اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

اسلام کے عقائد(تیسری جلد )0%

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 352

اسلام کے عقائد(تیسری جلد )

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

صفحے: 352
مشاہدے: 125722
ڈاؤنلوڈ: 3395


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 352 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 125722 / ڈاؤنلوڈ: 3395
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(تیسری جلد )

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد 3

مؤلف:
اردو

( یَابَنِی ِسْرَائِیلَ قَدْ َنجَیْنَاکُمْ مِنْ عَدُوِّکُمْ وَوَاعَدْنَاکُمْ جَانِبَ الطُّورِالَیْمَنَ وَنَزَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَی ٭ کُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَلاَتَطْغَوْا فِیهِ فَیَحِلَّ عَلَیْکُمْ غَضاَبِی وَمَنْ یَحْلِلْ عَلَیْهِ غَضاَبِی فَقَدْ هَوَی ٭ وَِنِّی لَغَفَّار لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَی ٭ وَمَا َعْجَلَکَ عَنْ قَوْمِکَ یَامُوسَی ٭ قَالَ هُمْ ُولاَئِ عَلَی َثَرِی وَعَجِلْتُ الَیکَ راَبِ لِتَرْضَی ٭ قَالَ فَإِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَکَ مِنْ بَعْدِکَ وََضَلَّهُمُ السَّامِرِیُّ ٭ فَرَجَعَ مُوسَی الَی قَوْمِهِ غَضْبَانَ َسِفًا قَالَ یَاقَوْمِ اَلَمْ یَعِدْکُمْ رَبُّکُمْ وَعْدًا حَسَنًا َفَطَالَ عَلَیْکُمُ الْعَهْدُ َمْ َرَدْتُمْ َنْ یَحِلَّ عَلَیْکُمْ غَضَب مِنْ راَبِکُمْ فََخْلَفْتُمْ مَوْعِدِی ٭ قَالُوا مَا َخْلَفْنَا مَوْعِدَکَ بِمَلْکِنَا وَلَکِنَّا حُمِّلْنَا َوْزَارًا مِنْ زِینَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنَاهَا فَکَذَلِکَ َلْقَی السَّامِرِیُّ٭ فََخْرَجَ لَهُمْ عِجْلاً جَسَدًا لَهُ خُوَار فَقَالُوا هَذَا ِلٰهُکُمْ وَِلٰهُ مُوسَی فَنَسِیَ ٭ َفَلاَیَرَوْنَ َلاَّ یَرْجِعُ الَیهِمْ قَوْلاً وَلاَیَمْلِکُ لَهُمْ ضَرًّا وَلاَنَفْعًا ٭ وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَارُونُ مِنْ قَبْلُ یَاقَوْمِ ِنَّمَا فُتِنتُمْ بِهِ وَِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحْمٰانُ فَاتّاَبِعُونِی وََطِیعُوا َمْرِی ٭ قَالُوا لَنْ نَبْرَحَ عَلَیْهِ عَاکِفِینَ حَتَّی یَرْجِعَ الَینَا مُوسَی ٭ قَالَ یَاهَارُونُ مَا مَنَعَکَ إِذْ رََیْتَهُمْ ضَلُّوا ٭ َلاَّ تَتّاَبِعَنِ َفَعَصَیْتَ َمْرِی ٭ قَالَ یَبْنَؤُمَّ لاَتَْخُذْ بِلِحْیَتِی وَلااَبِرَْسِی ِنِّی خَشِیتُ َنْ تَقُولَ فَرَّقْتَ بَیْنَ بَنِی ِسْرَائِیلَ واَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِی ٭ قَالَ فَمَا خَطْبُکَ یَاسَامِرِیُّ ٭ قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ یَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ َثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَکَذَلِکَ سَوَّلَتْ لِی نَفْسِی ٭ قَالَ فَاذْهَبْ فَإِنَّ لَکَ فِی الْحَیَاةِ َنْ تَقُولَ لاَمِسَاسَ وَِنَّ لَکَ مَوْعِدًا لَتُخْلَفَهُ وَانظُرْ الَی ِلٰهِکَ الَّذِی ظَلَلْتَ عَلَیْهِ عَاکِفًا لَنُحَرِّقَنَّهُ ثُمَّ لَنَنسِفَنَّهُ فِی الْیَمِّ نَسْفًا ٭ ِنَّمَا ِلٰهُکُمُ ﷲ الَّذِی لاَِلٰهَ ِلاَّ هُوَ وَسِعَ کُلَّ شَیْئٍ عِلْمًا )

اے بنی اسرائیل! ہم نے تمھیں تمہارے دشمن فرعون سے نجات دی اور طُور کے داہنے جانب کا تم سے وعدہ کیا اور تم پر من وسلویٰ نازل کیا پاکیزہ چیزوں میں جو ہم نے تمہارے لئے بعنوان رزق معین کیا ہے کھاؤ اور اس میں طغیانی اور سر کشی نہ کرو ورنہ تم پر ہمارا غضب ٹوٹ پڑے گااور جو میرے غیض و غضب کا مستحق ہو گا یقینا ذلیل و خوار اور ہلاک ہو جا ئے گا. بیشک میں بخشنے والا ہوں ہر اُس شخص کو جو توبہ کر ے اور ایمان لائے اور پسندیدہ کام انجام دے اور ہدا یت پا ئے۔

اے موسیٰ ! کس چیز نے تم کو اس بات پر آمادہ کیا کہ تم اپنی قوم پر سبقت لے جاؤ؟. جواب دیا ! وہ لوگ ہمارے پیچھے ہی ہیں، میں نے تیری سمت جلدی کی تاکہ تو راضی اور خوشنود ہو جائے. کہا: میں نے تمہاری قوم کو تمہارے بعد آزمایا لیکن سامری نے انھیں گمراہ کردیا. موسیٰ غضب ناک اور افسوسناک حالت میں اپنی قوم کی طرف واپس آئے اور کہا: اے میری قوم! کیا تمہارے ربّ نے تم سے اچھا وعدہ نہیں کیا تھا آیا ہماری غیبت تمہارے لئے طو لا نی ہو گئی تھی، یا تم لو گ اس بات کے خواہشمند تھے کہ تمہارے ربّ کی طرف سے تم پر غضب نازل ہو لہٰذا تم نے ہمارے وعدہ کی خلا ف ورزی کی؟

۱۶۱

انھوں نے جواب دیا ہم نے اپنے اختیا ر سے تمہارے وعدہ کے خلا ف نہیں کیا ہے ہمارے پا س فرعونیوں کے آرائش کے وزنی آلات موجود تھے جس کو ہم نے آگ میں ڈال دیا اور ( فتنہ انگیز) سامری نے بھی اسی طرح اپنے زیورات ڈال دیئے.پھر اس نے ان کے لئے ایک گوسالہ کا مجسمہ بنایا، جو گوسالہ کی آواز رکھتا تھا ؛ انھوں نے کہا:تمہارااور موسیٰ کا خدا یہ ہے جس کو (موسیٰ) نے فراموش کر دیا ہے. آیا( یہ گوسالہ پو جنے والے) غور نہیں کر تے کہ (گوسالہ ) ان کا جواب نہیں دیتا ہے اور ان کے لئے کوئی نفع و نقصان نہیں رکھتا ہے؟!. ہارون نے پہلے ہی ان سے کہا تھا کہ اے میری قوم! تم لوگ اس گوسالہ کے سلسلہ میں فتنہ میں مبتلا ہو چکے ہو، تمہارا ربّ خدا وند رحمن ہے. میری پیروی کرو اورمیرے اطاعت گزار رہو.انھوںنے کہا ! ہم اس کی اسی طرح عبادت کرتے رہیں گے جب تک کہ موسیٰ ہماری طرف واپس نہیں آجا تے. موسیٰ نے (جب واپس آئے تو عتاب آمیز انداز میں ہا رون سے ) کہا: ہارون ! جب تم نے دیکھا کہ گمراہ ہو رہے ہیں، تو کون سی چیز مانع ہوئی کہ تم میرے پا س نہیں آئے؟. کیوں میرے حکم کی مخالفت کی ؟. کہا: اے میری ماں کے بیٹے! میری ڈارھی اور بال نہ پکڑو، میں ڈرا تھا کہ تم کہو گے کہ بنی اسرائیل کے درمیان تفرقہ ڈال دیا ہے اور میرے دستور کی رعایت نہیں کی ہے۔

موسیٰ نے کہا: اے سامری! یہ کون سا عمل ہے( جو تم نے انجام دیا ہے ) ؟. اُس نے کہا: میں نے وہ کچھ دیکھا جو انھوںنے نہیںدیکھاہے، پھر میں نے نمائندۂ حق (جبرئیل )کے نشان قد م کی ایک مشت خاک لی.اور اسے میں نے ( گوسالہ کے اندر ) ڈال دی، میری دلی آرزو نے مجھے اس کام پر آمادہ کیا.موسیٰ نے کہا! جاؤ! تم کو زندگی میں ہر ایک سے یہی کہنا ہے کہ مجھے چھونا نہیں اور تم سے (آخرت میں) ایک وعدہ ہے جو کبھی بر خلا ف نہیں ہوگا اور اپنے خدا کے بارے میں غور کرو جس کی عبادت کو جاری رکھا ہے اسے جلا ڈالوں گا اور( اس کی خاک) دریا میں چھڑک دوں گا. یقینا تمہارا خدا وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور اس کا علم تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

۱۶۲

سورۂ بقرہ کی ۵۱ اور ۵۴ تا ۵۷ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَی َرْبَعِینَ لَیْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وََنْتُمْ ظَالِمُونَ ٭ ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْکُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِکَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ ٭ وَإِذْ آتَیْنَا مُوسَی الْکِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّکُمْ تَهْتَدُونَ٭ وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِهِ یَاقَوْمِ ِنَّکُمْ ظاَلَمْتُمْ َنفُسَکُمْ بِاتِّخَاذِکُمْ الْعِجْلَ فَتُوبُوإ الَی بَارِئِکُمْ فَاقْتُلُوا َنفُسَکُمْ ذَلِکُمْ خَیْر لَکُمْ عِنْدَ بَارِئِکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ ِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ٭ وَإِذْ قُلْتُمْ یَامُوسَی لَنْ نُؤْمِنَ لَکَ حَتَّی نَرَی ﷲجَهْرَةً فََخَذَتْکُمُ الصَّاعِقَةُ وََنْتُمْ تَنظُرُونَ ٭ ثُمَّ بَعَثْنَاکُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ ٭ وَظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَ وََنزَلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَی کُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَکِنْ کَانُوا َنفُسَهُمْ یَظْلِمُونَ ٭ )

اور اُس وقت کو یاد کرو جب ہم نے موسیٰ سے چا لیس شب کا وعدہ کیا،پھر( تم لو گ اس کی غیبت میں) گو سالہ کی پو جا کر نے لگے اور تم ظالم و ستمگر ہو پھر اس کے بعدہم نے تم کو بخش دیا ؛ شاید کہ تم لوگ(اس نعمت کا شکریہ ) بجا لاؤ. نیز اُس وقت کو یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور ( حق و باطل کے )درمیان تشخیص کا وسیلہ دیا .اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم ! تم لوگوں نے گوسالہ پرستی کر کے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے، لہٰذا اپنے خدا کی طرف لوٹ آؤ اور اپنی جہالت کی سزا کے عنوان سے ایک دوسرے کو قتل کر نے کیلئے تیغ کھینچو کہ اسی میں تمہارے خد ا کے نزدیک تمہاری بھلائی ہے. اس خدا نے تمہاری توبہ قبول کی کہ وہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے.اور اس وقت کو یاد کرو جب تم نے موسیٰ سے کہا : اے موسیٰ! ہم تم پر کبھی ایمان نہیں لائیں گے مگر اس وقت جب تک خدا کو اپنی نگا ہوں سے آشکار طور سے نہ دیکھ لیں ، پھر تم صاعقہ کی زد میں آگئے جب کہ تم لوگ دیکھ رہے تھے. اور ہم نے بادل کو تمہارے سر پر سائبا ن قرار دیا اور تم پر من وسلویٰ نازل کیا؛ جو ہم نے تمھیں پاک وپاکیزہ رزق دیا ہے (اُسے) کھاؤ. انھوں نے (اس نعمت کا شکر ادا نہیں کیا) انھوں نے ہم پر نہیں بلکہ اپنے آپ پرستم کیاہے۔

سورۂ اعراف کی ۱۵۵ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے.

( واختار موسیٰ قومهُ سبعینَ رجُلاً لمیقاتنا فلمّا أَخَذَتْهُمُ الرَّجفةُ قال ربِّ لو شئت أ هلَکتَهُم مِنْ قَبْلُ وَایّا أتُهلِکُنا بما فَعَلَ السُّفهائُ منّا ان هَیَ ا لّا فتنتُک... )

موسیٰ نے اپنی قوم سے ستّر آدمیوں کو ہماری وعدہ گاہ کے لئے انتخاب کیا اور جب( دیدار خدا کے تقاضے کے جرم میں) ایک جھٹکے اور زلزلے نے انھیں اپنی لپیٹ میں لے لیا تو( موسیٰ نے اس حال میں)کہا! خدا یا ! اگر تو چاہتا تو، مجھے اور انھیں پہلے ہی موت دے دیتا، کیا ان احمقوں کے کرتوت کی بناء پر ہمیں بھی نابود کر دئے گا؟! یہ صرف تیرا امتحان اور آزمایش ہے۔

۱۶۳

سورۂ بقرہ کی ۶۱ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَإِذْ قُلْتُمْ یَامُوسَی لَنْ نَصْبِرَ عَلَی طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الَرْضُ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الَْرْضُ مِنْ بَقْلِهَا وَقِثَّائِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا قَالَ َتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِی هُوَ َدْنَی بِالَّذِی هُوَ خَیْر اِهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَّ لَکُمْ مَا سََلْتُمْ وَضُرِبَتْ عَلَیْهِمْ الذِّلَّةُ وَالْمَسْکَنَةُ وَبَائُوا بِغَضَبٍ مِنَ ﷲ ذَلِکَ بَِنَّهُمْ کَانُوا یَکْفُرُونَ بِآیَاتِ ﷲ وَیَقْتُلُونَ النّاَبِیِّینَ بِغَیْرِ الْحَقِّ ذَلِکَ بِمَا عَصَوْا وَکَانُوا یَعْتَدُون )

اور جب تم نے کہا: اے موسیٰ! ہم کبھی ایک قسم کی غذا پر اکتفاء نہیں کریں گے، لہٰذا اپنے ربّ سے ہمارے لئے مطالبہ کرو کہ جو کچھ زمین سے پیدا ہوتی ہے جیسے سبزی، کھیرا ،لہسن، مسور کی دال اور پیاز ہمارے لئے پیدا کرے. موسیٰ نے کہا: آیا تم چاہتے ہو کہ جو چیز گھٹیا اور معمولی ہے اس کو بہترا ور گراں قیمت شئی سے معاوضہ کرو؟تو کسی شہر میں آجاؤ کہ وہاں تمہاری خواہش کے مطابق سب کچھ موجو د ہے. ان کے لئے ذلت ورسوائی یقینی ہوگئی اور اللہ کے غیظ و غضب کا نشانہ بن گئے، کیو نکہ انھوں نے مخالفت و نافرمانی کی اور ظلم و تعدی کی بناء پر آیات خدا وندی کے منکر ہوئے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کیا۔

سورۂ مائدہ کی ۲۰ تا۲۶ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِهِ یَاقَوْمِ اذْکُرُوا نِعْمَةَ ﷲ عَلَیْکُمْ إِذْ جَعَلَ فِیکُمْ َنْبِیَائَ وَجَعَلَکُمْ مُلُوکًا وَآتَاکُمْ مَا لَمْ یُؤْتِ َحَدًا مِنْ الْعَالَمِینَ ٭ یَاقَوْمِ ادْخُلُوا الَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِی کَتَبَ ﷲ لَکُمْ وَلاَتَرْتَدُّوا عَلَی َدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِینَ ٭ قَالُوا یَامُوسَی ِنَّ فِیهَا قَوْمًا جَبَّارِینَ وَِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا حَتَّی یَخْرُجُوا مِنْهَا فَِنْ یَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ ٭ قَالَ رَجُلاَنِ مِنَ الَّذِینَ یَخَافُونَ َنْعَمَ ﷲ عَلَیْهِمَا ادْخُلُوا عَلَیْهِمْ الْبَابَ فَِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَإِنَّکُمْ غَالِبُونَ وَعَلَی ﷲ فَتَوَکَّلُوا ِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ ٭ قَالُوا یَامُوسَی ِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا َبَدًا مَا دَامُوا فِیهَا فَاذْهَبْ َنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ ٭ قَالَ راَبِ ِنِّی لاََمْلِکُ ِلاَّ نَفْسِی وََخِی فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ ٭ قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَة عَلَیْهِمْ َرْبَعِینَ سَنَةً یَتِیهُونَ فِی الَرْضِ فَلاَتَْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ ٭ )

۱۶۴

جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم :اپنے اوپر نازل ہو نے والی خدا کی نعمت کو یاد کرو،کیو نکہ اُس نے تمہارے درمیان پیغمبروں کو قرار دیا اور تمھیں آزاد ( اور بادشاہ بنایا) اور تمھیں ایسی چیزیں عطا کیں جو کسی کو نہیں دی ہیں. اے میری قوم ! اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤجسے خدا نے تمہارے لئے معین اور مقرر فر مائی ہے اور پیچھے واپس نہ آنا( خدا کے حکم کی خلا ف ورزی نہ کرنا) ورنہ نقصان اٹھانے والوں میں ہوگے. انھوں نے کہا اے موسیٰ! وہاں پر ظالم و ستمگر قوم ہے لہٰذا وہاں ہم کبھی داخل نہیں ہوں گے جب تک کہ وہ لوگ وہاں سے نکل نہ جائیں، پھر اگر وہ نکل جائیںتو ہم یقیناً ہو جائیں گے دو خدا ترس مرد جو کہ مشمول ِ نعمت ِخداوندی تھے، انھوں نے ان سے کہا تم لوگ ان پر دروازے سے وارد ہو اگر ایسا کرو گے توکامیابی تمہارے قدم چومے گی خدا پر بھروسہ رکھو اگر صاحب ایمان ہو.کہنے لگے: اے موسیٰ وہاں ہم کبھی داخل نہیں ہوں گے جب تک کہ وہ لوگ وہاں سے نکل نہ جائیں،تم اور تمہارا رب وہاں جا ئے اور ان سے جنگ کرے، ہم یہیں پر بیٹھے ہوئے ہیں، موسیٰ نے کہا، پروردگارا! میں فقط اپنا اور اپنے بھائی کا ذمہ دار ہوں، تو ہمارے اور اس فاسق قوم( جو حکم نہیں مانتی) کے درمیان جدائی کر دے. خدا نے فرمایا!( اس شہر میں ان کا داخل ہو نا) چالیس سال تک کے لئے حرام ہے اور بیابان میں سر گرداں پھرتے رہیں گے تم اس فاسق قوم پر افسوس نہ کرو۔

سورۂ قصص کی ۷۶ویں تا ۸۱ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

(إ ِنَّ قَارُونَ کَانَ مِنْ قَوْمِ مُوسَی فَبَغَی عَلَیْهِمْ وَآتَیْنَاهُ مِنْ الْکُنُوزِ مَا ِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوئُ بِالْعُصْبَةِ ُولِی الْقُوَّةِ إِذْ قَالَ لَهُ قَوْمُهُ لاَتَفْرَحْ ِنَّ ﷲ لاَیُحِبُّ الْفَرِحِینَ ٭ وَابْتَغِ فِیمَا آتَاکَ ﷲ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلاَتَنسَ نَصِیبَکَ مِنْ الدُّنْیَا وََحْسِنْ کَمَا َحْسَنَ ﷲ الَیکَ وَلاَتَبْغِ الْفَسَادَ فِی الَرْضِ ِنَّ ﷲ لاَیُحِبُّ الْمُفْسِدِینَ ٭ قَالَ ِنَّمَا ُوتِیتُهُ عَلَی عِلْمٍ عِندِی َواَلَمْ یَعْلَمْ َنَّ ﷲ قَدْ َهْلَکَ مِنْ قَبْلِهِ مِنْ القُرُونِ مَنْ هُوَ َشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وََکْثَرُ جَمْعًا وَلاَیُسَْلُ عَنْ ذُنُوبِهِمْ الْمُجْرِمُونَ ٭ فَخَرَجَ عَلَی قَوْمِهِ فِی زِینَتِهِ قَالَ الَّذِینَ یُرِیدُونَ الْحَیَاةَ الدُّنیَا یَالَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَا ُوتِیَ قَارُونُ ِنَّهُ لَذُو حَظٍّ عَظِیمٍ ٭ وَقَالَ الَّذِینَ ُوتُوا الْعِلْمَ وَیْلَکُمْ ثَوَابُ ﷲ خَیْر لِمَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا وَلاَیُلَقَّاهَا ِلاَّ الصَّابِرُونَ ٭ فَخَسَفْنَا بِهِ واَبِدَارِهِ الَرْضَ فَمَا کَانَ لَهُ مِنْ فِئَةٍ یَنصُرُونَهُ مِنْ دُونِ ﷲ وَمَا کَانَ مِنَ المُنْتَصِرِینَ ٭ )

۱۶۵

قارون موسیٰ کی قوم سے تعلق رکھتا تھا کہ اس نے ان پر تجاوز کیا. ہم نے اُسے اس درجہ خزانے دئیے تھے کہ ان کی کنجیوں کا قوی ہیکل اور مضبوط جماعت کے لئے بھی اٹھا نا زحمت کا باعث تھا۔ جب اس کی قوم نے اس سے کہا:تکبر نہ کرو کیو نکہ خدا تکبر کر نے والوں کو دوست نہیں رکھتا. جو کچھ خدا نے تجھے دیا ہے اس سے دار آخرت کا انتظام کر اور دنیا سے جو تیرا حصّہ ہے اس کو بھول نہ جا اور جس طرح خداوند سبحان نے تجھ پر نیکی کی ہے تو بھی دوسروں کے ساتھ نیکی کر اور حسن سلوک سے پیش آ اور فساد اور تبا ہی مچا نے والوں میں سے نہ ہوجا کیو نکہ خدا فساد کر نے والوں کو دوست نہیں رکھتا. قارون نے کہا: یہ مال و دولت میری دانش کی وجہ سے ہے کیا وہ نہیں جانتا تھا کہ خدا وند عالم نے اس سے صدیوں پہلے ان لوگوں کو جو اس سے قوی اور مالدار ترین لوگ تھے ہلاک کردیا ہے اور گنا ہگار لوگ اپنے گناہوں کے بارے میں سوال نہیں کئے جائیں گے؟ (قارون) اپنی آرایش اور زیبائش کے ساتھ اپنی قوم کے پاس باہر نکلا۔

جو لوگ دنیا طلب تھے انھوں نے کہا:! اے کاش ہم بھی قارون کی طرح دولت کے مالک ہوتے یہ تو بڑے عظیم حصّہ کا مالک ہے. جو لوگ اہل علم اور دانش تھے انھوں نے کہا! تم پر وائے ہو ! خدا وند سبحان کا ثواب ان لوگوں کے لئے ہے بہتر ہے جو ایمان لا کر نیکو کار بنے ہیںاور ایسا ثواب صابروں کے علاوہ کسی کو نہیں ملتا. پھر ہم نے اسے(قارون )اور اس کے گھر بار کو زمین میں دھنسا دیا اور اُس کا کوئی ناصر و مدد گار نہیں تھا جو خدا کے مقابلے میں اس کی نصرت کر تا اور خود بھی اپنی مدد نہیں کرسکا۔

کلمات کی تشریح

۱۔ جیبک، جیب:

گریبان، چاک پیراہن۔

۲۔ مَلائہ ، الملائُ :

قوم کے بزرگ اور اکا بر لوگ،کبھی جماعت پر بھی اطلاق ہوتا ہے اور اشراف سے اختصاص نہیں رکھتا۔

۱۶۶

۳۔ ارجہ ، اَرْج الامر:

اُسے تاخیر میں ڈال دیا۔

ارجہ واخاہُ ،اُ س کا اور اُس کے بھائی کا کام تاخیر میں ڈال دو۔

۴۔ حاشرین:

حشر؛اکٹھا ہو نا،جمع ہو نا۔

حاشرین :

جمع ہوئے تاکہ جا دو گروں کو اکٹھا کریں۔

۵۔ تلقف، لقف الطعام:

غذا نگل گیا ،غذا حلق کے نیچے لے گیا۔

۶۔یأ فکون، اَفک یافکُ:

بہتان اور افتراء پر دازی کی. یا فکون،بر خلاف حقیقت پیش کرنا۔

۷۔صَا غرین، صاغر:

ذلیل وخوار۔

۸۔ مِن خلا فٍ، قطع الایدی و الارجلَ من خلافٍ :

یعنی داہنا ہاتھ اور بایاں پاؤں قطع کرنا اوریا اُس کے بر عکس۔

۱۶۷

۹۔افرغ ،

افرغ الله الصبر علی القلوب :

خدا نے دلوں میں صبر ڈال دیا، ان پر صبر نازل کیا.ان میں صبر کی قوت دی۔

۱۰۔ سنین :

سنہ کی جمع سنین ہے جو خشک اور بے آب و گیاہ اور سخت سالوں کے معنی میں ہے۔

۱۱۔ یطےّروا، تطّیر:

بد شگونی کی،بد فالی کی،طائر یہاں پر ان کی شومی(نحوست) اور ان کے خیر و شر کے معنی میں ہے .یعنی یہ سارے امور خود ان سے پیدا ہوتے ہیں اور دوسروں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔

۱۲۔طوفان:

اتنی شدید بارش کہ لوگوں کو اپنے دائرہ میں لے لے۔

۱۳۔ جراد :

ٹڈی ،مراد یہ ہے کہ ٹڈی نے جتنی گھاس اور اُگنے والی چیز تھی سب کو کھا کر نابود کر دیا۔

۱۴۔ القَمّل:

اس کے معنی کے بارے میں کہا ہے : ایک موذی اور نہایت چھوٹا حشرہ یعنی کیڑا ہے جیسے گیہوں کا گھن اور اونٹ کی کیڑی اور حیوان کی جوں یا کلنی وغیرہ ۔

۱۵۔رجز: عذاب

۱۶- ینکثون:

اپنے عہد وپیمان کو توڑ ڈالتے ہیں۔

۱۷۔ طود:

آسمان کو چھوتے ہوئے عظیم پہاڑ ۔

۱۶۸

۱۸۔ ازلفنا:

ہم نے قریب کر دیا، یعنی : فرعون اور فرعونیوں کو موسیٰ اور ان کی قوم سے زیا دہ سے زیادہ نزدیک کر دیا تا کہ انھیں دیکھیں اور ان کا تعاقب (پیچھا) کریں اور یکبار گی سب غرق ہو جائیں۔

۱۹۔ متبّر، تبَّرہ :

اسے قتل کر دیا ، ہلاک کر ڈالا. متبّر: ہلاک شدہ مقتول۔

۲۰۔ اسباطاً :

اسباط: قبائل اورہروہ قبیلہ جس کے افراد کی تشکیل ایک مرد کی نسل سے ہوئی ہو۔

۲۱۔ اِنْبََجَستْ :

منفجر ہو گئی، پھٹ گئی، ایک دوسرے سے جدا ہو گئی۔

۲۲۔ من و سلویٰ:

من کی تفسیر کی ہے کہ وہ صمغیٰ (ترنجبین ) تھا جامد شہد کے مانند جو آسما ن سے نازل ہوتا تھا اور جب وہ درخت یا پتھرپر بیٹھتا ہے تو ٹکیہ کے مانند ہو جا تا ہے. سلویٰ بھی ایک مہا جر اور دریائی پرندہ کا نام ہے جسے سمان، کہتے ہیں( بٹیر ) ۔

۲۳۔حطّة :

حَطَّ اللہ وزرہ ، خدا نے اس کے گناہ معاف کردئیے۔

قولوا حِطّة:

یعنی کہو خدا یا! ہمارے گناہوںاور ہمارے بُرے ا عمال کو نیست ونابود کر دے۔

۱۶۹

۲۴۔ یعدون:

ستم کرتے ہیں۔

۲۵۔ بقلھا وقثاّئھا وفو مِھا :

بقلھا: وہ اچھی اور پاکیزہ سبزیاں جو بغیر کسی تبدیلی کے کھائی جا تی ہیں، القثّائ! کھیر ا یا ککڑی، فُومھا: گہیوں یا روٹی یا لہسن۔

۲۶۔ لا تأس علیٰ القوم:

ان کے لئے غمگین اور محزون نہ ہو۔

۲۷۔عتوا:

تکبر کیا،حد سے آگے بڑھ گئے ۔

۲۸۔شُرّعاً :

پا نی پر ظا ہر اور رواں۔

۲۹ ۔خاسئین:

ذلیل وخوار اور مردود افراد۔

.۳ ۔خُوار، خار الثور والعجل خواراً:

یعنی گائے اور گو سالہ نے آواز نکالی۔

۳۱۔ لا مَساسَ :مسّہ و ماسّہ:

لمس کیا،کسی چیزپربغیر کسی مانع اور رکاوٹ کے ہا تھ پھیرا۔

آیت شریفہ میں لا مساس یعنی مجھے لمس نہ کرو.(مجھے نہ چھوؤ)

۳۲۔ یعکفون اور عاکفین:

عکف فی المکان :کسی جگہ پر ٹھہرا ، و عکف فی المسجد:یعنی مسجد میں معتکف ہوا(اعتکاف کے لئے قیام کیا)۔

یعنی مسجد میں ایک مدت تک عبادت کے قصد سے قیام کیا۔

۱۷۰

۳۳۔ نبذتُھا :

اُسے پھینک دیا.ڈال دیا۔

۳۴۔ سوّلت لی نفسی:

میرے نفس نے مجھے دھو کہ دیا اور اس کام کو میرے لئے خوبصورت انداز میں پیش کیا۔

۳۵۔ ننسفنَّہ:

نسفت الریح التراب: یعنی ہوا نے خاک کو اڑا ڈالا اور پرا گندہ کردیا،بکھر گیا اور یہاں پر اس معنی میں ہے کہ اس کے ذرّات کودریا میں ڈا ل دوں گا۔

۳۶۔ فتنُک:

تیرا امتحان۔

۳۷ ۔ مسکنة :

فقر، بے چا ر گی،ضعف اور نا توانی۔

۳۸ ۔ لَن نبرح:

گو سالہ کی پر ستش سے ہم کنارہ کشی نہیں کر یں گے(باز نہیں آئیں گے) اور ہا تھ نہیں کھینچے گے۔

۳۹۔ لم ترقب:

محفوظ نہیں رکھا، اس کی نگہدا شت نہیں کی۔

.۴۔ خطبُک: تمہارا حال،تمہاری موقعیت۔

آیات کی تفسیر میں قابل توجہ اور اہم مقامات

فرعون بنی اسرا ئیل میں پیدا ہو نے والے نوزاد بچوں کا سر کاٹ دیتا تھا،اس لئے کہ اس سے کہا گیا تھا کہ بنی اسرائیل کے درمیان ایک بچہ پیداہو گا اس کی اور اس کے قوم کی ہلا کت اس کے ہاتھوں سے ہو گی.خداوندا عالم کی حکمت با لغہ اس بات کی مقتضی ہوئی کہ اُس بچہ کی پرورش کی ذمّہ داری خود فرعون نے لے لی.اورخدا کی مرضی یہی تھی کہ وہ بچہ فرعون کے گھر میں نشو و نما پا ئے یہاں تک کہ بالغ وعا قل ہو کر قوی ہو جا ئے۔

۱۷۱

ایک دن موسیٰ نے فرعون کے محل سے قد م باہر نکا لا اور بغیر اس کے کہ کوئی ان کی طرف متو جہ ہو شہر میں داخل ہوگئے.وہاں دیکھا کہ ایک قبطی شخص بنی اسرا ئیل کے ایک شخص سے دست و گریباں ہے اور ایک دوسرے کو مار رہے ہیں. اور چو نکہ وہ قبطی شخص اپنے حریف پر غالب ہو گیا تھا ، لہٰذا اس اسرائیلی نے موسیٰ سے عا جزی کے ساتھ نصرت طلب کی موسیٰ نے ایک قدم آگے بڑھا یا اور ایک گھونسا اس قطبی کو مار دیا وہ اس مارکے اثر سے زمین پر گر پڑا اور تھوڑی دیر میں دم توڑ دیا۔

فرعونی موسیٰ سے انتقام لینے اور انھیں قتل کرنے پر متحد ہوگئے،اس وجہ سے وہ مجبورا ً ترساں اور گریزاں جبکہ اپنے اطراف سے بہت ہی چو کنا تھے مصر سے قدم با ہر نکا لا اس طرح چلتے رہے یہاں تک کہ مدین آگئے وہاں حضرت شعیب پیغمبر کے اجیر ہوگئے اور ان کے بھیڑ وں کی ۸ سال یا دس سال چرواہی کو اس بات پر قبول کیا کہ حضرت شیعب کی کسی ایک لڑکی سے ازدواج کریں گے.موسیٰ نے دس سال خدمت کی اور اختتام پر حضرت شیعب نے وفاء عہد کے علا وہ وہ عصا بھی انھیں دیا جو پیغمبروں سے انھیں میرا ث کے عنوان سے ملا تھا اور گوسفندوں کی چرواہی کے کام آتا تھا۔( ۱ )

موسیٰ ملازمت اور نوکری کے تمام ہو نے پر اپنی بیوی اور گوسفندوں کے سا تھ سینا نامی صحرا کی طرف متو جہ ہوئے تو تاریک اور سرد رات میں ایک آگ مشا ہدہ کی۔

آپ نے اس آگ کی طرف رخ کیا تا کہ اس سے کچھ آگ حاصل کریں (اور اپنے اہل وعیال کو گرمی پہنچائیں)یا اس آگ کی روشنی میں کوئی ایسا شخص مل جائے جو راستے کی راہنمائی کرے.لیکن جیسے ہی موسیٰ وہاں پہنچے،ایک آواز سنی کہ کوئی کہہ رہا تھا!

اے موسیٰ! میں ربّ العالمین ہوں( ۲ ) اپنے عصا کو ڈال دو.جب موسیٰ کی نگاہ عصا پر پڑی تو کیا دیکھا کہ جاندار کی طرح حرکت کر رہا ہے توپشت کر کے بھا گے اورمڑ کر اپنے پیچھے نگا ہ بھی نہیں کی۔

خدا نے آواز دی:اے موسیٰ! خوف نہ کرو کہ میں اُسے اس کی پہلی حا لت میں لو ٹا دوں گا.پھر موسیٰ نے اپنا ہا تھ عصا کی طرف بڑ ھا یا نا گاہ دیکھا کہ وہی لکڑی کا عصا ہو گیا ہے جو پہلے تھا.اس کے بعد خدا وندرحمن نے ان سے فرمایا! اپنے ہاتھ کو اپنے گریبان کے اندر لے جا ؤ اور نکالو. تمہارا ہاتھ سفید ی سے چمکنے لگے گا.بغیر اس کے کہ اس میں کوئی داغ دھبّہ ہو.پھر اس وقت خداوند سبحان نے اُن سے فرما یا؛یہ دو معجزے نو

____________________

(۱)یہ بات روایات میں بھی ذکر ہوئی ہے.

(۲) ہم نے اپنے مطالب کو قصص، نمل، اعراف، طہٰ اور شعراء کے سوروں سے جمع کر کے بیان کیا ہے.

۱۷۲

آیات اور نشانیوں میں سے ہیں اور ان کے ہمراہ (میری رسالت لے کر) فرعون اور اس کی قوم کے پاس جاؤ.موسیٰ نے کہا ! خدا یا! ہمارے بھا ئی ہارون کو جو کہ ہم سے زیادہ گویا زبان کا مالک ہے ہمارے ہمراہ کر دے.اور خدا نے فرمایا: ہم نے تمہارے بازؤوں کو تمہارے بھائی سے محکم اور مضبوط کر دیا.اب فرعون کی طرف جا ؤ کہ اُس نے سرکشی اور طغیانی کر رکھی ہے.اور اس کے ساتھ نرمی اور ملا طفت سے گفتگو کرنا شا ید وہ نصیحت حا صل کر کے (خدا سے ) ڈرے.اس کے پاس جا کے کہو میں تمہارے ربّ کا پیغمبر ہوں،بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ کر دے اور انھیںاس سے زیا دہ آزار اور اذیت نہ پہنچا ئے۔

موسیٰ کلیم اللہ نے پیغام خدا وندی کو فرعون اور اس کی با رگا ہ میں مقر ب افراد تک پہنچایا. اور خدا وند عالم نے بھی موسیٰ کے ہاتھوں اپنی نو آیات کی نشا ندہی کی.لیکن فرعون نے سب کو جھٹلا یا اور خدا وند سبحان کی اطاعت اور پیروی سے انکار کر تے ہوئے بولا:اے موسیٰ! کیا تم اس لئے آئے ہو کہ ہمیں اپنے سحر اور جا دو سے ہماری سر زمینوں سے با ہر کر دو! ہم بھی تمہارے جیسا سحر اور جادو پیش کرسکتے ہیں.پھر اس نے حکم دیا کہ تمام جا دو گروں کو ان کی عید کے دن حاضر کرو۔

جا دو گروں نے حضرت موسیٰ سے کہا : اے موسیٰ ! پہلے تم اپنا عصا پھینکو گے یا ہم پھینکیں؟ موسیٰ نے جواب دیا:تم لوگ ہی پہل کرو.جب جا دو گروں نے اپنی رسیاں اور لکڑیاں زمین پر ڈال دیں،تو ان کا جادو لوگوں کی نگاہوں پر چھا گیا اور انھیںسخت ڈرایا.فرعونی جادو گروں نے ایک عظیم جادو دکھایا. میدان نمائش میں لوگوں کی نظر میں غضبناک اور حملہ آور بل کھا رہے تھے ایسے موقع پر خدا وند عالم نے موسیٰ کو حکم دیا:اپنا عصا زمین پر ڈال دو کہ وہ تن تنہا ہی جو کچھ جا دو گروں نے لوگوں کی نگاہ میں جھوٹ اور خلا ف واقع نما ئش کی ہے سب کو نگل جائے گا۔

موسیٰ نے تعمیل حکم کی اور زمین پر اپنا عصا ڈ ال دیا آپ کا عصا خوفنا ک اور مہیب اژدھے کی شکل میں تبدیل ہو گیا کہ ا س کے ایک ہی حملے میں جادوں گروں کے تما م نقلی اور بناوٹی شعبدے وسیع و عریض میدان میں ایک دم سے نابود ہوگئے.پھر موسیٰ نے اس عظیم اور بھاری بھرکم اژدھے کی طرف اپنا ہا تھ بڑھا یا جس نے تمام رسیوں اور لاٹھیوںکو نگل لیا تھا کہ وہ اژدھا ان کے ہاتھ میں آتے ہی وہی عصا ہو گیا جو پہلے تھا۔

۱۷۳

جادو گروں نے درک کرلیا کہ موسیٰ کے عصا کے ذریعہ اتنی ساری لا ٹھیوں اور رسیوں کا ہمیشہ کے لئے نابود ہو نا سحر وجادونہیں ہو سکتا.بلکہ اللہ کے عظیم معجزوں میں سے ایک معجزہ ہے.اسی وجہ سے سب کے سب سجدہ میں گر پڑے اور بو لے : ہم ربّ العالمین موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لائے.جب فرعون نے انھیں ایمان لا تے ہوئے دیکھا تو بولا:قبل اس کے کہ میں تمھیں اجازت دوں تم لوگ ایمان لے آئے؟ (اس کام کی سزا میں ) تمہارے ہا تھ پیر مخالف سمت سے کاٹ کر دار پر لٹکا دوں گا.ساحروں نے جواب دیا: کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہم اپنے ربّ کی طرف چلے جائیں گے۔

اس کے بعد فرعون اور فرعونیوں نے مسلسل عذاب خدا وندی جیسے طو فان ،ٹڈیوں کے حملہ، جؤوں ، مینڈکوں اور خون(پانی کے خون ہونے) سے دو چار رہے اور ان میں سے جب کبھی کو ئی عذاب نازل ہوتا تو کہتے : اے موسیٰ! اپنے ربّ سے دعا کرو کہ اگر وہ ہم سے عذاب ہٹا لے تو ہم اس پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرا ئیل کو بھی یقینا تمہارے ہمراہ کر دیں گے.خدا وند عالم حضرت موسیٰ کی دعا کے ذریعہ(لازمہ تنبیہ کے بعد)بلا کو اُن سے برطرف کر دیتا لیکن فرعونی اپنے عہد وپیمان کو توڑ دیتے.(اور اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر باقی رہتے)۔

ان واقعات کے بعد خدا نے موسیٰ کو وحی کی کہ ہمارے بندوں کو کوچ کا حکم دو. موسیٰ بنی اسرا ئیل کو لے کر راتوں رات کوچ کر گئے یہاں تک کہ دریائے سرخ تک پہنچے. فرعون اور اس سپاہیوں نے ان کا پیچھا کیا یہاں تک کہ صبح سویرے ان تک پہنچ گئے بنی اسرا ئیل کی فریاد وفغاں بلند ہونے لگی کہ: ہم گرفتار ہوگئے۔

اس وقت خدا نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ اپنا عصا دریا پر ما رو.موسیٰ نے حکم کی تعمیل کی اور دریا پر اپنا عصا مارا.دریا شگافتہ ہوگیا اور بنی اسرا ئیل کے قبیلوں کی تعداد کے برابر بارہ خشک راستے نمودار ہوگئے اور ہر قبیلہ اپنی مخصوص سمت کی طرف روانہ ہو گیا اور آگے بڑھ گیا.فرعون اور اس کے سپا ہیوں نے دریا میں پیدا ہوئے خشک راستوں میں ان کا پیچھا کیا.جب بنی اسرا ئیل کی آخری فرد دریا کے اُس سمت سے پار ہوگئی اور فرعون کے سپا ہیوں کی آخری فرد دریائی راستوں میں داخل ہوگئی تو اچا نک پا نی آپس میںمل گیا اور فرعون اور اس کے لشکر کے تمام افراد کو اپنے اندر ڈبو لیا۔

۱۷۴

اس حا لت میں کہ فرعون نے کہا :ہم اُس خدا پر ایمان لائے جو بنی اسرا ئیل کے معبود کے علا وہ کوئی معبود نہیں ہے. اور میں اس کے سامنے سراپا تسلیم ہوں. اُ س سے کہا گیا: ابھی ! چند گھڑی پہلے مخالفت اور نافرمانی کر رہے تھے؟! آج تمہارے( مردہ) جسم کو ساحل تک پہنچا کر باقی رکھیں گے؛تا کہ آیندہ والوں کے لئے عبرت ہو. خدا وند عظیم نے سچ فر مایا ہے،کیو نکہ اس فرعون کا مصا لحہ لگا جسم مصر کے قدیمی تاریخ میو زیم میں دیکھنے والوں کے لئے محل نما ئش بناہوا ہے. میں (مؤلف) نے بھی اُسے نز دیک سے دیکھا ہے۔

جب خدا وند عالم نے بنی اسرا ئیل کو دریا سے عبور کر ایا اور ان کے دشمنوں کو دریا میں غرق کر ڈالا اور سینا نامی صحرا کی طرف آگے بڑھے، تو ایسے لو گوں سے ملا قات ہوئی جو اپنے بتوں کی پو جا کرتے تھے.بنی اسرائیل نے موسیٰ سے کہا: اے موسیٰ! ہمارے لئے بھی کوئی خدا بناؤ،جس طرح ان لوگوں کے خدا ہیں.موسیٰ نے فرمایا:تم لوگ بہت جا ہل انسان ہو،ان کا کام باطل اور لغو ہے؛آیا میں تمہارے لئے خدا وند یکتا کے علا وہ جس نے تم کو(تمہارے زمانے میں)عالمین پر منتخب کیا ہے کسی دوسرے خدا کی تلا ش کروں؟! یہ انتخاب جس کی جانب حضرت موسیٰ نے اشارہ کیا ہے اس لحاظ سے تھا کہ خدا وند عالم نے انھیں میں سے ان کے درمیان پیغمبروں کو مبعوث کیا اور انواع واقسام کی نعمتوں جیسے ان کے سر پر بادلوںکا سا یہ فگن ہونے اور آفتاب کی حدت سے بچا ؤ اور من وسلویٰ جیسی غذا سے نوازا تھا۔

ان تمام چیزوں کے با وجود جب خدا نے حکم دیا کہ سجدہ کی حا لت میں خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے دروازہ سے داخل ہوں اور کہیں:'' حطّہ ''ہمارے سارے گناہوں کو معاف کر دئے تو اس کے برعکس اپنی نشیمن گاہ کو زمین پر گھسیٹتے ''حنطہ '' ( سرخ گیہوں) کہتے ہوئے دا خل ہوئے ۔

۱۷۵

اور دریا کے ساحل پر رہنے والوں نے ،کہ ان کے خدا نے سنیچر کے دن مچھلی کا شکار کر نے سے ممانعت کی تھی.اس وقت جب کہ اُس دن جھنڈ کی جھنڈ مچھلیاں پا نی کی سطح پر ظاہر ہوتی تھیںخدا کی نافرما نی کر تے ہوئے سنیچر کے دن ان کا شکا ر کیا تو خدا نے اُن سے نا راض ہو کر بندروں کی شکل میں انھیںتبدیل کر دیا۔

بنی اسر ائیل کے سینا نامی صحرا میں پڑاؤ ڈالنے کے بعد اس جگہ عظیم انسانی اجتماع کی تشکیل ہوئی،انھیں اپنے اس اجتما ع کے لئے نظا م اور قوانین کی ضرورت محسوس ہوئی یہی موقع تھا کہ خدا وند عالم نے کوہِ طور کی دا ہنی جا نب اپنے پیغمبر موسیٰ سے وقت مقرر کیا تا کہ تیس شب وروز کے بعد انھیں تو ریت عطا کرے،موسیٰ نے حکم کی تعمیل کی اور اپنے ربّ سے مناجات کرنے کے لئے اپنی وعدہ گاہ کی طرف روانہ ہوگئے اور اپنے بھائی ہا رون کو اپنی قوم کے درمیان جانشینی دی۔

ربُّ العا لمین نے موسیٰ کے ساتھ اپنے وعدہ کی تکمیل مزید دس شبوں کے اضا فہ سے کی اور یہ وعدہ چالیس شب میں تمام ہوا۔

حضرت موسیٰ کی غیبت سے فا ئدہ اُٹھا تے ہوئے سامری نے بنی اسرا ئیل کو فریب دینے اور گمراہ کرنے کی سعی کی.اور اس راہ میںطلائی یعنی سونے کے آ رائشی اسباب سے جوکہ فرعونیوں سے ادھار لی تھیں اُنھیں پگھلا کر اس سے گو سالہ کی شکل کا ایک مجسمہ بنایا.اور اُس مجسمہ کے منھ میں جبرئیل کے گھوڑے کی نعل کی جگہ والی تھوڑی سی خاک رکھ دی جب وہ حضرت موسیٰ پر نازل ہو نے کے وقت انسانی شکل میں گھوڑے پر سوار آئے تھے، اس کے اثر سے مجسمۂ گو سالہ کے منھ سے گوسا لہ کی آواز کی طرح ایک آواز آتی تھی.اس طلائی (سنہرے)گو سالہ کا تنہاامتیاز یہی بانگ اور آوازتھی. سامری کے نفس نے اس کام کو خوبصورت ، جا لب اور جا ذب نظر انداز میں اس کے سامنے پیش کیا اورا سے اس کے انجام دینے کی تشویق دلا ئی .حضرت موسیٰ نے (چالیس شب کے اختتام اور اپنی قوم کی جانب واپس آنے کے بعد) سامری سے کہا: تم تن تنہا بیا با نوں اور جنگلوں کا رخ کرو اگر کسی نے بھی تم سے رابطہ رکھا تو دونوں ہی بخا ر میں مبتلا ہو جاؤ گے؛اور ہمیشہ کہتے رہو گے کہ مجھ کو نہ چھؤو؛ اس کے بعد بھی میں تمھیں قیامت کے دن عذاب خدا وندی کی خبر دے رہا ہوں.اب اپنے اس جعلی اور بناوٹی خدا کو دیکھو جس کی عبادت کرتے تھے کہ اسے ہم آگ میں جلا کر دریا میں ڈ ال دیں گے؛یقینا تمہارا خدا صاحب جلال اور بلند و با لا ہے۔

۱۷۶

گوسالہ کے نابود ہو نے اور سامری کے بیابانوں میں فرار کر نے کے بعد بنی اسرا ئیل کا وہ گروہ جو اس کے گو سالہ کی پو جا کر نے لگا تھا،اپنے گناہ پر نادم ہوا وہ لوگ فرمان خدا وندی کے سامنے سراپا تسلیم ہوئے تاکہ وہ مومنین جنھوں نے گو سا لہ پر ستی نہیں کی تھی،ان گوسالہ پرستوں کو قتل کریں اور یہی( قتل کرنا) ان کے اس گناہ کی توبہ تھی جس کے وہ مرتکب ہوئے تھے اور چونکہ انھوں نے یہ سزا قبول کی اور اسے سراپا تسلیم کیا تو خدا وند عالم نے حضرت موسیٰ کی شفا عت کی بنا ء پر ان کی تو بہ قبول کر لی۔

ان تمام چیزوں کے با وجود،بنی اسرا ئیل نے قبول نہیں کیاکہ موسیٰ کلیم اللہ ہیں اور جو توریت وہ لے کر آئیں ہیں خد اوند عالم نے انھیں عطا کی ہے.اس وجہ سے ان سے خواہش کی کہ خود گواہ رہیں اور خدا کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھیں.لہٰذا ان میں سے ستّر افراد کو موسیٰ نے چنا اور ان کے ہمراہ کوہِ طور کی جانب گئے: اس گروہ نے جب خدا کا کلام سنا تو کہا:خدا کو واضح اور آشکار طور سے ہمیں دکھاؤ؛کہ انھیں زلزلہ نے اپنے احاطہ میں لے لیا اور سب کے سب ہلاک ہوگئے۔

موسیٰ اس بات سے خو فزدہ ہوئے کہ اگر اس واقعہ کی خبر بنی اسرا ئیل کو ہو گئی تو یقین نہیں کریں گے۔

یہ وجہ تھی کہ خدا وند سبحان کے حضور تضرع وزاری کی یہاں تک کہ خدا نے ان کی دعا قبول کی اور انھیں دوبارہ زندہ کیا۔

اور حضرت موسیٰ نے ان سے فرمایا: اے میری قوم!اُس مقدس اور پاکیزہ سر زمین میں داخل ہو جاؤ جسے خدا وند عالم نے تمہارے لئے معین کی ہے.انھوں نے ان کے جواب میں کہا! اے موسیٰ! وہاں ظلم اور سختی کرنے والے لوگ پا ئے جا تے ہیں اور ہم وہاں کبھی نہیں جائیں گے.مگر اُس وقت جب وہ لوگ وہاں سے باہر نکل جائیں.تم اپنے خدا کے ہمراہ جاؤ اور ان سے جنگ کرو:ہم یہیں بیٹھے منتظر رہیں گے!ان کے نیک افراد میں صرف دولوگ کالب اور یوشع نے ان سے کہا:تم لوگ جیسے ہی شہر کے دروازہ سے اُن کے پاس جاؤ گے کامیاب ہو جاؤ گے.اور موسیٰ نے کہا:خد یا ! میں اپنے اور اپنے بھائی کے علا وہ کسی پر طا قت اور تسلط نہیں رکھتا .تو ہمارے اور اس فا سق قوم کے درمیان جدائی ڈال دے.خدا وند عالم نے بھی فرمایا:ایسی جگہ پر چا لیس سال تک کے لئے ان کا تسلط حرام کر دیا گیا ہے. یہ لوگ اتنی مدت تک جنگلوں اور بیابانوں میں حیران وسرگرداں رہیں گے.تم اس تباہ و برباد قوم کے لئے اپنا دل نہ دکھاؤ اور غمگین نہ ہو۔

۱۷۷

نتیجہ کے طور پر بنی اسرا ئیل چا لیس سال تک سردی کے ایام میں رات کے وقت ایک گو شہ سے کو چ کرتے تھے اور صبح تک حر کت کر تے رہتے تھے.لیکن صبح کے وقت خود کو وہیں پا تے تھے جہاں سے کوچ کرتے تھے۔

اس حیرانی اور سر گردانی کے زمانے میں سب سے پہلے ہا رون اور اس کے بعد موسیٰ نے دار فانی کو وداع کہا اور موسیٰ کے وصی یوشع نے بنی اسرا ئیل کی رہبری فرمائی، یوشع نے ظالموں اور جابروں سے جو کہ شام کی سر زمینوں میں سا کن تھے جنگ کی اور بنی اسرا ئیل کے ہمراہ وہاں داخل ہوگئے۔

خدا وند عالم نے حضرت موسیٰ کی شریعت کے اوصیا ء میں سے بہت سے پیغمبروںکو بنی اسرا ئیل کی طرف بھیجا یہاں تک کہ حضرت داؤد اور ان کے بعد حضرت سلیمان کا زمانہ آیا اور ہم انشاء اللہ ان دو پیغمبروں کے حالات بیان کر رہے ہیں۔

چو تھا منظر۔ داؤد اور سلیمان

خدا وند عالم سورہ ٔص کی ۱۷ تا ۲۰ اور ۲۶ویں آیات میں ارشاد فرما تا ہے:

( وَاذْ کُرْعَبَدْنَادَا ؤدَ ذَا الأیْدِ نّه أَوّاب٭ اَنّا سَخَّرْ نَا الْجِبَالَ مَعَه یُساَبِحْنَ با لْعَشِیِّ وَ ا لْاِ شْرَاقِ٭ وَالطَّیْرِ مَحْشُوْرةً کُلّ لَه أَوَّاب٭ وَ شَدَدْنٰا مُلْکَه وَآتَیْنٰاهُ الْحِکْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابَ٭ ...٭ یَا دَاؤدَ اِنَّا جَعَلنَاکَ خَلیفةً فِی الأَرضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ... )

ہمارے بندئہ قوی داؤد کو یاد کرو کہ جو خدا کی طرف بہت زیادہ تو جہ رکھتاتھا.ہم نے ان کے لئے پہاڑوں کو مسخر کیا کہ وہ اس کے ساتھ صبح وشام خدا کی تسبیح کرتے تھے. پرندے بھی ان کے پا س جمع ہو کر ان کے ہم آواز تھے.ہم نے ان کی حکومت اور ان کی فرما نروائی کو مضبوط اور محکم بنا دیا اور انھیں حکمت اور قطعی حکومت عطا کی...اے داؤد! ہم نے تمھیں رو ئے زمین پر اپنا جانشین قرار دیا،لہٰذا لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرو۔

سورہ ٔسبا کی۱۰ویں اور ۱۱ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَلَقَدْ آتَیْنَا دَاوُودَ مِنَّا فَضْلاً یَاجِبَالُ َوِّبِی مَعَهُ وَالطَّیْرَ وََلَنَّا لَهُ الْحَدِیدَ ٭ َنِ اعْمَلْ سَابِغَاتٍ وَقَدِّرْ فِی السَّرْدِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ِنِّی بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیر )

۱۷۸

ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے فضل عطا کر کے کہا:اے پہاڑوں!اور اے پرندوں! اس کے ساتھ ہم آواز ہو جاؤ؛اور لوہے کو ان کے لئے نر م کر دیا .اور یہ کہ(تم اے داؤد)کشادہ زرھیں بنا ؤ اور اُن کے حلقوں میں ناپ کی رعا یت کرو اور تم سب لوگ نیک عمل کرو کہ میں تم سب کے اعمال کا دیکھنے والا ہوں۔

سورہ ٔ انبیاء کی ۷۹ اور ۸۰ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَسَخَّرْناَ مَع دَاؤُدَ الجِبالَ یُسبّحن وَالطَّیرَ وَ کُنَّا فَاعِلینَ٭وَعَلَّمناهُ صَنعةَ لَبُوسٍ لَّکُمْ لِتُحصِنکُم مّن بأ سکُمْ فَهل أَنتُم شَاکِرونَ )

ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کیا تاکہ دائود کے ساتھ ہماری تسبیح کریں اورہم ایسا کام کرتے رہتے ہیں.اور داؤد کو زرہ بنانا سکھایا، تا کہ تمھیں جنگ کی شدت سے محفوظ رکھے، آیا تم ان تمام کا شکر یہ ادا کروگے ؟

سورہ ٔ ص کی ۳۰،۳۵ تا ۳۸ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَ وَهَبنَا لِد اوُدَسُلِیمانَ نِعمَ الِعبدُ اِنَّهُ أوّاب٭ ...٭ قَالَ راَبِ اِغفِرلِی وَهَبَ لِی ملکاً لّا یَنبغِی لأحدٍ مِّنْ بَعدیِ اِنَّکَ أنتَ الوَهّابُ٭ فَسَخَّرَ ) ( نَالَهُ الرّیحَ تَجرِی بِأمرِه رُخائً حیثُ أَصاب٭ وَالشَّیَاطِینَ کُلَّ بَنّاء ٍ وَ غُوّاصٍ٭ وَ آخرِ ینَ مُقَرَّنین فِی الأصْفادِ )

ہم نے داؤد کو سلیمان نامی فرزند عطا کیا ،وہ ایک اچھا بندہ تھا اور ہماری طرف بہت زیادہ رجوع کرنے والا تھا.سلیمان نے کہا:خد ایا! مجھے بخش دے اور مجھے ایک ایسی با دشاہی اور سلطنت عطا کر کہ کوئی میرے بعد اس کا سزاوار نہ ہو،تو بہت بخشنے والا ہے.

پھر ہوا کو اس کا تابع بنایا کہ آپ کے حکم سے جہاں کا ارادہ کرتے اطمینان کے ساتھ چلتی تھی.اور شیاطین کو بھی تابع بنادیا جو کہ(ان کے لئے ) معمار اور غوّاص تھے. اور دیگر شیا طین کو بھی جو ایک دوسرے کے بغل میں زنجیر میں جکڑے ہوئے تھے ۔

۱۷۹

سورۂ نمل کہ ۱۵ تا ۲۴ اور ۲۷ تا ۴۴ویں آیات میںارشادہوتا ہے:

( وَلَقَدْ آتَیْنَا دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ عِلْمًا وَقَالاَالْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی فَضَّلَنَا عَلَی کَثِیرٍ مِنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِینَ ٭ وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاوُودَ وَقَالَ یَاَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّیْرِ وَُوتِینَا مِنْ کُلِّ شَیْئٍ ِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِینُ ٭ وَحُشِرَ لِسُلَیْمَانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالِْنْسِ وَالطَّیْرِ فَهُمْ یُوزَعُونَ ٭ حَتَّی ِذَا َتَوْا عَلَی وَادِی النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَة یَاَیُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاکِنَکُمْ لاَیَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لاَیَشْعُرُونَ ٭ فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِنْ قَوْلِهَا وَقَالَ راَبِ َوْزِعْنِی َنْ َشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِی َنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلَی وَالِدَیَّ وََنْ َعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَ َدْخِلْنِی بِرَحْمَتِکَ فِی عِبَادِکَ الصَّالِحِینَ ٭ وَتَفَقَّدَ الطَّیْرَ فَقَالَ مَا لِیَ لاََرَی الْهُدْهُدَ َمْ کَانَ مِنْ الْغَائِبِینَ ٭ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا شَدِیدًا َوْ لَأَذْبَحَنَّهُ َوْ لَیَاْتِینِیّ بِسُلْطَانٍ مُبِینٍ ٭ فَمَکَثَ غَیْرَ بَعِیدٍ فَقَالَ َحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُکَ مِنْ سَبٍَ بِنَبٍَ یَقِینٍ ٭ ِنِّی وَجَدتُّ امْرََةً تَمْلِکُهُمْ وَُوتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ وَلَهَا عَرْش عَظِیم ٭ وَجَدْتُهَا وَقَوْمَهَا یَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُونِ ﷲ وَزَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطَانُ َعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السّاَبِیلِ فَهُمْ لاَیَهْتَدُونَ ٭ َلاَّ یَسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِی یُخْرِجُ الْخَبْئَ فِی السَّمَاوَاتِ وَالَرْضِ وَیَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ ٭ ﷲ لاَِلَهَ ِلاَّ هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ ٭ قَالَ سَنَنظُرُ َصَدَقْتَ َمْ کُنتَ مِنَ الْکَاذِبِینَ ٭ اإِذْهَب بِکِتَابِی هَذَا فََلْقِهِ الَیهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانظُرْ مَاذَا یَرْجِعُونَ ٭ قَالَتْ یَاَیُّهَا المَلَُ ِنِّی ُلْقِیَ الَی کِتَاب کَرِیم ٭ ِنَّهُ مِنْ سُلَیْمَانَ وَِنَّهُ بِسْمِ ﷲ الرَّحْمَانِ الرَّحِیمِ ٭ َلاَّ تَعْلُوا عَلَیَّ وَْتُونِی مُسْلِمِینَ ٭ قَالَتْ یَاَیُّهَا المَلَُ َفْتُونِی فِی َمْرِی مَا کُنتُ قَاطِعَةً َمْرًا حَتَّی تَشْهَدُونِ ٭ قَالُوا نَحْنُ ُوْلُوا قُوَّةٍ وَُولُوا بَْسٍ شَدِیدٍ وَالَْمْرُ الَیکِ فَانظُرِی مَاذَا تَْمُرِینَ ٭ قَالَتْ ِنَّ الْمُلُوکَ ِذَا دَخَلُوا قَرْیَةً َفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا َعِزَّةَ َهْلِهَا َذِلَّةً وَکَذَلِکَ یَفْعَلُونَ ٭ وَِنِّی مُرْسِلَة الَیهِمْ بِهَدِیَّةٍ فَنَاظِرَة بِمَ یَرْجِعُ الْمُرْسَلُونَ ٭ فَلَمَّا جَائَ سُلَیْمَانَ قَالَ َتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ فَمَا آتَانِیَ ﷲ خَیْر مِمَّا آتَاکُمْ بَلْ َنْتُمْ بِهَدِیَّتِکُمْ تَفْرَحُونَ ٭ ارْجِعْ الَیهِمْ فَلَنَْتِیَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لاَقِبَلَ لَهُمْ بِهَا وَلَنُخْرِجَنَّهُمْ مِنْهَا َذِلَّةً وَهُمْ صَاغِرُونَ ٭ قَالَ یَاَیُّهَا المَلَُ َیُّکُمْ یَاْتِینِی بِعَرْشِهَا قَبْلَ َنْ یَْتُونِی مُسْلِمِینَ ٭ قَالَ عِفْریت مِنَ الْجِنِّ َنَا آتِیکَ بِهِ قَبْلَ َنْ تَقُومَ مِنْ مَقَامِکَ وَِنِّی عَلَیْهِ لَقَوِیّ َمِین ٭ قَالَ الَّذِی عِنْدَهُ عِلْم مِنْ الْکِتَابِ َنَا آتِیکَ بِهِ قَبْلَ َنْ یَرْتَدَّ الَیکَ طَرْفُکَ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهُ قَالَ هَذَا مِنْ فَضْلِ راَبِی لِیَبْلُوَنِی ََشْکُرُ َمْ َکْفُرُ وَمَنْ شَکَرَ فَإِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ کَفَرَ فَإِنَّ راَبِی غَنِیّ کَرِیم ٭ قَالَ نَکِّرُوا لَهَا عَرْشَهَا نَنظُرْ َتَهْتَدِی َمْ تَکُونُ مِنَ الَّذِینَ لاَیَهْتَدُونَ ٭ فَلَمَّا جَائَتْ قِیلَ َهَکَذَا عَرْشُکِ قَالَتْ کََنَّهُ هُوَ وَُوتِینَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهَا وَکُنَّا مُسْلِمِینَ ٭ وَصَدَّهَا مَا کَانَتْ تَعْبُدُ مِنْ دُونِ ﷲ ِنَّهَا کَانَتْ مِنْ قَوْمٍ کَافِرِینَ ٭ قِیلَ لَهَا ادْخُلِی الصَّرْحَ فَلَمَّا رََتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَکَشَفَتْ عَنْ سَاقَیْهَا قَالَ ِنَّهُ صَرْح مُمَرَّد مِنْ قَوَارِیرَ قَالَتْ راَبِ ِنِّی ظاَلَمْتُ نَفْسِی وََسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمَانَ لِلَّهِ راَبِ الْعَالَمِین )

۱۸۰