اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

اسلام کے عقائد(تیسری جلد )0%

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 352

اسلام کے عقائد(تیسری جلد )

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

صفحے: 352
مشاہدے: 125735
ڈاؤنلوڈ: 3395


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 352 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 125735 / ڈاؤنلوڈ: 3395
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(تیسری جلد )

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد 3

مؤلف:
اردو

( ۵ )

حضرت نوح اور ان کے بعد اوصیاء کے حالات

* نوح

* نوح کے فرزندسام

* سام کے فرزند ارفخشد

* ارفخشد کے فرزند شالح

حضرت نوح

* قرآنی آیات میں نوح کی سیرت

* کلمات کی تشریح

* آیات کی تفسیر

* داستان نوح کا خلا صہ

* اسلا می منا بع و مآ خذ میں نوح کی خبریں

۸۱

قرآنی آیات میں حضرت نوح کی سیرت وروش

۱۔ خدا وند عالم سورہ ٔ حد ید کی ۲۶ ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَلَقَدْ اَرْسَلنَانُوْحاًوَااِبْرَاهیم وَ جَعَلْنَافِی ذُرِّ یَّتِهِماَالنُّبُوَّةَ وَالَکِتابَ فَمِنْهُمْ مُهْتَدٍ وَ کَثِیرمِنْهُمْ فَاسِقُوْنَ )

ہم نے نوح اور ابراہیم کو ( رسالت)کے لئے مبعوث کیا اور ان کے فر زندوں کے درمیان کتاب اور نبوت قرار دی ،پس ان میں سے بعض ہدایت یافتہ ہیں (لیکن ) بہت سارے فسق وفجور میں مبتلا ہوگئے:

۲۔سورہ عنکبوت کی ۱۴ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے.

( وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحاً اِلیٰ قَوْ مِه فَلاَبِثَ فِیْهِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلاَّ خَمْسِینَ عَاماً )

اور ہم نے نوح کو (رسالت کے ساتھ) ان کی قوم کی طرف بھیجا انھوں نے ان کے درمیا ن ساڑھے نو سو سال زند گی گذاری...

۳۔سورۂ مومنون کی ۲۳ سے ۲۵ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:ِ

( فَقَالَ یَاقَوْمِ اعْبُدُوا ﷲ مَا لَکُمْ مِنْ ِلٰهٍ غَیْرُهُ َفَلاَتَتَّقُونَ ٭ فَقَالَ الْمَلَُ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ مَا هَذَا ِلاَّ بَشَر مِثْلُکُمْ یُرِیدُ َنْ یَتَفَضَّلَ عَلَیْکُمْ وَلَوْ شَائَ ﷲ لََنْزَلَ مَلاَئِکَةً مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِی آبَائِنَا الَوَّلِینَ ٭ ِنْ هُوَ ِلاَّ رَجُل بِهِ جِنَّة فَتَرَبَّصُوا بِهِ حَتّٰی حِینٍ )

(نوح ) نے کہا : اے قو م! خدا کی عبادت کرو کہ اس کے علا وہ کو ئی خدا نہیںہے کیا تم لوگ خدا سے ڈرتے نہیں ؟!

کافر قوم کے بز رگوں نے کہا ، یہ (نوح) تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہے اور تم پر سرداری کرنا چا ہتا ہے اگر خدا کسی پیغمبر کو بھیجنا ہی چا ہتا تو کسی فر شتہ کو بھیجتا. ہم نے ( اس کے ادّعا کو ) اپنے گزشتہ آباء واجداد سے نہیں سنا ہے یہ شخص ایک دیوا نہ کے سوا کچھ نہیں ہے. لہٰذا ایک مدت تک اُس کے حالات کا انتظار کرو۔

۴۔سورۂ شعراء کی۱۰۶ اور ۱۰۸ آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

)( إِذْ قَالَ لَهُمْ َخُوهُمْ نُوح َلَا تَتَّقُونَ ٭ِنِّی لَکُمْ رَسُول َمِین ٭ فَاتَّقُوا ﷲ وََطِیعُونِ )

ان کے بھا ئی نوح نے ان سے کہا : تم لوگ خدا سے خوف کیوں نہیں کرتے اور پرہیزگار کیوں نہیں ہوتے؟! میں تمہارے لئے ایک امین پیغمبر ہو لہٰذا خدا سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

۸۲

۵۔سورہ ٔیو نس کی ۷۲ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( فَاِنْ تَوَ لَّیتُمْ فََمَا سَأَ لْتکُمْ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجِریَ اِلَّا عَلٰی اللّٰهِ وَ اُمِرْتُ اَنْ اَکُونَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ )

(نوح نے اپنی امت سے کہا :) پس اگر تم لوگ حق سے رو گرداں ہو تو میں تم سے کسی جزاء کا طالب نہیں ہوں(کیو نکہ )اجر وپا داش خدا ہی کے ذ مہّ ہے اور میں مامور ہوں کہ مسلما ن رہ کر اس کے حکم کے سامنے سراپا تسلیم ہو جاؤں۔

۶۔سورہ ٔشعراء کی ۱۱۱ویں تا۱۱۶ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( قَالُوا َنُؤْمِنُ لَکَ وَاتَّبَعَکَ الَرْذَلُونَ ٭ قَالَ وَمَا عِلْمِی بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ٭ ِنْ حِسَابُهُمْ ِلاَّ عَلَی راَبِی لَوْ تَشْعُرُونَ ٭ وَمَا َنَا بِطَارِدِ الْمُؤْمِنِینَ ٭ ِنْ َنَا ِلاَّ نَذِیر مُبِین ٭ قَالُوا لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ یَانُوحُ لَتَکُونَنَّ مِنْ الْمَرْجُومِینَ )

(نوح کی قوم نے ان حضرت سے ) کہا : کیا ہم تم پر ایمان لے آئیں جب کہ تمہارا اتباع پست لوگ کر تے ہیں ؟! فر مایا : مجھے اس سے کیا سرو کار کہ ہم دو سروں کے اعمال واحوال کوجانیں ،ان کا حسا ب میرے پر وردگا ر کے ذمّہ ہے اگر شعور رکھتے ہو،میر ے لئے منا سب نہیں ہے کہ مومنین کو اپنے پا س سے بھگا دوںمیں تو آشکار طور پر ڈرانے والا ہوںانھوں نے کہا :اے نوح ! اگر تم اپنی بات سے باز نہیں آئے تو ہم تمھیں بری طرح سنگسار کر دیں گے.

۷ ۔ سورہ ٔہود کی ۲۸ویں تا ۳۳ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( قَالَ یَاقَوْمِ َرََیْتُمْ ِنْ کُنتُ عَلَی بَیِّنَةٍ مِنْ راَبِی وَآتَانِی رَحْمَةً مِنْ عِنْدِهِ فَعُمِّیَتْ عَلَیْکُمْ َنُلْزِمُکُمُوهَا وََنْتُمْ لَهَا کَارِهُونَ ٭ وَیَاقَوْمِ لٰاَسَْلُکُمْ عَلَیْهِ مَالاً ِنْ َجْرِی ِلاَّ عَلَی ﷲ وَمَا َنَا بِطَارِدِ الَّذِینَ آمَنُوا ِنَّهُمْ مُلَاقُو راَبِهِمْ وَلَکِنِّی َرَاکُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ ٭ وَیَاقَوْمِ مَنْ یَنصُرُنِی مِنَ ﷲ ِنْ طَرَدْتُهُمْ َفَلاَتَذَکَّرُونَ ٭ وَلٰا َقُولُ لَکُمْ عِندِی خَزَائِنُ ﷲ وَلاََعْلَمُ الْغَیْبَ وَلاََقُولُ ِنِّی مَلَک وَلاََقُولُ لِلَّذِینَ تَزْدَرِی َعْیُنُکُمْ لَنْ یُؤْتِیَهُمُ ﷲ خَیْرًا ﷲ َعْلَمُ بِمَا فِی َنفُسِهِمْ ِنِّی ِذًا لَمِنَ الظَّالِمِینَ٭ قَالُوا یَانُوحُ قَدْ جَادَلْتَنَا فََکْثَرْتَ جِدَالَنَا فَْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا ِنْ کُنتَ مِنْ الصَّادِقِینَ ٭ قَالَ ِنَّمَا یَاْتِیکُمْ بِهِ ﷲ ِنْ شَائَ وَمَا َنْتُمْ بِمُعْجِزِینَ )

(نوح) نے کہا: اے قوم تم لوگ! کیا کہہ رہے ہو جب دیکھو کہ میرے پاس خدا کی جانب سے ایک روشن دلیل ہے اور اس کی رحمت میرے شا مل حا ل ہے پھر بھی حقیقت تم سے پو شیدہ ہی رہے گی؟! کیا میں تمھیں تمہاری خواہش کے خلا ف مجبور کروں؟! اے قوم ! میں تم سے کوئی مال تونہیں چاہتا ہوں ، میرا اجر تو ﷲ کے ذمہ ہے اور میں صاحبان ایمان کو نکال بھی نہیں سکتا ہوںکہ وہ لوگ اپنے پروردگار سے ملاقات کرنے والے ہیں

۸۳

البتہ میں تم کو ایک جاہل قوم تصوّر کررہا ہوں. اے قوم ! اگر میں ان خدا رسیدہ مومنین کو اپنے پاس سے بھگا دوں،تو کون ہے جو مجھے غضب الٰہی سے بچائے گا ؟! آیا نصیحت حا صل نہیں کر تے ؟! میں یہ نہیں کہہ رہا ہو کہ خدا کے خزا نے میرے پا س ہیں اور(اس بات کا) مد عی بھی نہیں ہو کہ میں علم غیب جانتا ہوں اور نہ میں یہ کہتا ہوںکہ میں فر شتہ ہوں اور یہ بھی نہیں کہتاکہ جو لوگ تمہاری نگا ہوں میںبے قیمت ہیں انھیں خدا کوئی خیر نہیں دے گا خدا ان کے حال سے زیادہ واقف ہے اگر میں ایسی بات کروںگا تو ظالموں میں شمار ہوں گاانھوں نے کہا اے نوح ! تم نے ہم سے جنگ وجدا ل کی اور ہم سے جدا ل کو طول دے دیا اگر سچے ہو تو جو کچھ ہم سے وعدہ کیا ہے پیش کر و، نوح نے کہا : اگر خدا چا ہے گا تو اسے تم پرنازل کردے گا اور تم اس کے مقا بل کوئی قدرت اور راہ فرار نہیں رکھتے۔

۸۔سورۂ نوح کی ۵ویں تا ۲۸ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( قَالَ راَبِ ِنِّی دَعَوْتُ قَوْمِی لَیْلاً وَنَهَارًا ٭ فاَلَمْ یَزِدْهُمْ دُعَائِی ِلاَّ فِرَارًا ٭ وَِنِّی کُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا َصَابِعَهُمْ فِی آذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِیَابَهُمْ وََصَرُّوا وَاسْتَکْبَرُوا اسْتِکْبَارًا ٭ ثُمَّ ِنِّی دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا ٭ ثُمَّ ِنِّی َعْلَنتُ لَهُمْ وََسْرَرْتُ لَهُمْ ِسْرَارًا ٭ فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ ِنَّهُ کَانَ غَفَّارًا ٭ یُرْسِلِ السَّمَائَ عَلَیْکُمْ مِدْرَارًا ٭ وَیُمْدِدْکُمْ بَِمْوَالٍ وَبَنِینَ وَیَجْعَلْ لَکُمْ جَنَّاتٍ وَیَجْعَلْ لَکُمْ َنْهَارًا ٭ مَا لَکُمْ لاَتَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا ٭ وَقَدْ خَلَقَکُمْ َطْوَارًا ٭ اَلَمْ تَرَوْا کَیْفَ خَلَقَ ﷲ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا ٭ وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِیهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا ٭ وَﷲ َنْبَتَکُمْ مِنَ الَرْضِ نَبَاتًا ٭ ثُمَّ یُعِیدُکُمْ فِیهَا وَیُخْرِجُکُمْ ِخْرَاجًا ٭ وَﷲ جَعَلَ لَکُمُ الَرْضَ بِسَاطًا ٭ لِتَسْلُکُوا مِنْهَا سُبُلاً فِجَاجًا٭ قَالَ نُوح راَبِ ِنَّهُمْ عَصَوْنِی وَاتَّبَعُوا مَنْ لَمْ یَزِدْهُ مَالُهُ وَوَلَدُهُ ِلاَّ خَسَارًا ٭ وَمَکَرُوا مَکْرًا کُبَّارًا ٭ وَقَالُوا لاَتَذَرُنَّ آلِهَتَکُمْ وَلاَتَذَرُنَّ وَدًّا وَلاَسُوَاعًا وَلاَیَغُوثَ وَیَعُوقَ وَنَسْرًا ٭ وَقَدْ َضَلُّوا کَثِیرًا وَلاَتَزِدِ الظَّالِمِینَ ِلاَّ ضَلاَلاً ٭ مِمَّا خَطِیئَاتِهِمْ ُغْرِقُوا فَُدْخِلُوا نَارًا فاَلَمْ یَجِدُوا لَهُمْ مِنْ دُونِ ﷲ َنْصَارًا٭ وَقَالَ نُوح راَبِ لاَتَذَرْ عَلَی الَرْضِ مِنَ الْکَافِرِینَ دَیَّارًا ٭ ِنَّکَ ِنْ تَذَرْهُمْ یُضِلُّوا عِبَادَکَ وَلاَیَلِدُوا ِلاَّ فَاجِرًا کَفَّارًا ٭ راَبِ اغْفِرْ لِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلاَتَزِدِ الظَّالِمِینَ ِلاَّ تَبَارًا )

۸۴

نوح نے کہا : خدا یا! میں نے شب وروز اپنی قوم کو دعوت دی .لیکن میری دعوت نے ان کے فرار میں اضا فہ کے سوا کچھ نہیں کیا. اور میں نے انھیں جب بھی دعوت دی تا کہ تو انھیں بخش دے تو انھوں نے اپنی انگلیاں کا نوں میں رکھ لیں اور اپنے کپڑے سر وں پر ڈ ال لئے اور عظیم تکبر کیا ۔پھر میں نے انھیں بلند آواز سے دعوت دی .پھر آشکار اور پوشیدہ طور پر میں نے اپنی دعوت کا اظہار کیا. اور میں نے کہا: خدا سے طلب مغفرت کرو ( کیو نکہ )وہ بہت بخشنے والا ہے، تا کہ تم پر کثرت سے بارش نازل کر ے اور تمہارے اموال اور اولاد کے ذریعے تمہاری نصرت کرے اور تمہارے لئے باغا ت اور نہریں قرار دے تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ خدا کی عظمت کے سامنے سر نہیں جھکا تے. جب کہ اس نے تمھیں مختلف اقسام میں خلق فرمایا ہے؟! کیا تم نے نہیں دیکھا کی خدا وند عالم نے کس طرح ایک پر ایک سات آسمانوں کو خلق کیا ہے .اور ان کے درمیان چا ند کو نور اور آفتاب کو ایک بڑا چراغ قرار دیا ہے.

اور خدا نے تمھیں زمین سے خا ص طرز سے پیدا کیا ہے اور پھر تمھیں اس کی طرف واپس کر دے گا اور مخصوص طریقے سے خارج کرے گا؟! خدا وند عالم نے تمھارے لئے زمین کا فرش بچھایا. تاکہ اس کی وسیع اور دور دراز راہوں میں چلو.نوح نے کہا: خدا یا! ان لوگوںنے میری مخا لفت کی ہے اور ایسے شخص کی بات مانی ہے کہ جس کے مال اور فرزند جز گمرا ہی وضلا لت کے کچھ اور نہیں بڑھا سکتے. اور ان لوگوں نے فریب دیا ،عظیم فریب اور کہا: اپنے خداؤں سے دور نہ ہونا اور انھیں نہ چھوڑنا. ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر نامی بتوں کو. انھوں نے بہت سارے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے اب تو ظالموں پر ضلا لت وگمراہی کے سوا کچھ اضا فہ نہ کرنا وہ لوگ اپنے گناہوں کے سبب غرق ہوگئے اور عظیم آگ میں دا خل ہوگئے اور خدا کے علا وہ کسی کو اپنا ناصر نہیں پا یا۔

نوح نے کہا: خدا یا! روئے زمین پر کسی کافر کو زندہ نہ رکھ کہ اگر تو انھیںزندہ چھوڑ دے گا تو وہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور بد کار کافر کے علا وہ کسی اور کو جنم نہیں دیں گے خدا یا! مجھے اور میرے ماں باپ کو بخش دے اور اس کو جو میرے گھر میں با ایمان داخل ہو اور تمام مومنین و مومنات کو بھی اور ستمگروں کو ہلا کت اور نا بودی کے سوا کچھ اور نہ دے۔

۸۵

۹۔ سورہ ٔ ہود کی ۳۷ ویں تا ۴۸ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بَِعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا وَلَا تُخَاطِبْنِی فِی الَّذِینَ ظَلَمُوا ِنَّهُمْ مُغْرَقُونَ ٭ وَیَصْنَعُ الْفُلْکَ وَکُلَّمَا مَرَّ عَلَیْهِ مَلَ مِنْ قَوْمِهِ سَخِرُوا مِنْهُ قَالَ ِنْ تَسْخَرُوا مِنَّا فَإِنَّا نَسْخَرُ مِنْکُمْ کَمَا تَسْخَرُونَ ٭ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ یَاْتِیهِ عَذَاب یُخْزِیهِ وَیَحِلُّ عَلَیْهِ عَذَاب مُقِیم٭ حَتَّی ِذَا جَائَ َمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلْ فِیهَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وََهْلَکَ ِلاَّ مَنْ سَبَقَ عَلَیْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ وَمَا آمَنَ مَعَهُ ِلاَّ قَلِیل ٭ وَقَالَ ارْکَبُوا فِیهَا بِاِسْمِ ﷲ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا ِنَّ راَبِی لَغَفُور رَحِیم ٭ وَهِیَ تَجْرِی بِهِمْ فِی مَوْجٍ کَالْجِبَالِ وَنَادَی نُوح ابْنَهُ وَکَانَ فِی مَعْزِلٍ یَابُنَیَّ ارْکَبْ مَعَنَا وَلاَتَکُنْ مَعَ الْکَافِرِینَ ٭ قَالَ سَآوِی الَی جَبَلٍ یَعْصِمُنِی مِنْ الْمَائِ قَالَ لاَعَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ َمْرِ ﷲ ِلاَّ مَنْ رَحِمَ وَحَالَ بَیْنَهُمَا الْمَوْجُ فَکَانَ مِنْ الْمُغْرَقِینَ ٭ وَقِیلَ یَاَرْضُ ابْلَعِی مَائَکِ وَیَاسَمَائُ َقْلِعِی وَغِیضَ الْمَائُ وَقُضِیَ الَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُودِیِّ وَقِیلَ بُعْدًا لِلْقَوْمِ الظَّالِمِینَ ٭ وَنَادَی نُوح رَبَّهُ فَقَالَ راَبِ ِنَّ ابْنِی مِنْ َهْلِی وَِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ وََنْتَ َحْکَمُ الْحَاکِمِینَ ٭ قَالَ یَانُوحُ ِنَّهُ لَیْسَ مِنْ َهْلِکَ ِنَّهُ عَمَل غَیْرُ صَالِحٍ فَلا َتَسَْلْنِی مَا لَیْسَ لَکَ بِهِ عِلْم ِنِّی َعِظُکَ َنْ تَکُونَ مِنْ الْجَاهِلِینَ ٭ قَالَ راَبِ ِنِّی َعُوذُ بِکَ َنْ َسَْلَکَ مَا لَیْسَ لِی بِهِ عِلْم وَِلاَّ تَغْفِرْ لِی وَتَرْحَمْنِی َکُنْ مِنْ الْخَاسِرِینَ ٭ قِیلَ یَانُوحُ اهْبِطْ بِسَلَامٍ مِنَّا وَبَرَکَاتٍ عَلَیْکَ وَعَلَی ُمَمٍ مِمَّنْ مَعَکَ وَُمَم سَنُمَتِّعُهُمْ ثُمَّ یَمَسُّهُمْ مِنَّا عَذَاب َلِیم )

ہماری نگرانی اور راہنمائی میں کشتی بنا ؤ اور ظا لموں کے بارے میں ہم سے بات نہ کرنا کہ وہ غرق ہو جائیں گے .نوح کشتی بنانے لگے اور جب بھی ان کی قوم کا کوئی گروہ ان کی طرف سے (ان کے پاس سے) گذرتا تو وہ مذاق اڑا تے تھے.نوح نے کہا : اگر تم لوگ ہمارا مذا ق اڑا ؤ گے تو ہم بھی اسی طرح تمہارا مسخرہ کریں گے اور مذ اق اڑا ئیں گے .بہت جلد ہی تمھیں معلو م ہو جا ئے گا کہ وہ کون ہے جس تک ذلیل اور رسوا کر نے وا لا عذا ب پہنچے گا اور دائمی عذا ب اس پر نازل ہو گا. یہاں تک کہ ہمارا فرمان پہنچا اور تنور سے پانی ابلنے لگا تو ہم نے کہا:ہر حیوان کا ایک ایک جوڑا کشتی میں سوار کرو. اپنے اہل وعیال کو بھی سوار کرو،سوائے اس کے جس پر عذا ب کا وعدہ گذر چکا ہے اور مومنین کو بھی سوار کرو اوراس ( نوح ) پر بہت تھوڑے لوگ ایمان لائے تھے نوح نے ان سے کہا : کشتی میں سوار ہو جاؤ، اس کی نقل وحرکت خدا کے نام سے ہے ، بیشک میرا خدا بخشنے والا اور مہر بان ہے.کشتی انھیں پہاڑ جیسی موج کے درمیان لے جا رہی تھی،نوح نے اپنے بیٹے کو جو کنارہ کھڑ اتھا آواز دی اور کہا : میرے بیٹے ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ اور کافروں کی ہمراہی اختیار نہ کرو. اس نے کہا : ابھی میں ایک ایسے پہاڑ پر پنا ہ لوںگاجو مجھ کو سیلاب سے محفوظ ر کھے گا نوح نے کہا:

۸۶

. آج خدا کے عذا ب سے کوئی بچانے والا نہیں ہے، سوائے اس شخص کے جس کوخدا نے اپنی رحمت میں شامل کر رکھا ہے ؛ (اتنے میں) ان دونوںکے درمیان ایک موج حا ئل ہو گئی اور وہ غرق ہو گیا خدا کافرمان پہو نچا کہ اے زمین! اپنا پانی نگل جا اور اے آسمان !( برسنے سے ) رک جا اپنی بارش بند کر دے اور پانی زمین کی تہہ میں پہنچ گیا اور جس کا حکم دیا گیا تھا وہ انجام پا گیا اور کشتی کوہ جو دی پر جا کر رکی اور کہا گیا: ظا لمین رحمت خدا سے دور ہیں اور نوح نے اپنے رب کو آواز دی کہ: خدا یا ! میرا بیٹا میرے اہل سے ہے اور تیرا وعدہ بھی حق ہے اور تو تمام انصاف کر نے والوں میں سب سے زیادہ عادل اور منصف ہے خدا نے کہا: اے نوح وہ تمہارے اہل سے نہیں ہے وہ ایک غیر صا لح عمل ہے ،جو تم نہیں جا نتے اس کی مجھ سے درخواست نہ کرو میں تمھیں نصیحت کر تا ہوں کہ کہیں جاہلوں میں نہ ہو جانا. نوح نے کہا: خدا یا ! تیری پناہ چاہتا ہوں کہ تجھ سے ایسی چیز طلب کروں جسے نہیں جانتا ہوں. اگر تو مجھے معاف نہ کرے گااور مجھ پر رحم نہ کر ے گا تو میں نقصا ن اٹھا نے والوں میں ہو جاؤں گا.کہا گیا ! اے نوح! ہماری طرف سے سلا متی اور برکتوں کے ساتھ نیچے اترآؤ اور یہ سلامتی اور برکتیں تم پر اور ان لوگوں پر ہیں جو تمہارے ہمرا ہ ہیں اور کچھ قومیں ایسی ہیںجنھیں ہم پہلے راحت دیں گے پھر اس کے بعد ہماری طرف سے ان پر عذا ب نازل ہوگا۔

۱۰۔سورۂ صا فات کی ۷۷ویں تا ۸۱ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَ جَعَلْنَاذُرِّیّتَهَ هُمُ البَا قِینَ٭ وَتَرَ کْنَا عَلیهِ فِی الاخِرِین٭ سَلَامُ عَلیٰ نُو حٍ فِی العَالَمِینَ٭ اِنَّا کَذ لکَ نَجْزِ ی المُحْسِنِینَ٭ اِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا المُؤ مِنینَ )

اور ہم نے صرف ان کی ذ ریت کو با قی رکھا اور آیندہ والوں کے درمیان ان کا نیک نام باقی رکھا.ساری خدائی میں نوح پر سلام ہو .ہم نیکو کاروںکو اسی طرح جزا دیتے ہیں ہی، وہ ہمارے مو من بندوں میں سے ہیں۔

۱۱۔سورہ ٔہود کی ۴۹ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے :

( تِلکَ مِنْ أنْبائِ الغَیْبِ نُو حِیهاا لیکَ مَا کُنْتَ تَعْلَمُهَااَنْتَ وَ لاَ قُومُکَ مِنْ قَبلِ هٰذَا فَاصْبِرْ اِنَّ العَا قِبَةَ لِلمُتَّقِینَ )

یہ سب کچھ غیب کی باتیں ہیں جن کی ہم نے تم پر وحی کی ہے،نہ تم انھیں اس سے پہلے جا نتے تھے اور نہ ہی تمہاری قوم.صبرو تحمل سے کام لو کہ انجام پرہیز گا روں کے نفع میں ہے.

۸۷

کلمات کی تشریح

۱۔فعمّیت علیکم:

عمیت الا خبار والا مور عنہ و علیہ: اخبار اور واقعات اُس سے پنہاں اور پو شیدہ رہ گئے، عمّی علیہ طریقہ یعنی راہ اُس پر پوشیدہ ہو گئی۔

۲۔بمعجزین:

اعجز فلان اُس وقت کہا جا تا ہے جب کوئی فرار کرے اور گر فتار نہ ہو ، کہ یہی معنی موقع اور مقام کے اعتبار سے منا سب ہے۔

۳۔استغشوا ثیا بھم:

خود کو لباس سے ڈھا نپ لیا (سر پر لباس ڈال لیا) تا کہ وہ لوگ اسے سنیں لیکن دیکھ نہ سکیں۔

۴۔مدرارا ً:

لگا تار اورموسلا دھار بر سنا۔

۵۔وقارا ً:

حلم و برد باری، ایسا سکون واطمینان جو عظمت کے ساتھ ہو یہاں پر عظمت کے معنی منا سب ہیں۔

۶۔ اطوارا ً :

اس کا مفرد طور ہے جو حا لت اور شکل کے معنی میں آتا ہے۔

۷۔ طبا قا ً:

تہہ بہ تہہ اور ایک دوسرے کے اوپر قرار پا نا،خواہ فا صلہ کے ساتھ ہو یا بغیر فا صلہ کے۔

۸۔ فجا جا ً:

کشادہ را ستے اس کا مفرد فجّ آتا ہے.

۹۔ تبا را ً :

ہلا کت اور نا بودی۔

۸۸

۱۰ ۔ با عیننا:

ہماری راہنما ئی اور نگرا نی میں اور ہماری پناہ میں۔

۱۱۔تنور:

منجملہ اس کے معنی چشمہ اور فوارہ کے ہیں.حضرت نوح کی شر ح حا ل سے متعلق تاریخ ابن عساکر( ۱ )

میں اس طرح ذ کر ہوا :یہ تنور مسجد کوفہ کے ایک کونے میں واقع تھا ۔

۱۲۔غیض :

پا نی زمین کے اندر چلا گیا ۔

۱۳ ۔جودی:

اس سلسلہ میں اختلا ف ہے کہ یہ'' جودی'' جزیرہ ابن عمر میں واقع تھا یا مو صل کے ارد گرد، یا غری میں نہر فرات سے قر یب نجف کی بلند یوں پر یا دوسری جگہ ۔

کتاب مقدس کی قا موس میں مذ کور ہے : حضرت نوح کی کشتی آرارات نامی پہاڑ پر ٹھہری جو کہ نہر ارس اوردریا ئے وان کے درمیان واقع ہے ۔ (جودی) کی لغت کے بارے میںحموی کی معجم البلدان میں مذ کور ہے : جودی دجلہ کے شرق اور موصل کے اطراف میں ابن عمر نامی جزیرہ پر واقع ایک پہا ڑ ہے. جس پر حضرت نوح کی کشتی رکی تھی۔

(استوت علی الجودی) کی تفسیر میں تفسیر طبری ، ابن کثیر اور سیوطی میں چند روایات کے ضمن میں مذ کور ہے :

جودی جزیرۂ ابن عمر میں ہے،ایک دوسری روایت میں ہے کہ وہ موصل میں واقع ہے.( ۲ ) . اور

____________________

(۱)۔ تاریخ ابن عساکر، خطی شمارہ ۳۲۹، الف.( ۲)۔ تفسیر طبری، ج ۱۲، ص ۲۹۔۳۰ ؛ تفسیر ابن کثیر،ص ۴۴۶، ۴۴۷؛ الدار المنشور ،ج ۳،ص ۳۳۱ ،۳۳۴ ،۳۳۵

۸۹

روضہ کا فی میں مذ کور ہے کہ: کوہ جودی وہی فرات کوفہ ہے .روضہ کا فی کے اس مطلب کی تشریح میں مجلسیمرآة العقول میں تحر یر فرما تے ہیں : احتمال ہے کہ یہ مطلب در حقیقت '' قر یب الکوفہ '' یعنی کوفہ سے قریب تھا کہ بعد میں نسخہ برداری میں '' فرات الکوفہ '' سے تصحیف اور تبد یل ہو گیا ہے۔( ۱ )

''جو دی '' سے متعلق استاد محقق آقا سید سا می البدری حقیر کے خط کے جواب میں اس طرح تحریر فرماتے ہیںکہ:

اُ س تو ریت میں جو عر بی زبا ن میں تر جمہ ہوئی ہے مذ کور ہے کہ نوح کی کشتی ''آراراط'' کے پہاڑ پر ٹھہری تھی .اور کتاب مقد س کی قا موس میں مذ کو ر ہے : یہ ایک عبر ی زبان کا لفظ ہے کہ جو آکا دی کے لفظ ''اورارطو'' سے لیا گیا ہے جو کہ عراق کے شمال میں واقع شمال آشو ر کی پہاڑی نہر وں کے لئے استعما ل ہوتا ہے نوح کی کشتی انہیں پہاڑوں میں سے کسی ایک پر ٹھہری تھی۔

لیکن میری نظر میں کلمۂ آکا دی''اورارطو'' دو جز سے تشکیل پا یا ہے۔

۱۔ '' اور '' جو شہر کے معنی میں ہے جیسے '' اورشلیم '' شہر سلام کے معنی میں ''اور کلدانیین'' کلدنیوں کے شہر کے معنی میں اور '' اوربیل'' شہر بت بعل۔

۲۔''ارطو '' یا ''اردو'' کہ یہ لفظ بھی متعدد معا نی میں استعما ل ہوا ہے منجملہ نہر فرات کا ایک نام ہے اور شہر با بل کا قدیم نام ہے۔

جو کہا گیا اس بنیا د پر کلمہ ''اورارطو''آکادی زبان میں شہر فرات اور شہر با بل تھا۔

جو چیز میرے نظر یہ کی تا ئید کر تی ہے وہ حضرت عیسیٰ مسیح کے عہد میں عبری تو ریت کا آرامی ترجمہ ہے کہ آج یہو دیوں کے نز دیک ''اونقلیوس کے تر جمہ'' کے نام سے مشہور ہے وہ پر ''کلمہ '' آراراط کا ترجمہ'' قردو '' اور '' قردون'' سے کیا ہے اور سریانی زبان کی تورات نے بھی اسی معنی کو اخذ کیا اور لیا ہے ۔

عہد آشور کے سلسلہ میں تحقیق کرنے والے دانشو ر کہتے ہیں: ''قردو'' ایک نام ہے جو حضرت مسیح کی ولا دت سے۰۰ ۱۵ سال پہلے کشینوں کی طرف سے ( کہ جنھوں نے تقر یبا چار سو سال با بل پر حکمر انی کی ہے ) سر زمین بابل کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔

اس لحا ظ سے ارارات کے پہا ڑ وہی بابل یا فرات کے پہاڑ ہیں جو بلند چٹا نوں اور پر اگندہ طور پر کم

____________________

(۱) روضة الکافی، حدیث ۴۲۱؛اسی طرح بحار الانوار ،ج، ۱۱،ص ۳۰۳، ۳۱۳، ۳۳۳ ، ۳۳۸ ملاحظہ ہو.

۹۰

بلندی والے پہاڑوں کا ایک مجموعہ ہیں جو کہ نجف کی سہ گا نہ بلندیوں سے شروع ہوکر دریائے نجف اور حبّانیہ کے شمال غر بی تک چلے گئے ہیں جو ''الطارات'' سے معر وف ہیں. ان سب میں سب سے زیادہ اونچائی نجف کی اونچائی ہے جو زمانہ قدیم میں''کو فان '' نامی پہاڑ سے مشہور تھی۔

لیکن روضہ کا فی کے بیان کے مطا بق یہ ہے کہ: ''جو دی پر جا کر ٹھہری اور وہ فرات کوفہ ہے'' یہ اس بات کا موید ہے کہ لفظ (جو دی ) یا ( جودا) فرات کوفہ کاایک نام ہے کہ پتھر پر مکتوب ابھی جلد ہی حاصل ہوا ہے۔ ہم نے اس کی مفصل داستان اور شر ح طوفان نوح کے بارے میں جو مطالب تحریر کئے ہیں اس میں ذ کر کی ہے۔( ۱ )

مؤ لف فرما تے ہیں:

مذ کورہ بالا مطا لب کی تائید میں ایک دوسرا نکتہ یہ ہے کہ بین النھرین(دجلہ و فرات) کی زمینیں کہ جو قدیم زما نے سے کھیتوں کی سر سبزی اور نخلستا نوں کی ہر یا لی کی بناء پر ایک دوسرے سے متصل آراضی سواد(وہ زمینیں جو ہر یالی کی شدت سے سیا ہی ما ئل دکھائی دیتی ہیں) سے معروف تھیں .اور حیرہ (موجودہ نجف ) اور مدائن (آج کے بغداد) سے دجلہ وفرات دو دریاؤں کے سمندر میں گرنے کی جگہ تک پھیلی ہوئی ہیں وہ حضرت آدم کے زمانے سے بنی عباس کے دور حکو مت تک انسانی حیات کے لئے سب سے بہتر زمینیں شمار کی جا تی تھیں. بر خلا ف عراق کے شمال میں واقع پہا ڑ بر فیلے اور طو لا نی ٹھنڈک والے علا قے ہیں حکمت الٰہی کا یہ تقاضہ تھا کہ نوح کی کشتی پر سوار افراد جو زند گی کے اسباب ووسائل سے محروم تھے انھیں ایسی جگہ اتا را جا ئے جو زند گی گذ ارنے اور سلسلہ حیات کی بقا کے لئے بہترین جگہ ہو۔

گزشتہ آیات کی تفسیر(۱)

حضرت آدم کی نسل میں چند سال گذر نے کے بعد اضافہ ہوتا رہا اور واضح ہے کہ وہ لوگ سر سبز و شاداب سر زمین اور فرات اور دجلہ دو دریا اور ان سے نکلی ہوئی ،چھو ٹی چھوٹی نہروں کے کنا رے آباد ہوئے جو انھیں سے متصل تھیں،حضرت نوح کے دور میں آبادی اور تہذ یب وتمدن ارتقائی منزل پر گا مزن تھے وہ اس طرح کہ جو اسلامی احکام اولین انسا نوں کیلئے حضرت آدم کے زمانے میں وضع کئے گئے تھے اور

____________________

(۱) ان آیات کی تفسیر کے بارے میں جو اللہ کے پیغمبروں کی سر گذشت سے مربوط ہے انشاء اللہ جو کچھ ہماری آیندہ بحثوں سے متعلق ہو گا ہم اس کی تحقیق اور چھان بین کریں گے۔

۹۱

اس کے بعد حضرت ادریس پر جو کچھ اس کی تکمیل کے لئے نازل ہوا تھا اس سے عصر نوح کے لو گوں کی ضرورت بر طرف نہیں ہو رہی تھی کیو نکہ اس پیغمبر کے دور کے لوگ دھیرے دھیرے'' ود ، سواع ، یغو ث ، یعوق'' اور نسر نامی بتوں کی پر ستش کی طرف ما ئل ہوگئے تھے یہ بت در اصل مجسمہ تھے ان پا نچ نیک اور شائستہ افراد کی یاد گار کے جو حضرت آدم اور حضرت نوح کے زمانے کے درمیان زند گی گذ ار چکے تھے جنھیں اس زمانے کے لوگوں نے تراشا تھا.اور ان کے ذریعہ ان بزرگوں کی یاد مناتے تھے. شیطان نے اسی راہ سے فا ئدہ اٹھا یا اور انھیں آمادہ کیا کہ ان ہیکلوں سے تبرک حا صل کریں اور آہستہ آہستہ ان کی عبادت اور پرستش کریں اور انھیں چھو ٹے خداؤں کے عنوان سے ''اللہ'' کے مقابلے ایک خدا قبول کریں''۔

حضرت نوح ۹۵۰ سال ان کے درمیان رہے اور انھیں خدا وند عالم کی عبادت وپرستش اور احکام اسلام پر عمل کر نے اور بت پرستی کے ترک کرنے کی دعوت دیتے رہے.لیکن ان کی طغیا نی اور سر کشی میں اضا فہ ہوتا گیا، ان لوگوں نے اپنے پیغمبر کو شدید تکلیف پہنچا ئی اور اذیت دی اور ان پر ایمان نہیں لائے اس وجہ سے خدا نے ان پر بارش کو روک دیا کیو نکہ خدا کی حکمت اس بات کی تھی کہ جو امتیں اپنے پیغمبر وں کی تکذیب کرتی تھیںوہ بے چارگی، فقر وفا قہ،مشقت، جان اور مال کے نقصا ن میں مبتلا ہوں.تا کہ شایدان کی سمجھ میںآجائے اور خدا کے حضور معافی تلا فی کریں نوح نے ان سے مطا لبہ کیا کہ وہ توبہ کریںاور خدا کی سمت آجائیں اور ان سے وعدہ کیا کہ اگر وہ ایسا کر تے ہیں تو خدا وند عالم ان کے کھیتوںمیں موسلا دھار بارش نازل کرے گا.لیکن انھوں نے اس کے برعکس اپنے عناد اورانحراف میں اضا فہ کیا اور انھیں ذ لیل وخوار سمجھا اور ان کو ایذا دینے اور تکلیف پہنچانے کے لئے آمادہ ہوگئے، منجملہ یہ ہے کہ انھیں میں سے ایک اپنے بیٹے کو حضرت نوح کے پاس لا یا اور اپنے بیٹے کو بتایا کہ یہ نوح ہیں اور کہا: اے فرزند! اگر تو میرے بعد زندہ رہے تو ہر گز اس دیوانے پر ایمان نہ لا نا!!

اس عناد ا و ر دشمنی،ضد او ر ہٹ دھر می کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لوگ خدا کے مہلک عذا ب کے مستحق ہوئے سب سے پہلے یہ عذا ب نازل ہوا کہ ان کی عورتیں بانجھ ہوگئیںاُس وقت خدا نے نوح کو کشتی بنا نے کا حکم دیا .نوح نے حکم کی تعمیل کی اور خدا کی تعلیم وراہنمائی کے ساتھ اور اس کے تحت نظر اس کی تعمیر میں مشغول ہوگئے۔

پھر تنور سے پانی ابلنے کے ساتھ جو کہ طوفان کے شروع ہو نے کی علامت تھی طوفان کا آغاز ہوا،ابن عساکر کے بقول وہ مذکورہ تنور مسجد کوفہ کے ایک گو شہ میں واقع تھا۔( ۱ )

____________________

(۱) تاریخ ابن عساکر شرح حال نوح ،خطی نسخہ مجمع علمی اسلامی میں ،ص۳۲۹ الف.

۹۲

نوح نے اپنے اوپر ایمان لا نے والوں اور کچھ جانوروں کو کشتی پر سوار کیا پھر زمین نے ہر گو شے سے اپنا منھ کھو ل دیا اور سیل رواں جوش کھا نے لگا اور شدید بارش ہو نے لگی، پا نی نے زمین کو چھپا لیا یہاں تک کہ نوح کی کشتی کو اٹھا کر اسے موجوں کے درمیان پہا ڑوں کی بلندی پر لے گیا۔

نوح کا بیٹا کشتی پر سوار ہو نے سے انکار کر گیا.نوح کی پدرانہ شفقت نے دل میں درد پیدا کیا ایسی شفقت جو تمام انسا نوں کو ہوتی ہے.لہذا بیٹے کو خطاب کر کے آواز دی :

( یَا بُنیَّ ارْکبْ مَعنا وَ لاَ تَکُن مَعَ الکَا فِرِینَ٭قَالَ سَآوی اِلیٰ جَبلٍ یَعصِمُنی مِنَ المَائِ قَالَ لَا عَاصِمَ الیَومَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ اِلَّا مَنْ رَحِمَ وَحَالَ بَیْنَهُمَا المُوجُ فَکاَنَ مِنَ المُغْرَ قِینَ٭فَناَدی نُوحُ رَبّه فَقَالَ راَبِ انَّ ابنِی مِنْ أهلِی وَانَّ وَعَدکَ الحَقُّ وَ اَنتَ أحکمُ الحَا کِمِینَ٭ قَالَ یَا نُوحُ اِنَهُ لَیْسَ مِن أهلکَ اِنّهُ عَمَل غَیرُصَا لِح ٍفَلَا تَسألْنِی مَا لَیْسَ لکَ بِهِ علم )

اے میرے بیٹے! ہمارے ہمراہ کشتی پر سوار ہو جاؤ اور کا فروں کے ساتھ نہ رہو.نوح کے بیٹے نے کہا : میں کسی پہاڑ پر پناہ لے لوں گا جو میری اس پانی سے حفا ظت کرے گا.نوح نے کہا : آج کے دن امر خدا سے کوئی چیز بچانے والی نہیں ہے، مگر وہ شخص کہ جس پر خدا نے رحم کیا ہو،(اس اثناء میں ) ان کے درمیان موج حا ئل ہو گی اور وہ غرق ہو گیا .نوح نے اپنے رب کو آواز دی کہ:خدا یا! میرا بیٹا میرے اہل سے ہے اور تیرا وعدہ بھی حق ہے اور تو تمام حا کموں میں بہتر حکم کر نے والا ہے ۔

خدا نے کہا :اے نوح :وہ تمہارے اہل سے نہیں ہے اس نے نا زیبا حر کتیں کی ہیں لہذا تم جو نہیں جانتے ہو اس کا مجھ سے مطا لبہ نہ کرو۔

نوح اللہ کے خطاب کے ذریعہ اس حقیقت سے واقف ہوگئے جس کا انھیں علم نہیں تھا اور سمجھ گئے کہ ان کا بیٹا اپنے نا روا اور نا زیبا افعال کے باعث خدا کے عذا ب کا مستحق ہو گیا ہے اور عرض کیا۔

( رَبّ اِنِّی أَعُوذ بِکَ اَنْ اَسَأَلَکَ مَا لَیْسَ لِی بِه علم... )

خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں تجھ سے ایسی چیز کا مطا لبہ کروں جو نہیں جانتا۔

۹۳

خدا وند عالم ان تمام لوگوں کو جو نوح کی کشتی پر سوار نہیں ہوئے تھے ہلا ک کردیا، اس کے بعد سیل آسا بارش بند ہوئی اور سارا پانی زمین کے اندر چلا گیا اور جو لوگ کشتی پر سوارتھے با بل کی سر زمین پر اترے۔( ۱ ) اور جن حیوا نات کو نوح نے اس پر سوار کیاتھا باہر آئے اور زمین پر پھیل گئے۔

جو لوگ حضرت نوح کے بعد آج تک وسیع وعر یض زمین پر پیدا ہوئے ہیںان کے تین فر زندوں سام، حا م اور یافت کی نسل سے ہیں۔

قریش کو حضرت نوح کے واقعہ سے آگا ہی نہیں تھی اور غیبی اخبار کے ذریعہ کہ جنھیں حضرت ختمی مرتبت صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وحی کے ذریعہ دریا فت کیا تھا اُس واقعہ سے مطلع ہوئے۔

جو کچھ بیان ہو چکا وہ آیات کی تفسیر میں اخبار نوح کا خلاصہ تھا، بعض اخبار ہیں جو اسلامی منابع و مآخذ میں مذ کور ہوئے ہیں۔

اب ہم اسلامی مآخذ میں: اب ہم حضرت نوح کے اخبار کے دوسرے حصّہ سے بحث کرتے ہیں۔

اسلامی مصا در میں حضرت نوح کی داستان

ہم تاریخ یعقوبی سے ( اختصارکے ساتھ) اس طرح نقل کر تے ہیں:

خدا وند عالم اخنوخ کے زمانے میں کہ اخنوخ نوح کے جد ا ور ادریس پیغمبر ہیں ان کے آسمان پر اٹھائے جانے سے پہلے نوح کو وحی کی اور حکم دیا کہ اپنی قوم کو ڈرائیں اور گناہوں کے ارتکاب سے جن کے وہ لوگ مر تکب ہوتے ہیں دور رکھیں .اور اللہ کے عذاب سے ڈرائیں، نوح نے حکم کی تعمیل کی اور خود اللہ کی عبادت اور قوم کواس کی طرف دعوت دینے میں مشغول ہوگئے ۔

پھر یعقوبی (اوردوسرے مورخین) مفصل شرح وبسط کے ساتھ جو ہم نے اختصار سے اس سے پہلے گزشتہ آیات کی تفسیر میں ذکر کیا ہے ذکر کرتے اور تحریر فرماتے ہیں:

نوح نے کشتی سے نکلنے کے بعد ۳۶۰ سال زند گی گذا ری اور جب موت قریب آگئی تو اپنے تینوں فرزندوں ( سام، حام، یافث. ) اور ان کے فرزندوں کو بلا یا اور ان سے وصیت کی اور حکم دیا کہ خدا وند عالم کی عبادت کریں۔

_____________________

(۱)۔حمومی معجم البلدان میں مادہ بابل کے ذیل میں اختصار کے ساتھ تحریر فر ماتے ہیں:بابل اس علاقہ کانام ہے کہ انھیں میں سے((حلہ اور کوفہ بھی ہے))جہاں نوح اور ان کے ساتھی کشتی سے نیچے آئے اور ایک پناہ گاہ بنائی،یہ پہلی جگہ ہے کہ وہ لوگ اس جگہ آبادی کر کے رہنے لگے اور یہاں پر تولید ونسل کا سلسلہ بڑھایا یہاں تک کہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور ان میں سے بادشاہت کے مالک ہوئے اور شہروں کی بنا کی ان کی زندگی حدود دجلہ اور فرات اور دجلہ کی طرف سے نیچے((کسکر)) اور کوفہ کی طرف سے ماروائ''کوفہ'' تک پھیل گئی کہ اسے سواد کہتے ہیں اوران کے بادشاہوں نے بابل میں اپنی پناہ گاہ بنائی اور اسی کو پایۂ تخت بنا یا.

۹۴

پھر اس گھڑی سام سے کہا جب میں دنیا سے رحلت کر جاؤں ،قبل اس کے کہ کوئی آگاہ ہو تم ہی کشتی میں سوار ہو نا اور جسد آدم کو مقدس جگہ جو کہ زمین کے درمیان واقع ہے لے جانا اور اس کے بعد فرمایا:

اے سام : جب تم اپنے بیٹے '' ملکیزدق '' کی نصرت سے حضرت آدم کے جسد کو اٹھاؤگے تو خداوندعالم فر شتوں میں ایک فر شتہ کو تمہارے ہمراہ کر ے گا تاکہ وہ تمہاری راہنمائی کرے اور تمھیں زمین کے وسط کا پتہ بتا ئے.اس ما موریت کے سلسلہ میں تمہارے کام سے کوئی آگاہ نہ ہونے پا ئے؛ کیو نکہ یہ آدم کی اپنے بیٹے سے وصیت ہے کہ ہر ایک نے دوسرے سے وصیت کی ہے یہاں تک کہ تم تک پہنچی ہے، جب تم اس جگہ پر جہاں فر شتہ تمہاری راہنمائی کرے پہنچ جانا تو وہاں پر حضرت آدم کے جسد کو سپرد خاک کر دینااور ''ملکیزدق'' کو حکم دینا کہ اسی جگہ ہمیشہ کے لئے سکو نت اختیا ر کرے اور اس سے جدا نہ ہو اور اللہ کی عبادت اور پر ستش کے علا وہ کوئی کام نہ کرے۔( ۱ )

جب نوح کا انتقال ہو گیا تو عراق میں اسی جگہ دفن کر دیئے گئے جہاں انتقال ہوا تھا کیونکہ پیغمبر خدا نے فرما یاہے :

(وَ مَا قُبِضَ ناَبِیّ اِلَّا دُ فِنَ حَیْثُ یُقْبَضُ )( ۲ )

ہر پیغمبر جہاں انتقال کر تا ہے وہیں دفن کیا جا تا ہے۔

اس لحا ظ سے ،حضرت آدم کا مد فن (دفن کی جگہ) وہیں ہو نا چاہئے جہاں ان کا انتقال ہوا ہے۔

____________________

(۱) تاریخ یعقوبی، ج۱، ص۱۳ اور ص ۱۶ ، طبع بیروت ۱۳۷۹ ھجہ.(۲) سیرۂ ابن ہشام، ج۴، ص ۲۴۳ سنن ابن ماجہ، حدیث ۱۶۲۸. فتح الباری، ج۱، ص ۵۲۹.کنز العمال، ۱۸۷۶۳.

۹۵

نوح کے فرزند سام *

* نوح کی اپنے بیٹے سام سے وصیت.

* سام کا حضرت آدم کے جسدکو سفینہ سے باہرنکالنااوراس جگہ دفن کرنا جہاں انھیں حکم دیا گیا تھا.

* سام کی اپنے بیٹے ارفخشد سے وصیت.

۹۶

نوح کی اپنے بیٹے سام سے وصیت

تاریخ ابن اثیر میں مذ کور ہے :

حضرت نوح نے اپنے سب سے بڑے بیٹے سا م سے وصیت کی( ۱ )

مسعودی کی اخبار الزمان میں مذکور ہے :

خدا وند عالم نے حضرت نوح کے بعد ریا ست ان کے فرزند سام کے حوالے کی اور انھیں گزشتہ پیغمبروں کی کتا بوں کا وارث قرار دیا اور حضرت نوح کی وصیت کو دیگر بھائیوں کے علا وہ خود ان سے اور ان کے فرزندوں سے مخصوص قرار دیا ۔( ۲ )

سام حضرت آدم کے جسد کو کشتی سے اٹھا تے ہیں

تاریخ یعقوبی میں مذکور ہے:

سام اپنے والد کے بعد خدا وند عالم کی عبادت اور اس کی اطا عت و فر ما نبرداری میں مشغو ل ہوگئے اور کشتی کادروازہ کھولا اور خفیہ طور پر اپنے دونوں بھا ئیوں کو اطلا ع دی اور ان کے حا ضر ہوئے بغیر اپنے بیٹے کی مدد سے حضرت آدم کے جسد کو وہاں سے اٹھا کر با ہر نکا ل لائے اور نگہبان فر شتے نے انھیں راستہ کی راہنمائی کی اور وہ لوگ اسی طرح حضرت آدم کے جسد کو اپنے ہمراہ لے گئے یہاں تک کہ ایسی جگہ پہنچے جہاں طے تھا کہ حضرت آد م کا جسد سپرد خاک ہو پھر حضرت آدم کے جسد کو خا ک کے حوالے کر دیا( دفن کر دیا )۔

سام کی اپنے فرزند ارفخشد سے وصیت

جب سام کی موت کا زمانہ قر یب آیا تو انھوں نے اپنے فرزند ارفخشد کو بلا یا اور ان سے وصیت کی۔( ۳ )

____________________

(۱ )تاریخ ابن اثیر ، طبع اول مصر،ج ۱، ص ۲۶. ( ۲)ا خبار الزمان، مسعودی ، ص ۷۵ ۔۱۰۲سال طبا عت ۱۳۸۶ ھ بیروت.

(۳)تاریخ یعقو بی ، ص ۱ ۔ ۱۷، طبع بیروت، ۱۳۷۹ ھ.

۹۷

سام کے فرزند ارفخشد *

* باپ کے بعد ان کی جانشینی.

* ارفخشد کی اپنے فرزند سے وصیت.

ارفخشد اپنے والد سام کے بعد

مسعودی کی مروج الذ ھب میں مذ کور ہے :

سام کے بعد ان کے فر زند ارفخشدنے امور کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی ۔( ۱)

تاریخ یعقو بی میں مذ کور ہے:

ارفخشد اپنے والد سام کے بعد خدا وند عالم کے اوا مر کی اطا عت اور عبادت میں مشغول ہوگئے اور ۱۸۵ سال کے بعد ان کے فر زند شا لح پیدا ہوئے ان کے عہد میں نوح کی اولا د متفرق ہو کر مختلف جگہوں پر سکو نت اختیا ر کر چکی تھی ،ظالموں اور سرکشوں کی رو زافزوں زیادتی ہونے لگی اور انھوں نے ہر سو تعدی اور تجاوز کا ہاتھ بڑھایا اور کنعان بن حام کے فر زندوں کو تباہی اور فساد میں مبتلا کردیا ؛اور وہ لوگ گستا خانہ اور کھلم کھلا گنا ہوں کے مر تکب ہونے لگے ۔( ۲ )

ارفخشد کی اپنے بیٹے سے وصیت

تاریخ یعقوبی میں مذ کو ر ہے :جب ارفخشدکی موت کا زمانہ قریب آیا تو ان کے بیٹے اور رشتہ دار سب ان کے پا س جمع ہوگئے ارفخشد نے ان سے خدا کی عبادت اور گنا ہوں سے دوری کی وصیت کی، پھر اس وقت اپنے فرزند شا لح سے کہا :میری وصیت کی حفا ظت کر تے ہوئے اپنے اہل وعیا ل کے درمیان میرے بعد خدا کی عباد ت میں مشغول رہنا ،پھر آنکھ بند ہو گئی اور دنیا سے رخصت ہوگئے.( ۳ )

____________________

(۱)۔ مروج الذھب، مسعودی، ج۱، ص۵۴.(۲)۔ تاریخ یعقوبی، ج۱، ص ۱۸.(۳)۔ تاریخ یعقوبی، ج۱، ص ۱۸.

۹۸

ارفخشد کے فر زند شالح *

* خدا کی اطا عت و عبادت میں شا لح کا مشغول ہونا

* ان کی وصیت اپنے فر زند عابر سے

خدا کی اطا عت و عبادت میں شا لح کا مشغول ہونا

تاریخ یعقو بی میں مذ کور ہے:

پھر ارفخشد کے فرزند شالح ( اپنے باپ کی وصیت کے مطا بق) اپنی قوم کے درمیان خد ا کی عبادت میں مشغول ہوگئے اور انھیں خدا کی اطاعت و فرمانبر داری کا حکم دیا اور گناہوں کے ارتکاب سے منع فر ما یا اور عذاب الٰہی سے جو کہ گناہ گاروں کے لئے آئے گا ڈرا یا .شا لح ۱۳۰ سا ل کے تھے کہ ان کے فرزند عابر پیدا ہوئے اور جب ان کی وفا ت کا زمانہ قر یب ہوا تو اپنے فرزند عا بر کو بلایا اور ان سے وصیت کی اور انھیں حکم دیاکہ قا بیل کی اولا د کے گناہ آلود کاموں سے دوری اختیار کریں، پھر اس وقت آنکھ بند ہوگئی اور دنیا سے رحلت کر گئے.( ۱ )

٭٭٭

ہم نے گزشتہ مبا حث میں نوح کے وہ اوصیاء جو کہ انبیا ء نہیں تھے ان میں سے صرف سام ،ارفخشد اور شالح کی سر گذ شت پر اکتفا ء کی ہے ۔

اب انشاء اللہ ہم انبیاء کے حالات اور حضرت نوح کے اوصیاء میں سے پیغمبروں کے بعض حالات کو قرآن کی تشریح کے اعتبار سے بیان کر یں گے۔

____________________

(۱) تاریخ یعقوبی ،ج۱، ص ۱۸.

۹۹

( ۶ )

قرآ ن کریم میں اوصیاء حضرت نوح میں سے انبیاء کے حالات

* حضرت ہود پیغمبر

* حضرت صالح

حضرت ہود

* قرآن کی آیا ت کر یمہ میں حضرت ہود کی سیرت

* کلمات کی تشریح

* آیات کر یمہ کی تفسیر.

۱۰۰