اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

اسلام کے عقائد(دوسری جلد )25%

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 122601 / ڈاؤنلوڈ: 4697
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(دوسری جلد )

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

میں قربان کریں تو خدا وند عالم نے آواز دی : اے ابراہیم !تم نے اپنے خواب کو سچ کر دکھا یا!کیو نکہ اسمٰعیل کو ذبح کرنے میں مشغول ہو گئے تھے اور یہ وہی چیز تھی جس کا انھوںنے خواب میں مشاہدہ کیا تھا ، انھوں نے خواب میں یہ نہیں دیکھا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذ بح کر چکے ہیں اسی اثنا میں خدا نے دنبہ کو اسماعیل کا فدیہ قرار دیا اور ابراہیم کے سامنے فراہم کردیا اور انھوں نے اسی کی منیٰ میں قربانی کی ۔

خدا وند عالم نے ابراہیم کو حکم دیا کہ حج کااعلان کردیں کہ عنقریب لوگ پاپیادہ اورسواری سے دور دراز مسافت طے کر کے حج کے لئے آئیں گے اور خدا وندعالم نے اس گھر کو امن و امان کی جگہ اور ثواب کا مقام قرار دیا اور حکم دیا کہ لوگ مقام ابراہیم کو اپنا مصلیٰ( نماز کی جگہ) بنا ئیں۔

خدا وند عالم دیگرآیات میں ابراہیم کے دین اور ملت کے بارے میں خبر دیتے ہو ئے فرماتا ہے :

ابراہیم خالص اور راسخ العقیدہ مسلمان تھے ، وہ نہ تو مشرک تھے اور نہ یہودی اور نصرانی ، جیسا کہ بعض اہل کتاب کا خیال ہے ، خداوندعالم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم آئین ابراہیم کی پیروی کریں اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس کام کے لئے مخصوص فرماتے ہو ئے ارشاد فرمایا کہ وہ لوگو ں سے کہیں:

ہمارے خدا نے ہمیں راہ راست کی ہدایت کی ہے ، جواستوار دین اور حضرت ابراہیم کی پاکیزہ ملت جوکہ شرک سے رو گرداں اور اسلام کی طرف مائل تھے منجملہ حضرت خاتم الا نبیاء کا اپنے جد ابراہیم کی شریعت کی پیروی میں مناسک حج بجا لا نا بھی ہے اس طرح کہ جیسے انہوں نے حکم دیا تھا ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی امت بھی ایسا ہی کرتی ہے اور مناسک حج اسی طرح سے بجا لاتی ہے جس طرح ابراہیم خلیل الر حمن نے انجام دیا تھا۔

بحث کا نتیجہ

جمعہ کا دن حضرت آدم اور ان تمام لوگوں کے لئے جوان کے زمانے میں زندگی گزار رہے تھے مبارک دن تھا، یہ دن حضرت خاتم الانبیا ء اور ان کی امت کے لئے بھی ہمیشہ کے لئے مبارک ہے۔

خانہ خدا کا حج آدم ، ابراہیم اور خاتم الانبیاء نیز ان کے ماننے والے آج تک بجا لا تے ہیں اور اسی طرح ابد الآبادتک بجا لا تے رہیں گے، خدا وند عالم نے حضرت خاتم الا نبیاء اوران کی امت کے لئے وہی دین اور آئین مقرر فرما یا جو نوح کے لئے تھا اورحضرت ابراہیم حضرت نوح کے پیرو اور ان کی شریعت کے تابع تھے ،اسی لئے خدا وند عالم نے خا تم الانبیاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کی امت کو حکم دیا کہ شریعت ابرا ہیم اور ان کے محکم اور پائدار دین کے تابع ہوں۔

۲۱

پیغمبروں کی شریعتوں میں حضرت آدم سے پیغمبر خاتمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے اور اگرکچھ ہے بھی تو وہ گزشتہ شریعت کی آئندہ شریعت کے ذریعہ تجد ید ہے اور کبھی اس کی تکمیل ہے، یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ حضرت آدم نے حج کیا اور حضرت ابراہیم نے خانہ کعبہ کی تعمیر کرکے حج کی بعض علا متوں کی تجد ید کی اور خا تم الانبیا ئصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے احرام کے میقا توں کی تعیین کی مقام ابراہیم کو مصلیٰ بنایا اور تمام نشانیوں کی وضاحت کر کے اس کی تکمیل کی۔

خدا وند سبحان نے اسلا می احکام کواس وقت کے انسانوں کی ضرورت کے مطابق حضرت آدم کے لئے ارسال فرمایا جو انسان اپنی کھیتی باڑی اور جانورں کے ذریعہ گز ر اوقات کرتا تھا اور شہری تہذیب و تمدن سے دور تھا ،جب نسل آدمیت کا سلسلہ آگے بڑھا اور حضرت نوح کے زمانے میں آبادیوںکا وجود ہوا اور بڑے شہروں میں لوگ رہنے لگے تو انھیں متمدن اور مہذ ب افراد کے بقدر وسیع تر قانون کی ضرورت محسوس ہو ئی ، (انسان کی تجارتی ، سماجی اور گونا گوں مشکلات کو دیکھتے ہوئے جن ضرورتوں کا بڑے شہروں میں رہنے والوں کو سامنا ہوتاہے) تو خدا وندعالم نے اسلامی احکام کی جتنی ضرورت تھی حضرت نوح پر نازل کیا ،تا کہ ان کی ضرورتوں کی تکمیل ہو سکے جس طرح خاتم الا نبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرزمانے کی ضرورت کے مطابق احکام نازل فرمائے

گزشتہ امتیں عام طور پر اپنے نبیوں کے بعد منحرف ہوکر شرک کی پجاری ہو گئیں جیسا کہ اولاد آدم کا کام حضرت نوح کے زمانے میں بت پرستی تھا ،ایسے ماحول میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب سے پہلے خالق کی توحید کی دعوت دی اور بتوں کی عبادت کو ترک کرنے کا حکم دیا جیسا کہ حضرت نوح ، ابراہیم اور حضرت خاتم الانبیاء تک تمام نبیوں کا یہی دستور اور معمول رہاہے چنانچہ آ نحضرت عرب کے بازاروں اور حجاج کے خیموں میں رفت و آمد رکھتے اور فرماتے تھے (لااله الا ﷲ ) کہو !کا میاب ہو گے! کبھی بعض امتوں کے درمیان ان کے سرکش اور طاغوت صفت رہبر نے '' ربوبیت'' کا دعوی کیا جیسے نمرود ملعون نے حضرت ابراہیم کے ساتھ ان کے پروردگار کے بارے میں احتجاج کیا اور سرکش اور طاغی فرعون نے (انا ربکّم الا علیٰ )کی رٹ لگائی ،ایسے حالات میں خدا کے پیغمبر سب سے پہلے اپنی دعوت کا آغاز تو حید ربوبی سے کرتے تھے ، جیسا کہ ابر اہیم نے نمرود سے کہا:( ربّی الذی یحیی و یمیت ) میرا پر وردگار وہ ہے جو زندہ کرتا اور موت دیتا ہے۔

۲۲

اور حضرت موسیٰ نے فرعون سے کہا :

( ربّنا الذی اعطیٰ کلّ شیئٍ خلقه ثمّ هدیٰ ) ۔( ۱ )

ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر مو جود کو اس کی خلقت کے تمام لوازم عطا کئے ،اس کے بعد ہدایت فر مائی۔

حضرت موسیٰ کی فر عون سے اس گفتگو کی تشریح سورئہ اعلی میں موجود ہے:

(سبّح اسم ربّک الأ علیٰ ۔ الذی خلق فسوّیٰ ۔ و الذی قدّر فھدیٰ ۔ و الذی أخرج المرعیٰ ۔ فجعلہ غثاء ً أ حویٰ)( ۲ )

اپنے بلند مرتبہ اور عالی شان پروردگار کے نام کو منزہ سمجھو ، وہی جس نے زیور تخلیق سے منظم و آراستہ فرمایا ، وہی جس نے تقدیر معین کی ہے اور پھر ہدایت فرمائی ، وہ جس نے چرا گاہ کو وجود بخشا پھر اسے خشک اور سیاہ بنادیا ۔

سورئہ اعراف میں بیان ہوتا ہے :

( اِنّ ربّکم ﷲ الذی خلق السّموات و الا ٔرض ) ( ۳ )

بیشک تمہارا ربّ وہ خدا ہے جس نے آسمان و زمین خلق کیا ہے۔

اس بنا پر بعض گزشتہ امتیں بنیادی عقیدہ تو حید سے منحرف ہوجاتی تھیں جیسے حضرت نوح اور ابراہیم وغیرہ کی قومیں اور بعض عمل کے اعتبار سے اسلام سے منحرف ہو جاتی تھیںجیسے قوم لوط اور شعیب کے کرتوت.

اگر قرآن کریم ، پیغمبروں کی رو ایات ،انبیا ء کے آثار اور اخبار اسلامی مدارک میں بغور مطالعہ اورتحقیق کی جائے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ بعد والے پیغمبر خدا وند عالم کی جانب سے پہلے والے پیغمبروں پر نازل شدہ شریعت کی تجدید کرنے والے رہے ہیں ، ایسی شریعت جو امتوں کی طرف سے محو اور تحریف ہو چکی تھی ، اس لئے خدا نے ہمیں حکم دیا کہ ہم کہیں:

( آمنّا بﷲ و ما أنزل الینا و ما أنزل ِالیٰ ابراهیم و اِسما عیل و اِسحق و یعقوب و الأسباط و ما أوتی مو سیٰ و عیسیٰ و ما أو تی ٰ النبيّون من ربّهم لا نفرّق بین أحد منهم ونحن له مسلمون ) ( ۴ )

کہو کہ ہم خدا اور جو کچھ خدا کی طرف سے ہم پر نازل ہوا ہے اس پر ایمان لا ئے ہیںنیز ان تمام چیزوں پر بھی جو ابر اہیم، اسماعیل ، اسحق ، یعقوب اور انکی نسل سے ہو نے والے پیغمبروں پر نازل ہوئی ہیں ، نیزجو کچھ

____________________

(۱) طہ۵۰ (۲) اعلی ۱ ۔ ۵ (۳)اعراف۵۴ (۴)بقرہ ۱۳۶

۲۳

موسیٰ، عیسیٰ اور تمام انبیا ء کو خدا کی جانب سے دیا گیا ، ہم ان میں سے کسی ایک کو بھی کسی سے جدا تصوّر نہیں کرتے ہم تو صرف اور صرف فرمان خدا وندی کے سامنے سراپا تسلیم ہیں ۔

سوال:

ممکن ہے کوئی سوال کرے: اگر پیغمبروں کی شر یعتیں ایسی ہی ہیں جیسا کہ آپ بیان کرتے ہیں تو انبیاء کی شریعتوں میں نسخ کے معنی ٰ کیا ہوں گے کہ خدا و ندعالم ارشاد فرماتا ہے :

( ما ننسخ من آيةٍ أوننسها نات بخیر منها أو مثلها الم تعلم أنّ ﷲ علی کلّ شیئٍ قدیر ) ( ۱ )

(کوئی حکم ہم اس وقت تک نسخ نہیں کرتے یا اسکے نسخ کو تاخیر میں نہیں ڈالتے جب تک کہ اس سے بہتر یا ا س جیسا نہ لے آئیں کیا تم نہیں جانتے کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے)۔

نیز خدا وند عالم کی اس گفتگو میں ''تبدیل'' کے کیا معنی ہیں کہ فرما تا ہے:

( و اِذا بدّلنا آية مکان آية و ﷲ اعلم بما ینزّ ل قالو اِنّما أنت مفتر بل أکثرهم لا یعلمون ) ( ۲ )

(اور جب ہم ایک آیت کو دوسری آیت سے تبدیل کرتے ہیں ( کسی حکم کو نسخ کرتے ہیں ) توخدا بہتر جانتا ہے کہ کونسا حکم نازل کرے ، کہتے ہیں: تم افترا پردازی کرتے ہو ، بلکہ ان میں زیادہ تر لوگ نہیں جانتے)

جواب:

ہم اسکے جواب میں کہیں گے : یہاں پر بحث دو موضوع سے متعلق ہے:

۱۔ اصطلا ح ''نسخ'' اور اصطلا ح'' آیت''

۲۔مذکورہ آیات کے معنی.

انشاء ﷲ آئندہ بحث میں اس کے متعلق چھان بین اور تحقیق کریں گے۔

____________________

(۱)سورہ ٔ بقرہ ۱۰۶

(۲)سورہ ٔ نحل ۱۰۱.

۲۴

۲

نسخ وآیت کی اصطلا ح اور ان کے معنی

اوّل۔ نسخ:

نسخ؛ لغت میں ایک چیز کو بعد میں آنے والی چیزکے ذریعہ ختم کرنے کو کہتے ہیں جیسے کہتے ہیں: ''نسخت الشمس الظل'' سورج نے سایہ ختم کردیا ۔

نسخ؛ اسلامی اصطلاح میں : ایک شریعت کے احکام کو دوسری شریعت کے احکام کے ذریعہ ختم کرنا ہے، جیسے گزشتہ شریعتوں کے بعض احکام کا خاتم الانبیاء کی شریعت کے احکام سے نسخ یعنی ختم کرنا ہے، اسی طرح خاتم الانبیاء کی شریعت میں وقتی حکم کا دائمی حکم سے نسخ کرنا ، جیسے مدینہ میں فتح مکہ سے پہلے مہاجرین و انصار کے درمیان عقد اخوت کی بنیاد پرمیراث پانا رائج تھا جوفتح مکہ کے بعداعزاء واقارب کے میراث پانے کے حکم سے منسوخ ہوگیا۔( ۱ )

دوم ۔ آیت:

آیت؛ اسلامی اصطلاح میں تین معنی کے درمیان ایک مشترک لفظ ہے:

۱۔ انبیاء کے معجزہ کے معنی میں جیسا کہ موسیٰ ابن عمران سے سورئہ نمل میں خدا ارشاد فرماتا ہے :

( وأدخل یدک فی جیبک تخرج بیضاء من غیر سوئٍ فی تسع آیاتٍ الیٰ فرعون و قومهِ ) ( ۲ )

____________________

(۱) تفسیر طبری،ج۱۰،ص ۲۶،۲۷،تفسیر ابن کثیر ج،۲، ص۳۲۸ اور ۲۲۱ اور تفسیر الدر المنثور،ج۲،ص ۲۰۷.

(۲) نمل۱۲.

۲۵

اپنے ہاتھ کو گریبان میں داخل کرو تاکہ سفید درخشاں اور بے عیب باہر آئے یہ انھیں نُہ گانہ معجزوں میں شامل ہے جن کے ہمراہ فرعون اور اس کے قوم کی جانب مبعوث کئے جا رہے ہو۔

۲۔ قرآنی الفاظ کی ترکیب جس کی تعیین شمارہ کے ذریعہ کی گئی ہے ، جیسا کہ سورئہ نمل میں ارشاد ہوتا ہے:

( طٰس تلک آیات القرآن وکتاب مبین )

طٰس ، یہ قرآنی آیتیں اور ایک کھلی ہوئی کتاب ہے۔

۳۔ کتاب الہٰی کے ایک یاچند حصّے جس میں شریعت کا کوئی حکم بیان کیا گیاہو۔( ۱ )

لہٰذا معلوم ہوا کہ قرآن کے بعض حصّوں کا آیت نام رکھنے سے مقصود اسکا مدلول اور معنی ہے یعنی وہ حکم جو اس حصّہ میں آیاہے اور '' نسخ '' اسی حکم سے متعلق ہے اور قرآن کے ان الفاظ کو شامل نہیں ہے جو کہ اس حکم پر دلالت کرتے ہیں۔

اور یہ بھی معلوم ہوا کہ مشترک الفاظ کے معنی ، کلام میں موجود قرینے سے جو کہ مقصود پر دلالت کرتا ہے معین ہو تے ہیں۔

یہ نسخ اور آیت کے اسلامی اصطلا ح میں معنی تھے اوراب موضوع بحث دو آیتوں کی تفسیر نقل کرتے ہیں:

____________________

(۱) اس بات کی مبسو ط اور مفصل شرح ((القرآن الکریم و روایات المدرستین)) کی دوسری جلد کی مصطلحات کی بحث میں مذ کور ہوئی ہے۔

۲۶

۳

آیۂ نسخ اور آیۂ تبدیل کی تفسیر

آیۂ نسخ :

نسخ کی آیت سورئہ بقرہ میں ( ۴۰ سے ۱۵۲)آیات کے ضمن میں آئی ہے اس ضمن میں جو کچھ ہماری بحث سے متعلق ہوگااسے ذکر کررہے ہیں:

( یَابَنِی ِسْرَائِیلَ اذْکُرُوا نِعْمَتِی الَّتِی َنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وََوْفُوا بِعَهْدِی ُوفِ بِعَهْدِکُمْ وَِیَّایَ فَارْهَبُونِی (۴۰) وَآمِنُوا بِمَا َنزَلْتُ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَکُمْ وَلاَتَکُونُوا َوَّلَ کَافِرٍ بِهِ وَلاَتَشْتَرُوا بِآیَاتِی ثَمَنًا قَلِیلًا وَِیَّایَ فَاتَّقُونِی (۴۱) وَلاَتَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ وََنْتُمْ تَعْلَمُونَ (۴۲) یَابَنِی ِسْرَائِیلَ اذْکُرُوا نِعْمَتِی الَّتِی َنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وََنِّی فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعَالَمِینَ (۴۷) وَاتَّقُوا یَوْمًا لاَتَجْزِی نَفْس عَنْ نَفْسٍ شَیْئًا وَلاَیُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَة وَلاَیُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْل وَلاَهُمْ یُنصَرُونَ (۴۸) وَِذْ َخَذْنَا مِیثَاقَکُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمْ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَیْنَاکُمْ بِقُوَّةٍ وَاذْکُرُوا مَا فِیهِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ ) ( ۱ )

اے بنی اسرئیل !ان نعمتو ں کو یاد کرو ، جو ہم نے تمہارے لئے قرار دی ہیں ؛ اورجو تم نے ہم سے عہد و پیمان کیا ہے اس کو وفا کرو ،تا کہ میں بھی تمہارے عہد و پیمان کو وفا کروں اور صرف مجھ سے ڈرو اور جو کچھ میں نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لا ؤ، جو تمہا ری کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور تم لوگ سب سے پہلے اس کے انکار کرنے والے نہ بنو، نیز میری آیات کو معمولی قیمت پر فروخت نہ کرو اور صرف مجھ سے ڈرو اور حق کو باطل سے مخلوط نہ کرو اور جو حقیقت تم جانتے ہو اسے نہ چھپاؤ اے بنی اسرائیل !جو تم پر میں نے اپنی نعمتیں نازل کی

____________________

(۱)سورئہ بقرہ ۴۰ ۔ ۶۳

۲۷

ہیں اور تمہیں عالمین پر بر تری اور فضیلت دی ہے اسے یاد کرو نیز اس دن سے ڈرو ، جس دن کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا اور کسی کی کسی کے بارے میں شفاعت قبول نہیں کی جائے گی اور نہ ہی کسی کاکسی سے تاوان لیا جائے گا اور کسی صورت مدد نہیں کی جائے گی ، اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد و پیمان لیا تھا نیز کوہِ طور کو تمہارے اوپر قرار دیا جو کچھ ہم نے تمہیں عطا کیا ہے مضبوطی سے پکڑ لو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد رکھو شاید پرہیز گار ہو جائو۔

( وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسَی الْکِتَابَ وَقَفَّیْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ وَآتَیْنَا عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنَاتِ وََیَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ اَفَکُلَّمَا جَائَکُمْ رَسُول بِمَا لاَتَهْوَی َنفُسُکُمْ اسْتَکْبَرْتُمْ فَفَرِیقًا کَذَّبْتُمْ وَفَرِیقًا تَقْتُلُونَ (۸۷) وَقَالُوا قُلُوبُنَا غُلْف بَلْ لَعَنَهُمْ ﷲ بِکُفْرِهِمْ فَقَلِیلًا مَا یُؤْمِنُونَ (۸۸) وَلَمَّا جَائَهُمْ کِتَاب مِنْ عِنْدِ ﷲ مُصَدِّق لِمَا مَعَهُمْ وَکَانُوا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُونَ عَلَی الَّذِینَ کَفَرُوا فَلَمَّا جَائَهُمْ مَا عَرَفُوا کَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ ﷲ عَلَی الْکَافِرِینَ (۸۹) بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهِ َنفُسَهُمْ َنْ یَکْفُرُوا بِمَا َنزَلَ ﷲ بَغْیًا َنْ یُنَزِّلَ ﷲ مِنْ فَضْلِهِ عَلَی مَنْ یَشَائُ مِنْ عِبَادِهِ فَبَائُوا بِغَضَبٍ عَلَی غَضَبٍ وَلِلْکَافِرِینَ عَذَاب مُهِین (۹۰) وَِذَا قِیلَ لَهُمْ آمِنُوا بِمَا َنزَلَ ﷲ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا ُنزِلَ عَلَیْنَا وَیَکْفُرُونَ بِمَا وَرَائَهُ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَهُمْ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ َنْبِیَائَ ﷲ مِنْ قَبْلُ ِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ (۹۱) وَلَقَدْ جَائَکُمْ مُوسَی بِالْبَیِّنَاتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمْ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وََنْتُمْ ظَالِمُونَ ) ( ۱ )

ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اوران کے بعد بلا فاصلہ پیغمبروں کو بھیجا ؛ اور عیسیٰ ابن مریم کو واضح و روشن دلائل دئے اور اس کی روح القدس کے ذریعہ تائید کی ، کیا ایسا نہیں ہے کہ جب بھی کوئی پیغمبر تمہاری نفسانی خواہشات کے خلاف کوئی چیز لایا، تم نے سرکشی اور طغیانی دکھائی اور ایک گروہ کو جھٹلایا اور کچھ کو قتل کر ڈالا ؟ توان لوگوں نے کہا : ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں !نہیں ،بلکہ خدا وند عالم نے انھیں ا ن کے کفر کی وجہ سے اپنی رحمت سے دور رکھا ہے پس بہت کم لوگ ایمان لاتے ہیں اور جب خدا کی طرف سے ان کے پاس کتاب آئی جو کہ ان کے پاس موجود کتاب میں نشانیوں کے مطابق تھی اور اس سے پہلے اپنے آپ کو کافروں پر کامیابی کی نوید دیتے تھے ، ان تمام باتوں کے باوجود جب یہ کتاب اور شناختہ شدہ پیغمبر ان کے پاس آیا تو اسکا انکار کر گئے لہٰذا کافروں پر خدا کی لعنت ہو ، بہت برے انداز میں انھوں نے اپنا سودا کیا کہ

____________________

(۱)بقرہ ۸۷۔۹۲

۲۸

ناحق خدا کی نازل کردہ آیات کا انکا ر کر گئے اور اس بات پر کہ خدا وندعالم اپنے بندوں میں سے جس کے پاس چاہے اپنی آیات ارسال کرے اعتراض کرنے لگے! لہٰذا دوسروں کے غیظ و غضب سے کہیں زیادہ غیظ و غضب میں گرفتار ہو گئے اور کافروں کے لئے رسوا کن عذاب ہے اور جب ان سے کہا جاتا ہے : جو خدا نے بھیجا ہے اس پر ایمان لے آؤ ، تو وہ کہتے ہیں : ہم تو اس پر ایمان لائیں گے جو ہم پر نازل ہوا ہے اور اسکے علاوہ کے منکر ہوجاتے ہیں جب کہ وہ حق ہے اور انکی کتاب کی بھی تصدیق کرتاہے، کہو: اگر تم لوگ ایمان دار ہو تو پھر کیوں خدا کے پیغمبروں کو اس کے پہلے قتل کرتے تھے ؟اور موسیٰ نے ان تمام معجزات کو تمہارے لئے پیش کیا لیکن تم نے ان کے بعد ظالمانہ انداز میں گو سالہ پرستی شروع کردی۔

( وَلَقَدْ َنزَلْنَا ِلَیْکَ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ وَمَا یَکْفُرُ بِهَا ِلاَّ الْفَاسِقُونَ (۹۹) وَلَوْ َنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَة مِنْ عِنْدِ ﷲ خَیْر لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ (۱۰۳) مَا یَوَدُّ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ َهْلِ الْکِتَابِ وَلاَالْمُشْرِکِینَ َنْ یُنَزَّلَ عَلَیْکُمْ مِنْ خَیْرٍ مِنْ رَبِّکُمْ وَﷲ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ یَشَائُ وَﷲ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ (۱۰۵) مَا نَنسَخْ مِنْ آیَةٍ َوْ نُنسِهَا نَْتِ بِخَیْرٍ مِنْهَا َوْ مِثْلِهَا َلَمْ تَعْلَمْ َنَّ ﷲ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیر ) ( ۱ )

ہم نے تمہارے لئے روشن نشانیاں ارسال کیں اور بجز کفار کے کوئی ان کا انکار نہیں کرتا اور اگر وہ لوگ ایمان لاکر پرہیز گار ہو جاتے تو خدا کے پاس جو ان کے لئے جزا ہے وہ بہتر ہے اگر وہ علم رکھتے کافراہل کتاب اور مشرکین یہ نہیں چاہتے کہ تمہارے خدا کی طرف سے تم پر خیر وبرکت نازل ہو، جبکہ خدا جسے چاہے اپنی رحمت کواس سے مختص کردے اور خدا وند عالم عظیم فضل کا مالک ہے ، جب بھی ہم کوئی حکم نسخ کرتے ہیں یا تاخیر میں ڈالتے ہیں تواس سے بہتر یااسی کے مانند پیش کرتے ہیں کیا تمھیں نہیں معلوم کہ خدا وندعالم ہر چیز پر قادر ہے؟

( وَدَّ کَثِیر مِنْ َهْلِ الْکِتَابِ لَوْ یَرُدُّونَکُمْ مِنْ بَعْدِ ِیمَانِکُمْ کُفَّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ َنفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ الْحَقُّ وَقَالُوا لَنْ یَدْخُلَ الْجَنَّةَ ِلاَّ مَنْ کَانَ هُودًا َوْ نَصَارَی تِلْکَ َمَانِیُّهُمْ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَکُمْ ِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ (۱۱۱) بَلَی مَنْ َسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِن فَلَهُ َجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلاَخَوْف عَلَیْهِمْ وَلاَهُمْ یَحْزَنُونَ (۱۱۲)وَلَنْ تَرْضَی عَنْکَ الْیَهُودُ وَلاَالنَّصَارَی )

____________________

(۱) بقرہ۹۹۔۱۰۶

۲۹

( حَتَّی تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ ِنَّ هُدَی ﷲ هُوَ الْهُدَی وَلَئِنْ اتَّبَعْتَ َهْوَائَهُمْ بَعْدَ الَّذِی جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ مَا لَکَ مِنْ ﷲ مِنْ وَلِیٍّ وَلاَنَصِیرٍ ) ( ۱ )

بہت سارے اہل کتاب از روئے کفر وحسد(جو کہ ان کے رگ و ریشہ میں سرایت کرچکاہے) آرزومندہیں کہ تمہیں اسلام اور ایمان کے بعد کفر کی طرف لوٹا دیں جبکہ ان پر حق مکمل طور پر واضح ہو چکاہے...۔ اورکہتے ہیںکوئی بھی یہود و نصاریٰ کے علاوہ بہشت میں داخل نہیں ہوگا ،یہ انکی آرزوئیں ہیں ان سے کہو : اگر سچ کہتے ہو تو اپنی دلیل پیش کرو ، یقینا جو کوئی اپنے آپ کو خدا کے سامنے سراپاتسلیم کردے اور پرہیزگار ہو جائے تو خدا کے نزدیک اس کی جزا ثابت ہے نہ ان پر کسی قسم کا کوئی خوف ہے اور نہ ہی وہ محزون و مغموم ہوگا ،یہود و نصاریٰ تم سے کبھی راضی نہیں ہوں گے ، مگر یہ کہ تم ان کے آئین کا اتباع کرو ، ان سے کہو: ہدایت صرف اور صرف ﷲ کی ہدایت ہے اور اگر آگاہ ہونے کے باوجودان کے خواہشات کا اتباع کرو گے تو خدا کی طرف سے کوئی تمہارا ناصر و مدد گار نہ ہوگا :

( یَابَنِی ِسْرَائِیلَ اذْکُرُوا نِعْمَتِی الَّتِی َنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وََنِّی فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعَالَمِینَ (۱۲۲) وَاتَّقُوا یَوْمًا لاَتَجْزِی نَفْس عَنْ نَفْسٍ شَیْئًا وَلاَیُقْبَلُ مِنْهَا عَدْل وَلاَتَنفَعُهَا شَفَاعَة وَلاَهُمْ یُنصَرُونَ ) ( ۲ )

اے بنی اسرائیل! جو نعمتیں ہم نے تمھیں عطا کی ہیں اور تم کوتمام عالمین پر فضیلت و برتری عطا کی ہے اسے یاد کرو اوراس دن سے ڈرو جس دن کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا اور کسی سے کوئی تاوان نہیں لیا جائے گا اورکوئی شفاعت اسے فائدہ نہیں دے گی اور کسی صورت مدد نہیں ہو گی۔

خدا وندعالم نے ا ن آیات کے ذکرکے بعد ایک مقدمہ کی تمہید کے ساتھ جس کے بعض حصّے کو اس سے قبل حضرت ابراہیم اور اسماعیل کے خانہ کعبہ بنانے کے سلسلے میں ہم نے ذکر کیا ہے، فرمایا:

الف:( واِذ یرفع أبراهیم القواعدمن البیت و أِسماعیل ) ( ۳ )

اورجبکہ حضرت ابراہیم و اسماعیل خانہ کعبہ کی دیواریں بلند کر رہے تھے ۔

ب:( واِذ جعلنا البیت مثابة للنّاس و أمناً ) ( ۴ )

اورجب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کے رجوع کا مرکز اور امن و امان کی جگہ قرار دی۔

____________________

(۱) بقرہ۱۱۹۔۱۲۰(۲) بقرہ۱۲۲،۱۲۳(۳) بقرہ ۱۲۷(۴) بقرہ ۱۲۵

۳۰

ج:( و عهدنا الیٰ أبراهیم و أسماعیل أن طهرا بیتی للطّا ئفین و العاکفین و الرّکّع السجود ) ( ۱ )

اورہم نے ابراہیم و اسماعیل سے عہد لیا کہ ہمارے گھر کو طواف کرنے والوں ، مجاورں ، رکوع اورسجدہ کرنے والوں کے لئے پاک و پاکیزہ رکھیں ۔

خدا وند عالم ایسی تمہید کے ذریعہ'' نسخ ''کا موضو ع معین کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( قَدْ نَرَی تَقَلُّبَ وَجْهِکَ فِی السَّمَائِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَیْثُ مَا کُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَکُمْ شَطْرَهُ وَِنَّ الَّذِینَ ُوتُوا الْکِتَابَ لَیَعْلَمُونَ َنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَمَا ﷲ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُونَ (۱۴۴) وَلَئِنْ َتَیْتَ الَّذِینَ ُوتُوا الکِتَابَ بِکُلِّ آیَةٍ مَا تَبِعُوا قِبْلَتَکَ وَمَا َنْتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ...(۱۴۵) الَّذِینَ آتَیْنَاهُمْ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَهُ کَمَا یَعْرِفُونَ َبْنَائَهُمْ وَِنَّ فَرِیقًا مِنْهُمْ لَیَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ یَعْلَمُونَ ) ( ۲ )

ہم آسمان کی جانب تمھاری انتظار آمیز نگاہوں کو دیکھتے ہیں یقینا ہم تمہیںاس قبلہ کی جانب جسے تم دوست رکھتے ہو واپس کردیں گے لہٰذا اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف موڑ لو اور جہاں کہیں بھی رہو اپنا رخ اسی جانب رکھو، یقینا جن لوگوں کو آسمانی کتاب دی گئی ہے بخوبی جانتے ہیں کہ یہ فرمان حق ہے جو کہ تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے اور خدا وند عالم جو وہ کرتے ہیںاس سے غافل نہیں ہے اور اگر اہل کتاب کیلئے تمام آیتیں لے آؤ تب بھی وہ تمہارے قبلہ کا اتباع نہیں کریں گے اور تم بھی ان کے قبلہ کا اتباع نہیں کرو گے ، جن لوگوں کو ہم نے آ سمانی کتاب دی ہے اس( پیغمبر ) کو وہ اپنے فرزندوں کی طرح جا نتے اور پہچانتے ہیں ، یقینا ان میں سے کچھ لوگ حق کو دانستہ طور پر چھپا تے ہیں۔

خداوندعالم اہل کتاب کی مسلمانوں سے (تعویض قبلہ کے سلسلہ میں ) جنگ وجدال کی بھی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( سَیَقُولُ السُّفَهَائُ مِنْ النَّاسِ مَا وَلاَّهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمْ الَّتِی کَانُوا عَلَیْهَا قُلْ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ یَهْدِی مَنْ یَشَائُ ِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ (۱۴۲)...وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِی کُنتَ عَلَیْهَا ِلاَّ لِنَعْلَمَ مَنْ یَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ یَنقَلِبُ عَلَی عَقِبَیْهِ وَِنْ کَانَتْ لَکَبِیرَةً ِلاَّ عَلَی الَّذِینَ هَدَی ﷲ وَمَا

____________________

(۱) بقرہ ۱۲۵

(۲) بقرہ ۱۴۴تا۱۴۶

۳۱

( کَانَ ﷲ لِیُضِیعَ ِیمَانَکُمْ ِنَّ ﷲ بِالنَّاسِ لَرَئُ وف رَحِیم ) ( ۱ )

عنقریب نا عاقبت اندیش اور بیوقوف لوگ کہیںگے :کس چیز نے انھیں اس قبلہ سے جس پروہ تھے پھیردیا ہے؟کہو ؛مغرب ومشرق سب خدا کے ہیں خدا جسے چاہے راہ راست کی ہدایت کرتا ہے،ہم نے اس (پہلے) قبلہ کو جس پرتم تھے صرف اس لئے قرار دیا تھا تاکہ وہ افراد جو پیغمبر کا اتباع کرتے ہیں ان لوگوں سے جو جاہلیت کی طرف لوٹ سکتے ہیں ممتاز اور مشخص ہو جائیں یقینا یہ حکم ان لوگوں کے علاوہ جن کی خدا نے ہدایت کی ہے دشوار تھا اور خدا کبھی تمہا رے ایمان کو ضایع نہیں کرے گا ،کیوں کہ خدا وند عالم لوگوں کی نسبت رئوف ومہربان ہے۔

آیۂ تبدیل :

آیۂ تبدیل سورئہ نحل میں ۱۰۱سے ۱۲۴ آیات کے ضمن میں ذکر ہو ئی ہے،( ۲ ) ہم اس بحث سے مخصوص آیات کا ذکر کریں گے، خدا وند عالم فرماتاہے :

( وَِذَا بَدَّلْنَا آیَةً مَکَانَ آیَةٍ وَﷲ َعْلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوا ِنَّمَا َنْتَ مُفْتَرٍ بَلْ َکْثَرُهُمْ لاَیَعْلَمُونَ (۱۰۱)قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِنْ رَبِّکَ بِالْحَقِّ لِیُثَبِّتَ الَّذِینَ آمَنُوا وَهُدًی وَبُشْرَی لِلْمُسْلِمِینَ (۱۰۲) ِنَّمَا یَفْتَرِی الْکَذِبَ الَّذِینَ لاَیُؤْمِنُونَ بِآیَاتِ ﷲ وَُوْلَئِکَ هُمْ الْکَاذِبُونَ (۱۰۵)فَکُلُوا مِمَّا رَزَقَکُمْ ﷲ حَلاَلاً طَیِّبًا وَاشْکُرُوا نِعْمَةَ ﷲ ِنْ کُنْتُمْ ِیَّاهُ تَعْبُدُونَ (۱۱۴) ِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ الْمَیْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِیرِ وَمَا ُهِلَّ لِغَیْرِ ﷲ بِهِ فَمَنْ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَلاَعَادٍ فَِنَّ ﷲ غَفُور رَحِیم (۱۱۵) وَلاَتَقُولُوا لِمَا تَصِفُ َلْسِنَتُکُمْ الْکَذِبَ هَذَا حَلاَل وَهَذَا حَرَام لِتَفْتَرُوا عَلَی ﷲ الْکَذِبَ ِنَّ الَّذِینَ یَفْتَرُونَ عَلَی ﷲ الْکَذِبَ لاَیُفْلِحُونَ (۱۱۶) وَعَلَی الَّذِینَ هَادُوا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَیْکَ مِنْ قَبْلُ ...(۱۱۸) ثُمَّ َوْحَیْنَا ِلَیْکَ َنْ اتَّبِعْ مِلَّةَ ِبْرَاهِیمَ حَنِیفًا وَمَا کَانَ مِنْ الْمُشْرِکِینَ (۱۲۳) ِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَی الَّذِینَ اخْتَلَفُوا فِیهِ ) ( ۳ )

اور جب ہم ایک آیت کو دوسری آیت سے تبدیل کرتے ہیں ( ایک حکم کو کسی حکم کی جگہ قرار دیتے ہیں) خدا بہتر جانتا ہے کہ کونساحکم نازل کرے کہتے ہیں: تم افترا پردازی کرتے ہو ! نہیں بلکہ اکثریت ان کی نہیں جانتی، کہو :اسے روح القدس نے تمہارے پروردگار کی جانب سے حق کے ساتھ نازل کیا ہے تاکہ با ایمان

____________________

(۱)بقرہ ۱۴۲،۱۴۳(۲) بحث کی مزید شرح و تفصیل نیز اس کے مدارک و ماخذ ''قرآن کر یم اور مدر ستین کی روایات'': ج ۱، بحث : اسلامی اصطلاحات کے ضمن میں ملاحظہ کریں گے۔(۳) نحل: ۱۰۱ ۱۰۲ ۱۰۵ ۱۴ ۱ ۱۱۵ ۱۱۶ ۱۱۸ ۱۲۳ ۱۲۴.

۳۲

افراد کو ثابت قدم رکھے نیز مسلمانوں کے لئے ہدایت و بشارت ہو ،صرف وہ لوگ افترا پردازی کرتے ہیں جو خدا پر ایمان نہیں رکھتے وہ لوگ خود ہی جھوٹے ہیں ، لہٰذا جو کچھ تمہارے لئے خدا نے روزی معین کی ہے اس سے حلال اور پاکیزہ کھائو اور نعمت خدا وندی کا شکریہ ادا کرو ، اگر اس کی عبادت اور پرستش کر تے ہو ۔ خداوندعالم نے تم پر صرف مردار ، خون ،سور کا گوشت اور وہ تمام اشیاء جن پر خدا کانام نہ لیا گیا ہو حرام کیا ہے،لیکن جو مجبور و مضطر ہو جائے (اس کے لئے کوئی مضائقہ نہیں ) جبکہ حد سے زیادہ تجاوز و تعدی نہ کرے خدا وند عالم بخشنے والا اورمہربان ہے اوراس جھوٹ کی بنا پر جو کہ تمہاری زبان سے جاری ہوتا ہے نہ کہو:''یہ حلال ہے اور وہ حرام ہے'' تاکہ خدا پر افتراء اور بہتان نہ ہو، یقینا جو لوگ خدا پر افتراء پردازی کرتے ہیں کامیاب نہیں ہو ں گے ، جو کچھ اس سے پہلے ہم نے تمہارے لئے بیان کیا ہے، یہود پر حرام کیا ہے، پھر تم پر وحی نازل کی کہ ابراہیم کے آئین کی پیروی کر و جو کہ خالص اور محکم ایمان کے مالک تھے اور مشرکوں میں نہیں تھے ،سنیچر کا دن صرف ان لوگوں کے برخلاف اور ضرر میں قرار دیا گیا ، جو لوگ اس دن کے بارے میں اختلاف ونزاع کرتے تھے۔

لیکن جن چیز وں کی خدا وندعالم نے گزشتہ زما نہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے حکایت کی ہے اور اس سورہ کی ۱۱۸ویںآیت میں اس کا ذکر فرمایا ہے وہ یہ ہے:

الف:۔سورہ آل عمران کی ۹۳ ویں آیت:

( کل الطعام کان حلاّ لِبنی أسرائیل ألا ما حرّم أسرائیل علی نفسه )

تمام غذائیں بنی اسرائیل کے لئے حلال تھیں جز ان چیزوںکے جسے اسرائیل (یعقوب) نے اپنے آپ پر حرام کرلیاتھا۔

ب: ۔سورئہ انعام کی ۱۴۶ ویں آیت:

( وماعلی الذین هادواحرّمنا کلّ ذی ظفر و من البقر و الغنم حرّمنا علیهم شحومهما اِلا ما حملت ظهور هما أو الحوایا أو ما اختلط بعظم ذلک جزیناهم ببغیهم و اِنّا لصادقون ) ( ۱ )

____________________

(۱)اسرائ۲

۳۳

اور ہم نے یہودیوں پر تمام ناخن دار حیوانوں کو حرام کیا (وہ حیوانات جن کے کھر ملے ہو تے ہیں) گائے ،بھیڑ سے صرف چربی ان پر حرام کی ، جز اس چربی کے جو ان کی پشت پر پائی جاتی ہے اورپہلوؤں کے دو نوںطرف ہوتی ہے، یا وہ جو ہڈیوں سے متصل ہوتی ہے، یہ کیفر و سزا ہم نے ان کے ظا لمانہ رویہ کی وجہ سے دی ہے اور ہم سچّے ہیں۔

کلمات کی تشریح:

۱۔ (مصدقاً لما معکم)یعنی قرآن اور پیغمبر کے صفات ، پیغمبر کے مبعوث ہو نے اور آپ پر قرآن نازل ہونے کے بارے میں توریت کے اخبار کی تصدیق کرتے ہیں ، جیسا کہ توریت کے سفرتثنیہ کے ۳۳ ویں باب( میں طبع ریچارڈ واٹس لندن ۱۸۳۱ء عربی زبان میں )آیا ہے اور اس کا ترجمہ یہ ہے ۔

یہ ہے وہ دعائے خیر جسے مرد خدا حضرت موسیٰ نے اپنی موت سے پہلے بنی اسرائیل پر پڑھی تھی اور فرمایا تھا : خدا وندعالم سینا سے نکلا اور ساعیر سے نور افشاں ہوا اور کوہ فاران سے آشکار ہوا اور اس کے ہمراہ ہزاروںپاکیزہ افراد ہیں، اس کے داہنے ہاتھ میں آتشیںشریعت ہے، لوگوں کو دوست رکھتا ہے ، تمام پاکیزہ لوگ اس کی مٹھی میں ہیں جو لوگ ان سے قریب ہیں اس کی تعلیم قبول کرتے ہیں، موسیٰ نے ہمیں ایسی سنت کا فرمان دیا جو جماعت یعقوب کی میراث ہے. یہی نص( ریچارڈ واٹس لندن ۱۸۳۹ ء ،فارسی زبان میں ) اس طرح ہے:

۳۳واں باب

۱۔ یہ ہے وہ دعائے خیر جو موسیٰ مرد خدا نے اپنے مرنے سے قبل بنی اسرائیل پر پڑھی تھی ۔

۲۔ اور کہا :خدا وندعالم سینا سے برآمد ہوا اور سعیر سے نمودار ہوا اور کوہ فاران سے نور افشاں ہوا اور دس ہزار مقرب اور برگزیدہ لوگوں کے سا تھ و ارد ہوا اور اس کے داہنے ہاتھ سے آتش بار شریعت ان لوگوں تک پہنچی۔

۳۔بلکہ تبائل کو دوست رکھا اور اس کے تمام مقدسات تیرے قبضہ اور اختیار میں ہیں اور مقربین در گاہ تیری قدم بوسی کرتے ہوئے تیری تعلیم قبول کریں گے

۳۴

۴۔ موسیٰ نے ہمیں ایسی شریعت کا حکم دیا جو بنی یعقوب کی میراث ہے.....

یہی نص طبع آکسفورڈ یونیورسٹی( ۱ ) لندن میں (بغیر تاریخ طبا عت )صفحہ نمبر ۱۸۴ پر اس طرح آئی ہے:

یہ انگریزی نص فارسی زبان میں مذکورہ نص سے یکسانیت اور یگانگت رکھتی ہے:

CHAPTER ۳۳

And this the blessing,where with moses the man of God blessed the children of israel before his death

۲ and he said ,the LORD came from sinai and rose up from seir unto them ;he shined forth from mount paran and he came with ten thousands of saints; from his right hand went ,a fiery law for them

۳ yea,he loved the people ,all his saints are in thy hand :and they sat down at thy feet ;every one shall receive of thy words

۴ moses commanded us a law .even the inheritance of the congreg ation of jacob (۱ )

اس نص میں مذ کور ہے کہ ( وہ دس ہزار مقرب افراد کے ساتھ آیا)یعنی ہزاروں کی عدد معین کیہے ، خواہ پہلی نص میں بغیر اس کے کہ ہزاروں کی تعداد معین کرے آیا ہے: ''اس کے ساتھ ہزاروں پاکیزہ افراد''کیونکہ جس نے غار حرا سے فاران میں ظہور کیا پھر دس ہزارافرادکے ہمراہ مکّہ کی سرزمین پر قدم رکھا وہ خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی ﷲ علیہ و آلہ و سلم ہیں، اہل کتاب نے عصر حاضر میں اس نص میں تحریف کر دی ہے

____________________

(۱)یہ طباعت سرخ اور سیاہ رنگ کے ساتھ(فقط) عہد جدید کے حصّہ میں مشخص ہو گی.

۳۵

تا کہ نبی کی بعثت کے متعلق توریت کی بشارتوں کو چھپا دیں اور ہم نے ( ایک سو پچاس جعلی صحابی) نامی کتاب کی دوسری جلدکی پانچویں تمہید میں اس بات کی تشریح کی ہے ۔

''مصدقا لمامعکم''کی تفسیر میں بحث کا نتیجہ:

توریت کا یہ باب واضح طور پر یہ کہتا ہے : موسیٰ ابن عمران نے اپنی موت سے قبل اپنی وصےّت میں بنی اسرائیل سے کہا ہے : پروردگار عالم نے توریت کو کوہ سینا پر نازل کیا اور انجیل کو کوہِ سعیر پر اور قرآن کو کوہِ فاران ( مکّہ ) پر پھر تیسری شریعت کی خصوصیات شمار کرتے ہوئے فرمایا:

جب وہ مکہ میں آئے گا دس ہزار لوگ اس کے مقربین میں سے اس کے ہمراہ ہوں گے، یہ وہی دس ہزار رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سپاہی ہیں جو فتح مکّہ میں تھے اور یہ تیسری شریعت ، شریعت جہاد ہے۔

اور یہ کہ اس کی امت اس کی تعلیمات کو قبول کرے گی، اس تصریح میں بنی اسرائیل کے موقف کی طرف اشارہ ہے جنھوں نے منحرف ہو کر گو سالہ پرستی شروع کر دی اور اپنے پیغمبر موسیٰ اور تمام انبیاء کرام سے جنگ و جدال کرتے رہے قرآن اور توریت میں اس کا تذکرہ ہوا ہے۔

ہم یہاں پر نہایت ہی ا ختصارسے کام لیں گے، کیونکہ اگر ہم چاہیں کہ وہ تمام بشارتیں جو خاتم الانبیاء کی بعثت سے متعلق ہیں( ان تمام تحریفات کے باوجود جسکے وہ مرتکب ہوئے ہیں) جوکہ باقی ماندہ آسمانی کتابوں کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہیں اور وہ آسمانی کتابیں جو حضرت خاتم الانبیاء کے زمانے میں اہل کتاب کے پاس تھیں ، اگر ہم ان تمام بشارتوںکو پیش کرنے لگیںتو بحث طولانی ہو جائے گی، البتہ انھیں بشارتوں کے سبب خداوند سبحان چندآیات کے بعد فرماتا ہے:

( الذین أتینا هم الکتاب یعرفونه کما یعرفون ابناء هم و أن فریقاً منهم لیکتمون الحقّ و هم یعلمون ) ( ۱ )

جن لوگوں کو ہم نے آسمانی کتاب دی ہے وہ لوگ اس( پیغمبر) کواپنے فرزندوں کی طرح پہچانتے ہیں یقینا ان کے بعض گروہ حق کو دانستہ طور پر چھپا تے ہیں۔

بنابر این مسلم ہے کہ خاتم الانبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قرآن کے ساتھ بعثت، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کی امت کے مخصوص صفات

____________________

(۱)سورہ بقرہ ۱۴۶.

۳۶

ان چیزوں کی تصدیق ہیں جو اہل کتاب کے نزدیک توریت اورانجیل میں ہیں( عالمین کے پر وردگار ہی سے حمدوستائش مخصوص)

۲۔( لاتلبسواالحقّ بالباطل )

حق کوباطل سے مخلوط نہ کرو کہ حقیقت پوشیدہ ہو جائے یا یہ کہ حق کو باطل کے ذریعہ نہ چھپاؤ کہ ا سے مشکوک بنا کر پیش کرو ۔

۳۔''عدل'':فدیہ ، رہائی کے لئے عوض دینا۔

۴۔''قفّینا'':لگاتار ہم نے بھیجا یعنی ایک کے بعد دوسرے کو رسالت دی۔

۵۔''غلف'' جمعِ اغلف جو چیز غلاف اور پوشش میں ہو۔

۶۔''یستفتحونَ''کامیابی چاہتے تھے، جنگ میں دشمن پر فتح حاصل کر نے کیلئے،یعنی اہل کتاب پیغمبر خاتمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نام لے کر اور انہیں شفیع بنا کر خدا کے نزدیک کامیابی چاہتے تھے۔( ۱ )

۷۔''ننسٔھا: نٔوخّر ھا:''اُسے تاخیر میں ڈال دیا ، ننسٔھا ،ننسِئھٰا کا مخفف اور نسأ کے مادہ سے ہے، یعنی ہر وہ حکم جسے ہم نسخ کریں یا اس کے نسخ میں تاخیر کریں تواس سے بہتر یااس کے مانند لاتے ہیں۔

''نُنْسِھا ،نُنْسِیْھا''کا مخفف مادئہ نسی سے جس کے معنی نسیان اور فراموشی کے ہیں ،نہیں ہو سکتا تاکہ اس کے معنی یہ ہو ںکہ جس آیت قرآن کی قرائت لوگوں کے حافظہ سے بھلا دیتے ہیں تواس سے بہتر یا اس کے مانند لے آئیں گے،جیسا کہ بعض لوگوں نے اسی طرح کی تفسیر کی ہے( ۲ ) کیونکہ:

الف ۔خدا وندمعتال نے خود ہی قر آن کی فراموشی اور نسیان سے حفاظت کی ضمانت لی ہے اور فرمایا ہے:(سنقرئک فلا تنسیٰ)ہم تم پر عنقریب قرآن پڑھیں گے اور تم کبھی اسے فراموش نہیں کر و گے۔

ب۔اس بات میں کسی قسم کی کوئی مصلحت نہیں ہے کہ اس کو لوگوں کے حافظہ سے مٹا دیا جائے،جب کہ خدا وندعالم نے خودآیات لوگوں کے پڑھنے کے لئے نازل کی ہیں پھر کیوں ان کے حافظہ سے مٹا دے گا؟

۸۔ھادوا وھودا، ھادوا: یہودی ہوگئے،ھودا جمع ہے ھائد کی یعنی یہودی لوگ۔

۹۔''( فضلتکم علی العا لمین'' ) : یعنی خدا وند عالم نے تم کو اس زمانے میں مصر کے فرعونیوں ،قوم عمالقہ اور دیگر شام والوں پر فوقیت دی ہے۔

____________________

(۱)تفسیر طبری آیہ مذکورہ

(۲) آیت کی تفسیر سے متعلق تفسیر قرطبی، طبری اور سعد ابن ابی وقّاص سے ا ن دونوں کی روایت کی طرف مراجعہ ہو۔

۳۷

۱۰۔شطر:شطر کے کئی معنی ہیں کہ منجملہ ''جہت'' اور ''طرف''ہیں۔

۱۱۔( ''ماکان ﷲ لیضیع ایمانکم'' ) : خدا وند عالم ہر گز ان نمازوں کوجو تحویل قبلہ سے پہلے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے پڑھی ہیںضائع نہیں کرے گا۔

۱۲۔'' أِذا بدّلنا '': جب بھی جا گزیں کریں، ایک حکم کو دوسرے حکم سے تبدیل کر د یں ، عوض اوربدل کے درمیان یہ فرق ہے کہ:عوض جنس کی قیمت ہوتا ہے اور بدل ا صل کا جا گزیں اور قائم مقام ہوتا ہے۔

۱۳۔''روح القدس'' : ایک ایسا فرشتہ جس کے توسط سے خدا وندعالم قرآن،احکام اور اس کی تفسیرپیغمبر پر نازل کرتا تھا ۔

۱۴۔'' ذی ظفر'': ناخن دار یہاں پر مراد ہر وہ حیوان ہے جس کے سم میں شگاف نہیں ہوتا جیسے اونٹ، شتر مرغ ،بطخ ،غاز، وﷲ عالم بالصواب۔

۱۵۔''الحوایا'': آنتیں.

۱۶۔''ما اختلط بعظم'': وہ چربی جو ہڈی سے متصل ہو ۔

تفسیر آیات

۱۔ آیۂ تبدیل:

وہ آیت جو سورئہ نحل کی مکی آیات کے ضمن میں آئی ہے:خدا وند سبحان ان آیات میں فرماتا ہے : جب کبھی ایک آیت کو دوسری آیت کی جگہ قرار دیتے ہیںیعنی گزشتہ شریعت کا کوئی حکم اٹھا کر کوئی دوسرا حکم جو قرآن میں مذکور ہے اس کی جگہ رکھ دیتے ہیں تو ہمارے رسول سے کہتے ہیں:تم جھوٹ بولتے ہو۔

اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! کہو : قرآنی احکام کو مخصوص فرشتہ خدا کی جانب سے حق کے ساتھ لاتا ہے تاکہ مومنین اپنے ایمان پر ثابت قدم رہیں اور مسلمانوں کے لئے ہدایت اور بشارت ہو، تم جھوٹ بولنے والے یا گڑھنے والے نہیں ہو، جھوٹے وہ لوگ ہیں جوآیات الٰہی پر ایمان نہیں رکھتے،یعنی مشرکین،وہ لوگ خود ہی جھوٹے ہیں۔

۳۸

خدا وندعالم اس کے بعد محل اختلاف کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتا ہے: جو کچھ ہم نے تم کو روزی دی ہے جیسے اونٹ کا گوشت اور حیوانات کی چربی اور اسکے مانندجس کو بنی اسرائیل پر ہم نے حرام کیا تھا،حلال و پاکیزہ طور پر کھاؤ،کیونکہ خدا ونداعالم نے اسے تم پر حرام نہیں کیا بلکہ صرف مردار ،خون ،سؤر کا گوشت اور وہ تمام جانور جن پر خدا کا نام نہ لیا گیا ہو ان کا کھانا تم پر حرام کیاہے،سوائے مضطر اور مجبور انسان کے جو کہ اس کے کھانے پر مجبورہو،یہ وہ تمام چیزیں ہیں جو تم پر حرام کی گئی ہیں تم لوگ اپنے پاس سے نہ کہو:''یہ حرام ہے اور وہ حلال ہے''جیسا کہ مشرکین کہتے تھے اور خدا وندعالم نے سؤرہ انعام کی ۱۳۸سے۱۴۰ویں آیات میں اس کی خبر دی ہے کہ یہ سب مشرکوں کا کام ہے ،رہا سوال یہود کا توخدا وندعالم نے ان لوگوں پر مخصوص چیزوں کو حرام کیا تھا جس کا ذکر سورۂ انعام میں آیا ہے۔

رہے تم اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! تو ہم نے تم پر وحی کی :حلال و حرام میں ملّت ابراہیم کے پیرو رہو اور شریعت ابراہیم کے تمام امور میں سے یہ ہے کہ جمعہ کا دن ہفتہ میں آرام کر نے کا دن ہے،لیکن سنیچر تو صرف بنی اسرائیل کے لئے تعطیل کا دن تھا ان پر اس دن کام حرام تھا جیسا کہ سورۂ اعراف کی ۱۶۳ ویں آیت میں مذکور ہے۔

جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے اس کی بنیاد پر تبدیل آیت کے معنی یہاں پر یہ ہیں کہ صرف توریت کے بعض احکام کو قرآن کے احکام سے تبدیل کرناہے اور شریعت اسلامی کی حضرت ابراہیم خلیل ﷲ کی شریعت کی طرف باز گشت ہے ۔

جو چیز ہمارے بیان کی تاکید کرتی ہے، خدا وندسبحان کا فرمان ہے کہ ارشاد فرما تا ہے:

( و اِذا بد لنا آية مکان آية قالوانما مفتر قل نزّله روح القدس )

کیونکہ لفظ'' نزلہ'' میں مذ کر کی ضمیر آیت کے معنی یعنی ''حکم''کی طرف پلٹتی ہے اور اگر بحث اس آیت کی تبدیل کے محورپر ہوتی جو کہ سورہ کا جز ہے تو مناسب یہ تھا کہ خدا وندسبحان فرماتا:''قل نزلھا روح القدس''یعنی مونث کی ضمیر ذکر کرتا نہ مذکر کی( خوب دقت اور غور و خوص کیجئے)۔

۳۹

۲۔آیۂ نسخ:

یہ آیت سورہ بقرہ کی مدنی آیات کے درمیان آئی ہے،خداوندمتعال ان آیات میں فرماتا ہے:

اے بنی اسرائیل ؛خداوندعالم کی نعمتوں کو اپنے اوپر یادکرو اور اس کے عہد وپیمان کووفا (پورا)کروایسا پیمان جو توریت بھیجنے کے موقع پر ہم نے تم سے لیا تھا اور تم سے کہا تھا :جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے اسے محکم انداز میں لے لواورجو کچھ اس میں ہے اسے یادرکھو۔

اس میں خاتم الانبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت سے متعلق بشارت تھی خدا سے اپنے عہد وپیمان کو وفا کروتا کہ خدا بھی اپنے پیمان کو جو تم سے کیاہے وفا کرے اور اپنی نعمتوں کادنیا واخرت میں تم پر اضافہ کرے اور جو کچھ خاتم الانبیاء پرنازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ کہ وہ یقینا جو کچھ تمہارے پاس کتاب خدامیں موجود ہے سب کا اثبات کرتا ہے، حق کو نہ چھپاؤ اوراسے دانستہ طور پر باطل سے پوشیدہ نہ کرو ،خدا وند عالم نے موسیٰ کو کتاب دی اوران کے بعد بھی رسولوں کو بھیجا کہ انھیں میں سے عیسیٰ ابن مریم بھی تھے وہی جن کی خدانے روشن دلائل اور روح القدس کے ذریعہ تائید کی ،کیا ایسا نہیں ہے کہ جب بھی کسی پیغمبر نے تمہارے نفسانی خواہشات کے خلاف کوئی چیز پیش کی تو تم لوگوںنے تکبر سے کام لیا کچھ لوگوں کوجھوٹا کہا اور کچھ کو قتل کر ڈالا؟اور کہا ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں اوران چیزوں کو ہم نہیں سمجھتے ہیں،اب بھی قرآن خدا کی جانب سے تمہارے لئے نازل ہوا ہے اور جو خبریں تمہارے پاس ہیںان سے بھی ثابت ہے پھر بھی تم اس کا انکار کرتے ہو جبکہ تم اس سے پہلے کفار پر کامیابی کے لئے اس کے نام کو اپنے لئے شفیع قرار دیتے تھے اور اب تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آگئے ہیں اور تم لوگ پہچانتے بھی ہو پھر بھی اس کا اور جو کچھ اس پر نازل ہوا ہے ان سب کا انکار کرتے ہو،تم نے خود کو ایک بری قیمت پر بیچ ڈالاکہ جو خدا نے نازل کیا اس کا انکار کرتے ہو، اس بات پر انکار کرتے ہو کہ کیوں خدا نے حضرت اسماعیل کی نسل میں پیغمبر بھیجا حضرت یعقوب کی نسل میں یہ شرف پیغمبری کیوں عطا نہیں کیا؟لہٰذا وہ غضب خدا وندی کا شکار ہوگئے اور کافروں کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

"اے علی ؑ! اگر خدا تیرے ذریعے کسی ایک آدمی کی ہدایت کر دے تو یہ تیرے لئے ہر اس چیز سے بہتر ہے کہ جس پر سورج کی روشنی پڑ تی ہے۔"(۱)

۲۷ ۔ ستائیسواں عمل:

ہر شخص کو چاہیے کہ اپنی استطاعت کے مطابق امام عصر ؑ کے حقوق ادا کرے اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے۔

بحار الانوار میں مروی ہے کہ امام جعفر صادق ؑ سے پوچھا گیا:

"کیا قائم کی ولادت ہوچکی ہے؟"

فرمایا:

نہیں ، اگر میں انہیں پاتا توساری زندگی ان کی خدمت کرتا رہتا۔"(۲)

مصنف :اے مومنو ! زرا سوچیے!امام صادق ؑ کتنی زیادہ ان کی قدر و منزلت بیان فرما رہے ہیں۔پس اگر آپ امام ؑ کے خادم نہیں بن سکتے تو کم از کم اپنے گناہوں کے ذریعے دن رات انہیں غمگین تو نہ کیجئے۔اگر آپ شہد نہیں دےسکتے تو زہر بھی تو نہ دیں ۔

____________________

۱:- البحار ۸

۲:- بحارالانوار ۵۱/۱۴۸ ح۲۲

۱۰۱

۲۸ ۔ اٹھائیسواں عمل:۔

دعا کرنے والے کو چاہیے کہ اپنے لیے دعا کرنے سے پہلے اللہ سے امام ؑ کے ظہور میں تعجیل کے لیے دعا کرے اور پھر اپنے لیے دعا کرے۔ایک تو امامؑ کی محبت اور ان کے حقوق کی ادائیگی بھی اس چیز کا تقاضہ کرتی ہے اور اس کے علاوہ صحیفہ سجادیہ میں موجود دعاء عرفہ میں بھی یہ چیز واضح ہے۔ اسی طرح بعض دیگر احادیث سے بھی اس امر کی جانب رہنمائی ملتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ امام ؑ کے ظہور میں تعجیل کے لیے دعا کرنے سے اسی (۸۰) سے زائد دنیوی و اخروی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

یہ تمام فوائد اپنے مصادر و ادلۃ سمیت میں نے اپنی کتاب "ابواب الجنات " اور " مکیال المکارم"(۱) میں ذکر کیے ہیں۔اوربعض اس کتاب میں بھی گزر چکے ہیں۔

یہ بات طبیعی اور فکری ہے کہ ایک عقل مند شخص یہ فوائداس دعا پر بھی حاصل کرنا چاہتا ہے کہ جس کے قبول ہونے یا نہ ہونے کا علم بھی نہیں۔ جبکہ امام ؑ کی خاطر دعا کرنا اس کی اپنی دعا کی قبولیت کا سبب بنے گا ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

____________________

۱:- مکیال المکارم ج۱ ص ۳۷۷ باب۵

۱۰۲

جیسا کہ آداب دعا میں دعا سے پہلے محمد وآل محمد ؑ پر صلوات بھیجنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ یہ اپنے بعد والی دعا کی قبولیت کا سبب بنتا ہے۔(۱)

____________________

۱:- الکافی /۲۴۹۱ باب صلوات ح۱۔(امام صادقؑ:دعا اس وقت تک پردے میں چھپی رہتی ہے جب تک محمد و آل محمد پر صلوات نہ پڑھی جائے۔

۱۰۳

۲۹ ۔ انتیسواں عمل:۔

امامؑ کے لیے محبت و دوستی کا اظہار کرنا۔

غایۃ المرام میں مروی ہے کہ رسول خدا ؐ حدیث معراج میں فرماتے ہیں کہ اللہ نے آپؑ سے فرمایا:

"اے محمد ؐ ! کیا آپ انہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔پھر فرمایا آگے بڑھیئے۔پس میں آگے بڑھا تو اچانک علی ؑ ابن بی طالبؑ ،اور حسنؑ ،حسین ؑ،محمد بن علی ؑ ،جعفر بن محمدؑ ،موسی بن جعفرؑ ،علی ابن موسیؑ،محمد بن علیؑ، علی بن محمدؑ،حسن بن علی ؑ اور حجت قائمؑ کو دیکھا کہ ان کے درمیان کوکب دری کی طرح چمک رہے تھے۔

میں نے پوچھا اے پروردگار یہ کون ہیں؟

فرمایا:

یہ آئمہ حق ہیں اور یہ قائم ؑ ہیں کہ جو میرے حلال کو حلال اور میرے حرام کو حرام کرنے والے ہیں۔(۱) اور میرے دشمنوں سےانتقام لیں گے۔

اے محمدؐ ان سے محبت کیجئے ۔بے شک میں بھی ان سے محبت کرتا ہوں اور جو ان سے محبت کرے اس سے بھی محبت کرتا ہوں۔"(۲)

____________________

۱:- یعنی تمام احکام کو ظاہر کریں گے حتی کہ تقیہ کے بغیر عمل کریں گے۔

۲:- غایۃ المرام :۱۸۹ ح۱۰۵ اور ص۲۵۶ ح۲۴

۱۰۴

مصنف : امام ؑ کی محبت کابطور خاص حکم دینے سے(جبکہ تمام آئمہ ؑ سے محبت واجب ہے) یہ پتا چلتاہے کہ ان کی محبت میں اللہ کے اس حکم کے پیچھے کوئی خاص اور معین خصوصیت ہے۔اور ان کے وجود مبارک میں ایسی صفات ہیں جو اس تخصیص کا تقاضا کرتی ہیں۔

۳۰ ۔ تیسواں عمل: ۔

امام ؑ کے انصار اور ان کےخادموں کے لیےدعا کرنا۔

جیسا کہ یونس بن عبد الرحمٰن کی دعا میں آیا ہے کہ جو پہلے گزر چکی ہے۔(۱)

۳۱ ۔ اکتیسواں عمل:

امام ؑ کے دشمنوں پر لعنت کرے۔

جیسا کہ بہت سی روایات سے یہی ظاہر ہوتا ہے۔اور امام ؑ سے وارد ہونے والی دعا میں بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔(۲)

۳۲ ۔ بتیسواں عمل:۔

اللہ سے توسل کرنا ۔

____________________

۱:- جمال الاسبوع ص۳۱۳

۲:- الاحتجاج : ۲/۳۱۶

۱۰۵

تاکہ وہ ہمیں امام ؑ کے انصار میں سے قرار دے۔جیسا کہ دعا عہد وغیرہ میں وارد ہوا ہے۔

۳۳ ۔ تینتیسواں عمل:۔

امام ؑ کے لیے دعا کرتے وقت آواز بلندکرنا:

امام ؑ کے لیے دعا کرتے وقت آواز بلند کرے بالخصوص عام محافل و مجالس میں ۔ اس میں ایک تو شعائر اللہ کی تعظیم ہے اور اس کے ساتھ امام صادقؑ سے مروی دعا ندبہ کے بعض فقرات سے اس کا مستحب ہونا ظاہر ہوتا ہے۔(۱)

۳۴ ۔ چونتیسواں عمل:۔

آپؑ کے اعوان وانصار پر صلوات بھیجنا۔

یہ بھی ان کے لیے دعا ہی کی ایک صورت ہے۔صحیفہ سجادیہ کی دعا عرفہ اور بعض دیگر مقامات میں یہی و ارد ہوا ہے۔

۳۵ ۔ پینتیسواں عمل :۔

امام ؑ کی نیابت میں خانہ کعبہ کا طواف بجا لانا۔

____________________

۱:- عبارت یہ ہے: دعا و استغاثہ کے وقت آواز بلند کرو۔

۱۰۶

کتاب مکیال المکارم میں اس کی دلیل بیان کی ہے۔(۱) یہاں اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے ذکر نہیں کر رہا۔

۳۶ ۔ چھتیسواں عمل:۔

امام ؑ کی نیابت میں حج بجا لانا۔

۳۷ ۔ سینتیسواں عمل:۔

امام ؑ کی نیابت میں حج کرنے کے لیے نائب بھیجے۔

اس کی دلیل وہی ہے جو پہلے خرائج(۲) میں حدیث مروی ہے۔اسے میں نے مکیال المکارم(۳) میں ذکر کیا ہے اور یہ النجم الثاقب(۴) میں بھی موجود ہے۔

۳۸ ۔ اڑھتیسواں عمل:۔

روزانہ کی بنیاد پر یا ہر ممکن وقت میں امام ؑ سے تجدید عہد و تجدید بیعت کرنا۔

جان لیجئے کہ اہل لغت کے ہاں بیعت کا معنی یہ ہے: کسی کام پر عہد اور اتفاق کرنا۔

____________________

۱:- مکیال المکارم ۲/۲۱۶

۲:- الخرائج والجرائح : ۷۳

۳:- مکیال المکارم : ۲/۲۱۵

۴:- النجم الثاقب: ص۷۷۴ (فارسی)

۱۰۷

امام ؑ کے ساتھ عہد اور بیعت کا معنی یہ ہے کہ :

مومن اپنی زبان سے اقرار کرے اور دل سے پختہ عزم کرے کہ وہ امام ؑ کی مکمل اطاعت کرے گاار وہ جب بھی ظہور فرمائیں گے ان کی نصرت و مدد کرے گا۔

دعا عہد صغیر جو پیچھے گزر چکی ہے اور دعا عہد کبیر جو آگے آئے گی ان دونوں میں بیعت کا یہی معنی ظاہر ہوتا ہے۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کسی شخص کے ہاتھ پر ہاتھ رکھنا اس عنوان سے کہ یہ امامؑ کی بیعت ہے تو یہ ایک گمراہ کن بدعت ہے کیونکہ یہ طریقہ قرآن و روایات معصومین ؑ میں سے کسی میں بھی بیان نہیں ہوا ہے۔ ہاں اہل عرب میں یہ بات مشہور تھی کہ ایک شخص اپنا ہاتھ دوسرے کہ ہاتھ پر رکھ کر اس کے ساتھ واضح صورت میں عہد و بیعت کا اظہار کرتا تھا۔

بعض احادیث میں وارد ہوا ہے کہ رسول خدا ؐ نے بیعت کے مقام پر مصافہ کیا۔ پھر اپنامبارک ہاتھ پانی کے ایک برتن میں ڈال کرنکال لیا اور پھر مسلمان عورتوں کو حکم دیا کہ وہ اس برتن میں اپنا ہاتھ ڈالیں ۔ لیکن یہ کام اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ بیعت کی یہ شکل و صوارت ہر زمانے حتی امام ؑ کی غیبت کے زمانےمیں بھی جائز ہے۔بلکہ بعض احادیث سے ظاہر ہوتاہے کہ جہاں امام یا نبی سے بیعت کرنا ممکن نہ ہو وہاں زبانی اقرار اور دل سے عزم کرنے

۱۰۸

پر اکتفاء کرنا واجب ہے۔اس مسئلہ میں ایک مفصل حدیث موجود ہے جسے علماء نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے۔

انہی میں سے ایک تفسیر البرہان میں امام محمد باقرؑ سے مروی ہے کہ رسول خداؐ نے امیرالمومنینؑ کو اپنا خلیفہ بنانے کے بعد ان کے بہت سے فضائل بیان کیے اور پھر فرمایا:

"اے لوگو! تم اس سے زیادہ ہو کہ میرے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ سکو(بیعت کر سکو) اور اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہاری زبانوں سے علیؑ کے امیرالمومنین ہونے کا اور ان کے بعد آنے والے آئمہ کا اقرار لوں کہ جو مجھ سے ہیں اور ان(علیؑ) سے ہیں۔جیسا کہ میں نے تمہیں بتا دیا کہ میری زریت علی ؑ کی صلب سے ہے۔پس تم سب یوں کہو: آپؐ نے امیرالمومنین علیؑ اور ان کی اولاد سے آنے والے آئمہؑ کے بارے میں ہمارے اور آپؐ کے رب کا جو حکم پہنچا دیا ہے ہم نے اسے سنا،اطاعت کی اور اس پر راضی ہیں اور سر تسلیم کرتے ہیں۔۔۔الخ

پس اگر امام کی بیعت کے عنوان سے کسی غیر امام کے ہاتھ پر ہاتھ رکھنا جائز ہوتا تو پھر رسولؐ لوگوں کو حکم دیتے کہ ہر گروہ اکابرین صحابہ میں سے کسی ایک کہ ہاتھ پہ ہاتھ رکھے ۔ جیسے سلمان ،ابوزر وغیرہ۔پس جب ایسا نہیں ہوا تو یہ عمل خود نبی و امام کے زمانہ ظہور کےعلاوہ صحیح نہیں۔جہاد کی طرح کہ جو امام ؑ کے زمانہ ظہور کے ساتھ مختص ہے۔

۱۰۹

اس کے علاوہ یہ بھی مد نظر رہے کہ کسی کتاب کی کسی روایت میں یہ بات وارد نہیں ہوئی کہ آئمہؑ کے زمانہ میں کچھ مسلمانوں نے آئمہ ؑ کے بڑے صحابہ میں سے کسی کے ہاتھ بیعت کی ہواس عنوان سے کہ خود آئمہ ؑ نے ان کے بارے یہ حکم دیا ہےاور ہم اس معاملے میں ان سے مدد لے رہے ہیں۔

۳۹ ۔ انتالیسواں عمل:۔

بعض فقہاء مثلا محدث شیخ حر عاملی نے وسائل الشیعہ میں لکھا ہے کہ :

امام مہدیؑ کی نیابت میں آئمہ معصومین کی قبورکی زیارت کرنا مستحب ہے۔(۱)

۴۰ ۔ چالیسواں عمل:۔

اصول کافی میں مفضل سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق سے سنا کہ وہ فرما رہے تھے:

"اس صاحب امر کی دوٖغیبتیں ہیں۔ان میں سے ایک اپنے اہل کی طرف پلٹ جائے گی۔اور دوسری کے بارے میں کہا جائے گا کہ وہ ہلاک ہوگئے یا کس وادی میں چلے گئے۔میں نے عرض کیا: جب ایسا ہو تو ہم کیا کریں؟ فرمایا:

____________________

۱:- وسائل الشیعہ ج۱۰ ص۴۶۴ ح۱

۱۱۰

جب کوئی مدعی اس بات کا دعوی کرےتو اس سے ایسے سوال کرو کہ جس کا جواب ان جیسی شخصیت دے سکتی ہو۔"(۱)

مصنف:یعنی ہم اس سے ایسے امور کے بارے سوال کریں کہ جن پر لوگوں کا علم نہیں پہنچ سکتا۔مثلا ماں کے رحم میں جنین کے بارے کہ مذکر ہے یا مؤنث ہے؟ اور کس وقت ولادت ہوگی؟ اور ان چیزوں کے بارے میں کہ جنہیں آپ اپنے دلوں میں چھپائے رکھتے ہیں کہ جنہیں صرف اللہ جانتا ہے۔اور حیوانات و جمادات کے ساتھ کلام کرنا۔اور ان کا گواہی دینا کہ یہ سچا ہےاور اس امر میں برحق ہے۔جیسا کہ ایسی چیزیں آئمہ سے کئی بار صادر ہوئی ہیں۔اور کتابوں میں تفصیل سے مذکور ہیں۔

۴۱ ۔ اکتالیسواں عمل:۔

غیبت کبری کےدوران جو شخص امام کی نیابت خاصہ کا دعوی کرے اسے جھٹلانا۔

یہی بات کمال الدین اور احتجاج میں امامؑ کی توقیع شریف میں مذکور ہے۔

۴۲ ۔ بیالیسواں عمل:۔

امام کے ظہور کا وقت معین نہ کرنا۔

____________________

۱:- الکافی ج۱ ص۳۴۰

۱۱۱

جو شخص ایسا کرے اسے جھٹلانا اور اسے کذاب (جھوٹا) کا نام دینا۔امام صادق ؑ کی صحیح حدیث میں ہے کہ آپ نے محمد بن مسلم سے فرمایا:

"لوگوں میں سے جوشخص تمہارے سامنے کسی چیز کا وقت معین کرے تو اس کوجھٹلانے سے مت گھبراؤ کیونکہ ہم کسی کے لیے وقت معین نہیں کرتے۔"(۱)

ایک اور حدیث میں فضیل سے رویت ہے کہ انھوں نے فرمایا:

میں نے امام باقر سے عر ض کیا : کیا اس امر (ظہور مہدیؑ ) کا کوئی وقت معین ہے؟

تو امام نے فرمایا:

وقت معین کرنے والے جھوٹے ہیں۔ وقت معین کرنے والے جھوٹے ہیں۔ وقت معین کرنے والے جھوٹے ہیں۔(۲)

اور کمال الدین میں امام رضا ؑ سے مروی ہے کہ فرمایا: مجھے میرے باپ نے ،انہوں نے اپنےباپ سے، انہو ں نے اپنے آباء سے حدیث بیان کی ہے کہ رسول خدا ؐ سے پوچھا گیا کہ اے رسول خداؐ۔ آپ کی زریت میں سے قائم کب ظہور فرمائیں گے؟ تو فرمایا: ان کی مثال اس گھڑی کی سی ہے جس کے بارے اللہ نے فرمایا:

____________________

۱:- الغیبۃ الطوسی ۲۶۲ اورانہوں نے بحارالانوار ۵۲/۱۰۴ ح۸ سے

۲:- الغیبۃ الطوسی ۲۶۲

۱۱۲

لا يُجَلِّيها لِوَقْتِها إِلاَّ هُوَ ثَقُلَتْ فِي السَّماواتِ وَالأْرْضِ لا تَأْتِيكُمْ إِلاَّ بَغْتَة

"وہی اس کو بروقت ظاہر کردے گا یہ قیامت زمین و آسمان دونوں کے لیے گراں ہے اور تمہارے پاس اچانک آنے والی ہے"۔(۱)

۴۳ ۔ تینتالیسواں عمل:۔

دشمنوں سے تقیہ کرنا:

واجب تقیہ یہ ہے کہ جب بندہ مومن کو عقلا اپنی جان یا اپنے مال یا اپنی عزت پر کسی ضرر اور نقصان کا خوف ہو تو وہ حق کو ظاہر کرنے سے خود کو روک لے۔ بلکہ اگر اپنی جان،مال یا عزت کی حفاظت کے لیے اپنی زبان سے مخالفوں کی موافقت بھی کرنی پڑے تو یہ بھی کر دینی چاہیے۔لیکن ضروری ہے کہ اس کا دل اس کی اس زبانی بات کے مخالف ہو۔

کمال الدین میں امام رضا ؑ سےمروی ہے کہ فرمایا:

"جس کے پاس پرہیزگاری نہیں اس کا دین نہیں اور جس کے پاس تقیہ نہیں اس کا ایمان نہیں ۔تم میں سے اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ صاحب عزت وہ ہے جو سب سے زیادہ تقیہ پر عمل پیرا ہو"۔

پوچھاگیا : اے فرزند رسولؐ : کس وقت تک تقیہ کریں؟

فرمایا:

____________________

۱:- کمال الدین ۲/۳۷۳ اور آیۃ سورۃ اعراف ۱۸۷

۱۱۳

"وقت معلوم کے دن تک۔اور یہ وہ دن ہے کہ جس میں ہم اہل بیتؑ کے قائم ظہور فرمائیں گے۔پس جس نے ظہور قائمؑ سے پہلے تقیہ ترک کر دیا تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔"(۱)

تقیہ کے وجوب پربہت سی روایات موجود ہیں۔ اور جو میں نے تقیہ کا معنی پیش کیا یہ وہی معنی ہے جو کتاب الاحتجاج کے اسی باب میں امیرالمومنینؑ کی حدیث میں مذکور ہے۔ امام ؑ نے اس حدیث میں تقیہ پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ تقیہ ترک کرنے میں تمہاری ذلت ہے اور تمہارے اور مومنین کے خون بہے جانے کا سبب ہے۔۔۔۔الخ(۲)

خصال میں شیخ صدوق نے سند صحیح کے ذریعے امام باقر ؑ سے روایت کی ہے کہ امیر المومنینؑ نے فرمایا:

"دنیا کی مضبوطی چار چیزوں سے ہے:(۳)

۱۔اس عالم سے جو بولنے والا اور اپنے علم پر عمل کرنے والا ہو۔

____________________

۱:- کمال الدین ۲/۳۷۱

۲:- امیر المومنین کی ایک طویل حدیث ہے کہ جس سے ہم نے اپنی ضرورت کا مطلب لیا ہے۔ فرمایا: بچو اس وقت سے کہ تم تقیہ ترک کر دو کہ جس کا میں نےتمہیں حکم دیا تھا کہ اس سے تمہارا اور تمہارے بھائیوں کا خون بہے گا۔۔۔الاحتجاج طبرسی۱/۳۵۵

[۳:- یعنی دین اسلام کا قیام ان چار چیزوں پر موقوف ہے۔

۱۱۴

۲۔اس غنی سے جو دینداروں پر فضل کرنے میں کنجوسی نہیں کرتا۔

۳۔ اس فقیر سے کہ جو اپنی دنیا کے بدلے اپنی آخرت نہیں بیچتا۔

۴۔اس جاہل سے جو علم حاصل کرنے میں تکبر نہیں کرتا۔

پس جب عالم اپنا علم چھپانے لگے،غنی اپنے مال میں کنجوسی کرنے لگے ،فقیر اپنی آخرت کو دنیا کے بدلے بیچ ڈالے،اور جاہل طلب علم سے تکبر کرنے لگے تو دنیا پیچھے کی جانب پلٹ جائے گی۔پھر تمہیں مال کی کثرت اور قوم کا مختلف ٹکڑوں میں بکھرا ہونا تعجب میں نہ ڈالے۔

پوچھا گیا:

اے میرالمومنین ؑ اس زمانے میں زندگی کیسے گزاریں ؟

فرمایا:

ظاہر میں ان کے ساتھ مل کر رہو لیکن باطن میں ان کے مخالف رہو۔ آدمی جو کچھ کماتا ہے اسے وہی ملتا ہے اور جس کے ساتھ محبت کرتا ہے وہ اسی کے ساتھ محشور ہوگا۔اس کے ساتھ اللہ کی طرف سے فرج(کشائش) کا انتطار کرو۔(۱)

____________________

۱:- الخصال ص۱۹۷ ح۵

۱۱۵

اس باب میں بہت سی روایات ہیں جن میں سے کچھ میں نے اپنی کتاب مکیال المکارم(۱) میں ذکر کی ہیں۔

۴۴ ۔ چوالیسواں عمل:۔

گناہوں سے حقیقی توبہ کرنا:

اگرچہ درست ہے کہ حرام اعمال سے توبہ کرنا ہر زمانے میں واجب ہے لیکن اس زمانے (زمانہ غیبت) میں اس کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کیونکہ حضرت صاحب الامر ؑ کی غیبت اور اس کے طولانی ہونے کے اسباب میں سے ایک سبب ہمارے بہت بڑے اور کثیر گناہ ہیں۔پس یہ گناہ ظہور میں رکاوٹ کا باعث ہیں۔ جیسا کہ بحارالانوار میں امیر المومنین ؑ سے روایت ہے اور اسی طرح امام ؑ کی ایک توقیع مبارک کہ جواحتجاج میں مروی ہے کہ فرمایا:

"ہمیں ان سے کوئی چیز روکے ہوئے نہیں ہے سوائے ہم تک پہنچنے والے (وہ اعمال) کہ جنہیں ہم ناپسند کرتے ہیں اور ان سے ان اعمال کا سر زدہونا پسند نہیں کرتے ۔"(۲)

____________________

۱:- مکیال المکارم ۲/۲۸۴

۲:- الاحتجاج ۲/۳۲۵ اور انہوں نے بحارالانوار ۵۳/۱۷۷ سے

۱۱۶

تو بہ یہ ہے کہ اپنے گزشتہ گناہوں پر پشیمان ہو کر مستقبل میں انہیں ترک کرنے کا عزم کرنا۔ اس کی علامت یہ ہے کہ جو واجبات چھوڑے ہیں (انہیں ادا کرکے)ان سے اپنا ذمہ بری کرانا،اور اپنے ذمے لوگوں کے جو حقوق باقی ہوں انہیں ادا کرنا اور گناہوں کی وجہ سے اپنے بدن پر بڑھے ہوئے گوشت کو ختم کرنا اور عبادت کی اس قدر مشقت برداشت کرنا کہ گناہوں کی لذت بھول جائے۔اور یہ چھ کام انجام دینے سے توبہ کامل ہوجاتی ہےاور ویسی توبہ بن جاتی ہے کہ جیسی امیرالمومنینؑ سے متعدد کتابوں میں بیان ہوئی ہے۔

پس اپنے نفس کو خبر دار کرو اوریہ نہ کہو کہ بالفرض اگر میں توبہ کر بھی لوں پھر بھی بہت سے لوگ توبہ نہیں کر یں گے پس امام ؑ کی غیبت جوں کی توں باقی رہے گی۔ پس تمام لوگوں کے گناہ امام ؑکی غیبت کو بڑھاتے ہیں اور ظہور میں تاخیر کا سبب ہیں۔

تو میں جواب میں کہتا ہوں کہ : اگر ساری مخلوق امامؑ کے ظہور میں تاخیر کا سبب ہے تو آپ اپنے نفس کی طرف دیکھیں کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ تونہیں ہے مجھے خوف ہے کہ کہیں آپ بھی ویسے ہی شمار نہ ہونے لگیں جیسے ہارون رشید نے امام موسی کاظم ؑ ،مامون نے امام رضاؑ کو اور متوکل نے امام علی نقی ؑ کو سامرء میں قید کیے رکھا۔

۱۱۷

۴۵ ۔ پینتالیسواں عمل:۔

روضۃ الکافی میں امام صادقؑ سے مروی ہے کہ فرمایا: "جب تم میں سے کوئی قائم ؑ کی تمنا کرے تو اسے چاہیے کہ عافیت میں تمنا کرے کیونکہ اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رحمت بنا کر بھیجا تھا اور قائم ؑ کو انتقام لینے والا بنا کر بھیجے گا۔"(۱)

مصنف:یعنی ہم اللہ سے دعا کریں کہ ہم امامؑ سے اس حال میں ملاقات کریں کہ ہم مومن ہوں اور آخری زمانے کی گمراہیوں سے عافیت میں ہوں تاکہ ہم امام ؑ کے انتقام کا نشانہ نہ بن جائیں۔

۴۶ ۔ چھیالیسواں عمل:۔

لوگوں کو امام ؑ سے محبت کی دعوت دینا۔

مومن کو چاہیے کہ لوگوں کو امام ؑ سے محبت کی دعوت دے۔ ان کے سامنے امام ؑ کے لوگوں پر احسان ، ان کی برکات ،ان کے وجود کے فائدے ،اور ان کی لوگوں سے محبت جیسی باتیں بیان کرکے انہیں امامؑ سے محبت کی طرف

____________________

۱:- الکافی ۸/۲۳۳ ح۳۰۶

۱۱۸

بلائے اور انہیں ان اعمال کی تشویق دلائے کہ جن سے امامؑ کی محبت حاصل کی جاتی ہے۔

۴۷ ۔ سینتالیسواں عمل:۔

امام ؑ کا زمانہ غیبت طویل ہونے کی وجہ سے دل سخت نہ کریں بلکہ مولا کی یاد سے دلوں کو نرم و تروتازہ رکھیں۔اللہ رب العالمین نے قرآن کی سورہ حدید میں فرمایا ہے:

أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَما نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ مِنْ قَبْلُ فَطالَ عَلَيْهِمُ الأْمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فاسِقُون

"کیا مومنین کے لیے ابھی وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر خدا سے اور نازل ہونے والے حق سے نرم ہو جائیں اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی پھر ایک طویل مدت ان پر گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئےاور ان میں سے بہت سے لوگ فاسق ہیں۔"(۱)

اور برہان میں امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے(۲) کہ آپ نے فرمایا: یہ آیۃ

____________________

۱:- سورۃ حدید :۱۶

۲:- البرہان ۴/۲۹۱ ،ج۱

۱۱۹

وَلا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ مِنْ قَبْلُ فَطالَ عَلَيْهِمُ الأْمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فاسِقُون

(ان لوگوں کی طرح نہ ہونا کہ جنہیں اس سے پہلے کتاب دی گئی پھر ان پر مدت طویل ہوگئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اوران میں سے اکثر فاسق ہیں )

زمانہ غیبت کے لوگوں کے لیے نازل ہوئی ہے۔

پھر فرمایا:

اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الأْرْضَ بَعْدَ مَوْتِها

جان لو کہ اللہ زمین کو مردہ ہونے کے بعد پھر زندہ کرے گا۔

امام محمد باقر ؑ نے "زمین کے مردہ ہونے " کا معنی بیان کرتے ہوئے فرمایا: اس سے مراد اہل زمین کا کفرہے اور کافر مردہ ہوتاہے۔اللہ اسے قائم کے ذریعے زندہ کرے گا۔پس وہ زمین میں عدل قائم فرمائیں گے پس زمین زندہ ہو جائےگی اور اہل زمین بھی مردہ ہونے کے بعد زندہ ہو جائیں گے۔(۱)

اور کمال الدین میں امیرالمومنین ؑ سے صحیح سند کے ساتھ روایت ہے کہ فرمایا:

"ہمارے قائم کے لیے ایسی غیبت ہے کہ جس کی مدت طویل ہے گویا میں دیکھ رہا ہوں شیعہ ان کی غیبت میں ریوڑ کی طرح سرگرداں ہیں ۔وہ چراگاہ کی

____________________

۱:- البرہان ۴/۲۹۱ ،ج۴

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303