اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

اسلام کے عقائد(دوسری جلد )0%

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

اسلام کے عقائد(دوسری جلد )

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

صفحے: 303
مشاہدے: 118037
ڈاؤنلوڈ: 4156


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 118037 / ڈاؤنلوڈ: 4156
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(دوسری جلد )

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد 2

مؤلف:
اردو

مسافت ہے، لیکن اگر اس مسا فت کواس مسا فت سے جو کہ آ فتاب منظو مہ شمشی کے سب سے دور والے سیارہ سے رکھتا ہے، موازنہ کیاجائے تو بہت کم اورمختصر لگے کی بطور مثال ،''پلو ٹون'' سےّارہ کی مسا فت زمین سے تقریبا ً زمین اور خورشید کی مسا فت کے چا لیس گنا ہے یعنی ۳ ارب چھ سو بیس ملین(۰۰۰،۰۰۰،۶۲۰،۳) میل ہے۔

اصل'' کون و ہستی '' سے متعلق بہت سارے نظریات ہیں ، ان میں سب سے جد ید '' بیگ با نگ''( ۱ ) کی تھیوری ہے جو ۱۹۲۰ء میں جارج لا میٹر کے ذریعہ پیش کی گی ہے وہ واضح طور پر کہتا ہے: تمام مواد اور اشعہ ہستی میں ایک عظیم دھماکہ سے ظہور میں آئی ہیں اور طبیعت کی یہ وسیع شکل ا سی کا نتیجہ ہے اور اسی طرح یہ وسیع ترہو تی چلی جا رہی ہے ۔

اس نظریہ کے مطابق مذکورہ دھماکہ تقریبا ً ۱۰ سے ۲۰ ہزار ملین سال قبل و اقع ہوا ہے؛ اور اس بات کی طرف تو جہ کر تے ہو ئے کہ ہائیڈروجن اور ہلیوم کا ابتدائی اور بلند ترین درجہ ٔ حرارت اس طرح کی ناگہانی وسعت اور ہستی کی یکبارگی تشکیل کے لئے ہلیوم گیس سے کافی تھا ، یہ نظریہ پریکٹیکل تجربات سے بخوبی ہماہنگی رکھتا ہے۔

اس سلسلے میں حیرت انگیز اور قابل تو جہ ایک دوسرا انکشاف ہے جو کہ ''ہا بل''( ۲) کے قانو ن کے نام سے ہستی کی وسعت کے بارے میں معروف ہے ، اس تھیو ری کے مطا بق''کون وہستی'' کی وسعت ایک دائمی امر ہے اور یہ گسترش اور وسعت ہستی کی تمام جہا ت میں یکساں ہے ، یہ تھیو ری کہتی ہے :دورکی کہکشاؤں میں موجود ستاروں سے ساطع ہونے والے نو ر کا رنگ سُر خ طیف کی انتہا کی طرف حرکت کرتا ہے، یعنی ان کے طیفی خطوط بلند ترین موجوں کے طول کی طرف مکا ن بدلتے رہتے ہیں اور یہ یعنی کہکشائوں کا ہم سے اور ہماری کہکشائوں سے دور ہونااور عا لم میں کہکشاؤں کے درمیان فا صلوں کا اضا فہ ہونا ہے۔

آخر میں ستارہ شنا س دانشوراور علم نجوم کے ماہرین بہت عظیم کہکشا ؤں کے بارے میں خبر دیتے ہیں جو راہ شیری کہکشاں( ۳ ) کی کئی گناہیں، جن کا فاصلہ ہما ری زمین سے دس ملین نوری سال ہے۔

____________________

(۱) BIGBANG THEORY

(۲)''اڈوین پاول ہابل ''ایک امریکی دانشور ہے کہ جو علم نجوم میں مہارت رکھتا تھا۱۸۸۹ ۔ ۱۹۵۳ء

(۳) milkyway

۲۲۱

ان کہکشاؤں کی شنا خت پہلے مر حلہ میں تمام ہو ئی اور بہت سارے دانشو ر اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ'' کون و ہستی'' بے انتہا وسعت اورپھیلاؤ کی جانب گامزن ہے یا ناچاراندر کی طرف سمٹ رہی ہے۔

کون و ہستی قرآن کریم کی روشنی میں

قرآن کریم جو کہ آخری آسمانی کتا ب ہے،بدرجہ ٔ اکمل وضاحت کے ساتھ عالم ہستی و آفر ینش کے بنیادی و اسا سی حقا ئق سے پردہ اٹھا تی ہے اور اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ: جو کچھ'' کون و ہستی'' میں پا یا جاتا ہے خدا وند خالق و ربّ العا لمین '' کی تخلیق و آفر ینش کی نشانی ہے،خدا وند عالم نے چاند، سورج اور آسمان و زمین نیز ان کے ما بین جو کچھ ہے سب کو متنا سب اندا زہ میں خلق کیا ہے۔قرآن کریم اس سلسلے میں فر ما تا ہے:

( بدیع السموات والأرض واِذا قضیٰ أمرا ً فا نّما یقو ل له کن فیکون ) ( ۱ )

زمین اور آسمانوں کو وجود دینے والا وہ ہے اور جب بھی کسی چیز کے ہو نے کا حکم صا در کرتاہے، تو صرف کہتا ہے : ہو جا ، تو وہ چیز فو را ً وجود میں آجا تی ہے ۔

لفظ '' بدیع'' آیت میں اس بات پر دلیل ہے کہ خدا وند عالم اشیا ء کو عدم سے وجود میں لایا ہے ،را غب اصفہانی '' مفردات '' نامی کتا ب میں فرماتے ہیں : کلمۂ'' بدع'' اس معنی میں ہے کہ کو ئی چیز بغیر ''ما دہ''اور نمونہ ''آئیڈیل '' کے وجود میں لائی جائے ، یہ لفظ جب بھی خدا کے بارے میں اور اس کے اسمائے حسنی اور صفات کی ردیف میں ذکر ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا نے اشیا ء کوعدم سے خلق فرمایا ہے،'' قرآن کریم دوسری جگہ فرماتا ہے:

( وهوالذی خلق السّموات والأرض با لحقّ و یو م یقول کن فیکون ) ( ۲ )

وہ جس نے آسمانوں اور زمینوں کو حق کے ساتھ خلق فرمایا ہے اور جس دن کسی بھی چیز سے کہتا ہے : ہو جا ! تو وہ فورا ً مو جود ہو جا تی ہے ۔راغب فرماتے ہیں: کلمۂ'' حق '' کا استعمال کر نا بے مثا ل اور جدید چیز کی طرف اشارہ ہے ، کہ جب بھی خالق کی صفت سے مر بوط ہو ، تو اس سے مراد کسی نٔی چیز کو عدم سے وجود میں لانا ہے، یعنی خدا وہ ہے جو آسمانوں اور زمینوں کو عدم سے وجود میں لایا ۔

____________________

(۱)بقرہ ۱۱۷۔(۲)انعام ۷۳

۲۲۲

دو سری جگہ پر عالم خلقت کے مادی اور طبیعی مظاہر کے بارے میں ا رشاد فرماتا ہے:

( هو الذی جعل الشمش ضيٰا ئً والقمر نوراً وقدَّ رهُ منٰا زل لتعلموا عدد السِّنین والحسا ب مٰا خلق ﷲ ذٰ لک الاّ با لحق يُفصِّل الا یات لقوم ٍ یعلمون ) ( ۱ )

خداوہ ہے جس نے سورج کوضیا باراور چاند کو نور بنا یا ہے اور اس (چا ند)کے لئے منزلیںمقررکیں تاکہ سال کا شمار اورکاموں کا حسا ب جان سکو، خدا وند عالم نے انھیں صرف حق کے ساتھ خلق کیا ، وہ (اپنی) آیات کی ان لوگو ں کے لئے جو سمجھتے ہیں تشریح کرتا ہے۔

قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ خدا وند عالم عظمت تخلیق کی طرف اشارہ کر تے ہوئے فر ماتا ہے۔

( أولم یروا أنَّ ﷲ الذی خلق السَّموا ت والأ رض و لم یعی بخلقهنَّ بقا در ٍ علیٰ أن يُحیی المو تیٰ بلیٰ انَّه علیٰ کلّ شی ء ٍ قدیر ) ( ۲ )

کیا وہ نہیں جانتے جس خدا نے آسمانوںاور زمینوں کو خلق فرمایا اور ان کی تخلیق سے عا جز وناتواں نہیں ہے تھا وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ وہی مردوں کو زندہ کر دے ہے؟ ہاں وہ ہر چیز پر قادر وتوانا ہے۔

گز شتہ آیات واضح طور پر بیان کر تی ہیں: صرف خدا وند عزوجل ہے جس نے اس عا لم محسو س کوبالکل صحیح اندازے کے مطابق موزوں اور منا سب طور پر خلق فرمایا ہے اور دوبارہ ان تمام موجو د کی تخلیق اوران کے لوٹانے پر قادر ہے، مادہ کی ہے تخلیق اور عالم ہستی کے تمام قوا نین اور ان کو حرکت میں لانے والی قوتوں میں اصل اصیل خدا وند عالم کا امر اورفرمان ہے ۔

تخلیق کی کیفیت

قرآن کریم نے '' ہستی '' کی تخلیق کی کیفیت کو متعددبار بیان کیا ہے؛ درج ذیل آیات تخلیق کے بنیا دی اصول و طرز کا خلا صہ ہما رے سا منے اس طرح پیش کرتی ہیں:

الف۔( أولم یر الّذین کفر وا أنَّ السموات والأرض کا نتارتقا ً ففتقنٰهُما و جعلنا من الماء کلّ شی ئٍ حیٍّ ) ( ۳ )

____________________

(۱)یونس ۵(۲)احقاف ۳۳.(۳)انبیاء ۳۰

۲۲۳

آیا جو لوگ کافر ہو گئے ہیں کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین ،متصل اورپیو ستہ تھے تو ہم نے انھیں جدا کیا اور وسیع بنایا اور ہر چیز کو پا نی سے حیا ت بخشی؟

دوسری آیت میں زمین کی خلقت کے بعد آسمان کے شکل اختیا ر کرنے کے طریقے اور متقا بل تا ثیر اور امر خلقت کے پے در پے ہو نے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرما تا ہے ۔

ب۔( ثُمَّ استو یٰ الی السما ء وهی دُخان فقا ل لها وللأ رض ائتیا طوعا ً او کر ها ً قا لتا أتینا طا ئعین ) ( ۱ )

پھر آسمان کی طرف متو جہ ہوا جبکہ ابھی وہ دھواں تھا ، پھر اس سے اور زمین سے کہا : اپنی خواہش اور مرضی سے یا جبر وا کراہ کے ساتھ آگے آؤ! دونوں نے کہا : ہم اطاعت گزار بن کر حاضر ہیں۔

پہلی آیت نے درج ذیل حقائق سے پر دہ ہٹا یا ہے:

۱ ۔جو مادہ'' ہستی'' کی پیدا ئش میں مو ثر ہے اس کی ایک ہی ما ہیت اور حقیقت ہے۔

۲ ۔تمام '' ہستی'' ایک ٹکڑے کے مانندباہم پیو ستہ اور جڑی ہوئی ہے۔

۳ ۔ اجزا ء ہستی کی وسعت او ر اس میں تفکیک طبیعی قوا نین اور مادہ کے تحول و تبدل کی روش پر مبتنی اور منظم ہے، یہ نظام صرف منظو مہ شمشی اور ہماری کہکشاں میں جو سیا رے انہیں سے وابستہ ہیں اس میں خلاصہ نہیں ہوتاہے، بلکہ خود کہکشا ئیں بھی،ایک برتر اور وسیع تر نظا م کا جز ہیں جو کہ ایک دوسری شکلمیں ،(منظومہ شمسی کے مانند) اپنے مر کزی محور پر گر دش کر رہی ہیں۔

ڈاکٹر''موریس بو کیل'' نے آخری زمانے میں ایک نظر یہ کی بنا رکھی جو ''ہستی ''کی شکل اختیا ر کر نے کے سلسلہ میں قرآن کی آیات کی روشنی میں بعض مسلمان علماء کے نظریہ کے مطابق ہے وہ '' کل کو قابل شمارش اجزاء میں تفکیک اور تبدیل کرنے کی فکر کے سلسلہ میں '' کہتا ہے :جدا ئی اور تفکیک ہمیشہ ایک مرکزی نقطہ سے ہوتی ہے جس کے عنا صر ابتدا ء میں ایک دوسرے سے متصل اور جڑے ہوئے ہوتے ہیں '' یعنی وہی کہ جس کو آیہ شر یفہ میں کلمہ '' رتق'' یعنی متصل اور پیو ستہ سے اور '' فتق''یعنی کھلا اور جدا سے تعبیر کیا گیاہے ۔

موجودہ علمی نظریہ کے مقا بل جو کچھ '' انفجا ر ہستی''( ۲ ) کے عنوا ن سے معروف ہوا ہے، وہ ایک زمانے میں ایک اتفاقی حا دثہ کا نتیجہ ہے جو انتہائی درجہء حرارت کی وجہ سے استثنائی صورت میں پیش آیا تھا اور فرض یہ

____________________

(۱)فصلت ۱۱(۲) bigbang

۲۲۴

ہے کہ اس انفجا ر(دھماکہ) کے وقت تمام ہستی ایک نقطہ پر ایک جز کی حیثیت سے تھی اور یہ جدائی اس میں ظاہر ہو ئی ہے سوائے اس کے کہ یہ مادی قوانین اس انفجا ر کا نتیجہ نہیں ہیں ،یہ نظریہ معلومات کے لحا ظ سے ان معلو مات کے مشا بہ ہے جس کا قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے۔

جوبات حیرت میں اضا فہ کاباعث ہے یہ ہے کہ قرآن کریم نے ۱۴۰۰ سو سال سے زیا دہ پہلے اس راز سے پر دہ اٹھا یا ہے، جب کہ اس وقت کوئی علمی بحث اس طرح کی مو جود نہیں تھی ! ٹھیک اسی طرح سے قرآن کریم نے ''ہا بل '' کے نظریہ میں جو کہ ہستی کی وسعت کے بارے میں حقائق بیان ہوئے ہیں ان اس سے بھی پردہ اٹھا یا ہے اور سورہ '' ذاریات ''کی آیہ(۴۷) میں ارشاد ہو تا ہے :

( والسّما ء بنینا ها بأیدٍ وانا لمو سعو ن )

ہم نے آسمان کی قدرت کے ساتھ بنیادرکھی اورہم ہمیشہ اسے وسعت بخشتے ہیں۔

جب ہم جدید نظریے کے مطا بق ہستی کی وسعت اوراس کے طول و عرض کو سمجھنا چاہتے ہیں تو اس نتیجہ تک پہنچتے ہیں کہ خو رشید میں مو جو د ''ہائیڈرو جن'' ہمیشہ ایٹمی اور نیوکلیائی پگھلاؤ نے سے ہلیوم کے عنصر میں تبدیل ہو تا رہتا اور نورا نی غبار( ۱ ) یعنی جو بہت چھوٹے چھوٹے ستا روں کے تودیغبار کے ذرات کے مانند نظر آتے ہیں ،وہ حرارت آمیز ایٹمی اور نیو کلیائی شعلوں کے علاوہ کو ئی دوسری شۓ نہیں ہیں۔

اس طرح تمام ہستی بارور قدرت اور توانا ئی سے مرکب اور اسی پر مبنی ہے اور یہ صورت حال ہمیشہ تو سعہ اوروسعت کی حالت میں ہے، یہ نتیجہ اس فر ض کی بنیاد پر ہے کہ '' سرخ انتقا ل یا تحول''( ۲ ) پیمانہ سرعت کے امکان کے ساتھ نور پراجسام کی متقابل تا ثیر کا نتیجہ ہے ۔

ہم اس سلسلے میں ، یعنی ہستی کی وسعت کے بارے میں جب قر آن کریم کی طرف مر ا جعہ کرتے ہیں تو اس کے لئے سب سے اہم کلمہ لفظ عالمین ہم کو نظر آتا ہے کہ جس کی دسیوں بار قرآن کریم میں تکرار ہو ئی ہے ،جیسے:

۱۔( و لکن ﷲ ذو فضل ٍ علی العا لمین ) '

لیکن خدا وند عا لم '' عا لمین'' کی نسبت لطف و احسا ن رکھتا ہے۔( ۳ )

۲ ۔( قل أنَّ صلا تی و نسکی و محیا ی و مما تی للّٰه ربّ العا لمین ) ( ۴ )

کہو!ہما ری نما ز ، عبادت ،زندگی اور موت سب کچھ عا لمین کے ربّ کے لئے ہے۔

____________________

(۱) stardust (۲) redshift (۳)بقرہ۲۵۱ (۴)انعام۱۶۳

۲۲۵

۳ ۔( ألا له الخلق والأمر تبا رک ﷲ ربّ العا لمین ) ( ۱ )

آگا ہ ہو جاؤ ! تخلیق و تد بیر اس کی طرف سے ہے ، عا لمین کا پروردگار بلند مرتبہ خدا ہے۔

۴ ۔( و ما أرسلنا ک اِلاّ رحمة ً للعا لمین ) ( ۲ )

تمھیں عا لمین کے لئے صرف رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

۵ ۔( اِنّی اِنّا ﷲ ربُّ العا لمین ) میں ہوں''عا لمین '' کا پروردگا ر خدا۔

جن آیات کو ہم نے پیش کیا ہے وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ عا لم کا سید نظم بر قرار رکھنے والا، حا فظ، خالق اور پروردگار اپنے وسیع معنی میں خدا وند سبحا ن ہے اور کلمۂ ''عا لمین'' ہستی یا عا لم کے متعددہونے کے معنی میں آیا ہے۔

ان عوالم میں کروڑوں کہکشا ئیں پائی جا تی ہیں اور ایک کہکشاں کے ان گنت اور بے شمار منظوموں میں سے ہر ایک منظومہ میں ایسے کروڑوںثابت اورسیار ستار ے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے ارتباط اور اتصال رکھتے ہیں اور اگر کسی راہ شیری کہکشاں کے اربوں ستاروں میں سے کوئی ایک ستارہ کسی ایک سیاّرے سے پیو ستہ مثلاً ہماری زمین سے اور مر بوط ہو، تو اس کے معنی یہ ہو ں گے کہ کروڑوں سیاروں کے زمین سے متصل ہو نے کا امکان ہے اور '' ہستی شنا سی'' کے جد ید علم کے مطا بق دیگر سیارات سے ناگہا نی ارتباط اور اتصال ند آنے والے زمانے میں بعید نہیں ہے۔

ڈاکٹر'' موریس بو کیل'' نے ہستی کی وسعت اور ضخا مت کے بارے میں جد ید علمی معلو مات فر اہم کی ہیں،جیسے خو رشید کی شعاع اور نور کے پلوٹون تک پہنچنے کے لئے، جو کہ منظو مہ شمسی کا ایک سیاّ رہ ہے، نور کی رفتار سے( جس کی سرعت ہر سکینڈ میں تین لاکھ کیلو میٹر ہے) تقر یبا چھ گھنٹہ کاوقت در کار ہے۔

اس لحاظ سے ، آسمانو ں کے دور دراز ستاروں کے نور کوہم تک پہنچنے کے لئے لاکھوں سال در کار ہوتے ہیں ۔

عالم طبیعت کی یہ مختصراور بطور خلا صہ تحقیق کسی حد تک اس آ یۂ شر یفہ کے سمجھنے میں معا ون ثا بت ہو تی ہے:

( والسّما ء بنیناها بأید و اِنّا لموسعو ن ) ( ۳ )

آسما ن کو ہم نے قدرت سے بنا یا اور مسلسل ہم اسے وسعت عطا کرتے رہتے ہیں۔

اور جب بات طبعیت اور ہستی کی تاریخ کی ابتداء میں '' خاکستر اور دھوئیں'' کے متعلق ہو تو قرآن کریم

____________________

(۱)اعراف ۵۴(۲)انبیائ۱۰۷ (۳)ذاریات۴۷

۲۲۶

اس راز سے بھی پر دہ اٹھا تے ہوئے فرماتا ہے:

( ثُمَّ استو یٰ اِلیٰ السّما ء و هی دُخان ) ( ۱ )

پھر وہ آسمان کی تخلیق میں مشغو ل ہو گیا جب کہ وہ دھوئیں تھا۔

طبیعت و ہستی کے آغاز پیدا ئش میں '' دھوئیں'' کا و جود اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس وقت ہستی میں پایاجانے والا مادہ گیس کی صورت میں تھا ، جد ید دانش میں محققین '' سد یمی ابر''( ۲ ) کی تھیو ری پیش کرتے ہیںاور کہتے ہیں : اپنے پہلے مر حلہ میں طبیعت و ہستی اسی طرح تھی۔

قرآ ن کریم فر ماتا ہے:

( قل أئنکم لتکفرون با لذ ی خلق الأرض فی یو مین و تجعلون له اندادا ً ذلک ر بُّ العا لمین)( وجعل فیها روا سی من فو قها...ثُمَّ استو یٰ اِلیٰ السّما ء و هی دُخا ن ) ( ۳ )

کہو! کیا تم لوگ اس ذا ت کا ا نکا ر کرتے ہو جس نے زمین کو دو دن مین خلق کیا ہے اور اس کے لئے شریک قرار دیتے ہو ؟ وہ تمام عالمین کا ربّ ہے !اُ س نے زمین میں استوار اور محکم پہا ڑوں کو قرار دیا پھر آسما نوں کی تخلیق شروع کی جب کہ وہ دھوئیں کی شکل میں تھا۔

جب ہم ان آیات کی تلا وت کرتے ہیں تو درک کرتے ہیں کہ '' طبیعت و ہستی ''کا شکل اختیار کرنا اولین''سدیمی'' بادلوں کا تہ بہ تہ ڈھیرہونا پھران کی ایک دوسرے سے جدا ئی کا نتیجہ ہے ، یہ وہ چیز ہے کہ قرآن کریم وضا حت کے ساتھ جس کے راز سے پردہ اٹھا تا ہے پھر ان کاموں کی طرف اشارہ کرتے کرتے ہوئے کہ جن سے آسمانی '' دھوئیں اور دخان '' میں اتصال و انفصال پیدا ہوتا ہے، خلقت کا راز ہم پر کھو لتا ہے، یہ وہی چیز ہے جس کو جد ید علم اصل '' طبیعت و ہستی '' کے بارے میں بسط و تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے۔

____________________

(۱)فصلت۱۱ (۲) nebula (۳)فصلت ۹ تا۱۱

۲۲۷

فہرستیں

جلد اول و دوم

ترتیب و پیشکش: سردارنیا

اسماء کی فہرست

جلد اول ودوم

حضرت آدم ـ : جلد اول :۱۷،۱۹،۵۶،۵۸،۶۸،۱۰۱،۱۰۲،۱۰۳،۱۰۹،۱۱۱،۱۱۲،۱۱۵،۱۱۶،۱۱۷،۱۲۰،

۱۲۱،۱۲۳،۱۲۴،۱۲۵،۱۲۶،۱۲۷،۱۲۸،۱۲۹،۱۳۳،۱۳۴،۱۳۵،۱۳۶،۱۳۷،۱۳۸،۱۴۷،۱۶۰،۱۶۱،۱۶۳،۱۶۴،۱۶۵،۱۷۳،۱۷۶،۱۸۲،۱۸۸،۱۹۰،۱۹۱،۱۹۲،۲۰۰،۲۱۹،۲۲۰،۲۲۱،۲۲۲،۲۲۵،۲۳۹،۲۴۴،

۲۶۹،۲۷۲،۲۷۳،۲۸۰۔

جلددوم:۱۵،۱۷،۱۸،۱۶۹،۱۸۶،۲۴۱،۲۸۰۔

آسیہ :۲۳۔ج۱.

آصف محسنی : ۲۲۶

آل ابرا ہیم : ۲۸۰۔ ج۱.

آل عمرا ن : جلداول:۲۸۰۔جلددوم: ۳۷۔

آل فرعون : جلددوم : ۳۰۔۶۷۔

آل موسیٰ : جلددوم۴۸۔

آ ل ہا رون : جلددوم:۴۸۔

آمری : جلددوم:۲۱۷۔

ابراہیم :۲۵،۲۶،۲۸،۸۰،۱۴۷،۱۴۸،۱۵۶،۱۶۶،۱۷۲،۱۷۳،۱۸۲،۱۸۶،۲۰۳،۲۱۸،۲۲۵،۲۲۸،

۲۳۷،۲۳۸،۲۳۹،۲۴۴،۲۶۹،۲۷۶،۲۷۷،۲۸۰،۲۹۳۔

۲۲۸

جلددوم:۱۳،۱۷ تا ۲۷،۳۴،۳۵،۳۷،۴۳،۶۱،۶۲،۱۵۲۔

ابلیس: ۸۹،۱۰۲،۱۰۳،۱۰۷،۱۰۹،۱۱۱،۱۱۲،۱۱۵،۱۱۶،۱۱۸،۱۲۳،۱۲۴،۱۲۶،۱۲۷،۱۳۲،۱۳۷،۱۵۰،

۱۶۰،۱۶۱،۱۶۴،۱۶۳،۲۰۶،۲۲۱،۲۳۵،۲۳۷،۲۴۰۔

جلددوم:۱۹،۵۳،۹۹،۱۲۰،۱۴۰،۱۵۵۔

ابن ابی الحدید : ۱۳۲.

ابن ابی العو جا ء : ۲۵۴،۲۵۵۔

ابن اثیر :۲۲۰۔

ابن با بویہ :جلددوم:۲۳۴،۲۳۷۔

ابن بطہ : جلددوم: ۲۱۶.

ابن تیمیہ : جلددوم: ۲۱۸۔۲۱۹۔

ابن حجر :۲۵۵

ابن حزم : جلددوم:۱۹۳،۱۹۴،۲۱۵۔

ابن حبان:۲۵۵.

ابن خزیمہ : جلددوم:۲۱۶.

ابن خلکان : ۲۵۳.

ابن رشد :جلددوم:۲۱۸۔ ۲۱۹۔

ابن زیاد : جلددوم:۲۰۸۔

ابن سعد :۱۲۹۔۱۸۸۔ ۲۲۰۔ ۲۵۳۔۴ ۲۵۔

جلددوم :۱۸۵۔

ابن سینا : جلددوم:۲۱۸۔

ابن طفیل : جلددوم:۲۱۸۔

۲۲۹

ابن طولو ن : جلددوم:۲۳۷.

ابن عبا س : ۱۷۔۱۸۸۔۲۰۹۔۲۱۹۔ جلددوم:۱۵۲۔ ۱۸۲۔۱۸۳۔ ۲۰۱۔

ابن عبا س جو ھری :جلددوم:۲۳۷۔

ابن عساکر : جلددوم:۱۳۲۔ ۲۰۱۔

ابن قدامہ: جلددوم: ۲۱۶۔

ابن کثیر : ۱۸۸۔ ۲۲۰۔۲۸۴۔ جلددوم:۵۷۔۱۱۴۔۱۵۲۔۱۸۱۔۱۸۲۔ ۲۲۲۔

ابن کلبی : جلددوم:۱۹۔

ابن ما جہ :جلددوم:۱۸۵۔۲۱۸۔

ابن منظور : ۳۸۔

ابن ہشا م : ۲۸۵۔ جلد دوم :۲۵۱۔

ابو الحسن اشعری:جلددوم:۲۱۵۔۲۱۹۔

ابو بکر ( خلیفہ )۲۷۹۔

ابو حا تم : ۲۵۵۔

ابو حنیفہ : ۲۶۲۔

ابو داؤد : ۱۲۹۔

ابو طا لب تجلیل : جلددوم:۲۳۷۔

ابو عبیدہ :۲۷۹۔

ابوملک بن یر بو شت :۲۵۸۔

ابو منصور ما تر یدی سمر قندی؛ جلددوم: ۲۲۲۔

ابو ہا شم جبا ئی: جلددوم: ۲۳۰۔

ابو ہذیل علا ف :جلددوم:۲۲۰۔

ابو ہریرہ :۲۵۴

۲۳۰

ابو الھیثم : ۳۸۔

ابو وائل : جلددوم:۱۸۱ ۔

احمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : ۱۴ ۔

احمد آرام :جلددوم:۲۲۵۔

احمد امین : جلددوم: ۲۱۵۔

احمد ابن حنبل : ۱۴۸. جلددوم:۱۰۲۔۱۱۳۔۱۸۲،۱۸۵۔۲۱۴۔۲۱۵۔۲۱۶۔

سرسیداحمد خان ہندی : جلددوم: ۲۲۴،۲۲۵۔

احمد محمو د صبحی : جلددوم: ۲۱۳،۲۱۷،۲۱۸،۲۲۲،۲۲۴۔

اخطل شاعر : جلددوم:۱۳۲ ۔

خنوخ :۲۱۹،۲۲۰۔

ادریس :۲۱۹۔۲۲۰۔۲۲۱۔۲۲۵جلددوم:۱۶۹۔

اڈو ین پا ول ھا بل : جلددوم:۲۴۷۔

ارسطا طا لیس : جلددوم:۲۱۸۔

ارسطو : جلددوم:۲۱۸۔۲۲۴۔

اسا مہ بن زید : ۲۶۶۔۲۶۷ ۔

اسبا ط : ۱۴۷۔جلددوم:۱۵۴ ۔

اسحق :۱۴۷۔۱۴۸۔جلددوم:۲۲۔۲۷۔۵۳۔

اسرا ئیل :۱۳۔۱۴۔ ۵۱۔۱۸۷۔۱۸۹۔۱۹۴۔۲۰۰۔۲۲۳۔۲۲۴۔۲۴۹۔۲۵۱۔۲۵۲۔۲۵۷۔۲۶۰۔

۲۶۱۔۲۶۳۔۲۹۰۔۲۹۲۳۔

جلددوم:۱۳،۱۵،۳۱،۳۴،۳۷،۳۸،۴۰،۴۲،۴۳،۴۵،۴۷،۴۸،۴۹،۵۲،۵۳،۵۶،۵۸،۶۱،۶۲،

۶۶،۶۷،۷۱،۱۰۳۔

۲۳۱

اسرا فیل :۹۰۔

اسماعیل :۱۶،۱۴۷،۱۴۸،۱۹۹،۲۵۲۔ جلددوم:۲۱۔۲۲۔ ۲۴،۲۵،۲۷،۳۴،۳۵،۴۴۔

اصحا ب ۔ صحا بی :۹،۱۰،۱۰۳،۱۲۰۔ جلددوم:۴۰،۶۰،۸۷،۱۱۷،۱۱۹،۱۸۱،۲۰۸۔

العازار کا ہن :۲۲۳۔

الفر دبل : جلددوم:۲۲۲۔

اقبال لاھوری :جلددوم:۲۲۵۔

الیاس :۲۲۵۔

امام ابو الحسن :جلددوم:۱۰۱۔

امام الحر مین :جلددوم:۲۱۷ ۔

ائمہ اہل بیت : ۱۲،۲۲۷،۲۷۷۔ جلددوم :۱۴،۱۸۶،۱۸۸،۱۹۵،۲۰۱،۲۰۳۔

امام جعفر صادق :۱۰۹،۱۱۰،۱۳۶،۲۷۳،۲۸۴۔ جلددوم:۱۹،۸۸،۹۶،۱۰۰،۱۰۱،۱۰۲،۱۰۶،۱۰۹،

۱۱۴،۱۲۹،۱۵۳،۱۸۵،۲۰۳،۲۰۵،۲۳۵۔

امام حسن مجتبی : جلددوم۲۰۱ ۔

امام حسین : ۵۶۔جلددوم:۲۰۸،۲۰۹۔

امام زین العا بدین : جلددوم۱۰۶۔

امام علی بن ابی طا لب :۶۹،۱۳۰،۱۳۲،۱۳۳،۱۳۵۔جلددوم:۶۱،۱۰۰،۱۰۳،۱۱۴۔

امام علی ابن موسی ٰ الر ضا :۱۳۷،۲۳۰،۲۷۹۔. جلددوم۱۸۷۱۱۳،۲۰۳۔

امام کا ظم :جلددوم :۱۱۳۔

امام محمد باقر ـ :۱۰۸،۱۳۶۔ جلددوم:۱۰۱،۱۰۷،۱۸۸۔

امام امیر المو منین علی :۲۴۵۔ جلددوم: ۷۶،۱۱۳،۱۰۲،۲۲۷۔

انس ابن مالک :۲۵۲۔ ۲۵۵ ۔۲۶۱۔۲۶۲۔ ۲۸۴.

۲۳۲

ا نصار :جلددوم:۲۹۔ ۶۹۔۷۰۔

انوش :۲۱۹ ۔

اوریا : ۲۵۰۔۲۵۲۔ ۲۵۶۔۲۵۷۔۲۵۸۔۲۵۹۔۲۶۲۔۲۸۰۔۲۸۲۔۲۸۳.

اہل بیت :۲۵۶. جلددوم:۲۔۵۔۶۔۷۔۸۔۱۴۔۱۱۵۔۲۱۹۔۲۲۵۔۲۲۶۔۲۲۷۔ ۲۳۰۔۳۲۱۔۲۳۲۔

۲۳۳۔ ۲۳۴۔ ۲۳۵۔۲۳۶۔۲۳۷۔۲۳۹۔۲۴۰۔

اے۔ کر یسی مر سیون :۳۴۔

ایوب : ۱۴۸۔ ۲۲۵۔۲۳۸.

(ب)

بحرا نی :۱۲ ۔

بخاری : ۲۲۔ ۲۱۰۔

بشربن مروان : جلد دوم :۱۳۲۔

بطلیمو س : ۹۱۔

بلقیس :۱۱۱ ۔۲۲۹۔

یوارد :۲۲۰۔

بیگ با نگ : جلددوم : ۲۴۷۔

بیہقی : جلد دوم : ۲۱۹۔

(پ)

پطرس :۲۲۴ ۔

پیغمبرصلی ﷲ علیہ و الہ وسلم :۵۲۔۱۲۵۔۱۲۶۔۲۶۵۔۲۷۷۔۲۷۹۔۲۸۴۔

جلددوم:۱۴۔۱۶۔۲۲۔۲۳۔۲۴۔۲۶۔۲۷۔۲۸۔۳۰۔۴۱۔۵۵۔۸۰۔۹۰۔۹۲۔۱۰۷۔۱۲۶۔۱۲۹۔

۱۳۳۔ ۱۳۴۔۱۳۶۔ ۱۴۲۔۱۵۶۔۱۶۲۔۱۷۴۔۱۸۵۔۱۹۶۔۲۰۳۔۲۰۹۔۲۱۰۔۲۱۱۔۲۱۵۔۲۱۷۔ ۲۱۸ ۔

۲۳۳

(ت)

تا بعین :۲۶۱ ۔ جلددوم :۱۸۱ ۔

تر مذ ی :۱۲۹۔ جلددوم :۱۱۴۔۵ ۱۸۔

تمیم داری :۲۶۱ ۔

(ث)

ثقفی : ۱۳۴۔

(ج)

جا حظ؛ جلد: دوم :۲۲۰ ۔

جبا ئیا ن :جلد دوم: ۲۲۰۔

جبرا ئیل : ۶۴۔۶۶۔۶۷۔۳ ۱۳۔۱۳۴۔۱۳۶۔۱۳۷۔۱۵۶۔۲۵۲۔ جلد دوم :۱۷۔۹۰۔

جعفر سبحانی جلد:دوم :۲۲۲۔

جمال الدین اسد آبادی جلد :دوم :۲۲۵۔

ڈاکٹرجواد علی :۲۵۳۔

جورج لا میتر : جلد دوم :۲۴۷۔

جوہری : جلددوم : ۱۵۶۔

جو ینی : جلددوم :۲۱۸۔

۲۳۴

(ح)

حا رث محا سبی : جلددوم :۲۲۷۔

حا فظ محمد سیلم : جلددوم :۲۴۶۔

حام : ۲۲۱۔

حجا ج ابن یو سف :۳ ۲۵۔

حر عا ملی : جلددوم :۲۳۷ ۔

حسن بصری : ۲۵۱۔۲۵۳۔۲۵۴۔۲۵۵۔۲۶۰۔ ۲۶۱۔۲۶۲۔۲۶۳۔

حمیری :۲۵۳۔

حوا : ۱۲۳۔۱۲۵۔ ۱۲۷۔۱۲۹۔ ۱۳۶۔ ۱۳۷۔ ۱۳۸۔۱۹۲۔ ۱۹۳۔۲۱۹۔جلد دوم :۱۸۔

حواری ؛حواریوں ؛ حواریین: ۱۸۸۔۲۲۴۔۲۲۵۔

(خ)

خاتم الانبیائ؛خاتم المرسلین؛خاتم النبیین:۱۳۔۲۶۔۲۸۔۳۰۔۷۰۔۸۸۔۹۰۔۹۱۔۹۸۔ ۹۹۔ ۱۱۲۔۱۲۶۔

۱۵۳۔۱۵۶۔۱۷۴۔۱۸۲۔۲۰۸۔۲۱۶۔۲۳۵۔۲۴۷۔ جلد دوم :۱۳۔۱۵ ۔۲۵ ۔۲۶۔۲۹۔ ۳۸۔۴۰۔ ۴۱۔ ۴۴۔۴۵۔۵۹۔۶۰۔۶۲۔۶۳۔۶۵۔۶۶۔ ۶۸۔۷۰۔۸۳۔۱۱۲۔۱۴۰۔

خازن : ۲۶۳۔۲۸۳۔

خدیجہ ام المومنین علیہا السلام : ۲۶۶۔

حضرت خضر ـ: ۲۶۳۔

خنوخ : ۲۱۹۔۲۲۰۔

۲۳۵

(د)

دارمی : جلد دوم :۲۔۸۹۔

داود :۱۰۸۔۱۴۷۔۹ ۱۸۔۲۳۵۔۲۳۸۔ ۲۴۷۔۲۴۸۔۲۴۹۔۲۵۰۔۲۵۱۔۲۵۲۔۲۷۶۔ ۲۸۰۔ ۲۸۲۔ ۲۸۹۔ جلددوم :۵۸۔۶ ۱۸۔۱۸۸ ۔۱۹۹۔

ڈیکارٹ: جلد دوم :۲۱۸۔

(ذ)

ذوالکفل : ۲۲۵۔ ۲۳۸۔

ذوالنو ن : ۲۸۰ ۔۲۸۱۔

(ر)

راغب اصفہا نی : ۱۴۳۔۱۴۴۔۱۵۷۔۲۷۸ ۔ جلد دوم :۴۷۔۲۲۷۔۲۴۸۔

ربیعة بن الحرث بن عبد المطلب :۵ ۲۸۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :۱۰۔۱۱۔ ۵۶۔ ۷۵۔ ۱۲۹۔ ۱۳۷۔۱۶۱۔۱۷۷۔۲۱۰۔ ۲۴۴۔ ۲۴۵۔۲۶۱۔۲۶۲۔۲۶۳۔ ۲۶۵۔۲۶۶۔ ۲۶۷۔۲۷۹۔۲۸۲۔۲۸۴۔۲۸۵۔ جلددوم : ۱۱۔۵ ۲۔ ۶۶۔ ۶۷۔۷۸۔ ۹۵۔ ۱۰۰۔۱۰۲۔ ۱۰۳۔۱۰۶۔۱۱۳۔۱۱۴۔ ۱۱۷۔ ۱۱۸۔ ۱۱۹۔ ۱۵۳۔۱۵۵۔ ۱۸۰۔۱۸۶۔۲۲۶۔۲۳۷۔

روح الا مین :۱۱۔۶۴۔۶۹۔۷۱۔ ۱۳۴۔

روح القدس :۶ ۵۔۵۷۔ ۶۴۔ ۶۹۔۷۰۔۷۱۔ ۱۳۴۔۱۹۳۔ جلددوم :۳۲۔۳۶۔۴۳۔۴۴۔

ریچرڈ واٹس :۱۲۴۔ جلددوم :۳۸۔

۲۳۶

(ز)

زعفرا نی : جلددوم :۲۱۶ ۔

زکریا : ۵۴۔ ۱۵۶۔۲۳۸۔ جلددوم :۱۶۹ ۔

زلیخا :۲۳۷۔ ۲۴۱۔

زھدی حسن جار ﷲ : جلددوم :۲۲۱۔

زھیر بن ابی سلمی : ۲۶۲۔

زیاد ابن ابیہ : جلددوم :۲۰۸۔

زید بن ثا بت ؛ ۲۵۳۔

زید بن حارثہ : ۲۱۰۔۲۶۵۔۲۶۶۔

زید بن محمد :۲۶۶۔

زین العا بدین امام علی بن الحسین :۲۶۳ ۔ جلددوم :۱۰۶۔

زینب بنت جحش :۲۶۳۔ ۲۶۵۔

(س)

سام : ۲۲۲۔

سا مری : ۱۲۴۔ جلددوم :۴۸۔۱۵۲۔

سا می البدری :۴ ۱۲۔

السبکی : جلد دوم :۲۲۲ ۔

سعد بن ابی وقا ص: جلددوم :۴۱ ۔

سفیان بن عیینہ : ۲۶۳۔

سکا کی : ۳۰۰ ۔

۲۳۷

سیلما ن : ۹۷ ۔۹۸ ۔۱۰۸ ۔۱۰۹ ۔۱۱۱۔۱۱۲ ۔۱۴۷۔۱۴۸۔۱۷۵۔۱۸۷۔۲۲۴۔۲۲۵۔۲۲۹۔ ۲۳۸۔

جلددوم :۵۸۔۱۵۳۔

ڈاکٹرسلیمان دنیا : جلددوم :۲۲۳۔

سمعون :۲۲۴۔

سمو ئیل : ۲۵۶۔۲۶۰۔

سمیع عا طف الز ین : جلد دوم :۲۲۴۔

سوا ع :۲۲۱ ۔ جلددوم :۱۸۔

سیو طی :۱۲۔۱۰۷۔ ۲۵۱۔۲۵۲۔۲۶۲۔ جلددوم :۵۸۔

(ش)

شافعی :۲۶۲ ۔ جلددوم : ۲۱۶۔

شعبہ :۲۵۵۔

شعیب :۲۱۷۔ ۲۲۵۔ جلد دوم :۱۷۔۲۷۔

شفیق بن سلمہ : جلددوم :۱۸۱۔

شمعون :۲۲۴۔

شوکا نی : جلد دوم :۲۱۷۔۲۱۹۔

شہر ستا نی : جلددوم :۱۹۳۔۱۹۴۔

شیخ صدوق : ۱۱۱۔ ۱۲۹۔ ۲۸۳۔ جلددوم :۷۹۔۸۷۔ ۸۹۔۹۸۔۱۰۱۔۱۰۷۔۱۰۹۔۱۱۰۔۱۱۸۔۱۱۹۔ ۱۵۳۔۱۸۶۔۱۸۷۔۲۰۱۔

شیخ مفید : جلد دوم :۲۳۴۔۲۳۶۔

شیث: ۱۲۵۔۲۱۹۔۲۲۰۔۲۲۱۔

۲۳۸

( ص)

صابونی : جلددوم :۲۱۷۔

صالح : ۴۲۔۲۳۱۔ جلددوم : ۱۷۔

(ط)

طبری : ۲۲۰۔۲۴۸۔۲۵۱۔۲۵۲۔۲۶۱۔۲۶۴۔جلددوم :۱۱۴۔۱۵۲۔۱۸۱۔۱۸۳۔۱۸۴۔

طیا لسی : جلددوم :۱۸۔۱۸۶۔

( ع)

عبا س بن عبد المطلب : ۲۸۵ ۔

عبا س علی براتی : جلددوم :۲۱۳۔

عبد الجباربن احمدہمدانی : جلد دوم :۲۲۰۔

عبد الحلیم محمود : جلد دوم :۲۱۸۔

عبد الر زاق نو فل : جلددوم :۲۲۴۔

عبد ﷲ بن عباس : ۲۶۲۔

عبد ﷲ بن عمر وعاص :۲۶۱۔

عبد المطلب :۲۶۶

عبد الوھا ب بن احمد : جلددوم :۲۲۴۔

عبید ﷲ بن حسن عنبری : جلددوم : ۲۱۷۔

عثما ن (خلیفہ ) :۲۶۱۔

عزرائیل : جلد دوم :۹۰

عزّیٰ :۴۹۔

۲۳۹

عز یر: ۔۵۰۔

علی بن ابرا ہیم :۲۸۳۔ جلددوم :۱۸۸۔

علی بن ابی طالب علیہ السلام : یہ امام علی ـ میں گزر چکا ہے.

علی بن حسین علیہ السلام : یہ امام زین العابدین ـمیں گزر چکا ہے۔

علی بن حسین المو سوی : جلددوم :۲۲۹۔

علی بن جد عان : ۲۶۳

علی بن جہم : ۲۷۶۔۲۸۱۔

علی بن زید : ۲۵۴۔

علی بن طا ووس : جلددوم :۲۲۶۔

علی حسین الجا بری : جلددوم :۲۱۹۔

علی سامی النشا ر ؛ جلددوم :۲۱۹۔

عمر بن خطاب( خلیفہ):۲۶۱۔جلددوم :۱۸۱۔

عمر بن عبد العزیز : جلددوم :۱۸۱۔

عمرو بن شعیب : جلددوم :۲۱۴۔

عمر و بن عبید : جلددوم :۲۲۰۔

عیسیٰ علیہ السلا م : ۱۳۔۵۱۔۵۲۔ ۵۴۔ ۵۶۔۵۸۔۶۴۔ ۶۸۔۱۴۷۔۱۷۲۔۱۷۳۔۱۸۲۔۱۸۸۔ ۱۹۴۔

جلد دوم :۱۳۔۱۷۔ ۶۳۔

عیسیٰ نا صری :۱۸۹۔

( غ)

غزا لی : جلددوم :۲۱۸۔۲۱۹۔۲۲۳۔

۲۴۰