انسان قرآن کی نظرمیں

انسان قرآن کی نظرمیں0%

انسان قرآن کی نظرمیں مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 110

انسان قرآن کی نظرمیں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شھید مرتضی مطہری
زمرہ جات: صفحے: 110
مشاہدے: 44090
ڈاؤنلوڈ: 3706

تبصرے:

انسان قرآن کی نظرمیں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 110 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 44090 / ڈاؤنلوڈ: 3706
سائز سائز سائز
انسان قرآن کی نظرمیں

انسان قرآن کی نظرمیں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

چنانچہ عارف کے نقطہ نظر سے یہ روح اور جان حقیقی نہیں ہے اور یہ روح اور جان کی شناخت بھی ”خود شناسی“ نہیں ہے‘ بلکہ روح خود اپنے آپ کا اور ”من“ کا مظہر ہے۔

”من حقیقی“ خدا ہے جب انسان فنا ہو جائے اور اس کا اپنا وجود ٹوٹ جائے اور اس کی جان اور روح کا کوئی نشان باقی نہ رہے تب دریا سے یہ جدا شدہ قطرہ دریا (یعنی گل) میں واپس چلا جاتا ہے اور اس میں گم ہو جاتا ہے۔ تبھی انسان اپنی ”حقیقی خود شناسی“ کو پا لیتا ہے‘ اسی وقت انسان اپنے آپ کو تمام اشیاء میں اور تمام اشیاء کو خود اپنے اندر دیکھتا ہے اور تبھی وہ اپنی حقیقی ذات سے باخبر ہو جاتا ہے۔

8 ۔ پیغمبرانہ خود شناسی

یہ ”خود شناسی“ باقی تمام اقسام ”خود شناسی“ سے مختلف ہے۔ پیغمبر کی خود شناسی کا تعلق خدا سے بھی ہے اور مخلوق سے بھی وہ درد خدا بھی رکھتا ہے اور درد مخلوق بھی لیکن نہ ثنویت اور دوگانگی کی شکل میں نہ دو قطبوں کی صورت میں نہ ہی قبلوں کی شکل میں اور نہ یہ کہ اس کا آدھا دل خدا کی طرف ہوتا ہے اور آدھا مخلوق کی طرف یا اس کی ایک آنکھ خدا کی طرف ہوتی ہے اور دوسری مخلوق کی طرف یا اس کی محبت‘ مقاصد اور آرزوئیں خدا اور خلق کے درمیان منقسم ہوتی ہیں‘ ایسا ہرگز نہیں۔

قرآن حکیم میں آیا ہے:

ماجعل الله لرجل من قلبین فی جوفه (سورئہ احزاب‘ آیت 4)

۱۰۱

”اللہ نے کسی آدمی کے سینے میں دو دل پیدا نہیں کئے کہ وہ دو جگہ دل دے بیٹھے‘ ایک دل اور دو دلبر نہیں ہو سکتے۔“

انبیاء 1  توحید کے ہیرو ہیں‘ ان کے افعال میں ذرہ برابر شرک کی آمیزش نہیں ہوتی‘ نہ انہیں مبداء میں شرک ہوتا ہے اور نہ مقصد‘ آرزو اور درد مندی میں‘ وہ دنیا کے ذرے ذرے سے عشق کرتے ہیں‘ اس لئے کہ وہ تمام ذرے اسی خدا سے ہیں اور انہی اسماء اور صفات کے مظاہر ہیں۔

بجہان خرم از آئم کہ جہان خرم از اوست

عاشقم برھمہ عالم کہ ھمہ عالم از اوست

(کلیات سعدی طباعت)

”میں دنیا سے اس لئے خوش ہوں کہ دنیا خدا سے خوش ہے‘ میں تمام عالم کا عاشق ہوں اس لئے کہ تمام عالم اسی خدا سے ہے۔“

اولیائے خدا  کا دنیا سے عشق خدا سے ان کے عشق کا عکس ہے‘ لیکن یہ ایسا عشق نہیں‘ جو خدا سے ان کے عشق کے متوازی ہو‘ مخلوق سے ان کے درد کی بنیاد خدا سے ان کا درد ہی ہے‘ کوئی اور اصل اور منبع نہیں۔ ان کے مقاصد اور آرزوئیں وہ نرد بان ہیں جن کے ذریعے سے وہ خود کی جانب جاتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کی جانب لے جاتے ہیں اور یہ درد ان کی روحانی تکمیل کے لئے تازیانہ کا کام دیتا ہے اور اس سفر میں ان کا محرک ہوتا ہے جسے ”مخلوق سے خدا تک سفر“ کہا جاتا ہے اس درد کی وجہ سے وہ لحظہ بھر آرام اور قرار نہیں پاتے تاکہ وہ حضرت علی 1  کے قول کے مطابق ”جائے امن“ میں پہنچ جائیں۔

اس سفر کا خاتمہ ان کے لئے ایک دوسرے سفر کا آغاز ہوتا ہے جو ”خدا میں خدا کے ساتھ سفر“ کہلاتا ہے۔

۱۰۲

یہی وہ سفر ہے جس میں ان کا ظرف بھر جاتا ہے اور وہ ایک اور طرح کا تکامل حاصل کر لیتے ہیں‘ نبی اس مقام پر پہنچ کر بھی نہیں رکتا‘ جب اس کا ظرف حقیقت سے لبریز ہو جائے اور وہ پورے روحانی دائرئہ زندگی کو طے کر لے اور منزلوں کی راہ جان لے تو پھر وہ مبعوث ہو جاتا ہے اور یہاں سے اس کا تیسرا سفر ”یعنی خدا سے مخلوق کی جانب سفر“ شروع ہو جاتا ہے اور وہ واپس بھیج دیا جاتا ہے لیکن اس کی یہ واپسی ایسی نہیں کہ وہ دوبارہ نقطہ اول پر چلا جائے اور اس نے وہاں جو کچھ حاصل کیا تھا اس سے محروم ہو جائے بلکہ اس نے وہاں جو کچھ پایا تھا‘ اپنے ساتھ واپس لاتا ہے‘ خدا سے مخلوق کی جانب سفر خدا کے ساتھ ہے نہ اس سے دور ہو کر‘ نبی کے تکامل کا یہ تیسرا مرحلہ ہے۔

نبی کی بعثت اور اس کی واپسی جو دوسرے سفر کے خاتمے پر وقوع میں آتی ہے۔ ایک طرح سے الٰہی خود شناسی سے مخلوقاتی خود شناسی کا پیدا ہونا اور الٰہی درد مندی سے مخلوقاتی درد مندی کا ظہور پانا ہے۔

مخلوق کی جانب واپسی سے اس کا چوتھا سفر اور اس کی تکمیل کا چوتھا دور شروع ہوتا ہے یعنی ”خالق“ کے ساتھ مخلوق میں سفر“ اس آخری سفر کا مقصد یہ ہے کہ مخلوق کو شریعت کے راستے سے خدا کے لامتناہی کمال کی جانب روانہ کیا جائے یعنی حق‘ عدل اور انسانی قدروں کے راستے سے انسان کی غیر معمولی مخفی قوتوں کو عمل میں لایا جائے‘ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ ایک روشن خیال انسان کا انتہائی مقصد ہے وہ پیغمبر کے لئے سفر کی منزلوں میں ایک منزل ہے جہاں سے وہ مخلوق کو گذارتا ہے اور عارف جس چیز کا دعویٰ کرتا ہے وہ پیغمبر کے راستے میں موجود ہوتی ہے۔

۱۰۳

علامہ محمد اقبال  ”پیغمبرانہ خود شناسی“ اور ”عارفانہ خود شناسی“ کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

”حضرت محمد 1 کو آسمان پر معراج نصیب ہوئی اور وہ واپس آ گئے۔“

لیکن شیخ طریقت حضرت عبدالقدوس گنگوہی نے فرمایا:

”قسم ہے اللہ کی! اگر میں اس نقطے پر پہنچتا تو ہرگز واپس نہ آتا۔“

علامہ محمد اقبال  اس سلسلے میں کہتے ہیں:

”تمام صوفیانہ ادبیات میں سے شاید ایسے چند الفاظ بھی نہیں ملتے جو ایک جملے میں پیغمبرانہ اور صوفیانہ دو قسم کی خود شناسی کے درمیان نفسیاتی فرق کو اس خوبی سے ظاہر کرتے ہیں‘ عارف یہ نہیں چاہتا کہ اس سکون اور اطمینان کے بعد جو اسے تجربہ وصال حق اور عارفانہ خود شناسی کے حصول سے ملتا ہے۔ اس دنیا کی زندگی میں واپس آئے اور جب وہ ضرورت کے تحت واپس آتا ہے تو اس کی واپسی تمام نوع انسانی کے لئے چنداں مفید نہیں ہوتی‘ لیکن پیغمبر کی واپسی خلاقی اور مفید ہوتی ہے‘ وہ واپس آتا ہے اور وقت کی روانی میں اس مقصد سے داخل ہوتا ہے کہ وہ تاریخ کے دھارے کو اپنے قابو میں لا کر اعلیٰ مقاصد کے لئے نئی دنیا پیدا کرے۔“(احیائے فکر دینی در اسلام‘ ص 143‘ 144)

اس وقت ہمارا مقصد یہ نہیں کہ یہ معلوم کریں کہ یہ عارفانہ عبارت صحیح ہے یا نہیں؟ امر مسلم یہ ہے کہ شروع میں ہر نبی میں خدا کا درد ہوتا ہے جو درد اس کی روح پر غالب آتا ہے‘ وہ خدا جوئی کا درد ہے‘ وہ اس کی طرف عروج اور پرواز کرتا ہے اور اس سرچشمہ سے سیراب ہوتا ہے اس کے بعد اس میں مخلوق کا درد پیدا ہوتا ہے‘ ایک نبی کے مخلوقات کے لئے درد اور ایک روشن خیال انسان کے دل میں دوسرے انسانوں کے لئے پیدا ہونے والے درد میں فرق ہوتا ہے‘ اس لئے کہ ایک روشن خیال انسان کا درد انسانی احساس اور محض ایک تاثیر ہے اور چہ بسا نطشے جیسے لوگوں کی نظر میں انسان کی کمزوری کی علامت سمجھی جاتی ہے۔

۱۰۴

لیکن ایک نبی کا درد دوسرے لوگوں کے درد سے بالکل مختلف ہوتا ہے اور ان میں سے کسی سے شباہت نہیں رکھتا‘ اسی طرح جیسے مخلوق کی نوعیت بھی مختلف ہوتی ہے‘ کسی نبی کی روح میں روشن ہونے والی آگ دوسروں کی آگ سے مختلف ہوتی ہے‘ یہ صحیح ہے کہ پیغمبر کی شخصیت دوسروں کی شخصیت سے زیادہ وسیع ہوتی ہے۔ اس کی روح دوسروں سے مل جاتی ہے اور سب پر محیط ہوتی ہے اور اس طرح تمام دنیا کے ساتھ ایک ہو جاتی ہے اور تمام عالم پر محیط ہو جاتی ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ وہ دوسروں کے غموں سے خود بھی غمگین ہو جاتا ہے۔

قرآن حکیم میں آیا ہے:

لقد جائکم رسول من انفسکم عزیز علیه ماعنتم حریص علیکم (سورئہ توبہ‘ آیت 128)

”تمہارے درمیان میں تم ہی میں سے رسول آیا ہے‘ تمہارا دکھ اس پر شاق گذرتا ہے وہ تمہاری بھلائی کا خواہشمند ہے یہاں تک کہ لوگوں کے غم میں مرا جاتا ہے۔“

اسی طرح ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے:

”پس (اے پیغمبر) گویا تو مارے غم کے اپنی جان کو ہلاک کرے گا‘ اگریہ لوگ ایمان نہ لائیں خدا کی بات پر اور یہ بھی صحیح ہے کہ وہ دوسروں کی بھوک‘ برہنگی‘ مظلومیت‘ محرومیت‘ بیماری اور افلاس پر غم کھاتا ہے‘ یہاں تک کہ وہ اس پریشانی کی وجہ سے اپنے بستر پر شکم سیر ہو کر سوتا بھی نہیں کہ مبادا مملکت کے بہت دور کے شہروں میں کوئی بھوکا ہو۔“(سورئہ کہف‘ آیت 6)

حضرت علی 1  نے فرمایا:

”دور ہے مجھ سے کہ خواہش نفسانی مجھ پر غلبہ پائے‘ حرص میری پیش روبنے اور منتخب غذا تلاش کرے۔ ایسا نہ ہو کہ حجاز یا یمامہ میں کوئی بھوکا ہو‘ جس نے کبھی سیر ہو کر کھانا نہ کھایا ہو‘ کیا میں شکم سیر رہ سکتا ہوں‘ جب کہ میرے اطراف میں بھوکے پیٹ اور جلے ہوئے جگر موجود ہوں۔“

۱۰۵

لیکن ان سب باتوں کو رحم‘ رقت قلب‘ دل سوزی‘ نازک دلی اور ہمدردی پر محمول نہیں کرنا چاہئے‘ بلکہ انسان ہونے کی حیثیت سے شروع میں یعنی دوسرے انسانوں کی مانند تمام خصوصیات کا حامل ہوتا ہے‘ لیکن اس کے بعد اس کا وجود آتش خداوندی سے روشن ہو جاتا ہے‘ اس کی تمام انسانی صفات ایک دوسرے کے رنگ میں رنگی جاتی ہیں‘ جسے ”خدائی رنگ“ کہا جاتا ہے۔

پیغمبر کے تربیت یافتہ انسانوں اور اس کے معاصر معاشروں کے روشن خیال لوگوں کے تربیت یافتہ انسانوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ ان دونوں کے مابین بنیادی ترین فرق یہ ہے کہ پیغمبر اپنی کوششوں سے انسان کی فطری طاقتوں کو بیدار کرتا ہے اور انسانوں کے وجود کے مخفی شعور اور عشق کو متحرک کرتا ہے‘ پیغمبر اپنے آپ کو ”بیدار کرنے والا“ کہتا ہے‘ وہ انسانوں میں پوری کائنات کے مقابلے میں ایک احساس پیدا کرتا ہے اور کائنات کے بارے میں وہ اپنی ”خود شناسی“ کو اپنی امت میں منتقل کرتا ہے‘ لیکن ایک روشن خیال انسان زیادہ سے زیادہ لوگوں کے اجتماعی شعور کو بیدار کرتا اور ان کو ان کی قومی یا طبقاتی مصلحتوں سے آگاہ کرتا ہے۔

۱۰۶

فہرست

انسان قرآن کی نظر میں : 3

اسلامی تصور کائنات میں انسان 4

انسانی اقدار۔ 5

منفی اقدار 10

حسین یا بدصورت 11

متعدد پہلوؤں کی حامل مخلوق 13

1 ۔ علم و دانائی: 14

2 ۔ اخلاقی نیکی 15

3 ۔ حسن و جمال 16

4 ۔ تقدیس اور عبادت 17

انسان کی مختلف قوتیں 21

خود شناسی 24

انسانی صلاحیتوں کی تربیت 26

جسم کی پرورش 26

روح کی پرورش 27

مستقبل کی تعمیر میں انسان کا کردار 28

1 ۔ وسعت دید اور آگاہی 30

2 ۔ خواہشات کی وسعت 30

3 ۔ تعمیر نفس کی خصوصی صلاحیت 30

آزادی کی حدود اور انسان کا ارادہ 34

۱۰۷

1 ۔ وراثت 34

2 ۔ جغرافیائی اور قدرتی ماحول 35

3 ۔ معاشرتی ماحول 35

4 ۔ تار اور عصری عوامل 35

5 ۔ حدود و قیود کے خلاف انسان کی بغاوت 36

انسان اور قضا و قدر 36

انسان اور فرائض 38

1 ۔ بلوغت 39

2 ۔ عقل 40

3 ۔ علم و آگاہی 41

4 ۔ طاقت و توانائی 42

5 ۔ آزادی و اختیار 44

درست اعمال کی شرائط 46

(ج) آئیڈیالوجی کے لحاظ سے اسلام کی خصوصیات 56

2 ۔ اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت: 57

3 ۔ سہولت اور آسانی: 58

4 ۔ زندگی کی طرف میلان و رغبت: 58

5 ۔ اجتماعی ہونا: 59

6 ۔ انفرادی حقوق اور آزادی: 59

7 ۔ معاشرتی اور اجتماعی حق کی انفرادی حق پر فوقیت: 60

8 ۔ شوریٰ کا حصول: 60

۱۰۸

9 ۔ مضر حکم کا نہ ہونا: 60

10 ۔ مفید نتیجے اور فائدے کی امتیازی حیثیت: 61

11 ۔ لین دین میں خیر و صلاح کا لحاظ: 61

14 ۔ خلاف عقل امور سے مقابلہ: 62

15 ۔ خلاف ارادہ امور سے مقابلہ: 62

16 ۔ کام اور مشغلہ: 63

17 ۔ پیشے اور فن و ہنر کا مقدس ہونا: 63

18 ۔ استحصال کی ممانعت: 64

20 ۔ زندگی میں ترقی و توسیع: 65

21 ۔ رشوت: 65

22 ۔ ذخیرہ اندوزی: 65

23 ۔ آمدنی کا مصلحت کی بنیاد پر ہونا نہ کہ طلب و تقاضے کی بنیاد پر: 66

26 ۔ توحید: 70

27 ۔ واسطوں کی نفی: 71

28 ۔ اہل توحید کے ساتھ باہمی زندگی کا امکان: 72

29 ۔ مساوات: 72

انسان کی شناخت 74

1 ۔ فطری خود شناسی 81

2 ۔ فلسفی خود شناسی 83

3 ۔ دنیوی خود شناسی 84

4 ۔ طبقاتی خود شناسی 85

۱۰۹

5 ۔ قومی خود شناسی 86

6 ۔ انسانی خود شناسی 87

7 ۔ عارفانہ خود شناسی 95

8 ۔ پیغمبرانہ خود شناسی 101

۱۱۰