اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

اسلام کے عقائد(دوسری جلد )18%

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 122640 / ڈاؤنلوڈ: 4700
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(دوسری جلد )

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

رہے ہیں کہ آپ اپنے بیٹے کی بات سنین اور ان کی اطاعت کریں۔”

پیغمبر(ص) کی اس نص کا تذکرہ کن کن کتابوں میں موجود ہے

پیغمبر(ص) کے اس خطبہ کو بعینہ انہی الفاظ میں اکثر علمائے کبار و اجلہ محدثین نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔ جیسے ان اسحاق ، ابن جریر، ابنِ ابی حاتم ، ابن مردویہ ، ابونعیم  اور امام بیہقی نے اپنے سنن اور دلائل دونوں مٰیں ثعلبی اور طبری نے اپنی اپنی عظیم الشان تفسیروں میں سورہ شعراء کی تفسیر کے ذیل میں نیز علامہ طبری نے اپنی تاریخ طبری کی دوسری جلد صفحہ217 میں بھی مختلف طریقوں سے اس کو لکھا ہے اور علامہ ابن اثیر جزری نے تاریخ کامل کی دوسری جلد صفحہ22 میں بطور مسلمات ذکر کیا ہے۔

مورخ ابو الفداء نے اپنی تاریخ کی پہلی جلد صفحہ116 میں سب سے پہلے اسلام لانے والے کے ذکر میں درج کیا ہے۔ امام ابوجعفر اسکافی معتزلی نے اپنی کتاب نقض عثمانیہ میں اس حدیث کی صحت کی صراحت کرتے ہوئے لکھا ہے( شرح نہج البلاغہ جلد3 صفحہ263) علامہ حلبی نے آںحضرت(ص) اور اصحاب کے دار ارقم میں روپوش ہونے کے واقعہ کے ضمن میں بیان کیا ہے(1)   (سیرت حلبیہ ج، صفحہ381) ان کے علاوہ تھوڑے بہت لفظی تغیر کےساتھ مگر مفہوم و معنی

--------------

1 ـ ملاحظہ فرمائیے صفحہ 381 جلد اول سیرة حلبیہ۔ ابن تیمیہ نے اس حدیث کو جھٹلانے اور غلط ثابت کرنے کی جو کوششیں کی ہیں۔ اپنی مشہور عصبیت کی وجہ سے وہ در خور اعتنا نہیں اس حدیث کو مصر کے سوشلسٹ ادیب محمد حسین ہیکل نے بھی لکھا ہے ملاحظہ فرمائیے ان کے رسالہ سیاست شمارہ نمبر2751 صفحہ 5 جپر عمود ثانی جو 12 ذیقعد سنہ1350ھ میں شائع ہوا۔ انھوں نے کافی تفصیل سے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور شمارہ نمبر2685 صفحہ 6 پر عمود رابع میں انھوں نے اس حدیث کو صحیح مسلم، مسند امام احمد اور عبداﷲ بن احمد کی زیارات مسند اور ابن حجر ہیثمی کی جمع الفوائد، ابن قتیبہ کی عیون الاخبار، احمد بن عبدربہ قرطبی کی عقد الفرید، علامہ جاحظ کے رسالہ بنی ہاشم، امام ثعلبی کی تفسیر ، مذکورہ بالا تمام کتب سے نقل کیا ہے۔ مزید برآں جرجس انکلیزی سے اپنی کتاب مقالہ فی الاسلام مٰیں بھی اس حدیث کو درج کیا ہے جس کا بروتستانت کے ملحد نےعربی میں ترجمہ کیا ہے جس نے اپنا نام ہاشم عربی رکھا ہے۔ اس حدیث کی ہمہ گیر شہرت کی وجہ سے متعدد مورخین فرنگ نے فرانسیسی ، جرمنی، انگریزی تاریخوں میں اس کو ذکر کیا ہے اور ٹامنس کارلائل نے اپنی کتاب ابطال میں مختصر کر کے لکھا ہے۔

۱۶۱

کے لحاظ سے بالکل ایک ہی مضمون ۔ بہتیرے اعیان اہل سنت اور ائمہ احادیث نے اپنی اپنی کتابوں میں اس واقعہ کو تحریر کیا ہے جیسے علامہ طحاوی اور ضیاء مقدسی نے مختارہ ،سعید بن منصور نے سنن میں تحریر کیا ہے۔

سب سے قطع نظر امام احمد نے اپنی مسند جلد اول صفحہ 159 پر حضرت علی (ع) سے روایت کی ہے ۔ پھر اسی جلد کے صفحہ331 پر ابن عباس سے بڑی عظیم الشان حدیث اس مضمون کی روایت کی ہے، جس میں حضرت علی(ع) کی دس ایسی خصوصیتیں مذکور ہیں جن کی وجہ سے حضرت علی(ع) اپنے تمام ماسوا سے ممتاز نظر آتے ہیں۔ اسی جلیل الشان حدیث کو امام نسائی نے بھی اپنی کتاب خصائص صفحہ 60پر ابن عباس سے روایت کر کے لکھا ہے اور امام حاکم نے صحیح مستدرک

۱۶۲

 جلد3 صفحہ 132 پر اور علامہ ذہبی نے تلخیص مستدرک میں اس حدیث کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے نقل کیا ہے۔

کنزالعمال جلد6 ملاحظہ فرمائیے(1) ۔ اس میں بھی یہ واقعہ بہت تفصیل سے موجود ہے۔ منتخب کنزالعمال کو دیکھیے جو مسند احمد بن حنبل کے حاشیہ پر طبع ہوا ہے۔ حاشیہ مسند جلد5 صفحہ 41 تا صفحہ42 پر اس واقعہ کا ذکر موجود ہے اور پوری تفصیل کے ساتھ۔

میرے خیال میں یہی ایک واقعہ جسے تمام علماء محدثین ومورخین بالاتفاق اپنی کتابوں میں لکھتے آئے ہیں حضرت علی(ع) کی امامت و خلافت کا بین ثبوت اور صریحی دلیل ہے۔ کسی دوسری دلیل کی ضرورت ہی نہیں۔

                                                                     ش

--------------

1 ـ ملاحظہ فرمائیے کنزالعمال صفحہ 392 حدیث نمبر6008 جو ابن جریر سے منقول ہے صفحہ 396 پر حدیث 6045 جو امام احمد کی مسند نیز ضیاء مقدسی کی مختارہ ، طحاوی و ابن جریر کی صحیح سے منقول ہے صفحہ 397 پر حدیث 6056 جو ابن اسحق ، ابن جریر ، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، اور ابو نعیم نیز بیہقی کی شعب الایمان اور دلائل سے منقول ہے صفحہ 401 پر حدیث 6102 جو ابن مردویہ سے منقول ہے صفحہ 408 پر حدیث 6155 جو امام احمد کی مسند اور ابن جریر اور صیاء مقدسی کی مختارہ سے منقول ہے۔ کنزالعمال میں یہ حدیث اور بھی مقامات پر مذکور ہے۔ شرح نہج البلاغہ جلد3 صفحہ 255 پر یہ طولانی حدیث بہت تفصیل سے مذکور ہے۔

۱۶۳

مکتوب نمبر11

حدیث مذکورہ بالا کی سند میں تردد

تسلیم زاکیات!

آپ کا مخالف اس حدیث کی سند کو معتبر نہیں سمجھتا نہ کسی طرح اس حدیث کو صحیح سمجھنے پر تیار ہے کیونکہ شیخین یعنی بخاری و مسلم نے اس حدیث کو نہیں لکھا۔ نیز شیخین کے علاوہ دیگر اصحاب صحاح نے بھی نہیں لکھا ۔ میرا تو یہ خیال ہے کہ یہ حدیث معتبر و معتمد راویاں اہلسنت سے مروی ہی نہیں ہوئی اور غالبا آپ بھی بطریق اہل سنت اسے صحیح نہ سمجھتے ہوں گے۔

                                                             س

۱۶۴

جواب مکتوب

نص کا ثبوت

اگر میرے نزدیک اس حدیث کی صحت خود بطریق اہلسنت ثابت نہ ہوتی تو میں اس محل پر اس کا ذکر ہی نہیں  کرتا۔ مزید برآں اس حدیث کی صحت تو ایسی اظہر من الشمس ہے کہ ابن جریر اور امام ابو جعفر اسکافی نے اس حدیث کو بطور مسلمات ذکر کیا ہے(1) ۔ اور کبار محققین اہل سنت نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ اس حدیث کی صحت کا مختصرا آپ اسی سے اندازہ کر لیجیے کہ اصحاب صحاح جن ثقہ اور معتبر راویوں کی روایتوں سے استدلال کرتے ہیں اور آنکھ بند کرکے بڑی خوشی سے جن کی روایتوں کو لے لیتے ہیں انھیں معتبر و ثقہ راویوں کے طریقوں سے اس حدیث کی صحت ثابت ہے۔ اس حدیث کی روایت انھیں معتبر و موثق اشخاص نے کی ہے جن کی روایت کردہ حدیثیں صحاح میں موجود ہیں۔

--------------

1 ـ ملاحظہ فرمائیے کنزالعمال جلد6 صفحہ 396 پر حدیث 6045 جہاں آپ کو معلوم ہوگا کہ ابن جریر نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ حاشیہ مسند احمد حنبل جلد5 صفحہ73 پر منتخب کنزالعمال میں بھی آپ کو معلوم ہوگا کہ ابن جریر نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ امام ابو جعفر اسکافی نے تو اس حدیث کو بڑی پختگی کے ساتھ صحیح قرار دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے ان کی کتاب نقض عثمانیہ شرح نہج البلاغہ جلد3، صفحہ363

۱۶۵

مسند احمد بن حنبل جلد اول صفحہ 111 ملاحظہ کیجیے۔ انھوں نے اس حدیث کو(1) اسود بن عامر سے انھوں نے شریک(2) سے انھوں نے اعمش(3) سے انھوں نے منہال(4) سے انھوں نے عباد(5) بن عبداﷲ اسدی سے انھوں نے حضرت علی(ع) سے مرفوعا روایت کرکے لکھا ہے۔ اس سلسلہ اسناد کے کل کے کل راوی مخالف

--------------

1 ـ امام بخاری و مسلم دونوں نے اس کی حدیث سے احتجاج کیا ہے ۔ شعبہ نے امام بخاری و امام مسلم دونوں کی صحت میں اسود سے روایت کر کے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا اور عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے امام بخاری کو ان سے روایت کرتے ہوئے اور زہیر بن معاویہ اور حماد بن سلمہ نے امام مسلم کو ان سے روایت کرتے ہوئے سنا۔ صحیح بخاری میں محمد بن حاتم بزیع کی ان سے روایت کی ہوئی حدیث موجود ہے اور صحیح مسلم میں ہارون بن عبداﷲ اور ناقد اور ابن ابی شیبہ اور ابو زہیر کی ان سے روایت کردہ حدیثیں موجود ہیں۔

2 ـ امام مسلم نے ان حدیثوں سے اپنے صحیح مسلم میں احتجاج کیا ہے جیسا کہ ہم نے صفحہ134 رپ ان کا تذکرہ کے ضمن میں وضاحت کی ہے۔

3 ـ ان سے امام بخاری و مسلم دونوں نے اپنے اپنے صحیح میں احتجاج کیا ہے جیسا کہ ہم نے صفحہ134 پر وضاحت کی ہے۔

4ـ امام بخاری نے ان سے احتجاج کیا ہے ملاحظہ ہو صفحہ166۔

5 ـ ان کا سلسلہ نسب یہ ہے عباد بن عبداﷲ بن زہیر بن عوام قرشی اسدی۔ ان سے بخاری و مسلم دونوں نے اپنے اپنے صحیح میں احتجاج کیا ہے۔ انھوں نے ابوبکر کی دونوں صاحبزادیوں عائشہ اور اسماء سے حدیثیں سنیں۔ صحیح بخاری و مسلم میں ان سے ابی ملیکہ اور محمد بن جعفر بن زہیر اور ہشام و عروہ کی روایت کردہ حدیثیں موجود ہیں۔

۱۶۶

کے نزدیک حجہ ہیں اور یہ تمام کے تمام رجال صحابہ ہیں۔ چنانچہ علامہ قیسرانی نے اپنی کتاب الجمع بین رجال الصحیحین  میں ان کا ذکر کیا ہے۔ لہذا اس حدیث کو صحیح ماننے کے سوا کوئی چارہ کار ہی نہیں۔ اس کے علاوہ یہ حدیث صرف اسی طریقہ وسلسلہ اسناد سے نہیں بلکہ اور بھی ب شمار طریقوں سے مروی ہے اور ہر طریقہ دوسرے طریقہ کا موید ہے۔

نص سے کیوں اعراض کیا؟

اور شیخین یعنی بخاری و مسلم نے اس لیے اس روایت کو اپنی کتاب میں  جگہ نہیں دی کہ یہ روایت مسئلہ خلافت میں ان کی ہمنوائی نہیں کرتی تھی ان ک منشاء کے خلاف تھی اسی وجہ سے انھوں نے اس حدیث نیز دیگر بہتیری ایسی حدیثوں سے جو امیر المومنین(ع) کی خلافت پر صریحی ںص تھیں گریز کیا اور اپنی کتاب میں درج نہ کیا۔ وہ ڈرتے تھے کہ یہ شیعوں کے لیے اسلحہ کا کام دیں گی لہذا انھوں نے جان بوجھ کر اس کو پوشیدہ رکھا۔

بخاری و مسلم ہی نہیں بلکہ بہتیرے شیوخ اہل سنت کا وتیرہ یہی تھا۔ اس قسم کی ہر چیز کو وہ چھپانا ہی بہتر سمجھتے تھے۔ ان کا یہ کتمان کوئی اچنبھے کی بات نہیں بلکہ ان کی یہ پرانی اور مشہور عادت ہے چنانچہ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں علماء سے نقل بھی کیا ہے، امام بخاری نے بھی اس مطلب میں ایک خاص باب قرار دیا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری(1) حصہ اول کے کتاب العلم میں انھوں نے یہ عنوان قائم کیا ہے :

             “باب من خص بالعلم قوما دون قوم ۔”

--------------

1 ـ صفحہ51۔

۱۶۷

             “ باب بیان میں اس کےجو ایک قوم کو مخصوص کر کے علم تعلیم کرے اور دوسرے کو نہیں۔”

امیرالمومنین(ع) کےمتعلق امام بخاری کو روش اور آپ کے ساتھ نیز جملہ اہل بیت(ع) کے ساتھ ان کے سلوک سے جو واقف ہے اور یہ جانتا ہے کہ ان کا قلم امیرالمومنین (ع) واہل بیت(ع) کی شان میں ارشادات و نصوص پیغمبر(ص) کے بیان سے گریزاں رہتا ہے اور ان کے خصائص و فضائل بیان کرتے وقت ان کے دوات کی روشنائی خشک ہوجاتی ہے۔ اس لیے امام بخاری کی اس حدیث یا اس جیسی دیگر حدیثوں کے ذکر نہ کرنے پر تعجب نہ ہونا چاہیے۔

                                                                     ش

۱۶۸

مکتوب نمبر12

حدیث کی صحت کا اقرار

چونکہ دعوت عشیرہ والی حدیث حدِ تواتر کو نہیں پہنچتی اس لیے اس سے استدلال صحیح نہیں، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مخصوص قسم کی خلافت ثابت ہوتی ہے۔

آپ کے ارشاد کے بموجب میں نے مسند احمد بن حنبل جلد اول کے صفحہ 111 پر اس حدیث کو دیکھا جن رجال سے یہ حدیث مروی ہے ان کی چھان بین کی۔ آپ کے کہنے کےمطابق وہ سب کے سب ثقات اہل سنت نکلے ۔ پھر میں نے اس حدیث کے دوسرے تمام طریق کو بغائر نظر مطالعہ کیا۔ بے شمار و بے اندازہ طریقے نظر آئے۔ ہر طریقہ دوسرے طریقہ کا موئد ہے۔ مجھے ماننا پڑا کہ یقینا یہ

۱۶۹

 حدیث پایہ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہے۔ اس کے ثابت و مسلم ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

البتہ ایک بات ہے آپ لوگ اثبات امامت میں اس حدیث صحیح سے استدلال کرتے ہیں جو متواتر بھی ہو کیونکہ امامت آپ کے نزدیک اصول دین سے ہے اور یہ حدیث جو آپ نے پیش فرمائی ہے اس کے متعلق یہ کہنا غیر ممکن ہے کہ یہ تواتر تک پہنچی ہوئی اور جب حد تواتر تک پہنچی ہوئی نہیں ہے۔ تو اس سے آپ لوگ استدلال بھی نہیں کرسکتے ۔

یہ حدیث منسوخ ہوگئی تھی

یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ حدیث صرف یہ بتاتی ہے کہ حضرت علی(ع) رسول(ص) کے جانشین تو تھے مگر خاص کر اہلبیت (ع) پیغمبر(ص) میں جانشین تھے۔ لہذا تمام مسلمانوں کا خلیفہ ہونا کہاں ثابت ہوتا ہے ؟ اس حدیث سے خلافت عامہ کہاں ثابت ہوتی ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہوگئی تھی اس لیے کہ آںحضرت(ص) نے اس حدیث کے مفاد کی طرف کبھی توجہ نہ کی اسی وجہ سے صحابہ کو خلفاء ثلاثہ کی بیعت میں کوئی مانع نہ نظر آیا۔

                                                             س

جواب مکتوب

اس حدیث سے استدلال کرنے کی وجہ

حضرات اہلسنت امامت کے اثبات میں ہر حدیث صحیح سے استدلال

۱۷۰

 کرتے ہیں خواہ کرتے ہیں خواہ وہ متواتر ہو یا غیر متواتر ۔ لہذا خود حضرات اہلسنت جس چیز کو حجہ سمجھتے ہیں ہم اسی چیز کو ان پر بطور حجت پیش کرتے ہیں۔ جس چیز کو وہ خود مانتے ہیں ہم اسی سے انھیں قائل کرتے ہیں۔

رہ گیا یہ کہ ہم جو اس حدیث سے امامت پر استدلال کرتے ہیں تو اسکی وجہ ظاہر ہے کیونکہ یہ حدیث ہم لوگوں کے طریق سے صرف صحیح ہی نہیں بلکہ حد تواتر تک پہنچی ہوئی ہے۔

مخصوص خلافت کو کوئی بھی قائل نہیں

یہ دعوی کرنا کہ یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ حضرت علی(ع) خاص کر اہلبیت(ع) میں جانشین پیغمبر(ص) تھے مہمل ہے کیونکہ جو شخص اہل بیت(ع) رسول(ص) میں حضرت علی(ع) کو جانشین رسول(ص) سمجھتا ہے وہ عامہ مسلمین میں بھی جانشین سمجھتا ہے اور جو عامہ مسلمین میں جانشین رسول(ص) نہیں مانتا وہ اہل بیت(ع) میں بھی نہیں مانتا۔ آج تک بس یہ دو ہی قسم کے لوگ نظر آئے۔ آپ نے یہ فرق کہاں سے پیدا کیا جس کا آج تک کوئی قائل نہیں ۔ یہ تو عجیب قسم کا فیصلہ ہے جو اجماع مسلمین کے خلاف ہے۔

حدیث کا منسوخ ہونا ناممکن ہے

یہ کہنا کہ یہ حدیث منسوخ ہوچکی تھی یہ بھی غلط ہے کیونکہ اس کا منسوخ ہونا عقلا و شرعا دونوں جہتوں سے محال ہے کیونکہ وقت آنے کے پہلے ہی کسی حکم کا منسوخ ہونا۔ بداہتا باطل ہے۔ اس کے علاوہ اس حدیث کو منسوخ کرنے والی آپ کے خیال کی بنا پر زیادہ سے زیادہ ایک چیز نکلتی ہے اور

۱۷۱

 وہ یہ کہ رسول اﷲ(ص) نے مفادِ حدیث کی طرف پھر توجہ نہ کی، پھر اعادہ نہ کیا۔ مگر یہ بھی صحیح نہیں۔ کیونکہ رسول(ص) نے مفاد حدیث سے کبھی بے توجہی نہیں کی۔ بلکہ اس حدیث کے ارشاد فرمانے کے بعد بھی وضاحت کرتے رہے۔ کھلے لفظوں میں، بھرے مجمع میں، سفر میں، حضر میں، ہر موقع ہر محل ہر صراحتہ اعلان فرماتے رہے۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ آپ صرف دعوت عشیرہ ہی کے موقع پر حضرت علی(ع) کو اپنا جانشین فرما کے رہ گئے پھر کبھی اس کی وضاحت نہیں کی تب بھی یہ کیسے معلوم کہ رسول(ص) نے بعد میں مفاد حدیث ؟؟؟؟؟ کیا آگے چل کر آپ کا خیال بدل گیا اپنے قول سے پلٹ گیا۔

“ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَ ما تَهْوَى الْأَنْفُسُ وَ لَقَدْ جاءَهُمْ مِنْ رَبِّهِمُ الْهُدى‏”(نجم، 23)

             “ وہ صرف گمان اور خواہش نفس کی پیروی کرتے ہیں حالانکہ ان کے پروردگار کا جانب سے ہدایت آچکی ہے۔”

                                                                     ش

۱۷۲

مکتوب نمبر13

میں نے ان ںصوص کے آستانے پر اپنی پیشانی جھکا دی۔ کچھ اور مزید ثبوت۔ خدا آپ کا بھلا کرے۔

                                                                     س

جوابِ مکتوب

حضرت علی(ع) کی دس(10) ایسی فضیلتیں جس میں کی کوئی ایک بھی کسی دوسرے کو حاصل نہیں اور جس سے آپ(ع) کی خلافت کی صراحت ہورہی ہے۔

دعوت ذوالعشیرہ والی حدیث کے علاوہ یہ دوسری حدیث ملاحظہ ملاحظہ کیجیے جسے امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند کی پہلی جلد صفحہ 330 پر ، امام نسائی نے

۱۷۳

 اپنی کتاب خصائص علویہ کے صفحہ 6 پر ، امام حاکم نے اپنے صحیح مستدرک کی تیسری جلد کے صفحہ 123 پر ، علامہ ذہبی نے اپنی تلخیص مستدرک میں اس حدیث کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے نیز دیگر ارباب حدیث نے ایسے طریقوں سے جن کی صحت پر اہل سنت کا اجماع و اتفاق ہے نقل کیا ہے۔

عمروہ بن میمون سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں ابن عباس کے پاس بیٹھا ہوا تھا اتنے میں ان کے پاس 9 سرداران قابل آئے۔ انھوں نے ابن عباس سے کہا کہ یا تو آپ ہمارے ساتھ اٹھ چلیے یا اپنے پاس کے بیٹھے ہوئے لوگوں کو ہٹا کر ہم سے تخلیہ میں گفتگو کیجیے۔

ابن عباس نے کہا ۔ میں آپ لوگوں کے ساتھ خود ہی چلا چلتا ہوں۔ ابن عباس کی بینائی چشم اس وقت باقی تھی۔ ابن عباس نے ان سے کہا:

                     “ کہیے کیا کہنا ہے؟”

گفتگو ہونے لگی ۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ کیا گفتگو ہوئی۔ ابن عباس وہاں سے دامن جھٹکتے ہوئے آئے ۔ کہنے لگے:

             “ وائے ہو۔ یہ لوگ ایسےشخص کے متعلق بدکلامی کرتے ہیں جس کی دس سے زیادہ ایسی فضیلتیں ہیں جو کسی دوسرے  کو نصیب نہیں۔ یہ لوگ بدکلامی کرتے ہیں ایسے شخص کے متعلق جس کے بارے میں رسول(ص) نے فرمایا :

لأبعثنّ رجلا لا يخزيه اللّه أبدا، يحبّ اللّه و رسوله، و يحبّه اللّه و رسوله»، فاستشرف لها من استشرف فقال: «أين عليّ؟»، فجاء و هو أرمد لا يكاد أن يبصر، فنفث في عينيه،

۱۷۴

ثمّ هزّ الراية ثلاثة، فأعطاها إيّاه، فجاء عليّ بصفيّة بنت حيي. قال ابن عباس: ثمّ بعث رسول اللّه (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم) فلانا بسورة التوبة، فبعث عليّا خلفه، فأخذها منه، و قال: «لا يذهب بها إلّا رجل منّي و أنا منه»، قال ابن عباس: و قال النبيّ لبني عمّه: «أيّكم يواليني في الدنيا و الآخرة»، قال:- و عليّ جالس معه- فأبوا، فقال عليّ: أنا أوالئك في الدنيا و الآخرة، فقال لعليّ: «أنت وليّي في الدنيا و الآخرة». قال ابن عباس: و كان عليّ أوّل من آمن من الناس بعد خديجة. قال: و أخذ رسول اللّه (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم) ثوبه فوضعه على عليّ و فاطمة و حسن و حسين، و قال:إِنَّمٰا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً . قال: و شرى عليّ نفسه فلبس ثوب النبيّ، ثمّ نام مكانه، و كان المشركون يرمونه [إلى أن قال:] و خرج رسول اللّه في غزوة تبوك، و خرج الناس معه،

۱۷۵

فقال له عليّ: أخرج معك؟ فقال (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم): «لا»، فبكى عليّ، فقال له رسول اللّه (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم): «أما ترضى أن تكون منّي بمنزلة هارون من موسى إلّا أنّه لا نبي بعدي، إنّه لا ينبغي أن أذهب إلّا و أنت خليفتي». و قال له رسول اللّه: «أنت وليّ كلّ مؤمن بعدي و مؤمنة». قال ابن عباس: و سدّ رسول اللّه أبواب المسجد غير باب عليّ، فكان‌يدخل المسجد جنبا و هو طريقه ليس له طريق غيره، و قال رسول اللّه (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم): «من كنت مولاه فإنّ مولاه عليّ.» الحديث.

“ میں ایسے شخص کو بھیجوں گا جسے خدا کبھی ناکام نہ کرے گا۔ وہ شخص خدا و رسول(ص) کو دوست رکھتا ہے اور خدا و رسول(ص) اسے دوست رکھتے ہیں۔کس کس کے دل میں اس فضیلت کی تمنا پیدا نہ ہوئی مگر رسول(ص) نے ایک کی تمنا خاک میں ملا دی اور صبح ہوئی تو دریافت فرمایا کہ علی(ع) کہاں ہیں؟ حضرت علی(ع) تشریف لائے حالانکہ وہ آشوب چشم میں مبتلا تھے۔ دیکھ نہیں پاتے تھے۔ رسول(ص) نے ان کی آنکھیں پھونکیں ، پھر تین مرتبہ علم کو حرکت دی اور حضرت علی(ع) کے ہاتھوں میں تھما دیا۔ حضرت علی(ع) جنگ فتح کر کے مرحب کو مار کر اور اس کی بہن صفیہ کو لے کر خدمت رسول(ص) میں پہنچے ۔ پھر

۱۷۶

 رسول اﷲ(ص) نے ایک بزرگ کو سورہ توبہ دے کر روانہ کیا۔ ان کے بعد پیچھے فورا ہی حضرت علی(ع) کو روانہ کیا اور حضرت علی(ع) نے راستہ ہی میں ان سے سورہ لے لیا کیونکہ رسول(ص) کا حکم تھا کہ یہ سورہ بس وہی شخص پہنچا سکتا ہے جو مجھ سے ہے اورمیں اس سے ہوں۔ اور رسول(ص) نے اپنے رشتہ داروں، قرابت مندوں سےکہا کہ تم میں کون ایسا ہے جو دنیا و آخرت میں میرا ساتھ دے۔ میرے کام آئے۔ حضرت علی(ع) نے کہا میں اس خدمت کو انجام دوں گا۔ میں دین و دنیا میں آپ کی خدمت کروں گا۔ آپ(ص) نے فرمایا ۔ اے علی(ع) ! دین و دنیا دونوں میں تم ہی میرے ولی ہو۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اﷲ(ص) نے حضرت علی(ع) کو بٹھا کے پھر لوگوں سے اپنی بات دہرائی اور پوچھا کہ تم میں کون شخص ہے جو میرا مددگار ہو دنیا میں اور آخرت میں۔ سب نے انکار کیا صرف ایک حضرت علی(ع) ہی تھے جنھوں نے کہا کہ میں آپ کی مدد و نصرت کروں گا دین و دنیا دونوں میں یا رسول اﷲ(ص) رسول اﷲ(ص) نے فرمایا کہ علی(ع) تم ہی میرے ولی ہو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ علی(ع) پہلے وہ شخص ہیں جو جناب خدیجہ کے بعد رسول(ص) پر ایمان لائے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اﷲ(ص) نے اپنی ردا لی اور اسے علی(ع) وفاطمہ(س) و حسن(ع) و حسین(ع) کو اوڑھایا اور اس آیت کی تلاوت کی :

۱۷۷

 “ إِنَّمٰا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً.”

“ اے اہل بیت(ع) ! خدا بس یہی چاہتا ہے کہ تم سے ہر برائی اور گندگی کو اس طرح دور رکھے جیسا کہ دور رکھنا چاہیئے۔”

ابن عباس کہتے ہیں : اور علی(ع) ہی نے اپنی جان راہ خدا میں فروخت کی اور رسول اﷲ(ص) کی چادر اوڑھ کر رسول(ص) کی جگہ پر سورہے۔ در آںحالیکہ مشرکین پتھر برسارہے تھے۔

اسی سلسلہ کلام میں ابن عباس کہتے ہیں: کہ پیغمبر جنگ تبوک کے ارادے سے نکلے۔ لوگ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ حضرت علی(ع) نے پوچھا: یا رسول اﷲ(ص) ! میں بمرکاب رہوں گا؟ آپ نے فرمایا : نہیں ، تم نہیں رہوگے۔ اس پر حضرت علی(ع) آبدیدہ ہوگئے تو آپ نے فرمایا : کہ یا علی (ع) ! تم اسے پسند نہیں کرتے کہ تم میرے لیے وسیے ہی یو جیسے موسی(ع) کے لیے ہارون تھے۔ البتہ میرے بعد نبوت کا سلسلہ بند ہے۔ جنگ میں میرا جانا بس اسی صورت میں ممکن ہے کہ میں تمھیں اپنا قائم مقام چھوڑ کے جاؤں۔

نیز حضرت سرورِ کائنات(ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا:  کہ اے علی(ع) ! میرے بعد تم ہر مومن و مومنہ کے ولی ہو۔ ابن عباس کہتے ہیں:  کہ رسول اﷲ(ص) نے مسجد کی طرف سب کے دروازے بند کرادیے بس صرف علی(ع) کا دروازہ کھلا رکھا اور حضرت علی(ع) جنب کی حالت میں بھی مسجد

۱۷۸

 سے گزر جاتے تھے۔ وہی ایک راستہ تھا دوسرا کوئی راستہ ہی نہ تھا۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اﷲ (ص) نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ: میں جس کا مولا ہوں علی(ع) اس کے مولا ہیں۔”

اس حدیث میں من کنت مولاہ کو امام حاکم نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اگر چہ شیخین بخاری و مسلم نے اس نہج سے ذکر نہیں کیا۔

علامہ ذہبی نے بھی تلخیص مستدرک میں اس حدیث کو نقل کیا ہے اور نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

اس حدیث سے ثبوت خلافت امیرالمومنین(ع)

اس عظیم الشان حدیث میں امیرالمومنین(ع) کے ولی عہد رسول(ص) اور بعد رحلت سرورِ کائنات خلیفہ و جانشین ہونے کے بعد جو قطعی دلائل اور روشن براہین ہیں وہ آپ کی نگاہوں سے مخفی نہ ہوں گے۔ ملاحظہ فرماتے ہیں آپ اندازہ پیغمبر(ص) کا کہ حضرت علی(ع) کو دینا و آخرت میں اپنا ولی قرار دیتے ہیں۔ اپنے تمام رشتے داروں، قرابت داروں میں بس علی(ع) ہی کو اس اہم منصب کے لیے منتخب فرماتے ہیں۔ دوسرے موقع پر حضرت علی(ع) کو وہ منزلت و خصوصیت عطا فرماتے ہیں جو جناب ہارون کو جناب موسی(ع) سے تھی۔ جتنے مراتب و خصوصیات جناب ہارون کو جناب موسی(ع) سے حاصل تھے۔ وہ سب کے سب حضرت علی(ع) کو مرحمت فرمائے جاتے ہیں سوائے درجہ نبوت کے ۔ نبوت کو مستثنی کرنا دلیل ہے کہ نبوت کو چھوڑ کر جتنے خصوصیات

۱۷۹

جناب ہارون کو حاصل تھے وہ ایک ایک کر کے حضرت علی(ع) کی ذات میں مجتمع تھے۔

آپ اس سے بھی بے خبر نہ ہوں گے کہ جناب ہارون کو منجملہ  دیگر خصوصیات کے سب سے بڑی خصوصیت جو جناب موسی(ع) سے تھی وہ یہ کہ جناب ہارون جناب موسی(ع) کے وزیر تھے۔ آپ کے قوت بازو تھے۔ آپ کے شریک معاملہ تھے اور آپ کی غیبت میں آپ کے قائم مقام ، جانشین و خلیفہ ہوا کرتے اور جس طرح جناب موسی(ع) کی اطاعت تمام امتِ پر فرض تھی اسی طرح جناب ہارون کی اطاعت بھی تمام امت پر واجب و لازم تھی اس کے ثبوت میں یہ آیات ملاحظہ فرمایئے:

             خداوند عالم نے جناب موسی(ع) کی دعا کلام مجید میں نقل فرمائی ۔ جناب موسی نے دعا کی تھی۔

“وَ اجْعَل لىّ‏ِ وَزِيرًا مِّنْ أَهْلىِ هَارُونَ أَخِى اشْدُدْ بِهِ أَزْرِى‏ وَ أَشْرِكْهُ فىِ أَمْرِى‏”

“ معبود میرے گھر والوں میں سے ہارون کو میرا وزیر بنا ان سے میری کمر مضبوط کر اور انھیں میرے کارِ نبوت میں شریک بنا۔”

دوسرے موقع پر جناب موسی (ع) کا قول خداوند عالم نے قرآن میں نقل کیا ہے:

“اخْلُفْني‏ في‏ قَوْمي‏ وَ أَصْلِحْ وَ لا تَتَّبِعْ سَبيلَ الْمُفْسِدينَ” ( اعراف، 142)

“ اے ہارون تم میری امت میں میرے جانشین رہو،

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

وہ لوگ جو آحاد اور ضیعف روایات کوعقائد میں قبو ل کرتے ہیں اور اس کا شد ت کے سا تھ دفاع کرتے ہیں ، نیز اسی بنا پر مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں،''سلفی حضرات '' اور اہل سنت کے اخبا ریوں کو تو جہ کر نا چاہئے کہ روایات میں '' حق و باطل اورسچ وجھوٹ ، ناسخ و منسوخ ،عا م و خاص، محکم و متشا بہ حفظ ( حقیقت )ووہم ''سب کچھ پائے جاتے ہیں ۔( ۱ )

بہت جلد ہی اس مو ضو ع کی مز ید شرح و وضا حت پیش کی جائے گی۔

____________________

(۱) نہج البلاغہ : خطبہ ۲۱۰.

۲۰۱

۳۔ اسلامی عقائد دو حصّوں پر مشتمل ہیں: ضروری و نظری:

ضروری اسلامی عقائد:

ضروری وہ ہیں جن کا کوئی مسلما ن انکا ر نہیں کرتا مگر یہ کہ دین کے دائرہ سے خارج ہو جائے کیو نکہ ضروری کا شمار ، دین کے بدیہیات وواضحات میں ہو تا ہے جیسے: تو حید ، نبوت اور معا دوغیرہ۔

نظری اسلامی عقائد:

نظری وہ ہیں جو تحقیق و بر ہان ، شاہد و دلیل کا محتا ج ہو اور اس میں صاحبان آراء و مذا ہب کا اختلاف ممکن ہو ، ضروری عقائد کا منکر کافر ہو جاتا ہے لیکن نظری عقائدکے منکر تکفیر سے روکا گیا ہے۔

۴۔ عقیدہ میں قیا س اور استحسان کی کوئی اہمیت نہیں جا نتے ہیں۔

۵۔ حکم صریح عقلی کی حکم صحیح نقلی سے مقافقت پر ایما ن رکھتے ہیں اس شرط کے ساتھ کہ تمام اوصا ف لازم کی ان دونوں میں ر عایت کی گئی ہو اور کبھی بھی ظن و گمان کو یقین کی جگہ قرار نہیں دیتے وہ لوگ کبھی ضیعف خبر سے استناد نہیں کرتے اور نہ ہی خبر واحد کو صحیح متو اتر کی جگہ اپنا تے ہیں۔

۶۔ ذاتی اجتہا د، خیال بافی اور گمان آفرینی سے عقائد میں اجتناب کرتے ہوئے ان تعبیروں سے جو بدعت شمار ہو تی ہیں کنارہ کشی اختیا ر کر تے ہیں ۔

۷۔ ﷲ کے تمام انبیاء اوربارہ ا ئمہ کو صلوا ت ﷲ اجمعین معصو م جانتے ہیں اور اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے آثار نیز صحیح و معتبر روایات پر ایمان رکھنا وا جب ہے اور مجتہد ین حضرات ان آثا ر میں کبھی درست اور صوا ب کی راہ اختیا ر کرتے ہیں تو کبھی خطا کر جاتے ہیں ، لیکن وہ اجتہا د کی تما م شرطوں کی رعا یت کریں اور اپنی تمام کوششوں اورصلا حیتوں کو بروئے کار لائیں تو معذورقرار پائیں گے ۔

۸۔ امت کے درمیا ن ایسے لوگ بھی ہیں جنھیں ''محدَّث'' اور'' مُلھَم'' کہتے ہیں : نیز ایسے لوگ بھی ہیں جو صحیح خواب دیکھتے ہیں اور اس کے ذریعہ حقائق تک رسائی حا صل کرتے ہیں ،لیکن یہ ساری باتیں اثبات چاہتی ہیں اور ان کااستعمال ذاتی عقیدہ کی حد تک ہے اوراس پر عمل انفرادی دائرہ سے آگے نہیں بڑھتا۔

۲۰۲

۹۔عقائد میں منا ظرہ اور منا قشہ اگر افہا م و تفہیم کے قصد سے آداب تقویٰ کی رعا یت کے ساتھ ہو تو پسند یدہ ہے، لیکن یہ انسان کا فریضہ ہے کہ جو نہیں جانتا اس کے بارے میں کچھ نہ کہے ،بحث ومنا ظرہ اگر ضد،ہٹ دھرمی ، خود نمائی کے ساتھ نا زیبا کلمات اور بد اخلا قی کے ذریعہ ہو تو یہ امر نا پسندیدہ اور قبیح ہے اور اس سے عقیدہ کی حفا ظت کے لئے اجتناب واجب ہے۔

۱۰ ۔ ''بدعت''دین کے نام پر ایک اختراعی اور جعلی چیز ہے جو کہ دین سے تعلق نہیں رکھتی اور نہ ہی شریعت میں کوئی اصل رکھتی ہے کبھی ایسی چیز کو بھی '' بدعت'' کہہ دیتے ہیں کہ اگر دقت اور غور و خو ض سے کام لیا جائے تو وہ '' بدعت'' نہیں ہے، جیسا کہ بعض ان چیزوں کو جو'' سنت'' نہیں ہیں سنت کہہ دیتے ہیں ، لہٰذا فتویٰ دینے سے پہلے غور و فکر کر نا لا زم ہے۔( ۱ )

۱۱ ۔''تکفیر'' کے بارے میں غور و فکر اور دقت نظر واجب ہے اس لئے کہ جب تک کسی کا کفر خود اس کے قرار یا قطعی بینہ ذریعہ ثابت نہ ہو اس کے بارے میں کفر کا حکم جائیز نہیں ہے ، کیو نکہ( تکفیر) حد شر عی کا با عث ہے اور حد شرعی کے بارے میں فقہی قاعدہ یہ ہے کہ ''اِنَّ الحدود تدرأبالشبھا ت'' حدود شبہات سے بر طرف ہو جاتے ہیں اور دوسروںکو کافر سمجھنا عظیم گنا ہ ہے مگر یہ کہ حق ہو۔

۱۲ ۔ اختلا فی موارد میں '' کتاب، سنت اور عترت'' کی طرف رجوع کرنا واجب ہے جیسا کہ رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا ہے اور خدا وند عالم اس کے بارے میں فرما تا ہے:

( و لو ردُّوهُ أِلی الرسو ل و أِلی أولی الأمر منهم لعلمه الذین یستنبطو نه منهم و لولافضل ﷲ علیکم و رحمته لا تَّبعتُمُ الشَّیطان اِلاَّ قلیلا ً ) ( ۲ )

اوراگر( حوادث اور پیش آنے والی باتوں کے سلسلہ میں ) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور صاحبان امرکی طرف رجوع کریں تو انہیںبنیا دی مسا ئل سے آگا ہی و آشنائی ہو جائے گی ، اگر تم پرخدا کی رحمت اور اس کا فضل نہ ہو تا تو کچھ لوگوں کے علا وہ تم سب کے سب شیطان کی پیروی کرتے۔

____________________

(۱)سید مرتضی علی ابن الحسین الموسوی ( وفات ۴۳۶ ھ ، رسائل الشریف المرتضی ، رسالة الحدود والحقائق.

(۲) نساء ۸۳

۲۰۳

۱۳ ۔ خدا وند عالم کے صفات سے متعلق اہل بیت کا نظریہ یہ ہے:

'' خدا وند عالم؛ حی ،قادر اور اس کا علم ذاتی ہے ، یعنی حیات ،قدرت اورعلم عین ذات ِ باری تعا لیٰ ہے، خدا وند سبحان( مشبہّہ اور بد عت گزا روں جیسے ابو ہا شم جبائی کے قول کے بر خلاف) زائد بر ذات صفات و

احوال سے منزہ و مبرا ہے، یہ ایسا نظریہ ہے جس پر تمام اما میہ اور معتز لہ( ما سوا ان لوگو ں کے جن کا ہم نے نام لیا ہے ) اکثر مر جئہ تمام زیدیہ اور اصحا ب حدیث و حکمت کے ایک گروہ کا اتفاق ہے( ۱ ) ان کا اثبا ت و تعطیل کے درمیا ن ایک نظریہ ہے یعنی با و جو د یکہ خدا وند سبحا ن کو زا ئد بر ذات صفات رکھنے سے منزہ جانتے ہیں لیکن ﷲ کے اسمائے حسنیٰ اور صفات سے متعلق بحث کو ممنوع اور بے فا ئدہ نہیں جانتے ہیں''۔

۱۴ ۔وہ لوگ '' حسن و قبح'' عقلی کے معتقد ہیں اور کہتے ہیں : بعض اشیاء کے '' حسن و قبح'' کا درک کرنا عقل کے نزدیک بد یہی اور آشکار ہے۔

____________________

(۱)شیخ مفید؛'' اوا ئل المقا لات'' ص ۱۸

۲۰۴

اہل بیت کی راہ قرآ ن کی راہ ہے

اسلامی عقا ئد میں مکتب اہل بیت کوجب بد یہی معلو مات اور باعظمت یقینیات کے ساتھ موازنہ کیا جاتاہے تو اس کی فوقیت و برتری کی تجلی کچھ زیادہ ہی نمایاںہو جاتی ہے، ہم اس کے کچھ نمو نوں کی طرف اشارہ کررہے ہیں:

۱ ۔ تو حید کے بارے میں :

توحید کے سلسلے میں اہل بیت کا مکتب قرآن کریم کی تعلیم کی بنیا د پر خدا وند عالم کو مخلوقات سے ہر قسم کی تشبیہ اور مثال و نظیر سے بطور مطلق منزہ قرار دیتا ہے جیسا کہ ارشاد ہوا :

( لیس کمثله شیئ وهو السمیع البصیر ) ( ۱ )

کوئی چیز اس ( خدا ) کے جیسی نہیں ہے اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے ۔

اسی طرح نگا ہوں سے رویت خدا وندی کو قرآن کریم کے الہام کے ذریعہ مردود جانتا ہے ، جیسا کہ ارشاد ہوا:( لا تد رکه الأبصا روهوید رک الأبصاروهواللّطیف الخبیر ) ( ۲ )

نگا ہیں ( آنکھیں ) اسے نہیں دیکھتیں لیکن وہ تمام آنکھو ں کو دیکھتا ہے اور وہ لطیف و آگا ہ ہے۔

نیز مخلوقات کے صفات سے خدا کی تو صیف کر نا مخلو قات کی طرف سے نا ممکن جا نتا ہے ، جیسا کہ ارشاد ہوا:

الف ۔( سبحا نه وتعا لیٰ عمّایصفون ) ( ۳ )

جو کچھ وہ تو صیف کرتے ہیں خدا اس سے منزہ اور بر تر ہے!

ب ۔( سبحان ربک ربّ العزّة عمّایصفون ) ( ۴ )

____________________

(۱)شوری ۱۱

(۲) انعام ۱۰۳

(۳) انعام ۱۰۰

(۴)صافات۱۸۰

۲۰۵

تمہا را پروردگارپروردگا رِ عزت ان کی تو صیف سے منزہ اور مبرا ہے ۔

۲ ۔عدل کے بارے میں :

مکتب اہل بیت نے خدا سے ہر قسم کے ظلم وستم کی نفی کی ہے اور ذات باری تعا لیٰ کو عد ل مطلق جا نتا ہے،جیسا کہ خدا وند عالم نے فرمایا :

الف۔( اِنّ ﷲ لایظلم مثقال ذرة )

بیشک خدا وند عالم ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا ۔

ب۔( ان ﷲ لایظلم الناس شیئاً و لکن الناس أنفسهم یظلمون ) ( ۱ )

بیشک خداوند عا لم لوگوں کے اوپر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا بلکہ لوگ خود اپنے اوپر کچھ بھی ظلم کرتے ہیں ۔

۳۔ نبوت کے بارے میں :

نبوت کے بارے میں مکتب اہل بیت کا نظریہ یہ ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام مطلقاً معصوم ہیں ، کیونکہ خدا وند عالم کا ارشاد ہے :

الف: ۔( وما کا ن لنبیٍ أن یغلّ ومن یغلل یأت بماغلّ یوم القیامة ) ( ۲ )

اور کوئی پیغمبر خیا نت نہیں کرتااورجو خیا نت کرے گاقیا مت کے دن جس چیز میں خیانت کی ہے اسے اپنے ہمرا ہ لائے گا۔

ب:۔( قل اِنیّ أخاف اِن عصیت ربیّ عذا ب یومٍ عظیمٍ ) ( ۳ )

( اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم )کہہ دو! میں بھی اگر اپنے رب کی نافرمانی کروں تواس عظیم دن کے عذا ب سے خوف زدہ ہوں۔

ج :۔( ولو تقوَّل علینا بعض الأقا ویلِ)(لاخذ نا منه با لیمین ثُمَّ لقطعنا منه الوتین ) ( ۴ )

اگر وہ (پیغمبر) ہم پر جھوٹا الزام لگا تا تو ہم ا سے قدرت کے ساتھ پکڑ لیتے، پھر اس کے دل کی رگ کو قطع کر دیتے۔

اسی طرح مکتب اہل بیت تمام فر شتوں کو بھی معصوم جا نتا ہے ، کیو نکہ خدا وند عالم نے فرمایا ہے:

____________________

(۱)یونس ۴۴ (۲) آل عمران ۱۶۱ (۳) انعام ۱۵. (۴)حاقہ۴۴۔۴۶

۲۰۶

( علیهاملا ئکة غلا ظ شدا دلا یعصو ن ﷲ ماأمر هم ویفعلو ن ما یؤمرون )

اُس ( جہنم ) پر سخت گیر اور درشت مزا ج فرشتے مامور ہیں اور کبھی خدا کی جس کے بارے میں اس نے حکم دیا ہے نا فرما نی نہیں کرتے اور جس پر وہ مامور ہیںاس پر عمل کرتے ہیں۔( ۱ )

۴ ۔امامت کے بارے میں :

مکتب اہل بیت کہتا ہے : امامت یعنی ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دینی اور دنیا وی امور میں نیا بت یہ ایک ایسا ﷲ کا عہد و پیمان ہے کہ جو غیر معصوم کو نہیں ملتا ، کیو نکہ ، خدا وند عالم نے فرمایا ہے:

( واِذ ابتلیٰ اِبرا هیم ربُّه بکلما ت فا تمّهنّ قال اِنّی جا علک للناس اِماما ً قال و من ذُرّ یتی قال لا ینا ل عهدی الظّالمین ) ( ۲ )

اور جب ابرا ہیم ـکو ان کے رب ّ نے چند کلمات ( طریقو ں ) سے آزمایا اور وہ بحسن و خوبی اس سے عہدہ بر آہو گئے تو خدا وند عالم نے فر مایا : میں نے تم کو لوگو ں کا امام اور پیشوا قرار دیا ! ابرا ہیم نے عرض کیا : میری ذریت میں بھی اس عہد کو قرار دے گا؟ فر مایا : میرا یہ عہد ظالموں کو نصیب نہیں ہو گا ۔

آیت شریفہ کے (مضمو ن اور ابرا ہیم کے امتحا ن دینے کی کیفیت) سے نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ تمام رسولوں ، انبیاء اور ائمہ کے خوا ب جھوٹ سے محفو ظ بلکہ صادق ہوتے ہیں اور خدا وند عالم انھیں خواب میں بھی غلطی اور اشتباہ سے محفوظ رکھتا ہے ۔( ۳ )

جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے وہ راہ اہل بیت کی قرآن کریم سے مطا بقت اور ہماہنگی کا ایک نمونہ تھا۔

____________________

(۱) تحریم۶

(۲) بقرہ ۱۲۴

(۳) شیخ مفید ، اوائل المقا لا ت، ص ۴۱۔

۲۰۷

مکتب اہل بیت میں ''عقل'' کا مقام

مکتب اہل بیت کا نظریہ عقل کے استعمال اور اس کی اہمیت کے متعلق ایک درمیا نی نظریہ ہے جو معتزلہ کی تند روئی اور شدت پسندی سے اور اہل حدیث کے ظاہر بین افراد کی سستی اور جمود سے محفو ظ ہے ۔

شیخ مفید(متوفی ۴۱۳ ھ) کہتے ہیں:

یہ جو بات اما میہ کے مخا لفین کہتے ہیں:'' تمہا رے ائمہ کی امامت پر صر یح اخبار تو اتر کی حد کو نہیں پہنچتے ہیں اور آحاد خبریں حجت نہیں ہیں'' ہمارے مکتب کے لئے ضرر رساں نہیںہے اور ہماری حجت و دلیل کو بے اعتبار نہیںکرتی ، کیو نکہ ہماری خبریں '' عقلی دلا ئل کے ہمراہ ہے ، یعنی وہ دلا ئل ما ضی میں جن کی تفصیل اما موں کی امامت اور ان کے صفا ت کے بارے میں گزر چکی ہے ، وہ دلا ئل (جیسا ہمارے مخا لفین نے تصور کیا ہے) اگر باطل ہوں ، تو '' ائمہ پر نص کے وجوب کے عقلی دلا ئل'' بھی باطل ہو جائیں گے ۔''( ۱ )

اور یہ بھی کہتے ہیں:'' ہم خدا کی مرضی اور اس کی تو فیق سے ، اس کتا ب میں مکتب شیعہ اور مکتب معتزلہ کے درمیا ن فرق اور عدلیہ شیعہ اور عدلیہ معتز لہ کے درمیا ن افترا ق وجدا ئی کے اسباب کا اثبات کریں گے۔''( ۲ )

شیخ صدوق محمدبن با بویہ (متوفی ۳۸۱ ھ) فر ماتے ہیں: '' خدا وند عالم کسی سبب کی سمت دعوت نہیں دیتا مگر یہ کہ اس کی حقا نیت کو عقو ل میں اجاگر کر دے اور اگر اس کی حقانیت کو عقلوں میں اجاگر اور روشن نہ کیا ہو تو دعوت نا روا اور بے جا ہو گی اور حجت نا تمام کہلا ئے گی ، کیو نکہ اشیا ء اپنے اشکال کو جمع کرنے والی اور اپنی ضد کے بارے میں خبر دینے وا لی ہیں، لہٰذا اگر عقل میں رسو لوں کے انکا ر کی جگہ اور گنجائش ہو تی تو خداوندعالم کسی پیغمبر کو ہرگزمبعوث نہ کرتا۔ ''( ۳ )

____________________

(۱)شیخ مفید؛ '' المسائل الجارودیہ'' ص۴۶، طبع، شیخ مفید،ہزار سالہ عالمیکانفرنس ،قم، ۱۴۱۳ھ

(۲)شیخ مفید؛ ''اوائل المقالات فی المذاہب و المختارات''

(۳) ابن بابویہ ؛ ''کمال الدین و تمام النعمة '' طبع سنگی ، تہران ، ۱۳۰۱ ھ

۲۰۸

مزید کہتے ہیں: اس سلسلہ میں صحیح بات یہ ہے کہ کہا جا ئے : ہم نے خدا کو اس کی تا ئید و نصرت سے پہچانا، کیو نکہ ، اگر خدا کو اپنی عقل کے ذریعہ پہچا نا تو وہی عقل عطا کر نے والا ہے اور اگر ہم نے اسے انبیائ، رسولوں اور اس کی حجتوں کے ذریعہ پہچا نا تو اسی نے تمام انبیاء رسو لوں اور ائمہ کا انتخاب کیا ہے اور اگر اپنے نفس کے ذریعہ معر فت حا صل کی تو اس کا بھی وجو د میں لا نے وا لا خدا وند ذوالجلا ل ہے لہٰذا اسی کے ذریعہ ہم نے اس کو پہچا نا۔ ''( ۱ )

اس طرح سے عقل کا استعمال اور اس سے استفا دہ کر نا ، یعنی اس کا کتاب ، سنت اور ائمہ معصو مین کے ہمرا ہ کر نا اہل بیت کی رو ش کے علاوہ کہیں کسی دوسری اسلا می روش میں نہیں ملتا ہے۔

امام جعفر صادق ـاس سلسلہ میں فر ماتے ہیں :''لولا الله ماعرفنا ولولانحن ماعرف الله '' اگر خدا نہ ہو تا تو ہم پہچا نے نہیںجاتے اور اگر ہم نہ ہوتے تو خدا پہچا نا نہیں جاتا۔( ۲ )

اس حدیث کی شرح میں شیخ صدوق کہتے ہیں: یعنی اگر خدا کی حجتیں نہ ہو تیں تو خدا جیسا کہ وہ مستحق اور سزا وار ہے پہچا نا نہیں جاتا اور اگر خدا نہ ہو تا تو خدا کی حجتیں پہچا نی نہیں جاتیں۔''( ۳ )

کلا می منا ظرہ اور اہل بیت ـ کا نظریہ

گزشتہ بحثو ں میں ان لوگو ں کے نظر یہ سے آگا ہ ہوچکے جو دین میں بطور مطلق ہر طرح کے بحث و مناظرہ کو ممنو ع جانتے ہیں نیز ان لو گوں کے نظریہ سے آشنا ہو ئے جو معتدل رہتے ہوئے اقسام منا ظرہ کے درمیان تفصیل اور جدائی کے قا ئل ہیں۔

اہل بیت کی روش بھی اس سلسلے میں معتدل اوردر میا نی ہے، وہ لوگ کتاب خدا وند ی کی پیر وی میں جدال کی دو قسم کرتے ہیں:

۱ ۔جدا ل حسن

۲ ۔ جدا ل قبیح

خدا وند متعال فرما تا ہے:

____________________

(۱) توحید شیخ صدوق ؛ ص ۲۹۰.(۲)توحید صدو ق، ص۲۹۰(۳)توحید صدو ق، ص۲۹۰

۲۰۹

( اُدع اِلیٰ سبیل ربک بالحکمة والموعظة الحسنة وجادلهم با لتی هی احسن اِنَّ ربّک هواعلم بمن ضلَّ عن سبیله وهوأعلم بالمهتدین )

( لوگو ں کو) حکمت اور نیک مو عظہ کے ذریعہ سے اپنے ربّ کے راستہ کی طرف دعوت دو اور ان سے نیک روش سے جدا ل و منا ظرہ کرو تمہا را ربّ ان لوگوں کے حال سے جو اس کی راہ سے بھٹک چکے اور گمراہ ہوگئے ہیں زیا دہ وا قف ہے اور وہی ہدا یت یا فتہ افراد کو بہتر جانتا ہے۔( ۱ )

اس سلسلہ میں شیخ مفید فر ماتے ہیں:

( ہمارے ائمہ)صادقین نے اپنے شیعوں کے ایک گروہ کو حکم دیا کہ وہ اظہا ر حق سے بازرہیں اوراپنا تحفظ کریں'' اور حق کو اپنے اندر دین کے دشمنو ں سے چھپا ئے رکھیں اوران سے ملا قات کے وقت اس طرح برتاؤ کریں کہ مخا لف ہونے کا شبہ ان کے ذہن سے نکل جائے، کیو نکہ یہ روش اس گروہ کے حا ل کے لئے زیا دہ مفید تھی ، نیز اسی حا ل میں شیعوں کے ایک دوسرے گروہ کو حکم دیا کہ مخا لفین سے بحث و مناظرہ کرکے انھیں حق کی سمت دعوت دیں ،کیو نکہ ہما رے ائمہ جا نتے تھے کہ اس طریقہ سے انھیں کو ئی نقصان نہیں پہنچے گا۔''( ۲ )

شیخ مفید کی اپنی گفتگو میں '' صا دقین'' سے مراد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عترت سے '' منصوص ائمہ'' ہیں کہ خداوندعالم نے اپنی کتا ب میں جن کی طہارت کی گو ا ہی دی اور انھیں گناہ و معصیت سے پاک و پاکیزہ قرار دیا اور انھیں مخا طب قرار دے کر فر مایا ہے:

( اِنّما یر ید ﷲ لیذ هب عنکم الرّجس أهل البیت ویطهِّرَکم تطهیرا ً ) ( ۳ )

خدا وند عالم کا صرف یہ ارادہ ہے کہ تم اہل بیت سے ہر قسم کے رجس کو دور رکھے اور تمھیں پاک و پاکیز ہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

خدا وند عالم نے امت اسلامی کو بھی تقوائے الٰہی اور عقیدہ و عمل میں ان حضرات کی ہمرا ہی کی طرف دعوت دیتے ہو ئے فر ماتا ہے:

( یا أیها الذ ین آ منوا اتّقوا ﷲ وکونو امع الصَّا دقین ) ( ۴ )

اے اہل ایمان ! تقوائے الٰہی اختیا ر کرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ!

____________________

(۱)نحل ۱۲۵(۲)شیخ مفید ؛'' تصحیح الاعتقاد ''ص ۶۶.(۳) احزاب ۳۳ .(۴)توبہ ۱۱۹.

۲۱۰

بیشک وہ ایسے امام ہیں جن کے اسما ئے گرامی کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صرا حت کے ساتھ بیان فر مایا اور ہر ایک امام نے اپنے بعد والے امام کا بارہ اماموں تک واضح اور آشکار تعار ف کرا یا ہے، ان کے اولین وآخرین کے نام اور عدد پر نص اورصراحت رسول گرامیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت میں مو جو د ہے ، جو چا ہے رجو ع کر سکتا ہے۔( ۱ )

عقل وحی کی محتا ج ہے

منجملہ ان باتوں کے جو عقل و شرع کے درمیان ملا زمہ کے متعلق مکتب اہل بیت میں تا کید کرتی ہیں وہ صدوق رحمة ﷲ علیہ کی یہ بات ہے ،وہ کہتے ہیں:( عقل وحی کی محتا ج ہے) لیکن حضرت ابرا ہیم خلیل کا استدلال کہ ز ہرہ کی طرف نظر کر کے اس کے بعد چا ند اس کے بعد سورج کی طرف نظر کرکے ان کے ڈوبنے کے وقت کہا :

( یا قوم اِنّی بریٔ ممّا تشرکون ) ( ۲ )

اے میری قوم! میں ان شر کا ء سے جو تم خدا کے لئے قرار دیتے ہو بیزار ہوں۔

یہ کلام اس وجہ سے تھا کہ آپ ملہم نبی اور الہام خدا وندی کے ذریعہ مبعوث پیغمبر تھے، کیو نکہ خدا وند عالم نے خود ہی فر مایا ہے:

( و تلک حُجَّتُنا ئَ اتینا ها اِبرا هیم علیٰ قو مه ) ( ۳ )

یہ ہمارے دلا ئل تھے جن کو ہم نے ابرا ہیم کو ان کی قوم کے مقا بلہ میں عطا کیا ۔

اور تما م لوگ ابرا ہیم کے مانند ( غیبی الہام کے مالک) نہیں ہیں ، اگر ہم تو حید کی شنا خت میں خدا کی نصرت اوراس کی شناسائی کرا نے سے بے نیاز ہو تے اور عقلی شنا خت ہمارے لئے کا فی ہو تی تو خدا وند سبحان پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نہیں فرماتا:

( فا علم ٔانّه لا اِله اِلاَّ ﷲ ) ( ۴ )

پھر جان لو کہ ﷲ کے علا وہ کو ئی معبو د نہیں ہے۔

ابن بابویہ کی مراد یہ ہے کہ عقل بغیر وحی کی نصرت و تا ئید کے جیسا خدا کو پہچا ننا چاہئے نہیں پہچا ن سکتی ، نہ

____________________

(۱)ابن عباس،جوہری '' مقتضب الاثر فی ا لنص علی عدد الائمہ الاثنی عشر''؛ابن طولون الدمشقی، الشذرات الذھبیہ فی ائمہ الاثناء عشریہ''؛المفید، المسائل الجارودےة ،ص ۴۵، ۴۶.طبع ہزار سالہ شیخ مفید کانفرس قم،۱۳ ۱۴ھ ؛''اثبات الھداةبالنصوص والمعجزات''شیخ حر عاملی تحقیق: ابو طالب تجلیل طبع قم، ۱۴۰۱ھ ، ملاحظہ ہو

(۲) سورہ انعام ۷۸.(۳)سورہ انعام ۸۳. (۴)سورہ محمد ۱۹.

۲۱۱

یہ کہ عقلی نتا ئج بے اعتبار ہیں۔( ۱ )

یہی مطلب شیخ مفید کی بات کا بھی ہے کہ فر ماتے ہیں : عقل مقد مات اور نتا ئج میں وحی کی محتا ج ہے۔( ۲ )

لیکن اسی حال میں ،وہ خو د عقل کے استعما ل کو عقائد اسلا می کے سمجھنے میں تقو یت دیتے ہیں اور کہتے ہیں: خدا کے بارے میں گفتگو کر نے کی مما نعت صرف اس لئے ہے کہ خلق سے خدا کی مشا بہت اور ظلم و ستم کی خالق کی طرف نسبت دینے سے لوگ با ز آئیں۔( ۳ )

انھوں نے عقل و نظر کے استعمال کے لئے مخا لفین سے احتجا ج کرنے میں دلیل پیش کی ہے اور ان لوگوں کو فکر (رائے )و نظر کے اعتبا ر سے نا تواں اور ضعیف تصور کرتے ہوئے فر ما تے ہیں :

'' عقل و نظر کے استعما ل سے رو گردانی کی باز گزشت تقلید کی طرف ہے کہ جس پر پوری امت کا اتفاق ہے کہ وہ مذموم اور نا پسند ہے۔''( ۴ )

نقل کا مرتبہ

پہلے ہم ذکر کر چکے ہیں کہ '' عقل '' اہل بیت کے مکتب میں اپنی تمام تر ارزش و اہمیت کے با وجود ''معرفت دینی '' میں نور وحی سے بے نیا ز نہیں ہے اور اس سے کو ئی بھی کلا می اور اسلامی مکتب فکر انکا ر نہیں کرتا، جو کچھ بحث ہے نقل پر اعتماد کے حدود کے سلسلے میں ہے ، کیو نکہ نقل ( یہا ں پر اس سے مراد حدیث ہے چو نکہ قرآن کریم کی نقل متو اتر اور قطعی ہے ) کبھی ہم تک متو اتر صورت میں پہنچتی ہے ، یعنی راویوں اور نا قلین کی کثرت کی وجہ سے ہر طرح کے شکو ک و شبہا ت بر طرف ہو جاتے ہیں، اس طرح سے کہ انسان کو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یا عترت طاہرہ یا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب سے حدیث صا در ہو نے کا اطمینا ن پیدا ہو جاتا ہے، لیکن کبھی حدیث اس حد کو نہیں پہنچتی ہے، بلکہ صرف ظن قوی یا گمان ضعیف حا صل ہو تا ہے اور کبھی اس حد تک پہنچتی ہے کہ اسے خبر واحد کہتے ہیں ، یعنی وہ خبر جو ایک آدمی نے روایت کی ہو اورصرف ایک شخص اس خبرکے معصو م سے صا در ہو نے کا مد ّ عی ہواس حالت میں بھی بہت سارے مقا مات پر شک و جہل کی طرف ما ئل ظن اور گمان پیدا ہوتا ہے۔

مکتب اہل بیت کا اس آخری حالت میں موقف یہ ہے:

____________________

(۱) توحید :ص ۲۹۲.(۲)شیخ مفید ؛ '' اوائل المقالات '' ص ۱۱۔۱۲.(۳)تصحیح الاعتقاد بصواب الانتقاد : ص ۲۶، ۲۷.(۴)تصحیح الاعتقاد بصواب الانتقاد : ص ۲۸، طبع شدہ یا اوائل المقالات ، تبریز ، ۱۳۷۰ ، ھ ، ش

۲۱۲

'' اس طرح کی روایات کے صدق و صحت پر اگر کوئی قرینہ نہ ہو توقا بل اعتماد اور لا ئق استنا د نہیں ہیں۔''

عقائد میں خبر واحد کا بے اعتبار ہو نا

مکتب اہل بیت میں خبر واحد پر بے اعتما دی جب عقید تی مسا ئل تک پہنچتی ہے توجو کچھ ہم نے کہا اس سے بھی زیا دہ شدید ہو جا تی ہے ، کیو نکہ عقائد اپنی اہمیت کے ساتھ ضیعف دلا ئل اور کمزور برا ہین سے ثا بت نہیں ہوتے ہیں ،با لخصوص ہمارے زمانہ میں جب کہ ہمارے اور رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نیز سلف صالح کے زمانے میں کافی فا صلہ ہوگیاہے اور ہم پرفرض ہے کہ کافی کو شش و تلا ش کے ساتھ مشکو ک اور گمان آور باتوں سے اجتناب کرتے ہوئے یقینیا ت یقین کرنے والی باتیں یا جو ان سے نز دیک ہوں ان کی طرف رخ کریں، تاکہ ان فتنوں اور جدلی اختلافات اور جنجالوں میں واقع ہونے سے محفوظ رہیںجودین اور امت کے اتحا د کو بزرگترین خطرہ سے دوچار کرتے ہیں۔

شیخ مفید اس سلسلے میں فرما تے ہیں :

'' ہمارا کہنا یہ ہے کہ حق یہ ہے کہ اخبار آحاد سے آگاہی اور ان پر عمل کرناواجب نہیں ہے اور کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ اپنے دین میں خبر واحد کے ذریعہ قطع و یقین تک پہنچے مگر یہ کہ اس خبر کے ہمرا ہ کو ئی قرینہ ہو جو اس کے راوی کے بیان کی صدا قت پر دلا لت کرے ،یہ مذ ہب تمام شیعہ کا اور بہت سے معتز لہ ، محکمہ کا اور مرجئہ کے ایک گروہ کا ہے کہ جو عامہ کے فقیہ نما افراد اوراصحاب رائے کے خلاف ہے ۔''( ۱ )

جی ہاں! عقید تی مسا ئل میں مکتب اہل بیت کے پیرو محتا ط ہیں کیو نکہ اہل بیت نے اپنے ما ننے وا لوں کو احتیاط کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ لوگوں میں سب سے زیادہ صاحب ورع وہ ہے جو شبہا ت کے وقت اپنا قدم روک لے اور احتیا ط سے کام لے۔

بحث کا خاتمہ

اب ہم اپنی بحث کے خاتمہ پرعقائد اسلامی سے متعلق مکتب اہل بیت علیہم السلام کی روش بیان کرنے اس سے اس نتیجہ پر پہنچے کہ اہل بیت کا نہج اور راستہ جیسا کہ گزشتہ صفحات میں بیان ہو چکا ہے کامل اور اکمل نہج اور راستہ ہے ، جو اپنی جگہ پر شناخت کے تمام وسا ئل سے بہر ہ مند ہے ،مثا ل کے طور پر الہٰیا ت کے مسائل اور باری تعالیٰ کے صفات کو تجر بہ کی راہ سے درک نہیں کرتا ، کیونکہ یہ مسا ئل ایسے وسائل کی دسترس سے

____________________

(۱)اوائل المقالات ، ص ۱۰۰،طبع تبریز ۱۳۷۰ ،ھ ش.

۲۱۳

دور ہیں ، اسی طرح ایک وسیلہ پر جمو د اوراڑے رہنے جیسے با طنی اشرا ق اورصوفی عشق و ذوق کو بھی جا ئز نہیں سمجھتا، جس طرح کہ عقل کے بارے میں بھی زیادہ روی اور غلو سے کام نہیں لیتا اور اسے مستقل اور تمام امور (منجملہ ان کے غیب اورنہاں نیز جزئیات معاد) کا درک کرنے والا نہیں جانتا اور وحی (نقل)کے بارے میں کہتا ہے کہ وحی کا درک کرنا نور عقل سے استفادہ کئے بغیر نا ممکن ہے۔

اہل بیت کا مکتب یہ ہے کہ جو بھی روایت ، سنت اور نقل کی صورت میں ہو-جب تک کہ اس کی نسبت کی صحت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ائمہ اور صحا بہ کی طرف ثا بت نہ ہو نیز جب تک اس کا تمام نصوص اورقرآن کی تصریحات سے مقابلہ نہ کرلے اور اس کے عام و خاص ، ناسخ و منسوخ ، محکم و متشا بہ اور حقیقت و مجا ز کو پہچا ن نہ لے، اس وقت -تک اس کے قبول کرنے میں سبقت نہیں کرتا، مختصر یہ کہ مکتب اہل بیت علیہم السلام اس ''اجتہا د '' پر موقوف ہے جونصوص سے شرعی مقصود کے سمجھنے میں جد و جہد اور قوت صرف کرنے اور اپنی تما م تر تو انائی کا استعمال کر نے کے معنی میں ہے، اس کے با وجود نقد وتحقیق اور علمی منا ظرہ اور منا قشہ سے -جب تک عوا طف وجذبات کو بر انگیختہ نہ کیا جائے، یا دشمنی نہ پیدا ہو- نہ صرف یہ کہ منع نہیں کرتا بلکہ اسے راہ پروردگار کی طرف دعوت ، جدال احسن،حکمت اور مو عظۂ حسنہ سمجھتا ہے ، جیسا کہ خدا وند متعال نے فرمایا ہے:

( و الّذین آمنوا وعملو االصا لحا ت لا نُکلّف نفساً اِلَّاو سعها اولآ ئک أصحاب الجنّة هم فیها خا لدون)( ونزعنا ما فی صدورهم من غلّ تجری من تحتهم الأنهاروقالوا ألحمد للّه الذی هدا نا لهٰذا وما کُنا لنهتدی لو لاأن هدا نا ﷲ لقد جائت رُسل ربّنا بالحقّ و نو دوا أن تلکم الجنّةأورثتمو ها بما کنتم تعملون ) ( ۱ )

اورجو لوگ ایمان لا ئے اور عمل صا لح انجام دیا ہم کسی کو اس کی طاقت سے زیا دہ تکلیف نہیں دیتے، وہ اہل بہشت ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے اور جو ان کے دلوں میں کینہ ہے، اسے ہم نے یکسر ختم کردیا ہے ، ان کے نیچے نہریں جا ری ہیں،وہ کہتے ہیں: خدا کی ستا ئش اور اس کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس راستہ کی ہدایت کی'' ایسا راستہ کہ اگر خدا ہماری ہدا یت نہ کرتا تو ہم راہ گم کر جاتے! یقینا ہمارے ربّ کے رسول حق لائے !( '' ایسے مو قع پر) ان سے کہا جا ئے گا : یہ بہشت ان اعمال کے عوض اور بدلے میں جو تم نے انجام دئے ہیں، تمھیںبطور میرا ث ملی ہے ۔

____________________

(۱)اعراف ۴۲،۴۳

۲۱۴

روایات میں آغا ز خلقت اور مخلوقات کے بعض صفات

۱ ۔مسعو دی کی روایت کے مطابق آغاز خلقت:

مسعودی اپنی سند کے ساتھ حضرت امام علی سے روایت کرتا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابتدائے خلقت کو اپنے مختصر سے خطبہ میں اس طرح بیان فرما یا ہے:

''فسح الٔارض علی ظهر الماء ، وأخرج من الماء دخا نا ً فجعله السما ء ، ثم استجلبهما اِلی الطا عة فا ذعنتابا لا ستجا بة ، ثم أنشأ ﷲ الملا ئکة من انٔوار ابٔدعها و ارواح اختر عها ، و قرن بتو حید ه نبوَّ ة محمد صلی ﷲ علیه وآله و سلم فشهرت فِی السماء قبل بعثته فیِ الٔارض ، فلما خلق ﷲ آ دم أ بان فضله للملا ئکة، و أرا هم ما خصّه به من سا بق العلم من حیث عرَّ فه عند استنبا ئه ِ ا يّا ه أ سماء ا لا شیا ء ، فجعل ﷲ آدم محرا باً وکعبة وبا با ً و قبلة أ سجد الیها الٔا بر ار و الر وحا نیین الأ نوار ثم نبّه آدم علی مستو د عه ، وکشف له عن خطر ما ائتمنه علیه ، بعد ما سما ه اِ ما ما ً عند الملا ئکة'' ( ۱ )

اس( خدا )نے پا نی کی پشت پر ز مین بچھا ئی اور پانی سے بھا پ اور دھوا ں نکا لا اور اسے آسما ن بنایا ، پھر ان دونوں کو اطا عت کی دعوت دی ، ان دونوں نے بھی عا جزانہ جو اب دیا اور لبیک کہی، اس کے بعد اس نور سے جسے خود پیدا کیا تھا اور اس روح سے جسے خود ایجا د کیا تھا فرشتوں کی تخلیق کی ، اپنی تو حید و یکتا پر ستی سے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبو ت کو وابستہ کیا اس وجہ سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زمین پر مبعوث ہو نے سے پہلے آسمان پر مشہور تھے ،جب خدا نے حضرت آدم کو خلق کیا تو ان کی فو قیت و بر تری فر شتو ں پربرملاوآشکا ر کی ،نیز علم و دانش کی وہ خصوصیت جو اس نے پہلے ہی حقیقت اشیا ء کے بارے میں خبر دینے کے واسطے آدم کودے رکھی تھی ، فر شتو ں

____________________

(۱)مروج الذہب ، ج۱ ، ص ۴۳

۲۱۵

کوبتائی،پس خدا نے آدم کو محرا ب، کعبہ ، باب اور قبلہ قرار دیا تا کہ نیک لو گ ، رو حا نی اور نو را نی افراد اس کی طرف سجدہ کو آئیں، پھر انھیں (فر شتو ں کے سا منے اما م پکا رنے کے بعد) ان کے اما نت دار ہو نے سے آگاہ کیا اوراس کے خطرات اور ا س کی لغز شو ں کو ان کے سا منے نما یا ں کیا ۔

۲ ۔نہج البلا غہ کے پہلے خطبہ میں خلقت و آفرینش کا آ غاز:

'' أنشا ٔ الخلق اِنشا ئً ، و ابتدأ ه ابتدا ء ً ، بلا رو يّة أ جا لها ، ولا تجر بة استفا د ها ، و لا حر کة أ حد ثها، ولا هما مة نفس اضطر ب فیها، أ حا ل الا شیا ء لاوقا تها ، و لأ م بین مختلفا تها، و غرَّز غرا ئز ها ، و ألز مها أشبا حها؛ عالما ً بها قبل ابتدا ئها ، محیطاً بحدود ها وأنتها ئها ، عا رفا ً بقر ائنها و أحنا ئها، ثمّ أ نشأ سبحا نه فتق الأجوا ئ، و شق الأرجا ئ، و سکا ئک الهوا ئ، فأجری فیها ما ئً متلا طماً تیاّ ره ، مترا کما ً زخّا ره، حمله علی متن الریح العا صفة، والز عزع القا صفة، فأ مر ها بردّه، وسلّطها علی شدّه و قر نها الی حدّه؛ الهواء من تحتها فتیق، و الما ء من فو قها دفیق ، ثم أنشأ سبحا نه ریحا ً اعتقم مهبّها، وأ دا م مر بّها ، و أعصف مجرا ها ، و أبعد منشاها ، فأ مر ها بتصفیق الماء الزّخّا ر، و اِثا رة موج البحا ر، فمخضته مخض السّقا ئ، و عصفت به عصفها با لفضا ئ، تردُّ أوُّ له اِلی آخره و سا جیه اِلی ما ئره، حتیّ عبّ عبا به، و رمی با لزّبد رکامه، فر فعه فی هو اء منفتق، وجوّ منفهق ، فسوی منه سبع سموات جعل سفلا هنَّ موجا ً مکفو فا ً، وعلیا هنَّ سقفا ً محفو ظا ً، و سمکاً مر فوعا ً، بغیرعمد ید عمها ، ولا دسار ینظمها ، ثم زيّنها بز ینة الکوا کب، وضیا ء الثوا قب، وأ جری فیها سرا جاً مستطیرا ً، وقمرا ً منیرا ً، فی فلک دائر، وسقف سائر، ورقیم ما ئر ''

اس نے بغیر غور و خوض اور سابق تجربہ کے اور ہرطرح کی اثر پذیری، انفعا ل اور دا خلی اضطرا ب سے دور مخلوقات کو پیدا کیا اور مو جو دات کو ان کے ظرف زمان میں ایجا د اور ثا بت کیا ،ان کے تفاوت اور اختلاف کو مناسب پیوند اور ان کی سرشت کو ایک خو شگوار تر کیب بخشی، جبکہ خلقت سے پہلے ہی ان کی کیفیت کو جا نتا تھا اور ان کی ابتداء انتہا ء ، حدود اور ما ہیت اور ان کی حقیقت پر محیط تھا، ہر ایک کی فطرت اور سر شت اس کے ملازم اور ہمرا ہ قرار دی۔

پھر فضا کو وسعت بخشی اور اس کے اطراف و اکناف اور ہواؤں کے طبقات ایجاد کئے پھر اس میں مو ج مارتے، سر کش ،مضطرب اور تہ بہ تہ،تلاطم خیز پا نی کوجاری کیا۔

۲۱۶

اور اس کو تند و تیز اور پر صلابت ہواؤ ں کے دائرہ ٔ اقتدار میں دیااور اس کو حکم دیا تاکہ اس کو گرنے اور ٹوٹنے سے روکے اور محکم طور پر اس کے دائرہ ٔ کار میں اس کی حفاظت کرے ، حالانکہ اس کے نیچے ہوا پھیلی اور کھلی ہوئی تھی اور اس کے اوپر پانی اچھلنے اچھل رہا تھا ۔

پھر اس کے بعد دوسری عقیم ہوا پیدا کی تاکہ ہمیشہ پانی کے ساتھ رہے ، اور اسے مرکز پر روک کر اس کے جھونکو ںکو تیز کردیا اور اس کے میدان کو وسیع تر بنا دیا ،پھر اس کو حکم دیا تاکہ اس آب زخار کو تھپیڑے لگائے اور سمندر کی موجوں کو جنبش اور تحریک میں لائے اور دریا کے ٹھہرے ہوئے پانی کو موج آفرینی پر مجبور کرے، چنانچہ اس ہوا نے پر سکون اور ٹھہرے ہوئے دریا کو مشک آب کے مانند متھ ڈالااور اس زور کی ہوا چلی کہ اس کے تھپیڑوں نے اس کے اول و آخر اور ساکن و متحرک ،سب کو آپس میں ملادیا ، یہاں تک کہ پانی کی ایک سطح بلند ہوگئی اور اس کے اوپر تہ بہ تہ جھاگ پیدا ہو گیا پھر اس کے جھاگ کو کھلی ہوئی ہوا اور وسیع فضا میں بلندی پر لے گیا اور اس سے ساتوں آسمان بنائے ایسے آسمان جن کے نچلے طبقہ کو موج ثابت اور اوپری طبقہ کو بلندو محفوظ چھت اور بے ستون سائبان قرار دیا ، پھر ان کو ستاروں اور نورانی شہابوں سے زینت بخشی اور ضو فگن آفتاب اور روشن ماہتاب کی قندیلیں آسمانِ پُر نقش و نگار،فلک دوار، سائبان سیار اور صفحہ ٔ تاباں و زر نگار میں لگائیں ۔

کلمات کی تشریح

۱ ۔''الرّو يّة'' : تفکر اور غور و خوض۔

۲ ۔''هما مة النفس'' : روح کا متا ثر ہو نا اور اثر قبو ل کرنا۔

۳ ۔''أحال الا شیاء لأوقا تها'' مو جو دات کو ان کے ظرف زمان میں عدم سے عا لم وجود میں لایا۔

۴ ۔''لأم'': اتصال اور ہم آہنگی بخشی یعنی ان کے تفاوت و اختلاف کو تناسب و توافق بخشا ، جس طرح جسم و روح کے پیو ند اور اتصال سے انسان کی تر کیب دل آرا کو وجود بخشا:

''( فتبا رک ﷲ أحسن الخا لقین'' )

۲۱۷

۵ ۔''غرَّ ز الغرا ئز'' : غرا ئز غر یز ہ کی جمع سر شت اور طبعیت کے معنی میں ہے یعنی ہر مو جو د میں ایک خا ص سر شت قرار دی۔

۶ ۔''ألز مها أشبا حها'' : شَبَح،اشیا ء کا وہمی سایہ اور ان کی خیالی تصویر اور یہا ں پر مقصود یہ ہے کہ ہر خو اور طبیعت کے مالک کو جدا نہ ہو نے وا لی سر شت اور طبیعت کے ہمرا ہ قرار دیا ہے، مثال کے طو ر پر ایک بہادر اور دلیر انسان ڈر پوک اور خو فزدہ نہیں ہوسکتا۔

۷ ۔''عا رفا ً بقرا ئنها وأحنا ئها'' :

قرا ئن قرین کی جمع مصا حب اور ہمرا ہ کے معنی میں ہے اور احنا ء حَنْو کی جمع، پہلو اور ہر ٹیڑ ھے پن اور کجی کے معنی میں ہے خواہ وہ جثہ ہو یا غیر جثہ لیکن یہا ں پر پو شیدہ چیزوں سے کنا یہ ہے ، یعنی خدا وند عالم تمام موجودات کے تمام صفا ت اور ان کی طبیعتوں، خصلتوں سے آگا ہ اور باخبرہے۔

۸ ۔'' أنشأ سبحا نہ: فتق الأ جواء و شقُّ الأرجاء وسکا ئک الھوائ.

فتق الا جوائ'' فضا ؤ ںکا شگا ف''شق الارجائ'' گرد و نواح اور اطراف کا کشا دہ کرنا ، ''سکا ئک الھوا''فضا اور ہوا کے اوپری حصے یعنی : خدا وند عالم نے کشا دہ فضا اور اس کے ما فوق ہوا کو تمام عالم ہستی کے اطراف میں خلق کیا اور اسے پھیلا دیا۔

۹ ۔'' متلا طم''، ٹھا ٹھیں مارنے والا، تھپیڑے کھا نے والا ، موج مارنے والا۔

۱۰۔'' تیاّ ر '': مو ج، حرکت اور جنبش ۔

۱۱ ۔ ''مترا کم '': ڈھیر، جمع شدہ( تہہ بہ تہہ)۔

۱۲۔''زخاّر'' لبر یز اور ایک پرایک سوار ۔

۱۳ ۔''الریح العا صفہ'' : تیز و تند اور طو فان خیز ہوا۔

۱۴ ۔'' الزَّ عز عُ القا صفھة'': تیز و تند ہوا ،گرج اور کڑک کے ساتھ ہوا ۔

۱۵ ۔'' دفیق'': جہندہ اور اچھلنے والا۔

۱۶ ۔'' اعتقم مھبّھا'' : اس کے چلنے والے رخ کو عقیم اور با نجھ بنا دیا،یعنی اس ہوا کی خا صیت صرف پانی کو تحریک اور جنبش دینا ہے۔

۲۱۸

۱۷ ۔''اَدام مُر بھا'': ہمیشہ اس کے ہمراہ رہی۔

۱۸ ۔''أمر ھا بتصفیقِ الما ء الز ّ خا ر و اثا ر ة مو ج البحا ر''

اسے حکم دیا تا کہ اس لبر یز اور انبوہ کو تھپیڑے لگائے اور اس پر آپ دریا کو جنبش اور ہیجان میں لائے۔

۱۹ ۔'' مخض السقائ'' : وہ مشک جسے گردش دے کر(متھ کر) اس کے اندر دہی سے مکھن نکا لتے ہیں یعنی یہ ہوا اس پا نی کو اس مشک کے مانند گر دش دیتی ہے جس سے مٹھا اور مکھن نکا لتے ہیں۔

۲۰ ۔ ''عصفت بہ عصفا ً با لفضائ'':

اسے شدت کے ساتھ ادھر اورادھرجھکورے دیتی ہے۔

۲۱ ۔''حتّی عب ّ عبا بُہ و رفی با لز بد رکا مہ''

یہاں تک کے ایک دوسرے پر ڈھیر لگ گیا اور اس کی جنبش اور ڈھیر سے جھاگ پیدا ہوگیا ۔

۲۲ ۔ ''مُنفتق'': کھلا ہوا اور کشا دہ۔

۲۳ ۔'' منفھق'' : وسیع و عر یض

۲۴ ۔''سفلیٰ '': نچلا

۲۵ ۔'' عُلیا'' :اوپری۔

۲۶ ۔''مکفو ف'':رکا ہوا ،ٹھہرا ہوا ۔

۲۷ ۔''سمک '': بلند چھت۔

۲۸ ۔ '' دسا ر'': مسمار، کیل، ریسمان اور بندھن۔

۲۹ ۔ ''ثوا قب'' : ثا قب کی جمع ہے نور افشان یا نو را نی شہا ب۔

۳۰ ۔''فلک '': آسمان۔

۳۱ ۔''رقیم'' : متحر ک لو ح اور صفحہ۔

۲۱۹

قرآن کریم میں '' کَوْن و ہستی ''یا'' عا لم طبیعت ''( ۱ )

کلمۂ'' کون'' اور'' ہستی'' خارجی مو جو دات اور ظوا ہر طبیعت کو بیان کرتا ہے یعنی تمام مخلو قات انسان ، حیوان ، ستارے، سیارے، کہکشا ں اور دیگر مو جودات سب کو شا مل ہے۔

''کون '' اور '' ہستی'''' مک میلا ن''( ۲ ) کے دائرة المعارف کے مطا بق ، ان اجسام کے مجموعہ سے مرکب ہے جو شنا خت کے قا بل ہیں ، جیسے : زمین ، چا ند، سورج ، اجرام منظو مۂ شمشی ، کہکشائیں اور ان کے درمیان کی دیگر اشیاء ، اسی طرح چٹا نوں، معادن ( کا نیں ) مٹی، گیس، حیوا نات ، انسان اور دیگر ثابت اور متحرک اجسام کو بھی شا مل ہے۔

منجمین اور ماہرین فلکیات نے مجبوری اور نا چا ری کی بناپر لفط'' کون'' کوآسمانی فضا اور اجرام کے معنی میں استعمال کیاہے، جبکہ مجموعہ ہستی کی وسعت اور کشادگی اتنی ہے کہ زمین آسمان، چاند سورج اور دیگر سیا رے اس بیکراں، وسیع و عریض مجموعہ کے چھو ٹے چھوٹے نقطے ہیں یہ خورشید اس کہکشا ں کا صرف ایک ستارہ ہے کہ جس میں سو ملین( ایک ارب) کے قریب ستارے پائے جاتے ہیں ! اور یہی ہماری زمین اور وہ دیگر سیارے جو سورج کے ارد گرد چکر لگا تے ہیں اور اس عا لم کے نظم کو وجود میں لا تے ہیں ، ہم انسا نوں کی نگا ہ میں بہت عظیم اور وسیع نظر آتے ہیں۔

ہماری زمین سے سورج کا فا صلہ تقر یبا ً ۹۳ملین میل کا ہے اور یہ انسان کی نظر میں کا فی لمبی اور طولانی

____________________

(۱) اقتباس از مقالہ ٔ '' حافظ محمد سلیم '' ،مجلۂ ثقافتی ، نشریہ ٔ سفارت پاکستان ، دمشق، فروری ۔مارچ ، ۱۹۹۱ ئ.

(۲) MACMILLAN ENCILOPEDIA

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303