اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

اسلام کے عقائد(تیسری جلد )0%

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 352

اسلام کے عقائد(تیسری جلد )

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

صفحے: 352
مشاہدے: 125823
ڈاؤنلوڈ: 3395


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 352 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 125823 / ڈاؤنلوڈ: 3395
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(تیسری جلد )

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد 3

مؤلف:
اردو

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے باپ جناب عبد اللہ اور چچا جناب ابو طالب

۱۔ جناب عبد اللہ خاتم الانبیاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ء کے والد

جناب عبد اللہ اور جناب ابو طالب کی ماں فاطمہ، عمر وبن عا ئذ بن عمران مخزومی کی بیٹی ہیں۔( ۲ )

____________________

(۲)سیرۂ ابن ہشام، ج۱، ص ۱۲۰

۲۶۱

جناب عبد اللہ اپنے باپ جناب عبد المطلب کی سب سے چھوٹی اولا د ہیں۔

جیسا کہ اخبار سیرت سے اندازہ ہوتا ہے نوفل کی بیٹی رقیہ نے اپنے بھائی''ورقہ بن نوفل'' سے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مبعوث ہو نے کی خبر سنی تھی لہٰذااس نے خود کو جناب عبداللہ کے لئے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ماں آمنہ سے ازدواج سے پہلے پیش کیا تھا،لیکن جناب عبد اللہ نے اس پر توجہ نہیں دی، اُس سے شادی نہیں کی اور اس کی مراد پوری نہیں کی ۔

رقیہ بھی جناب عبد اللہ کے آمنہ سے شادی کر نے کے بعد آپ سے متعرّض نہ ہوئی ؛ ایک مرتبہ جناب عبد اللہ نے اس سے کہا تھا کہ جس چیز کی مجھ سے کل خواہش کر رہی تھی(مجھ سے شادی کرنے کی) آج کیوں نہیں چاہتی ہو؟ رقیہ نے جناب عبد اللہ کے جواب میں کہا تھا ! جو نور کل تمہارے ہمراہ تھا وہ تم سے جدا ہو گیا ہے۔

اور ایک دوسری روایت میں مذکور ہ بالا داستان کی طرح کا واقعہ کسی دوسری عورت کے بارے میں آیا ہے کہ اُس نے کہا:

جناب عبد اللہ جب کہ ان کی پیشانی سے ایک سفید نور ضوفشاں تھا، جیسے گھوڑے کی پیشانی پر سفیدی چمکتی ہے ، اس عورت کے سامنے سے گزرے تھے ۔( ۱ )

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے والد جناب عبد اللہ کے اخبار کے بارے میں اتنے ہی پر اکتفا ء کر تے ہیں،انشاء اللہ حضرت ابو طالب پیغمبر کے چچا کی شخصیت کے متعلق بیان کررہے ہیں۔

۲۔ اسلام کے ناصر اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سر پرست ،جناب ابو طالب

۱۔ ابو طالب:

مروج الذھب میں مذکور ہے:

''جناب ابو طالب'' کے نام کے بارے میں اختلا ف ہے ،بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ان کا نام ''عبد مناف'' ہے ، جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے. اور ایک گروہ کاخیال ہے کہ وہی کنیت ان کا نام ہے، اس دلیل سے کہ حضرت علی ابن ابی طالب (رضی ﷲ عنہ) نے پیغمبر کے املاء کرانے پرجب خیبر کے یہودیوں

____________________

(۱) سیرۂ ابن ہشام، ج۱، ص ۱۴۹، ۱۷۰

۲۶۲

کے لئے خط لکھا،تو خط کے آخر میںاپنے نام اور جناب ابو طالب کے نام کے درمیان ابن سے''الف'' کو حذف کر دیا اور اس طرح لکھا: ''کتب علی بن ابی طالب '' لہٰذا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو طالب اسم ہے نہ کہ کنیت۔( ۱ )

جناب عبد المطلب نے پیغمبر کے متعلق وصیت میں جناب ابو طالب سے ایک شعر کے ضمن میں اس طرح بیان کیا ہے:

اوصیتُ من کنیتہُ لطالب

بابن الّذی قد غاب لیس آئِب

میں نے اس شخص کو جس کی کنیت میں نے ''طالب'' رکھی ہے، اس شخص (عبدﷲ ) کے فرزند کے بارے میں جو جا کے واپس نہیں آئے گا،اُس سے وصیت کی ہے۔

۲۔ جناب ابو طالب کی سیرت اور روش

تاریخ یعقوبی میں اختصار کے ساتھ ذکر ہوا ہے:

جناب عبد المطلب نے اپنی وصیت میں مکّہ کی حکو مت اور کعبہ کے امور اپنے فرزند '' زبیر'' کے حوالے کئے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سر پرستی اور زمزم کی سقائی''جناب ابو طالب '' کے ذمّہ کی۔

جناب عبد المطلب کا جب انتقال ہو اتو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس وقت آٹھ سال کے تھے۔( ۲ )

سیرۂ حلبیہ میں مذکور ہے:

''سقایت'' اس طرح سے تھی کہ چمڑے کے حوض دیوار کعبہ کے پا س رکھ دئیے جا تے تھے اور زمزم کی کھدائی سے پہلے خوش ذائقہ اور میٹھا پا نی دیگر کنؤوں سے ،مشکوں اور ظروف میں بھر کر اونٹ کی پشت پر لا د کر لا تے تھے اور ان کو حوض میں ڈال دیتے تھے اور بسا اوقات ایام حج میں حاجیوں کے پینے کے لئے اس میں انگور کا رس اور کھجور ڈال دیتے تھے.حاجیوں کے واپسی تک یہی صورت حال رہتی تھی. یہ پانی کا پہنچا نا اور حاجیوں کی مہمان نوازی''عبد مناف'' کے بعد ان کے فرزند ''جناب ہاشم'' اور ان کے بعد ان کے فرزند ''جناب عبد المطلب'' اور ان کے انتقال کے بعد ان کے فرزند جناب ابو طالب تک پہنچی اور انھوں نے ان

____________________

(۱)عربی املا کا ایک قاعدہ یہ ہے کہ' 'ابن'' کا الف جب بیٹے کا نام اور باپ کے نام کے درمیان واقع ہو تو گر جا تا ہے جیسے ''الحسن بن علی'' یہاں پر بھی ابن اور علی کا الف ابی طالب کے درمیان حذف ہو گیا ہے اور ذکر ہوا ہے ''علی بن ابی طالب'' یہ اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ ابو طالب اسم ہے نہ کہ کنیت.(۲)تاریخ یعقوبی ،ج۲، ص ۱۳.

۲۶۳

تمام امور کی انجام دہی کے لئے ہمت کی یہاں تک کہ فقر وناداری نے جناب ابو طالب کا پیچھا کیا لہٰذا اپنے بھائی جناب عباس سے آیندہ سال موسم حج تک کیلئے دس ہزار درہم قرض لیا اور سارا پیسہ حاجیوں تک آب رسانی میں اُسی سال خرچ کر دیا۔

جب دوسرا سال آیا تو، جناب ابو طالب کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس سے ''جناب عباس '' کا قرض ادا کرتے تو اپنے بھائی سے کہا : ۱۴ ہزار درھم ہمیں مزید دے دو تاکہ آیندہ سال سب ایک ساتھ دے دوں جناب عباس نے کہا میں قرض دوں گا مگر اس شرط کے ساتھ کہ اگر اس قرض کو بھی ادا نہ کر سکے تو تم حجاج کی سقایت سے کنارہ کشی اختیار کر لو گے اور اُ سے میرے حوالے کر دو گے. جناب ابو طالب نے قبول کر لیا یہاں تک کہ اس کے بعد تیسرا سال بھی آ پہنچا اور اس دفعہ بھی جناب ابو طالب کے پاس کچھ نہیں تھا کہ اپنے بھائی جناب عباس کا قرض ادا کرتے۔

اس وجہ سے سقائی کا فریضہ''جناب عباس '' کے حوالے کر دیا. جناب عباس کے بعد سقایت ان کے فرزند جناب عبد اللہ تک پہنچی اسی طرح جناب عباس بن جناب عبد المطلب کے فرزندوں میں دست بہ دست منتقل ہوتی رہی یہاں تک کہ ''سفّاح'' عباسی کا دور آگیا لیکن اس کے بعد بنی عباس نے اس فریضہ کو چھوڑ دیا۔( ۱ )

تاریخ یعقوبی میں مذکور ہے:

حضرت علی بن ابی طالب نے فر مایا: ہمارے والدنے فقر و ناداری کی حالت میں سروری اور سرداری کی ہے. اور ان سے پہلے کوئی فقیر و نادار سیادت اور قیادت کو نہیں پہونچا ہے۔( ۲ )

۳۔ جناب ابو طالب کا عقیدہ اور ایمان

مروج الذھب میں مذکور ہے کہ:

جناب ابو طالب تمام گزشتہ اور اپنے ہم عصر لو گوں میں سب سے زیادہ خالق عالم کا اقرار کرتے تھے اور اپنے اس عقیدہ پر ثابت قدم تھے اور خالق ہستی کے وجود پر دلیل و برہان پیش کرتے تھے۔( ۳ )

انشاء اللہ آیندہ بحثوں میں اس سے متعلق زیادہ گفتگو کریں گے.جو کچھ ہم نے یہاں تک ذکر کیا ہے وہ جناب ابو طالب کی خاص سیرت تھی اور ہم انشاء اللہ جب جناب ابو طالب کے عصر میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت سے متعلق اخبار کی چھان بین کر یں گے تو اسی کے ساتھ ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت اور ان کا دفاع اور اسلامی عقائدکا تحفظ کرنے میں ان کی روش کی تحقیق کر یں گے۔

____________________

(۱) سیرۂ حلبیہ، ج ۱ ، ص ۱۴؛ سیرۂ نبویہ ، ج ۱ ، ص ۱۶؛ اور انساب الاشراف، ج۱، ص۵۷.(۲)تاریخ یعقوبی، ج۲ ،ص۱۴، طبع بیروت. (۳) مروج الذھب، مسعودی، ج۲، ص ۱۰۹۔

۲۶۴

نتیجہ گیری

جزیرة العرب میں حضرت اسمٰعیل ، حضرت ابراہیم کی حنفیہ شریعت پر وصی، نبی اور رسول تھے،ان کے اور حضرت عیسیٰ کے بعد فترت کے زمانے میں بہت سے مبشرین اور منذرین مبعوث ہوئے تھے، ان میں سے بعض انبیاء واوصیاء حضرت عیسیٰ کی شریعت کے اپنی قوم کے درمیان مبلغ تھے،جیسے حنظلہ، خالد اور وہ راہب جن کی حضرت سلیمان نے شاگردی اختیار کی تھی۔

ام القریٰ (مکّہ) میں بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اجداد کو یکے بعد دیگرے ہم دیکھتے ہیں کہ خا نہ کعبہ کی تعمیر میں مراسم حج کے بر قرار کر نے کے لئے اہتمام کر نا، مہمان نوازی اور کھا نا کھلا نا،بیت اللہ کے زائروں کی ہر طرح سے دیکھ بھال کر نا اور خدا کے مہمانوں تک پا نی پہونچانا، مراسم حج کے آخر تک انھوں نے ان تمام امور میں حضرت ابراہیم کی سنت کی اقتداء کی ہے. موسم حج میں خا نہ خدا کے زائروں کی مہمان نوازی میں اہتمام کر نا نہ فخر ومباہات اور اپنی شخصیت کے لئے تھا اور نہ اپنے قوم و قبیلہ کی شان بڑھانے کے لئے.بلکہ اس کے سائے میں وہ خدا کی خوشنودی کے خواہاں تھے. یہی وجہ تھی کہ اُس ضیافت اور مہما ن نوازی پر خرچ ہونے والے اموال کے لئے شرط لگا دی تھی کہ مال حرام سے نہ ہو. یہ اُ س حال میں ہے کہ خدا وند عالم نے مشرکین کے بارے میں اس طرح خبر دی ہے:

( وَ الَّذِینَ یُنِْفقُونَ أَمْوَالَهُمْ رِئا ئَ النَّاسِ وَ لَا یُؤمِنُوْنَ باللّٰهِ وَ لاَ بِالیَوْمِ الآخِر ) ( ۱ )

وہ لوگ (مشرکین) اپنے اموال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرتے ہیں اور خدا وند عالم اور روز قیامت پر ایمان نہیں رکھتے۔

ان بزرگوں نے لوگوں کو قیامت اور اس کے نتیجۂ اعمال سے ڈرایا؛ جبکہ خدا وند عالم عصر جاہلیت کے مشرکین اور ان کی گفتگو کے بارے میں اس طرح خبر دیتا ہے:

____________________

(۱)سورۂ نسائ، آیت: ۳۸

۲۶۵

( وَقَالُوا مَاهِیَ اِ لَّاحَیَا تُنَا الدُّنْیاَ نَموتُ وَنَحْیَا وَ مَا یُهْلِکُنَا اِ لّا الدَّهرُ ) .)( ۱ )

(مشرکین نے) کہا: ہماری اس دنیاوی زندگی کے علا وہ کوئی حیات نہیںہے،اسی میں مرتے ہیں اور اسی میںجیتے ہیں اور ہمیں تو صرف زمانہ ہلاک کرتا ہے۔

( وَ قَالُوا اِنْ هِی اِِلَّا حَیٰاتُناَ الدُّنیَاَ وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِیْن ) ( ۲ )

اور (مشرکین نے ) کہا:ہماری دنیاوی زندگی کے علاوہ کوئی چیز وجود نہیں رکھتی اور نہ ہی ہم محشور کئے جائیں گے۔

( ...وَلَئِن قُلتَ اِ نَّکُم مَبْعُو ثُونَ مِنْ بَعدِ الْمُوتِ لَیَقُولَنَّ الَّذِ ینَ کَفَرُوااِنْ هٰذَا اِلَّا سِحْر مُبین ) ( ۳ )

...اور اگر تم کہو کہ مر نے کے بعد زندہ کئے جاؤ گے ،تو کفّار کہیں گے: یہ صرف کھلا ہوا جادو ہے۔

انھیںآیات کے مانند سورۂ اسراء کی ۴۹ ویں اور ۹۸ ویں آیات اور سورہ ٔ مو منون کی ۳۷ ویں اور ۸۲ ویں آیات اور سورہ ٔ صافات کی ۱۶ ویں اور سورہ ٔ واقعہ کی ۴۷ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے۔

اور سورہ ٔ یٰس کی ۷۸ ویں ۷۹ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے۔

( وَضرَبَ لَنا مَثَلاً وَ نَسِیَ خَلْقَهُ قَالَ مَن یُحْیِی العِظَامَ وَهِی رَمِیمُ٭ قُل یُحْیِیهَا الَّذِی أَنشَأهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وهُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ علیمُ )

ہمارے لئے اس نے ایک مثال دی اور اپنی خلقت کو بھول بیٹھا اور کہا: ان ہڈیوںکو جو بوسیدہ ہو چکی ہیں کون زندہ کرے گا؟! کہو: وہی زندہ کرے گا جس نے پہلی بار انھیں خلق کیا تھا اور وہ ہر نوع خلقت کے بارے میں آگا ہ ہے۔

خدا وند سبحان نے سورۂ واقعہ کی ۴۶ تا ۴۸ ویں آیات میں ان جاہلوں کے جو اوصاف بتائے ہیں وہ اس طرح ہیں :

( وَکَانُوا یُصِرُّوْنَ عَلیَ الحِنْثِ العَظِیمِ٭ وَکَانُوا یَقُولُونَ أَاِذَاْ مِتْنَا وَکُنَّا تُراباً وَعِظَامَاً أاِنَّا لِمَبعوثُوْنَ٭ أَوَآبَاؤُنَا الأَ وَّ لون )

____________________

(۱)سورۂ جاثیہ، آیت: ۲۴.

(۲)سورۂ انعام، آیت: ۲۹.(۳) سورۂ ہود، آیت: ۷.

۲۶۶

اور وہ لوگ بڑے گناہوں پر اصرار کرتے ہیں. اور کہتے ہیں: کہ جب ہم مر کر خاک اور ہڈی ہو جائیں گے،تو کیا ہم دوبارہ اٹھائے جائیں گے؟! آیا ہمارے گزشتہ آباء و اجداد بھی دوبارہ (زندہ ہو جائیں گے)؟!

منجملہ ان امور کے کہ جن کو اجداد پیغمبر ( یکے بعد دیگرے) انجام دیتے تھے، و ان کے معاشرے اور سماج میں رائج رسم و رواج کی مخالفت تھی جیسے شراب و زنا کی حرمت پو ری تاریخ میں وہ بھی ایسے سماج میں جس میں شراب نوشی اور زنا کاری کا ارتکا ب ان کے درمیان مختلف صورتوں اور شکلوں میں رائج تھا۔

اس طرح سے کہ مکّہ اور طائف میں اس حرام کاری کے لئے مخصوص گھر ہوتے تھے کہ ان کی بلندیوں پر مخصوص نشانات اورخاص قسم کے جھنڈے لگے ہوتے تھے جو اسی بات کی عکا سی کر تے تھے۔

اسی طرح لڑکیوں کو زندہ در گور کر نے سے نہی کر تے تھے،وہ بھی ایسے زمانے میں کہ خدا وند سبحان سورۂ نحل کی ۵۸ ویں اور۵۹ ویں آیات میں ارشاد فرما تا ہے:

( وَ اِذَاْ بُشَِّرَ أَحدُهُمْ بِا لاُنثٰی ظَلَّ وَجهُهُ مُسوَدّاً وَ هُو کَظِیم٭ یَتَوَارَیٰ مِنَ القَوْمِ ِمن سُوء ِمَا بُشِّرِ بِه أَیُمسکُهُ عَلیٰ هُوْنٍ أَم یدسُّهُ فِیْ التُّرابِ... )

اور ان میں سے جب کسی کو لڑکی کی ولا دت کا مژدہ سنا یا جاتا ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جا تا ہے اور غصّہ سے بھر جا تا ہے.اور جو کچھ اُسے مژدہ دیاگیا اس کی قباحت اور برائی کی وجہ سے وہ لوگوں سے پوشیدہ ہو جا تا تھا(اور فکر کر تا تھا) کہ آیا اسے ذلت و خواری کے ساتھ محفوظ رکھے یازمین میں اسے چھپا دے ۔

ہاں ، ان لو گوں (اجداد پیغمبر) نے اس کے علاوہ کہ نا پسندیدہ امور کو ترک کرتے ، دوسروں کو بھی ان کے کر نے سے منع کر تے تھے،اپنی قوم کے درمیان رائج رسم و رواج کی جنھیں قرآن کریم کے مکّی سوروں میں انھیںبُرے عنوان سے یاد کیا گیا ہے،مخا لفت کر تے تھے۔

۲۶۷

اسی طرح مکا رم اخلا ق پر بہت توجہ دیتے تھے جو کہ ان سے مخصوص تھے اور لوگوںکو اس بات کی دعوت دیتے کہ خدا کے مہمانوں اور حاجیوںکو کھا نا کھلا نے کے لئے حلال طریقہ سے کمائی ہوئی رقم سے انفاق کریں.وہ بھی ایک ایسے معاشرہ میں جہاں ربا اور قمار بازی (جوا ) کے ذریعہ کمائی ہوتی ہو.اور چوری ، ڈکیتی اور لوگوں کے اموال کی لوٹ کھسوٹ جس طریقہ سے بھی ممکن ہوااور جس شخص سے بھی ممکن ہو لوٹ لیتے تھے۔

اعتقادی اعتبار سے بھی ،تاریخ نے یہ پتہ نہیں دیا کہ پیغمبر کے اجداد میں سے کسی ایک فرد نے بھی بُت پرستی کی ہو، یا بُت کے لئے قر بانی کی ہو،یا کسی بُت سے مدد مانگی ہو،کسی بُت سے طلب باراں کی ہو یا بُت کے نام پر حج کا لبیک کہا ہو،یا کسی بُت کے نام سے قسم کھائی ہو۔

اور وہ بھی ایسے حالات میں کہ جب مکّہ اور اس کے ارد گرد اور اطراف کے علاقوں میں لوگوں کے عقائد اور ان کے یقین کی بنیاد بتوں پر استوار تھی اور ان کی گفتگو اور ان کا کلام انھیں کے محور سے پُرہوتا تھا۔

اور ان کا لوگوں کو قیامت کے دن اعمال کی سزا سے خوف دلانا ، وہ بھی ایسے معاشرہ میں جہاں اخروی زندگی کے معتقد افراد کی عقل و خرد کا مذاق اڑایا جاتا تھا اور ان کی توہین کر تے تھے ،یہ ایک قابل غور مسئلہ ہے۔

اور عقل سلیم اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہے کہ ہم کہیں کہ تمام مذکورہ امور ان تمام صدیوں اور زمانوں میں اتفا قی تھے. وہ بھی حضرت اسمٰعیل کے فرزندوں کے زمانے سے حضرت عبد المطلب کے زمانے تک یعنی پانچ سو سال سے زیادہ کی مدت میں ایسا اتفاق ہوا ہو. یعنی اجداد پیغمبر ان تمام صدیوں میں اتفاقی طور پر ان صفات کے حامل ہوگئے تھے ، اس کے علاوہ یہ بات بھی ہے کہ ان کا نسب اخلا قی پستیوں کی آلودگی سے پاک تھا اور یہ طہا رت اُ س وقت تھی جب مکّہ اور طا ئف میں زنا اور دوسری اخلاقی برائیاں عام تھیں ۔

جہاں تک اس حقیر نے سیرت اور انساب سے متعلق کتابوں کا مطالعہ کیا ہے کوئی مشہور اور شناختہ شدہ گھرانہ نہیں ملا جس کا نسب اخلا قی گراوٹ اور اس جیسی آلودگی سے پاک ہو اور یہ کہنا کہ یہ سب اتفا قی اور حا دثاتی طور پر تھا تو یہ غیر معقول بات ہے۔

ان تمام باتوں کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ ،پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اجداد اپنی قوم کو خا تم الانبیاء کی بعثت کے بارے میں مکّہ میں مژدہ دیتے تھے اور بتاتے تھے کہ آنحضرت کا آسمانی کتابوں میں محمد اور احمد نام ہے ۔ وہ اپنی قوم سے مطا لبہ بھی کیا کرتے تھے کہ آنحضرت مبعوث ہو جائیں تو ان کی تصدیق کرتے ہوئے ان کی نصرت کر یں۔ اجداد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ کارنامہ خدا وند عالم کی اس بات کا مصداق ہے کہ وہ سورۂ آل عمران آیت ۸۱ میں فرماتا ہے:

۲۶۸

( وَاإِذْ أَخَذَ اللّٰهُ مِیثَاقََ النّاَبِیینَ لَمَا آتیتُکم مِنْ کِتَابٍ وَ حِکْمَةٍ ثُمَّ جَاْئَ کُمُ رسول مُصدِّق لِمَا مَعَکُم لتُؤ مِنُنَّ بِه وَ لَتَنصُرُ نَّهُ قَالَ ئَ أَقرَرْتُم وَ اَخَذْتُم عَلیٰ ذَلِکُمْ اِصْرِی قَالُواْ أَقْرَرنَا فَا شْهَدُوا وَ أَنا مَعَکُم مِنَ الشَّاهِدِین ) اور جب خدا وند عالم نے پیغمبروںسے عہد و پیمان لیا کہ جب بھی ہم تمھیں کوئی کتاب یا حکمت دیں، پھر تمہاری طرف جب وہ پیغمبر آئے جو تمہارے دین کی تصدیق کر تا ہو، توقطعی طور سے اس پر ایمان لاؤ اور اس کی نصرت کرو(اُس وقت خدا نے پیغمبروں سے ) کہا: آیا تم نے اقرار کیا اور اُس کا عہد وپیمان کیا ؟ سب نے کہا: ہم نے اقرار کیا .فرمایا؛ پھر گواہ رہنا میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔اور یہ رسول وہی محمد بن جناب عبد اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں۔وہ تمام باتیں جو ہم نے اجداد پیغمبر کے عقائد کے بارے میں بیان کی ہیں سب سے زیا دہ جناب عبد المطلب سے صادر ہوئی ہیں جیسے ان کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ولا دت کے موقع پر یہ شعر کہنا۔

انت الذّی سُمّیت فی الفرقان ---- فی کتب ثا بتة المبان

احمد مکتوب علی اللِّسان

''تم وہی ہو کہ فرقان او رغیر تحریف شدہ اور استوار کتابوں میںتحریر اور زبان پر جس کا ''احمد'' نام ہے۔

اور ان کا یہ شعر کہنا کہ جب حلیمہ نے انھیں گم کر دیا تھا :

انت الذّ ی سمَّیتهُ محمداً

'' خدا یا!'' یہ تو ہے کہ اس کا نام '' محمد '' رکھا ہے ۔

اور ان اشعار میں جو ابرھہ اور اس کے لشکر کی ہلا کت کے بعد پڑھے ہیں تصریح کر تے ہیں کہ خود وہ اور ان کے آباء و اجداد خدا کی حجتیں ہیں:

نحن آل الله فی ما قد مضی لم یزل ذاک علی عهد ابرهم

( ہم گزشتہ افراد کی آل اللہ ہیں اور حضرت ابراہیم کے زمانے سے ہمیشہ ایسا رہا ہے)۔

لم تزل للهِ فینا حجة --- یدفع الله بها عنّا النّقم

( ہمیشہ ہمارے درمیان خدا کی ایک حجت رہی ہے کہ اس کے ذریعہ بلاؤں کو ہم سے دور کر تا ہے)۔یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ اسلام نے جناب عبد المطلب کی بعض سنتوں کی تا ئید کی ہے. کیو نکہ وہ حضرت ابراہیم کے دین حنیف پر تھے اور جو کچھ انھوں نے سنت چھوڑی ہے وہ ان کی شریعت کی پیروی کی بنیادپر تھی۔اسی وجہ سے جناب عبد المطلب کی سنتیں اسلام میں داخل ہوئیں اور خدا نے فرما یا:( ثُمَّ اَوْحَیْنَااالَیکَ اَنِ اتّاَبِعْ ملَّةَااِبْرَاْ هِیمَ حَنِیْفاً... ) ( ۱ )

____________________

(۱) سورۂ نحل، آیت، ۱۲۳.

۲۶۹

پھر ہم نے تم پر وحی کی کہ (خدا پر ستی اور توحید اور معارف الٰہی کے نشر کر نے کے بارے میں) ابراہیم کے پاکیزہ آئین کی پیروی کرو۔

( قُلْ صَدَقَ اللّٰه فَا تَّبعُوا مِلَّةَ ااِبْرَاهِیْمَ حَنِیفاً... ) ( ۱ )

(اے پیغمبر) کہو کہ خدا کا قول سچا ہے (نہ تمہارا دعویٰ) تمھیں ابراہیم کے پاک و پاکیزہ آئین کی پیروی کر نا چاہئے کیو نکہ صاف ستھرا اور پاک و پاکیزہ ہے۔

( وَمَنْ أَحسَنُ دِیناً مِمَّن أَسلَمَ وَجهَهُ لِلّٰهِ وَ هُو مُحْسِن وَ اتَّبَعَ مِلَّةَ اِبْراهِیمَ حَنِیْفاً... ) ( ۲ )

(دنیا میں ) اس دین سے کون دین بہتر ہے جس نے لوگوں کو خدا کے فرمان کے سامنے سراپا تسلیم کر دیا ہے اور نیک کردار ہو نے کے علاوہ حق کے سامنے سر جھکا دیتے ہیں اور ابراہیم کے دین حنیف کی پیروی کرتے ہیں...؟

اس لحاظ سے پیغمبر کے تمام اجداد ابراہیم کی حنفیہ شریعت کے پا بند تھے اور بے شک خداوند عالم کی گفتگو انتہائی صداقت کی حا مل ہے جیسا کہ سورۂ شعرأ کی ۲۱۹ ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے :

( وَ تَقَلُّبَکَ فِی الْسَّاجِدِین )

خدا وند متعال تمہارے سجدہ گذاروں کے درمیان کروٹیں بدلنے (تمہارے اصلاب شامخہ سے ارحام مطہرہ میں منتقل ہو نے) کے بارے میں آگاہ ہے ۔

اسی آیت کی تفسیر میں ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ انھوں نے کہا: پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور مسلسل پیغمبروں کے صلبوں میں ایک پشت سے دوسری پشت تک منتقل ہوتا رہا یہاں تک کہ ان کی ماں نے انھیں جنم دیا۔

حضرت امام محمد باقر نے اس کی تفسیر سے متعلق فرما یا:

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نور کا انبیاء کی پشت سے منتقل ہو نا ایک نبی سے دوسرے نبی تک مکمّل واضح اور معلوم ہے. یہاں تک کہ خدا نے انھیں ان کے باپ کی صلب سے پیدا کیا اور یہ کام حضرت آدم کے زمانے سے ہی نکاح کے ذریعہ سے تھا نہ کہ غیر شرعی اور نا جائز راستوں سے۔

____________________

(۱) سورۂ آل عمران، آیت ۹۵.

(۲)سورۂ نسائ، آیت ۱۲۵ اور انعام ۱۶۱.

۲۷۰

امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب نے انبیاء کی توصیف میں نہج البلا غہ کے ۹۲ ویں خطبہ میں ارشاد فر ما یا ہے:

''خدا وند عالم نے انھیں بہترین جائے امن میں بطور امانت رکھا اور سب سے اچھی جگہ پر انھیں قرار دیا اور انھیں نیک صلبوں سے پاک رحموں میں منتقل کیا اور جب بھی ان میں سے کوئی مرجاتا تھا تو دوسرا دین کی تبلیغ کے لئے قیام کر تا تھا ،یہاں تک کہ خدا کے قیمتی دین کی تبلیغ خدا وند سبحان نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حوالے کی ،پھر خدا نے انھیں سب سے زیادہ قابل قدر اور قیمتی معدنوں ،سب سے بہتر صلبوں اور گراں قدر درختوں سے وجود بخشا وہی شجرۂ طیبہ کہ جس سے دیگر پیغمبروں کو اُس نے پیدا کیا ہے. اور امانت داروں اور اوصیا ء کو اسی سے انتخاب کیا ہے ان کی عترت بہترین عترت اور ان کا خاندان بہترین خاندان ہے اور ان کا شجرہ سب سے اچھا شجرہ ہے جو حرم ہی میں اگا ہے اور کرامت و بزرگی کے سائے میں بلند ہوا ہے۔

امیر المو منین فر ما تے ہیں :'' جب بھی ان میں سے کوئی مر جاتا تھا تو ان میں سے کو ئی دوسرا دین کی تبلیغ کے لئے قیام کر تا تھا،، یہ ارشاد اس بات کی دلیل ہے کہ دین خدا کی طرف لوگوں کو دعوت دینے کے لئے یکے بعد دیگرے قیام کر نے والے ( انبیاء و اوصیائ) آتے رہے اور حضرت آدم کے زمانے سے حضرت خاتمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک ان کا سلسلہ جاری رہا وہ بھی اس طرح سے کہ کبھی دنیا ان کے وجود سے خالی نہیں رہی ۔

حضرت علی نے دوسری جگہ فر ما یا ہے :

''دین خدا کو قائم کر نے والی حجت سے زمین کبھی خالی نہیں رہے گی؛ خواہ ہویدا اورآ شکار ہو یا خائف اور پو شیدہ'' تا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا کی حجتیں اور دلیلیں تباہ و برباد ہو جائیں ، وہ لوگ کتنے آدمی ہیں؟اور کہاں ہیں؟ خدا کی قسم وہ لوگ گنتی کے لحاظ سے بہت تھوڑے ہیںاور خدا کے نزدیک قدر ومنزلت کے لحاظ سے بہت ہی عظیم اور با عظمت ہیں۔

خدا وند سبحان اپنی آیات و بینات کی ان کے ذریعہ حفا ظت و نگہداری کر تا ہے. جب تک کہ اُن کو اپنے ہی جیسوں کے حوالے نہ کر دیں اور ان کا تخم (بیج) اپنے ہی جیسے افراد کے دلوں میں نہ بو دیں''( ۱ ) ۔

جی ہاں،خدا کی ربو بیت کا اقتضا یہی ہے کہ ہر عصر اور ہرزمانے میں انسانوں کے لئے امام وپیشوا قرار دے تا کہ اس کی طرف رجوع کر کے دین خدا کے معالم کو حاصل کر یں .یہ امر اس طرح ہونا چاہئے کہ اگر وہ

____________________

(۱) نہج البلاغہ، باب احادیث، حدیث ، ۱۴۷.

۲۷۱

لوگ جستجو اور کوشش کر یں تو دینی مسائل سے آگاہ ہو جائیں، جیسا کہ وہ اپنی روزی اور رزق کے لئے کوشاں رہتے ہیں اور حاصل کرتے ہیں جیسا کہ خدا وند متعال فر ما تا ہے:

( وَالّذِینَ جَاهَدُوافِینالَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلنا )

جو لوگ ہماری راہ میں کو شش کر تے ہیں تو ہم ضرور انھیں اپنی راہوں کی ہدا یت کرتے ہیں جس طرح سلمان فارسی محمدی نے راہ حق کے حصول کے لئے اصفہان کے ''جی ''نامی علاقہ سے باہر قدم نکالا اور ہجرت اختیار کر لی اور شام ، موصل اور عراق کے راہبوں کے دیر تک پہنچے۔

ہم اس بحث میں اس بات کی کوشش کر یں گے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اجداد کی سیرت کے کچھ نمو نے جنھوں نے ابرا ہیم کی حنفیہ شریعت کی تبلیغ کی ہے ، بیان کر یں ۔

جبکہ لو گوںکا اس سلسلہ میں غلط نظریہ ہے کہ خدا وند تبارک وتعالیٰ نے فترت کے زمانے کے لوگوں کو اسی طرح مہمل اور بے کار چھو ڑ دیا تھا اور ان کے لئے کوئی امام اور پیشوا معین نہیں کیا تھا. تا کہ دین کے معالم اور اُ س کے دستور ات اُن سے یا د کریں۔

معاذ اللہ ۔کیا حرج ہے کہ جناب عبد المطلب بھی منجملہ انبیاء میں سے ایک ہوں جن کا قرآن میں نام نہیں ذکر ہے ؟ جبکہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث میں ابوذر سے منقول ہے کہ انبیاء کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے اور مرسلین کی تعداد ۳۱۵ ہے کہ اس تعداد میں صرف ۲۵ نبی اور رسول کا نام قرآن میں ذکر ہوا ہے( ۱ )

لیکن یہ کہ پیغمبر کے اجداد موحد( خدا کی وحدا نیت کا اقرار کر نے والے) تھے تو یہ ایک ایسا مطلب ہے جو مذکورہ بالا باتوں کے علا وہ مندرجہ ذیل احادیث سے بھی معلوم ہو جائے گا:

ابن عباس نے کہا: پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے میں نے سوال کیا اور کہا:میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں. جب حضرت آدم جنت میں تھے تو آپ کہاں تھے؟ اس سوال کو سنکر حضرت مسکرائے یہاں تک کہ داڑھ کے دانت نمایاں ہوگئے ۔

پھر اس وقت فرما یا :میںا ن کی صلب میں تھا اور جب وہ زمین پر آئے تب بھی میں ان کی صلب میں تھا،اپنے باپ نوح کی صلب میں کشتی میں سوار ہوا اور ابراہیم کی صلب میں آگ میں ڈالا گیا،ہمارے ماں باپ ایک دوسرے کے ساتھ خلا ف شرع ( شرعی نکاح کے بغیر) نہیں رہے اور خدا وندعالم مجھے ہمیشہ

____________________

(۱) بحار الانوار : ج۱۱، ص۳۲ اور مسند احمد: ج۵، ص۲۶۵، ۲۶۶.

۲۷۲

پاکیزہ اصلاب سے پاکیزہ رحموں میں منتقل کر تا رہا. کسی نسل میں جدائی اور فر قت پیش نہیں آئی مگر یہ کہ میں ان میںسے سب سے بہتر نسل میں تھا۔

خدا وندعالم نے مجھ سے نبوت کا عہدلیا اور مجھے اسلام کی ہدایت کی اور میرا ذکر آشکارا طور پر توریت اور انجیل میں کیا اور میری صفتوں کو شرق و غرب عالم میں ظاہر کیا، اپنی کتاب کی مجھے تعلیم دی اور مجھے آسمان کی بلندیوں پر لے گیا اور ان کے اسماء سے مجھے بہر ہ مند کیا :عرش کا خدا محمود ہے اور میں محمد ہوں ،مجھے خوشخبری دی کہ مجھے حوض بخش دیا اور کو ثر دیا، میں وہ پہلا شفاعت کر نے والا انسان ہوں جس کی شفاعت قبول ہو گی.پھراس وقت مجھ کو بہترین مقام اور منصب کے لئے مبعوث کیا۔

اور میری امت وہ خدا کی حمد کرنے والی امت ہے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکرتی ہے( ۱ )

سورۂ زخرف کی ۲۶ تا۲۸ ویں آیات کی تفسیر میں ارشاد فرما تا ہے:

( وَاإِذْ قَالَ ااِبْرَاهِیمُ لاِِاَبِیهِ وَقَومِهِ اِنَّنی بَرائ مِمَّا تَعْبُدُوْنَ٭ اِلَّا الَّذِی فَطَرنِی فِانَّهُ سَیَهْدِین٭ وَجَعَلَهَا کَلِمةً باقِیَةً فِی عَقِبِه لَعَلَّهمْ یَرْ جِعُونَ )

( اے ہمارے رسول!)اس وقت کو یاد کرو جب ابراہیم نے اپنے باپ ( یعنی اپنے چچا) اور قوم سے کہا:اے بُت پرستو! میں تمہارے معبودوں سے سخت بیزار ہوں اور جز اس خدا کے جس نے مجھے خلق کیا ہے اور میری ہدا یت کر ے گا کسی کی نہیں عبادت کر تا اور اس خدا پر ستی (اور توحید) کو میری تمام ذریت میں کلمۂ باقیہ کے عنوان سے قرار دیا ہے تا کہ اس کی ذرّیت کے افراد (خدا وند واحد کی طرف) رجو ع کریں۔

ابن عباس نے اس طرح کہا ہے:یعنی ہمیشہ ان کی(ابراہیم) ذریت میں ایسے لو گ ضرور رہے ہیں جو کلمہ لا الہ الّا اللہ کا نعرہ لگا تے رہے ہیں( ۲ )

ابن عباس نے کہا ہے کہ:لفظ ''فی عقبہ'' ''ان کے جانشینوں'' کے معنی میں ہے( ۳ )

اوردوسری روایت کی بناء پر''ان کے فرزندوں'' کے معنی میں ہے( ۴ )

تفسیر قرطبی میںاختصار کے ساتھ اس طرح آیا ہے:یعنی خدا وند سبحان نے اس گفتار وکلام کو ان کی نسل میں ان کے فرزند اور فرزندوں کے فرزند میں باقی رکھا ہے. یا یہ کہ ان کی نسل نے غیر اللہ کی عبادت سے

____________________

(۱) تفسیر سیو طی : ج ۵، ص ۹۹ (۲)تفسیر ابن کثیر:ج۴، ص۱۲۶.

(۳)تفسیر قرطبی، ج۱۶، ص ۷۷. (۴) تفسیر سیو طی : ج ۶، ص ۱۶.

۲۷۳

دوری کو اُن سے بعنوان میراث پایا ہے اور ہر ایک نے دوسرے کو اس امر کی وصیت کی ہے اور لفظ''عقب'' اس شخص کے معنی میں ہے جو اس کے بعد آتا ہے۔

صیح تر مذی اور مسند احمد میں واثلہ صحابی تک ان کی سند کے ساتھ ذکر ہو اہے:

خدا وندعالم نے اسمٰعیل کی اولا د میں کنانہ کو اور کنانہ سے قریش اور قریش سے بنی ہاشم اور بنی ہاشم سے مجھے انتخاب کیا اور چنا ہے( ۱ )

سنن ترمذ ی میں اپنی سند کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فر ما یا:

خدا وند رحمن نے ابرا ہیم کی اولاد میں اسمٰعیل کو اور اسمٰعیل کی اولاد میں کنا نہ کو اور کنانہ کی اولا د میں قریش کو اور قریش سے بنی ہاشم(ہا شم کی اولا د) کو اور بنی ہاشم سے مجھے چنا ہے۔

پھر ترمذی لکھتے ہیں : یہ صحیح اور اچھی حدیث ہے۔( ۲ )

واضح ہے لفظ قریش سے مراد منحصر طور پر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آباء و اجداد ہی ہیں. جو کچھ گذر چکا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آباء و اجداد کی فترت کے زمانے میں بعض خبر یں تھیں۔

مسعودی اپنی کتاب مروج الذھب میں لکھتا ہے:

لوگ ''جناب عبد المطلب'' کے بارے میں اختلاف نظررکھتے ہیں.اُن میں سے بعض انھیں مومن اور موحد( یکتا پر ست) خیال کر تے ہیں اور اس بات کے معتقدہیں کہ نہ انھوں نے اور نہ ہی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کسی آباء واجداد نے خدا کا کسی کو شریک قرار دیا ہے۔اور جناب عبد المطلب نسل در نسل پاک و پاکیزہ اصلاب سے پیدا ہوئے ہیں اور خود ہی اعلان کیا ہے کہ ان کی پیدا ئش صحیح ازدواجی رابطہ سے ہوئی ہے نہ کہ شرع کے خلا ف طریقہ سے۔

کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو جناب عبد المطلب اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دیگر اجداد کو مشرک جا نتے ہیں ،جز ان لوگوں کے جن کے ایمان کی صحت اور درستگی کی تا ئید ہوئی ہے.یہ ایک ایسی بات ہے جو امامیہ ،معتزلہ، خوارج، مرجئہ اور دیگر فر قوں کے درمیان اختلا ف کا با عث ہے. اور یہ کتاب اس طرح کے مطا لب کی ردّ یا اثبات کی گنجا ئش نہیں رکھتی کہ ہر ایک فر قہ کے دلائل کو اس میں پیش کریں۔

____________________

(۱)صحیح مسلم، کتاب الفضائل، حدیث شمارہ،۱؛ مسند احمد، ج۴، ص ۱۰۷

(۲)مسند احمد، ج،۴، ص ۱۰۷ ؛ صحیح ترمذی، ج، ۱۳، ص ، ۹۴ ،ابواب المناقب، باب اوّل، حدیث اوّل

۲۷۴

ہم نے ان فرقوں میں سے ہر ایک کی باتوں اور ان کے دلائل کو اپنی دوسری کتاب ''المقالات فی اصول الدیانات'' اور'' استبصار'' نامی کتاب میں نقل کیا ہے ،امامت کے سلسلہ میں بھی ان کے نظریات اور اقوال کو''الصفوة'' نامی کتاب میں ذکر کیا ہے( ۱ ) مسعودی کی گفتگو تمام ہوئی۔

اور ہم عنقریب جناب ابو طالب کی پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ سیرت اور رفتار کی تحقیق کر نے کے بعد انشاء اللہ اُن کے دلا ئل بھی پیش کریں گے۔

۲۷۵

کتاب کے مطالب کا خلاصہ اور نتیجہ

اوّل :

حضرت آدم کے زمانے سے حضرت خاتم الانبیائٔ(صلوات اللہ علیھم اجمعین) تک وصی کی تعیین کا سلسلہ ہے۔

حضرت آدم کی اپنے فرزند شیث ہبة اللہ سے وصیت

جب شیث پیدا ہوئے تو حضرت خا تمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور ان میں منتقل ہو ا اور ان کے کامل اور پختہ جوان ہو نے کے بعد حضرت آدم نے اپنی وصیت ان کے سپرد کی اور انھیں آگاہ کیا کہ میرے بعد اللہ کی حجت اور زمین پر اس کے جا نشین ہیں وہی خدا کا حق اپنے اوصیاء تک پہنچا ئیں گے اور وہ دوسرے شخص ہیں جن میں حضرت خاتمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور منتقل ہوا ہے۔

____________________

(۱) مروج الذھب، ج۲۲، ص۱۰۸۔ ۱۰۹ ان کی یہ بات اس بات کی دلیل ہے کہ ''اثبات الوصیہ'' نامی کتاب ان کی نہیں ہے ورنہ اپنی دوسری تالیفات کے ضمن میں اس کا بھی ذکر کر تے اس کے علا وہ مسعودی جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر درود بھیجتا ہے تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی (آل)کا نام نہیں لیتا اور دیگر مکتب خلفاء کے پیرو کاروں کے مانند صلّیٰ اللہ علیہ وسلم لکھتا ہے، جب کہ ''اثبات الوصیہ'' نامی کتاب میں یہ درود آل پیغمبرکو بھی شامل ہے ، مگر یہ کہ ہم یہ مانیں کہ''اثبات الوصیہ'' نامی کتاب مذکورہ کتابوں کے بعد تالیف ہوئی ہے.

ممکن ہے کہ اثبات الوصیہ نامی کتاب علی بن حسین مسعودی کی تألیف ہو جو نعمانی کی حدیث کے مشائخ میں شما ر ہوتے ہیں کہ نعمانی نے''الغیبة'' نامی کتاب میں ص ۱۸۸ اور ۲۴۱اور ۳۱۲ پر اس سے روایت کی ہے اور ہم نے معالم المدرستین کی پہلی جلد کی بحث وصیت میں بعض ان اخبار کو نقل کیا ہے کہ اثبات الوصیہ کا مؤلف جن کے نقل کرنے میں دیگر متعدد اور مشہور منابع و مآخذ کیساتھ شریک ہے.

۲۷۶

دوسرا بیان

جب خدا نے آدم کو دنیا سے اٹھا نے کا ارادہ کیا تو انھیں حکم دیا کہ اپنے بیٹے شیث کو اپنا وصی بنا ئیں اور جو کچھ علم حاصل کیا ہے انھیں تعلیم دیں، آدم نے حکم کی تعمیل کی اور ایسا ہی کیا۔

تیسرا بیان

جب آدم کی موت کا وقت قریب آیا ،تو شیث اور ان کی اولا د ان کی خد مت میں آگی، آدم نے ان پر درود بھیجا اور ان کے لئے دعا کی اور بر کت طلب کی اور شیث کو اپنا وصی بنایا اور انھیں اپنے جسد کی حفا ظت کرنے کی تاکید کی اور کہا کہ میرے مر نے کے بعد میرے جسم کو غار گنج میں رکھ دینا اور اس کے بعد وہ اپنی رحلت کے موقع پر اپنے فر زندوں اور پوتوں کو وصیت کریں اور جب پہاڑ اور اپنی سر زمین سے نیچے آجائیں تو ان کا جسم لے کر زمین کے بیچ میں رکھ دیں. جب انوش (شیث کے فرزند) دنیا میں آئے تو نور ختمی مرتبت آپ کی پیشانی میں چمکنے لگا ، جب منزل رشد وکمال کو پہونچے تو آپ کو وصیت فرمائی اور اس امر سے آگاہ کیا کہ تمام شرف و کرامت اس نور کی مرہون منت ہے اور اس امر کی بھی تاکید فرمائی کہ اپنی اولاد کو بھی اس حقیقت سے با خبر رکھیںاور وصایت کا یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا رہے ۔

شیث کی اپنے بیٹے انوش سے وصیت

جب شیث کی موت کا وقت قریب آیا توان کے فرزنداور فرزندوں کے فرزند جوکہ اُس وقت مو جود تھے جیسے: انوش ، قینان ، مہلائیل ، یرد ، اخنوخ ، ان کی عورتیں اور ان کے بچے ، یہ سب ان کے پاس جمع ہوگئے، شیث نے ان پر درود بھیجا اور ان کے لئے دعا کی اور برکت طلب کی اور ان سے مطالبہ کیا کہ قا بیل ملعون کی اولاد سے اختلاط نہ رکھیں.پھر اس وقت اپنے بیٹے انوش سے وصیت کی اور ان سے حضرت آدم کے جسد کی حفاظت کی وصیت کی اور تاکید کی کہ تقوائے الٰہی اختیار کریںاور اپنی قوم کو تقوائے الٰہی اور نیک عبادت کا حکم دیں اس کے بعد وہ دار فانی سے رخصت ہوگئے۔

۲۷۷

انوش حضرت آدم کی حیات ہی میں پیدا ہو چکے تھے .شیث نے موت کے وقت اُن سے وصیت کی اور انھیں اس نو ر کے بارے میں آگاہ کیا جواُن میں منتقل ہوا ہے (حضرت خاتم الانبیاء کا نور جو ان کی نسل سے وجود میں آئیں گے) اور انھیں حکم دیا تا کہ اپنے فرزندوں کو ہر بزرگ دوسرے بزرگ کے بعد اور ہر نسل دوسری نسل کو اس نور کی عظمت و منزلت،شرف و فضیلت سے آگاہ کر ے۔

انوش نے اپنے باپ کے بعد احسن طریقے سے باپ کے حکم کو پایہ تکمیل تک پہونچایا اور امور رعیت کا انتظام و اہتمام اور ان احکام و قوانین پر عمل کیا جن کے اُن کے باپ بھی پیرو تھے۔

انوش کی اپنے فرزند قینا ن سے وصیت

شیث کی وفات کے بعد ،انوش نے اپنے باپ اور دادا کی وصیت پر عمل کر نا شروع کردیا. خدا کی اچھے انداز میں پر ستش و عبادت کی اور اپنی قوم کوبھی حُسن عبادت کا حکم دیا۔

جب انوش کے مر نے کا زمانہ قر یب آیا،تو ان کے بیٹے اور پو تے جیسے قینان اور مہلائیل ان کے ارد گر د جمع ہوگئے، انھوں نے حضرت قینان کو حضرت آدم کے جسد کی حفاظت و نگہداری کی وصیت کی اور سب کو حکم دیا کہ ان کے پاس نما ز پڑھیں اور خدا کی زیادہ سے زیادہ پاکیزگی بیان کریں،پھر اس کے بعد رحلت کر گئے۔

ایک دیگر بیان میں

اپنے بیٹے قینان سے وصیت کی اور انھیں اُس معھود نور سے جو ان تک منتقل ہوا تھا اور وہ راز جو بطور امانت ان کے حوالے کیا گیا تھا آگاہ کیا پھر انتقال کر گئے قینان نے اپنے باپ انوش کی سیرت و روش اختیار کی۔

قینان اپنی قوم کے درمیان خدا کی اطا عت و فر نبرداری میں مشغول ہوگئے اور اس کی احسن طریقے سے عبادت کی اور حضرت آدم اور شیث کی وصیت کی پیروی کی۔

۲۷۸

قینان کی اپنے فرزند مہلائیل سے وصیت

جب قینان کی مو ت کاوقت قریب آیا ،بیٹے اور پوتے مہلائیل ،یر د،متوشلح اور لمک اور ان کی عورتیں اور ان کے بچے ان کے ارد گرد جمع ہوگئے قینان نے ان پر درود بھیجا اور ان کے لئے دعا کی اور برکت کی درخواست کی .پھر اس وقت مہلائیل کو اپنا وصی بنایا اور انھیں حضرت آدم کے جسد کی حفاظت و نگہداری کی تاکید کی اور اُس نور سے جو اُن تک منتقل ہوا تھا آگا ہ کیا،مہلائیل نے لوگوں کے درمیان باپ کی سیرت اختیار کی۔

مہلائیل کی اپنے فر زند یوراد سے وصیت

یارد ( یا یوارد ، یا یرد ) مہلائیل کے فرزند ہیں جو باپ کے وصی ہوئے اور مہلائیل نے انھیں سرّ مکنون اور حضرت خاتم الا نبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے انتقال نور سے انھیں مطلع کیا اور صحف کی انھیں تعلیم دی اور زمین سے بہرہ مند ہونے کا طریقہ اور جو کچھ دنیا میں ہو نے والا ہے انھیں یاد کرایا اور سرّ ملکوت نامی کتاب جسے مہلائیل فر شتہ نے آدم کو تعلیم دی تھی ان کے حوالے کر دی ،وہ حضرات اس کتاب کو مختوم اور مہر شدہ صورت میں یکے بعد دیگرے بعنوان میراث پاتے رہے ہیں۔

یوراد کی اپنے بیٹے اخنوخ (ادریس)سے وصیت

مرآة الزمان نامی کتاب میں مذکور ہے:

جب یرد کی موت کا زمانہ قریب ہوا تو ان کے بیٹے اور پو تے جیسے اخنوخ ، متوشلح، لمک اور نوح ان کے پاس جمع ہوگئے. یر د نے ان پر درود بھیجا اور ان کے لئے بر کت کی دعا کی اور اخنوخ کو وصیت کی اور انھیں اُن تمام علوم سے آگاہ کیا جو اُن کے پاس تھے اور سر ملکوت نامی کتاب اُن کے حوالے کر دی اور انھیں حکم دیا کہ ہمیشہ غار گنج میں جہاں حضرت آدم کا جسد رکھا ہوا ہے نماز پڑھیں،پھر انتقال ہو گیا۔

۲۷۹

اخنوخ پر تیس صحیفے نازل ہوئے اور ان سے پہلے حضرت آد م پر اکیس صحیفے اور شیث پر ۲۹ صحیفے نازل ہوئے کہ ان میں تسبیح و تہلیل کا ذکر تھا ۔

حضرت آدم کے بعد جو سب سے پہلے پیغمبری کے لئے مبعوث ہوئے ادریس یا اخنوخ بن یردہیں ۔

متوشلح اور دیگر چند افراد اخنوخ کی اولاد تھے ،اخنون نے متوشلح سے وصیت کی.لمک اور چند افراد متوشلح کے فرزند تھے کہ متوشلح نے لمک سے وصیت کی، نوح پیغمبر، لمک کے فر زند ہیں۔

ادریس کی اپنے بیٹے متوشلح سے وصیت

ادریس نے اپنے بیٹے متوشلح سے وصیت کی ،کیو نکہ خدا وند عالم نے ان پر وحی نازل کی کہ اپنے بیٹے متوشلح سے وصیت کرو کہ ہم بہت جلد ہی ان کی صلب سے ایک پیغمبر مبعوث کر نے والے ہیں کہ اس کا کام میری مر ضی کے مطابق اور میری تائید سے ہے۔

ایک دوسرے بیان میں:

ادریس نے اپنے بیٹے متوشلح سے وصیت کی اور جب عہد و پیمان ان کے حوالے کر دیا تو انھیں اُس نور سے جو ان تک منتقل ہوا ہے (حضرت خاتم الانبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نور سے ) آگا ہ کیا۔

۲۸۰