اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

اسلام کے عقائد(دوسری جلد )0%

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

اسلام کے عقائد(دوسری جلد )

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

صفحے: 303
مشاہدے: 118049
ڈاؤنلوڈ: 4156


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 118049 / ڈاؤنلوڈ: 4156
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(دوسری جلد )

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد 2

مؤلف:
اردو

یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی ایک کی موت کا وقت آجاتا ہے تو کہتا ہے : میرے رب مجھے واپس کر دے شاید جو میں نے ترک کیا ہے اس کے بدلے عمل صالح انجام دے لوں، ایسا نہیں ہے ! یہ ایک بات ہے جو وہ اپنی زبان پر جاری کرتاہے ! اوران کے پیچھے قیامت تک کے لئے برزخ ہے۔

کلمات کی تشریح:

۱۔''یتوفّی'': مکمل اور تمام دریافت کرتا ہے، یعنی خدا وند عالم یا ملک الموت اس کی جان مکمل طور پرلے لیتے ہیں ،سوتے وقت بھی ایسا ہوتا ہے جب آدمی کی قوت ادراک اور بعض حواس کام نہیں کرتے جیسے کہ اس کی روح قبض کرلی گئی ہو۔

۲۔ ''حمیم'': کھولتا ہو اپانی ۔

۳۔''تصلےة جحیم'': جہنم میں کھولتے ہوئے پانی سے جلانا۔

۴۔'' برزخ'': دوچیز کے درمیان حد اور مانع ۔

انسان اس مرحلہ میں دنیاوی زند گی کی تمامیت اور اپنے تمام اعضاء کی موت کا احساس کرتا ہے لیکن اس کے بعد کی شناخت کے لئے بجزاخبار انبیاء کوئی وسیلہ نہیں رکھتا ، لہٰذا اگر انبیاء کی تصدیق کی ہے اوران پر اور وہ جو کچھ خدائی صفات اور شریعت الٰہی بیان کئے ہیںان سب پر ایمان رکھتاہے تو و ہ عا لم ا خرت اور اس کے مختلف مراحل پر بھی ایمان لے آئے گا ، عالم آخرت کے بار ے میں جو کہا گیا ہے اس کا، عالم دنیا میں جو دیکھا اور پہچانا ہے اس سے مقائسہ ممکن نہیں ہے ، کیونکہ ہمارے وسائل محدود اور اس دنیاوی زندگی سے مخصوص ہیں لیکن آخرت کے بارے میں انبیاء کی خبروں کی بررسی و تحقیق کا،جیسا کہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں کوئی عملی راستہ نہیں ہے۔

منجملہ وہ روایات جو آخرت اور زندگی کے آخری لحظات کے بارے میں ہمیں ملی ہیں ان میں سے ایک روایت وہ ہے جو امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :

''من مات ولم یحجّ حجّة الاِسلام دُونما مانع یمنعهُ فلیمُت ان شاء یهودیاً أو نصرانیا ً''( ۱ )

جس کسی کو موت آجائے اور وہ بغیر کسی قابل قبول عذر کے اپنا واجب حج ترک کردے تو اسے اختیار ہے چاہے تو یہودی مرے چاہے تو نصرانی۔

____________________

(۱)ثواب الاعمال ، باب '' حج ترک کرنے والے کی سزا '' حدیث ۲.

۸۱

۴۔

قبر میں انسان کی جزا

جن چیزوں سے ميت کو قبر میں سامنا ہوگاان سے روائی کتابیں بھری پڑی ہیں: دو مامور فرشتوں کے عقائد سے متعلق سوال( ۱ ) سے لے کر حسن سلوک اور بد سلو کی نیز اپنی زندگی کی ہر حرکت و سکون کے آثار دیکھنے تک او ر یہ کہ قبر ميت کے لئے جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا آگ کے گڈھوں میں سے ایک گڈھا ہے۔( ۲ ) اورجو کوئی چغل خوری کرے یا پیشاب کرتے وقت نجاست کی پرواہ نہ کرے قبر میں عذاب سے دوچار ہوگا( ۳ ) اور جس کا اخلاق اچھا ہو گا قبر میں داخل ہونے کے وقت سے لیکر قیامت میں حساب وکتاب کے آخری مرحلہ تک اچھی جزا پاتا رہے گا۔( ۴ ) اور جو کوئی اپنا رکوع صحیح انجام دے قبر میں اس پر کسی قسم کا کوئی خوف نہیں ہوگا۔( ۵ )

____________________

(۱)سفینة البحار میں مادئہ '' نکر'' ملاحظہ ہو

(۲) سفینة البحار میں مادئہ '' قبر'' ملاحظہ ہو۔

(۳) ثواب الاعمال ،صدوق ، ص ۲۹۵ ، ح ۱ ؛صحیح مسلم ، کتاب الطہارة ، باب'' الدلیل علی نجاسة البول'' ص ۲۴۰۔ ۲۴۱ ؛ سنن دارمی ، کتاب الطہارة ، سنن ابی داؤد ، کتاب الطھارة ، باب'' الاستبراء من البول'' ج ۱ ، ص ۳۴ ، ۳۵ ؛ سنن ابن ماجہ ، کتاب الطہارة ، باب''ا التشدید فی البول'' ج۱ ، ص ۱۲۴ ، ۱۲۵ ؛ مسند احمد ، ج۱ ، ص ۲۲۵ ، ج۵ ،ص۴۶۶اور ۴۱۷ اور ۴۱۹ ؛صحیح بخاری ، کتاب الوضو، باب ''من الکبائران لا یستر من بولہ'' ج۱، ص۶۴، کتاب الادب ، باب الغیبة ج۸ ، ص ۲۰ اورباب ''النمیمة من الکبائر''ج۸ ، ص۲۱ ۔

(۴)ثواب الاعمال ، ص۱۸۰،باب'' برادر مومن کو خوش کرنے کا ثواب''

(۵)سفینة البحار ، مادئہ ''رکع''

۸۲

۵۔

انسان اور محشر میں اس کی جزا

الف: صور پھونکنے کے وقت

محشر کے دن کاآغازحساب وکتاب کے لئے صور پھونکتے ہی ہو جائے گا ،''صور''عربی لغت میں شاخ کے مانند ایک چیز ہے، اسمیں پھونک مارتے ہیں تو اس سے آواز نکلتی ہے خداوند سبحان فرماتا ہے:

( و نفخ فی الصور فصعق مَن فی السماوات و مَن فی اِلٔاّرض الّا مَن شاء ﷲ ُ ثُّم نُفخَ فیه أخریٰ فا ذا هم قِیام ینظُرُون ) ( ۱ )

اورصور پھونکا جائے گا پس زمین وآسمان کے درمیان جتنے لوگ ہیں سب مر جائیں گے جزان لوگوں کے جنھیں خدا چاہے ،پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا اچانک سب یک بارگی اٹھ کھڑے ہوں گے جیسے کہ انتظار میں ہوں۔

''صعق'': یہاں پر ایک ایسی آواز ہے جس کااثر موت ہے حدیث میں ''نفخ'' کے لئے ایک تفسیر بیان ہوئی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے: صوردو مرتبہ پھونکا جائے گا:

پہلی مرتبہ:

پہلی مرتبہ جب اسرافیل صور پھونکیں گے اور تمام زمین وآسمان کے موجودات مر جائیں گے سوائے ان لوگوں کے جنھیں خدا چاہے حاملان عرش ، جبرائیل ، میکائیل اورعزرائیل اِس کے بعد خدا وند عالم ملک الموت سے کہے گا: کون باقی بچا ہے؟ کہیں گے: خدایا !ملک الموت ،جبرائیل ، میکائیل اور حاملان عرش کے علاوہ اور

____________________

(۱)زمر ۶۸

۸۳

کوئی باقی نہیں بچا، خداوند عالم فرمائے گا : جبرائیل اور میکا ئیل سے کہو: مر جائیں اوران کی روح قبض کرلی جائے ، اس کے بعد ملک الموت سے کہے گا :کون بچا ہے ؟ ملک الموت جواب دیں گے: خدا یا ! ملک الموت اور حاملان عرش کے علاوہ کوئی باقی نہیں ہے! کہے گا : حاملان عرش سے کہو مر جائیں اوران کی روح قبض کر لی جائے اسکے بعد فرمائے گا :اے ملک الموت اب کون بچا ہے؟عرض کریں گے: ملک الموت کے علاوہ کوئی نہیں بچا ہے، ارشاد قدرت ہوگا : تم بھی مر جاؤ، ملک الموت بھی مر جائے گا،اب خدا وند ذوالجلال آواز دے گا :

( ''لمن الملک الیوم ) ٫٫آج کس کی حکومت ہے''؟

جب کوئی جواب نہیں دے گا،تواُس وقت خدا وند ذوالجلال خود ہی اپنا جواب دیتے ہوئے فرمائے گا:

( ''ﷲ الواحدِ القهار٫٫ ) خدا وندیکتاو قہار کی حکومت ہے''۔( ۱ )

اُس کے بعد جب چاہے گا دوبارہ صور پھونکے گا جیسا کہ خود ہی فرماتا ہے: پھر دوبارہ صور پھو نکے گا اچانک سب کے سب ا ٹھ کھڑے ہوں گے جیسے کہ انتظار میں ہوں۔( ۲ )

دوسری مرتبہ:

خداوند عالم ا س کے بارے میں ارشاد فرماتاہے:

۱۔( ونفخ فی الصور فجمعنا هم جمعاً )

صورپھونکا جائے گاتوہم سب کو اکٹھا کریں گے۔( ۳ )

۲۔( و یوم ینفخُ فی الصور ففزعَ مَن فی السمواتِ و مَن فی الٔرض الّا من شاء ﷲ و کلّ أتوهُ ٰاخرین ) ( ۴ )

جس دن صور پھونکا جائے گا آسمان و زمین کے رہنے والے سب کے سب وحشت کے دریا میں غرق ہوںگے، جز ان کے جنھیں خد ا چاہے گا اور سب کے سب خضو ع کے ساتھ سرجھکائے اس کے حضور میں حاضر ہوں گے۔

۳۔( ونفخ فی الصورفاِذا هم من الأجداث الیٰ ربهم ینسلون)(قالوا یاویلنا مَن بعثنا من )

____________________

(۱) مومن ۱۶ (۲)الدر المنثور سیوطی ،۵ ۳۳۶، ۳۳۷؛ و بحار بہ نقل از کافی وغیرہ ۶ ۳۲۶، ۳۲۷ ۔(۳)کہف ۹۹ (۴)نمل ۸۷

۸۴

( مرقد نا هذاماوعد الرحمن وصدق المرسلون)( ان کانت الّا صیحة ًواحدةً فاذاهم جمیع لدینا محضرون)(فالیومَ لا تُظلم نفس شیئاًً ولا تُجزونَ اِلّاما کُنتم تعملون ) ( ۱ )

صور پھونکا جائے گا ، نا گاہ وہ لوگ اپنی قبروں سے ا ٹھ کرتیزی کے ساتھ اپنے ربّ کی طرف دوڑ یں گے اور کہیں گے ہم پر وائے ہو! کس نے ہمیں ہماری آرام گاہ سے اٹھاد یا ؟ یہ وہی ہے جس کا خدا وند رحمن نے وعدہ کیا تھا اورا س کے فرستادہ افراد نے سچ کہا تھا ،یہ روداد ایک چیخ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے کہ ناگہاں سب کے سب ہمارے پاس حاضر ہوں گے،آج کے دن کسی پر ذرہ برابربھی ستم نہیں ہو گا اور تم نے جو عمل کیا ہے اس کے علاوہ تمہیںکوئی پاداش اور جزا نہیں دی جائے گی۔

اور نیز اس سلسلہ میں کہ تمام انسانوں کو اکٹھا کریگا، فرمایا:

۱۔( وحشرناهم فلم نُغا درمنهم أحداً ) ( ۲ )

اورہم ان سب کواٹھا ئیں گے اوران میں سے کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔

۲۔( یوم ینفخ فی الصورونحشرالمجرمین یومئذٍ زرقاً ) ( ۳ )

جس دن صور پھو نکاجائے گا اور مجرموں کو نیلے جسم کے سا تھ ( بدرنگ صورت میں ) اس دن جمع کریں گے۔

۳۔( یوم نحشر المتقین الیٰ الرحمن وفداً ) ( ۴ )

جس دن پرہیز گاروں کو ایک ساتھ خدا وند رحمن کے حضور میں محشور کریں گے۔

کلمات کی تشریح

ا ۔''داخرین'': ذلت اور رسوائی کے ساتھ۔

۲۔''أجداث'': قبریں۔

۳۔''ینسلون'': جدا ہوں گے ، قبروں سے تیزی کے ساتھ باہر آئیں گے

۴۔''زرقاً'': زَرَق یا اَزْرَق کی جمع ہے، نیلے پن کے معنی میں

۵۔ ''وفداً: وفد ھیئت'' اور اس گروہ کا نام ہے جو پاداش اور جزا حاصل کرنے یا کسی قسم کی ضرورت کے پیش نظر حاکم کے پاس جاتے ہیں۔

____________________

(۱)یس ۵۱، ۵۴(۲) کہف ۴۷ (۳) طہ ۱۰۲(۴)مریم ۸۵

۸۵

ب:روز قیامت کے مناظر کے بارے میں

خدا وندعالم روز قیامت کا اس طرح تعارف کراتا ہے:

۱۔(( أنّهم مبعوثون، لیومٍ عظیمٍ، یومَ یقومُ الناسُ لربِّ العالمینَ ) ( ۱ )

وہ لوگ مبعوث ہو ں گے ،عظیم دین میں ، جس دن لوگ خدا وند عالم کے حضور میں کھڑے ہوں گے۔

۲۔( یوم یقومُ الرّ وُحُ و الملا ئکة ُ صفّاً لا یتکلمون الا منَ اذنَ لهُ الرحمنُ وقال صواباً ) ۔( ۲ )

جس دن روح اور فرشتے ایک صف میں کھڑے ہوں گے اور کوئی بھی سوائے اس کے جسے خدا وند رحمن اجازت دے اور درست کہے نہیں بولے گا۔

۳۔( وخلق ﷲ السمٰوات والأرض با لحق ولتجزیٰ کُلّ نفسٍ بما کسبت وهم لا یظلمون ) ( ۳ )

اور خدا وند عالم نے آسمان اور زمین کو بر حق خلق کیا ہے تا کہ ہر شخص کو اس کے کاموں کی جزا دی جائے اوران پر ظلم وستم نہیں ہو گا ۔

۴۔( وکل انسانٍ الزمناه طائره فی عنقه ونخرج له یوم القیامةِ کتاباً یلقاه منشوراًاقراکتابک کفیٰ بنفسک الیوم علیک حسیباً ) ( ۴ )

اورہم نے انسان کے نامۂ اعمال کوا س کی گردن میں آویزاں کر دیا ہے اور قیامت کے دن اس کے لئے ایک کتاب باہر نکا لیں گے کہ وہ اسے اپنے سامنے کھلا ہوا دیکھے گا!اس سے کہا جائے گا اپنی کتاب (نامہ اعمال) پڑھو! اتنا ہی کافی ہے کہ آج کے دن خود اپنا محاسبہ کر نے والے رہو۔

۵۔(( کل امة تدعیٰ الی کتا بها الیوم تجزون ما کنتم تعملون)( هذا کتابُنا ینطقُ علیکم بالحق انا کُنا نستنسخ ما کنتم تعملون)( وبدٰالهم سیئاتُ ماعملوا و حاق بهم ما کانوا به یستهزون)( وقیل الیوم ننسا کم کما نسیتم لقائَ یومکم هذا ومأوا کم النارُومالکم من ناصرین)(ذلکم بانکم اتخذ تم آیاتِ ﷲ هزواًوغر تکم الحیاة الدنیا فا لیوم )

____________________

(۱)مطففین ۴،۶(۲)نباء ۳۸(۳)جاثیہ ۲۲ (۴) اسراء ۱۳، ۱۴

۸۶

( لایخرجون منها ولاهم يُستعتبونَ ) ( ۱ )

ہر امت کواس کی کتاب کی طرف دعوت دی جائے گی ،آج جو تم نے اعمال انجام دئیے ہیں ہم اس کی جزا دیں گے ، یہ ہماری کتاب ہے جو تم سے حق کے ساتھ گفتگو کرتی ہے، تم جو کچھ انجام دیتے ہو ہم لکھ لیتے اور جو انھوں نے برائیاں انجام دی ہیں آشکار ہو جائیں گی اور جس چیز کا مذاق اڑایا ہے وہی انھیں اپنے احاطہ میں لے لیگا اوران سے کہا جائے گا آج ہم تم کو فراموش کر دیں گے جس طرح تم نے اس دن کی ملاقات کو بھلا دیا تھا ، تمہارا ٹھکانہ دوزخ ہے اور کوئی تمہارا مدد گار نہیں ہے، یہ اس وجہ سے ہے کہ تم نے آیات الٰہی کا مذاق اڑایا اور دنیاوی زندگی نے تمھیں فریب دیا ! آج وہ لوگ نہ دوزخ سے باہر آئیں گے اور نہ ان کا عذر قبول ہوگا ۔

۶( ( فا ما من اوتی کتابه بیمینه فیقول هاوم اقرء وا کتابیه)(وأما من أوتی کتابه بشماله فیقول یا لیتنی لم أوت کتا بیهولم أدرما حسا بیه ) ( ۲ )

پس جس کواس کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ کہے گا آؤ ہمارا نامہ اعمال پڑھو اور جسے ا س کا نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جا ئے گا وہ کہے گا : اے کاش! میرا نامہ اعمال کبھی میرے ہاتھ میں نہ دیا جاتا اور میں اپنے حساب کو نہ جانتا ۔

۷۔( فأما من أوتی کتابه بیمینه ) ( فسوف یحا سب حساباً یسیراً)( وأما من اوتی کتا به و راء ظهره)(فسوف ید عوا ثبو راً ) ( ۳ )

پس جس کوا س کا نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا عنقر یب اس کا حساب آسانی سے ہو جائے گا ، لیکن جسکا نامہ اعمال اس کے پیچھے سے دیا جائے گا عنقر یب وہ ہلا کت کی فر یاد اور واویلا کرے گا۔

۸۔( و لایحسبن الذین یبخلو ن بما آتاهم ﷲ من فضله هوخیراً لهم بل هو شر لهم سیطوّ قون ما بخلوا به یوم القیا مة ) ( ۴ )

جو لوگ بخل اور کنجوسی سے کام لیتے ہیں اور جو خدا وند عالم نے انھیں اپنے فضل سے دیا ہے اسے خرچ نہیں کرتے ، وہ خیال نہ کریں کہ یہ کام ان کے نفع میں ہے ، بلکہ ان کے لئے بُرا ہے ،عنقریب قیامت کے دن جس چیز کے بارے میں بخل کیا ہے وہ ان کی گردن کا طوق بن جائے گا ۔

____________________

(۱)جاثیہ۲۸ ، ۲۹ ،۳۳، ۳۵(۲)حاقہ ۱۹، ۲۶ (۳) انشقاق۷ ، ۱۱(۴)آل عمران ۱۸۰

۸۷

۹۔( و یوم یقوم الا شهاد)( یوم لا ینفع الظا لمین معذ ر تهم ) ( ۱ )

جس دن گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے ، اس دن ظالموں کوان کی معذرت فائدہ نہیں دے گی۔

۱۰۔( و یوم نبعث فی کلّ اُمّة شهیداً علیهم من أنفسهم وجئنا بک شهیداً علیٰ هٰولائِ ) ( ۲ )

جس دن ہم ہر امت میں انھیں میں سے ان پر ایک گواہ لا ئیں گے اور تم کو (اے پیغمبر!)ان پر گواہ قرار دیں گے۔

۱۱۔( حتّیٰ اِذا ماجاؤها شهد علیهم سمعهم و ابصار هم وجلو دهم بما کانوا یعملون)( و قالوا لجلود هم لم شهد تم علینا قالوا أنطقنا ﷲ الذی أنطق کلّ شییئٍ ) ( ۳ )

جب اس تک پہنچیں گے توان کے کان ،ان کی آنکھیں اور ان کی جلدیںان کے کرتوت کی گواہی دیں گی ، وہ لوگ اپنی جلدوں سے کہیں گے : کیوںہمارے برخلاف گواہی دی ؟ جواب دیں گی : جس خدا نے ہرموجود کو قوت گویائی عطا کی اسی نے ہمیں بھی گویائی دی ہے ۔

کلمات کی تشریح

۱۔''طائرہ'':اس کے اچھے اور بُرے عمل سے کنایہ ہے۔

۲۔''ثبور'': ہلاکت، ید عو ثبوراً، یعنی ہلاکت کی فریادکرتاہے۔

۳۔''سیطوّ فون'': ان کی گردن میں طوق ڈال دیں گے، یعنی واجب حقوق کے ادا نہ کرنے پر سانپ کی صورت میں بخل ان کی گردن میں مجسم ہو جائے گا۔

۴۔''الشھید والا شھاد'':شہید یعنی وہ قاطع گواہ جو بدل نہ سکے اور''اشھاد'''' شاہد'' کی جمع ہے اس سے مراد انبیاء اوران کے ہمراہی ہیں جو اپنی امت پر گواہی دیں گے اور جو بھی انسان سے صادر ہونے والے اعمال پر گواہ ہو۔

قیامت کے دن اعمال کے آثار کے بارے میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے:

۱۔''أطوَ لُکم قنوتاً فی دار الدنیا أطوَلُکم راحةً یوم القیا مة فی الموقف ''( ۴ )

جو لوگ دار دنیا میں قنوت (نماز)کے اعتبار سے جتنا طولانی ہوں گے وہ آخرت میں حساب کے وقت

____________________

(۱)غافر۵۱(۲)نحل ۸۹(۳)فصلت ۲۰،۲۱ (۴)ثواب الاعمال،ص۵۵

۸۸

اتنا ہی ز یادہ مطمئن ہوں گے ۔

۲۔رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اِذا سجد أحد کم فلیباشر بکفیه الأرض لعلّ یصرف عنه الغل یوم القیامة'' ( ۱ )

جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تواسے چاہئیے کہ اپنی ہتھیلیوں کو زمین سے چسپاں کرے تاکہ روز قیامت کی تشنگی کا اس کو سامنا نہ ہو ۔

۳۔رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے کے آپ نے فرمایا:

(مَن بغی علیٰ فقیرٍ أو تطاول علیه و استحقره حشره ﷲ یوم القیامة مثل الذرة علیٰ صورة رجل ید خُلُ النار )( ۲ )

جو کوئی کسی فقیر پر ظلم کرے یااس پر فخر ومباہات کرے اوراُسے حقیر و معمولی سمجھے خدا وند عالم اسے قیامت کے دن انسانی شکل میں چیونٹی کے مانند جہنم میں داخل کرے گا۔

۴۔حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

''ان المتکبر ین یجعلون فی صورة الذر یتوطأ بهم الناس حتیٰ یفرغ ﷲ منالحساب'' ( ۳ )

متکبرین قیامت کے دن چیونٹی کی شکل میں ہوں گے اور لوگ ان کے او پر سے راستہ طے کریں گے یہاں تک کہ خدا وند عالم حساب و کتاب سے فارغ ہو جائے۔

____________________

(۱)ثواب الاعمال،ص۵۵۔۵۷.

(۲) ثواب الاعمال،ص ۳۳۵، باب ''اعمال کی سزائیں''

(۳)ثواب الاعمال،ص۲۶۵

۸۹

۶۔

انسان اور جنت و جہنم میں اس کی جزا

خدا وندعالم انسان کو عالم آخرت میں اس کے اعمال کے مطابق جو اس نے اس دنیاوی زندگی میں انجام دئیے ہیں اوراس عا لم میں اس کے سامنے مجسم ہوں گے بہشتی نعمتوں کے ذریعہ جزا اور عذاب جہنم کے ذریعہ سزا دے گا ، جیسا کہ اس کے بارے میں خود ہی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

۱۔( اِنّ ﷲ ید خل الذین آمنو ا وعملو االصالحات جنّٰاتٍ تجری من تحتها الأنهار ) ( ۱ )

خداوندعالم ایمان لانے والوںاورعمل صالح انجام دینے والوں کو بہشت کے باغوں میں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی داخل کرے گا۔

۲۔( ومَن عمل صالحاً من ذکر أو أنثیٰ وهو مؤمن فأولئک یدخلون الجنة یرزقون فیها بغیرِ حساب ) ( ۲ )

جو کوئی بھی عمل صالح انجام دے خواہ مرد ہو یا عورت اور وہ مومن بھی ہو، وہی لوگ بہشت میں جائیں گے اوراس میں بے حساب رزق پائیں گے۔

۳( من یعمل سوء اً یجز به و لا یجد له من دونِ ﷲ وليّا و لا نصیراً و من یعمل من الصّا لحات من ذکرٍ أو أنثیٰ و هو مؤمن فأولئک ید خلونَ الجنة و لا يُظلمونَ نقیراً )

جو شخص بُرے کام کریگا اسے اس کی سزا ملے گی اور خدا کے علاوہ کسی کو ولی اور یاور نہیں پائے گا اور اگر کوئی اعمال صالحہ انجام دے گا ، خواہ عورت ہو یامرد ، جب کہ وہ مومن بھی ہو وہ جنت میں جائے گا اوراس پر ادنیٰ ظلم بھی نہیں ہوگا۔( ۳ )

۴۔( و یوم القیا مة تری الذین کذبوا علیٰ ﷲ وجوههم مسو دّة الیس فی جهنم مثویً للمتکبرین

____________________

(۱)حج۲۳

(۲)مومن۴۰

(۳)نسائ۱۲۳،۱۲۴

۹۰

ووفّیت کلّ نفسٍ ما عملت)(...وسیق الذین اِتّقواربّهم اِلی الجنةِ زمراً ) ( ۱ )

جن لوگوں نے خدا کی طرف جھوٹی نسبت دی ہے انھیں دیکھو گے کہ ان کے چہرے قیامت کے دن سیاہ ہوں گے،آیا متکبر ین کے لئے جہنم میں کوئی ٹھکانہ نہیں ہے؟ اور جس نے جو بھی عمل انجام دیا ہے بغیر کسی کم وکاست کے اسے دیا جائے گا اور جن لوگوں نے تقوائے الٰہی اختیار کیا ہے وہ جوق در جوق بہشت میں لے جائے جائیںگے۔

۵۔( الذین آمنوا بآ یا تنا و کانوا مسلمین أدخلوا الجنة انتم وأزواجکم تحبرون ) ( ۲ )

جو لوگ ہماری آیات پر ایمان لائے اور مسلمان بھی ہیں(اُن سے کہا جائے گا)تم اور تمہاری بیویاں جنت میں خوش وخرم داخل ہو جاؤ۔

۶۔( وتلک الجنة التی أورثتموها بما کنتم تعملون ِأن المجر مین فی عذاب جهنم خا لدون وما ظلمنا هم و لکن کانوا هم الظّا لمین ) ( ۳ )

اوریہ وہ بہشت ہے جس کے تم اپنے اعمال کی جزا کے طور پر وارث ہو گے،(لیکن) گناہ کاروں کے لئے جہنم کا عذاب ابدی ٹھکانہ ہے... ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا ہے بلکہ وہ خود ظالم تھے ۔

۷۔( و الذین یکنزون الذهب والفضّة ولا يُنفقونها فی سبیل ﷲ فبشّرهم بعذابٍ ألیمٍ یوم یحمیٰ علیها فی نارجهنم فتکویٰ بها جبا ههم و جنو بُهُم و ظهو رُ هم هذا ما کنزتم لأنفسکم فذوقوا ما کنتم تکنزون ) ( ۴ )

جو لوگ سونا چاندی ذخیرہ کرتے ہیں لیکن اسے راہ خدا میں انفاق نہیں کرتے انھیں درد ناک عذاب کی بشارت دیدو! جس دن انھیں جہنم کی آگ میں گرم کرکے ان کے چہروں ، پہلووں اور پشتوں کو داغا جائے گا (اورا ن سے کہیں گے )یہ وہی چیز ہے جس کا تم نے اپنے لئے خود ہی ذخیرہ کیا ہے ! لہٰذا جو تم نے جمع کیا ہے اسکا مزہ چکھو۔

شیخ صدوق نے اپنی سند کے ساتھ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا :

''اربعة یؤذون أهل النار علی ما بهم من الأ ذی ینادون بالویل و الثبور: رجل علیه تا بوت من حجر فِانه مات وفی عنقه أموال الناس لم یجد لها فی نفسه ادائً ولا مخلصاً ورجل یجرأ معاء ه ،فأ نه کان لا یبالی أین أصاب البول جسده ورجل یسیل فوه قیحاً و دماً، فأنه

____________________

(۱) زمر۶۰ ،۷۰ ،۷۳(۲) زخرف ۶۹، ۷۰(۳)زخرف۷۲، ۷۴، ۷۶.(۴)توبہ۳۴، ۳۵

۹۱

کان یحاکی فینظر کل کلمةٍخبیثةٍ فیفسدُ بها و یحاکی بها و رجل یأکل لحمه،فأنه کان یأ کل لحوم الناس بالغیبة و یمشی بالنمیمة'' ( ۱ )

چار گروہ ایسے ہیں کہ جب عذاب کا مشاہدہ کریں گے تو آہ وواویلا اور دہائی کا شور مچائیں گے جس سے اہل جہنم کو اذیت ہوگی۔

۱۔ایک وہ شخص جس پر پتھر کا تابوت ہو گا کیونکہ وہ ایسی حالت میں دنیا سے گیا ہے کہ لوگوں کے اموال و مال حقوق اس کی گردن پر تھے جن کے نیز ادا کرنے اور ان سے چھٹکارا پانے کا ارادہ بھی نہیں رکھتا تھا ۔

۲۔وہ شخص جو اپنی آنتیں خود گھسیٹتا پھرے گا وہ ایسا آدمی ہے جو بدن کے کسی حصّہ پر پیشاب کے لگ جانے کی پرواہ نہیں کرتا ۔

۳۔ وہ شخص جس کے منھ سے پیپ اور خون جاری ہوگا ، اس لئے کہ وہ ان کے اوران کے منھ سے بُری باتیںلیکر دوسروں کے سامنے بیان کرتا تھا اور فتنہ وفساد برپا کرتا تھا۔

۴۔وہ شخص جواپنا گوشت کھائے گا ،وہ ایسا شخص ہے جو لوگوں کا گوشت غیبت اور چغلی کر کے کھاتا تھا۔

خدا وند متعال جنت اور جہنم کے متعدد دروازوں کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( واِنّ للمتقین لحسن مآبٍجناتِ عدنٍ مفتحةً لهم الأبواب ) ( ۲ )

پرہیز گاروں کا انجام بخیر ہے، جاوداںبہشتی باغات جس کے دروازے ان کے لئے کھلے ہوئے ہیں۔

ابلیس سے خطاب کرتے ہوئے (اس پر خدا کی لعنت ہو) فرمایا:

( اِنّ عبادی لیس لک علیهم سلطان اِلاّمن أتبعک من الغاوین و اِنّ جهنم لموعدهم أجمعین،لهاسبعةُ ابوابٍ لکل بابٍ منهم جزء مقسوم ) ( ۳ )

تو کبھی ہمارے بندوں پر مسلط نہیں ہوپائے گا، سوائے ان گمراہوں کے جو تیری پیر وی کریں اور جہنم ان سب کا ٹھکانہ اور وعدہ گاہ ہے،جس کے سات دروازے ہیں اور ہر دروازے کے لئے ان میں سے ایک معین گروہ تقسیم ہوا ہے۔

کلمات کی تشریح:

۱۔''نقیر'': خرمے کی گٹھلی کی پشت پر معمولی نشیب اور نقطہ کو کہتے ہیں کہ ہلکی اور بے ارزش چیزوں

____________________

(۱)عقاب الاعمال ص ۲۹۵ ،۲۹۶(۲)ص۴۹،۵۰. (۳)حجر ۴۲، ۴۴.

۹۲

کی اس سے مثال دیتے ہیں۔

۲۔''مثوی'' : استقرارو اقامت کی جگہ، ٹھکانہ وغیرہ۔

۳۔'' زمرا ً '': گروہ گروہ، زُمَر ، زُمْرہ کی جمع ہے فوج اور گروہ کے معنی ہے۔

۴۔'' مآب'' : باز گشت، عاقبت ، انجام ۔

۵۔''جنات عدن'' : سکون و اطمینان کی جنتیں.

روایات میں آیات کی تفسیر

مذکورہ آیات کی تفسیر سے متعلق رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

جنت کے آٹھ دروازے ہیں اور جہنم کے سات ، بعض در، دوسرے در سے بہتر ہیں۔( ۱ )

حضرت امام علی سے ایک روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

کیا تمھیں معلوم ہے کہ جہنم کے دروزے کیسے ہیں ؟ راوی کہتا ہے کہ ہم نے کہا : انھیں دروازوں کے مانندہیں، فرما یا نہیں ، بلکہ اس طرح ہیں: اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھا اوراُسے کھول دیا ،یعنی جہنم کے دروازے خود جہنم کے مانند ایک دوسرے پر سوار ہیں اور تفسیر قر طبی میں آیا ہے،اس کے بعض دروازے بعض دروازوں پر ہیں اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا ! ہر طبقے والے اپنے اسی طبقے میں ہیں۔( ۲ )

نیز رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے کہ آپ نے '' جزء مقسوم''کی تفسیر میں فرمایا:جہنم کے در وزوںمیں سے ہر در وازے کے لئے اہل جہنم کا ایک معین گروہ تقسیم ہو ا ہے کہ ہر گروہ جواپنے کرتوت کے مطابق عذاب میں مبتلاہو گا۔( ۳ )

آخر میں ہم بعض احادیث کا ذکر کر کے بحث کو تمام کریں گے جو گزشتہ آیات کی تشریح کر رہی ہیں اور اعمال کے نتائج اجمال واختصار اور بسط و تفصیل سے بیان کر رہی ہیں اس ۔

۱۔اصو ل کافی میں حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

''جو کسی مومن کو راضی و خوشنود کرے خدا وند عزوجل اس خوشنودگی سے ایسی مخلوق پیدا کرے گا جو اس کے

____________________

(۱) تفسیر سیوطی ،الدرالمنثور ج۴ ،ص ۹۹، ۱۰۰، (۲)اس آیت کی تفسیر کے لئے تفسیر مجمع البیان ، تفسیر قرطبی و سیوطی کی جانب مراجعہ کیجئے.(۳) تفسیر سیوطی ،الدرالمنثور ج۴ ،ص ۹۹.

۹۳

مرنے کے وقت اس سے ملاقات کرے گی ا وراس سے کہے گی: اے خدا کے ولی! تجھے مبارک ہو کہ تو خداوندعالم کی کرامت اور اس کی رضاوخو شنودگی کے ساتھ ہے، پھر وہ اس کے ساتھ ہمیشہ رہے گی یہا ں تک کے قبر میں جاتے وقت اسے یہی خوشخبری دے گی اور جب محشور ہوگا تب بھی اس کے دیدار کو جائے گی ،اس کے پاس رہے گی یہاں تک کہ سخت اور ہولناک میں ہمیشہ اسے نوید دے گی اوراس کا دل شاد کرتی رہے گی، پھر وہ شخص اس سے

کہے گا : تجھ پر خدا کی رحمت ہو تو کون ہے ؟ کہے گی:''میں وہی خوشی ہوں جو تو نے فلاں شخص کو عطاکی تھی''( ۱ )

۲۔بحار میں جناب صدوق کی ''معانی الاخبار'' سے حضرت امام جعفر صادق سے روایت نقل کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا:

جو کسی مومن کا غم غلط کرے اوراس کے رنج کو دور کرے خداوند عالم آخرت میں اس کے رنج و غم کو دور کرے گا اور وہ ٹھنڈے دل کے ساتھ خوش حال قبر سے باہر آئے گا اور جو کسی مومن کو گرسنگی اور بھوک سے نجات دے خدا وند عالم اسے بہشت میں میوے کھلائے گا اور جو کوئی اسے پانی پلائے خدا وند عالم اسے جنت کے مہر شدہ جام پانی سے سیراب کرے گا۔( ۲ )

۳۔ حضرت امام ابو الحسن سے اصول کافی میں روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

روئے زمین پر خدا کے کچھ ایسے بندے ہیں جو ہمیشہ ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرتے رہتے ہیں ،وہ لوگ روز قیامت آسودہ خاطر اور خوشحال افراد میں سے ہوںگے ، ہاں اگر کوئی کسی مومن کو خوش کرے تو خدا وندعالم قیامت کے دن اس کا دل شاد کرے گا۔( ۳ )

۴۔اصول کافی میں حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :

کوئی مسلمان کسی مسلمان کی ضرورت پوری نہیں کر تا مگر یہ کہ خدا وندعالم اسے آواز دیتا ہے تیری جزا مجھ پر ہے اور بہشت کے علاوہ کسی چیز پر تیرے لئے راضی نہیںہوں۔( ۴ )

۵ ۔جناب صدوق نے ثواب الاعمال میں معروف بن خر ّبوذ کا قول نقل کیا ہے کہ اس نے کہا، میں نے امام باقر ـ کو فرماتے ہوے سناہے:

''جو مومن بھی دنیا میں پریشانی اور مشکلات میں گرفتار ہو اور بوقت مشکل '' انا للہ و انا الیہ راجعون'' کہے ہم خدا کی طرف سے آئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جا ئیں گے! خدا وند عالم اس کے تمام گزشتہ گناہ بخش دے گا ،

____________________

(۱)اصول الکافی ج۲ص۱۹۱،ح۱۲ (۲)بحار ج۶ ،ص ۳۵۵(۳)اصول کافی ج۶ ، ص ۱۹۷ ،ح۶ (۴)اصول کافی ج۱ ، ص۱۹۴ ،ح۷

۹۴

سوائے ان گناہان کبیرہ کے جو جہنم کا باعث ہوں اور فرمایا: جب بھی کوئی اپنی آئندہ عمر میں کسی مصیبت کویاد کرے اور کلمہ استر جاع ''انا للہ و انا الیہ راجعون''کہے اور خدا کی حمد کرے خدا وندعالم اس کے وہ تمام گناہ جو کلمہ استر جاع اوّل اورکلمئہ استرجاع دوم کے فاصلہ میں انجام د یئے ہیں بخش دے گا سوائے گناہان کبیرہ کے''۔( ۱ )

۶۔ بحارالانوار میں امام جعفر صادق سے اور انھوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ذکر کیا ہے کہ خدا وند عالم فرماتا ہے:

'' کسی بندہ کو بہشت میں ا س وقت تک داخل نہیں کروں گا جب تک کہ ا سے جسمانی تکالیف میں مبتلا نہ کردوں، اگر یہ بلا اور مصیبت اس کے گناہوں کے کفارہ کی حد میں ہے تو ٹھیک ہے ، ورنہ کسی جابر و ظالم کواس پر مسلط کر دوںگا اگراس سے اس کے گناہ دھل گئے تو اسی پر اکتفاء کروں گا ورنہ اس کی روزی کو تنگی میں میں قراردوں گا تاکہ اس کے گناہ دھل جائیں اگراگراس سے دھل گئے تو ٹھیک ورنہ موت کے وقت اس پر اتنی سختی کروں گا کہ میرے پاس بے گناہ اورپاک و صاف ا ئے پھراسے اسوقت بہشت میں داخل کروں گا...۔( ۲ )

۷۔صیح بخاری میں ہے کہ رسول خدا نے فرمایا:

''کوئی مسلمان ایسا نہیںہے جو مصیبت میں مبتلا ہو اور خدااُس کے گناہوں کو ختم نہ کر دے جیسے کہ درخت سے پتے جھڑتے ہیں''( ۳ )

۸۔ایک دوسری روایت میں ہے : کسی مسلمان پر کوئی مصیبت نازل نہیں ہوتی مگر یہ کہ خدا وند عا لم اسکے گناہوں کا کفارہ قرار دیتاہے خواہ وہ ایک خراش ہی کیوں نہ ہو۔( ۴ )

۹۔صحیح بخاری اورصحیح مسلم میں مذکور ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''کوئی مسلمان ایسا نہیںہے جس کوکانٹے کی خراش یااس سے سخت تر کوئی چیز پہنچے مگر یہ کہ خدا وند عالم

اس کے گناہوں کو اسی طرح جھاڑ دے گا جیسے درخت سے پتے جھڑتے ہیں''۔( ۵ )

۱۰۔صحیح بخاری اور مسنداحمدمیں ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''کسی مسلمان کو کوئی رنج و غم، دشواری، دردو مرض ، مصیبت و اندوہ، یااذیت و آزار،آسیب و گزند حتی کا خراش تک نہیں پہنچتی مگر یہ کہ خداوند عالم ا سے ا سکے گناہوں کا کفّارہ قراردیتا ہے''( ۶ )

____________________

(۱)بحارجلد۸۲ ، ص۱۲۷، ۱۲۸ بہ نقل از ثواب ا لاعمال ص۲۳۴ (۲)بحار ج۶ ، ص ۱۷۲ ۔ بہ نقل ازکتاب التمحیص.(۳)صحیح بخاری کتاب المرضی، باب :'' شدة المرض'' (۴)صحیح بخاری ج۳ ، ص ۳، کتاب المرضی، باب : ''ماجاء فی کفا رة المرض''(۵)صحیح بخاری ج۳، ص۳، کتاب المرضی، باب:''شدة المرض''صحیح مسلم،کتاب البر و الصلة والادب، باب'' ثواب المو من فیما یصیبہ ''(۶)صحیح بخاری ج۳، ص۲، کتاب المرضی باب:''ما جاء فی کفارة المرض'' .مسند احمد ج۳، ص ۱۸۰.

۹۵

۷۔

صبر وتحمل کی جزا

جس طرح خدا وندعالم نے انسان کے ہر عمل کے لئے دنیوی جزا اور اخروی پاداش رکھی ہے اسی طرح مصائب و آلام پر انسان کے صبر و تحمل کیلئے دنیاوی جزا اور اخروی پاداش مقرر کی ہے، امام علی ـنے رسول خدا سے روایت کی ہے کہ آ نحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''الصبر ثلاثة صبر عند المصیبة، و صبر علی الطاعة و صبر عند المعصیة'' ( ۱ )

صبر و شکیبائی کی تین قسمیں ہیں:

۱۔مصیبت کے وقت صبر کرنا ۔

۲۔ اطاعت میں استقامت و پائیداری۔

۳۔ معصیت کے مقابل صبر کا مظاہرہ کرنا۔

خدا وند عالم سورہ ٔاعراف میں فرماتا ہے:

''بنی اسرائیل کو اس وجہ سے جزا دی ہے کہ انھوں نے دنیاوی زندگی میں صبر وشکیبائی کا مظاہرہ کیا''۔

( واورثنا القوم الذین کانوا یستضعفون مشارق الأرض و مغاربها التی بارکنا فیها و تمت کلمت ربّک الحسنی علی بنی اِسرائیل بما صبروا ودمّرنا ما کان یصنع فرعون و قومه و ما کانوا یعر شون ) ( ۲ )

مشرق ومغرب کی سر زمینوں کو جس میں ہم نے برکت دی ہے مستضعف قوم (بنی اسرائیل) کومیراث میں دیدیا اور تمہارے رب کا اچھا وعدہ بنی اسرائیل سے ان کے صبر و استقامت کے مظاہرے کے نتیجہ میں

____________________

(۱)بحار ، ج ۸۲ ،ص ۱۳۹، مسکن الفؤاد کے حوالے سے.

(۲)اعراف ۱۳۷.

۹۶

پورا ہوا اور فرعون اور فرعون کی قوم والے جو کچھ بنا رہے تھے ان کو اور ان کی اونچی اونچی عمارتوں کو مسمار کر دیا ۔

نیز صبر کی سہ گانہ اقسام کی پاداش کے بارے میں فرماتا ہے۔

۱۔( ولنبلو نّکم بشیئٍ من الخوف والجوع و نقصٍ من الأموال و الأ نفس و الثمرات و بشّرالصا برین الذین اذا أصابتهم مصیبة قالوا اِنّا لله و اِنّا اِلیه را جعون اولآء ک علیهم صلوات من ربّهم و رحمة و اولاء ک هم المهتدون ) ( ۱ )

یقینا ہم تمھیں خوف، بھوک، جان ومال اور پھلوں کی کمی کے ذریعہ آزمائیں گے اور بشارت دیدو ان صبرکرنے والوں کو کہ جب کوئی مصیبت ان پر پڑتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم خدا کی طرف سے آئے ہیں اوراسی کی طرف ہماری بازگشت ہے، ان ہی لوگوں پرپروردگار کا درودو رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔

۲( لیس البرّ ان تولّوا وجوهکم قبل المشرق و المغرب و لکنّ البر من آمن بﷲ و الیوم الآ خر و الملا ئکة و الکتاب والنبیيّن و أتی المال علیٰ حبه ذوی القربیٰ و المساکین و ابن السبیل و السائلین و فی الرّقاب وأقام الصّلاة وآتی الزکاة و الموفون بعهد هم اذا عاهدوا والصابرین فی البأ ساء و الضرّاء و حین البأس اولئک الذین صدقوا و أولآء ک هم المتقون ) ( ۲ )

نیکی صرف یہ نہیں ہے کہ تم اپنے چہروں کومغرب اور مشرق کی طرف کرلو،بلکہ نیکی اور نیک کردار وہ ہے جو خدا ،روز قیامت ، فرشتوں ، کتابوں اور پیغمبروں پر ایمان لائے ہو اور باوجود اس کے کہ اسے خود مال کی سخت ضرورت ہے، اپنے رشتہ داروں ، یتیموں، مسکینوں،ابن سبیل، سائلوں اور غلاموں پر انفاق کرے،نماز قائم کرتا ہو اور زکوة دیتا ہو، نیز وہ لوگ جو عہد وپیمان کرتے ہیں اور اپنے عہد کو وفا کرتے ہیںاور محرومیوں، بیماریوںاور جنگ کے موقع پر ثبات قدمی اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں یہ لوگ ایسے ہیں جو سچ کہتے ہیں اور یہی لوگ متقی اور پرہیز گار ہیں!

سورۂ بقرہ کی مذکورہ آیات کا خلاصہ یہ ہوا کہ پرہیز گار، نیک وصالح اور ہدایت یافتہ یہ وہ لوگ ہیںجو اچھے اور شائستہ عمل انجام دیتے ہیںاور صبر کے تینوں اقسام سے آراستہ اور مالامال ہیں۔

طاعت و مصیبت پر صبرکرنے کے منجملہ نمونے اور مصادیق میں سے اذیت وآزار اورتمسخر واستہزا پر مؤمنین کا خدا پر ایمان لانے کی وجہ سے صبر و شکیبائی اختیار کرنا جیسا کہ خدا وند عالم اس کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

____________________

(۱)بقرہ ۱۵۵، ۱۵۷

(۲)بقرہ ۱۷۷.

۹۷

۱۔( اِنّه کان فریق من عبادی یقولون ربنا آمنّا فاغفرلنا وأرحمنا وأنت خیر الرّاحمین فأ تخذ تموهم سخريّا حتیٰ أنسوکم ذکری وکنتم منهم تضحکون انی جزیتهم الیوم بها صبروا أنّهم هم الفائزون ) ( ۱ )

بتحقیق ہمارے بندوں کا ایک گروہ کہتا ہے: خداوند ا! ہم ایمان لائے پس تو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر کیونکہ تو سب سے اچھا رحم کرنے والا ہے،تم نے ان کا مسخرہ کیااور مذاق اڑایا یہاں تک کہ انھوں نے تمھیں میرے ذکر سے غافل کر دیا اور تم لوگ اسی طرح مذاق اڑاتے رہے ، ہم نے آج ان کے صبرو استقامت کی وجہ سے انھیں جزا دی ہے،یقینا وہ لوگ کامیاب ہیں ۔

۲۔( الذین اتینا هم الکتاب من قبله هم به یؤمنون و اذا یتلیٰ علیهم قالوا آمنّا به اِنّه الحق من ربّنا اِنّا کنا من قبله مسلمین أولائک یؤتون اَجرهم مر تین بما صبروا و یدرأون با لحسنة السّيّئة و مِمّا رزقنا هم ینفقون واِذا سمعوا اللّغو اعرضوا عنه و قالوا لنا أعمالنا ولکم أعمالکم سلام علیکم لانبتغی الجاهلین ) ( ۲ )

وہ لوگ جنھیں ہم نے قرآن سے پہلے آسمانی کتاب دی اس پر ایمان لاتے ہیں اور جب ان پر تلاوت ہوتی ہے تو کہتے ہیں ہم یہ اس پر ایمان لائے، یہ سب کا سب حق ہے اور ہمارے رب کی طرف سے ہے اور ہم اس سے پہلے بھی مسلمان تھے ، ایسے لوگ اپنے صبر و استقامت کی بنا پردومرتبہ جزا دریافت کرتے ہیں اور نیکیوں سے بُرائیوں کو دور کرتے ہیں، جوکچھ ہم نے انھیں روزی دی ہے اس میں سے انفاق کرتے ہیں اور جب کبھی بیہودہ اور لغو بات سنتے ہیںتواس سے روگردانی کرتے ہوئے کہتے ہیں: ہمارے اعمال ہمارے لئے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لئے، تم پر سلام کہ ہم جاہلوں کو دوست نہیں رکھتے۔

۳۔خدا وند عالم نے سورۂ رعد میں نماز قائم کرنے والوں اور صابروں کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا:

( و الذین صبروا ابتغاء وجه ربهم ؤقامو االصلاة و أنفقوامِمّارزقنا هم سراً و علا نيةً و یدرء ون بالحسنة السیئة أولآئک لهم عقبیٰ الدار)(جنات عدنٍ ید خلونها و من صلح من آبائهم وأزواجهم وذر يّا تهم و الملا ئکة یدخلون علیهم من کل بابٍ سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار ) ( ۳ )

____________________

(۱)مومنون ۱۰۹، ۱۱۱

(۲)قصص ۵۲، ۵۵.

(۳)رعد ۲۲۔۲۴

۹۸

اور جو خدا کی مرضی حاصل کرنے کے لئے صبر وشکیبائی کا مظاہرہ کرتے ہیںاور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ انھیں ہم نے روزی دی ہے اس میں سے آشکارا اور پوشیدہ طور پر انفاق کرتے ہیں اور نیکیوں کے ذریعہ بُرائیوں کودور کرتے ہیں ، اس دنیا یعنی عقبیٰ کا نیک انجام صرف ان سے مخصوص ہے دائمی اور جاوید بہشتوں میں اپنے نیک اور صالح آباء و اجداد،بیویوں اور فرزند وں کے ساتھ رہیں گے اور فرشتے ہر در سے ان پر داخل ہو کر کہیں گے:تم پر سلام ہو کہ تم نے صبر کا مظاہرہ کیا!اور کتنا اچھا ہے اس دنیا کاانجام!

کلمات کی تشریح:

۱۔''یعرشون'': اوپرلے جاتے ہیں،یہاں پر اس سے مراد وہ محکم اور مضبوط عمارتیں ہیں جنھیں فرعونیوں نے اپنی املاک میں بنائی تھیں۔

۲۔''البأ س و الباسآئ'': سختی اور ناخوشی اور جنگ یہاں پر باساء سے مراد سختی اورناخوشی ہے اور (بأس) سے مراد جنگ کا موقع ہے۔

۳۔''یدرؤن، ید فعون'': دور کرتے ہیں اور اپنے سے ہٹاتے ہیں۔

روایات میں صابروں کی جزا

بحار میں اپنی سند کے ساتھ حضرت امام جعفر صادق ـسے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: حضرت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

جب نامۂ اعمال کھو لا جائے گا اور اعمال تولنے کے لئے میزان قائم ہوگی تو مصیبتوں کا سامنا کرنے والے صابروں کے لئے نہ اعمال تولنے کا ترازو ہوگا اور نہ ہی ان کے اعمال نامے کھولے جائیںگے ! اور اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( اِنّما یوفیّٰ الصابرون ٔاجر هم بغیرحساب )

صابروں کو ان کے صبر کی بے حساب جزا ملے گی۔( ۱ )

نیز بحار میں اپنی سند سے امام زین العابدین سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

____________________

(۱) بحارج ۸۲ ، ص ۱۴۵ا ور زمر ۱۰.

۹۹

''جب خدا وند عالم تمام اولین وآخرین کوجمع کرے گا ،تو ایک منادی ندا کرے گا : کہاں ہیں صبر کرنے والے تاکہ بے حساب بہشت میں داخل ہوں ؟کچھ سرفراز اور ممتاز لوگ اٹھیں گے ، فرشتے ان کے پاس جاکر کہیں گے : اے اولاد آدم کہاں جارہے ہو ؟ کہیں گے : بہشت کی طرف : کہیں گے: حساب سے پہلے ہی؟کہیں گے ہاں، پھر وہ لوگ سوال کریں گے تم لوگ کون ہو؟کہیں گے صابرین! پھر وہ کہیں گے : تمہارا صبر کس طرح کا تھا ؟ جواب دیں گے :اطاعت الٰہی میں ثابت قدم اوراس کی معصیت سے ہم نے خود کو اس وقت تک بچایا جب تک کہ خدا نے ہمیں موت نہ دیدی اور روح نہ قبض کر لی ، فرشتے کہیں گے:تم ویسے ہی ہو جیسا کہ تم نے کہا، جنت میں داخل ہو جاؤ کیو نکہ اچھا کام کر نے والوں کی جزا بھی بہت اچھی ہوتی ہے۔( ۱ )

اور شیخ صدوق ثواب الاعمال میں اپنی سند کے ساتھ امام محمد باقر ـسے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:

''جو شخص دنیا سے اندھا جا ئے ، جبکہ اس نے خدا کے لئے صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا ہو اور محمد و آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا چاہنے والا ہو تو وہ خدا سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس پر کوئی حساب نہ ہوگا''۔( ۲ )

یہ سب اس جزا کے نمونے ہیں جسے انسان غم واندوہ پر صبر کر نے یا عمل کی بنیاد پر دریافت کر ے گاآیندہ بحث میں خدا کی مدداو رتوفیق سے اس بات کی تحقیق و بر رسی کر یں گے کہ اعمال کے نتیجے کس طرح سے میراث بن جاتے ہیں۔

____________________

(۱)بحار : ج،۲۸، ص ۱۳۸.

(۲)ثواب الاعمال،ص ۶۱ اور ۲۳۴.

۱۰۰