع) بچين سے ہى اپنى والدہ كے زير كفالت تھے _على من يكفله

۱۲ _ حضرت موسى (ع) كى بہن كا انہيں انكى والدہ كى طرف پلٹا نے ميں مؤثر كردار تھا _إذ تمشى ا ختك فرجعنك إلى ا مك حضرت موسى (ع) كى بہن اور انكى كوشش كو ياد كرنا انكے حضرت موسى (ع) كو اپنى والدہ كى طرف پلٹا نے ميں مؤثر اور كارساز كردارسے حكايت كرتا ہے_

۱۳ _ حضرت موسى (ع) كى والدہ اپنے بيٹے كے نامعلوم انجام پر نظريں لگائے ان كى دورى كى وجہ سے پريشان تھيں _

كى تقرعينها ولا تحزن آنكھ كا سكون اس شديد غم كے دور ہونے سے كنايہ ہے كہ جو آنكھ كو ايك طرف خيرہ كرديتا ہے يا اسے مسلسل دائيں بائيں پھيرتا ہے _

۱۴ _ موسى (ع) كے دوبارہ ديدار نے انكى والدہ كى آنكھوں كو نور اور سكون بخشااور انكے غم و اندوہ كو دور كرديا _

فرجعنك إلى ا مك كى تقر عينها و لا تحزن ''قرة العين'' يا تو ''قرار''سے مشتق ہے كہ جس كا معنى ہے سكون پكڑنا اور يا ''قرّ'' سے مشتق ہے كہ جس كا معنى ہے ٹھنڈاہونا كہ جو گرم آنسوؤں كے ركنے كا نتيجہ ہوتا ہے بہرحال يہ تعبير اس شادمانى سے كنايہ ہے جو آنكھ كو پريشان ہونے اور اسے دائيں بائيں پھرنے سے دور ركھتى ہے اور غم و اندوہ كے جلا دينے والے آنسوؤں كو روكتى ہے _

۱۵ _ حضرت موسى (ع) كى والدہ خداتعالى كے ہاں خاص مقام و مرتبہ ركھتى ہيں _فرجعنك إلى ا مك كى تقرعينها و لا تحزن

۱۶ _ ماں كى سرپرستى بچے كى تربيت كيلئے مناسب ترين حالات فراہم كرتى ہے _ولتصنع على عينيإذ تمشى فرجعنك إلى ا مك

۱۷ _ حضرت موسى (ع) كا آغوش مادر ميں پلٹ آنا خداتعالى كى دقيق نظارت ميں انكى پرورش اور نشو ونما كا مناسب ذريعہ _و لتصنع على عينى إذ تمشى ...فرجعنك ''اذ تمشي'' ميں ''اذ'' ممكن ہے ''لتصنع'' كيلئے ظرف ہو اس صورت ميں ''اذ'' كے بعد والے جملے موسى (ع) كے بارے ميں صنع الہى كے وقوع پذير ہونے كے ظرف كو بيان كررہے ہيں _

۱۸ _ حضرت موسى (ع) نے كوہ طور ميں وحى كو دريافت كرنے اور مقام رسالت پر فائز ہونے سے پہلے ايك شخص كو قتل كيا تھا _وقتلت نفس يہ آيت كريمہ مصر ميں ايك قبطى شخص كے قتل كو بيان كررہى ہے كہ جو حضرت موسى (ع) كے ہم مذہب شخص كے ساتھ جھگڑ رہا تھا اور حضرت موسى (ع) نے اسے قتل كرديا تھا ليكن اسكے رد عمل كى فكر آپ كو

۷۳

آسودہ خاطر نہيں ہونے دے رہى تھى يہاں تك كہ آپ مصر سے بھاگ نكلے اور مدين پہنچ كر آپ سے خطرہ ٹلا اور غم و اندوہ دور ہوئے _

۱۹ _ قتل كا ارتكاب، حضرت موسى (ع) كى پريشانى اور ان كے غم و اندوہ ميں مبتلا ہونے كا سبب بنا _

و قتلت نفسا فنجينك من الغم حضرت موسى (ع) كا غم واندوہ ان كے واقعہ قتل اور فرعونيوں كى طرف سے خطرہ محسوس كرنے كے بارے ميں پريشانى اور اضطراب كى وجہ سے تھا _

۲۰ _ قتل كى وجہ سے حضرت موسي(ع) كو فرعونيوں كے ہاں امن نہيں تھا _فنجينك من الغم

۲۱ _ فرعونيوں كى نظر ميں قبطيوں پر بنى ا سرائيل ترجيح ركھتے تھے حتى كہ اپنے پرورش يافتہ اور محبوب جوان پر بھى _

فنجينك من الغم

۲۲ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كو قتل كى پريشانى سے نجات بخشي_و قتلت نفسا فنجينك من الغم

۲۳ _ حضرت موسى (ع) كا قتل كے خطرناك نتائج سے رہائي پانا،خداتعالى كى جانب سے آپ پر ايك عظيم نعمت_

و قتلت نفساً فنجينك من الغم ''قتلت'' كا ''لقد مننا'' پر عطف ہے كہ جو سابقہ آيات ميں تھا اور حضرت موسى (ع) پر ولادت كى مشكلات سے رہائي والى نعمت كو ذكر كرنے كے بعد ايك اور نعمت اور احسان كو بيان كررہا ہے _

۲۴ _ انسان كا غم و اندوہ سے نجات پانا، خداتعالى كے ہاتھ ميں ہے _فنجينك من الغم

۲۵ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كو مدين ميں داخل ہونے سے پہلے ايك سخت آزمائش ميں مبتلا كيا _و فتنّك فتوناً فلبثت سنين فى ا هل مدين ''فتنہ''كا معنى ہے امتحان اور آزمائش (مصباح) ''فتون'' مصدر اور مفعول مطلق ہے اور كلام كى تاكيد كيلئے لايا گيا ہے اور جملہ ''فتناك فتوناً '' يعنى ہم نے تجھے خوب آزمايا_

۲۶ _ حضرت موسى (ع) كے مصر ميں ايك قبطى شخص كو قتل كرنے نے انكے خداتعالى كى سخت آزمائش ميں مبتلا ہونے كا راستہ ہموار كيا _و قتلت نفسا فنجينك من الغم و فتّنك فتون اگر ''فتناك'' كا عطف ''نجيناك'' پر ہو تو آزمائش الہى ميں حضرت موسى (ع) كا سختى جھيلنا انكے قتل كا نتيجہ تھا _

۲۷ _ مدين ميں وارد ہونے سے پہلے خداتعالى نے حضرت موسى (ع) سے متعدد آزمائشيں ليں _و فتنك فتون

ہوسكتا ہے كلمہ'' فتون'' فتنہ كى جمع ہو جيسا كہ ''كشاف'' اور ''البحر المحيط'' ميں ہے _

۲۸ _ حضرت موسى (ع) كو اپنى زندگى ميں بہت سارى سختيوں كا سامنا ہوا _وفتنّك فتون جيسا كہ بعض نے كہا ہے

۷۴

''فتون'' فتنہ كى جمع ہے اور ''فتنہ'' كا استعمال زيادہ تر شدائد اور سختيوں ميں ہوتا ہے ( مفردات راغب) _

۲۹ _ حضرت موسى (ع) كى آزمائش اور زندگى كى سختياں ان پر خداتعالى كى نعمتوں ميں سے تھيں _

چونكہ يہ آيات حضرت موسى (ع) پر خداتعالى كى نعمتوں كو شمار كررہى ہيں اور اسى كے ضمن ميں حضرت موسى كا ( آزمائش يا سختي) ميں مبتلا ہونا ذكر ہوا ہے_اس سے لگتا ہے كہ اس قسم كى سختياں اور آزمائشيں بھى خداتعالى كى نعمتوں ميں سے ہيں _

۳۰ _ زندگى كى بعض سختياں ، انسان پر خداتعالى كى نعمت اورلطف كى علامت ہيں _و لقد مننا و فتنّك فتون

۳۱ _ زندگى كے واقعات اور مشكلات خداتعالى سے مربوط اور اسكى طرف منسوب ہيں _و فتنّك

۳۲ _ فرعونيوں كے چنگل سے آزاد ہونے كے بعد حضرت موسى (ع) سختى كے ساتھ مدين پہنچے اور چند سال تك وہيں قيام پذير رہے _وفتنك فتوناً فلبثت سنين فى ا هل مدين

۳۳ _ حضرت موسى (ع) كا مدين كے لوگوں كے درميان چند سال قيام كرنا انكى آزمائش اور امتحان كا دوسرا مرحلہ تھا _

و فتنّك فتوناً فلبثت سنين فى ا هل مدين ''فلبثت'' كى فاء ممكن ہے مفصل كے مجمل پر عطف كيلئے ہو اس صورت ميں حضرت موسى (ع) كا مدين ميں قيام ''فتنة'' (سختى يا آزمائش) كا مصداق ہوگا _

۳۴ _ حضرت موسى (ع) كى زندگى كى سختياں اور ان سے خداتعالى كى آزمائش اسلئے تھيں كہ وہ رسالت الہى كا بوجھ اٹھانے كے لئے شائستہ مرتبے پر فائز ہوسكيں _و فتّنك فتوناً ثم جئت على قدر يا موسى

''قدر '' يعنى مطلوب حد_ يہ كلمہ اور ''مقدار'' ايك ہى معنى ميں ہيں _(لسان العرب) ''على قدر'' ''جئت'' كے فاعل كيلئے حال ہے يعنى اے موسى جب تو شائستگى اور استوارى كى لازمى حد كو پہنچ گيا تو تونے اس وادى ميں قدم ركھا _

۳۵ _ حضرت موسى (ع) كو اس وقت كوہ طور ميں خداتعالى كے ساتھ مناجات اور حكم رسالت كے د ريافت كى توفيق حاصل ہوئي جب آپ نے آزمائش الہى اور سختيوں كو جھيلنے كے مرحلے سے گزر كر لازمى لياقت كو پاليا _و فتنّك فتوناً ثم جئت على قدر يا موسى

۳۶ _حضرت موسى (ع) كى عمر كے كئي سالوں كا مدين ميں بسر ہونا اور رسالت كيلئے لازمى لياقت كو حاصل كرلينا آپ كيلئے نعمات الہى تھيں _ولقد مننا عليك مرة ا خرى إذ تمشى ا ختك

۳۷ _ نبوت اور رسالت الہى ان لوگوں كيلئے مخصوص ہے جو اسكے لائق ہوں _ثم جئت على قدر يا موسى

۷۵

۳۸ _ حضرت موسى (ع) كى مدين سے واپسى اور كو ہ طور ميں وادى طوى ميں آنا خداتعالى كى طرف سے ترتيب ديئے گئے پروگرام كے مطابق تھا_فلبثت سنين فى ا هل مدين ثم جئت على قدر يا موسى ''قدر'' كا ايك معنى ،الہى تقدير ہے كہا گيا ہے كہ يہ كلمہ ''قدر'' كا اسم مصدر اور تقدير بنانے كے معنى ميں ہے (لسان العرب) راغب بھى كہتاہے ''قدر'' ہر چيز كا معين وقت اور جگہ ہے_

۳۹ _ انبياء كى بعثت كا وقت معين اور خداتعالى كى طرف سے ترتيب ديا گيا ہے_ثم جئت على قدر يا موسى

۴۰ _ مدين ميں حضرت موسى (ع) كى لمبى عمر كا انكے رسالت كے لائق بننے كيلئے بڑا كردار تھا_فلبثت سنين فى ا هل مدين ثم جئت على قدر يا موسى ''ثم'' تراخى كيلئے ہے اور يہ دلالت كرتاہے كہ موسى كا كوہ طور پر آنا ان كى مدين ميں رہائش كے آغاز كافى وقت بعد تھا_

۴۱ _ خداتعالى نے كوہ طور ميں نرمى اور مہربانى كے ساتھ حضرت موسى (ع) سے بات كى _يموسى

سخن كے دوران بار بار حضرت موسى (ع) كا نام لينا خداتعالى كى آپ كے ساتھ مہربانى پر دلالت كرتا ہے _

۴۲ _'' عن محمد بن مسلم:قلت لا بى جعفر(ع) : فكم مكث موسى غائباً عن ا مه حتى ردّه الله عليها؟ قال: ثلاثة ا يام; محمد بن مسلم كہتے ہيں : ميں نے امام باقر (ع) سے عرض كيا حضرت موسى (ع) كتنى مدت اپنى والدہ سے غائب رہے يہاں تك كہ خداتعالى نے ا نہيں انكے پاس لوٹادياتو آپ نے فرمايا تين دن(۱)

۴۳ _'' روى عن النبى (ص) ا نه قال: رحم الله ا خى موسى قتل رجلاًخطاً و كان ابن إثنتى عشرة سنة ; پيغمبر اكرم(ص) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ (ص) نے فرمايا خداتعالى ميرے بھائي موسي(ع) پر رحم كرے انہوں نے ايك مرد كو اس وقت غلطى سے قتل كيا جب انكى عمر بارہ سال تھى(۲) _

انبياء (ع) :انكى بعثت كا قانون مند ہونا ۳۹ // بيٹا:اسكى تربيت ۱۶

خداتعالى :اسكى حضرت موسى (ع) كے ساتھ گفتگو ۴۱_ اسكى تقدير ۳۸; اسكى مہربانى ۴۱; اس كا نجات دينا ۲۲; اسكى مہربانى كى نشانياں ۳۰; اسكى نعمتيں ۳۰; اس كا كردار ادا كرنا ۲۴روايت: ۴۲، ۴۳

غم و اندوہ:اسكے دور كرنے كا سرچشمہ ۲۴

____________________

۱ ) تفسير قمى ج ۲ ص ۱۳۶ نورالثقلين ج ۳ ص ۳۸۰ ح ۶۶_ /۲ ) مجمع البيان ج ۷ ص ۱۹ نورالثقلين ج ۳ ص ۳۸۰ ح ۶۷_

۷۶

فرعون:فرعون اور موسى ۴; اس كا قصہ ۵

فرعونى لوگ:انكا نسلى امتياز ۲۱; يہ اور موسى (ع) ۱۰، ۲۰; انكى مشكلات ۵

قبطي:انہيں بنى اسرائيل پر ترجيح دينا ۲۱

ماں :اس كا كردار ادا كرنا ۱۶

مشكلات:انكا سرچشمہ ۳۱

موسى (ع) :انكے امتحان كے اثرات ۳۵; انكى واپسى كے اثرات ۱۴، ۱۷; انكے قتل كے اثرات ۱۹، ۲۰، ۲۶; انكى مشكلات كے اثرات ۳۵; انكا احساس نا امنى ۲۰; انكا امتحان ۲۵، ۲۹، ۳۳; انكى ماں كا غم و اندوہ ۱۳; انكا غم و اندوہ ۲۲; انكى واپسى ۱۰، ۳۸; انكے امتحان كا متعدد ہونا ۲۷; انكا پيچھا كرنا ۳; انكى كفالت ۱۰، ۱۱; انكى خطا ۴۳; انكى بہن ۱، ۶; انكى بہن اور فرعون كے دربارى ۷; انكى بہن كى راز دارى ۹; انكے امتحان كا پيش خيمہ ۲۶; انكى تربيت

كا پيش خيمہ ۱۷;ان كے رشد و تكامل كا پيش خيمہ ۱۷;انكى مناجات كا پيش خيمہ ۳۵; انكى نبوت كا پيش خيمہ ۳۴، ۳۵، ۴۰; انكى بہن كى صفات ۹; انكى بہن كا علم ۲; انكے غم و اندوہ كے عوامل ۱۹; انكى واپسى كے عوامل ۱۲; انكى ماں كے غم و اندوہ كے دور ہونے كے عوامل۱۴; انكى پريشانى كے عوامل ۱۹; انكے فضائل ۳۶; انكے امتحان كا فلسفہ ۳۴; انكى مشكلات كا فلسفہ ۳۴; انكى بہن كى پيشكش كا قبول ہونا ۸; انكا قتل كرنا ۱۸، ۲۲، ۴۳; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۶، ۷، ۸، ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۳،۱۴، ۱۸، ۲۰، ۲۵، ۲۷، ۲۸، ۳۲، ۳۳، ۴۰، ۴۲، ۴۳; انكا بچپن ۱۱; انكى نگرانى ۴; انكى جدائي كى مدت ۴۲; انكى نگرانى كى مشكلات ۵; انكى مشكلات ۲۸، ۲۹; انكى دايہ كى پہچان كرانا ۶، ۷، ۸; انكى ماں كا مقام ۱۵; آپ كوہ طور ميں ۳۵، ۳۸، ۴۱; آپ مدين ميں ۳۲، ۳۳، ۳۶، ۴۰; آپ نيل ميں ۲; آپكے ساتھ مہربانى ۴۱; آپكى نبوت ۳۶; آپكى نجات ۲۲، ۲۳، ۳۲; آپكى نعمتيں ۲۳، ۲۹; آپكى بہن كا كردار ادا كرنا ۱۲; آپكى ماں كا كردار ادا كرنا ۱۰، ۱۱; آپكى بہن كى پريشانى ۲، ۳; آپكى پريشانى ۲۲; آپكى بہن كى ہوشيارى ۹

نبوت:اسكے شرائط ۳۷

نعمت:اسكے درجے ۲۳; اسكى مشكلات ۳۰

۷۷

آیت ۴۱

( وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِي )

اور ہم نے تم كو اپنے لئے منتخب كرليا (۴۱)

۱ _ حضرت موسي،(ع) خداتعالى كے پرورش يافتہ _اصطنعتك

''اصطناع'' يعنى تربيت كرنا اور با ادب بنانا (قاموس) اور لائق بنانے ميں مبالغے پر دلالت كرتا ہے (مفردات راغب) _

۲ _ حضرت موسى (ع) كا وجود راہ خدا كيلئے وقف _لنفسي ''تجھے ميں نے اپنے لئے بنايا'' مخاطب كو اپنے لئے خالص كرنے سے كنايہ ہے _

۳ _ خداتعالى كى طرف سے حضرت موسى (ع) كى سرپرستى اور نگرانى انسانوں كے درميان احكام الہى كو عملى كرنے كيلئے تھا _واصطنعتك لنفسي ''لنفسي'' كى قيد بتائي ہے كہ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كى اپنے اہداف كيلئے پرورش كى تھى اور اسے اپنے آسمانى احكام كو عملى كرنے كيلئے طاقتور بنايا تھا بعد والى آيت كريمہ كہ جو فرعون كى طرف جانے كا حكم دے رہى ہے اس معنى كى شاہد ہے _

۴ _ حضرت موسى (ع) ، كو بارگاہ خداوندى ميں بلند مقام حاصل تھا اور آپ مكمل طور پر خدا تعالى كيلئے مخلص تھے _

و اصطنعتك لنفسي

۵ _ خداتعالى انبياء كى پرورش اور تربيت كرنے والا ہے_واصطنعتك لنفسي

۶ _ رسالت و نبوت كے لائق ہونا،خداتعالى كيلئے مكمل خلوص كے ساتھ مربوط ہے_و اصطنعتك لنفسي

يہ آيت كريمہ سابقہ آيت كے آخرى حصے كى تفسير ہے اور اس قد راور ميزان كو بيان كررہى ہے كہ جس كا انبياء كيلئے حاصل ہونا ضرورى ہے اور حضرت موسى (ع) اس مقام و مرتبے پر فائز ہوكر كوہ طور پر آئے تھے_

۷ _ حضرت موسى (ع) كا كامل اخلاص ان پر خداتعالى كى ايك نعمت _و اصطنعتك لنفسي

۷۸

ہوسكتا ہے اس آيت كريمہ كا عطف '' قتلت نفساً'' جيسے جملوں پر ہو كہ جو خداتعالى كى نعمتوں او راحسانات كو بيان كرر ہے ہيں _

اخلاص:اسكے اثرات ۶

انبياء (ع) :انكا تربيت كرنے والا ۵

خداتعالى :اسكى ربوبيت ۱، ۵

شرعى ذمہ داري:اس پر عمل كرنے كى اہميت ۳

موسى (ع) ;انكا اخلاص ۴، ۷; انكى شخصيت ۲; انكے فضائل ۲، ۷; انكى تربيت كا فلسفہ ۳; انكى نگرانى كا فلسفہ ۳; انكى تربيت كرنے و الا ۱; انكا مقام ۴; انكى نعمتيں ۷_

نبوت:اسكى شرائط ۶

نعمت:اخلاص والى نعمت ۷

آیت ۴۳

( اذْهَبْ أَنتَ وَأَخُوكَ بِآيَاتِي وَلَا تَنِيَا فِي ذِكْرِي )

اب تم اپنے بھائي كے ساتھ ميرى نشانياں لے كر جاؤ اور ميرى ياد ميں سستى نہ كرنا (۴۲)

۱ _ ہارون، حضرت موسى (ع) كے بھائي اور رسالت الہى كى انجام دہى ميں انكے شريك _

هرون ا خي إذهب ا نت و ا خوك

۲ _ حضرت موسى (ع) اور حضرت ہارون(ع) معجزات و آيات الہى كے ساتھ اپنى رسالت كى انجام دہى كيلئے حركت كرنے پر ما مور _اذهب انت و اخوك بآيا تي

۳ _ حضرت موسى (ع) و ہارون (ع) كا دين عالمى تھا اور كسى ايك گروہ كے ساتھ مخصوص نہيں تھا_

پہلى اور بعد والى آيات ميں فرعون كى طرف جانے كا تذكرہ ہے ليكن چونكہ اس آيت كريمہ نے رسالت كى تبليغ كيلئے كوئي خاص مورد معين نہيں كيا اس سے احتمال ہوتا ہے كہ حضرت موسى (ع) سب كيلئے ما مور تھے اور فرعون پيغام كے پہچانے كيلئے نقطہ آغاز تھا _

۷۹

۴ _ لوگوں كى طرف حركت كرنا اور ان ميں جانا تبليغ اور رسالت كيلئے لازمى ہے _إذهب إلي إذهب ا نت و ا خوك

ان چند آيات ميں كہ جو مورد بحث ہيں فعل ''اذہب'' كا تين دفعہ تكرار ہوا ہے_ خداتعالى كے اس حكم او رتاكيد سے پتا چلتا ہے كہ تبليغ دين كيلئے بيٹھنا اور لوگوں كے جمع ہونے كا انتظار كرنا كافى نہيں ہے بلكہ ضرورى ہے كہ ان كے درميان جاكر دعوت الہى كا پرچم بلند كيا جائے_

۵ _ حضرت موسى (ع) اور حضرت ہارون(ع) اپنى دعوت كو انجام دينے كيلئے متعدد معجزات كے حامل تھے _اذهب ...بآيا تي ''آيات''كو جمع كى صورت ميں لانا موسى (ع) و ہارون (ع) كو عطا كئے گئے معجزات و آيات كے متعدد ہونے كى نشانى ہے_ اس تعدد كى توجيہ ميں دو احتمال ہيں _ ۱_ عصا اور يد بيضا والے معجزے اگرچہ بطور كلى دو معجزے تھے ليكن يہ متعدد معجزوں پر مشتمل تھے كيونكہ عصا كا سانپ بننا، اس كا حركت كرنا اور پھر سانپ كا عصا بننا ہر ايك الگ سے معجزہ ہے ۲_ خداتعالى نے اس تعبير كے ساتھ حضرت موسى (ع) كو وعدہ ديا ہے كہ اس كے بعد بھى انہيں معجزات عطا كريگا_

۶ _ عصا اور يد بيضا والے معجزوں كے ہمراہ حضرت موسى (ع) كو ديگر معجزات عطا كرنا خداتعالى كا كوہ طور ميں ان كے ساتھ وعدہ _*بآيا تي باوجود اس كے كہ اس وقت تك حضرت موسى (ع) كو صرف دو معجزے عطا ہوئے تھے ''آيات'' كو جمع لانا ہوسكتا ہے خداتعالى كى طرف حضرت موسى (ع) كے ساتھ ديگر معجزات عطا كرنے كا ضمنى وعدہ ہو _

۷ _ معجزہ انبيا كى نبوت و رسالت كى حقانيت كو ثابت كرنے كاايك طريقہ_إذهب ا نت و ا خوك بآيا تي

۸ _ رسالت انبياء كى نشانياں اور معجزات،خداتعالى كى طرف سے ہيں _بآيا تي

۹ _ خداتعالى كو ياد كرنا اور اسكى بات كرنا موسى (ع) و ہارون (ع) كى دعوت كا محور اور نعرہ_ولاتنيا فى ذكري

۱۰ _ ياد خدا ،رسالت كى انجام د ہى اور پيغام پہنچانے ميں سستى نہ كرنا،خداتعالى كى طرف سے موسى (ع) و ہارون (ع) كو نصيحت _ولاتنيا فى ذكري ''وني'' كا معنى ہے سستى اور كوتاہى كرنا (مصباح) ''لاتينا'' يعنى اے موسى اور ہارون ميرى ياد ميں سستى اور كوتاہى مت كرنا_ اور خداتعالى كى ياد كا لازمہ ان ذمہ داريوں كى طرف توجہ ہے جو خداتعالى كى طرف سے انكے سپردكى گئي ہيں _

۱۱ _ ياد خدا ميں سنجيدگي، اسكى طرف سے سپردكى گئي ذمہ داريوں كى طرف مسلسل توجہ اور اس ميں سستى نہ كرنے كا لازمى ہونا_ولاتنيا فى ذكري

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303