اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

اسلام کے عقائد(دوسری جلد )25%

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 122583 / ڈاؤنلوڈ: 4697
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(دوسری جلد )

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

آیۂ تبدیل کی شان نزول

جب خدا وند سبحان نے شریعت موسیٰ کے بعض احکام کو دوسرے احکام سے حضرت خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں تبدیل کردیا( جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے) توقریش نے رسول پر شورش کی اور بولے : تم خدا کی طرف جھوٹی نسبت دے رہے ہو!تو خدا وند عالم نے ا ُن کی بات انھیں کی طرف لوٹاتے ہوئے فرمایا:

( واِذا بدّلنا آية مکان آية و ﷲ اعلم بما ینزّل قالوا اِنّما أنت مفتر...) (اِنما یفتری الکذب الذین لایؤمنون بآیات ﷲ ...)( فکلوا ممّا رزقکم ﷲ حلا لاً طیباً ) ( ۱ )

اور جب ہم کسی حکم کو کسی حکم سے تبدیل کرتے ہیں (اور خدا بہتر جانتا ہے کہ کونسا حکم نازل کرے )تو وہ کہتے ہیں : تم صرف ایک جھوٹی نسبت دینے والے ہو ...،صرف وہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں جو خدا کی آیات پر ایمان نہیں رکھتے لہٰذا جو کچھ خدا نے تمہارے لئے رزق معین فرمایا ہے اس سے حلال اور پاکیزہ کھاؤ۔

یعنی کچھ چیزیں جیسے اونٹ کا گوشت ،حیوانات کے گوشت کی چربی تم پر حرام نہیں ہے ، صرف مردار ، خون ، سؤر کا گوشت اور وہ تمام جانورجن کے ذبح کے وقت خدا کا نام نہیں لیا گیا ہے، حرام ہیں، نیز وہ قربانیاں جو مشرکین مکّہ بتوں کو ہدیہ کرتے تھے اسکے بعد خدا وند عالم نے قریش کو خدا پر افترا پردازی سے روکا اور فرمایا : من مانی اور ہٹ دھرمی سے نہ کہو : یہ حلال ہے اور وہ حرام ہے !چنانچہ ان کی گفتگو کی تفصیل سورۂ انعام میں بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( وقالوا هذه أنعام و حرث حجر لا یطعمها اِلاّ من نشاء بزعنمهم و أنعام حرّمت ظهور ها و أنعام لا یذکرون اْسم ﷲ علیها أفترائًً علیه و سیجزیهم بما کانوا یفترون)( و قالوا ما فی بطون هذه الأنعام خالصة لذکورنا و محرّم علیٰ أزواجنا و ِان یکن میتةً فهم فیه شرکاء سیجز یهم و صفهم أنّه حکیم علیم ) ( ۲ )

انھوں نے کہا : یہ چوپائے اور یہ زراعت ممنوع ہے، بجزان لوگوں کے جن کو ہم چاہیں(ان کے اپنے گمان میں )کوئی دوسرا اس سے نہ کھا ئے اور کچھ ایسے چوپائے ہیں جن پر سواری ممنوع اور حرام ہے ! اور وہ

____________________

(۱)نحل ۱۰۱ ، ۱۰۵، ۱۱۴

(۲)انعام ۱۳۸، ۱۳۹

۶۱

چوپائے جن پر خدا کا نام نہیں لیتے تھے اور خدا کی طرف ان سب کی جھوٹی نسبت دیتے تھے عنقریب ان تمام بہتانوں کا بدلہ انہیں دیا جائے گا اور وہ کہتے تھے : جو کچھ اس حیوان کے شکم میں ہے وہ ہم مردوں سے مخصوص ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ہے ! اور اگر مر جائے تو سب کے سب اس میں شریک ہیں خدا وند عالم جلد ہی ان کی اس توصیف کی سزا دے گا وہ حکیم اور دانا ہے۔

سورۂ یونس میں بھی اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( قل أراْیتم ماأنزل ﷲ لکم من رزق فجعلتم منه حراماًوحلالاً قل آأﷲ أذن لکم أم علیٰ ﷲ تفترون ) ( ۱ )

کہو: جو رزق خدا وند عالم نے تمہارے لئے نازل کیا ہے تم نے اس میں سے بعض کو حلال اور بعض کو حرام کر دیا، کیا خدا نے تمھیں اس کی اجازت دی ہے ؟ یا خدا پر افترا پردازی کر رہے ہو؟

اس طرح رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مشر کین قریش کے درمیان حلال و حرام کا مسٔلہ قریش کے خود ساختہ موضوعات سے لے کر شریعت موسیٰ کے احکام تک کہ جنہیں جسے خدا نے مصلحت کی بناء پر حضرت خاتمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں دوسرے احکام سے تبدیل کر دیا ،سب کے سب موضوع بحث تھے۔

مکہ میں قریش ہر وہ حلال و حرام جسے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خداکے فرمان کے مطابق پیش کرتے تھے اور وہ ان کے دینی ماحول کے اور جو کچھ موسیٰ ابن عمران کی شریعت کے بارے میں جانتے تھے اس کے مخالف ہوتا تو عداوت و دشمی کے لئے آمادہ ہو جاتے تھے اسی دشمنی کا مدنیہ میں بھی یہود کی طرف سے سامناہوا، وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان احکام کے بارے میں جو توریت کے بعض حصے کو نسخ کرتے تھے جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے خدا وندعالم سورۂ بقرہ میں اس جدال کو بیان کرتے ہوئے بنی اسرائیل کو خطاب کر کے فرماتا ہے:

( أفکلما جاء کم رسول بما لا تهوی انٔفسکم اْستکبرتم ففر یقاً کذبتم و فریقاً تقتلون ) ( ۲ )

کیا ایسا نہیں ہے کہ جب بھی کسی رسول نے تمہاری نفسانی خواہشات کے برعکس کوئی کسی چیز پیش کی ، تو تم نے تکبر سے کام لیا،لہٰذا کچھ کو جھوٹا کہا اور کچھ کو قتل کر ڈالا؟

____________________

(۱)یونس ۵۹

(۲)بقرہ ۸۷

۶۲

( و اِذا قیل لهم آمنوا بما أنزل ﷲ قالوا نؤمن بما أنزل علینا ویکفرون بما ورائه ) ...)( ۱ )

اور جب ان سے کہا گیا :جو کچھ خدا نے نازل کیا ہی اسپر ایمان لاؤ!تو کہتے ہیں: ہم اس پر ایمان لاتے ہیں جو خود ہم پر نازل ہو اہے اوراس کے علاوہ کا انکار کرتے ہیں۔

اور پیغمبر سے فرماتا ہے:

( ما ننسخ من آية أو ننسها نأت بخیر منها أَومثلها ) )

ہم اُس وقت تک کوئی حکم نسخ نہیں کرتے یااسے تاخیر میں نہیں ڈالتے ہیں جب تک کہ ا س سے بہتر یااس جیسا نہ لے آئیں۔( ۲ )

( ولن ترضیٰ عنک الیهودولا النّصاریٰ حتیٰ تتّبع ملّتهم ) )( ۳ )

یہود ونصاریٰ ہر گز تم سے راضی نہیں ہوں گے جب تک کے ان کے دین کا اتباع نہ کرلو۔

توریت کے نسخ شدہ احکام بالخصوص تبدیلی قبلہ سے متعلق بنی اسرائیل کے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نزاع و جدال کرنے کی خبر دیتے ہوئے خدا وند عالم سورئہ بقرہ میں فرماتا ہے :

''ہم آسمان کی جانب تمھاری انتظار آمیز نگاہ کو دیکھ رہے ہیں ؛ اب اس قبلہ کی سمت جس سے تم راضی اور خشنود ہو جاؤ گے تمہیں موڑ دیں گے ،جہاں کہیں بھی ہو اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف کر لو،اہل کتاب(یہود و نصاریٰ ) خوب جانتے ہیں کہ یہ حق ہے اوران کے رب کی طرف سے ہے اور تم جیسی بھی آیت اور نشانی اہل کتاب کے سامنے پیش کرو وہ لوگ تمہارے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے۔( ۴ )

پس اس مقام پر نسخ آیت سے مراد اس حکم خاص کا نسخ تھا ، جس طرح ایک آیت کو دوسری آیت سے بدلنے سے مراد کہ جس کے بارے میں قریش رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نزاع کر رہے تھے، مکّہ میں قریش اور غیر قریش کے درمیان بعض حلال و حرام احکام کو تبدیل کرنا ہے ۔بنابراین واضح ہوا کہ خدا کے کلام : ''( واِذا بدّلنا آية مکان آية ) '' میں لفظ آیت سے مراد حکم ہے ، یعنی :''( اِذا بدلنا حکماً مکان حکم' ) ' جب بھی کسی حکم کو حکم کی جگہ قرار دیں

اور خدا وندعالم کے اس کلام '' ما ننسخ من آےة أو ننسھا'' سے بھی مراد یہ ہے : جب کبھی کو ئی حکم ہم نسخ کرتے یا اسے تاخیر میں ڈالتے ہیں تواس سے بہتر یااس جیسا اس کی جگہ لاتے ہیں۔

____________________

(۱)بقرہ ۹۱(۲)بقرہ ۱۰۶(۳)بقرہ ۱۲۰(۴) بقرہ۱۴۴ ۱۴۵

۶۳

حکم کو تاخیر میں ڈالنے کی مثال : موسی کی شریعت میں کعبہ کی طرف رخ کرنے کوتاخیر میں ڈالنا اوراس کا بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کے حکم سے تبدیل کرنا ہے کہ اس زمانہ میں بنی اسرائیل کے لئے مفیداور سود مند تھا۔

نسخ حکم اور اسے اسی سے بہتر حکم سے تبدیل کرنے کی مثال خاتم الانبیاء کی شریعت میں بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کے حکم کا منسوخ کرنا ہے کہ تمام لوگ تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنا رخ کعبہ کی طرف کریں۔پس ایک آیت کے دوسری آیت سے تبدیل کرنے کا مطلب ایک حکم کو دوسرے حکم سے تبدیل کرنا ہے ، اس طرح واضح ہو گیا کہ خدا وند عالم جو احکام لوگوں کے لئے مقرر کرتا ہے کبھی انسان کی مصلحت اس حیثیت سے کہ وہ انسان ہے اسمیں لحاظ کی جاتی ہے ایسے احکام نا قابل تغییرو تبدیل ہوتے ہیں جیسا کہ خداوندعالم نے سورۂ روم میں اس کی خبر دیتے ہوئے فرمایا:

( فأ قم وجهک للدین حنیفاً فطرت ﷲ التی فطر الناس علیها لا تبدیل لخلق ﷲ ذلک الدین القیم و لٰکنّ أکثر الناس لا یعلمون ) ( ۱ )

اپنے رخ کو پروردگار کے خالص اور پاکیزہ دین کی طرف کر لو، ایسی فطرت کہ جس پر خدا وندعالم نے انسان کی تخلیق فرمائی ہے آفرینش خدا وندی میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہے یہی محکم و استوار دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

یعنی اُن قوانین میں جنھیں خدا وند عالم نے لوگوں کی فطرت کے مطابق بنائے ہیں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں ہے ،سورۂ بقرہ میں اسی کے مانندخدا کا کلام ہے:

( والوالدات یرضعن أولا دهنّ حولین کاملین لمن أراد أن یتم الرضاعة ) ( ۲ )

اور جو مائیں زمانہ رضاعت کو کامل کرنا چاہتی ہیں ، وہ اپنے بچوں کو مکمل دو سال دودھ پلائیں۔

یہ مائیں کوئی بھی ہوں اور کہیں بھی زندگی گزارتی ہوں ان میں کوئی فرق نہیں ، خواہ حضرت آدم کی بیوی حواہوں جو اپنے نومولودکو درخت کے سائے میں یا غار میں دودھ پلائیں، یاان کے بعد کی نسل ہو ، جو غاروں، خیموںاور محلوں میں دودھ پلاتی ہے دو سال مکمل دودھ پلانا ہے۔

اسی طرح بنی آدم کے لئے کسی تبدیلی کے بغیر روزہ ، قصاص اور ربا (سود) کی حرمت کا حکم ہے، جیسا

____________________

(۱)روم ۳۰

(۲)بقرہ ۲۳۳۔

۶۴

کہ خدا وند سبحان سورۂ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے :

۱۔( یا أيّها الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون ) ( ۱ )

اے صاحبان ایمان! روزہ تم پراسی طرح فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے والوں پر فرض تھا شاید پرہیز گار ہو جاؤ۔

۲۔( یا أيّها الذین آمنواکتب علیکم القِصاص ) )( ۲ )

اے صاحبان ایمان ! تم پر قصاص فرض کیا گیا ہے۔

۳۔( و أحلّ ﷲ البیع وحرّم الرّبا ) )( ۳ )

خدا وندعالم نے بیع کو حلال اور ربا کو حرام کیاہے۔

یہ اور دیگر وہ احکام جسے خدا وندعالم نے انسان کی انسانی فطرت کے مطابق اسکے لئے مقرر فرمایا ہے کسی بھی آسمانی شریعت میں تغییر نہیں کرتے، یہ احکام قرآن میں لفظ''وصّٰی ، یوصیکم، وصےةاور کتب'' جیسے الفاظ سے تعبیر ہوئے ہیں۔

لیکن جن احکام کو خداوندعالم نے خاص حالات کے تحت بعض لوگوں کے لئے مقرر کیا ہے ، ان کی مدت بھی ان حالات کے ختم ہو جانے سے ختم ہوجاتی ہے جیسے وہ احکام جنھیں بنی اسرائیل سے متعلق ہم نے اس سے پہلے ذکر کیا جواُن کے خاص حالات سے مطابقت رکھتے تھے، یا وہ احکام جو خدا وندعالم نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ مکّہ سے ہجرت کرنے والوں کے لئے مقرر فرمائے اور عقد مواخات کے ذریعہ ایک دوسرے کا وارث ہونا انصار مدنیہ کے ساتھ ہجرت کے آغاز میں قانونی حیثیت سے متعارف اور شناختہ شدہ تھا پھر فتح مکّہ کے بعداس کی مدت تمام ہوگئی اور یہ حکم منسوخ ہو گیا، خدا وند عالم سورۂ انفال کی ۷۲ ویں ۷۵ ویں آیت تک اس کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( اِنّ الذین آمنو أوهاجروا )

وہ لوگ جو ایمان لائے اور مکّہ سے ہجرت کی۔

( واّلذین آووا ونصروا )

____________________

(۱)بقرہ ۱۸۳

(۲) بقرہ ۱۷۸

(۳) بقرہ ۲۷۵.

۶۵

اور وہ لوگ جنھوں نے پناہ دی اور نصرت فرمائی یعنی مدینہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے انصار ۔

( أولآء ک بعضهم أولیاء بعض )

ان لوگوں میں بعض ، بعض کے وارث اور ولی ہیں،یعنی میراث لینے اور نصرت کرنے کی ولایت رکھتے ہیں.

( والذین آمنوا ولم یهاجروا مالکم من ولایتهم من شیئٍ حتّیٰ یهاجروا والذین کفروا بعضهم أولیاء بعض )

جن لوگوں نے ایمان قبول کیا لیکن ہجرت نہیں کی تم لوگ کسی قسم کی ولایت ان کی بہ نسبت نہیں رکھتے، یہاں تک کہ وہ ہجرت کریں... اور جو لوگ کافر ہو گئے ہیںاُن میں سے بعض، بعض کے ولی اور سرپرست ہیں۔

پھر خدا نے اس حکم کے نسخ ہونے کو اس طرح بیان فرمایا ہے :

( وأولوا الأرحام بعضهم أولی ببعض فی کتا ب ﷲ )

اقرباء کتاب الٰہی میں آپس میں ایک دوسرے کی بہ نسبت اولیٰ اور سزاوار ترہیں۔

یعنی ان احکام میں جنھیں خدا وند عالم نے تمام انسانوں کے لئے مقرر فرمایا ہے اقرباء کو حق تقدم اور اولویت حاصل ہے۔( ۱ )

خلاصہ، قوم یہود نے جب قرآن کی الٰہی آیات کو سنا اور دیکھا کہ صفات قرآن جو کچھ حضرت خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت کے متعلق ان کے پاس موجود ہے اس کی تصدیق اور اس کاا ثبات کر رہے ہیں تو وہ اس کے منکر ہوگئے اور بولے: ہم صرف اس توریت پر جو ہم پر نازل ہوئی ہے ایمان رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ انجیل اور قرآن پر ایمان و یقین نہیں رکھتے ،خدا وندعالم نے بھی قرآن کی روشن آیات اور اسکے معجزات اور احکا م کے ارسال کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے: فاسقوں(کافروں )کے سوا کوئی اس کا منکر نہیں ہوگا اور پھر فرمایا: ہم شریعت کے ہر حکم کو نسخ کرتے ہیں( جیسے بیت المقدس کے قبلہ ہونے کے حکم کا منسوخ ہونا) یاہم اسے مؤخرکرتے ہیں تواُس سے بہتر یااسی جیسا حکم لوگوں کے لئے پیش کرتے ہیں ، خدا وند عالم خود زمین و آسمان کا مالک ہے ،وہ جو چاہتا ہے انجام دیتا ہے یہود و نصاریٰ رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ہر گز راضی نہیں ہوںگے مگر یہ کہ جوان پر احکام نازل ہوئے ہیںان سے دست بردار ہو جائیں اوران کی شریعت کے احکام کے پابند ہوجائیں۔

خدا وندعالم اسی مفہوم کی دوسرے انداز میں تکرار کرتے ہوئے سورئہ اسراء میں فرماتا ہے:

____________________

(۱)اس آیت کی تفسیر کے لئے مجمع البیان ، تفسیر طبری اور دوسری روائی تفاسیرکی جانب رجوع کیجئے.

۶۶

( و آتینا موسیٰ الکتاب و جعلنا ه هدیً لبنی اِسرائیل ) ( ۱ )

ہم نے موسیٰ کو کتا ب دی اوراسے بنی اسرائیل کی ہدایت کا ذریعہ بنایا،پھر فرماتا ہے :

( انّ هذا القرآن یهدی للتی هی اقوم ) ( ۲ )

یہ قرآن محکم اور استوارترین راہ کی ہدایت کرتا ہے،یعنی قرآن کا راستہ اس سے وسیع اوراستوارتر ہے جو موسی کی کتاب میں آیا ہے۔

ہم نے ربوبیت کے مباحث میں بات یہاں تک پہنچائی کہ رب العالمین نے انسان کے لئے اسکی فطرت اور سرشت کے مطابق ایک نظام معین کیا ہے پھر راہ عمل میں ان مقررات اور قوانین کی طرف راہنمائی فرمائی ہے ، انشاء ﷲ آئندہ بحث میں اس بات کی تحقیق و بر رسی کریں گے کہ رب العالمین کس طرح سے انسان کو دنیا و آخرت میں پاداش و جزا دیتا ہے۔

____________________

(۱) اسرائ۲

(۲)اسرائ۹

۶۷

۲

ربّ العالمین اور انسان کے اعمال کی جزا

الف وب:دنیا و آخرت میں

ج:موت کے وقت.

د:قبر میں

ھ: محشر میں

و:بہشت وجہنم میں

ز:صبر وتحمل کی جزا.

ح: نسلوں کی میراث؛ عمل کی جزا

۱۔

انسان اور دنیا میں اس کے عمل کی جزا

ہم تمام انسان اپنے عمل کا نتیجہ دنیاوی زندگی میں دیکھ لیتے ہیں جو گندم ( گیہوں) بوتا ہے وہ گندم ہی کاٹتا ہے اور جو جَو بوتا ہے وہ جَو کا ٹتاہے اسی طرح سے انسان اپنی محنت کا نتیجہ کھاتا ہے۔

یہ سب کچھ دنیاوی زندگی میں ہمارے مادی کارناموں کے آثار کاایک نمونہ ہے۔ دنیاوی زندگی میں ہمارے اعمال مادی آثار کے علاوہ بہت سارے معنوی آثار بھی رکھتے ہیں مثال کے طور پر انسانوں کی زندگی میں صلۂ رحم کے آثار ہیں،جن کی خبررسول خدا نے دیتے ہوئے فرمایا :

''صلة الرّحم تزید فی العمر وتنفی الفقر''

اقرباء و اعزا ء کے ساتھ صلہ ٔرحم کرنا عمر میں اضافہ اور فقر کو دور کرنے کا باعث ہوتا ہے۔

۶۸

نیز ارشاد فرمایا:

''صلة الرحم تزید فی العمر،وصدقة السر تطفیء غضب الربّ ، و اِنّ قطیعة الرّحم و الیمین الکاذبة لتذرٰان الدیار بلا قِعَ من أهلها و یثقلان الرحم و اِنَ تثقّل الرحم انقطاع النسل''

اقرباء و اعزا ء کے ساتھ صلہ رحم کرنا عمر میں اضافہ کا سبب ہے اور مخفی طور پر صدقہ دینا غضب الٰہی کو خاموش کرتا ہے، یقیناًاقرباء واعزاء سے قطع تعلق رکھنا اور جھوٹی قسم کھانا آباد سرزمینوں کو بر باد اور بار آور رحم کو بانجھ بنا دیتا ہے اور عقیم اور بانجھ رحم، انقطاع نسل کے مساوی ہے۔( ۱ )

یہ جو فرمایا :'' تطفی غضب الرّبّ'' پوشیدہ صدقہ دینا غیظ وغضب الٰہی کو خاموش کر دیتا ہے ، اس سے مراد یہ ہے کہ اگر انسان اپنی (نامناسب) رفتار سے خدا کے خشم وغضب نیز دنیاوی کیفر کا مستحق ہو اور یہ

____________________

(۱) سفینة البحارمادئہ رحم.

۶۹

مقرر ہو کہ اس کے گناہوں کی وجہ سے اس کی جان و مال یا اس سے مربوط چیزوں کو نقصان پہنچے تو یہ پوشیدہ صدقہ اس طرح کی بلا کواس سے دور کردیتا ہے۔

بَلا قِع، بلقع کی جمع ہے ،بے آب وگیاہ ،خشک اور چٹیل میدان اور وادی برہوت ۔( ۱ ) چنانچہ امیر المومنین نے فرمایا:

''وصلة الرّحم فأِنّها مثراة فی المال ومنساة فی الأجل، وصدقة السرّفأنّها تکفرالخطية' '( ۲ )

رشتہ داروں کی دیکھ ریکھ اور رسید گی کرنا مال میں زیادتی اور موت میں تاخیر کا باعث ہے اور پوشیدہ صدقہ گناہ کو ڈھانک دیتا ہے اور اس کا کفارہ ہوتا ہے ۔

نیز فرماتے ہیں :

''و صلة الرحم منماة للعدد''

اقرباء واعزاء کے ساتھ نیک سلوک کرنا افراد میں اضافہ کا سبب ہے۔( ۳ )

ان تمام چیزوں سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ خدا وند عالم اپنی حکمت سے ایسا چاہتا ہے کہ روزی میں زیادتی، نسل میں اضافہ''صلہ رحم'' کی وجہ سے ہونیز تنگدستی اور عقیم ہونا ''قطع رحم'' میں ہو۔

یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی دوتاجرآدمی ایک طرح کا مال بازار میں پیش کرتے ہیں تو ایک کو نقصان ہوتا ہے اور دوسرے کو فائدہ ،پہلے کے نقصان کا سرچشمہ اقرباء سے قطع رحم کرنا ہے اور دوسرے کا فائدہ حاصل کرنا عزیز واقارب سے صلہ رحم کی بنا پر ہے خدا کی طرف سے ہر ایک کی جزا برابر ہے۔

ایسے عمل کی جزا انسان کے ،خدا پر ایمان اور عدم ایمان سے تعلق نہیں رکھتی ہے کیونکہ خدا وندعالم نے انسان کے کارناموں کے لئے دنیا میں دنیاوی آثار اور آخرت میں اخروی نتائج قرار دئے ہیں کہ جب بھی کوئی اپنے ارادہ واختیاراور ہوش وحواس کے ساتھ کوئی کام انجام دے گا تواس کا دنیاوی نتیجہ دنیا میں اور اخروی نتیجہ آخرت میں اُسے ملے گا۔

اسی طرح خدا وندعالم نے اپنے ساتھ انسان کی رفتاراور خلق کے ساتھ اس کے کردار کے مطابق جزا اور پاداش قرار دی ہے ، خواہ یہ مخلوق انسان ہو یا حیوان یا ﷲ کی نعمتوں میں سے کوئی نعمت ہو جس سے خدا نے

____________________

(۱) المعجم الوسیط مادئہ بلقع(۲)نھج البلاغہ خطبہ ۱۰۸(۳) نہج البلاغہ حکمت ۲۵۲

۷۰

انسان کو نوازا ہے، ہر ایک کے لئے مناسب جزا رکھی ہے ،یہ تمام کی تمام ﷲ کی مرضی اور اس کی حکمت سے وجود میں آئی ہیں ،''ربّ العالمین'' نے ہمیں خود ہی آگاہ کیا ہے کہ انسان کے لئے اسکے کردار کے نتیجہ کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے ( یعنی جیسا کردار ہو گا ویسی ہی اس کی جزا وپاداش ہوگی)

( وأن لیس للاِ نسان اِلاّ ما سعیٰ ) ( ۱ )

انسا ن کے لئے اس کی کوشش اور تلاش کے نتیجہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

اسی طرح خبر دی ہے کہ جو دنیا کے لئے کام کرئے گا خدا وند عالم اس کا نتیجہ اسے دنیا میں دکھاتا ہے اور جو کوئی آخرت کے لئے کوشاں ہوگا اسکے کام کی جزا اسے آخرت میں دکھائے گا:

( ومن یرد ثواب الدنیا نؤتیه منها و من یرد ثواب الآخرة نؤته منها وسنجزی الشاکرین ) ( ۲ )

جو کوئی دنیاوی جزا وپاداش چاہتا ہے اسے وہ دیں گے اور جو کوئی آخرت کی جزا چاہتا ہے ہم اسے وہ دیں گے اور عنقریب شکر گزاروں کوجزا دیں گے۔

( مَن کان یریدالحیا ة الدنیا وزینتها نوفّ الیهم أعمالهم فیها وهم فیها لا یبخسون)(اولاء ک الذین لیس لهم فی الاخرة اِلّا النار... )

جو لوگ (صرف) دنیاوی زندگی اور اس کی زینت و آرایش کے طلبگار ہیںان کے اعمال کا کامل نتیجہ ہم اسی دنیا میں دیں گے اور اس میں کسی قسم کی کمی نہیں کی جائے گی اور یہ گرو ہ ان لوگوں کا ہے جن کے حصہ میں آخرت میں سوائے آگ کے کچھ نہیں ہے۔( ۳ )

( مَن کان یرید العاجلة عجلنا له فیها..)( ومن أراد الآخرة و سعیٰ لها سعیها وهو مومن فأولآء ک کان سعیهم مشکوراکلاً نمد هٰؤلاء و هٰؤلاء من عطاء ربّک وما کان عطاء رّبک محظوراً ) ( ۴ )

جو کوئی اس زود گزر دنیا کا طلبگا ر ہو اس کو اسی دنیا میں جزا دی جائے گی... اور جو کوئی دار آخرت کا خوہاں ہو اوراس کے مطابق کوشش کرے اور مومن بھی ہو اس کی کوشش وتلا ش کی جز ا دی جائے گی ، دونوںگروہوں میں سے ہر ایک کو تمھارے پروردگار کی عطا سے بہرہ مند کریں گے اور تمہارے رب کی عطا کبھی ممنوع نہیں قرار دی گئی ہے۔

____________________

(۱)نجم ۳۹.(۲)آل عمران ۱۴۵.(۳)ہود ۱۵ ،۱۶. (۴) اسرا ء ۱۸۔ ۲۰.

۷۱

کلمات کی تشریح

''نوفّ اِلیھم'':ان کا پورا پورا حق دیں گے۔

'' لایبخسون ، لا ینقصون'': ان کے حق میں کسی چیز کی کمی نہیں ہوگی۔

'' محظوراً '': ممنوعاً، حظر یعنی منع، رکاوٹ۔

دنیا وآخرت کی جزا

جو کچھ ہم نے ذکر کیا اس بنیاد پر بعض اعمال ایسے ہیں کہ جن کی جزا انسان دنیا ہی میں دیکھ لیتا ہے ، لیکن ان میں سے بعض اعمال کی جزا قیامت میں انسان کو ملے گی ، مثال کے طور پر کوئی شہید خدا کی راہ میں جنگ کرے اور شہادت کے درجہ پر فائز ہو جائے ،وہ دنیوی جز ا کے دریافت کرنے کا امکان نہیں رکھتا تا کہ اس سے فائدہ اٹھائے ،لہٰذا خدا وندعالم اس کی جزا آخرت میں دے گا جیساکہ فرماتا ہے:

( ولا تحسبّن الذین قتلوا فی سبیل ﷲ امواتاً بل أحیاء عند ربّهم یرزقون) (فرحین بما آتهم ﷲ من فضله و یستبشرون با لذین لم یلحقو ا بهم من خلفهم الا خوف علیهم ولا هم یحزنون)( یستبشرون بنعمة من ﷲ وفضلٍ وأنّ ﷲ لا یضیع أجر المؤمنین ) ( ۱ )

اورجو لوگ راہ خدا میں شہید ہوگئے ہیں انھیں ہر گز مردہ خیال نہ کرو ! بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے خدا کی طرف سے رزق پاتے ہیں ،یہ لوگ اس نعمت کی وجہ سے جو خدا وندعالم نے انھیں اپنے فضل و کرم سے دی ہے ، راضی اور خوشنود ہیں اور جو لوگ ان سے ابھی تک ملحق نہیں ہوئے ہیں ان کی وجہ سے شاد و خرم ہیں کہ نہ انھیں کوئی خوف ہے اور نہ ہی کوئی حزن و ملال وہ لوگ نعمت الٰہی اوراس کی بخشش اور اس بات سے کہ خدا وند عالم نیکو کاروں کی جزا کو ضائع و برباد نہیں کرتا ، مسرور و خوش حال ہیں ۔

اسی طرح اقتدار کے بھوکے انسان اوراس شخص کا حال ہے جو کسی مومن کے ساتھ ظلم وتعدی کر کے اسے قتل کر دیتا ہے، ایسا شخص بھی اپنی جزا آخرت میں دیکھے گا جیسا کہ خدا وندعالم نے ارشاد فرماتا ہے:

( ومن یقتل مؤمناً متعمداً فجزاؤه جهنم خالداً فیها وغضب ﷲ علیه ولعنه وأعدّ له عذاباً عظیماً ) ( ۲ )

____________________

(۱) آل عمران ۱۶۹ ، ۱۷۱

(۲) نساء ۹۳.

۷۲

جو کوئی کسی مومن انسان کو عمدا ( جان بوجھ کر) قتل کر ڈالے اسکی جزا جہنم ہے اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا خدااس پر غضب ناک ہے اوراس نے اسے اپنی رحمت سے دور کر دیا ہے اوراس کے لئے عظیم عذاب مہیا کر رکھا ہے ۔

اسی طرح اس شخص کا حال ہے جو ناقص جسم کے ساتھ دنیا میں آتا ہے جیسے اندھا گونگا ،ناقص الخلقة (جس کی تخلیق میں کوئی کمی ہو) اگر ایسا شخص خدا اور روز قیامت پر ایمان لائے اور اولیاء خدا کا دوست ہو اور اپنے عضو کے ناقص ہونے کی بناء پر خدا کے لئے صبر وتحمل کرے ایسے شخص کو خدا آخرت کی دائمی وجاوید زندگی میں ایسا اجر دے گا کہ جو دنیاوی کمی اور زحمتیںاس نے راہ خدا میں برداشت کی ہیں ان کا اس جزا کے مقابلہ میں قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔( ۱ )

جو کچھ ہم نے ذکر کیا ،اس بنا پر عدل الٰہی آخرت میں عمل کی جزا دریافت کیے بغیر ثابت نہیں ہوتا، خداوند عالم نے دنیاوی زندگی کے بعداعمال کی جزا پانے کیلئے متعدد مراحل قرار دئے ہیں ہم آئندہ بحث میں اس پر گفتگو کریں گے۔

____________________

(۱) دیکھئے : ثواب الاعمال،صدوق باب ''اس شخص کا ثواب جو خدا وند عالم سے اندھے ہونے کی حالت میں ملاقات کرے اوراس نے خدا کے لئے اسے تحمل کیا ہو ، حدیث ۲۱ ، نیز معالم المدرستین، ج ۱، بحث شفاعت،اس ایک نا بینا شخص کی روایت کی طرف رجوع فرمائیں جورسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آیا اور آنحضرت سے درخواست کی کہ حضرت اس کے لئے دعا کریں تا کہ شفا ہو''۔

۷۳

۲۔

انسان اور آخرت میں ا س کی جزا

خود انسان اپنے کھیت میں کبھی گیہوں،مکئی اور سبزیاںاگاتا ہے اور چند ماہ بعداس کا نتیجہ اورمحصول حاصل کرتا ہے اور کبھی انگور، انجیر، زیتون،سیب اور سنترہ لگاتا ہے اور تین یا چار سال بعداس کا نتیجہ پاتا ہے اور کبھی خرما اور اخروٹ بوتا ہے اور ۸ سال یااس سے بھی زیادہ عرصہ کے بعداس سے فائدہ اٹھاتا ہے،اس طرح سے عادی اور روز مرہ کے کاموں کا نتیجہ انسان دریافت کرتا ہے اور اپنے اہل وعیال اوردیگر افراد کواس سے فیضیاب کرتا ہے اس کے با وجود خدا فرماتا ہے:

( اِنّ ﷲ هو الرزّاق ذوالقوة المتین ) ( ۱ )

خدا وند عالم روزی دینے والا ہے وہ قوی اور توانا ہے۔

( ﷲ الذی خلقکم ثّم رزقکم ) ( ۲ )

وہ خدا جس نے تمھیں خلق کیا پھر روزی دی۔

( لا تقتلوا اولا دکم من اِملاقٍ نحن نرزقکم و اِيّاهم ) ( ۳ )

اپنی اولاد کو فقر وفاقہ کے خوف سے قتل نہ کرو کیونکہ ہم تمھیں اور انھیں بھی رزق دیتے ہیں۔

( وکا يّن من دابة لا تحمل رز قها ﷲ یرزقهاو اِيّاکم ) ( ۴ )

کتنے زمین پر چلنے والے ایسے ہیں جو اپنا رزق خود حاصل نہیں کر سکتے لیکن خدا انھیں اور تمھیں بھی رزق دیتا ہے ۔

( و ﷲ فضّل بعضکم علیٰ بعضٍ فی الرّزق ) ( ۵ )

____________________

(۱) ذاریات ۵۸

(۲)روم ۴۰

(۳) انعام ۱۵۱.

(۴) عنکبوت ۶۰

(۵) سورہ نحل ۷۱.

۷۴

خدا وندعالم نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت اور برتری دی ہے۔

جی ہاں! انسان زمین کا سینہ چاک کرتا ہے ، اس میں دانہ ڈالتا ہے، درخت لگاتا ہے ، پانی دیتا ہے ، تمام آفتوں اور بیماریوں کو دور کرتا ہے اس کی دیکھ ریکھ کرتا ہے تاکہ دانہ بن جائے اور بارآور ہو جائے جسے خود وہ بھی کھائے اور جسے دل چاہے کھلائے لیکن خدا وندسبحان فرماتا ہے :

( نحن نرزقکم و ایاّهم )

ہم تمھیں اوران کو روزی دیتے ہیں !

اور خدائے عظیم نے درست فرمایا ہے کیونکہ جس نے آب وخاک میں نباتات کے اگانے کے خواص قرار دئے اور ہمیں بونے اورپودا لگانے کا طریقہ سکھا یا ،وہی ہمیں روزی دینے والا ہے ۔

خدا کے روزی دینے اور انسان کے دنیا میں روزی حاصل کرنے کی مثال، میزبان کا مہمان کو '' self serveic ''والے ہوٹل میں کھانا کھلانے کی مانند ہے کہ جس میں نوکر چاکر نہیں ہوتے اور معمولاً مہمان سے کہا جاتا ہے ،اپنی پذیرائی آپ کیجیے(جو دل چاہے خود لے کر کھائے ) اس طرح کے ہوٹلوں میں میزبان مہمان کوکھانا کھلاتا ہے مہمان جس طرح کی چیزیں پسند کرنا چاہے اسے مکمل آزادی ہوتی ہے لیکن جو کچھ وہ کھاتا ہے میزبان کی مہیا کی ہوئی ہے لیکن اگرکوئی مہمان ایسی جگہ پر داخل ہو اور خود اقدام نہ کرے، چمچے، کانٹے، پلیٹ جو میزبان نے فراہم کئے ہیں نہ اٹھائے اور فراہم کی ہوئی غذا ؤں کی طرف اپنے قدموں سے نہ بڑھے اور اپنی مرضی سے کچھ نہ لے ،تو وہ کچھ کھا نہیں سکے گا،اس کے باوجود جس نے مہمانوں کیلئے غذا فراہم کی ہے و ہی میزبان ہے،ایسی صورت میں بری طرح کھا نے کا احتمالی نقصان بھی مہمان ہی کے ذمہ ہے جس نے خودہی نقصان دہ غذا کھا ئی ہے اور خداوند عظیم نے سورۂ ابراہیم میں کس قدر سچ اور صحیح فرمایا ہے:

( ﷲ الّذی خلق السّموات والأرض و انٔزل من السماء مائً فأخرج به من الثمرات رزقاً لکم و سخر لکم الفلک لتجری فی البحر بأمره وسخر لکم الأنهاروسخر لکم الشمس والقمر دائبین وسخر لکم اللیل و النهار ) ( ۱ )

خدا وندعالم وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو خلق کیا اور آسمان سے پانی نازل کیا اوراس سے تمہارے لئے زمین سے میوے اگائے ،کشتیوں کو تمہارا تا بع قرار دیا، تا کہ دریا کی وسعت میں اس کے حکم

____________________

(۱)ابراہیم ۳۲ ، ۳۳

۷۵

سے رواں دواں ہوں ، نیز نہروں کو تمہارے اختیار میں دیا اور سورج ا ورچاند کو منظم اور دائمی گردش کے ساتھ تمہارا تابع بنا یا اوراس نے روز و شب کو تمہارا تابع قراردیا۔

اور سورۂ نحل میں ارشاد ہوتا ہے:

( و ﷲ أنزل من السماء مائً فأحیا به الارض بعد موتها انّ فی ذلک لاية لقومٍ یسمعون)(و أنَّ لکم فی الأنعام لعبرة نسقیکم مِّما فی بطونه من بین فرثٍ و دمٍ لّبنا خالصاً سائغاً للّشاربین)( و من ثمراتِ النخیلِ و الأعنابِ تتّخذون منه سکراً و رزقاً حسناً انّ فی ذلک لايةً لّقومٍ یعقلون)( و أوحیٰ ربّک اِلی النّحل ان اْتّخذی من الجبال بیوتاً و من الشجر و مّما یعرشون)( ثمّ کلی من کلّ الثّمرات فاْسلکی سبل ربّک ذللاً یخرج من بطونها شراب مختلف ألوانه فیه شفٰاء للناّٰس انَّ فی ذلک لآ يةً لقومٍ یتفکرون ) ( ۱ )

خدا وندعالم نے آسمان سے پانی برسایا ، پس زمین کو مردہ ہو جانے کے بعد حیات بخشی ،یقینا اس میں سننے والی قوم کے لئے روشن علامت ہے اور چوپایوں کے وجود میں تمہارے لئے عبرت ہے،ان کے شکم کے اندرسے گوبراور خون کے درمیان سے خالص دودھ ہم تمھیں پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لئے انتہائی خوشگوار ہے. اورتم درخت کے میووں ،کھجور اور، انگور سے مسکرات اور اچھی اور پاکیزہ روزی حاصل کرتے ہو یقینا اس میں روشن نشانی ہے صاحبان فکرکے لئے، تمہارے رب نے شہدکی مکھی کو وحی کی کہ پہاڑوں، درختوں اور لوگوں کے بنائے ہوئے کو ٹھوں پر اپنا گھر بنائے اور تمام پھلوں سے کھائے اوراپنے رب کے معین راستے کو آسانی سے طے کرے،ا س کے شکم کے اندر سے مختلف قسم کا مشروب نکلتاہے کہ اس میں لوگوں کے لئے شفا ہے یقینا اس میں صاحبان عقل و فکر کے لئے روشن نشانیاں ہیں ۔

کلمات کی تشریح

۱۔'' دا ئبین،مستمرّین'': یعنی ہمیشہ گردش کر رہے ہیں ، معین مسیر میں حرکت اُن کی دائمی شان و عادت ہے ۔

۲۔''فرث '': حیوانات کے معدہ اور پیٹ میں چبائی ہوئی غذا (گوبر)۔

____________________

(۱) نحل ۶۵ ، ۶۹

۷۶

۳۔''مّما یعرشون'': جو کچھ اوپر لے جاتے ہیں ، خرمے کے درختوں کے اوپر جو چھت بنائی جاتی ہے جیسے چھپر وغیرہ۔

آغاز کی جانب باز گشت:

روزی رساںرب ّنے اپنے مہمان انسان کے لئے اس دنیا میں نعمتیں فراہم کیں، روزی کس طرح حاصل کی جائے اور کس طرح بغیر کسی ضرر اور نقصان کے اس سے بہرہ ور ہوں، اس زود گزر دنیا اور آخرت میں ، انبیائ، اوصیاء اور علماء کے ذریعہ اس کی تعلیم دی اور فرمایا:

( یاأيّهاالذین آمنوا کلوا من طیبات مارزقناکم واشکروﷲ ) ( ۱ )

اے صاحبان ایمان ! پاکیزہ چیزوں سے جوہم نے تمہارے لئے روزی دی ہے کھا ؤ اور خدا کا شکر ادا کرو، نیز فرمایا:

( یسٔلونک ماذاأحلّ لهم قل أحلّ لکم الطيّبات ) ( ۲ )

تم سے سوال کرتے ہیں : کون سی چیزان کیلئے حلال کی گئی ہے ؟ کہہ دیجئے تمام پاکیز ہ چیزیںتمہارے لئے حلال کی گئی ہیں۔

نیز خاتم الانبیاء کے وصف میں فرمایا :

( ویحلّ لهم الطیبّات ویحرّم علیهم الخبائث ) ( ۳ )

اوروہ ( پیغمبر)ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال اور نا پاک چیزوں کو حرام کرتا ہے۔

اس لحاظ سے پروردگار سبحان نے ہمیں خلق کیا جوکچھ ہمارے اطراف میں تھا،اسے ہمارا تابع بنا دیا اور اس دنیا میں پاکیزہ چیزوں سے جو کہ ہماری زراعت و کاشت کا نتیجہ ہے ہمیں رزق دیا ،وہ اسی طرح ہمارے اعمال کے نتیجہ کو آخرت میں ہمارے لئے روزی قرار دے گا جیسا کہ فرمایا ہے:

( والذین هاجروا فی سبیل ﷲ ثّم قتلواأوما توالیر زقنّهم ﷲ رزقاً حسناً ) ( ۴ )

وہ لوگ جنھوں نے راہ خدا میں ہجرت کی ، پھر قتل کردئے گئے یا مر گئے ،خدا انھیں اچھی روزی دیگا۔

نیز فرماتا ہے:

____________________

(۱)بقرہ۱۷۲ (۲)مائدہ ۴(۳)اعراف ۱۵۷.(۴)حج۵۸

۷۷

( الاّ مَن تاب وَآمنَ وَ عملَ صٰا لحاً فاُولاء کَ یدخُلُونَ الجنةَ وَلاَ يُظلمونَ شیئاً جنَّاتِ عدنٍ التی وعدالرحمنُ عبٰادهُ بالغیبِ اِنه کٰانَ وَعدهُ ما تيّا لا یسمعونَ فیها لغواً اِلّا سلاماً ولهم رزقُهُم فیها بُکرةً وعَشِيّاً ) ( ۱ )

...مگر وہ لوگ جو توبہ کریں اور ایمان لا ئیں اور شائستہ کام انجام دیں ، پس یہ گروہ بہشت میں داخل ہوگا اوراُس پر ادنیٰ ظلم بھی نہیں ہوگا، دائمی بہشت جس کا خدا وند رحمان نے غیب کی صورت میں وعدہ کیا ہے یقینا خدا کا وعدہ پورا ہونے والا ہے ،وہاں کبھی لغو وبیہودہ باتیں نہیں سنیں گے اور سلام کے علاوہ کچھ نہیں پائیں گے، ان کی روزی صبح وشام مقرر ہے۔

پس ربّ حکیم انسان کے اعمال کی جزا دنیا میں جلدی اور آخرت میں مدت معلوم کے بعدا سے دیتا ہے ، اسی طرح بہت سارے سوروں میں اس نے اس کے بارے میں خبر دی ہے اور سورۂ زلزال میں فرمایا ہے:

( فمَن یعمل مثقال ذرةٍ خَیراً یره ومَن یعمل مثقال ذرةٍ شراً یره ) ( ۲ )

پس جو ذرہ برابربھی نیکی کرے گا وہ اسے بھی دیکھے گا اور جو بھی ذرہ برابر بھی بُرائی کرے گا وہ اسے بھی دیکھے گا ۔

سورۂ ےٰسین میں ارشاد ہوتا ہے:

( فالیوم لا تُظلَمُ نفس شیئاً ولا تجزون اِلاّ ما کنتم تعلمون ) ( ۳ )

پس اس دن کسی پر بھی ذرہ برابر ظلم نہیں ہو گا اور جو تم نے عمل کیا ہی اسکے علاوہ کوئی جزا نہیں دی جائے گی۔

ہاں ، جو اس دنیا میں تلخ اورکڑوا ایلوالگائے گا ایلواکے علاوہ کوئی اور چیزاسے حاصل نہیں ہوگی اور جو اچھے ثمرداردرخت لگائے گا وہ اچھے اچھے میوے چنے گا ۔

جیسا کہ خداوند سبحان سورۂ نجم میں فرماتا ہے:

( وَ اَنْ لیس لِلا نسان اِلاّ ما سعیٰ وَ اَنَّ سعیه سوف یریٰ ) ( ۴ )

انسان کے لئے صرف اتنا ہی ہے جتنی اس نے کوشش کی ہے اور اس کی کوشش عنقریب اس کے سامنے پیش کردی جائے گی ۔

____________________

(۱)مریم ۶۰ ، ۶۳(۲) زلزال ۷، ۸(۳)یسین ۵۴(۴)نجم ۳۹ ،۴۰

۷۸

انسان اپنے اعمال کے نتائج صرف اس دنیا ہی میں نہیںدیکھتا ، بلکہ درج ذیل پانچ مختلف حا لات اور مقامات پر بھی دیکھتا ہے:

۱۔ موت کے وقت

۲ ۔ قبر میں

۳۔ محشر میں

۴۔ بہشت و جہنم میں

۵۔ ورثاء میں کہ عمل کی جزاان کے لئے میراث چھوڑ جاتا ہے۔

اس بحث میں ہم نے دنیا میں انسان کے اعمال کی پاداش کا ایک نمونہ پیش کیا، آئند ہ بحث میں ( انشاء ا )خدا وند متعال موت کے وقت کیسے جزا دیتا ہے اس کو بیان کریں گے۔

۳۔موت کے وقت انسان کی جزا

آخرت کے مراحل میں سب سے پہلا مرحلہ موت ہے ،خدا وند سبحان نے اس کی توصیف میں فرما یا ہے :

( وجاء ت سکرة الموت با لحقّ ذلک ما کنت منه تحید ) ( ۱ )

( اے انسان ) سکرات الموت حق کے ساتھ آ پہنچے ،یہ وہی چیز ہے جس سے تم فرار کر ر ہے تھے!

یعنی موت کی ہولناک گھڑی اور شدت جو آدمی کے عقل پر غالب آ جاتی ہے آپہنچی ،یہ وہی موت ہے کہ جس سے تو ( انسان) ہمیشہ فرار کرتا تھا!

( قُل يَتَوَ فّٰکم ملکُ المَوتِ الذی و کِل بکم ثُّم اِلیٰ ر بّکم تُرجعونَ ) ( ۲ )

اے رسول کہہ دو! موت کا فرشتہ جو تم پر مامور ہے تمہاری جان لے لے گا پھراس کے بعد تم اپنے ربّ کی طرف لوٹا دئے جاؤ گے۔یہ جو خدا وندعالم نے اس سورہ میں فرمایا ہے کہ'' موت کا فرشتہ تمہاری جان لے لے گا '' اور سورہ زمر میں فرمایا ہے :''( ﷲ یتوفی الا نفس ) ''( ۳ ) (خدا وندعالم جانوں کو قبض کرتا ہے) اور سورۂ نحل میں فرمایا ہے :''( تتو فاهم الملا ئکة ) ''( ۴ ) (فرشتے ان کی جان لیتے ہیں) اور سورۂ انعام میں ارشاد فرمایا ہے :( ''تو فته رُسُلُنا ) ' '( ۵ )

ہمارے فرستادہ نمائندے اس کی جان لیتے ہیں ! اِن باتوں میں کوئی منافات نہیں ہے ،کیونکہ: فرشتے خدا کے نمائندے ہیں اور روح قبض کرتے وقت ملک الموت کی نصرت فرماتے ہیں اور سب کے سب خدا کے حکم سے

____________________

(۱)ق ۱۹(۲)سجدہ ۱۱(۳) سورہ زمر۴۲(۴)سورۂ نحل۲۸۔۳۲(۵)انعام۶۱

۷۹

روح قبض کرتے ہیں ، پس در حقیقت خدا ہی روحوں کو قبض کرتا ہے اس لئے کہ وہ فرشتوں کواس کا حکم دیتا ہے۔

آخرت کا یہ مرحلہ شروع ہوتے ہی دنیا میں عمل کا امکان سلب ہو جاتا ہے اور اپنے عمل کا نتیجہ دیکھنے کامرحلہ شروع ہو جاتاہے ، منجملہ ان آثار کے جسے مرنے والا ہنگام مرگ دیکھتا ہے ایک وہ چیز ہے جسے صدوق نے اپنی سند کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا :

''صوم رجب يُهوّن سکرات الموت'' ( ۱ )

ماہ رجب کا روزہ سکرات موت کو آسان کرتا ہے۔

آدمی کا حال اس مرحلہ میں عمل کے اعتبار سے جواس نے انجام دیا ہے دو طرح کا ہے، جیسا کہ خداوند متعال خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( فأ مّا اِن کان من المقربین) (فروح و ریحان و جنّت نعیم) (و أمّا اِن کان من أصحاب الیمین) (فسلامُ لک من أصحاب الیمین)( و أما اِن کان من المکذبین الضّٰا لّین)( فَنُزُل من حمیم.وَ تصليةُ جحیمٍ ) ( ۲ )

لیکن اگر مقربین میں سے ہے تو رَوح ،ریحان اور بہشت نعیم میں ہے لیکن اگر اصحاب یمین میں سے ہے تواس سے کہیں گے تم پر سلام ہو اصحاب یمین کی طرف سے لیکن اگر جھٹلا نے والے گمراہ لوگوں میں سے ہے تو دوزخ کے کھولتے پانی سے اس کا استقبال ہو گا اور آتش جہنم میں اسے جگہ ملے گی۔

خدا وند عالم نے جس بات کا گروہ اوّل ( اصحاب یمین اور مقربین) کو سامنا ہو گااس کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( یا أيّتها النفس المطمئنة اْرجعی اِلیٰ ربّک راضيةً مرضيّةً فادخلی فی عبادی و ادخلی جنّتی )

اے نفس مطمئنہ! اپنے رب کی جانب لوٹ آ اس حال میں کہ تواس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی و خوشنود ہے پس میر ے بندوں میں داخل ہوجا اورمیری بہشت میں داخل ہوجا۔( ۳ )

اوردوسرا گروہ، جس نے دنیاوی زندگی میں اپنے آپ پر ظلم کیا ہے ان کے بارے میں بھی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( حَتَّی ِذَا جَائَ َحَدَهُمْ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُون٭ لَعَلِّی َعْمَلُ صَالِحًا فِیمَا تَرَکْتُ کَلاَّ ِنَّهَا کَلِمَة هُوَقَائِلُهَاوَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخ ِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ ) ( ۴ )

____________________

(۱) ثواب الاعمال باب : ثواب روزہ رجب ،حدیث ۴.(۲)واقعہ۸۸۔ ۹۴.(۳) فجر ۲۷ ، ۳۰.(۴)مومنون ۹۹، ۱۰۰.

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

سے كسى نے بھى حقيقت كا اظہار نہيں كيا _

۶ _ روز قيامت ميں لوگوں كى درك اور فہم مختلف ہوگى _عشراً إذ يقول ا مثلهم طريقة إن لبثتم إلا يوما

ان لوگوں كا موجود ہونا كہ جو نسبتاً صحيح سوچتے ہيں اور دوسروں كى نسبت واقعيت سے قريب تر فيصلہ كرتے ہيں اس تفاوت كو بيان كررہا ہے كہ جو قيامت كے دن لوگوں كے درميان اس لحاظ سے ہوگا_

۷ _ انسانوں كى مہارتيں اور فرق،قيامت كے دن بھى ظہور كريں گے _إذ يقول أمثلهم طريقةً

''أمثلہم طريقةً'' اس شخص كى حالت كو بيان كررہا ہے كہ جس نے ايك دن والا نظريہ پيش كيا اور اس شخص كيلئے آخرت ميں اس حالت كا پيدا ہونا بعيد نظر آتا ہے پس يہ كہنا ضرورى ہے كہ يہ خصوصيت ان مہارتوں كا ظہور ہے كہ جو دنيا ميں انسان كو حاصل ہوئي ہيں _

۸ _ نظريات كا واقعيت سے فاصلہ ان كى قدر و قيمت لگانے اور جاننے كا معيار ہے _إذ يقول أمثلهم طريقة إن لبثتم إلا يوما

۹ _ قيامت كى سختيوں اور عظمت كے مقابلے ميں برزخ كا زمانہ بہت ہى كم اور معمولى ہے _إذ يقول أمثلهم طريقة إن لبثتم إلا يوما

موت سے قيامت تك كى مدت كا كم ظاہر ہونا ظاہراً قيامت اور برزخ كے درميان ايك قسم كے موازنے كا نتيجہ ہے اور اس فيصلے كا سرچشمہ ممكن ہے قيامت كى سختيوں كا مشاہدہ اور اسكے خلود اور دائمى ہونے كو مد نظر ركھنا ہو''إن لبثتم إلا يوماً'' كہنے والے كو حق كے نزديك تر كہنا گويا قرآن كى طرف سے برزخ كے زمانے كے كم ہونے كى تاكيد ہے كيونكہ اس نے ايك روز اور دس روز ميں سے پہلے كو حقيقت سے نزديك تر قرار ديا ہے_

قدر و قيمت لگانا:اس كا معيار ۸

انسان:ان كا اخروى تفاوت ۶، ۷; انكى اخروى فہم ۶

سوچ:اسكى قدر و قيمت كا معيار ۸/خداتعالى :اس كا علم ۳، اس كا علم غيب ۱، ۲

عالم برزخ :اسكى مدت كى كمي۹; اسكى مدت ۳، ۴، ۵

قيامت:اس كے ہول۹; اس ميں حقائق كا ظہور ۷; اسكى خصوصيات ۷

گناہ گار لوگ:انكى اخروى گفتگو ۱

۲۰۱

آیت ۱۰۵

( وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنسِفُهَا رَبِّي نَسْفاً )

اور يہ لوگ آپ سے پہاڑوں كے بارے ميں پوچھتے ہيں كہ قيامت ميں ان كا كيا ہوگا تو كہہ ديجئے كہ ميرا پروردگار انھيں ريزہ ريزہ كر كے اڑادے گا (۱۰۵)

۱ _ قيامت كے دن،دنيا كا نظام اور اس كا جغرافيہ گہرے تغير و تبدل سے دوچار ہوجائيگا _و يسئلونك عن الجبال فقل ينسفها ربي لوگوں كا پيغمبر اكرم(ص) سے قيامت كے دن پہاڑوں كے انجام كے بارے ميں سؤال اس بات كا گواہ ہے كہ موجودہ جہان كا درہم بر ہم ہوجانا ارتكاز كى صورت ميں يا ديگر آيات سے استفادہ كرنے كى وجہ سے لوگوں كے اذہان ميں ايك مسلم چيز تھى ليكن پہاڑوں كى عظمت نے ان كيلئے يہ سؤال پيدا كيا كہ ان كا انجام كيا ہوگا_

۲ _ پہاڑوں كى عظمت اور ان كے محكم و مضبوط ہونے كى وجہ سے كائنات كے انجام كى تحليل كرنے والے ان كے ٹكڑے ٹكڑے ہوكر بكھر جانے كو بعيد سمجھتے ہيں _و يسئلونك عن الجبال فقل ينسفها ربي

۳ _ صدر اسلام كے كچھ لوگ، پيغمبراكرم(ص) سے قيامت كے وقت پہاڑوں كے انجام كے بارے ميں وضاحت طلب كرتے تھے _و يسئلونك عن الجبال

۴ _ قيامت كے وقت زمين كے سب پہاڑ جڑ سے اكھڑ كر اور ٹكڑے ٹكڑے ہوكر بكھر جائيں گے_و يسئلونك عن الجبال فقل ينسفها ربى نسفا ''نسف'' كا معنى ہے جڑ سے اكھاڑنا اور ٹكڑے ٹكڑے ہو كر بكھر جانا (مصباح)

۵ _ قيامت كے وقت پہاڑوں كا ٹكڑے ٹكڑے ہوكر منتشر ہوجانا،خداتعالى كى ربوبيت كا جلوہ اور اسكے حكم سے ہوگا _

فقل ينسفها ربى نسفا

۶ _ لوگوں كا پيغمبر اكرم(ص) سے سوال بعض آيات كے نزول اور ان كيلئے مطالب كے بيان كا سبب بنتا تھا _

و يسئلونك عن الجبال فقل

۷ _پيغمبر اكرم(ص) لوگوں تك معارف الہى كے پہنچانے كا ذريعہ تھے_

۲۰۲

و يسئلونك ...فقل ينسفها ربي

۸ _اللّہ تعالى نے پيغمبر(ص) اكرم كو لوگوں كے سوالوں كا جواب دينے كا طريقہ سكھايا _و يسئلونك فقل ينسفها ربي

۹ _ قيامت اور اس سے پہلے رونما ہونے والے واقعات كے بارے ميں پيغمبر(ص) اكرم كى آگاہي،وحى كى مرہون منت اور علم الہى كے سرچشمہ سے منسلك تھى _و يسئلونك فقل

۱۰ _ صدر اسلام كے مسلمانوں ميں تحقيق اور تفحص كے جذبے كا وجود _و يسئلونك

۱۱ _ معارف الہى اور حقائق دينى كو آہستہ آہستہ بيان كيا گيا _و يسئلونك فقل

خلقت:اس كا انجام ۲

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۳

خداتعالى :اسكے اوامر ۵; اسكى تعليمات ۸; اسكى ربوبيت كي

نشانياں ۵; اسكے علم كا كردار ۹

دين:اس كا تدريجى نزول ۱۱

قرآن مجيد:اسكى آيات كے نزول كا پيش خيمہ ۶

قيامت:اسكے وقت زمين۱; اسكے وقت پہاڑ ۳، ۴، ۵; اسكى نشانياں ۱، ۴

پہاڑ:ان كے محكم ہونے كے اثرات ۲; انكى عظمت كے اثرات ۲; انكے انہدام كا بعيد ہونا۲; انكا منہدم ہونا ۴، ۵; انكے انجام كے بارے ميں سوال ۳; انكا انجام ۲

آنحضرت(ص) :آپ سے سوال ۳، ۶; آپكى تبليغ ۷; آپكا معلم ۸; آپكے علم كے سرچشمہ ۹; آپ كا نقش و كردار ۷

لوگ:صد راسلام كے لوگوں كى پرستش كے اثرات ۶; صدر اسلام كے لوگوں كى پرستش ۳

مسلمان:صدر اسلام كے مسلمانوں كا سوال پوچھنا ۱۰; صدر اسلام كے مسلمانوں كى صفات ۱۰

وحي:اس كا كردار ۹

۲۰۳

آیت ۱۰۶

( فَيَذَرُهَا قَاعاً صَفْصَفاً )

پھر زمين كو چٹيل ميدان بنادے گا (۱۰۶)

۱ _ قيامت والے دن پہاڑ ہموار زمين ميں تبديل ہوجائيں گے_عن الجبال فيذ رها قاعاً صفصفا

''قاع'' كا معنى ايسى ہموار اور صاف زمين ہے كہ جس ميں درخت نہ اگيں اور ''صفصف'' كا معنى ايسى ہموار زمين ہے كہ جس ميں كسى قسم كے نباتات كے اگنے، امكان نہ ہو (لسان العرب)

۲ _ قيامت كے وقت زمين كا جغرافيہ بڑے تغير و تبدل سے دوچار ہوجائيگا _الجبال ينسفها قاعاً صفصفا

۳ _ قيامت كے وقوع پذير ہونے كے وقت سطح زمين ہر قسم كے نباتات سے خالى ہوجائي_فيذرها قاعاً صفصفا

۴ _ قيامت كے وقت،پہاڑوں كو ہموار اور مسطح زمين ميں تبديل كرنا خداتعالى كا كام اور اس كے حكم سے ہوگ

ينسفها ربي فيذ رها قاعا

پہاڑ:ان كو ہموار كرنا ۱

خداتعالي:اسكے افعال ۴; اسكے اوامر ۴

زمين:اسے ہموار كرنے كا سرچشمہ ۴

قيامت:اسكے وقت زمين ۲، ۳، ۴; اسكے وقت پہاڑ ۱; اسكى نشانياں ۱، ۲، ۳

۲۰۴

آیت ۱۰۷

( لَا تَرَى فِيهَا عِوَجاً وَلَا أَمْتاً )

جس ميں تم كسى طرح كى كجى يا ناہموارى نہ ديكھو گے(۱۰۷)

۱ _ قيامت كے دن، سطح زمين كے اوپر معمولى سا نشيب و فراز بھى نظر نہيں آئيگا_لا ترى فيها عوجاً ولا ا مت

''عوج'' اعتدال كى ضد ہے (مصباح) اور ''امت'' كا معنى ہے بلند جگہ اور نشيب و فراز كو بھى كہا جاتا ہے (قاموس) ''لاترى ...'' كا معنى يہ ہے كہ قيامت كے وقت زمين ميں كسى قسم كى ناہموارى اور كجى نظر نہيں آئيگى _

۲ _ زمين،قيامت كے وقوع پذير ہونے اور انسانوں كے محشور ہونے كى جگہ _فيذرها قاعاً صفصفاً لا ترى فيها عوجاً و لا ا مت زمين كا ہموار ہونا ممكن ہے لوگوں كو اٹھنے كيلئے آمادہ كرنے كيلئے ہو بنابراين قيامت اور اس كا خوفناك منظر اسى زمين پر وقوع پذير ہوگا _

حشر:اسكى جگہ ۲

زمين:اسے ہموار كرنا۱; اس كا كردار ۲

قيامت :اس ميں زمين ۱; اسكى جگہ ۲; اسكى خصوصيات ۱

آیت ۱۰۸

( يَوْمَئِذٍ يَتَّبِعُونَ الدَّاعِيَ لَا عِوَجَ لَهُ وَخَشَعَت الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمَنِ فَلَا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْساً )

اس دن سب داعى پروردگار كے پيچھے دوڑ پڑيں گے اور كسى طرح كى كجى نہ ہوگى اور سارى آوازيں رحمان كے سامنے دب جائيں گى كہ تم گھنگھنا ہٹ كے علاوہ كچھ نہ سنوگے (۱۰۸)

۱ _ روز قيامت پہاڑوں كے ٹكڑے ٹكڑے ہوكر بكھرنے كے وقت ايك دعوت دينے والا انسانوں كو قبروں سے باہر آنے كى دعوت ديگا _يومئذ يتبعون الداعى لا عوج له

ظاہراً داعى ،كہ تمام لوگ جسكى اتباع كريں گے اور اسكى ندا پر لبيك كہيں گے سے مراد وہ ہے كہ جو انسانوں كو قبروں سے محشور ہونے كى دعوت ديگا_

۲ _ روز قيامت سب لوگ بغير كسى مخالفت كے اور مكمل نظم كے ساتھ داعى كى ندا كا جواب ديں گے اور اسكى پيروى كريں گے _يومئذ يتبعون الداعى لا عوج له

۲۰۵

ممكن ہے ''لہ'' كى ضمير كامرجع اتباع ہو (جو ''يتبعون'' سے مستفاد ہے) اس صورت ميں ''لاعوج لہ'' كا معنى يہ ہوگا كہ روز قيامت كے داعى كى پيروى ميں كسى قسم كى مخالفت اور انحراف نہيں ہوگا _

۳ _ قيامت ميں انسانوں كو حاضر كرنے كا حكم سب كيلئے اور ہر قسم كى بد نظمى اور كجى سے دور ہوگا _يومئذ يتبعون الداعى لاعوج له ممكن ہے ''لہ'' كى ضمير داعى كى طرف پلٹ رہى ہو اور دعوت ميں ''عوج'' اور كجى كے نہ ہونے سے حاكى ہو _

۴ _ روزقيامت ميں خداتعالى كى حاكميت مطلق كا ظہور_يومئذ يتبعون الداعي

۵ _ ميدان قيامت ميں حاضر لوگ اپنى گفتگو آہستہ آواز كے ساتھ زبان پر لائيں گے _يومئذ خشعت الا صوات للرحمن ''خشوع صوت'' كا معنى آواز كو نيچے لاناہے (تاج العروس)

۶ _ واقعہ قيامت كى عظمت اور اس دن رحمت خدا پر نظريں لگانا آوازوں كو سينوں ميں روك ديگا _يومئذ و خشعت الاصوات للرحمن روز قيامت آواز كو نيچے ركھنے كا سرچشمہ خشوع قلب ہے كہ جو انسان كے اس دن كے مناظر كے مشاہدہ كا نتيجہ ہے _

۷ _ قيامت،خداتعالى كى رحمانيت كے ظہور كا دن _و خشعت الا صوات للرحمن ''رحمن'' يعنى وسيع اور سب كے شامل حال رحمت كا مالك _

۸ _ خدا كى رحمانيت قيامت كے دہشت ناك اور خوفناك منظر ميں سب لوگوں كى اميد اور پناہ گاہ _و خشعت الا صوات للرحمن

۹ _ قيامت كے دن مخفى اور زير لب آواز يا قدموں كى آہستہ آہٹ كے علاوہ انسانوں كى كسى قسم كى آواز سنائي نہيں دے گى _و خشعت الا صوات للرحمن فلا تسمع إلاهمس

''ہمس'' يعنى مخفى آواز اور''همس الا قدام'' مخفى ترين قدم اٹھانے كو كہا جاتا ہے (معجم مقاييس اللغة) اس آيت ميں دونوں معنوں كا احتمال ہے_

اميد:خدا كى رحمانيت كى اميد ۸

انسان:اسكى ا خروى اميد ۸; يہ قيامت ميں ۵; اس ك

۲۰۶

آخرت ميں محشور ہونا ۳; اس كا محشور ہونا ۱، ۲

محشور ہونا:اس كا سب كو شامل ہونا ۳

خداتعالى :اسكى رحمت كى توقع ۶; اسكى اخروى حاكميت ۴; اسكى اخروى رحمانيت ۷، ۸

زمين:اسے ہموار كرنا ۱

قيامت:اس ميں آہستہ بولنا۵، ۹; اسكے منادى كو جواب دينا ۲; اسكى ہولناكياں ۹; اس ميں زمين۱; اس ميں حقائق كا ظہور ۴، ۷; اسكى عظمت ۶; اس ميں آہستہ بولنے كے عوامل ۶; اس كا منادى ۱; اسكى خصوصيات ۶، ۷، ۹

پہاڑ:پہاڑوں كا انہدام ۱

آیت ۱۰۹

( يَوْمَئِذٍ لَّا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلاً )

اس دن كسى كى سفارش كام نہ آئے گى سوائے ان كے جنھيں خدا نے اجازت ديدى ہو اور وہ ان كى بات سے راضى ہو (۱۰۹)

۱ _ روز قيامت،شفاعت كارساز ہوگى _يومئذ لا تنفع الشفعة إلا

شفاعت كے سودمند نہ ہونے كى بات سوائے ان لوگوں كيلئے كہ جن كو اذن ہوگا اصل شفاعت كے مسلم ہونے كو بيان كررہا ہے _

۲ _ شفاعت ايك با ضابطہ اور محدود و معين چيز ہے _يومئذ لا تنفع الشفاعة إلا من أذن

۳ _ شفاعت كا سودمند ہونا ان لوگوں كيلئے ہے كہ جنہيں خداتعالى نے شفاعت كے لائق ہونے كى اجازت دى ہے _لا تنفع الشفعة الا من أذن له الرحمن ممكن ہے ''من أذن لہ الرحمن'' ميں ''مَن'' ''لاتنفع'' كا مفعول ہو اس صورت ميں جملے كا معنى يہ ہوگا كہ قيامت كے دن شفاعت كسى كو فائدہ نہيں پہنچائے گى مگر جنہيں اذن ہوگا _

۲۰۷

۴ _ قيامت كے دن شفاعت كرنے والوں كى شفاعت ان لوگوں كيلئے قبول كى جائيگى كہ جنكى گفتگو سے خداتعالى راضى ہوگا _لا تنفع الشفعة إلا و رضى له قول

۵ _ خداتعالى روز قيامت كا مطلق اور بے چون و چرا حاكم ہوگا _إلا من أذن له الرحمن

۶ _ شفاعت، قيامت كے دن خداتعالى كى مطلق حاكميت كے ساتھ تضاد نہيں ركھتى _يومئذ لا تنفع الشفعة إلا من أذن له الرحمن

۷ _ قيامت كے دن،شفاعت كے وجود اور محدود دائرے ميں اس كے مؤثر ہونے كا سرچشمہ خداتعالى كى رحمانيت ہے _

لا تنفع الشفاعة إلا من أذن له الرحمن

۸ _ قيامت كے دن صرف وہ لوگ شفاعت كريں گے جنہيں خدا كى طرف سے اذن ہوگا _لا تنفع الشفاعة إلا من أذن له الرحمن ممكن ہے جملہ ''لا تنفع ...'' شفاعت كرنے والوں كى طرف ناظر ہو اس احتمال كى بناپر آيت كى تركيب كے سلسلے ميں متعدد وجوہ ذكر كى گئي ہيں ان ميں ايك يہ ہے كہ ''الشفاعہ'' شافع كى طرف اشارہ ہے اور آيت كا حقيقى مفاد يہ ہے كہ ''لا ينفع شافع إلّا ...''

۹ _ قيامت كے دن ان لوگوں كو شفاعت كرنے كى اجازت ہوگى كہ جنكى گفتگو سے خداتعالى راضى ہوگا_لا تنفع الشفاعة إلا من رضى له قول ''ا ذن'' قرينہ ہے كہ جملہ '' رضى لہ قولاً'' قيامت سے مربوط ہے اور اس نكتے كو بيان كر رہا ہے كہ شفاعت كرنے والے اس صورت ميں شفاعت كر سكتے ہيں كہ نادرست بات زبان پر نہ لائيں اور شفاعت كے وقت جو كچھ زبان پر لائيں وہ حق اور خداكو پسند ہو_ يہ بھى بعيد نہيں ہے كہ يہ جملہ شفاعت كرنے والوں كى دنياوى گفتگو كى طرف نظر ركھتا ہو _

۱۰ _ خداتعالى كا راضى ہونا قيامت كے دن انسانوں كى گفتگو كے ثمربخش ہونے كى شرط ہے _و رضى له قول

۱۱ _ انسان كيلئے ضرورى ہے كہ اپنى گفتگو كى دقيق نگرانى كرے اور ايسى گفتگو سے پرہيز كرے جو خداتعالى كى ناراضگى كا موجب ہو _و رضى له قول

۱۲ _ گفتگو كا انسان كى تقدير اور خداتعالى كى خوشنودى اورناراضگى كے حاصل كرنے ميں بڑا كردار ہے _لا تنفع الشفاعة و رضى له قول انسان:اسكى تقدير ميں موثر عوامل ۱۲

خداتعالى :اسكى رحمانيت كے اثرات ۷; اسكى خوشنودى كے اثرات

۲۰۸

۹ ، ۱۰; اسكے غضب سے اجتناب كرنا ۱۱; اس كا اذن ۳، ۸; اسكى اخروى حاكميت ۵; اسكى خوشنودى كا پيش خيمہ ۱۱; اسكے غضب كا پيش خيمہ ۱۲

خداتعالى كى خوشنودي:يہ جنكے شامل حال ہے انكى شفاعت ۴

گفتگو:اسكے اثرات ۱۲; اس كى نگرانى كے اہميت ۱۱

شفاعت:اسكے اثرات ۱; اس كا قطعى ہونا ۱;اسكے شرائط ۳، ۴، ۸; يہ اور خدا كى حاكميت ۶; اس كا تحت قانون ہونا ۲; اس كا دائرہ كار ۲; يہ جنكے شامل حال ہے ۳; اس كا سرچشمہ ۷

شفاعت كرنے والے :ان سے راضى ہونا ۹; انكى شرائط ۹

قيامت:اس كا حاكم۵; اس ميں گفتگو كى تاثير كے شرائط ۱۰; اس ميں شفاعت ۱، ۲، ۷

آیت ۱۱۰

( يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْماً )

وہ سب كے سامنے اور پيچھے كے حالات سے باخبر ہے اور كسى كا علم اس كى ذات كو محيط نہيں ہے (۱۱۰)

۱ _ خداتعالى سب انسانوں كے ماضى و حال سے مكمل اور دقيق آگاہى ركھتا ہے _يعلم ما بين ا يديهم و ما خلفهم

''ما بين ا يديہم'' كى تعبير اس چيز پر بولى جاتى ہے كہ جس كا زيادہ وقت نہ گزرا ہو اور (آيت جيسے) موارد ميں ''ما بين ا يديہم و ما خلفہم''سے مراد سب زمانوں ميں انسان كے سب حالات ہيں قابل ذكر ہے كہ جو چيز افراد كے سامنے ہو اسے بھى ''ما بين ا يديہم'' كہتے ہيں _

۲ _ خداتعالى مخفى اور آشكار كا مطلق جاننے والا ہےيعلم ما بين ا يديهم و ما خلفهم

''آگے اور پيچھے'' ممكن ہے ظاہر اور مخفى سے كنايہ ہو كيونكہ عام طور پر جو چيز انسان كى آنكھوں كے سامنے نہ ہو وہ اس سے مخفى ہوتى ہے_

۳ _ خداتعالى قيامت كے دن شفاعت كرنے والوں كے (ماضي، استقبال اور ظاہراور مخفي) حالات سے مكمل آگاہ ہے _

لا تنفع الشفاعة إلا

۲۰۹

من أذن له يعلم ما بين ا يديهم و ما خلفهم

''ا يديہم'' اور ''خلفہم'' كى ضمير كا مرجع سابقہ آيت ميں مذكور ''من'' ہے كہ جو جمع كے معنى ميں ہے اور لفظ كے اعتبار سے ضمير مفرد اور معنى كے اعتبار سے جمع كى ضمير كا مرجع بن سكتا ہے_

۴ _ بندوں كے اعمال اور حالات سے خداتعالى كى وسيع آگاہي، قيامت كے دن شفاعت والے قانون اور اسكى اجازت كے صادر ہونے يا نہ ہونے كا سرچشمہ ہے _لاتنفع الشفاعة إلا من أذن يعلم ما بين ا يديهم و ما خلفهم

۵ _ مكمل اور دقيق آگاہي، قانون بنانے اور اسے اجراء كرنے والوں كى لازمى شرط ہے_

لاتنفع الشفاعة إلا من أذن له يعلم ما بين ائيديهم و ما خلفهم

۶ _ كوئي بھى شخص،خداتعالى كے علم او رمعلومات پر محيط ہونے كى طاقت نہيں ركھتا _يعلم ما ولا يحيطون به علم

صدر آيت كے قرينے سے خداتعالى كے علمى احاطے سے مراد اسكے معلومات اور اسكے كاموں ميں مخفى اسرار كا احاطہ ہے _

۷ _ انسان، خداتعالى كے كاموں كے سب اسرار اور معياروں سے مطلع ہونے كى طاقت نہيں ركھتا _ولا يحيطون به علم

۸ _ روز قيامت ميں دھوكہ بازى اور شفاعت سے سوء استفادہ كا كوئي راستہ نہيں ہے _

لاتنفع الشفاعة إلا من أذن له يعلم و لا يحيطون به علم

انسان:اس كا عاجز ہونا ۶،۷

خداتعالى :اسكے علم غيب كے اثرات ۴; اسكى خصوصيات ۶; اسكے افعال كار از ۷; اس كا علم غيب ۱، ۲،۳; اسكے اذن كے عوامل ۴; اسكے علم كى وسعت ۱، ۶

شفاعت :اس كا تحت ضابطہ ہونا ۴

شفاعت كرنے والے:يہ قيامت ميں ۲

قانون:اسے اجرا كرنے والوں كے شرائط ۵

قانون بنانے والے:انكے شرائط ۵; انكا علم ۵

قيامت:اس ميں شفاعت ۴، ۸; اس ميں مكر ۸; اسكى خصوصيات ۸

۲۱۰

آیت ۱۱۱

( وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْماً )

اس دن سارے چہرے خدائے حى و قيوم كے سامنے جھكے ہوں گے اور ظلم كا بوجھ اٹھانے والا ناكام اور رسوا ہوگا (۱۱۱)

۱ _ قيامت كے دن خداتعالى كے مقابلے ميں خضوع و خشوع كى علامات سب انسانوں كے چہروں پر منقوش ہوں گى _

و عنت الوجوه للحى القيوم ''عنا'' كا معنى ہے خاضع اور مطيع ہونا (لسان العرب) اور ''وجہ'' كا معنى ہے چہرہ اور چونكہ خضوع و ذلت كے آثار سب سے زيادہ چہرے پر ظاہر ہوتے ہيں اس لئے يہ كلمہ استعمال ہوا ہے ''الوجوہ'' كے ''ال'' كے بارے ميں احتمال ہے كہ يہ استغراق كيلئے ہو يا مضاف اليہ كے عوض ہو اور اس سے مراد ''وجوہ مجرمين'' ہو مذكورہ مطلب پہلے احتمال كى بناپر ہے_

۲ _ مجرمين اور متكبرين روز قيامت ذلت آميز اور خاضع چہروں كے ساتھ خداتعالى كے سامنے حاضر ہوں گے_

و عنت الوجوه للحى القيوم ''عنائ'' كے معانى ميں سے ہے ذليل ہونا (مصباح) اور ''الوجوہ'' ميں ''ال'' مضاف اليہ كى جگہ پر ہے يعنى ''وجوہہم'' اور اس سے مراد ان مجرمين كے چہرے ہيں كہ جنكے بارے ميں گذشتہ آيات ميں بات ہوچكى ہے_ فعل ''عنت'' بتاتا ہے كہ ان كا خضوع تازہ ہے اور اس سے پہلے دنيا ميں خداتعالى كے مقابلے ميں خضوع نہيں كرتے تھے_

۳ _ خداتعالى حى و قيوم (زندہ اور ہستى كو قائم ركھنے والا) ہےو عنت الوجوه للحى القيوم

''قيوم'' اسے كہا جاتا ہے كہ جو خودبخود قائم ہو اور سب چيزوں كا محافظ اور ہر چيز كو اس كا ذريعہ قوام عطا كرنے والا ہو (مفردات راغب)

۲۱۱

۴ _ خداتعالى جہان ہستى كا چلانے والا اور اسكى تدبير كرنے والا ہے اور جہان ہستى كا قوام اور دوام اسكے ذريعے سے ہے _للحى القيوم

بعض اہل لغت كے قول مطابق ''قيوم'' وہ ذات ہے كہ جو مخلوق كے امور كو قائم كرے اور اس نے تمام حالات ميں كائنات كى تدبير اپنى ذمے لے ركھى ہو (لسان العرب) _

۵ _ خداتعالى كى اپنے غير سے مطلق بى نيازى _القيوم

''قيوم'' اسے كہا جاتا ہے كہ جو قائم بالذات ہو اور اپنے وجود ميں غير كا محتاج نہ ہو _(لسان العرب)

۶ _ قيامت كے دن خداتعالى كے دائمى ہونے اور عالم ہستى پر اسكى قيوميت كا ظہور اسكے مقابلے ميں لوگوں كے گہرے خضوع اور ذلت كا سبب ہوگا _و عنت الوجوه للحى القيوم

۷ _ دنيا ميں ہر قسم كا ظلم و ستم قيامت كے دن ظالموں كے كندھوں پر بھارى بوجھ ہوگا _من حمل ظلم

۸ _ ظلم، قيامت كے دن انسان كے نقصان اور محروميت كا سبب ہوگا _و قد خاب من حمل ظلم

''خيبة'' يعنى مطلوب كو ہاتھ سے دے بيٹھنا (مفردات راغب)

۹ _ قرآن سے روگردانى ظلم ہے _و قد خاب من حمل ظلم

گذشتہ آيات قرينہ ہيں كہ ظلم سے مراد قرآن مجيد سے منہ موڑنا ہے كہ جسے ''وزر'' كہا گيا تھا_

۱۰ _ اپنے اور دوسروں كے حق ميں ہر قسم كے ظلم و ستم سے پرہيز كرنا ضرورى ہے_و قد خاب من حمل ظلم

۱۱ _ ستم كرنے والے (قيامت كے دن) شفاعت كرنے اور شفاعت كے لائق ہونے كے اذن سے محروم ہوں گے_

يومئذ لاتنفع الشفاعة و قدخاب من حمل ظلم

۱۲ _ قيامت كے دن صرف وہ مجرمين ناكام اور محروم ہوں گے كہ جنكے پاس كچھ ايمان اور عمل صالح نہيں ہوگا_من حمل ظلم بعد والى آيت ميں جملہ''ومن يعمل من الصالحات ...'' اس بات كا قرينہ ہو سكتا ہے كہ''من حمل ظلماً'' مطلق نہيں ہے بلكہ صرف وہ لوگ مراد ہيں كہ جو نہ مؤمن ہيں اورنہ نيكوكار _

خلقت:اسكى تدبير ۴; اسكى بقا كا سرچشمہ ۴

اسما و صفات:حي۳; صفات جلال۵; قيوم ۳

۲۱۲

انسان:يہ قيامت ميں ۱; اس كا اخروى خضوع ۱، ۶; اسكى اخروى ذلت ۶; اس كا اخروى حليہ ۱

خداتعالى :اسكے دائمى ہونے كا اثرات ۶; اسكى قيوميت كے اثرات ۶; اسكى بے نيازى ۵; اسكى تدبير۴; اسكے مقابلے ميں خضوع ۶; اسكے مقابلے ميں خضوع كى نشانياں ۱

نقصان:اخروى نقصان كے عوامل ۸

شفاعت:اس سے محروم لوگ ۱۱

سركشى كرنے والے:انكا اخروى خضوع۲; انكى اخروى ذلت۲; انكا اخروى حليہ ۲

ظلم:اسكے اثرات ۸_اس سے اجتناب كى اہميت ۱۰ اس كا آخرت ميں بھارى ھونا۷

قرآن كريم:اس سے روگردانى كرنے كا ظلم ۹

قيامت:اس ميں خضوع۶; اس ميں شفاعت ۱۱

كفار:انكى اخروى محروميت ۱۲

گناہ گار لوگ:انكا اخروى خضوع۲; انكى اخروى ذلت۲; انكا اخروى حليہ ۲; انكى اخروى محروميت ۱۲

آیت ۱۱۲

( وَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا يَخَافُ ظُلْماً وَلَا هَضْماً )

اور جو نيك اعمال كرے گا اور صاحب ايمان ہوگا وہ نہ ظلم سے ڈرے گا اور نہ نقصان سے (۱۱۲)

۱ _ مؤمنين جو اعمال صالح ركھتے ہيں قيامت كے دن اپنے كام كے ثمرات ميں ہر قسم كى كمى اور تباہى سے محفوظ ہوں گے _و من يعمل من الصلحت و هو مؤمن فلا يخاف ظلماً و لا هضم

''ہضم'' يعنى ناقص كرنا اور كم كرنا (مصباح) پس''لايخاف ظلماً و لا هضماً'' يعنى نہ اس پر كوئي ستم كو روا ركھے گا تا كہ اس كا ناحق مؤاخذہ كرے اور نہ اسكے عمل كى جزا ميں نقصان اور كمى آئيگي_

۲۱۳

۲ _ قيامت كے دن مؤمنين كے امن اور قلبى سكون كا انحصار دنيا ميں ان كے اعمال صالح پر ہے_و من يعمل من الصلحت فلايخاف ظلماً و لا هضم ''من الصلحت'' ميں ''من'' تبعيض كيلئے ہے اور دلالت كر رہا ہے كہ قيامت كے دن مؤمنين كى نجات كيلئے بعض اعمال صالح كا صدور كافى ہے_

۳ _ بے ايمانى اور اعمال صالح سے دورى ايسے ظلم ہيں كہ جو روز قيامت انسان كے دامنگير ہوں گي_و قدخاب من حمل ظلماً و من يعمل من الصلحت و هو مؤمن اس آيت اور اس سے پہلے والى آيت كے درميان مقابلے سے يہ ظاہر ہے كہ اس آيت كا موضوع ظالموں كے مقابل والا گروہ ہے_

۴ _ خداتعالى بندوں كا مو اخذہ كرنے ميں ہرگز حق سے تجاوز نہيں كرتا_فلايخاف ظلماً و لا هضم

ظلم اور ہضم كے درميان فرق كے سلسلے ميں كئي احتمالات ديئے گئے ہيں ان ميں سے ايك يہ ہے كہ ظلم يعنى حق سے زيادہ كا مطالبہ كرنا اور ہضم يعنى حق سے كم كرنا_

۵ _ قيامت كے دن اعمال كى پاداش عادلانہ اور ہر قسم كے نقص و كمى سے دور ہوگي_و من يعمل فلايخاف ظلماً و لاهضم

۶ _ ايمان، قيامت كے دن اعمال صالح كے ثمربخش ہونے اور انكى مكمل جزا سے بہرہ مند ہونے كى شرط ہے_

و من يعمل و هو مؤمن فلايخاف ظلماً و لا هضم

آخرت ميں مؤمن كے عمل كى جزا ميں كمى كى نفى اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ ايمان نہ ہونے كى صورت ميں انجام ديا گيا عمل صالح نقص اور كمى سے دوچار ہوجائيگا_

۷ _''عن ا بى جعفر (ع) فى قوله'' لا يخاف ظلماً و لا هضماً'' يقول: لا ينقص من عمله شيء و ا ما ''ظلماً'' يقول: لن يذهب به ; امام محمد باقر(ع) سے خداتعالى كے اس فرمان''لايخاف ظلماً و لاهضماً'' كے بارے ميں روايت كى گئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا خداتعالى فرماتا ہے كہ اس كے اعمال سے كمى نہيں كى جائيگى اور (كلمہ) ''ظلما'' (تو خداتعالى اس كلمے كے ساتھ) فرما رہا ہے كہ اسكے اعمال ختم نہيں ہوں گے_(۱)

اسما و صفات:صفات جلال ۴

ايمان:اس سے روگردانى كرنے كے اخروى آثار ۳; اسكے اخروى آثار ۶; اس سے روگردانى كرنے كا ظلم ۳

____________________

۱ ) تفسير قمى ج۲ ص ۶۷_ نورالثقلين ج۳، ص ۳۹۵ج ۱۲۳_

۲۱۴

پاداش:اس ميں عدل۵

خداتعالى :خداتعالى اور ظلم ۴; خداتعالى كا عدل ۴

روايت: ۷

ظلم:اسكے اخروى آثار ۳

عمل:اسكى بقا ۷; اسكى اخروى جزا ۵; اسكى اخروى سزا ۵

عمل صالح:اس سے اعراض كے اخروى اثرات ۳; اسكے اخروى اثرات ۱; اسكى پاداش ۶; اس سے اعراض كا ظلم ۳

قيامت:اس ميں عدل ۵

سزا:اس ميں عدل ۵

مؤمنين:ان كے اخروى سكون كے عوامل ۱; ان كے اخروى امن كے عوامل۱

آیت ۱۱۳

( وَكَذَلِكَ أَنزَلْنَاهُ قُرْآناً عَرَبِيّاً وَصَرَّفْنَا فِيهِ مِنَ الْوَعِيدِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ أَوْ يُحْدِثُ لَهُمْ ذِكْراً )

اور اسى طرح ہم نے قرآن كى عربى زبان ميں نازل كيا ہے اور اس ميں طرح طرح سے عذاب كا تذكرہ كيا ہے كہ شايد يہ لوگ پرہيزگار بن جائيں يا قرآن ان كے اندر كسى طرح كى عبرت پيدا كردے (۱۱۳)

۱ _ قرآن ايسى كتاب ہے جو فصيح اور واضح بيان كے ساتھ خداتعالى كى جانب سے نازل ہوئي ہے_

و كذلك ا نزلناه قرء انا عربي

''عربياً''كا معنى يا تو فصيح اور واضح ہے (مفردات راغب) اور يا يہ اسكے عرب زبانوں كى طرف منسوب ہونے كو بيان كررہا ہے (لسان العرب) مذكورہ مطلب پہلے معنى كى طرف ناظر ہے _

۲ _ حقائق و معارف كو بيان كرنے ميں بيان كا واضح ہونا تبليغ كيلئے لازمى خصوصيات ميں سے ہے_

قرآنا عربياً و صرفنا فيه من الوعيد لعلهم يتقون

۳ _ قرآن عربى زبان ميں نازل ہوا ہے اور يہ اسكے قواعد و ضوابط كے مطابق ہے _و كذلك ا نزلناه قرء انا عربي

مذكورہ مطلب اس احتمال كى طرف ناظر ہے كہ ''عربياً'' عربوں كى مخصوص زبان كے معنى ميں ہو_

۴ _ قرآن، پيغمبر(ص) اكرم پر نازل شدہ كتاب كا نام ہے_ا نزلنه قرء انا عربي

۲۱۵

۵ _ قرآن مختلف اور گوناگون دھمكيوں اور تہديدات پر مشتمل ہے_و صرفنا فيه من الوعيد

''صرف'' يا ''تصريف'' كا معنى ہے ايك چيز كو ايك حالت سے دوسرى حالت ميں پھيرنا يا اسے تبديل كرنا_ قابل ذكر ہے كہ تصريف ميں زيادہ مبالغہ ہے (مفردات راغب) بنابراين ''صرفنا ...'' سے مقصود يہ ہے كہ ہم نے دھمكيوں كو مختلف صورتوں ميں پيش كيا ہے _

۶ _ بيان كا متنوع ہونا اور اسكى مختلف صورتوں كو پيش كرنا تبليغ و تربيت ميں قرآن كى ايك روش ہے_و صرفنا فيه من الوعيد لعلهم يتقون

۷ _ انسان ميں روح تقوى كا پيدا ہونا نزول قرآن كے اہداف ميں سے ہے_ا نزلنه لعلهم يتقون

۸ _ قرآن كے واضح بيانات كى مخالفت سے لوگوں كو باز ركھنا قرآن كى دھمكيوں كا فلسفہ _و صرّفنا فيه من الوعيد لعلهم يتقون

قرآن سے روگردانى كرنے والوں كو گذشتہ آيات ميں دھمكياں ملنا نيز جملہ ''ا نزلناہ قرآنا عربياً'' اس بات كا قرينہ ہے كہ ''يتقون'' كا متعلق قرآن سے روگردانى كرنا ہے_

۹ _ انسان ميں روح تقوى كا پيدا كرنا دھمكيوں اور تہديدات كے استعمال كا محتاج ہے_و صرفنا فيه من الوعيد لعلهم يتقون

۱۰ _ انسان كو متنبہ كرنا ا ور اسے ياد دہانى كرانا قرآن كے اہداف اور اس كے واضح بيانات ميں سے ہے_

و صرفنا فيه من الوعيد لعلهم ا و يحدث لهم ذكرا

''ذكر'' نسيان اور بھولنے كى ضد ہے( مقابيس اللغة) پس ''ذكر'' يعنى فراموش نہ كرنا اور دل ميں محفوظ ركھنا _

۱۱ _ خداتعالى قرآن كے الفاظ اور كلمات كو نظم دينے والا اور متنوع آيات كے قالب ميں انسان كو متنبہ كرنے والا ہے_

ا نزلناه قرء انا عربياً و صرفنا فيه من الوعيد

(نزول كى حالت ميں ) قرآن كے عربى ہونے كا وصف بيان كرنا اس بات سے حكايت كرتا ہے كہ قرآن كے محتوا كے علاوہ اسكے الفاظ بھى خداتعالى كى طرف سے ہيں _

۱۲ _ قرآن كے معارف لوگوں كيلئے قابل درك ہيں _

۲۱۶

و صرفنا فيه من الوعيد لعلهم يتقون

۱۳ _ قرآن كى مكرر اور متنوع تنبيہات كو سنجيدہ لينا اور اسكے معارف اور تعليمات كو خاطر ميں ركھنا ضرورى ہے_

ا نزلناه لعلهم يتقون ا و يحدث لهم ذكرا

''لعل'' اميد كے اظہار كيلئے ہے اور خداتعالى كے كلام ميں اس سے مقصود مخاطبين كى اميد ہے يعنى يہ مخاطبين كو فراہم شدہ حالات سے فائدہ اٹھانے كى دعوت ديتا ہے اور بيان كرتا ہے كہ اسكے نتيجے سے اميدوار ہونا چاييے_

۱۴ _ قيامت اور مجرمين كے مستقبل كے حالات كى تشريح تقوا كے پيدا ہونے اور انسان سے غفلت كو دور كرنے كا سبب ہے_و كذلك ا نزلناه لعلهم يتقون ا و يحدث لهم ذكرا

''كذلك'' ميں حرف كاف تشبيہ كيلئے ہے اور يہ گذشتہ آيات كو تقوا اور ياد دہانى پيدا كرنے كيلئے آيات الہى كے نمونے كے طور پر متعارف كر رہاہے _/انسان:اس كا خبردار ہونا ۱۰

تبليغ:اس ميں بيان كا متنوع ہونا ۶; اسكى روش ۶; اسكے شرائط ۲; اس ميں فصاحت ۲

ياد دہانى كرانا:انسان كو ياد دہانى كرانا ۱۰

تقوا:اس كا پيش خيمہ ۷، ۹، ۱۴

خداتعالى :خداتعالى كا نقش اور كردار ۱۱

ذكر:قرآن كى دھمكيوں كا ذكر ۱۳

غفلت:اسے دور كرنے كا پيش خيمہ۱۴

قرآن كريم:اسكى تعليمات ۵; اسكے بيان كا متنوع ہونا ۵، ۱۱; اسكے فہم كا آسان ہونا ۱۲; اس كا عربى ہونا ۳; اسكى فصاحت ۱; اسكے نزول كا فلسفہ ۷، ۱۰; اسكى دھمكيوں كا فلسفہ ۸; اسكى مخالفت سے ممانعت ۸; اسكى تدوين كا سرچشمہ ۱۱; اس كا وحى ہونا ۱; اس كا واضح ہونا ۱، ۱۲; اسكى دھمكياں ۵، ۱۱; اسكى خصوصيات ۱، ۳

قيامت :اسكے واقعات كا بيان كرنا ۱۴

گناہ گار لوگ:نكے انجام كا بيان كرنا ۴

محمد-(ص) :آپ كى آسمانى كتاب ۱۴

دھمكي:اسكے اثرات ۹

۲۱۷

آیت ۱۱۴

( فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِن قَبْلِ أَن يُقْضَى إِلَيْكَ وَحْيُهُ وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْماً )

پس بلند و برتر ہے وہ خدا جو بادشاہ برحق ہے اور آپ وحى كے تمام ہونے سے پہلے قرآن كے بارے ميں عجلت سے كام نہ ليا كريں اور يہ كہتے رہيں كہ پروردگار ميرے علم اضافہ فرما (۱۱۴)

۱ _ خداتعالى ،بلند مرتبہ حقيقت، بے نظير اور كمال كے عروج پر ہے_فتعلى الله

''تعالى '' كا معنى ہے بلند مرتبہ اور اس سے مراد خداتعالى كى صفات كا مخلوقات كى صفات سے برتر ہونا ہے _

۲ _ خداتعالى كائنات كا حقيقى مالك اور اس كا مطلق فرمان روا ہے_فتعلى الله الملك

۳ _ خداتعالى حق محض ہے اور اس ميں كسى قسم كا باطل روا نہيں ہے_فتعلى الله الملك الحق

۳ _ خداتعالى كے افعال اور موجودات كى آفرينش حكيمانہ اور خردمندانہ ہے _الحق

حق اسے كہا جاتا ہے كہ جو كسى چيز كو حكمت كى بنياد پر خلق كرے (مفردات راغب)

۵ _ خداتعالى كى عالم ہستى پر فرمانروائي اور اسكى مالكيت ايسى ثابت حقيقت ہے كہ جس كا فنا ہونا ممكن نہيں ہے _

الملك الحق

''حق'' يعنى واجب و ثابت (مصباح) اور آيت ميں ''الحق'' ممكن ہے ''الملك'' كى صفت ہو نيز ممكن ہے يہ '' الله '' كى دوسرى صفت ہو اور اسكے صفت ''الملك'' كے بعد مذكور ہونے كو مد نظر ركھتے ہوئے مذكورہ نكتہ حاصل ہوتا ہے _

۶ _ حق كى حكومت خداتعالى سے مخصوص ہے_

الملك الحق

۶ _ قرآن كا نزول خداتعالى كى مطلق فرمانروائي اس كى حقانيت اور اسكے بلند مرتبہ ہونے كا ايك جلوہ ہے_

و كذلك انزلنه فتعلى الله الملك الحق ''فتعلي'' ميں ''فائ'' تفريع كيلئے ہے اور اس بات پر دلالت كررہى ہے كہ اسكے بعد كے مطالب تك پہنچنا اسكے ماقبل كى طرف توجہ كا نتيجہ ہے_

۸ _ قيامت كا عظيم واقعہ، كائنات ميں بڑى تبديلياں اور اس كا دقيق اور عادلانہ نظام خداتعالى كے بلند مرتبہ اسكى مطلق فرمانروائي اور ہر قسم كے باطل سے منزہ ہونے كے جلوے ہيں _فتعلى الله الملك الحق

۲۱۸

اس آيت كا سابقہ آيات كے ساتھ ارتباط كہ جو قيامت كے قريب كے اور روز قيامت كے واقعات كے بارے ميں تھيں _ مذكورہ نكتے كو بيان كررہا ہے_

۹ _ پورے قرآن كا نسبتاًجلدى نزول اور اسكى آيات كے مجموعے كى جلدى تكميل پيغمبر اكرم(ص) كا قلبى تقاضا _و لاتعجل بالقرء ان من قبل ا ن يقضى إليك وحيه اس آيت كريمہ كے نزول كى علت كے بارے ميں مختلف آراء ہيں ۱_ پيغمبر(ص) اكرم جبرائيل كى قرائت كے ہمراہ آيات كى قرائت كرتے تا كہ مكمل طور پر اسكے حصول سے مطمئن ہوجائيں _

۲ _ پيغمبر(ص) اكرم آيات كا معنى واضح ہونے سے پہلے اسے اصحاب كو لكھوا ديتے تھے_

۳ _ پيغمبر(ص) اكرم كم وقت ميں پورے قرآن كا نزول چاہتے تھے اور چونكہ ''القرء ان'' كى تعبير پورے قرآن كے مراد ہونے كے ساتھ زيادہ سازگار ہے اسلئے تيسرے احتمال كو ترجيح دے جاسكتى ہے_

۱۰ _ پيغمبر(ص) اكرم وحى كے ختم ہونے سے پہلے قرآن كى آيات كو زبان پر جارى كرتے اور انكى تلاوت ميں عجلت سے كام ليتے _*و لاتعجل بالقرء ان من قبل ا ن يقضى إليك وحيه

۱۱ _ پيغمبر(ص) اكرم آيات قرآن كو حفظ كرنے اور انہيں سپرد خاطر كرنے كيلئے بہت اشتياق ركھتے تھے _

و لاتعجل بالقرء ان من قبل ا ن يقضى إليك وحيه كہا جاچكا ہے كہ جبرائيل كى قرائت كے ہمراہ پيغمبر اكرم(ص) كے قرائت كا محرك وحى كے كامل حصول كا اطمينان تھا_

۱۲ _ خداتعالى نے پيغمبراكرم (ص) كو وحى كے ختم ہونے سے پہلے آيات كى تلاوت ميں عجلت نہ كرنے كى نصيحت كي_

و لا تعجل بالقرء ان من قبل ا ن يقضى إليك وحيه

۱۳ _ قرآن پورے كا پورا وحى الہى ہے_من قبل ا ن يقضى إليك و حيه

۱۴ _ پيغمبراكرم(ص) پر قرآن كى آيات اور كلمات كا نزول

۲۱۹

تدريجى تھا_و لا تعجل بالقرء ان من قبل ا ن يقضى إليك وحيه

۱۵ _ پيغمبراكرم(ص) قرآن كى آيات كے تدريجى نزول سے پہلے اس سے آگاہ تھے_*ولاتعجل بالقرء ان من قبل ا ن يقضى إليك وحيه آيت كے بارے ميں مذكور احتمالات ميں سے ايك يہ ہے كہ جب بھى جبرائيل پيغمبراكرم(ص) كے سامنے كوئي نئي آيت پڑھتے تو آپ(ص) چونكہ پہلے سے ہى پورے قرآن سے آشنا تھے_ كيونكہ شب قدر ميں اسے حاصل كرچكے تھے_ اسلئے آيت كا بعدوالا حصہ خودہى آگے آگے تلاوت كرتے جاتے اور اس آيت ميں آپ (ص) كو ہر آيت كى وحى كے مكمل ہونے تك پورى طرح خاموش رہنے كا حكم ديا گيا ہے_

۱۶ _ قرآن كا مكرر نزول _ولاتعجل بالقرء ان

مذكورہ مطلب اس احتمال كى بنيادپر ہے كہ پورا قرآن شب قدر ميں نازل ہوا تھا كہ جسكے نتيجے ميں پيغمبر(ص) اكرم آيات كے تدريجى نزول سے پہلے ہى ان سے آگاہ تھے_

۱۷ _ علم كے زيادہ ہونے كى دعا، خداتعالى كى طرف سے پيغمبراكرم(ص) كو نصيحت_و قل رب زدنى علما

۱۸ _ علم انسان كيلئے ايك لامتناہى چيز ہے اور ہميشہ قابل اضافہ ہے _و قل رب زدنى علما

۱۹ _ علم، خداتعالى كا عطيہ ہے اوريہ اسكى ربوبيت سے نشأت پكڑتا ہے _و قل رب زدنى علما

۲۰ _ قرآن ، علم ميں اضافہ كرتا ہے_ولاتعجل بالقرء ان و قل رب زدنى علما

۲۱ _ خداتعالى انبياء كو تعليم دينے والا اور انكى تربيت كرنے والا ہے_و قل رب زدنى علما

۲۲ _ خداتعالى كے علم كے مقابلے ميں پيغمبر(ص) اكرم كا علم محدود اور قابل اضافہ تھا _و قل رب زدنى علما

۲۳ _ پورے قرآن كے نزول ميں جلدى نہ كرنا اور ہر آيت كے نزول كے ختم ہونے تك مكمل خاموشى خداتعالى كى جانب سے علوم پيغمبر(ص) ميں اضافے كا سبب _و لاتعجل بالقرء ان و قل رب زدنى علما

۲۴ _ پيغمبر(ص) اكرم كا علم و آگاہى آپ (ص) كيلئے خدا كا عطيہ_و قل رب زدنى علما

۲۵ _ جلد بازى اور عجلت،تحصيل علم كى آفات ميں سے ہيں _ولا تعجل بالقرء ان و قل رب زدنى علما

۲۶ _ علم ميں اضافہ كيلئے بارگاہ الہى ميں دعا كرنا ضرورى

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303