انسان قرآن کی نظرمیں

انسان قرآن کی نظرمیں0%

انسان قرآن کی نظرمیں مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 110

انسان قرآن کی نظرمیں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شھید مرتضی مطہری
زمرہ جات: صفحے: 110
مشاہدے: 44093
ڈاؤنلوڈ: 3706

تبصرے:

انسان قرآن کی نظرمیں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 110 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 44093 / ڈاؤنلوڈ: 3706
سائز سائز سائز
انسان قرآن کی نظرمیں

انسان قرآن کی نظرمیں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

کتاب :انسان قرآن کی نظرمیں

مصنف:شھید مرتضی مطہری

ماخذ: http://www.urduweb.org /

۲

انسان قرآن کی نظر میں :

فطرت کے مسئلے پر اسلامی نکتہ نگاہ سے تحقیق ایک الگ کتاب کی صورت میں ”فطرت“ کے نام سے چھپ چکی ہے۔ یہاں پر بس اتنا بیان کرنا ضروری ہے کہ اسلام کا تصور فطرت وہ نہیں جو ڈیکارٹ اور کانٹ وغیرہ کے نزدیک ہے کیوں کہ ان کے نزدیک انسان میں پیدائش کے وقت سے کچھ ادراکات رجحانات اور تماثلات بالفعل یا عملی طور پر موجود ہوتے ہیں اور فلاسفہ کی اصطلاح میں انسان بالفعل عقل اور ارادے کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح سے انسانی فطرت کے بارے میں ہم فطرت کے منکرین جیسے مارکسزم اور اگزیسٹینشلزم (فلسفہ وجودیت) کے نظریے کو بھی قبول نہیں کرتے جو یہ کہتے ہیں کہ انسان ہر چیز کو قبول کرنے کی صلاحیت لے کر پیدا ہوتا ہے اور اسے جو بھی کردار دیا جائے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا بالکل ایک سفید کاغذ کی طرح جس پر جو کچھ لکھا جائے مساوی ہے جب کہ ہمارے نزدیک انسان پیدائش کے وقت بالقوہ اور استعدادی صلاحیت کے تحت کچھ چیزوں کے لئے میلانات اور تحرکات لے کر پیدا ہوتا ہے اور ایک باطنی قوت خارجی عوامل کی مدد سے ان چیزوں کی طرف اس کی رہنمائی کرتی ہے۔ اگر اس کی بالقوہ صلاحیت تک متشکل ہو جائے تو وہ ایسی عملی شکل یا فعلیت تک پہنچ جاتا ہے جو اس کے لائق ہے اور انسانیت کہلاتی ہے اور اگر خارجی عوامل کے جبر سے اس پر مذکورہ فعلیت کے علاوہ کوئی اور فعلیت مسلط کر دی جائے تو وہ ایک مسخ شدہ ”ہستی“ میں بدل جاتا ہے اسی بناء پر انسان کے مسخ ہونے کا مسئلہ جس کی بات مارکسزم اور اگزیسٹینشلزم (فلسفہ وجودیت) کے پیروکار بھی کرتے ہیں صرف مکتب اسلام کے نظریے کے ذریعے ہی قابل حل ہے۔

اس مکتب کے نکتہ نگاہ سے پیدائش کے وقت انسان کی کمالات اور اقدار سے نسبت ناشپاتی کے ایک ننھے سے پودے اور ایک تناور درخت کی باہمی نسبت کی سی ہے کیوں کہ ایک باطنی قوت خارجی عوامل کی مدد سے اس ننھے پودے کو درخت میں تبدیل کر دیتی ہے۔ یہ نسبت لکڑی کے تختے اور کرسی کی سی نہیں جنہیں صرف بیرونی عوامل مختلف صورتوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔

۳

اسلامی تصور کائنات میں انسان

اسلامی تصور کائنات میں انسان کی ایک عجیب داستان سامنے آتی ہے اسلامی نکتہ نگاہ سے وہ صرف ایک راست قامت چلنے پھرنے اور بولنے والا انسان ہی نہیں قرآن حکیم کی نظر اس کی حقیقت اس سے کہیں زیادہ گہری اور پراسرار ہے کہ چند جملوں میں اس کی توصیف کی جا سکے۔ قرآن حکیم میں انسان کی توصیف بھی بیان کی گئی ہے اور مذمت بھی۔

قرآن کی عالی ترین تعریفیں بھی انسان کے بارے میں ہیں اور سخت ترین مذمت بھی۔ جہاں اسے زمین و آسمان اور فرشتوں سے برتر پیش کیا گیا ہے وہاں اسے جانوروں سے پست تر بھی دکھایا گیا ہے۔ قرآن کی نگاہ میں انسان میں یہ قوت ہے کہ وہ قوائے عالم کو مسخر کر سکتا ہے اور فرشتوں سے بھی کام لے سکتا ہے لیکن اس کے برعکس وہ اپنے برے اعمال کی پاداش میں اسفل السافلین میں بھی گر سکتا ہے ذیل میں انسان کی ان قابل تعریف صفات کا ذکر کیا جاتا ہے جو قرآن حکیم کی مختلف آیات میں انسانی اقدار کے طور پر ذکر ہوئی ہیں:

۴

انسانی اقدار۔

انسان زمین پر خدا کا خلیفہ ہے۔(یہاں قرآنی آیات کا مفہوم بیان کیا گیا ہے نہ کہ تفصیلی ترجمہ)

”اور جب تیرے رب نے انسان کو پیدا کرنا چاہا تو فرشتوں کو آگاہ کیا فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں اس کو پیدا کرے گا جو فساد کرے گا اور خون بہائے گا؟ اللہ نے فرمایا: بے شک مجھے وہ معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔“( سورہ بقرہ آیت 30)

”اور اسی خدا نے تم (انسانوں) کو زمین میں اپنا نائب بنایا ہے تاکہ تمہیں دیئے ہوئے سرمائے کے ذریعے تمہارا امتحان لیا جائے۔“

( سورہ انعام آیت 165)

2 ۔ انسان کی علمی استعداد دوسری تمام مخلوقات کی ممکنہ استعداد سے زیادہ ہے۔

”اور اللہ نے آدم کو سب چیزوں کے نام سکھا دیئے (اسے تمام حقائق سے آشنا فرمایا) پھر ”ملکوتی مخلوق“ فرشتوں سے کہا: مجھے ان کے نام بتاؤ کہ کیا ہیں؟ وہ بولے: ہم کو معلوم نہیں مگر جتنا کہ تو نے ہمیں خود سکھایا فرمایا: اے آدم تو ان کو ان چیزوں کے نام سکھا دے اور آگاہ کر پھر اس نے سب چیزوں کے نام سکھا دیئے اور آگاہ کر دیا تو اللہ نے فرشتوں سے فرمایا: کیا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی چیزوں کو خوب جانتا ہوں وہ بھی جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے اور وہ بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور چھپاتے ہو۔“( سورہ بقرہ آیت 31 تا 33)

3 ۔ انسان کی فطرت خدا کی آشنائی ہے اور وہ اپنی فطرت کی گہرائی میں خدا کو پہچانتا ہے اور اس کے وجود سے آگاہ ہے تمام شکوک و شبہات اور افکار انسانی فطرت سے انحراف اور بیماریاں ہیں۔

”ابھی آدم کے فرزند اپنے والدین کی پیٹھوں میں ہی تھے کہ خدا نے ان سے اپنے وجود کے بارے میں گواہی لی اور انہوں نے گواہی دی۔“( سورہ اعراف آیت 172)

۵

”تو اپنا چہرہ دین کی طرف رکھ وہی جو خدائی فطرت ہے اور اس نے سب لوگوں کو اسی پر پیدا کیا ہے۔“( سورہ روم آیت 43)

4 ۔ انسانی فطرت میں ان مادی عناصر کے علاوہ جو جمادات نباتات اور حیوانات میں ہیں ایک آسمانی اور روحانی عنصر بھی موجود ہے گویا انسان جسم اور روح (عالم مادہ اور عالم معنی) کا مرکب ہے۔

”اس نے جو چیز بنائی خوب بنائی انسان کی پیدائش گارے سے شروع کی پھر اس کی اولاد کو نچڑے ہوئے حقیر پانی سے قرار دیا پھر اس کو آرائش دی اور اس میں اپنی روح پھونکی۔“( سورہ حم 7 ۔ 9)

5 ۔ انسان کی پیدائش اتفاقی نہیں بلکہ ایک مقررہ طریقے پر ہوئی ہے اور وہ خدا کا برگزیدہ اور منتخب کیا ہوا ہے۔

”خدا نے آدم کو منتخب کیا پھر اس کی جانب متوجہ ہوا اور اس کو ہدایت کی۔“( سورہ طہٰ آیت 122)

6 ۔ انسان آزاد اور مستقل شخصیت کا مالک ہے۔ وہ خدا کا امانت دار اور اس کو دوسروں تک پہنچانے کا ذمہ دار ہے۔

اس سے یہ بھی چاہا گیا ہے کہ وہ اپنے کام اور کوششوں سے زمین کو آباد کرے اور سعادت و شقاوت کے راستوں میں سے ایک کو اپنی مرضی سے اختیار کرے۔

”اور ہم نے آسمانوں زمین اور پہاڑوں کو اپنی امانت دکھائی اسے کسی نے قبول نہ کیا کہ اٹھائے اور ڈر گئے جب کہ انسان نے اس کو اٹھا لیا بے شک یہ بڑا ظالم اور نادان ہے۔“( سورہ احزاب آیت 72)

”ہم نے انسان کو مرکب نطفے سے بنایا تاکہ اس کا امتحان لیں پھر ہم نے اس کو سننے والا اور دیکھنے والا کر دیا پھر ہم نے اس کو راستہ دکھایا اب یا وہ شکر کرنے والا ہے یا ناشکری کرنے والا یا وہ ہمارے دکھائے ہوئے سیدھے راستے پر چلے گا اور سعادت پائے گا یا کفران نعمت کرے گا اور منحرف ہو جائے گا۔“( سورہ دہر آیت 2 ۔ 3)

۶

7 ۔ انسان ذاتی شرافت اور کرامت کا مالک ہے۔

خدا نے انسان کو دیگر بہت سی مخلوقات پر برتری بخشی ہے لیکن وہ اپنی حقیقت کو خود اسی وقت پہچان سکتا ہے جب کہ وہ اپنی ذاتی شرافت کو سمجھ لے اور اپنے آپ کو پستی ذلت اور شہوانی خواہشات اور غلامی سے بالاتر سمجھے۔

”بے شک ہم نے اولاد آدم کو عزت دی اور ہم نے ان کو صحرا اور سمندر پر حاکم کر دیا اور ہم نے ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر برتری دی۔“( سورہ بنی اسرائیل آیت 70)

8 ۔ انسان باطنی اخلاق کا حامل ہے اور وہ اپنی فطری قوت سے ہر نیک و بد کو پہچان لیتا ہے۔

”اور قسم ہے نفس انسان کی اور اس کے اعتدال کی کہ اس کو (خدا نے) اچھی اور بری چیزوں کی پہچان دی۔“( سورہ شمس آیات 7 ۔ 9)

9 ۔ انسان کے لئے اطمینان قلب کے حصول کا واحد ذریعہ ”یاد خدا“ ہے اس کی خواہشات لامتناہی ہیں لیکن خواہشوں کے پورا ہو جانے کے بعد وہ ان چیزوں سے بے زار ہو جاتا ہے مگر یہ کہ وہ خدا کی لامتناہی ذات سے مل جائے۔

الا بذکر الله تطمئن القلوب

”بے شک اللہ کی یاد ہی سے دل چین پاتے ہیں۔“( سورہ رعد آیت 28)

”اے انسان تو اپنے رب تک پہنچنے میں بہت تکلیف اٹھاتاہے اور آخرکار تمہیں اس سے ملنا ہے۔“( سورہ انشقاق آیت 6)

۷

10 ۔ زمین کی تمام نعمتیں انسان کے لئے پیدا کی گئی ہیں۔

”وہی ہے جس نے سب جو کچھ زمین میں ہے تمہارے لئے پیدا کیا۔“( سورہ بقرہ آیت 29)

”اور مسخر کر دیا تمہارے لئے اپنی طرف سے سب جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو فکر کرتے ہیں۔“( سورہ جاثیہ آیت 13)

خدا نے انسان کو صرف اس لئے پیدا کیا کہ وہ دنیا میں صرف اپنے خدا کی عبادت اور اس کے احکام کی پابندی کرے پس اس کی ذمہ داری امر خدا کی اطاعت ہے۔

”اور ہم نے جن اور انسان کو نہیں پیدا کیا مگر اس لئے کہ وہ میری عبادت کریں۔“( سورہ حشر آیت 19)

12 ۔ انسان خدا کی عبادت اور اس کی یاد کے بغیر اپنے آپ کو نہیں پا سکتا اگر وہ خدا کو بھول جائے تو اپنے آپ کو بھی بھول جاتا ہے اور نہیں جانتا کہ وہ کون ہے اور کس لئے ہے؟ اور یہ کہ وہ کیا کرے؟ اسے کیا کرنا چاہئے؟ اور کہاں جانا چاہئے؟

”بے شک تم ان لوگوں میں سے ہو جو خدا کو بھول گئے۔ پھر خدا نے ان کے لئے ان کی جانی بھلا دیں۔“( سورہ حشر آیت 19)

13 ۔ انسان جونہی اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے اور اس کی روح کے چہرے سے جسم کا پردہ جو کہ روح کے چہرے کا حجاب ہے اٹھ جاتا ہے تو اس وقت اس پر ایسے بہت سے حقائق ظاہر ہوتے ہیں جو دنیا میں اس سے پوشیدہ رہتے ہیں:

”ہم نے تجھ پر سے پردہ ہٹا دیا تیری نظر آج تیز ہے۔“

( سورہ ق آیت 22)

۸

14 ۔ انسان دنیا میں ہمیشہ مادی مسائل کے حل کے لئے ہی کوششیں نہیں کرتا اور اس کو صرف مادی ضرورتیں ہی متحرک نہیں کرتیں بلکہ وہ بعض اوقات کسی بلند مقصد کے حصول کے لئے بھی اٹھتا ہے اور ممکن ہے کہ اس عمل سے اس کے ذہن میں سوائے رضائے خداوندی کے حصول کے اور کوئی مقصد نہ ہو۔

”اے نفس مطمئنہ تو اپنے رب کی طرف لوٹ جا تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔“( سورہ فجر آیات 27 ۔ 28)

”اللہ نے ایمان والے مردوں اور عورتوں کو باغوں کا وعدہ دیا ہے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور نفیس مکانوں کا بھی۔ لیکن اللہ کی رضامندی ان سب سے بڑی ہے یہی بڑی کامیابی ہے۔“( سورہ توبہ آیت 73)

اوپر جو کچھ کہا گیا ہے اس کی بجائے یہ کہا جا سکتا ہے کہ قرآن کی نظر میں:

”انسان خداوند تعالیٰ کی طرف سے منتخب شدہ ہستی ہے۔ وہ زمین پر اس کا خلیفہ اور جانشین ہے وہ روحانی اور مادی عناصر کا مرکب خدا آشنا فطرت کا مالک آزاد اور مختار پیغام خداوندی کا امین دنیا کا اور اپنا ذمہ دار فطرت زمین اور آسمان پر مسلط اور نیکی اور بدی کو سمجھنے والا ہے۔ اس کی زندگی کا آغاز کمزوری سے ہوتا ہے اور قوت اور کمال کی طرف بڑھتا ہے لیکن جب وہ حالت رشد و سن تمیز کو پہنچتا ہے تو اسے صرف اسی صورت میں سکون قلب ملتا ہے کہ وہ بارگاہ الٰہی میں حاضر ہو کر اس کی یاد میں مشغول ہو جائے اس کی علمی اور عملی استعداد لامحدود ہے۔ وہ ذاتی شرافت اور کرامت کا حامل ہے اس کی خواہشات پر کسی طرح کا مادی اور طبیعی رنگ نہیں چڑھتا اس کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ خدا کی دی ہوئی نعمتوں سے جائز فائدہ اٹھائے لیکن وہ اپنے خدا کے سامنے اپنے فرائض کی انجام دہی کا ذمہ دار بھی ہے۔“

۹

انسان قرآن کی نظر میں

منفی اقدار

قرآن کریم میں اسی انسان کی شدید مذمت اور ملامت بھی کی گئی ہے:

1 ۔ ”وہ بہت ظالم اور بہت نادان ہے۔“( سورہ احزاب آیت 72)

2 ۔ ”وہ خدا کے بارے میں بہت ناشکرا ہے۔“( سورہ حج آیت 66)

3 ۔ ”جب انسان اپنے آپ کو بے نیاز دیکھتا ہے تو سرکشی کرتا ہے۔“

( سورہ علق آیت 6 7)

4 ۔ ”انسان بڑا جلد باز ہے۔“( سورہ اسراء آیت 11)

5 ۔ ”جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہم کو لیٹے بیٹھے اور کھڑے کھڑے پکارنے لگتا ہے پھر جب اس کی وہ تکلیف اس سے دور کر دیتے ہیں تو پھر وہ اپنی پہلی حالت میں آ جاتا ہے گویا جو تکلیف اس کو پہنچی تھی اس کو دور کرنے کے لئے اس نے کبھی ہم کو پکارا ہی نہ تھا۔“( سورہ یونس آیت 12)

6 ۔ ”اور انسان بڑا تنگ دل ہے۔“( سورہ اسراء آیت 100)

7 ۔ ”انسان سب چیزوں سے زیادہ جھگڑالو ہے۔“(سورء کہف آیت 54)

8 ۔ ”وہ کم ہمت پیدا کیا گیا ہے۔“( سورہ معارج آیات 19 ۔ 21)

9 ۔ ”جب اس کو برائی پہنچے تو وہ مضطرب ہو جاتا ہے اور جب اس کو بھلائی پہنچے تو وہ بخل کرنے لگتا ہے۔“( سورہ معارج آیات 19 ۔ 21)

۱۰

حسین یا بدصورت

یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا انسان قرآن حکیم کی نظر میں بدصورت مخلوق بھی اور حسین مخلوق بھی ہے وہ بھی بہت حسین اور بہت بدصورت؟ کیا وہ دو طرح کی فطرتوں کا حامل ہے یعنی اس کی آدھی فطرت نور ہے اور آدھی ظلمت؟ اور ایسا کیوں ہے کہ قرآن حکیم اس کی بہت زیادہ تعریف بھی کرتا ہے اور بے انتہا مذمت بھی۔

حقیقت یہ ہے کہ انسان کی تعریف اور مذمت اس سبب سے نہیں کہ وہ دو فطرتوں کا حامل ہے گویا اس کی ایک فطرت قابل تعریف اور دوسری قابل مذمت۔ قرآن حکیم کا نقطہ نظر یہ ہے کہ انسان اپنی استعدادی قوت کی بناء پر تمام کمالات کا حامل ہے اور اس کا لازم ہے کہ وہ ان کمالات کو قوت سے فعل میں لائے اور یہ خود انسان ہی ہے جو اپنی ذات کا معمار ہے۔

انسان کے ان کمالات تک پہنچنے کی اصل شرط ”ایمان“ ہے۔ ”ایمان“ ہی سے اس میں تقویٰ نیک عمل اور راہ خدا میں کوشش کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے ”ایمان“ ہی کے ذریعے سے علم نفس امارہ کے ہاتھ میں ناجائز ہتھیار کی صورت سے نکل کر مفید ہتھیار کی صورت اختیار کرتا ہے۔

پس حقیقی انسان جو کہ ”خلیفة اللہ“ ہے مسجود ملائک ہے دنیا کی ہر چیز اسی کے لئے ہے اور وہ تمام انسانی کمالات کا حامل ہے وہ ”انسان باایمان“ ہے نہ کہ ”انسان بے ایمان“ اور ناقص ہے۔ ایسا انسان حریص اور خونریز ہے وہ بخیل اور خسیس ہے وہ کافر ہے اور حیوان سے پست تر۔

۱۱

قرآن حکیم میں ایسی بھی آیات ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ وہ کون سا انسان ہے جس کی تعریف کی گئی ہے؟ اور وہ کون سا انسان ہے جس کی مذمت کی گئی ہے؟ ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ انسان جو خدا پر ایمان نہیں رکھتا انسان حقیقی نہیں ہے اگر انسان اس حقیقت یگانہ سے تعلق قائم کر لے جس کی یاد سے دل آرام پاتا ہے تو وہ کمالات کا حامل ہے اور اگر وہ اس حقیقت یگانہ یعنی خدا سے جدا ہو جاتا ہے تو وہ ایک ایسے درخت کی مانند ہے جو اپنی جڑوں سے جدا ہو چکا ہے۔

اس موضوع پر ہم ذیل میں آیات بطور نمونہ پیش کرتے ہیں:

والعصر ان الانسان لفی خسر الا الذین آمنوا و عملو الصالحات وتواصوا بالحق وتواصوا باالصبر

”قسم ہے زمانے کی! بے شک انسان خسارے میں ہے مگر جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے اور ایک دوسرے کو حق کی تاکید کرتے اور صبر و استقامت کی تاکید کرتے رہے۔“( سورہ عصر 1)

ولقد ذرانا لجهنم کثیرا من الجن والانس لهم قلوب لا یفقهون بهاولهم اعین لا یبصرون بها ولهم آذان لا یسمعون بها اولئک کالانعام بل هم اضل

”اور ہم نے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لئے پیدا کئے ان کا انجام جہنم ہے ان کے دل ہیں وہ ان سے سمجھتے نہیں اور آنکھیں ہیں وہ ان سے دیکھتے نہیں اور کان ہیں کہ وہ ان سے سنتے نہیں وہ ایسے ہیں جیسے چوپائے بلکہ وہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔“

( سورہ اعراف آیت 179)

۱۲

متعدد پہلوؤں کی حامل مخلوق

اوپر کی گفتگو سے واضح ہوا کہ انسان باوجود ان صفات کے جو اس میں اور دوسری تمام ذی روح مخلوقات میں مشترک ہیں ان سے بہت فاصلے پر بھی ہے انسان ایک مادی اور معنوی وجود کا نام ہے۔ ان تمام مشترکات کے باوجود جو انسان اور دیگر جانداروں میں موجود ہیں کچھ گہرے اور بنیادی فرق بھی ان کے مابین ہیں- جن میں سے ہر ایک اس کے ایک الگ پہلو کو بیان کرتا ہے اور اس کے وجود کی تشکیل میں الگ حیثیت کا حامل ہے۔ یہ فرق تین پہلوؤں پر مبنی ہے:

1 ۔ اپنا اور دنیا کا ادراک (خود شناسی اور جہان شناسی)

2 ۔ وہ جذبات جو انسان کا احاطہ کئے ہوئے ہیں۔

3 ۔ جذبات کے زیراثر آنے کے بعد ان میں سے کسی کا انتخاب۔

دنیا شناسی کے پہلو سے حیوانی حواس ایسا ذریعہ ہیں جن کے ذریعے وہ دنیا کو پہچانتا ہے اس اعتبار سے انسان دوسرے حیوانات کے ساتھ شریک ہے بلکہ بعض حیوانات کے حواس اس مسئلے میں انسان کے حواس سے زیادہ قوی ہیں لیکن وہ شناخت جو حیوان اور انسان کو بذریعہ حواس حاصل ہوتی ہے۔ سطحی اور ظاہری ہے اور اس کی مدد سے اشیاء کی ذات اور ماہیت کی گہرائی اور ان کے باہمی منطقی روابط معلوم نہیں ہو سکتے۔

البتہ انسان میں دنیا اور اپنی شناخت و ادراک کے سلسلے میں ایک ایسی پوشیدہ قوت بھی موجود ہے جو دوسرے حیوانات میں موجود نہیں اور وہ قوت شناخت ہے۔ جس کے ذریعے سے وہ دنیا کے کلی قوانین کو کشف کرتا ہے اور عالم کے کلی قوانین کی شناخت اور فطرت کے کلی قوانین کے کشف کرنے کے بعد اسی بنیاد پر فطرت پر غالب آتا ہے۔

۱۳

گذشتہ مباحث میں بھی ہم نے انسان کی اس قوت شناخت کا ذکر کیا اور کہا تھا کہ فکری شناخت کا ترکیبی نظام انسانی وجود کا پیچیدہ ترین نظام ہے اگر اس پر صحیح طرح سے غور و فکر کیا جائے تو انسان ہی کی شناخت کے سلسلے میں حیرت و تعجب کے دروازے کھلتے جاتے ہیں۔ انسان اس قسم کی قوت شناخت کے ذریعے سے ایسے بہت سے حقائق معلوم کر سکتا ہے جن کا علم حواس ظاہری کے ذریعے سے ممکن نہیں بلکہ ماورائے عالم کی شناخت خصوصاً خدا کی فلسفیانہ شناخت بھی انسان ہی سے مخصوص اس وقت شناخت کی مرہون منت ہے جب کہ جذبات کے لحاظ سے انسان بھی دوسری ذی روح موجودات کی مانند مادی اور فطری جذبات اور خواہشات سے متاثر ہوتا ہے جیسے غذا کی خواہش نیند جنسی تعلقات اور آرام و آسائش کی طلب وغیرہ۔ البتہ انسان کو اپنی طرف کھینچنے والے جذبات انہی پر منحصر نہیں بلکہ حجم اور وزن سے عاری ایسے غیر مادی یا معنوی جذبات بھی موجود ہیں جو انسان کو اپنی طرف کھینچتے ہیں معنوی جذبات کے وہ اصول جو آج تک شناخت کئے جا چکے ہیں اور جنہیں سب قبول کرتے ہیں۔ مندرجہ ذیل امور ہیں:

1 ۔ علم و دانائی:

انسان علم و دانائی کا طالب صرف اس لئے نہیں ہے کہ وہ اسے فطرت پر غلبہ دیتے ہیں اور اس کی مادی زندگی میں اس کو نفع پہنچاتے ہیں بلکہ اس کے اندر حقیقت اور تحقیق کی فطری جستجو موجود ہے علم بہتر زندگی بسر کرنے اور اپنے فرائض بہتر طریقے سے انجام دینے کا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ ذاتاً بھی انسان کو مطلوب ہے چنانچہ اگر اسے یہ معلوم ہو کہ ستاروں کے ماوراء بھی کوئی راز ہے جسے جاننا اور نہ جاننا اس کی زندگی پر اثرانداز نہیں ہوتا پھر بھی وہ اس راز کے جاننے کو ترجیح دیتا ہے۔ وہ فطری طور پر جہالت سے فرار چاہتا ہے اور حصول علم کی جانب بھاگتا ہے لہٰذا علم اور دانائی کا جذبہ وجود انسانی کے معنوی جذبوں میں سے ہے۔

۱۴

2 ۔ اخلاقی نیکی

انسان بعض ایسے کام انجام دیتا ہے جن سے اس کا مقصد نہ تو حصول منفعت ہے اور نہ دفع ضرر بلکہ وہ ایسے کام محض ان احساسات کے زیراثر انجام دیتا ہے جنہیں اخلاقی احساسات کہا جاتا ہے اس لئے وہ سمجھتا ہے کہ اس کا یہ فعل انسانیت کا تقاضا ہے۔ فرض کریں کہ ایک شخص سخت حالات میں ایک ایسے بیابان میں کھڑا ہے جہاں اس کے پاس غذا اور سامان سفر باقی نہیں رہا اور اسے ہر لمحے موت کا خطرہ درپیش ہے۔

اس اثناء میں اچانک وہاں ایک شخص پہنچتا ہے جو اس کی مدد کرتا ہے اور اس کو موت کے یقینی خطرے سے نجات دلاتا ہے پھر وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہیں اور ایک طویل عرصے تک ایک دوسرے سے نہیں ملتے چنانچہ کئی سال کے بعد جب وہ شخص جو مصیبت میں گرفتار تھا اپنے محسن کو ایک تکلیف میں مبتلا دیکھتا ہے اور اسے یاد آتا ہے کہ یہ وہی شخص ہے جس نے مجھے موت کے یقینی خطرے سے نجات دلائی تھی تو کیا اس موقع پر اس کا ضمیر اسے کچھ نہیں کہتا؟ کیا اس سے نہیں کہتا کہ نیکی کا بدلہ نیکی ہے؟ آیا یہ نہیں کہتا کہ محسن کا شکر واجب اور لازم ہے؟ جواب یقینا اثبات میں ہے لہٰذا اگر وہ شخص اپنے محسن کی مدد کرے تو دوسرے لوگ کیا کہیں گے؟ اسی طرح اگر وہ بے توجہی سے اپنے محسن کے پاس سے گذر جائے اور اس کی کوئی مدد نہ کرے تو دوسرے لوگ کیا کہیں گے؟

ظاہر ہے کہ پہلی صورت میں لوگ اس کی تعریف کریں گے اور دوسری صورت میں اس کی مذمت کریں گے۔ یہ جو انسانی ضمیر کہتا ہے کہ

هل جزاء الاحسان الا الاحسان

”نیک کا صلہ نیکی ہے۔“(الرحمن 40)

۱۵

لہٰذا نیکی کا بدلہ نیکی سے دینے والے کی تعریف کرنی چاہئے اور اس کے خلاف عمل کرنے والے کی مذمت ہونی چاہئے تو اس کا منبع انسان کا ”اخلاقی ضمیر“ ہے اور ایسے ہی اعمال کو ”اخلاقی نیکی“ کہا جاتا ہے۔

انسان کے بہت سے کاموں کا معیار یہی ”اخلاقی نیکی“ ہے اور دوسرے لفظوں میں انسان بہت سے کام اخلاقی قدروں کی وجہ سے کرتا ہے نہ کہ کسی مادی فائدے کی خاطر اور یہ بھی انسان کا خاصہ ہے جس کا تعلق اس کے معنوی پہلو سے ہے اور یہ اس کے معنوی پہلوؤں میں سے ایک ہے جب کہ دیگر جانداروں میں اس طرح کا کوئی معیار موجود نہیں حیوان کے لئے ”اخلاقی نیکی“ اور ”اخلاقی قدریں“ کوئی مفہوم اور معنی نہیں رکھتیں۔

3 ۔ حسن و جمال

انسان کے معنوی پہلوؤں میں سے ایک اور پہلو ”حسن و جمال“ سے اس کی محبت ہے انسان کی زندگی کا ایک اہم حصہ حسن و جمال سے تشکیل پاتا ہے وہ زندگی کے تمام شعبوں میں ”حسن و جمال“ کو اہمیت دیتا ہے چنانچہ جب وہ موسم سرما یا موسم گرما کا لباس پہنتا ہے تو اس کے رنگ کے حسن اور خوبی کو بھی اہمیت دیتا ہے جب رہنے کے لئے وہ اپنا مکان تعمیر کرتا ہے تو وہ اس کی خوبصورتی پر توجہ دیتا ہے یہاں تک کہ جب وہ دسترخوان بھی بچھاتا ہے تو کھانے کے برتنوں دسترخوان پر ان کے لگانے اور برتنوں میں کھانا ڈالنے میں بھی زیبائی کو مدنظر رکھتا ہے بلکہ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کا نام اس کا چہرہ اور اس کا لباس بھی خوبصورت ہو اور اس کی لکھائی بھی خوبصورت ہو اس کا شہر اور اس کی سڑکیں اور اس کے سامنے کے مناظر بھی حسین ہوں گویا وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کی زندگی کے ہر شعبے پر حسن اور خوبصورتی غالب ہو۔

البتہ حیوان کے لئے حسن و زیبائی کا کوئی مسئلہ نہیں اسے تو چراہ گاہ چاہئے چراہ گاہ خوبصورت ہو یا نہ ہو اس سے اس کا کوئی واسطہ نہیں اسی طرح اس کے نزدیک خوبصورت پالان خوبصورت طویلہ یا کسی منظر کی خوبصورتی کی کوئی اہمیت نہیں۔

۱۶

4 ۔ تقدیس اور عبادت

انسانی روح کی پائیدار اور قدیم ترین تجلیوں اور اصلی ترین پہلوؤں میں سے ایک دعا اور عبادت کا احساس ہے انسانی زندگی کے آثار کے مطالعہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جس دور میں اور جس مقام پر بھی بشر موجود تھا وہاں دعا اور عبادت کے آثار بھی موجود تھے البتہ اگر کہیں اختلاف ہے تو وہ صرف ”طریق عبادت“ اور ”معبود“ میں ہے۔ عبادت کی روش میں کہیں رقص و سرود اور ورد و اذکار کا ایک سلسلہ نظر آتا ہے تو کہیں خضوع اور خشوع کے بلند ترین مناظر اور حمد و ذکر کے رقت آمیز مظاہرے ”معبود“ کے لحاظ سے کہیں لکڑی اور پتھر کے بت نظر آتے ہیں تو کہیں زمان و مکان سے بالاتر ازلی و ابدی ذات خداوندی۔

پرستش کا تصور اللہ کے پیغمبر نہیں لائے بلکہ انہوں نے انسانوں کو صرف عبادت کی روش اور اس کے آداب سکھائے ہیں اور ان کو غیر خدا کی پرستش یعنی شرک سے منع کیا ہے۔

مسلم دینی نظریات اور بعض ماہرین علوم دینی(جیسے میکس مولر) کی آراء کے مطابق انسان ابتداء میں موحد تھا اور خدائے واحد کی پرستش کرتا تھا۔ بتوں چاند ستاروں یا انسانوں کی پرستش تو راہ راست سے انحراف کی وہ صورتیں ہیں جو بعد میں ظہور میں آئیں یعنی ایسا نہیں ہے کہ انسان نے عبادت کا آغاز بتوں یا انسانوں یا کسی دوسری مخلوق کی پرستش سے کیا ہو اور تدریجاً تمدن کے تکامل پانے کے ساتھ وہ خدائے واحد کی پرستش پر پہنچا ہو پرستش کا احساس جسے دینی احساس بھی کہا جاتا ہے۔ عام انسانوں میں خود بخود موجود ہوتا ہے۔

۱۷

ہم پہلے ”ایرک فرام“ سے نقل کر چکے ہیں کہ

”یہ ممکن ہے انسان دوسرے جانداروں یا درختوں یا سونے اور پتھر کے بتوں یا نادیدہ خداؤں یا کسی روحانی انسان یا شیطانی پیشوا کی پرستش کرے یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اجداد قوم طبقہ جماعت دولت اور کامیابی کی پرستش کرے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنے اعتقادات کو دینی سمجھتا ہو یا اس کے برعکس سمجھتا ہو کہ وہ کوئی دین نہیں رکھتا۔“

مسئلہ یہ نہیں ہے کہ وہ دین دار ہے یا بے دین؟ مسئلہ یہ ہے کہ وہ کس دین کا پابند ہے۔(کتاب ”جہانی از خود بیگانہ“، ص 100)

علامہ اقبال کے بقول ولیم جیمز کہتا ہے کہ

”دراصل دعا کو تحریک ہوتی ہے تو اس لئے کہ نفس انسانی کے کئی مراتب ہیں اور ان کی تہوں میں ایک نفس اجتماعی پوشیدہ ہے جسے اپنا سچا ہمدم (رفیق اعلیٰ) کسی مثالی دنیا ہی میں مل سکتا ہے لہٰذا کتنے انسان ہیں جو ہمیشہ نہیں تو اکثر اس ہمدم صادق کی تمنا اپنے سینوں میں لئے پھرتے ہیں اور جس کی بدولت ایک حقیر سا انسان بھی جسے بظاہر لوگوں نے دھتکار رکھا ہو محسوس کرتا ہے کہ اس کی ذات بھی عزت و مقام رکھتی ہے۔“(تشکیل جدیدالہیات اسلامیہ ص 105)

۱۸

ولیم جیمز نوع انسانی کے تمام افراد میں اس احساس کی موجودگی کو یوں بیان کرتا ہے کہ

”جہاں تک یہ احساس کہ ایک اعلیٰ و ارفع ہستی ہمارے اعمال و افعال کو دیکھ رہی ہے بعض لوگوں میں تو بے حد قوی ہو گا اور بعض میں خفیف گو بعض طبیعتوں کی ساخت ہی ایسی ہے کہ ان میں یہ احساس بہ نسبت دوسروں کے زیادہ شدت کے ساتھ جاگزیں ہو لہٰذا میں سمجھتا ہوں جتنا یہ احساس کسی دل میں قوی ہو گا اتنا ہی مذہب سے اسے زیادہ گہرا لگاؤ ہو گا لیکن پھر اس کے ساتھ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ جو لوگ اس کا انکار کرتے ہیں وہ اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں کیوں کہ تھوڑا ہو یا بہت یہ احساس ان میں بھی موجود ہوتا ہے۔“

(تشکیل جدیدالہیات اسلامیہ ص 135)

جب ایک ادیب اپنے افسانوں میں پہلوانوں عالموں اور دینی بزرگوں کو افسانوی ہیرو کی شکل میں پیش کرتا ہے تو اس کی وجہ انسان کی پاکیزگی کا احساس ہی ہوتی ہے وہ یہ چاہتا ہے کہ کوئی ایسی پاکیزہ اور قابل تعریف ہستی ہو جس کی وہ عاشقانہ انداز میں حد سے زیادہ تعریف کرے۔

دور حاضر میں کسی جماعت یا قوم کے بزرگوں کی مبالغہ آمیز تعریف کسی خاص جماعت مقصد طریقہ پرچم یا سرزمین سے عقیدت کا دعویٰ اور ان کے لئے جان قربان کرنے کا جذبہ بھی اسی احساس کا نتیجہ ہے۔

دعا کا احساس اس کمال برتر کی طرف ایک فطری احساس ہے جس میں کوئی کمی یا نقص نہ ہو اور ایسے جمال کی طرف جس میں بدصورتی نہ ہو___

کسی بھی مخلوق کی پرستش خواہ کسی بھی صورت میں کیوں نہ ہو اصلی راستے سے مذکورہ احساس کے بھٹک جانے کی ایک صورت ہے۔

۱۹

انسان عبادت کی حالت میں اپنی محدود قوت کے باوجود یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے مقام سے پرواز کر کے ایک ایسی حقیقی ہستی سے جا ملے جس میں کسی کمی نقص فنا اور محدودیت کی کوئی جھلک نہ ہو۔

دور حاضر کے دانشمند آئن سٹائن کے بقول:

”ایسی صورت میں انسان بچپن سے ہی انسانی اغراض و مقاصد کی پستی کو سمجھ لیتا ہے اور اسے اس بزرگی اور عظمت کا احساس ہوتا ہے جو مناظر فطرت و افکار کے ماوراء موجود ہوتی ہے۔“(دنیائی کہ من می بینم 56)

علامہ اقبال فرماتے ہیں:

”دعا ایک ایسا زندہ عمل ہے جس کے ذریعے ہماری چھوٹی شخصیت اپنی حیثیت کو زندگی کے ایک بڑے ”کل“ میں پا لیتی ہے۔“

(تشکیل جدیدالہیات اسلامیہ ص 138)

پرستش اور عبادت انسان میں ایک قوت اور ایک خواہش کی نشاندہی کرتی ہے اور مادی امور کی حدود سے نکل جانے اور ایک بلند اور وسیع افق سے مل جانے کو ممکن بنا دیتی ہے ایسی خواہش اور ایسا عشق انسان کا خاصہ ہے یہی وجہ ہے کہ پرستش اور دعا روح کا ایک اور معنوی پہلو ہے۔

لیکن پرکشش چیزوں سے متاثر ہونے اور ان میں سے کسی ایک کا انتخاب ایسا موضوع ہے جس کے بارے میں بعد میں گفتگو کی جائے گی۔

۲۰