تحریک استشراق کا پس منظر
اگرچہ لفظ استشراق نومولود ہے ، لیکن تحریک استشراق کا آغاز بہت پہلے ہو چکا تھا۔اہل مغرب کی اسلام دشمنی کی تاریخ کا آغاز حضرت محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر غار حرا میں پہلی وحی کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔ اہل مغرب سے یہاں ہماری مراد اہل کتاب یہود و نصاریٰ ہیں جو مشرکین بنی اسماعیل کے بعد اسلام کے دوسرے مخاطب تھے۔ یہود و نصاریٰ کی کتب اور صحائف میں آخری زمانے میں آنے والے ایک نبی کا ذکر بڑ ی صراحت اور واضح نشانیوں کے ساتھ موجود تھا۔عہد نامہ قدیم میں ہے :
’’میں ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور میں اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور وہ انھیں وہ سب کچھ بتائے گا جس کا میں اسے حکم دوں گا۔اگر کوئی شخص میرا کلام جسے وہ میرے نام سے کہے گا، نہ سنے گا تو میں خود اس سے حساب لوں گا۔‘‘[ ۲]
عیسائی علما اس آیت کا مصداق حضرت عیسیٰ کو قرار دیتے ہیں۔لیکن حضرت عیسیٰ کسی طرح بھی حضرت موسیٰ کی مانند نہیں تھے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی تخلیق، حیات مبارکہ اور وفات کے لحاظ سے حضرت موسیٰ سے مکمل طور پر مختلف تھے۔ صرف حضرت محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
ہی پیدائش، شادی، اولاد، وفات اور شریعت ، ہر طرح سے ان کے مماثل تھے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے :
واذقال عیسیٰ ابن مریم یٰبنی اسرائیل انی رسول الله الیکم مصدقا لما بین یدی من التورٰه و مبشرا برسول یاتی من بعد اسمه احمد فلما جاء هم بالبینٰت قالواهذا سحر مبین
۔ (الصف ۶۱:۶)
’’اور جب مریم کے بیٹے عیسیٰ نے کہا اے بنی اسرائیل میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی میں تمہیں خوش خبری سنانے والا ہوں جن کا نام احمد ہے۔پھر جب وہ ان کے پاس کھلی دلیلیں لائے تو یہ کہنے لگے ، یہ تو کھلا جادو ہے۔‘‘
اسی طرح انجیل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے منسوب الفاظ اس طرح سے ہیں :
’’اور میں باپ سے درخواست کروں گا اور وہ تمھیں ایک اور مددگار بخشے گا تاکہ وہ ہمیشہ تک تمہارے ساتھ رہے۔‘‘ (یوحنا ۱۴:۱۶ ۔)
اسی طرح انجیل یوحنا کے اگلے باب میں لکھا ہے :
’’جب وہ مددگار یعنی روح حق آئے گا جسے میں باپ کی طرف سے بھیجوں گا تو وہ میرے بارے میں گواہی دے گا۔(یوحنا ۱۵:۲۶ ۔)
انجیل کے یونانی نسخوں میں ’’مددگار‘‘ کے لیے لفظ " Paracletos " استعمال ہوا ہے ، جب کہ انگریزی نسخوں میں " Paracletos " کا ترجمہ " Comfortor " مددگار کر دیا گیا ہے۔جب کہ " Paracletos " کا صحیح ترین ترجمہ’’ A kind friend ۔ ‘‘ یا ’’رحمۃ للعالمین‘‘ ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر ہم قرآن کی روشنی میں دیکھیں تو یہ لفظ اصل میں " Paracletos " کے بجائے " Periclytos " ہے جس کا ترجمہ عربی زبان میں ’’احمد یا محمد‘‘ اور انگریزی میں " the praised one "ہے۔
قوم یہود کو نبی کریمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے انتہائی درجے کا حسد تھا۔ وہ اپنی کتابوں اور انبیاء بنی اسرائیل کی پیش گوئیوں کی روشنی میں ایک آنے والے نبی کے انتظار میں تھے۔ ان کو اس حد تک نبی کی آمد اور آمد کے مقام کا اندازہ تھا کہ انھوں نے مدینہ کو اپنا مرکز بنا لیا تھا اور عربوں کو اکثر یہ بات جتاتے تھے کہ ہمارا نبی آنے والا ہے اور ہم اس کے ساتھ مل کر عرب پر غلبہ حاصل کر لیں گے۔قرآن مجید نے اس بات کو اس طرح سے بیان کیا ہے :
و کانوا من قبل یستفتحون علی الذین کفروا فلما جاء هم ما عرفوا کفروا به
۔ (البقرہ ۲:۸۹)
’’اور پہلے ہمیشہ کافروں پر فتح کی دعائیں مانگا کرتے تھے ، تو وہ چیز جسے یہ خوب پہچانتے تھے ، جب ان کے پاس آ پہنچی تو انھوں نے اس کا انکار کر دیا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہودی اور عیسائی اپنی کتابوں میں بیان کردہ نشانیوں کے لحاظ سے حضرت محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو پورے یقین کے ساتھ بطور نبی جانتے اور پہچانتے تھے۔ ارشاد ہے :
الذین آتینٰهم الکتاب یعرفونه کما یعرفون ابناء هم وان فریقا منهم لیکتمون الحق و هم یعلمون
۔ (البقرۃ ۲:۱۴۶)
’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ ان (محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
) کو اس طرح سے پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں ، مگر ان میں سے ایک فریق سچی بات کو جانتے بوجھتے ہوئے چھپاتا رہتا ہے۔‘‘
بنی اسرائیل اپنے آپ کو اللہ کی پسندیدہ قوم سمجھتے تھے ، اور اس خوش گمانی میں مبتلا تھے کہ اپنی تمام تر نافرمانیوں کے باوجود وہ جنت میں جائیں گے اور یہ کہ وہ خدا کی چہیتی قوم ہیں۔ چنانچہ جب ان کی تمام تر خوش گمانیوں کے برعکس اللہ نے اپنے آخری نبیصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو بنی اسماعیل میں مبعوث کر دیا تو یہود نے فرشتہ جبرائیل کو اپنا دشمن قرار دے دیا کہ انھوں نے دانستہ، وحی بجائے یہود پر اتارنے کے ، بنی اسماعیل کے ایک فرد محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر نازل کر دی ہے۔چنانچہ اس جلن اور حسد کی وجہ سے انھوں نے آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا انکار کر دیا۔قرآن مجید نے ان کی اس حرکت کو اس طرح سے بیان کیا ہے :
قل من کان عدوا لجبریل فانه نزله علی قلبک باذن الله مصدقا لما بین یدیه و هدی و بشریٰ للمومنین
۔( البقرۃ ۲:۹۷)
’’کہ دو کہ جو شخص جبرائیل کا دشمن ہے ، تو اس نے (یہ کتاب) اللہ کے حکم سے تمہارے دل پر نازل کی ہے جو پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت و بشارت ہے۔‘‘
اس حسد اور جلن نے یہود اور عیسائیوں دونوں کو مسلمانوں کا دشمن بنا دیا۔ انھوں نے آنے والے نبی کے بارے میں اپنی کتابوں میں موجود پیش گوئیوں کو اپنی دانست میں گویا ہمیشہ کے لیے مٹا دیا۔ لیکن اس تحریف کے باوجود اللہ نے بہت ساری نشانیاں ان کی کتابوں میں باقی رہنے دیں اور قرآن مجید میں ، دو ٹوک انداز میں ان کی تحریف کا پول بھی کھول دیا۔
چنانچہ اس پس منظر کے باعث مغربی مفکرین ، بالعموم اسلام کے بارے میں منفی انداز فکر سے کام لیتے ہیں۔ اسلام کے تمام تعمیری کاموں کو نظر انداز کر کے صرف انھی پہلوؤں پر زور دیتے ہیں جن کے ذریعے سے وہ لوگوں میں اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلا سکیں۔ جب ہم استشراق اور مستشرقین کے بارے میں تحقیق کرتے ہیں تو لفظ ’’استشراق‘‘ میں تکلف کا جو مفہوم پایا جاتا ہے ، اس کی وضاحت زیادہ آسانی سے ہو جاتی ہے۔چنانچہ ہم اس کی تعریف اس طرح سے کریں گے کہ مغربی علماء و مفکرین جب اپنے مخصوص منفی مقاصد کے لیے اسلامی علوم و فنون کا مطالعہ کرتے ہیں ا ور اس سلسلے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دیتے ہیں تو اس عمل کو استشراق کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر احمد عبدالحمید غراب کے نزدیک استشراق کی تعریف اس طرح سے ہے :
الاستشراق: هو دراسات ’’اکادیمیة‘‘یقوم بهاغربیون کافرون من اهل الکتاب بوجه خاص، لاسلام والمسلمین، من شتی الجوانب:عقیدة وشریعة، وثقافة، وحضارة، وتاریخا، و نظما، وثروات و امکاناتهدف تشویة الاسلام
ومحاولة تشکیک المسلمین فیه، و تضلیلهم عنه وفرض التبعیةللغرب علیهم ومحاولة تبریر هذه التبعیة بدراسات و نظریات تدعی العلمیة والموضوعیة، تزعم التفوق العنصری والثقافی للغرب المسیحی علی الشرق الاسلامی ‘‘
(الاستشراق، ۱ ۔ڈاکٹر مازن بن صلاح مطبقانی، ، قسم الاستشراق کلیہ الدعوہ مدینہ، س ن، ص ۳ ۔)
’’استشراق، کفار اہل کتاب کی طرف سے ، اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے ، مختلف موضوعات مثلاً عقائد و شریعت، ثقافت، تہذیب، تاریخ، اور نظام حکومت سے متعلق کی گئی تحقیق اور مطالعات کا نام ہے جس کا مقصد اسلامی مشرق پر اپنی نسلی اور ثقافتی برتری کے زعم میں ، مسلمانوں پر اہل مغرب کا تسلط قائم قائم کرنے کے لیے ان کو اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات اور گمراہی میں مبتلا کرنا اور اسلام کو مسخ شدہ صورت میں پیش کرنا ہے۔‘‘
ہم یہ بات بلا خوفِ تردید کہ سکتے ہیں کہ استشراق صرف مشرقی لوگوں کی عادات، رسم و رواج ، زبانوں اور علوم کے مطالعے کا نام نہیں ہے ، اگر ایسا ہوتا تو یہودیت، عیسائیت اور دیگر تمام مشرقی مطالعات کو بھی استشراق کے ذیل میں رکھا جاتا۔بلکہ یہ اسلام اور اس کی تعلیمات کے خلاف ایک پوری تحریک ہے ، جس کا آغاز اسلام کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔مشرق ، اہل مغرب کے لیے ہمیشہ پر اسرار دنیا کی حیثیت اختیار کیے رہا ہے۔ اس کے بارے میں جاننے اور کھوجنے کی کوشش ہمیشہ سے کی جاتی رہی ہے۔ اہل مغرب کے سامنے مشرق کی پرکشش تصویر مغربی سیاح پیش کرتے تھے اور اپنے تجارتی اور سیاحتی سفروں کی کہانیاں بڑھا چڑھا کر بیان کرتے تھے۔مشرق کے بارے میں ان کے علم کا بڑ ا ذریعہ مختلف سیاح تھے۔ مثلاً، اطالوی سیاح مارکوپولو( Marco Polo ) ((۱۲۵۴-۱۳۲۴ ، لوڈو و یکو ڈی وارتھیما (۱۴۷۰-۱۵۱۷) ( Ludovico di Varthema )وغیرہ۔ان کے بارے میں کبھی کسی نے مستشر ق ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔
اگرچہ بعض مغربی مفکرین خلوص نیت سے اسلام کی تفہیم کے لیے مشرقیت اختیار کرتے ہیں اور اس سلسلے میں مفید تحقیق بھی کرتے ہیں۔ لیکن فی الحال ہمارے پیش نظر صرف وہ مغربی مفکرین ہیں ، جو اسلام کی مخالفت اور اسے بدنام کرنے کے لیے اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں۔
تحریک استشراق کا آغاز
ہم یہ بات گزشتہ صفحات میں بیان کر چکے ہیں کہ اس تحریک کا آغاز اسلام کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔ عیسائیوں اور یہودیوں نے اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے ہر حربہ آزمایا، لیکن ناکام رہے۔ نبیصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے ساتھ کیے گئے معاہدات کی خلاف ورزی کے نتیجے میں یہودیوں کو مدینہ سے نکال دیا گیا اور ان کی نسلی و علمی برتری کا نشہ ٹوٹ گیا۔ حضرت عمر ؓ کے دور حکومت کے اختتام تک ان لوگوں کو کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور نہ ہی اسلام کے شاندار اور تابندہ نظریات کے سامنے کوئی اور فکر یا نظریہ اپنا وجود برقرار رکھ سکا۔ بلکہ یہود و نصاریٰ کے مذہبی و روحانی مرکز بیت المقدس پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ظہور اسلام کے ایک سو سال مکمل ہونے سے پہلے ہی اسلام اپنے آپ کو دنیا میں ایک روشن خیال، علم دوست، شخصی آزادیوں کے ضامن ، عدل و انصاف، رواداری اور احترام انسانیت جیسی خوبیوں سے متصف، دین کے طور پر منوا چکا تھا۔یہ کامیابی یہود و نصاریٰ کو ہرگز گوارا نہ تھی۔اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہود و نصاریٰ کی ریشہ دوانیوں کا آغاز حیات نبویصلىاللهعليهوآلهوسلم
ہی میں ہو چکا تھا۔لیکن ان کار روائیوں کا عملاً کچھ زیادہ نقصان نہیں ہوا۔مدینہ میں عیسائی راہب ابو عامر نے منافقین کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے لیے مسجد ضرار تعمیر کرائی اور ساتھ ہی رومی سلطنت سے مسلمانوں کے خلاف مدد چاہی، لیکن اسے کوئی کامیابی نہ ہوئی۔اسی طرح موتہ اور تبوک کی جنگوں میں بھی مسلمان کامیاب رہے۔عہد خلافت راشدہ میں چونکہ نبی کریمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے تربیت یافتہ صحابہ کرامؓ کثیر تعداد میں موجود تھے اور پوری اسلامی سلطنت میں ان کے حلقۂ دروس پھیلے ہوئے تھے۔ مسلمان ذہنی اور علمی لحاظ سے یہود و نصاریٰ سے کہیں آگے تھے ، لہٰذا دشمنان دین کی سرگرمیاں زیادہ تر جنگ و جدل تک ہی محدود رہیں۔لیکن اس محاذپر بھی مسلمانوں کی برتری قائم رہی اور اسلامی ریاست کی حدود پھیلتی گئیں اور عیسائی و یہودی عوام اسلام کے سایہ عاطفت میں پناہ لیتے گئے۔یہاں تک کہ ان کے مذہبی مقامات بیت المقدس وغیرہ بھی مسلمانوں کے قبضے میں آ گئے۔خلافت راشدہ کے آخری دور میں صحابہ کرام کی تعداد کم ہو چکی تھی اور نئے غیر تربیت یافتہ لوگ دائرۂ اسلام میں داخل ہو چکے تھے ، جو ابھی تک اپنے سابقہ عقائد و رسوم کو پورے طور پر نہیں چھوڑ سکے تھے۔ عبداللہ بن سبا اور اس طرح کے لوگوں نے ان مسلمانوں میں غلط عقائد کو رواج دینا شروع کیا۔مسلمانوں کے باہمی اختلافات کو بھڑ کایا اور سادہ لوح لوگوں میں خلفاء و عمال کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلائیں اور غلط سلط احادیث اور قصے کہانیوں کو رواج دینا شروع کیا۔پہلا آدمی جس نے باقاعدہ طور پر اسلام کے خلاف تحریری جنگ شروع کی وہ جان آف دمشق (یوحنا دمشقی۶۷۶ [ L:۱۵۰] ۴ December ۷۴۹ )تھا۔اس نے اسلام کے خلاف دو کتب ’’محاورہ مع المسلم‘‘ اور ’’ارشادات النصاریٰ فی جدل المسلمین‘‘ لکھیں۔
کچھ لوگوں کی رائے یہ ہے کہ اس تحریک کا آغاز ۱۳۱۲ ء میں ہوا جب فینا میں کلیسا کی کانفرنس ہوئی ، جس میں یہ طے کیا گیا کہ یورپ کی جامعات میں عربی ، عبرانی اور سریانی زبان کی تدریس کے لیے ، پیرس اور یورپ کی طرز پر چیئرز قائم کی جائیں۔
بعض اہل علم کے نزدیک یہ تحریک دسویں صدی میں شروع ہوئی جب فرانسیسی پادری’’ جربرٹ ڈی اوریلیک‘‘( ۹۴۶ ء۔ ۱۰۰۳ ء ) ( Gerbert d'Aurillac )حصول علم کے لیے اندلس گیا اور وہاں کی جامعات سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ۹۹۹ ء سے ۱۰۰۳ ء تک پوپ سلویسٹرثانی( Silvester II ) کے نام سے پاپائے روم کے منصب پر فائز رہا۔اسی طرح بعض نے اس کا آغاز ۱۲۶۹ ء میں قرار دیا ہے جب قشتالیہ( Castile )کے شاہ الفانسو دہم( Alfonso X) ( ۱۲۲۱ ء۔ ۱۲۸۴ ء )نے ۱۲۶۹ ء میں مرسیا( Murcia ) میں اعلیٰ تعلیم کا ایک ادارہ قائم کیا اور مسلم ، عیسائی اور یہودی علماء کو تصفیف و تالیف اور ترجمے کا کام سونپا۔
اسی طرح بعض کے نزدیک اس تحریک کا بانی پطرس محترم( Peter the Venerable)( ۱۰۹۲ ء۔ ۱۱۵۶ ء) تھا، جو کلونی Cluny, France )) کا رہنے والا تھا۔اس نے اسلامی علوم کے تراجم کے لیے مختلف علماء پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جس میں مشہور انگریزی عالم رابرٹ آف کیٹن( Robert of Ketton)(۱۱۱۰ [L:۱۵۰] ۱۱۶۰ ) بھی تھا۔اس نے قرآن مجید کا پہلا لاطینی ترجمہ کیا، جس کا مقدمہ پطرس نے لکھا تھا۔
اہل مغرب نے اس بات کی اہمیت کو سمجھ لیا تھا کہ مسلمانوں پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے انھیں علمی میدان میں مسلمانوں کو شکست دینی ہو گی۔ اس کے لیے انھوں نے مختلف طریقے اختیار کیے۔ایک طرف اپنے اہل علم کو مسلمانوں کے علوم و فنون سیکھنے پر لگایا اور دوسری طرف مسلمانوں میں ، ان کے افکار کو دھندلانے کی کوشش کی۔ ۱۵۳۹ ء میں فرانس ، ۱۶۳۲ ء کیمبریج اور ۱۶۳۸ ء میں آکسفورڈ میں عربی و اسلامی علوم کی چیئرز قائم کی گئیں۔ ۱۶۷۱ ء میں فرانس کے شاہ لوئی چہاردہم( Louis XIV of France)(۱۶۳۸[L:۱۵۰]۱۷۱۵ ) تمام اسلامی ممالک سے اپنے کارندوں کے ذریعے سے مخطوطات اکٹھے کروائے اور اس سلسلے میں تمام ممالک میں موجود سفارت خانوں کو ہدایت کی کہ اپنے تمام افرادی اور مالی وسائل استعمال کریں۔