مستشرقین کے مقاصد و اہداف
۱ ۔ دینی اہداف
یہودی اور عیسائی جو کہ خود کو اللہ کی پسندیدہ قوم قرار دیتے تھے اور آنے والے نبی کے منتظر اور اس کے ساتھ مل کر ساری دنیا پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔لیکن جب اللہ نے ان کی نافرمانیوں اور بدکاریوں کے باعث فضیلت کے منصب سے محروم کر کے نبوت و رسالت کی ذمہ داری بنو اسماعیل کے ایک فرد محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر ڈال دی تو وہ حسد اور جلن کے باعث ہوش و حواس کھو بیٹھے اور باوجود آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو نبی کی حیثیت سے پہچان لینے کے ، آپ کی نبوت کا انکار کر دیا۔ اسلام چونکہ انتہائی سرعت سے عرب کے علاقے سے نکل کر دنیا کے ایک بڑ ے حصے پر چھا گیا تھا ، اس لیے یہود و نصاریٰ کو یہ خطرہ محسوس ہوا کہ اگر اسلام اسی رفتار سے پھیلتا گیا تو ایک دن ان کا دین بالکل ہی نہ ختم ہو جائے۔چنانچہ انھوں نے سوچا کہ ایک طرف اسلامی تعلیمات پر شکوک و شبہات کے پردے ڈالے جائیں اور اسے ناقص، ناکام، اور غیر الہامی فلسفہ قرار دیا جائے۔دوسری طرف یہودیوں اور عیسائیوں کو اسلام قبول کرنے سے روکا جائے اور تمام دنیا میں اپنے مذہب کا پرچار کیا جائے۔اس کا م کے لیے انھوں نے پادریوں کی تربیت کی اور مسلم ممالک سے اسلامی علوم کی کتب جمع کر کے ان میں سے ایسی کمزوریاں تلاش کرنے کی کوشش کی جس سے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کیا جا سکے۔انھوں نے نبی کریمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی ذات، ازواج، قرآن مجید، احکام، احادیث، سیرت صحابہ ہر چیز کو ہدف بنایا اور ان میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی۔مسلمانوں میں اتحاد اور اخوت کو ختم کر کے ان میں مختلف نسلی، لسانی اور علاقائی تعصبات کو ابھارنے کی کوشش کی۔
۲ ۔ علمی اہداف
اگرچہ مستشرقین میں کچھ منصف مزاج لوگ بھی موجود ہیں جو کبھی کبھار کوئی صحیح بات بھی منہ سے نکال لیتے ہیں ، لیکن چونکہ ان کی تربیت میں یہ بات داخل ہو چکی ہے کہ عیسائیت ہی صحیح دین ہے ، اس لیے وہ اسلامی تعلیمات کو ہمیشہ اپنے انداز سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔صدیوں پر محیط اسلام دشمن پروپیگنڈا کی وجہ سے مغربی عوام کے اذہان اسلام کے بارے میں کوئی صحیح بات آسانی سے قبول نہیں کرتے۔ ان کے علماء و فٖضلاء نے علمی تحریکوں اور تحقیق و جستجو کے نام پر صرف اسلام مخالف مواد ہیں جمع کیا ہے۔ یہودی اور عیسائی جو ہمیشہ ایک دوسرے کے دشمن رہے ہیں اور عیسائی یہود کو حضرت عیسیٰ کے قاتل کی حیثیت سے دیکھتے تھے ، لیکن مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے صدیو ں کی رقابت کو بھول کر باہم شیر و شکر ہو گئے۔یہ لوگ ہر وہ کام کرنے پر متفق ہو چکے ہیں جس سے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچایا جا سکے۔مختلف ادارے اور انجمنیں بنا کر مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے کے لیے ، سائنسی بنیادوں پر کا م کر رہے ہیں۔اسلام چھوڑ نے والوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا جا تا ہے ، مسلمان عورتوں میں آزادی اور بے پردگی کو فروغ دیا جاتا ہے۔غریب ممالک میں عیسائی تنظیمیں فلاحی کام کی آڑ میں عیسائیت کا پرچار کر رہی ہیں۔مسلمان ممالک کے پالیسی ساز اداروں پر اثر انداز ہو کر تعلیمی نصاب اور طریق تعلیم کو اپنی مرضی کے مطابق کرنے کی بھر پور کوشش کی جاتی ہے۔
۳ ۔اقتصادی و معاشی اہداف
استشراق کی اس تحریک کا آغاز اگرچہ اسلام کے بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کے لیے ہوا تھا، لیکن بعد میں اس کے مقاصد میں اضافہ ہوتا گیا۔اہل مغرب نے مسلم ممالک کی تکنیکی مہارت حاصل کرنے کے لیے اور اپنے معاشی مفادات ، اور تجارتی معاملات کو بہتر بنانے کے لیے بھی عربی زبان اور اسلامی تہذیب و ثقافت کا مطالعہ کیا۔مسلم ممالک میں اپنے اثر و نفوذ کو بڑھایا اور مقامی طور پر ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی کہ ان ممالک کے وسائل مکمل طور پر نہ سہی ، کسی حد تک اہل مغرب کے ہاتھوں میں چلے جائیں۔مشرق کو اہل مغرب سونے کی چڑ یا قرار دیتے تھے۔مغرب جب صنعتی دور میں داخل ہوا تو اس کی نظر مشرق میں موجود خام مال کے ذخیروں پر تھی۔اسی لیے تمام ممالک نے مختلف مشرقی ممالک میں اپنے اثر و نفوذ کو بڑھانے اور ان کو اپنی کالونیاں بنانے کی کوشش کی۔اس سلسلے میں ہر قسم کے غیر اخلاقی حربے استعمال کیے گئے اور آزادی ، انصاف اور رحم و مروت کے تمام اصولوں کو فراموش کر دیا گیا۔ایک انگریز ادیب ’’سڈنی لو‘‘ نے مغربی اقوام کے بارے میں اپنے ہم قوموں کا رویے کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے :
’’مغرب کی عیسائی حکومتیں کئی سالوں سے امم شرقیہ کے ساتھ جو سلوک کر رہی ہیں اس سلوک کی وجہ سے یہ حکومتیں چوروں کے اس گروہ کے ساتھ کتنی مشابہت رکھتی ہیں جو پرسکون آبادیوں میں داخل ہوتے ہیں ، ان آبادیوں کے کمزور مکینوں کو قتل کرتے ہیں اور ان کا مال و اسباب لوٹ کر لے جاتے ہیں۔کیا وجہ ہے کہ یہ حکومتیں ان قوموں کے حقوق پامال کر رہی ہیں جو آگے بڑھنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ اس ظلم کی وجہ کیا ہے جو ان کمزوروں کے خلاف روا رکھا جا رہا ہے۔کتوں جیسے اس لالچ کا جواز کیا ہے کہ ان قوموں کے پاس جو کچھ ہے وہ ان سے چھیننے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔یہ عیسائی قوتیں اپنے اس عمل سے اس دعویٰ کی تائید کر رہی ہیں کہ طاقت ور کو حق پہنچتا ہے کہ وہ کمزوروں کے حقوق غصب کرے۔‘‘
۴ ۔ سیاسی و استعماری اہداف
اتفاق سے جب یہود و نصاریٰ کی سازشوں اور مسلمانوں کی اپنی اندرونی کمزوریوں کے نتیجے میں مسلمان زوال کا شکار ہوئے تو اسی اثنا میں مغرب میں علمی و سائنسی ترقی کا آغاز ہو رہا تھا۔کچھ اسلام دشمن مفکرین اور مصنفین کی وجہ سے اور کچھ صلیبی جنگوں کے اثرات کے تحت اہل مغرب مسلمانوں کو اپنا سب سے بدترین دشمن گردانتے تھے۔ ان کی ساری جدوجہد اسلام کے روشن چہرے کو مسخ کرنے ، نبی کریمصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور صحابہ کرامؓ کی شخصیات کو ان کے مرتبے سے گرانے اور قرآن و حدیث میں شکوک و شبہات پیدا کرنے میں صرف ہو رہی تھی۔ مثال کے طور پر فلپ کے ہٹی( ۱۹۷۸۱۸۸۶)( Philip Khuri Hitti ) اپنے ہم مذہب لوگوں کے رویوں پر اس طرح سے تبصرہ کرتا ہے :
’’ قرون وسطیٰ کے عیسائیوں نے محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو غلط سمجھ اور انھیں ایک حقیر کردار خیال کیا۔ ان کے اس رویّے کے اسباب نظریاتی سے زیادہ معاشی اور سیاسی تھے۔نویں صدی عیسوی کے ایک وقائع نگار نے ایک جھوٹے نبی اور مکار کی حیثیت سے آپ کی جو تصویر کشی کی تھی بعد میں اسے جنس پرستی، آوارگی اور قزاقی کے شوخ رنگوں سے مزین کیا گیا۔پادریوں کے حلقوں میں محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
دشمن مسیح کے نام سے مشہور ہوئے۔‘‘
اسلام سے اس دشمنی اور مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے خوف نے یہود و نصاریٰ کو ایک ایسے نہ ختم ہونے والے خبط میں مبتلا کر دیا جو اسلام کے خاتمے کے بغیر ختم ہونے والا نہیں تھا۔انھوں نے ایک طرف تو مسلمانوں کو دینی اور اخلاقی لحاظ سے پست کرنے کی کوشش کی اور دوسری طرف ایسا منصوبہ بنایا کہ مسلمان دوبارہ کبھی اپنے پاؤں پر کھڑ ے نہ ہو سکیں۔اپنے سابقہ تجربات کی بنیاد پر ان لوگوں کو علم ہو گیا تھا کہ مسلمانوں کو جنگ و جدل کے ذریعے سے ختم کرنا ناممکن نہ سہی مشکل ضرور ہے۔ اس لیے انھوں نے اندھا دھند جنگی اقدام کے بجائے ، متبادل طریقوں سے مسلمانوں کو کمزور کرنے اور ان کے وسائل پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔طویل منصوبہ بندی کے ذریعے مسلمانوں کی قوت اور طاقت کی بنیادوں کو جان کر ان کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔علماء و محققین کے پردے میں مسلم ممالک میں اپنے تربیت یافتہ لوگوں کو بھیج کر مسلمانوں کی دینی حمیت، اتحاد و اخوت، جہاد، پردہ وغیرہ جیسی امتیازی اقدار کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ اس کے ساتھ ہی مختلف علاقائی ، نسلی اور مسلکی تعصبات کو ہو ا دینے کی کوشش کی۔پہلے مرحلے میں مسلمانوں کے مذہبی اور سیاسی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے بعد ، اپنے اثر و نفوذ میں اضافہ کر کے کمزور ممالک کو اپنی طفیلی ریاستوں کی صورت دے دی۔اس طرح ایک طرف تو مسلمان ہر لحاظ سے کمزور ہو گئے اور دوسری طرف ان کے تمام وسائل پر یہود و نصاریٰ کا قبضہ ہو گیا۔جرمن مفکر پاؤل شمٹ( Paul Schmidt ) نے اپنی کتاب میں تین چیزوں کو مسلمانوں کی شان و شوکت کا سبب قرار دیتے ہوئے ، ان پر قابو پانے اور ختم کرنے کی کوششوں پر زور دیا ہے :
’’ ۱ ۔ دین اسلام، اس کے عقائد، اس کا نظام اخلاق اور مختلف نسلوں ، رنگوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں رشتہ اخوت استوار کرنے کی صلاحیت۔
۲ ۔ ممالک اسلامیہ کے طبعی وسائل۔
۳ ۔مسلمانوں کی روز افزوں عددی قوت۔‘‘
چنانچہ ، مسلمانوں کی قوت و طاقت کی اصل بنیادوں کا ذکر کرنے کے بعد لکھتا ہے :
’’ اگر یہ تینوں قوتیں جمع ہو گئیں ، مسلمان عقیدے کی بنا پر بھائی بھائی بن گئے اور انھوں نے اپنے طبعی وسائل کو صحیح صحیح استعمال کرنا شروع کر دیا، تو اسلام ایک ایسی مہیب قوت بن کر ابھرے گا جس سے یورپ کی تباہی اور تمام دنیا کا اقتدار مسلمانوں کے ہاتھوں میں چلے جانے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔‘‘