علمی معیار کے اعتبار سے مستشرقین کی اقسام
عام طور پر معاشرے میں جو رجحان فروغ پائے ، لوگ بے سوچے سمجھے اسی طرف چل پڑ تے ہیں۔جن دنوں یورپ میں استشراق کی تحریک شروع ہوئی تو ہر شخص جو چار لفظ جانتا تھا، اپنے آپ کو نمایاں کرنے اور اپنی اہمیت ظاہر کرنے کے لیے علمی و تحقیقی کا م کرنے لگا۔اس طرح سے بہت سے مستشرقین ایسے بھی وجود میں آئے جن کا کوئی علمی و تحقیقی پس منظر نہیں تھا اور نہ ہی وہ علمی دنیا کی اخلاقیات سے واقف تھے۔ ایسے لوگوں نے اسلامی عقائد و نظریات اور شخصیات پر انتہائی بے بنیاد اور اخلاق سے گرے ہوئے الزامات بھی لگا دیے۔مولانا شبلی نعمانی نے اس طرح کے مستشرقین کو تین اقسام میں تقسیم کیا ہے :
۱ ۔ عربی زبان و ادب اور تاریخ اسلام سے ناواقف مستشرقین، جن کی معلومات براہ راست نہیں ہوتیں ، بلکہ وہ تراجم سے مدد لیتے ہیں۔
۲ ۔وہ مستشرقین جو عربی زبان اور تاریخ سے تو واقف ہوتے ہیں ، مگر مذہبی لٹریچر اور فنون مثلاً اسماء الرجال، روایت
اور درایت کے اصولوں ، قدیم ادب اور روایات سے واقف نہیں ہوتے۔
۳ ۔و ہ مستشرقین جو اسلامی علوم اور مذہبی لٹریچر کا مطالعہ کر چکے ہوتے ہیں ، لیکن اپنے مذہبی تعصبات کو دل سے نہیں نکال سکے۔ وہ اسلامی علوم کے بارے میں تعصب ، تنگ نظری اور کذب و افترا سے کا م لیتے ہیں۔
مستشرقین کے خصوصی اہداف
مستشرقین نے اپنے اپنے مقاصد اور اپنی ذہنی سطح کے مطابق اسلام پر ہر طرف سے وار کیے۔ جن لوگوں کے اندر کچھ اخلاقی اقدار کا پاس یا انصاف کی رمق موجود تھی ، انھوں نے اسلام کی بعض تعلیمات کو سراہا بھی، لیکن ان کے اسلام کے خلاف عناد اور دلی تعصب نے ہر مرحلے پر قبول حق سے روکے رکھا۔ ان میں سے بعض سلیم الفطرت مستشرقین ایسے بھی تھے جنہوں نے اسلام کی آفاقی تعلیمات کو فطرت کے قریب پایا اور اسے آسمانی ہدایت کے طور پر تسلیم کر کے اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کر گئے۔ مثلاً ڈبلیو ایچ کویلیم(شیخ عبداللہ)( William Henry Quilliam) (۱۸۵۶-۱۹۳۲ )، رسل ویب( Mohammed Alexander Russell Webb)( ۱۸۴۶ ء۔ ۱۹۱۶ ء)، مارٹن لنگز( Martin Lings )(ابوبکر سراج الدین) ( ۱۹۰۹ ء۔ ۲۰۰۵ ء)، علاء الدین شلبی، ناصرالدین الفونس اتیین( ۱۸۶۱ ء۔ ۱۹۳۰ ء) ، لارڈ ہیڈلے الفاروق(رحمت اللہ الفاروق) ( Rowland George Allanson Allanson-Winn )( ۱۸۵۵ [L:۱۵۰]۱۹۳۵ )، علامہ محمد اسد ( Sylvius Leopold Weiss)( ۱۹۰۰ ء۔ ۱۹۹۲ ء)، ڈاکٹر عمر رالف ایرنفلس( Dr. Baron Omar Rolf von Ehrenfels) ( ۱۹۰۱ ء۔ ۱۹۸۰ ء)، خالد شیلڈرک( Bertram William Sheldrake )، مریم جمیلہ( ۱۹۳۴ ء)( margaret marks ) وغیرہ۔
چنانچہ اول الذکر اقسام کے مستشرقین نے حضرت محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی ذات، نزول وحی، آپ کے خاندان، اہل بیت، صحابہ کرامؓ، قرآن مجید اور احکام قرآن، احادیث مبارکہ، تعدد ازواج، غلامی اور جہاد کو اپنی تیر اندازی کا ہدف بنایا۔ ہم بالترتیب ، مستشرقین کے اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں :
حضرت محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی ذات گرامی
آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
ہی دین اسلام کے تنہا ماخذ ہیں اور ہمیں دین اسلام آپ ہی کی وساطت سے قرآن و سنت ثابتہ کی صورت میں ملا ہے۔ اس لیے مستشرقین نے سب سے زیادہ حملے آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی ذات پر کیے ہیں تاکہ دین کی اصل بنیا د ہی پر شکوک و شبہات کے پردے ڈال دیے جائیں۔چونکہ عام طور پر لوگ کسی بھی مذہب کے پیشوا کی شخصیت سے متاثر ہو کر اس کی اتباع کرتے ہیں اس لیے ان لوگوں نے آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو اپنے گھٹیا حملوں کا شکار بنا لیا۔مستشرقین کے ذات قدسی پر حملوں کا ذکر کرنے سے پہلے ہم آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی سیرت کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہیں جس سے ہمیں یہ اندازہ ہو سکے گا کہ مستشرقین کس حد تک آپ کی ذات گرامی کے بارے میں انصاف سے کام لیتے ہیں۔ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی پیدائش ۵۷۱ ء میں مکہ مکرمہ میں ہوئی۔آپ نے پیدائش سے لے کر چالیس سال کی عمر تک سارا عرصہ اہل مکہ کے درمیان میں گزارا۔ اس دوران سوائے چند تجارتی اسفار کے آپ اپنے علاقے سے باہر تشریف نہیں لے گئے۔اللہ تعالیٰ نے آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے سلسلے میں چونکہ پہلے سے یہ طے کر رکھا تھا کہ نبوت و رسالت کا عظیم منصب آپ کے حوالے کیا جائے گا اس لیے آپ کی ذات گرامی کے حوالے سے چند باتوں کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔آپ کو عام رسمی تعلیم اور علم الکتابت وغیرہ سے ناواقف رکھا گیا۔اس کی غرض و غایت یہی تھی کہ جن لوگوں کے پاس آپ کو بھیجا جا رہا ہے ان کو یقین آ جائے کہ آپ اپنے پاس سے کچھ ایجاد نہیں کر رہے ، بلکہ یہ سب کچھ کسی اعلیٰ و ارفع ذات کی طرف سے بھیجا جا رہا ہے۔آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے مکہ میں جو زندگی گزاری وہ ایک عام انسان کی زندگی تھی ، جس میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جو غیر معمولی ہو۔آپ سے کبھی کوئی ایسا کارنامہ سرزد نہیں ہوا جس کی بنا پر آپ کو معاشرے میں خصوصی اہمیت حاصل ہو جائے۔نہ ہی آپ علم و ادب ، شاعری، خطابت وغیرہ کی دنیا کے آدمی تھے۔البتہ ، اللہ تعالی نے آپ کی ذات گرامی اعلیٰ اخلاق و کردار کا ایک ایسا نمونہ بنا یا تھا کہ پیدائش سے لے کر اعلان نبوت تک آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی زندگی پاکیزگی، سچائی ، امانت داری، احترام انسانیت ، حسن سلوک ، خدمت خلق اور حسن معاشرت کی ایک ایسی تابندہ مثال تھی ، جس کا اعتراف آپ کے تمام مخاطبین اور مخالفین نے کیا۔آپ کو صادق اور امین کا خطاب دیا گیا تھا۔نبوت کا منصب ملنے کے بعد کچھ عرصہ آپ نے خفیہ طور پر اپنے قریبی احباب کو اپنی ذمہ داری اور مقاصد سے آگاہ کیا۔ان کی طرف سے حمایت اور تعاون کے بعد اللہ نے آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو حکم دیا کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو اللہ سے ڈراؤ۔قرآن مجید میں ارشاد ہے :
و انذر عشیرتک الاقربین
۔(الشعراء ۲۶:۲۱۴)
’’اور اپنے قریبی عزیزوں کو(اپنے رب کے معاملے میں )ڈرا۔‘‘
آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اللہ کے حکم کی تعمیل میں کو ہ صفا پر چڑ ھ کر سب سے پہلے اپنی ذات کو قریش مکہ والوں کے سامنے پیش کیا ، تاکہ کسی کو اس امر میں کوئی شک نہ رہے کہ آپ کسی لالچ، فریب، بددیانتی، یا کسی دنیاوی مقصد کے زیر اثر یہ کام کر رہے ہیں۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت میں اس واقعے کی تفصیل اس طرح سے بیا ن ہوئی ہے :
عن ابن عباس رضی الله عنهما قال لما نزلت ’وانذر عشیرتک الاقربین‘ صعدالنبی صلىاللهعليهوآلهوسلم علی الصفا فجعل ینادی یا بنی فهر یابنی عدی لبطون قریش حتی اجتمعوا فجعل الرجل اذا لم یستطع ان یخرج ارسل رسولا لینظر ما هو فجاء ابو لهب و قریش فقال اَراَیْتَکُم لو اَخْبَرْتُکُمْ اَنَّ خَیْلاً بالوادی ترید ان تُغِیْرَ علیکم اکنتم مُصَدِّقِی قالوا نعم ما جَرَّبْنَا علیک الا صدقا قال فانی نذیر لکم بین یدی عذاب شدید فقال ابو لهب تبا لک سائر الیوم الهذا جَمَعْتَنَافنزلت: تبت یدا ابی لهب وتب ما اغنیٰ عنه ماله و ما کسب
۔(بخاری ، کتاب التفاسیر)
’’حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے ، آپ بیان کرتے ہیں کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی:’و انذرعشیرتک الاقربین‘(اے رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
اپنے رشتہ داروں کو ڈرائیں )تو رسول اللہصلىاللهعليهوآلهوسلم
کوہ صفا پر چڑھے اور بلند آواز سے پکارنے لگے۔اے بنی فہر ، اے بنی عدی، قریش کے تمام لوگوں کو بلایا۔جب لوگ آ گئے اور جو نہیں آ سکا اس نے اپنا نمائندہ بھیج دیا۔ ابو لہب اور قریش بھی آئے تھے۔آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں تم سے یہ کہوں کہ ایک بہت بڑ ا لشکر تمہارے اوپر حملہ کرنے کو تیار کھڑ ا ہے تو کیا تم میری بات کا یقین کر لو گے۔سب نے کہا ضرور کریں گے کیونکہ ہم نے آپ کی ساری باتیں سچی دیکھی ہیں۔تب آپ نے فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ اگر تم اپنے شرک و کفر سے بار نہ آئے تو تم پر بڑ ا بھاری عذاب آنے والا ہے۔ابو لہب بولا ، تو ہلاک ہو ، کیا تو نے ہمیں اسی لیے یہاں بلایا تھا۔چنانچہ اس وقت سورہ :’’ تبت یدا ابی لھب وتب ما اغنیٰ عنہ مالہ و ما کسب‘‘ نازل ہوئی۔‘‘
صاف ظاہر ہے کہ جو شخص کسی معاشرے میں پیدائش سے لے کر چالیس سال گزارے اور اس کے کردار میں ، اس کے دشمن اور مخالفین بھی کسی قسم کی معمولی خامی بھی بیان نہ کر سکیں۔تو عقلاً یہ بات محال نظر آتی ہے کہ ایسا سلیم الفطرت شخص اچانک عمر کے اس حصے میں کسی لالچ اور دنیاوی مفاد کے لیے جھوٹ، بناوٹ اور فریب سے کام لے۔اسی طرح اس سے آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی قبل از نبوت مکی زندگی اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ نبوت سے پہلے آپ کی ذات سے زبان و بیان کے معاملے میں بھی کوئی غیر معمولی چیز صادر نہیں ہوئی۔اس لیے جب قرآن مجید نازل ہوا تو جو لوگ آپ سے واقف تھے انھیں اس بات کا پورا یقین تھا کہ اس طرح کا کلام کوئی بڑ ے سے بڑ ا قادر الکلام عرب شاعر یا ادیب تخلیق نہیں کر سکا تو محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
کس طرح خود ایسا کلام کہہ سکتے ہیں۔اسی طرح اگر آپ نے دنیاوی لالچ میں یہ کا م کیا ہوتا تو کفار مکہ نے آپ کو عرب کی بادشاہی، مال و دولت اور بعض روایات کے مطابق عرب کی حسین ترین خاتون جو آپ کو پسند ہو، اس کے ساتھ شادی کی پیش کش کی تھی، کہ آپ اس کے بدلے میں بت پرستی پر اعتراضات کرنا بند کر دیں۔لیکن آپ نے ایسی ہر پیش کش رد کر دی۔ ابو الولید عتبہ بن ربیعہ مشرکین کی طرف سے آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے پاس گیا اور کہا:
’’بھتیجے یہ معاملہ جسے تم لے کر آئے ہو اگر اس تم یہ چاہتے ہو کہ مال حاصل کرہ تو ہم تمہارے لیے اتنا مال جمع کیے دیتے ہیں کہ تم ہم میں سب سے زیادہ مال دار ہو جاؤ، اور اگر تم یہ چاہتے ہو کہ اعزاز و مرتبہ حاصل کرو تو ہم تمھیں سردار بنا لیتے ہیں ، یہاں تک کہ تمہارے بغیر کسی معاملے کا فیصلہ نہ کریں گے۔اور اگر تم چاہتے ہو کہ بادشاہ بن جاؤ تو ہم تمھیں اپنا بادشاہ بنا لیتے ہیں۔اور اگر یہ جو تمہارے پاس آتا ہے کوئی جن بھوت ہے جسے تم دیکھتے ہو، لیکن اپنے آپ سے دفع نہیں کر سکتے تو ہم تمہارے لیے اس کا علاج تلاش کیے دیتے ہیں اور اس سلسلے میں ہم اپنا اتنا مال خرچ کرنے کو تیا رہیں کہ تم شفا یاب ہو جاؤ، کیونکہ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جن بھوت انسان پر غالب آ جاتا ہے اور اس کا علاج کروانا پڑ تا ہے۔
( ۱ ۔الرحیق المختوم، صفی الرحمن مبارک پوری، المکتبہ السلفیہ لاہور، (مترجم احمد شاکر)مئی ۲۰۰۰ ء ، ص ۱۵۳ ۔)
آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ایسی تمام پیش کشیں رد کر دیں اور اپنے مقصد کے ساتھ خلوص کے ساتھ وابستہ رہے اور بالا خر تمام عرب جو کسی واضح عقلی دلیل کی بنیاد پر نہیں ، بلکہ محض اس ہٹ دھرمی اور تعصب کی وجہ سے آپ کے خلاف تھے کہ جس راستے پر ان کے آباء و اجداد گام زن رہے ہیں اس کو کس طرح چھوڑ دیں ، وہ سب کے سب آپ کے حامی و مددگار اور جان نثار ساتھی بن گئے۔مستشرقین جب آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر اعتراض کرتے ہیں تو ان کی تاریخ سے عدم واقفیت اور تعصب کا بھرپور اظہار ہوتا ہے۔وہ تمام حقائق کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور ایسے اعتراض کرتے ہیں جو خود ان عربوں اور اس دور کے یہود و نصاریٰ نے بھی نہیں کیے جن کے درمیان آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حیات طیبہ کا ایک بڑ ا عرصہ بسر کیا تھا۔
چنانچہ اب ہم ان اعتراضات کا ترتیب سے جائزہ لیتے ہیں جو ، وقتاً فوقتاً، آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر کیے جاتے رہے ہیں :
۱ ۔نبوت سے انکار
مستشرقین آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی نبوت کا اسی طرح سے انکار کرتے ہیں جس طرح ان کے پیش رو یہود و نصاریٰ نے کیا تھا۔یہود نبوت و رسالت کو بنی اسماعیل میں جاتے ہوئے برداشت نہ کر سکے اور اپنی تمام تعلیمات اور کتب میں بے تحاشا تحریفات کر ڈالیں۔انھوں نے حضرت اسماعیل کے ذبیح ہونے کا انکار کیا اور کہا کہ ذبیح حضرت اسحق تھے۔ جبکہ دنیا کی معلوم تاریخ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب کبھی بھی کسی مذہب کے ماننے والوں نے اپنی اولاد کو اپنے مذہبی مقاصد کے لیے قربان یا وقف کرنے کا ارادہ کیا تو ہمیشہ اس مقصد کے لیے پہلوٹھی کا بچہ استعمال کیا۔ چونکہ حضرت اسماعیل عمر میں حضرت اسحٰق سے بڑ ے تھے اس لیے یہ بات بالبداہت ، واضح ہے کہ راہ خدا میں قربانی کی سعادت بھی انھی کے حصے میں آئی ہو گی۔ یہ روایات کہ کعبہ حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام نے تعمیر کیا تھا، اور عرب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں ، تاریخ عرب میں تسلیم شدہ تھیں۔ان پر نہ اس وقت یہود نے اعتراض کیا تھا اور نہ نصاریٰ نے۔اسی طرح یہود و نصاریٰ نے اپنی کتب سے ایسی تمام نشانیاں مٹا دینے کی کوشش کی جن سے نبیصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی نبوت کی تائید ہوتی تھی، جب کہ قرآن واضح طور پر کہہ رہا ہے کہ وہ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو بطور نبی اس طرح پہچانتے ہیں جیسے اپنی اولا د کو پہچانتے ہیں۔اس کے باوجود ، چونکہ انسانی کوشش غلطی سے مبرا نہیں ہوتی، ان کی کتب میں نبیصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی بعثت کے بارے میں کچھ آیات باقی رہ گئی تھیں جن کا ذکر ہم گزشتہ صفحات میں کر چکے ہیں۔
عیسائیوں کی اپنی کتابوں میں بیان کردہ پیش گویوں کے ذریعے نبیصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی نبوت کے بارے میں معلومات اور اسلام کے متعلق ان کے رویوں کا اندازہ ہم پروفیسر ٹی۔ڈبلیو۔آرنلڈ(۱۸۶۴-۱۹۳۰) کے اس بیان سے کر سکتے ہیں جو انھوں نے اپنی کتاب " The preaching of Islam "میں ایک نومسلم عبداللہ بن عبداللہ کے قبول اسلام کے ذیل میں درج کیا ہے ، آرنلڈ کے بقول یہ واقعہ عبداللہ نے اپنی خود نوشت" The book of the present of the scholar to refute the people of the cross " میں ذکر کیا ہے ، جو کہ ۱۴۲۰ ء میں لکھی گئی تھی۔آرنلڈ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ میورقہ( Majorqa ) میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک عیسائی مشنری تھے۔انھوں نے مختلف یونیورسٹیوں سے عیسائیت کی تعلیمات حاصل کرنے کے بعد اپنے آپ کو ایک معروف عیسائی پادری ( Nicolas Martil )کے ساتھ وابستہ کر لیا. مذکورہ پادری بہت تعلیم یافتہ اور مسیحی حلقے میں عزت و احترام کا حامل تھا۔عبداللہ بتاتے ہیں کہ ایک دن پادری اپنی درس گاہ میں نہ جا سکے اور ان کی غیر موجودگی میں طالب علم انجیل میں حضرت عیسیٰ کی بیان کردہ آنے والی شخصیت ’’ Paraclete ‘‘کے متعلق بحث کر رہے تھے۔ہر طالب علم اپنی اپنی رائے دے رہا تھا۔یہ بحث کسی نتیجے کے بغیر ختم ہو گئی۔جب میں نے پادری کو اس بحث کی روداد سنائی تو اس نے کہا کہ تم لوگوں نے۔۔’’ فارقلیط ‘‘کے معنی کا صحیح تعین نہیں کیا۔چنانچہ میں نے خود کو پادری کے قدموں پر گرا دیا اور ان سے اس کا صحیح مفہوم معلوم کیا تو اس نے کہا کہ تم نے میری بڑ ی خدمت کی ہے اور تم مجھے بہت عزیز ہو۔لیکن اگر میں نے تمہیں صحیح بات بتا دی تو عیسائی تمھیں زندہ نہیں چھوڑیں گے۔میں نے راز افشا نہ کرنے کا عہد کرتے ہوئے ان سے گزارش کی کہ وہ ضرور مجھے اس راز سے آگاہ کریں۔تو پادری نے کہا:
Then know, my son that the Paraclete is one of the names of the prophet of the Muslims, Muhammad, to whom has been revealed the fourth book of which the prophet Daniel sneaks when he announces that this would be revealed to him. Of a surety, his religion is the true religion and his doctrine is the glorious doctrine of which the Gospel speaks."[۱ ]
۱. The preaching of Islam, T.W.Arnold, Westminster Archibald Constable & CO.۱۸۹۶
چنانچہ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا اسلام قبول کرنے سے نجات حاصل ہو سکتی ہے تو انھوں نے کہا کہ ہاں ، دنیا اور آخرت دونوں میں نجات اسلام سے مشروط ہے۔اس پر میں نے اپنے مستقبل کے بارے میں ان سے مشورہ کیا کروں تو انھوں نے اسلام قبول کرنے کا مشورہ دیا۔جب میں نے ان سے بھی مسلمان ہونے کی درخواست کی تو انھوں نے کہا کہ میں اب بوڑھا ہو چکا ہوں اور عیسائی دنیا میں میری بہت عزت ہے۔اگر میں مسلمان ہو جاؤں تو میرے لیے جان بچانا بہت مشکل ہے۔آخر کار میں نے ان کے مشورے سے مسلمان ملک تیونس میں جا کر اسلام قبول کر لیا۔
صدیوں سے کسی کو نبیصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بنی اسماعیل سے ہونے پر کوئی اعتراض نہ تھا اور نہ ہی کسی نے اس حقیقت کو جھٹلایا تھا۔لیکن موجودہ دور کے بزعم خود انصاف پسند اور حقیقت بیان مستشرقین نے بغیر کسی دلیل کے آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی اس حیثیت کا بھی انکار کر دیا۔مشہور مستشرق ولیم میور) (۱۸۱۹[ L:۱۵۰]۱۹۰۵ نے اپنی کتاب " The Life of Muhammad "میں اس بات کا ذکر اس انداز سے کیا ہے :
" The desire to regard, and possibly the endeavour to prove, the Prophet of Islam a descendant of Ishmael, began even in his life-time. Many Jews, versed in the Scriptures, and won over by the inducements of Islam, were false to their own creed, and pandered their knowledge to the service of Mahomet and his followers.[۱ ]
The Life of Muhammad,William muir,Smith Elder &Co London,۱۸۶۱,p۳۴
’’اس بات کی خواہش کہ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو حضرت اسماعیل کی اولاد سے خیال کیا جائے اور یہ کہ اس بات کو ثابت کر دیا جائے کہ آپ اسماعیل کی اولاد سے ہیں ، پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو اپنی زندگی میں ہوئی۔اور اس کے لیے آپ کے ابراہیمی نسب نامے کے ابتدائی سلسلے گھڑ ے گئے اور حضرت اسماعیل اور بنی اسرائیل کے بے شمار قصے عربی زبان میں شامل کیے گئے۔‘‘
۲ ۔ کیفیات وحی کی غلط تعبیر
مستشرقین کی منفی ذہانت اور ذہنیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے حضرت آمنہ کو فرشتوں کی بشارت ، واقعۂ شق صدر اور نزول وحی کی کیفیات کے بارے میں روایات کو غلط رنگ دیا۔ان روایات کی توجیہ یہ کی گئی کہ حضرت آمنہ ؓ کو فرشتوں نے نبیصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی پیدائش کی خوش خبری نہیں دی تھی بلکہ یہ خاندانی طور پر مرگی کا موروثی مرض تھا۔اسی طرح واقعہ شق صدر کو بھی نبیصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو مرگی کے دورے سے موسوم کیا۔ نبی کریمصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر جب وحی کا نزول ہوتا تو آپ کی کیفیات میں تغیر پیدا ہوتا۔شدید سردی کے موسم میں آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو پسینہ آ جاتا۔اگر آپ سواری پر ہوتے تو وہ سواری بوجھ کی شدت سے بیٹھ جاتی۔ یہ کیفیات کئی روایات میں بیان ہوئی ہیں۔مثلاً حضرت عائشہؓ سے ایک روایت منقول ہے :
’’حارث بن ہشام نے رسول اللہصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ آپ کے پاس وحی کس طرح آتی ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ کبھی میرے پاس گھنٹے کی آواز کی طرح آتی ہے اور وہ مجھ پر بہت سخت ہوتی ہے اور جب میں اسے یاد کر لیتا ہوں جو اس نے کہا تھا تو وہ حالت مجھ سے دور ہو جاتی ہے اور کبھی فرشتہ آدمی کی صورت میں میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے اور جو وہ کہتا ہے اسے میں یاد کر لیتا ہوں۔ حضرت عائشہ نے بیان کیا ہے کہ میں نے سخت سردی کے دنوں میں آپ پر وحی کو نازل ہوتے ہوئے دیکھا۔پھر جب وحی موقوف ہو جاتی تو آپ کی پیشانی سے پسینہ بہنے لگتا۔‘‘
(بخاری ، کتاب الوحی)
اس کیفیت کو مستشرقین نے مرگی کا دورہ قرار دیا ہے۔ظاہر ہے کہ خدائی جلوے اور کلام خدا کو برداشت کرنا انسانی بس کی بات نہیں ہے۔کسی پیغمبر کو اللہ تعالیٰ اپنے خصوصی اہتمام اور نگرانی میں اس بات کے لیے تیار کرتا ہے کہ وہ اس کے پیغام کو وصول کر کے آگے پہنچا سکے۔ مستشرقین ، باوجود اس کے کہ حضرت موسیٰ کے واقعے میں کوہ طور پر تجلی رب سے قوم موسیٰ کی موت اور حضرت موسیٰ کے بے ہوش ہونے پر یقین رکھتے ہیں ، لیکن حضرت محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر کیفیات وحی کو مرگی سے تعبیر کرتے ہیں۔بعض مغرب زدہ مسلمان سکالر بھی جو مغرب سے آنے والی ہر چیز کو معیاری سمجھتے ہیں ، مستشرقین کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس جاتے ہیں۔محمد حسین ہیکل ()نے اپنی کتاب۔۔’’حیات محمد‘‘ میں ایک مصری دانش ور کے خط سے اقتباس نقل کیا ہے جو مستشرقین کی تحقیقات کے اس نتیجے کے قائل تھے۔انھوں نے لکھا ہے :
He says that the investigations of the orientalists have established that the Prophet suffered from epilepsy, that the symptoms of the disease were all present in him and that he used to lose consciousness, perspire, fall into convulsions and sputter. After recovering from such seizures, the claim continues, Muhammad would recite to the believers what he then claimed to be a revelation from God, whereas that was only an aftereffect of the epileptic fits which he suffered. [۱] ۱.The Life of Muhammad,Muhammad Husayn Haykal(Translated by Isma'il Razi A. AlFaruqi),P۳۸
اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مستشرقین کے پروپیگنڈے کے اثرات کس حد تک لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ کوئی یہ سوچنے کی تکلیف گوارا نہیں کرتا کہ حضرت محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے ہاتھ پر صرف نچلے طبقے کے چند غریب لوگ ایمان نہیں لائے تھے ، بلکہ عرب کے عظیم دانش ور، شاعر، خطیب، سپہ سالار، طبیب، فلسفی، علمائے یہود و نصاریٰ بھی ایمان لائے تھے اور زندگی بھر آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے ساتھ رہے۔ ان میں سے کسی کو کبھی آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر نازل ہونے والی وحی کی کیفیت میں مرگی یا کسی اور بیماری کی جھلک نظر نہیں آئی۔ اسی طرح اس دور کے مخالفین نے بھی آپ پر ہر طرح کی الزام تراشی کی لیکن اس کیفیت کو مرگی قرار نہیں دیا۔اس مرض اور اس سے متاثرہ مریض کے بارے میں اہل علم و فن نے بہت کچھ لکھا ہے جن میں سے کوئی کیفیت بھی آپ پر لگائے گئے اس الزام کی تائید نہیں کرتی۔