انسان قرآن کی نظرمیں

انسان قرآن کی نظرمیں0%

انسان قرآن کی نظرمیں مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 110

انسان قرآن کی نظرمیں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شھید مرتضی مطہری
زمرہ جات: صفحے: 110
مشاہدے: 44098
ڈاؤنلوڈ: 3706

تبصرے:

انسان قرآن کی نظرمیں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 110 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 44098 / ڈاؤنلوڈ: 3706
سائز سائز سائز
انسان قرآن کی نظرمیں

انسان قرآن کی نظرمیں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

انسان کی مختلف قوتیں

”قوت“ کسی تعریف کی محتاج نہیں ایسا عنصر جس سے کوئی اثر ظاہر ہو ”قوت“ کہلاتا ہے۔ دنیا کی ہر شے کسی ایک یا زیادہ خاصیتوں کی حامل ہوتی ہے اس لئے ہر شے میں چاہے جمادات ہوں یا نباتات حیوانات ہوں یا انسان ”قوت“ پائی جاتی ہے اور اگر ”قوت“ کے ساتھ ”فہم و ادراک“ اور خواہش بھی مل جائے تو وہ ”قدرت“ کہلاتی ہے۔

ایک اور فرق جو ”انسان اور حیوانات“ اور ”نباتات و جمادات“ کے درمیان پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ”انسان اور حیوانات“، ”نباتات و جمادات“ کے برعکس اپنی قوت اپنے میلان اور شوق یا خوف اور اس کے نتیجے میں ابھرنے والی خواہش کی بناء پر عمل میں لاتے ہیں مثلاً مقناطیس لوہے کو خودبخود یا ایک فطری جبر کے تحت اپنی طرف کھینچتا ہے لیکن نہ وہ اپنے اس عمل سے آگاہ ہے اور نہ ہی کوئی میلان اور شوق یا ڈر یا خوف اس امر کا متقاضی ہے کہ وہ لوہے کو اپنی طرف کھینچے یہی صورت آگ کی ہے جو جلاتی ہے گھاس کی ہے جو زمین سے اگتی ہے اور درخت کی ہے جس سے شگوفے پھوٹتے ہیں اور پھل لگتے ہیں لیکن جب حیوان چلتا ہے تو اپنے عمل سے آگاہ ہوتا ہے اور اس کا ارادہ اس امر کا متقاضی ہوتا ہے کہ وہ چلے پھرے اور اگر اس کی خواہش نہ ہوتی تو وہ جبراً نہ چلتا اسی لئے کہا جاتا ہے کہ حیوان ایک باارادہ متحرک شے ہے یا بہ الفاظ دیگر حیوان کی بعض قوتیں اس کے ارادہ کی تابع ہیں یعنی اگر حیوان چاہے تو اس قوت کو عمل میں لائے اور نہ چاہے تو عمل میں نہ لائے۔

۲۱

خود انسان میں بھی اسی طرح سے بعض ایسی قوتیں موجود ہیں جو اس کے ارادے کی تابع ہیں البتہ اس فرق کے ساتھ کہ حیوان کی خواہش اس کے فطری میلان کا نتیجہ ہے اور اس میں اپنی خواہش کا مقابلہ کرنے کی قوت موجود نہیں ہے جونہی اس کا میلان کسی جانب ہوتا ہے تو وہ خود بخود ادھر چل پڑتا ہے نہ تو وہ اس میلان کے مقابلے کی قوت رکھتا ہے اور نہ وہ سوچ جس کے ذریعے جو وہ اپنے میلانات میں سے کسی ایک کو تدبر و تفکر کے بعد ترجیح دے سکے یا وہ عمل اختیار کر سکے جس کی جانب اس کا میلان ہے یا دوراندیشی جس کی متقاضی ہے۔

لیکن انسان ایسا نہیں ہے بلکہ وہ خود اس امر پر قادر ہے کہ اپنے میلانات کا مقابلہ کر سکے اور ان کے مطابق عمل نہ کرے اور یہ قوت اس کو ایک اور قوت سے حاصل ہوتی ہے جسے ارادہ کہتے ہیں۔ ارادہ ”عقل“ کے تابع ہے یعنی ”عقل“ کوئی کام مقرر کرتی ہے اور ”ارادہ“ اسے انجام دیتا ہے۔

مذکورہ مباحث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کے اندر دو پہلوؤں سے کچھ قوتیں پائی جاتی ہیں جو دیگر جانداروں میں موجود نہیں۔

ایک اس پہلو سے کہ انسان ایسے داخلی میلانات اور جذبات کا حامل ہے جو دوسرے جانداروں میں نہیں جن کی بدولت وہ اپنے کاموں کا دائرہ مادیات کی حدود سے بڑھا کر معنویات کے بلند افق تک پہنچا سکتا ہے لیکن دوسرے تمام جاندار مادیات کی حدود سے نہیں نکل سکتے۔

دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ ”عقل اور اراد“ کی قوتوں کا مالک ہے جن کی بدولت نہ صرف یہ کہ وہ اپنے میلانات کا مقابلہ کر سکتا ہے بلکہ وہ اپنے آپ کو ان کے جبری اثرات سے بھی نکال سکتا ہے اور اپنے تمام میلانات پر حاکم بھی ہو سکتا ہے اور انہیں کو اپنی عقل کے تابع رکھ کر ان کی حدود بھی مقرر کر سکتا ہے اور اس طرح وہ گراں بہا آزادی یعنی ”معنوی آزادی“ حاصل کر سکتا ہے۔

یہ صرف انسان ہی کا خاصہ ہے کہ وہ ایسی بڑی قوت کا مالک ہے جو نہ صرف یہ کہ کسی بھی حیوان میں نہیں پائی جاتی بلکہ انسان کو فرائض کی صحیح انجام دہی کے قابل بھی بناتی ہے اور اس کو جائز میلانات کے انتخاب کا حق عطا کرتی ہے اور جس کے ذریعے سے وہ ایک حقیقی طور پر آزاد اور صاحب اختیار انسان بن جاتا ہے۔

۲۲

میلانات اور جذبات انسان اور ایک بیرونی قوت کے درمیان ایک ایسی کشش اور پیوند کی مانند ہیں جو انسان کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور وہ جتنا ان میلانات کا تابع ہوتا جاتا ہے اپنے آپ کو کلی طور پر ان کے سپرد کرتا جاتا ہے چنانچہ اس پر سستی اور ذلت کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور وہ اپنی قسمت کو اس ”بیرونی قوت“ کے ہاتھ میں دے دیتا ہے جو اس کو ادھر سے ادھر کھینچتی پھرتی ہے لیکن اس کے برخلاف ”عقل اور ارادہ“ انسان کی ایسی داخلی قوتیں ہیں جو اس کی حقیقی شخصیت کی مظہر ہیں۔ انسان جب ”عقل اور ارادہ“ کی قوتوں پر تکیہ کرتا ہے تو نہ صرف یہ کہ ”بیرونی قوت“ کے اثرات سے محفوظ رہتا ہے بلکہ وہ اپنے آپ کو آزاد بااختیار اور مستحکم شخصیت بھی قرار دیتا ہے انسان عقل اور ارادے ہی کے ذریعے اپنی ذات کا مالک بن جاتا ہے۔

اسلامی تربیت کا اصل ہدف میلانات اور جذبات کے اثرات سے رہائی پانا اور خود اپنا حاکم بن کر اپنی ذات کا مالک بن جانا ہے اور ایسی تربیت کا مقصد ”معنوی آزادی“ ہے۔

۲۳

خود شناسی

اسلام نے اس بات پر خصوصی توجہ دی ہے کہ انسان اپنے آپ کو پہچانے اور اس عالم وجود میں اپنے مرتبہ کو سمجھے جس کا مقصد یہ ہے کہ وہ خود شناسی کے ذریعے اپنے آپ کو اس بلند مقام پر پہنچائے جس کا وہ اہل ہے۔

قرآن حکیم انسان ساز کتاب ہے یہ کسی ایسے نظری فلسفہ پر مشتمل نہیں ہے جس کا تعلق محض بحث و نظر اور منظر سے ہو یہ جس منظر کو بھی پیش کرتی ہے وہ عمل کے لئے ہوتا ہے۔ قرآن حکیم کا منشاء یہ ہے کہ انسان ”خود“ کو کشف کرے البتہ اس کے اس ”خود“ کا کشف ”شناختی کارڈ“ کا ”خود“ نہیں ہے جس میں لکھا ہوتا ہے:

”تیرا نام کیا ہے؟ تیرے باپ کا نام کیا ہے؟ تیرا سال پیدائش کیا ہے؟ تو کس ملک کی قومیت رکھتا ہے؟ تو کس علاقے کا باشندہ ہے؟ تو نے کس سے شادی کی ہے؟ اور تیرے کتنے بچے ہیں؟“

قرآن حکیم کا ”خود“ وہ ہے جو ”روح خدا“ کہلاتا ہے جسے پہچاننے کے بعد انسان اپنے اندر شرافت بزرگی اور بلندی محسوس کرتا ہے اور اپنے آپ کو اخلاقی پستی میں گرانے سے بچاتا ہے اپنے تقدس کو سمجھتا ہے اور اخلاقی اور معاشرتی پاکیزگی اس کے لئے بلند ”اقدار“ بن جاتی ہیں۔

قرآن حکیم انسان کے ایک برگزیدہ شخصیت ہونے کے بارے میں گفتگو کرتا ہے وہ یہ کہتا ہے کہ تو ایک ایسے اتفاقی حادثے کا نتیجہ نہیں ہے جو کسی امر کے واقع ہونے (مثلاً ایٹموں کے اتفاقی طور پر جمع ہو جانے) سے وجود میں آیا ہو بلکہ تو ایک برگزیدہ اور منتخب ہستی ہے۔ اسی بناء پر تو خدائی پیغام کا حامل اور اس کو دوسروں تک پہنچانے کا ذمہ دار ہے۔

بے شک انسان زمین پر قوی ترین مخلوق ہے اگر زمین اور اس کے موجودات کو ایک خطہ فرض کیا جائے تو انسان اس خطے کا امیر شمار کیا جائے گا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آیا وہ منتخب امیر ہے یا اس نے اپنی طاقت کے ذریعے اس مقام پر قبضہ کیا ہے؟

۲۴

مادی فلسفہ انسان کی قوت حاکمہ کو اس کی طاقت کا نتیجہ قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ انسان نے اتفاقی وجوہ کی بناء پر قوت حاصل کی ہے ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں انسان کے لئے خدائی پیغام کا حامل ہونے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی ذمہ داری بے معنی ہو جاتی ہے اور یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیسا پیغام اور کیسی ذمہ داری؟ کس کی طرف سے اور کس مقصد کے لئے؟ لیکن قرآن حکیم کی نظر میں انسان زمین کا ایک ایسا منتخب امیر ہے جو اپنی قابلیت اور صلاحیت کی بناء پر ذات خداوندی کی جانب سے منتخب ہوا ہے نہ کہ اپنی ذات طاقت اور زور کی بنیاد پر اور یہ کہ قرآن کی نظر میں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک برگزیدہ ہستی ہے جس کے لئے قرآن نے ”اصطفاً“ کا لفظ استعمال کیا ہے اسی لئے وہ ”پیغام“ اور ”ذمہ داری“ کا حامل ہے ”پیغام“ خدا کی طرف سے اور ”ذمہ داری“ اس کی بارگاہ میں یہ عقیدہ کہ انسان دنیا میں ایک منتخب ہستی ہے اور اس کے اس انتخاب کا ایک مقصد ہے انسان میں ایک خاص نوعیت کے نفسیاتی اور تربیتی آثار پیدا کرتا ہے اور اس کے برعکس اس اعتقاد کی بناء پر کہ وہ بے مقصد اتفاقات کے ایک سلسلے کا نتیجہ ہے اس میں ایک دوسری نوعیت کے نفسیاتی اور تربیتی آثار پیدا ہوتے ہیں۔

خود شناسی کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اس دنیا میں اپنا صحیح مقام سمجھے اور یہ جانے کہ وہ محض خاک کا پتلا نہیں ہے روح خدائی کا نور اس کے اندر موجود ہے اور وہ یہ جانے کے علم و دانش کے ذریعے وہ فرشتوں پر برتری حاصل کر سکتا ہے اور یہ کہ وہ آزاد اور خود مختار ہے اور اپنی ذات دوسروں اور دنیا کو آزاد کرنے اور اس کو بہتر بنانے کا ذمہ دار ہے۔

”اس نے تمہیں زمین سے بنایا اور تمہیں آباد کیا ہے۔“

( سورہ دہر آیت 61)

وہ یہ جان لے کہ وہ خدائی پیغام کا امین ہے اور یہ کہ اس نے برتری اتفاقی طور پر حاصل نہیں کی تاکہ استبداد کا مظاہرہ کرے اور ہر چیز کو صرف اپنی ذات کے لئے حاصل کرنے سے گریز کے علاوہ اپنے لئے کسی ذمہ داری اور فرض کا قائل نہ ہو۔

۲۵

انسانی صلاحیتوں کی تربیت

اسلامی تعلیمات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کے مقدس مکتب میں دوسری تمام ذی روح ہستیوں کے مقابلے میں انسان کی متفاوت قوتوں کی طرف خاص توجہ دی گئی ہے خواہ وہ جسمانی ہوں یا روحانی مادی ہوں یا معنوی انفرادی ہوں یا اجتماعی نہ صرف یہ کہ ان میں سے کسی ایک پہلو کو مجہول نہیں رکھا گیا بلکہ ان میں سے ہر ایک پر خاص توجہ دی گئی ہے۔

اب ہم ذیل میں ان امور کی طرف اجمالی اشارہ کرتے ہیں:

جسم کی پرورش

اگرچہ اسلام ”نفس پروری“ اور ”شہوت رانی“ کے قصد سے جسم کی پرورش کی سخت مذمت کرتا ہے لیکن ”تربیت بدن“ کو جس کا مقصد بدن کی صحت اور سلامتی کی حفاظت ہو واجبات میں سے قرار دیتا ہے اور ہر اس عمل کو جو بدن کے لئے ضرر رساں ہو حرام گردانتا ہے اگر کبھی ایک واجب کو (جیسے روزہ) بدن کے لئے ضرر رساں سمجھا جائے تو اس بناء پر اسلام نہ صرف یہ کہ انسان کو اس امر واجب کی ادائیگی سے بری قرار دیتا ہے بلکہ وہ ایسے روزے کو حرام سمجھتا ہے جس کی وجہ سے انسان کی ہلاکت کا اندیشہ ہو اس لئے ہر وہ نشہ جو بدن کو نقصان پہنچائے اسلام کے نزدیک حرام ہے اسلام میں بدن کی صحت اور سلامتی کے لئے بہت سے آداب اور طریقے وضع کئے گئے ہیں۔

ممکن ہے بعض لوگ ”تربیت بدن“ جس کا تعلق بدن کی صحت اور سلامتی سے ہے اور ”تن پروری“، بہ معنی ”نفس پروری“ اور ”شہوت رانی“ میں جس کا تعلق اخلاق سے ہے فرق نہ سمجھیں اور یہ خیال کریں کہ اسلام جو ”تن پروری“ کے خلاف ہے بدن کی صحت اور سلامتی کے بھی خلاف ہے اس لئے بدن کی حفاظت کے سلسلے میں کسی قسم کی کوئی قید نہیں اور ہر ایسا کام جو سلامتی بدن کے لئے ضرر رساں ہو انجام دینا بھی اسلام کے نزدیک ایک اخلاقی مسئلہ ہے۔

۲۶

یہ ایک بڑی خطرناک غلطی ہے بدن کی قوت سلامتی اور حفظان صحت کہاں؟ اور منفی معنی میں تن پروری کہاں؟

تن پروری اور شہوت پرستی جن کی اسلام نے مذمت کی ہے جس طرح روح کی پرورش کے خلاف ہے اور روح کی بیماری کا سبب بنتی ہے اسی طرح بدن کی پرورش اور حفظان صحت کے بھی خلاف ہے اور بدن کی بیماری کا سبب بھی بنتی ہے اس لئے کہ تن پروری اور شہوت پرستی میدان عمل میں ایسے افراط کا سبب بنتی ہیں جو بدن کے اعضاء میں بنیادی خلل کا باعث بن جاتا ہے۔

روح کی پرورش

اسلام کے نزدیک عقل و فکر اور حصول آزادی فکر کی تربیت ایک پسندیدہ امر ہے اور ایسے امور جو آزادی فکر کے خلاف ہوں جیسے آبا و اجداد بڑے بوڑھوں اور اکثریت کے طور طریقوں کی اندھی تقلید وغیرہ۔ اسلام ان کے خلاف جہاد کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔ ارادوں میں تقویت نفس پر غلبہ اور میلانات نفسانی سے مکمل معنوی آزادی اسلام کی بہت ساری عبادات اور تعلیمات کی اساس اور بنیاد ہے۔ اسی طرح علم تلاش حقیقت حسن و جمال اور پرستش کے احساسات میں سے ہر ایک کی پرورش پر اسلام کی خصوصی توجہ ہے۔

۲۷

مستقبل کی تعمیر میں انسان کا کردار

دنیا کی جملہ موجودات ”جاندار“ اور ”بے جان“ میں منقسم ہوتی ہیں بے جان موجودات وہ ہیں جن کا اپنی تعمیر میں کوئی کردار نہیں وہ اپنی تعمیر یا تکمیل میں خود کوئی کردار ادا نہیں کر سکتیں جیسے آگ پانی خاک اور پتھر جو بے جان ہیں اور اپنی تعمیر و تکمیل میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے بلکہ یہ سب خارجی عوامل کے زیراثر وجود پاتے ہیں اور انہی بیرونی اثرات کے نتیجے میں ایک طرح کا کمال حاصل کرتے ہیں ان میں کوئی ایسی حرکت یا کوشش نظر نہیں آتی جس کا تعلق ان کی ذاتی تعمیر اور تکمیل سے ہو۔

لیکن ”جاندار“ موجودات مثلاً نباتات حیوانات اور انسانوں میں حرکت اور کوشش کا ایک ایسا سلسلہ مشاہدے میں آتا ہے جس کا تعلق انہیں قدرتی آفات سے بچانے اپنے اندر دوسرے مواد کو جذب کرنے اور اپنی نسل آگے بڑھانے سے ہے۔

نباتات میں فطری قوتوں کا ایک ایسا سلسلہ موجود ہے جو ان کے مستقبل کی تعمیر میں موثر ہے اور وہ قوتیں ان کے لئے زمین اور ہوا سے مواد حاصل کرتی ہیں ان میں ایسی قوتیں بھی ہیں جو اس حاصل شدہ مواد کے ذریعے اندر سے ان کی رشد کا باعث بنتی ہیں اور ان میں ایسی قوتیں بھی ہیں جو نسل کو آگے بڑھانے کے عمل کو ممکن بناتی ہیں۔

حیوانات میں ان تمام فطری قوتوں کے علاوہ جو نباتات میں پائی جاتی ہیں شعوری قوتیں جیسے (حواس خمسہ) اور بعض میلانات بھی موجود ہیں جن کا ذکر پہلے آ چکا ہے اور حیوانات جہاں مذکورہ قوتوں کے ذریعے اپنے آپ کو قدرتی آفات سے بچاتے ہیں وہاں اپنی ذات کی تکمیل اور اپنی صنف کی بقاء کے وسائل بھی فراہم کرتے ہیں-

۲۸

انسان میں وہ تمام فطری اور شعوری قوتیں موجود ہیں جو نباتات اور حیوانات میں موجود ہیں اور ان کے علاوہ میلانات کا ایک سلسلہ بھی موجود ہے جس کا ذکر پہلے آ چکا ہے ان کے علاوہ اس میں ”عقل اور ارادہ“ کی غیر معمولی قوتیں بھی موجود ہیں جن کے ذریعے اسے اپنے مستقبل کو خود انتخاب کرنے اور تعمیر کرنے میں مدد ملتی ہے۔

مذکورہ مباحث سے یہ واضح ہوا کہ

بعض موجودات اپنے مستقبل کی تعمیر میں کسی طرح کوئی کردار ادا نہیں کر سکتیں جیسے جمادات۔

بعض دوسری موجودات اپنے مستقبل کی تعمیر میں اپنا کردار ادا تو کرتی ہیں لیکن ان کا یہ کردار نہ علم و آگاہی کی بنیاد پر ہے اور نہ ہی آزادی کی اساس پر بلکہ فطرت ان کی داخلی قوتوں کو غیر شعوری طور پر بروئے کار لاتے ہوئے ان کی حفاظت ان کی بقاء اور ان کے مستقبل کی تعمیر کرتی ہے جیسے نباتات۔

بعض موجودات اپنے مستقبل کی تعمیر میں جو اہم کردار ادا کرتی ہیں وہ کردار آگاہی اور علم پرستی پر استوار ہونے کے باوجود آزادی کی بنیاد پر نہیں ہوتا یعنی وہ اپنی ذات اور اپنے ماحول سے ایک قسم کی آگاہی اور شعوری میلانات کی تاثیر سے مستقبل میں اپنی حفاظت کی کوششیں کرتی ہیں جیسے حیوانات۔

بعض انسان اپنے مستقبل کی تعمیر میں زیادہ متحرک زیادہ موثر اور زیادہ وسیع کردار ادا کرتے ہیں ان کا یہ کردار علم و شناخت اور آزادی کی بنیاد پر استوار ہوتا ہے یعنی انسان اپنی ذات اور اپنے ماحول سے بھی آگاہ ہوتا ہے اور اپنے ”عقل و ارادہ“ کی قوتوں کی مدد سے آزادانہ طور پر اپنی خواہش کے مطابق اپنے مستقبل کا انتخاب اور اس کی تعمیر کرتا ہے انسان کا دائرئہ کار حیوان کی نسبت بہت زیادہ وسیع ہوتا ہے جس کے حسب ذیل تین اسباب ہیں:

۲۹

1 ۔ وسعت دید اور آگاہی

انسان اپنے علم کی طاقت سے اپنی بینائی اور آگاہی کے دائرے کو مظاہر فطرت کی سطح سے بڑھا کر ان کی گہرائی تک پہنچنے کے بعد قوانین فطرت سے آگاہی حاصل کرتا ہے جس سے فطرت کو انسانی زندگی کے موافق بنانے میں اس کی استعداد بڑھتی ہے۔

2 ۔ خواہشات کی وسعت

اس کا ذکر ”انسان اور حیوان“ کے باب میں کیا جا چکا ہے۔

3 ۔ تعمیر نفس کی خصوصی صلاحیت

اپنی تعمیر کے سلسلے میں ایسی خصوصی صفات انسان میں پائی جاتی ہیں جو کسی اور جاندار میں نہیں پائی جاتیں اس لئے کوئی اور جاندار اس پہلو سے انسان کی مانند نہیں۔

اگرچہ بعض دوسری ذی روح ہستیوں کی تعمیر کسی حد تک کی جا سکتی ہے اور خاص تربیت سے ان میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے جیسا کہ نباتات اور حیوانات کی دنیا سے مشاہدہ کیا گیا ہے لیکن اول تو ان میں سے کوئی بھی خود اپنی تعمیر نہیں کر سکتی اور انسان ہی ان کی تعمیر کرتا ہے دوسرے یہ کہ انسان کی نسبت ان میں اثرپذیری بہت کم ہوتی ہے۔

۳۰

انسان اپنے خصائل اور عادات کے اعتبار سے خاص استعداد کا حامل ہے یعنی آغاز پیدائش میں اس میں کوئی خصلت اور عادت موجود نہیں ہوتی اس کے برعکس ہر حیوان خاص خصائل اور عادت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے لیکن انسان آہستہ آہستہ خصائل اور عادات قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اسی لئے اس میں فطری جہتوں کے علاوہ ثانوی نوعیت کی صفات بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ وہ تنہا ایسی ہستی ہے جس کے ہاتھ میں قانون قدرت نے اپنا نقشہ کھینچنے کا قلم خود تھما دیا ہے تاکہ جیسے وہ چاہے اپنی تصویر بنائے یعنی اس کے جسمانی اعضاء کے برعکس جو رحم مادر ہی میں مکمل ہو جاتے ہیں۔ انسان کے نفسیاتی اجزاء جو خصائل عادات اور اخلاقی صفات کہلاتے ہیں زیادہ وسیع پیمانے پر پیدائش کے بعد ہی ظہور میں آتے ہیں۔

جب کہ اگرچہ دیگر جاندار حتیٰ کہ حیوانات بھی پیدائش سے قبل ہی اپنے خصائل اور عادات کے اعتبار سے مکمل کر دیئے جاتے ہیں لیکن صرف انسان ہی ایک ایسی ہستی ہے جو مذکورہ صفات کے اعتبار سے اپنی تعمیر اپنی خواہشات کے مطابق کرتا ہے اور یہی سبب ہے کہ حیوانات کی ہر جنس کے جسمانی اعضاء جس طرح ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں اسی طرح ان کے نفسیاتی اجزاء اور خصائل بھی ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں جیسے بلیوں کتوں یا چیونٹیوں میں سے ہر ایک اپنی اپنی جنس کے مشترک خصائل رکھتی ہیں۔ اگر ان میں سے کسی جنس کے باہمی خصائل اور عادات میں کوئی فرق ہے بھی تو وہ بہت کم ہے۔ لیکن انسانوں کے خصائل اور عادات میں بے انتہا فرق ہے اور اسی وجہ سے انسان ایسی ہستی ہے جو خود اپنے آپ کو انتخاب کرتی ہے کہ اسے کیا ہونا چاہئے؟

۳۱

اسلامی آثار میں آیا ہے کہ قیامت کے دن انسان اپنے اکتسابی روحانی خصائل کی بناء پر محشور ہوں گے نہ کہ اپنے ظاہری جسمانی اعضاء کے اعتبار سے یعنی انسان اکتسابی خصائل کے اعتبار سے جس قسم کے جاندار سے زیادہ مشابہت رکھتے ہوں گے اسی کی شکل اور اعضاء کے ساتھ محشور ہوں گے اور صرف وہ لوگ انسانی شکل و صورت میں محشور ہوں گے جن کے اکتسابی خصائل اور جن کی روحانی اور ثانوی صفات انسانی مرتبہ اور کمال سے ہم آہنگ ہوں گی یا بہ الفاظ دیگر جن کے اخلاق ”انسانی اخلاق“ ہوں گے۔

انسان اپنی علمی قوت سے فطرت پر غالب آتا ہے اور فطرت کو اپنی خواہش کے مطابق اپنی ضروریات سے ہم آہنگ کرتا ہے۔ وہ اپنی تعمیری قوت کے ذریعے اپنے آپ کو اپنی خواہش کے مطابق بناتا اور اس طرح اپنی قسمت اپنے ہاتھ میں لیتا ہے۔

تمام تربیتی ادارے اخلاقی مکاتب اور دینی اور مذہبی تعلیمات انسان کی رہنمائی کے لئے ہیں تاکہ اسے بتا سکیں کہ وہ اپنے مستقبل کو کیسے بنائے اور کیا بنائے؟ سیدھا راستہ تو وہ ہے جو انسان کو ایک باسعادت مستقبل تک پہنچائے جب کہ انحرافات اور گمراہی کا راستہ وہ ہے جو اس کو ایک تباہ کن اور شقاوت سے بھرپور مستقبل کی جانب لے جائے۔

خداوند تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایا ہے:

”ہم نے انسان (اس آزاد اور خود ساز وجود) کو راستہ دکھایا ہے تاکہ وہ خود جو چاہے انتخاب کرے (وہ دو راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے گا) یا وہ راستہ جو ہم نے دکھایا ہے اور ہمارا شکر ادا کرے گا یا دوسرا راستہ جو کہ ناشکری کا راستہ ہے۔“( سورہ دہر آیت 3)

۳۲

مذکورہ مباحث سے ہم نے جان لیا کہ ”علم“ اور ”ایمان“ میں سے ہر ایک انسان کے مستقبل کی تعمیر میں مختلف کردار ادا کرتا ہے۔ ”علم“ انسان کو تعمیر کا راستہ دکھاتا ہے وہ اس کو توانائی بخشتا ہے تاکہ وہ اپنے مستقبل کی تعمیر اپنی خواہش کے مطابق کرے لیکن ”ایمان“ انسان کو راستہ دکھاتا ہے کہ وہ اپنی اور اپنے مستقبل کی کس طرح تعمیر کرے کہ وہ اپنی ذات اور معاشرے کے لئے مفید ثابت ہو سکے۔ ”ایمان“ اس امر کی ممانعت کرتا ہے کہ انسان کے مستقبل کا محور صرف مادیات اور ذات پر مبنی ہو ”ایمان“ انسانی خواہشات کی سمت متعین کرتا ہے وہ انسان کو مادی امور پر انحصار کرنے سے بچاتا ہے اور معنوی امور کو اس کی خواہشات کا جزو قرار دیتا ہے۔

انسانی خواہشات میں علم کی حیثیت ایک ایسے اوزار کی سی ہے جو فطرت کو انسان کی خواہش کے مطابق بناتا ہے لیکن یہ کہ وہ فطرت کی تعمیر کس طرح کرے؟ آیا علم فطرت سے ایسی تخریبی چیزیں پیدا کرے جو ایک مخصوص طبقہ کی اجارہ داری میں معاون ہوں؟ اس کا ”علم“ کے اوزار سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ علم کا ہتھیار جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے وہ کیسے انسان ہیں (وہ جیسے ہوں گے علم کا ویسا استعمال کریں گے)؟

لیکن ایمان ”انسان پر حاکم قوت“ کا سا عمل کرتا ہے اسے جادئہ حق اور اخلاق کی طرف لے جاتا ہے۔ ”ایمان“ انسان کی تعمیر کرتا ہے اور انسان علم کی قوت سے دنیا کی تعمیر کرتا ہے۔ اگر ”علم اور ایمان“ باہم مل جائیں تو انسان اور دنیا دونوں سدھر جاتے ہیں۔

۳۳

آزادی کی حدود اور انسان کا ارادہ

ظاہر ہے کہ انسان اپنی تعمیر نفس اور اپنے فطری ماحول کو اپنی مطلوبہ صورت میں تبدیل کرنے اور اپنی خواہش کے مطابق اپنا مستقبل بنانے میں آزاد ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سی مجبوریوں سے دوچار ہوتا ہے اور اس کی آزادی بھی مشروط ہوتی ہے یعنی اس کی آزادی ایک دائرے میں محدود ہوتی ہے اس لئے انسان اس دائرے میں رہ کر اپنے مستقبل کا انتخاب کر سکتا ہے خواہ وہ سعادت مندی پر مبنی ہو یا شقاوت اور بدبختی پر۔

انسان ارادہ کے محدود ہونے کی وجوہات حسب ذیل ہیں:

1 ۔ وراثت

انسان انسانی فطرت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے چونکہ اس کے والدین انسان ہوتے ہیں لہٰذا وہ بھی مجبوراً انسانی فطرت لے کر انسان کی صورت میں دنیا میں آتا ہے اور اس کو اپنے والدین کی طرف سے بھی کچھ خصوصیات جبراً ورثے میں ملتی ہیں جو ان میں پائی جاتی ہیں جیسے جلد اور آنکھ کا رنگ اور ایسی جسمانی خصوصیات جو چند پشتوں سے اس کو ورثے میں ملیں لیکن انسان ان خصوصیات میں سے کوئی بھی خود انتخاب نہیں کرتا بلکہ وراثت نے جبراً اسے دیا ہوتا ہے۔

۳۴

2 ۔ جغرافیائی اور قدرتی ماحول

انسان کے جسم اور روح پر اس کے جغرافیائی اور قدرتی ماحول کا بہرحال ایک اثر مرتب ہوتا ہے سرد گرم معتدل کوہستانی اور صحرائی خطے انسان کے مزاج اور اخلاق پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

3 ۔ معاشرتی ماحول

انسان کی روحانی اور اخلاقی خصوصیات کے تکامل میں اس کے معاشرتی ماحول کا بھی ایک خاص کردار ہوتا ہے انسان کی زبان معاشرتی آداب دینی اور مذہبی آداب و رسوم وغیرہ وہ چیزیں ہیں جو اس کو اپنے معاشرتی ماحول سے ملتی ہیں۔

4 ۔ تار اور عصری عوامل

انسان سماجی اعتبار سے صرف زمانہ حال سے اثر نہیں لیتا بلکہ زمانہ ماضی کے واقعات اور حادثات اس کی تعمیر میں موثر کردار ادا کرتے ہیں ہر چیز کے ماضی اور مستقبل میں ایک یقینی رابطہ ہوتا ہے ماضی اور مستقبل ان دو نقطوں کی مانند نہیں ہیں جو ایک دوسرے سے الگ ہوں بلکہ وہ وقت کے ایسے دو دھارے ہیں جو ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہمیشہ سے رواں دواں ہیں۔ گویا ماضی اس بیج کی مانند ہے جس سے مستقبل پیدا ہوتا ہے۔

۳۵

5 ۔ حدود و قیود کے خلاف انسان کی بغاوت

انسان اگرچہ وراثت قدرتی ماحول معاشرتی ماحول اور تاریخ سے پوری طرح منقطع نہیں ہو سکتا لیکن وہ بڑی حد تک ان سے بغاوت کر کے اپنے آپ کو ان کی قید سے آزاد کر سکتا ہے۔ وہ اپنے علم عقل ارادہ اور ایمان کی قوتوں سے ان حالات میں تبدیلی پیدا کر کے ان کو اپنی خواہشات کے مطابق بنا سکتا اور خود قسمت کا مالک بن سکتا ہے۔

انسان اور قضا و قدر

بالعموم یہ خیال کیا جاتا ہے کہ انسان کی آزادی میں حد بندی کا اصل سبب ”قضا و قدر“ ہے لیکن ہم نے اس کے برعکس اس معاملے میں قضا و قدر کا نام نہیں لیا کیوں؟ کیا اس لئے کہ ”قضا و قدر“ موجود نہیں؟ یا یہ کہ وہ انسانی آزادی کی حد بندی کا سبب نہیں؟

”قضا و قدر“ ایک قطعی اور مسلم امر ہے لیکن آزادی انسان کو محدود کرنے کا سبب نہیں ”قضا“ واقعات اور حادثات کے بارے میں خدا کے اٹل حکم کا نام ہے اور ”قدر“ ان کی مقدار کے اندازے کا نام۔

۳۶

الٰہی علوم کے نقطہ نظر سے یہ امر مسلم ہے کہ قضائے الٰہی کسی بھی حادثے سے براہ راست یا بلاوسطہ کوئی تعلق نہیں رکھتی بلکہ وہ ہر حادثے کا وقوع اس کے اپنے اسباب اور علل کی بناء پر قرار دیتی ہے قضائے الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ عالم کا نظام ”اسباب اور مسببات“ کا نظام ہو انسان جتنی آزادی ”عقل اور ارادہ“ کی مدد سے حاصل کرتا ہے اور اس آزادی کی جو حد بندی اس پر وراثت ماحول اور تاریخ کی وجہ سے عائد ہوتی ہے وہ محض قضائے الٰہی اور دنیا کے اسباب و مسببات کے مذکورہ نظام کی وجہ سے ہے۔

اس لئے خود قضائے الٰہی آزادی انسان کی محدودیت کا سبب نہیں ہوتی بلکہ یہ وہی حدود و قیود ہیں جو انسان پر ورثے ماحول اور تاریخ کی جانب سے عائد ہوتی ہیں نہ کوئی اور اسی طرح وہ آزادی جو انسان کو نصیب ہوتی ہے وہ بھی قضائے الٰہی سے اسے ملتی ہے وہ یوں کہ قضائے الٰہی ہی کا تقاضا ہے کہ انسان عقل اور ارادے کا مالک ہو اور طبیعی اور اجتماعی حالات کے محدود دائرے میں رہتے ہوئے بھی وسیع پیمانے پر ان حالات کی قید سے آزادی حاصل کر لے اور اپنی قسمت اور مستقبل کی تعمیر کا کام اپنے ہاتھ میں لے۔“

بقول حکیم الامت علامہ محمد اقبال :

صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گل بھی ہے

انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے

نہیں یہ شان خودداری چمن سے توڑ کر تجھ کو

کوئی دستار میں رکھ لے کوئی زیب گلو کر لے

۳۷

انسان اور فرائض

انسان میں ان صلاحیتوں کے علاوہ جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے قبولیت فرض کی صلاحیت بھی موجود ہے انسان ان قوانین کی حدود کے اندر رہ کر اپنی زندگی بسر کر سکتا ہے جو اس کے لئے وضع کئے گئے ہوں۔

انسان کے علاوہ کوئی دوسری مخلوق فطرت کے جبری قوانین کے علاوہ کسی دوسرے قانون کی پابند نہیں ہو سکتی مثلاً پتھروں لکڑیوں درختوں پھلوں بھیڑ بکریوں اور گائے بیل کے لئے کوئی قانون وضع کر کے ان تک نہیں پہنچایا جا سکتا اور نہ انہیں پابند کیا جا سکتا ہے کہ وہ ان کے لئے وضع شدہ ”مصلحت“ پر مبنی قوانین پر عمل کریں اگر ان کی مصلحت اور حفاظت کے لئے کوئی اقدام کیا بھی جائے تو ان پر جبری طور پر نافذ کیا جا سکے گا۔

لیکن یہ صرف انسان ہے جو اس عجیب امر کی صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ وضع کئے گئے قوانین کے مطابق عمل کرے چونکہ یہ قوانین ایک باصلاحیت ہستی ہی کی جانب سے وضع ہو کر انسان پر لاگو کئے جاتے ہیں اور یہ کہ ان کی پابندی تکلیف اور مشقت سے خالی نہیں ہوتی اس لئے اسے ”فرض“ کہا جاتا ہے۔ قانون ساز کے لئے انسان کو کسی خاص فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار بناتے وقت چند شرائط کا لحاظ کرنا ضروری ہوتا ہے بہ الفاظ دیگر انسان میں جب چند شرائط موجود ہوں تو تبھی وہ کسی فرض کی ادائیگی کی ذمہ داری قبول کر سکتا ہے کسی فرض کے عائد ہونے کی شرائط درج ذیل ہیں:

۳۸

1 ۔ بلوغت

انسان جب اپنی عمر کی ایک منزل پر پہنچتا ہے تو اس کے اعضاء احساسات اور اس کی سوچ میں چند ناگہانی تبدیلیاں نمودار ہو جاتی ہیں جو ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف جست لگانے سے مشابہت رکھتی ہیں اسی کو ”بلوغت“ کہتے ہیں۔

ہر شخص ایک بلوغت کو پہنچتا ہے بلوغت کے سلسلے میں عمر کی کوئی خاص منزل تمام افراد کے لئے مقرر نہیں کی جا سکی ممکن ہے بعض لوگ دوسروں کی نسبت جلدی بلوغت کو پہنچ جائیں اس لئے کہ انفرادی یا کسی خاص خطہ زمین یا ماحول کی خصوصیات انسان کے جلد یا بدیر طبیعی طور پر بالغ ہونے پر اثرانداز ہوتی ہیں۔

امر مسلم یہ ہے کہ مرد کے مقابلے میں عورت جلدی بالغ ہو جاتی ہے۔ قانونی نقطہ نظر سے لازم ہے کہ ایک مقررہ عمر لوگوں کی متوسط عمر ہوتی ہے یا ایسی عمر جو بلوغت کی کم سے کم عمر ہے۔ اسلامی فقہ کی شرائط سے قطع نظر شرائط رشد معین کی جائیں تاکہ سب لوگ ایک ضابطے کے پابند ہو جائیں۔

بنابرایں ممکن ہے بعض انسان طبیعی طور پر بالغ ہو چکے ہوں لیکن ابھی قانونی بلوغت کی عمر تک نہ پہنچے ہوں اسلام میں اکثر شیعہ علماء کے نقطہ نظر سے عمر کے لحاظ سے مرد کی قانونی بلوغت پندرہ قمری سال پورے ہونے اور سولہویں سال میں داخل ہونے پر مقرر کی گئی ہے اور عورت کی قانونی بلوغت نو قمری سال پورے ہونے اور دسویں سال میں داخل ہونے پر مقرر کی گئی ہے۔ قانونی بلوغت ادائیگی فرض کی ایک شرط ہے یعنی اگر کوئی شخص قانونی بلوغت کی عمر تک نہ پہنچا ہو تو وہ ادائیگی فرض کا ذمہ دار نہیں ہے مگر یہ کہ دلائل سے یہ ثابت ہو جائے کہ وہ قانونی بلوغت تک پہنچنے سے پہلے ہی طبیعی بلوغت کی عمر کو پہنچ گیا ہے۔

۳۹

2 ۔ عقل

ادائیگی فرض کی ایک اور شرط انسان کا عاقل ہونا ہے۔ ایک پاگل شخص جو عقل سے عاری ہے ادائیگی فرض کا پابند نہیں اور فرض اس سے ساقط ہے۔ ایک نابالغ لڑکا کسی طرح بھی ادائیگی فرض کا پابند نہیں اور بالغ ہونے کے بعد بھی وہ اس بات کا ذمہ دار نہیں ہے کہ جو فرض اس نے بلوغت سے قبل انجام دیا اس کی تلافی کرے۔ مثلاً ایک بالغ لڑکے کا یہ فرض نہیں کہ جو نمازیں اس نے بلوغت سے پہلے ادا نہیں کیں ان کی قضا کرے اس لئے کہ اس عمر میں وہ اس پر فرض نہیں تھیں بنابرایں اگر ایک پاگل شخص کچھ عرصے کے بعد عاقل ہو جائے تو وہ ان فرائض کی ادائیگی کا ذمہ دار نہیں جو اس نے پاگل پن کے عرصے میں ادا نہیں کئے تھے یعنی یہ کہ وہ اس عرصے کے روزے اور نمازیں قضا کرنے کا ذمہ دار نہیں۔

ہاں بعض فرائض ایسے ہیں جن کا تعلق بچے یا پاگل کی دولت اور مال سے ہوتا ہے اور بچہ یا پاگل اپنے بچپن یا پاگل پن کی حالت میں ان کی ادائیگی کا ذمہ دار نہیں ہے لیکن جب بچہ ”بالغ“ ہو جائے اور پاگل ”عاقل“ ہو جائے تو ان پر واجب ہے کہ وہ ان فرائض کو ادا کریں جیسے زکوٰة یا خمس جو اس بچے یا پاگل کے مال سے متعلق ہے اور اگر یہ فرائض ان کے شرعی ولی نے ادا نہ کئے ہوں تو ادائیگی کی منزل پر پہنچنے کے بعد وہ خود ادا کریں۔

۴۰