• ابتداء
  • پچھلا
  • 13 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 14023 / ڈاؤنلوڈ: 3951
سائز سائز سائز
استشراق اور مستشرقین

استشراق اور مستشرقین

مؤلف:
اردو

علمی معیار کے اعتبار سے مستشرقین کی اقسام

عام طور پر معاشرے میں جو رجحان فروغ پائے ، لوگ بے سوچے سمجھے اسی طرف چل پڑ تے ہیں۔جن دنوں یورپ میں استشراق کی تحریک شروع ہوئی تو ہر شخص جو چار لفظ جانتا تھا، اپنے آپ کو نمایاں کرنے اور اپنی اہمیت ظاہر کرنے کے لیے علمی و تحقیقی کا م کرنے لگا۔اس طرح سے بہت سے مستشرقین ایسے بھی وجود میں آئے جن کا کوئی علمی و تحقیقی پس منظر نہیں تھا اور نہ ہی وہ علمی دنیا کی اخلاقیات سے واقف تھے۔ ایسے لوگوں نے اسلامی عقائد و نظریات اور شخصیات پر انتہائی بے بنیاد اور اخلاق سے گرے ہوئے الزامات بھی لگا دیے۔مولانا شبلی نعمانی نے اس طرح کے مستشرقین کو تین اقسام میں تقسیم کیا ہے :

۱ ۔ عربی زبان و ادب اور تاریخ اسلام سے ناواقف مستشرقین، جن کی معلومات براہ راست نہیں ہوتیں ، بلکہ وہ تراجم سے مدد لیتے ہیں۔

۲ ۔وہ مستشرقین جو عربی زبان اور تاریخ سے تو واقف ہوتے ہیں ، مگر مذہبی لٹریچر اور فنون مثلاً اسماء الرجال، روایت

اور درایت کے اصولوں ، قدیم ادب اور روایات سے واقف نہیں ہوتے۔

۳ ۔و ہ مستشرقین جو اسلامی علوم اور مذہبی لٹریچر کا مطالعہ کر چکے ہوتے ہیں ، لیکن اپنے مذہبی تعصبات کو دل سے نہیں نکال سکے۔ وہ اسلامی علوم کے بارے میں تعصب ، تنگ نظری اور کذب و افترا سے کا م لیتے ہیں۔

مستشرقین کے خصوصی اہداف

مستشرقین نے اپنے اپنے مقاصد اور اپنی ذہنی سطح کے مطابق اسلام پر ہر طرف سے وار کیے۔ جن لوگوں کے اندر کچھ اخلاقی اقدار کا پاس یا انصاف کی رمق موجود تھی ، انھوں نے اسلام کی بعض تعلیمات کو سراہا بھی، لیکن ان کے اسلام کے خلاف عناد اور دلی تعصب نے ہر مرحلے پر قبول حق سے روکے رکھا۔ ان میں سے بعض سلیم الفطرت مستشرقین ایسے بھی تھے جنہوں نے اسلام کی آفاقی تعلیمات کو فطرت کے قریب پایا اور اسے آسمانی ہدایت کے طور پر تسلیم کر کے اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کر گئے۔ مثلاً ڈبلیو ایچ کویلیم(شیخ عبداللہ)( William Henry Quilliam) (۱۸۵۶-۱۹۳۲ )، رسل ویب( Mohammed Alexander Russell Webb)( ۱۸۴۶ ء۔ ۱۹۱۶ ء)، مارٹن لنگز( Martin Lings )(ابوبکر سراج الدین) ( ۱۹۰۹ ء۔ ۲۰۰۵ ء)، علاء الدین شلبی، ناصرالدین الفونس اتیین( ۱۸۶۱ ء۔ ۱۹۳۰ ء) ، لارڈ ہیڈلے الفاروق(رحمت اللہ الفاروق) ( Rowland George Allanson Allanson-Winn )( ۱۸۵۵ [L:۱۵۰]۱۹۳۵ )، علامہ محمد اسد ( Sylvius Leopold Weiss)( ۱۹۰۰ ء۔ ۱۹۹۲ ء)، ڈاکٹر عمر رالف ایرنفلس( Dr. Baron Omar Rolf von Ehrenfels) ( ۱۹۰۱ ء۔ ۱۹۸۰ ء)، خالد شیلڈرک( Bertram William Sheldrake )، مریم جمیلہ( ۱۹۳۴ ء)( margaret marks ) وغیرہ۔

چنانچہ اول الذکر اقسام کے مستشرقین نے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات، نزول وحی، آپ کے خاندان، اہل بیت، صحابہ کرامؓ، قرآن مجید اور احکام قرآن، احادیث مبارکہ، تعدد ازواج، غلامی اور جہاد کو اپنی تیر اندازی کا ہدف بنایا۔ ہم بالترتیب ، مستشرقین کے اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں :

حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات گرامی

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی دین اسلام کے تنہا ماخذ ہیں اور ہمیں دین اسلام آپ ہی کی وساطت سے قرآن و سنت ثابتہ کی صورت میں ملا ہے۔ اس لیے مستشرقین نے سب سے زیادہ حملے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات پر کیے ہیں تاکہ دین کی اصل بنیا د ہی پر شکوک و شبہات کے پردے ڈال دیے جائیں۔چونکہ عام طور پر لوگ کسی بھی مذہب کے پیشوا کی شخصیت سے متاثر ہو کر اس کی اتباع کرتے ہیں اس لیے ان لوگوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنے گھٹیا حملوں کا شکار بنا لیا۔مستشرقین کے ذات قدسی پر حملوں کا ذکر کرنے سے پہلے ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہیں جس سے ہمیں یہ اندازہ ہو سکے گا کہ مستشرقین کس حد تک آپ کی ذات گرامی کے بارے میں انصاف سے کام لیتے ہیں۔ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیدائش ۵۷۱ ء میں مکہ مکرمہ میں ہوئی۔آپ نے پیدائش سے لے کر چالیس سال کی عمر تک سارا عرصہ اہل مکہ کے درمیان میں گزارا۔ اس دوران سوائے چند تجارتی اسفار کے آپ اپنے علاقے سے باہر تشریف نہیں لے گئے۔اللہ تعالیٰ نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلسلے میں چونکہ پہلے سے یہ طے کر رکھا تھا کہ نبوت و رسالت کا عظیم منصب آپ کے حوالے کیا جائے گا اس لیے آپ کی ذات گرامی کے حوالے سے چند باتوں کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔آپ کو عام رسمی تعلیم اور علم الکتابت وغیرہ سے ناواقف رکھا گیا۔اس کی غرض و غایت یہی تھی کہ جن لوگوں کے پاس آپ کو بھیجا جا رہا ہے ان کو یقین آ جائے کہ آپ اپنے پاس سے کچھ ایجاد نہیں کر رہے ، بلکہ یہ سب کچھ کسی اعلیٰ و ارفع ذات کی طرف سے بھیجا جا رہا ہے۔آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مکہ میں جو زندگی گزاری وہ ایک عام انسان کی زندگی تھی ، جس میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جو غیر معمولی ہو۔آپ سے کبھی کوئی ایسا کارنامہ سرزد نہیں ہوا جس کی بنا پر آپ کو معاشرے میں خصوصی اہمیت حاصل ہو جائے۔نہ ہی آپ علم و ادب ، شاعری، خطابت وغیرہ کی دنیا کے آدمی تھے۔البتہ ، اللہ تعالی نے آپ کی ذات گرامی اعلیٰ اخلاق و کردار کا ایک ایسا نمونہ بنا یا تھا کہ پیدائش سے لے کر اعلان نبوت تک آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی پاکیزگی، سچائی ، امانت داری، احترام انسانیت ، حسن سلوک ، خدمت خلق اور حسن معاشرت کی ایک ایسی تابندہ مثال تھی ، جس کا اعتراف آپ کے تمام مخاطبین اور مخالفین نے کیا۔آپ کو صادق اور امین کا خطاب دیا گیا تھا۔نبوت کا منصب ملنے کے بعد کچھ عرصہ آپ نے خفیہ طور پر اپنے قریبی احباب کو اپنی ذمہ داری اور مقاصد سے آگاہ کیا۔ان کی طرف سے حمایت اور تعاون کے بعد اللہ نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حکم دیا کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو اللہ سے ڈراؤ۔قرآن مجید میں ارشاد ہے :

و انذر عشیرتک الاقربین ۔(الشعراء ۲۶:۲۱۴)

’’اور اپنے قریبی عزیزوں کو(اپنے رب کے معاملے میں )ڈرا۔‘‘

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اللہ کے حکم کی تعمیل میں کو ہ صفا پر چڑ ھ کر سب سے پہلے اپنی ذات کو قریش مکہ والوں کے سامنے پیش کیا ، تاکہ کسی کو اس امر میں کوئی شک نہ رہے کہ آپ کسی لالچ، فریب، بددیانتی، یا کسی دنیاوی مقصد کے زیر اثر یہ کام کر رہے ہیں۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت میں اس واقعے کی تفصیل اس طرح سے بیا ن ہوئی ہے :

عن ابن عباس رضی الله عنهما قال لما نزلت ’وانذر عشیرتک الاقربین‘ صعدالنبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علی الصفا فجعل ینادی یا بنی فهر یابنی عدی لبطون قریش حتی اجتمعوا فجعل الرجل اذا لم یستطع ان یخرج ارسل رسولا لینظر ما هو فجاء ابو لهب و قریش فقال اَراَیْتَکُم لو اَخْبَرْتُکُمْ اَنَّ خَیْلاً بالوادی ترید ان تُغِیْرَ علیکم اکنتم مُصَدِّقِی قالوا نعم ما جَرَّبْنَا علیک الا صدقا قال فانی نذیر لکم بین یدی عذاب شدید فقال ابو لهب تبا لک سائر الیوم الهذا جَمَعْتَنَافنزلت: تبت یدا ابی لهب وتب ما اغنیٰ عنه ماله و ما کسب ۔(بخاری ، کتاب التفاسیر)

’’حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے ، آپ بیان کرتے ہیں کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی:’و انذرعشیرتک الاقربین‘(اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے رشتہ داروں کو ڈرائیں )تو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوہ صفا پر چڑھے اور بلند آواز سے پکارنے لگے۔اے بنی فہر ، اے بنی عدی، قریش کے تمام لوگوں کو بلایا۔جب لوگ آ گئے اور جو نہیں آ سکا اس نے اپنا نمائندہ بھیج دیا۔ ابو لہب اور قریش بھی آئے تھے۔آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں تم سے یہ کہوں کہ ایک بہت بڑ ا لشکر تمہارے اوپر حملہ کرنے کو تیار کھڑ ا ہے تو کیا تم میری بات کا یقین کر لو گے۔سب نے کہا ضرور کریں گے کیونکہ ہم نے آپ کی ساری باتیں سچی دیکھی ہیں۔تب آپ نے فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ اگر تم اپنے شرک و کفر سے بار نہ آئے تو تم پر بڑ ا بھاری عذاب آنے والا ہے۔ابو لہب بولا ، تو ہلاک ہو ، کیا تو نے ہمیں اسی لیے یہاں بلایا تھا۔چنانچہ اس وقت سورہ :’’ تبت یدا ابی لھب وتب ما اغنیٰ عنہ مالہ و ما کسب‘‘ نازل ہوئی۔‘‘

صاف ظاہر ہے کہ جو شخص کسی معاشرے میں پیدائش سے لے کر چالیس سال گزارے اور اس کے کردار میں ، اس کے دشمن اور مخالفین بھی کسی قسم کی معمولی خامی بھی بیان نہ کر سکیں۔تو عقلاً یہ بات محال نظر آتی ہے کہ ایسا سلیم الفطرت شخص اچانک عمر کے اس حصے میں کسی لالچ اور دنیاوی مفاد کے لیے جھوٹ، بناوٹ اور فریب سے کام لے۔اسی طرح اس سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبل از نبوت مکی زندگی اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ نبوت سے پہلے آپ کی ذات سے زبان و بیان کے معاملے میں بھی کوئی غیر معمولی چیز صادر نہیں ہوئی۔اس لیے جب قرآن مجید نازل ہوا تو جو لوگ آپ سے واقف تھے انھیں اس بات کا پورا یقین تھا کہ اس طرح کا کلام کوئی بڑ ے سے بڑ ا قادر الکلام عرب شاعر یا ادیب تخلیق نہیں کر سکا تو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کس طرح خود ایسا کلام کہہ سکتے ہیں۔اسی طرح اگر آپ نے دنیاوی لالچ میں یہ کا م کیا ہوتا تو کفار مکہ نے آپ کو عرب کی بادشاہی، مال و دولت اور بعض روایات کے مطابق عرب کی حسین ترین خاتون جو آپ کو پسند ہو، اس کے ساتھ شادی کی پیش کش کی تھی، کہ آپ اس کے بدلے میں بت پرستی پر اعتراضات کرنا بند کر دیں۔لیکن آپ نے ایسی ہر پیش کش رد کر دی۔ ابو الولید عتبہ بن ربیعہ مشرکین کی طرف سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس گیا اور کہا:

’’بھتیجے یہ معاملہ جسے تم لے کر آئے ہو اگر اس تم یہ چاہتے ہو کہ مال حاصل کرہ تو ہم تمہارے لیے اتنا مال جمع کیے دیتے ہیں کہ تم ہم میں سب سے زیادہ مال دار ہو جاؤ، اور اگر تم یہ چاہتے ہو کہ اعزاز و مرتبہ حاصل کرو تو ہم تمھیں سردار بنا لیتے ہیں ، یہاں تک کہ تمہارے بغیر کسی معاملے کا فیصلہ نہ کریں گے۔اور اگر تم چاہتے ہو کہ بادشاہ بن جاؤ تو ہم تمھیں اپنا بادشاہ بنا لیتے ہیں۔اور اگر یہ جو تمہارے پاس آتا ہے کوئی جن بھوت ہے جسے تم دیکھتے ہو، لیکن اپنے آپ سے دفع نہیں کر سکتے تو ہم تمہارے لیے اس کا علاج تلاش کیے دیتے ہیں اور اس سلسلے میں ہم اپنا اتنا مال خرچ کرنے کو تیا رہیں کہ تم شفا یاب ہو جاؤ، کیونکہ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جن بھوت انسان پر غالب آ جاتا ہے اور اس کا علاج کروانا پڑ تا ہے۔

( ۱ ۔الرحیق المختوم، صفی الرحمن مبارک پوری، المکتبہ السلفیہ لاہور، (مترجم احمد شاکر)مئی ۲۰۰۰ ء ، ص ۱۵۳ ۔)

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایسی تمام پیش کشیں رد کر دیں اور اپنے مقصد کے ساتھ خلوص کے ساتھ وابستہ رہے اور بالا خر تمام عرب جو کسی واضح عقلی دلیل کی بنیاد پر نہیں ، بلکہ محض اس ہٹ دھرمی اور تعصب کی وجہ سے آپ کے خلاف تھے کہ جس راستے پر ان کے آباء و اجداد گام زن رہے ہیں اس کو کس طرح چھوڑ دیں ، وہ سب کے سب آپ کے حامی و مددگار اور جان نثار ساتھی بن گئے۔مستشرقین جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اعتراض کرتے ہیں تو ان کی تاریخ سے عدم واقفیت اور تعصب کا بھرپور اظہار ہوتا ہے۔وہ تمام حقائق کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور ایسے اعتراض کرتے ہیں جو خود ان عربوں اور اس دور کے یہود و نصاریٰ نے بھی نہیں کیے جن کے درمیان آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حیات طیبہ کا ایک بڑ ا عرصہ بسر کیا تھا۔

چنانچہ اب ہم ان اعتراضات کا ترتیب سے جائزہ لیتے ہیں جو ، وقتاً فوقتاً، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر کیے جاتے رہے ہیں :

۱ ۔نبوت سے انکار

مستشرقین آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت کا اسی طرح سے انکار کرتے ہیں جس طرح ان کے پیش رو یہود و نصاریٰ نے کیا تھا۔یہود نبوت و رسالت کو بنی اسماعیل میں جاتے ہوئے برداشت نہ کر سکے اور اپنی تمام تعلیمات اور کتب میں بے تحاشا تحریفات کر ڈالیں۔انھوں نے حضرت اسماعیل کے ذبیح ہونے کا انکار کیا اور کہا کہ ذبیح حضرت اسحق تھے۔ جبکہ دنیا کی معلوم تاریخ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب کبھی بھی کسی مذہب کے ماننے والوں نے اپنی اولاد کو اپنے مذہبی مقاصد کے لیے قربان یا وقف کرنے کا ارادہ کیا تو ہمیشہ اس مقصد کے لیے پہلوٹھی کا بچہ استعمال کیا۔ چونکہ حضرت اسماعیل عمر میں حضرت اسحٰق سے بڑ ے تھے اس لیے یہ بات بالبداہت ، واضح ہے کہ راہ خدا میں قربانی کی سعادت بھی انھی کے حصے میں آئی ہو گی۔ یہ روایات کہ کعبہ حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام نے تعمیر کیا تھا، اور عرب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں ، تاریخ عرب میں تسلیم شدہ تھیں۔ان پر نہ اس وقت یہود نے اعتراض کیا تھا اور نہ نصاریٰ نے۔اسی طرح یہود و نصاریٰ نے اپنی کتب سے ایسی تمام نشانیاں مٹا دینے کی کوشش کی جن سے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت کی تائید ہوتی تھی، جب کہ قرآن واضح طور پر کہہ رہا ہے کہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بطور نبی اس طرح پہچانتے ہیں جیسے اپنی اولا د کو پہچانتے ہیں۔اس کے باوجود ، چونکہ انسانی کوشش غلطی سے مبرا نہیں ہوتی، ان کی کتب میں نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت کے بارے میں کچھ آیات باقی رہ گئی تھیں جن کا ذکر ہم گزشتہ صفحات میں کر چکے ہیں۔

عیسائیوں کی اپنی کتابوں میں بیان کردہ پیش گویوں کے ذریعے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت کے بارے میں معلومات اور اسلام کے متعلق ان کے رویوں کا اندازہ ہم پروفیسر ٹی۔ڈبلیو۔آرنلڈ(۱۸۶۴-۱۹۳۰) کے اس بیان سے کر سکتے ہیں جو انھوں نے اپنی کتاب " The preaching of Islam "میں ایک نومسلم عبداللہ بن عبداللہ کے قبول اسلام کے ذیل میں درج کیا ہے ، آرنلڈ کے بقول یہ واقعہ عبداللہ نے اپنی خود نوشت" The book of the present of the scholar to refute the people of the cross " میں ذکر کیا ہے ، جو کہ ۱۴۲۰ ء میں لکھی گئی تھی۔آرنلڈ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ میورقہ( Majorqa ) میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک عیسائی مشنری تھے۔انھوں نے مختلف یونیورسٹیوں سے عیسائیت کی تعلیمات حاصل کرنے کے بعد اپنے آپ کو ایک معروف عیسائی پادری ( Nicolas Martil )کے ساتھ وابستہ کر لیا. مذکورہ پادری بہت تعلیم یافتہ اور مسیحی حلقے میں عزت و احترام کا حامل تھا۔عبداللہ بتاتے ہیں کہ ایک دن پادری اپنی درس گاہ میں نہ جا سکے اور ان کی غیر موجودگی میں طالب علم انجیل میں حضرت عیسیٰ کی بیان کردہ آنے والی شخصیت ’’ Paraclete ‘‘کے متعلق بحث کر رہے تھے۔ہر طالب علم اپنی اپنی رائے دے رہا تھا۔یہ بحث کسی نتیجے کے بغیر ختم ہو گئی۔جب میں نے پادری کو اس بحث کی روداد سنائی تو اس نے کہا کہ تم لوگوں نے۔۔’’ فارقلیط ‘‘کے معنی کا صحیح تعین نہیں کیا۔چنانچہ میں نے خود کو پادری کے قدموں پر گرا دیا اور ان سے اس کا صحیح مفہوم معلوم کیا تو اس نے کہا کہ تم نے میری بڑ ی خدمت کی ہے اور تم مجھے بہت عزیز ہو۔لیکن اگر میں نے تمہیں صحیح بات بتا دی تو عیسائی تمھیں زندہ نہیں چھوڑیں گے۔میں نے راز افشا نہ کرنے کا عہد کرتے ہوئے ان سے گزارش کی کہ وہ ضرور مجھے اس راز سے آگاہ کریں۔تو پادری نے کہا:

Then know, my son that the Paraclete is one of the names of the prophet of the Muslims, Muhammad, to whom has been revealed the fourth book of which the prophet Daniel sneaks when he announces that this would be revealed to him. Of a surety, his religion is the true religion and his doctrine is the glorious doctrine of which the Gospel speaks."[۱ ]

۱. The preaching of Islam, T.W.Arnold, Westminster Archibald Constable & CO.۱۸۹۶

چنانچہ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا اسلام قبول کرنے سے نجات حاصل ہو سکتی ہے تو انھوں نے کہا کہ ہاں ، دنیا اور آخرت دونوں میں نجات اسلام سے مشروط ہے۔اس پر میں نے اپنے مستقبل کے بارے میں ان سے مشورہ کیا کروں تو انھوں نے اسلام قبول کرنے کا مشورہ دیا۔جب میں نے ان سے بھی مسلمان ہونے کی درخواست کی تو انھوں نے کہا کہ میں اب بوڑھا ہو چکا ہوں اور عیسائی دنیا میں میری بہت عزت ہے۔اگر میں مسلمان ہو جاؤں تو میرے لیے جان بچانا بہت مشکل ہے۔آخر کار میں نے ان کے مشورے سے مسلمان ملک تیونس میں جا کر اسلام قبول کر لیا۔

صدیوں سے کسی کو نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بنی اسماعیل سے ہونے پر کوئی اعتراض نہ تھا اور نہ ہی کسی نے اس حقیقت کو جھٹلایا تھا۔لیکن موجودہ دور کے بزعم خود انصاف پسند اور حقیقت بیان مستشرقین نے بغیر کسی دلیل کے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس حیثیت کا بھی انکار کر دیا۔مشہور مستشرق ولیم میور) (۱۸۱۹[ L:۱۵۰]۱۹۰۵ نے اپنی کتاب " The Life of Muhammad "میں اس بات کا ذکر اس انداز سے کیا ہے :

" The desire to regard, and possibly the endeavour to prove, the Prophet of Islam a descendant of Ishmael, began even in his life-time. Many Jews, versed in the Scriptures, and won over by the inducements of Islam, were false to their own creed, and pandered their knowledge to the service of Mahomet and his followers.[۱ ]

The Life of Muhammad,William muir,Smith Elder &Co London,۱۸۶۱,p۳۴

’’اس بات کی خواہش کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حضرت اسماعیل کی اولاد سے خیال کیا جائے اور یہ کہ اس بات کو ثابت کر دیا جائے کہ آپ اسماعیل کی اولاد سے ہیں ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنی زندگی میں ہوئی۔اور اس کے لیے آپ کے ابراہیمی نسب نامے کے ابتدائی سلسلے گھڑ ے گئے اور حضرت اسماعیل اور بنی اسرائیل کے بے شمار قصے عربی زبان میں شامل کیے گئے۔‘‘

۲ ۔ کیفیات وحی کی غلط تعبیر

مستشرقین کی منفی ذہانت اور ذہنیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے حضرت آمنہ کو فرشتوں کی بشارت ، واقعۂ شق صدر اور نزول وحی کی کیفیات کے بارے میں روایات کو غلط رنگ دیا۔ان روایات کی توجیہ یہ کی گئی کہ حضرت آمنہ ؓ کو فرشتوں نے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیدائش کی خوش خبری نہیں دی تھی بلکہ یہ خاندانی طور پر مرگی کا موروثی مرض تھا۔اسی طرح واقعہ شق صدر کو بھی نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مرگی کے دورے سے موسوم کیا۔ نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جب وحی کا نزول ہوتا تو آپ کی کیفیات میں تغیر پیدا ہوتا۔شدید سردی کے موسم میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پسینہ آ جاتا۔اگر آپ سواری پر ہوتے تو وہ سواری بوجھ کی شدت سے بیٹھ جاتی۔ یہ کیفیات کئی روایات میں بیان ہوئی ہیں۔مثلاً حضرت عائشہؓ سے ایک روایت منقول ہے :

’’حارث بن ہشام نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ آپ کے پاس وحی کس طرح آتی ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ کبھی میرے پاس گھنٹے کی آواز کی طرح آتی ہے اور وہ مجھ پر بہت سخت ہوتی ہے اور جب میں اسے یاد کر لیتا ہوں جو اس نے کہا تھا تو وہ حالت مجھ سے دور ہو جاتی ہے اور کبھی فرشتہ آدمی کی صورت میں میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے اور جو وہ کہتا ہے اسے میں یاد کر لیتا ہوں۔ حضرت عائشہ نے بیان کیا ہے کہ میں نے سخت سردی کے دنوں میں آپ پر وحی کو نازل ہوتے ہوئے دیکھا۔پھر جب وحی موقوف ہو جاتی تو آپ کی پیشانی سے پسینہ بہنے لگتا۔‘‘

(بخاری ، کتاب الوحی)

اس کیفیت کو مستشرقین نے مرگی کا دورہ قرار دیا ہے۔ظاہر ہے کہ خدائی جلوے اور کلام خدا کو برداشت کرنا انسانی بس کی بات نہیں ہے۔کسی پیغمبر کو اللہ تعالیٰ اپنے خصوصی اہتمام اور نگرانی میں اس بات کے لیے تیار کرتا ہے کہ وہ اس کے پیغام کو وصول کر کے آگے پہنچا سکے۔ مستشرقین ، باوجود اس کے کہ حضرت موسیٰ کے واقعے میں کوہ طور پر تجلی رب سے قوم موسیٰ کی موت اور حضرت موسیٰ کے بے ہوش ہونے پر یقین رکھتے ہیں ، لیکن حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر کیفیات وحی کو مرگی سے تعبیر کرتے ہیں۔بعض مغرب زدہ مسلمان سکالر بھی جو مغرب سے آنے والی ہر چیز کو معیاری سمجھتے ہیں ، مستشرقین کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس جاتے ہیں۔محمد حسین ہیکل ()نے اپنی کتاب۔۔’’حیات محمد‘‘ میں ایک مصری دانش ور کے خط سے اقتباس نقل کیا ہے جو مستشرقین کی تحقیقات کے اس نتیجے کے قائل تھے۔انھوں نے لکھا ہے :

He says that the investigations of the orientalists have established that the Prophet suffered from epilepsy, that the symptoms of the disease were all present in him and that he used to lose consciousness, perspire, fall into convulsions and sputter. After recovering from such seizures, the claim continues, Muhammad would recite to the believers what he then claimed to be a revelation from God, whereas that was only an aftereffect of the epileptic fits which he suffered. [۱] ۱.The Life of Muhammad,Muhammad Husayn Haykal(Translated by Isma'il Razi A. AlFaruqi),P۳۸

اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مستشرقین کے پروپیگنڈے کے اثرات کس حد تک لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ کوئی یہ سوچنے کی تکلیف گوارا نہیں کرتا کہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھ پر صرف نچلے طبقے کے چند غریب لوگ ایمان نہیں لائے تھے ، بلکہ عرب کے عظیم دانش ور، شاعر، خطیب، سپہ سالار، طبیب، فلسفی، علمائے یہود و نصاریٰ بھی ایمان لائے تھے اور زندگی بھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ رہے۔ ان میں سے کسی کو کبھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہونے والی وحی کی کیفیت میں مرگی یا کسی اور بیماری کی جھلک نظر نہیں آئی۔ اسی طرح اس دور کے مخالفین نے بھی آپ پر ہر طرح کی الزام تراشی کی لیکن اس کیفیت کو مرگی قرار نہیں دیا۔اس مرض اور اس سے متاثرہ مریض کے بارے میں اہل علم و فن نے بہت کچھ لکھا ہے جن میں سے کوئی کیفیت بھی آپ پر لگائے گئے اس الزام کی تائید نہیں کرتی۔

قرآن مجید

اسلام کے رخ روشن کو دھندلانے کی سعی و جہد میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذات گرامی کے بعد مستشرقین کا سب سے بڑ ا ہدف قرآن مجید ہے۔یہ لوگ اچھی طرح سے جان گئے ہیں کہ جب تک مسلمان قرآن مجید کے ساتھ اپنا تعلق قائم رکھیں گے تب تک ان کو صراط مستقیم سے ہٹانا نا ممکن ہے۔ولیم جیفورڈ بالگراف نے اس راز کو اس طرح سے بیان کیا ہے :

’’جب قرآن اور مکہ کا شہر نظروں سے اوجھل ہو جائیں گے تو پھر ممکن ہے کہ ہم عربوں کو اس تہذیب میں آہستہ آہستہ داخل ہوتے دیکھ سکیں جس تہذیب سے ان کو محمد(صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم )اور ان کی کتاب کے علاوہ کوئی چیز نہیں روک سکتی۔‘‘ [ ۲] ۲ ۔ضیاء النبی، ج ۶ ، ص ۲۵۳ ۔

چنانچہ مسلمانوں کو ان کی بنیاد سے ہٹانا مستشرقین کے نقطہ نظر سے انتہائی ضروری تھا۔انھوں نے اس عظیم الشان کلام پر ایسے اعتراضات کیے جو اس سے پہلے کسی کے خواب و خیال میں نہیں آئے تھے۔قرآن کے مخاطبین ، جن کی اپنی مادری زبان میں قرآن نازل ہوا تھا ، انھیں اس پر اعتراض کی جرأت نہیں ہوئی۔زبان و بیان کے ماہر عرب جو اپنے علاوہ پوری دنیا کو عجم یعنی گونگا قرار دیتے تھے ، قرآن مجید نے ان کی قوت بیان کو متحیر کر دیا ۔قرآن نے انہیں چیلنج کیا اگر تم قرآن کو کلام الٰہی تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہو تو اپنی زبان اور قوت بیان کو ، جس پر تم اتنا فخر کرتے ہو، استعمال کر کے قرآن مجید کے مقابلے میں کلام لے آؤ:

و ان کنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبدنا فاْتوا بسورۃ من مثلہ وادعوا شھداء کم من دون اللہ ان کنتم صٰدقین۔فان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا النار التی وقودھا الناس والحجارۃ، اعدت للکٰفرین۔(البقرۃ ۲:۲۴ ۔ ۲۳)

’’اور اگر تمہیں اس کتاب کے بارے میں کوئی شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے تو پھر تم ویسی ہی ایک سورت بنا کر لاؤ اور اللہ کے علاوہ اپنے تمام مددگاروں کو بلا لو، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔ پس اگر تم ایسا نہ کر سکو، اور (یقیناً)تم ہرگز ایسا نہ کر سکو گے ، تو پھر آگ سے بچو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اور وہ کافروں کے لیے تیا رکی گئی ہے۔‘‘

صاف ظاہر ہے کہ زبان و بیان کی قوتیں جس ہستی کی بخشی ہوئی تھیں ، وہ جو نطق اور فواد کا خالق ہے ، اس کا مقابلہ کون کر سکتا تھا۔اللہ تعالیٰ نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ کلام مجید ، آپ کی نبوت کی تائید میں ، بطور معجزہ عطاء فرمایا تھا۔اس کی معجزانہ خصوصیات کے بارے میں وہی لوگ جان سکتے تھے ، جن کی زبان عربی مبین تھی، یا جو زبان و بیان کے ماہر تھے۔اللہ تعالیٰ کا طریقہ انبیائے کرام کے معاملے میں یہ رہا ہے کہ جس امت میں ان کو مبعوث کیا ، ان کے حالات کے لحاظ سے ، اتمام حجت کے لیے معجزات بھی عطاء فرمائے۔تاکہ وہ قوم یقین کامل حاصل کر لے کہ یہ شخصیت اللہ کی طرف سے ہے اور اسے اس معاملے میں کوئی شک نہ رہے۔مثلاً حضرت موسیٰ کے زمانے میں جادو کا شہرہ تھا۔سینکڑ وں ماہرین فن مصر کے طول و عرض میں موجود تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا معجزہ عطا کیا جس کا تعلق اسی فن سے تھا، لیکن درحقیقت اس کی نوع الگ تھی جسے صرف ماہرین فن جادوگروں نے پہچانا اور اس کے بعد اعلان کر دیا کہ ہم موسیٰ و ہارون علیھما السلام کے رب پر ایمان لاتے ہیں۔اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں طب و حکمت کا فن عروج پر تھا۔ اللہ نے آپ کو اس فن سے متعلق معجزات عطا کیے تھے۔ مثلاً آپ اندھوں کو بینائی ، کوڑھیوں کو صحت یابی اور مردوں کو اللہ کے حکم سے زندگی بخش دیتے تھے۔حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مخاطبین میں شعر و خطابت اور زبان و بیان کا چرچا تھا۔اس لیے اللہ نے آپ کی نبوت کی تائید میں قرآن مجید کو ایک معجزانہ کلام کی صورت میں نازل کیا تاکہ زبان و بیان کے ماہر عرب یہ بات آسانی سے جان لیں کہ آپ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے بلکہ یہ کلام الٰہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے عربوں کی زبانیں گنگ کر دیں۔جو لوگ زبان و بیان کے ماہر تھے انھیں قرآن پر ایسا کوئی اعتراض کرنے کی جرات نہیں ہوئی۔ یہ کام اجڈ اور جاہل دیہاتی عربوں اور عربی زبان و ادب سے ناواقف مستشرقین نے کیا ہے۔ ان لوگوں نے قرآن مجید کو کبھی محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اپنی تخلیق اور کبھی کسی عیسائی پادری اور یہودی عالم سے مستعار لیے گئے خیالات قرار دیا۔اور کبھی یہ الزام لگا دیا کہ یہ کتاب منتشر خیالات کا مجموعہ ہے جن کا آپس میں کوئی ربط اور تعلق نہیں ہے۔قرآن مجید کا ترجمہ کرنے والے مشہور مستشرق جارج سیل ( George Sale)(۱۶۹۷-۱۷۳۶ )نے قرآن مجید کے بارے میں اپنے سنہری خیالات کا اظہار اپنے ترجمہ قرآن ( The Koran )کے مقدمے میں اس طرح سے کیا ہے :

That Muhammad was really the author and chief contriver of the Quran is beyond dispute, though it be probable that he had no small assistance in his design from others, as his countrymen failed not to object to him. However, they differed so much in their conjectures to the particular person who gave him such assistance, that they were not able, it seems, to prove the charge; Muhammad, it is to be presumed, having taken his measures too well to be discovered. Dr. Prideaux has given the most probable account of this matter, though chiefly from Christian writers, who generally mix such ridiculous fables with what they deliver, that they deserve not much credit. [۱ ]

۱. The Koran, George Sale,Trubner & Co., Ludgate Hill, London,۱۸۸۲,P۱۰۷

’’اس حقیقت میں کوئی اختلاف نہیں کہ قرآن کے مصنف یا موجد محمد(صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم )ہیں ، اگرچہ اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ آپ کو اس منصوبے میں دوسروں سے جو مدد ملی وہ کم نہ تھی، جیسے کہ آپ کے ہم وطنوں نے آپ پر یہ اعتراض کرنے میں کوتاہی نہیں کی۔البتہ ان کو اس قسم کی مدد مہیا کرنے والے مخصوص شخص کا تعین کرنے میں ان کے مفروضے اتنے متضاد ہیں کہ وہ محمد(صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) کے خلاف یہ الزام ثابت نہ کر سکے۔یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ محمد(صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) نے اس معاملے کو خفیہ رکھنے کے لیے اتنے عمدہ اقدامات کیے جن کی وجہ سے اس راز کا انکشاف ممکن نہ تھا۔ڈاکٹر پیریڈیکس نے اس مسئلے کی ایسی تفاصیل بیان کی ہیں جو حقیقت کے زیادہ قریب ہیں۔یہ تفاصیل اکثر عیسائی مصنفین کی کتب سے لی گئی ہیں ، جو اپنے بیانات میں بعض مضحکہ خیز قصوں کو خلط ملط کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کسی اعتبار کے قابل نہیں رہتے۔‘‘

مستشرقین نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر یہ الزام لگایا کہ آپ نے قرآن مجید انجیل ، تورات اور اہل کتاب کی روایات سے اخذ کیا ہے۔چونکہ اس بات سے انکار کرنا مشکل تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم روایتی تعلیم اور کتابت سے ناآشنا تھے ، لہذا ان لوگوں نے یہ شوشا چھوڑ ا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ورقہ بن نوفل ، بحیرہ راہب، شام کی سرحدوں پر آباد عیسائیوں ، مقامی میلوں میں آنے والے اہل کتاب اور عیسائی غلاموں سے واقعات اخذ کر کے قرآن مجید تخلیق کرتے تھے۔آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ادب اور زبان و بیان سے نا آشنائی ان لوگوں کے لیے بہت مشکلات کا باعث بن جاتی ہے۔ اس بات کو ثابت کرنا کہ یہ سراسر آ پ کی اپنی تخلیق ہے ، اس لیے بھی مشکل ہے کہ آپ کا امی ہونا ہر لحاظ سے ثابت ہے۔جب کہ دوسری

طرف قرآن مجید کا کلام معجز پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہو سکتا۔جارج سیل ( George Sale)(۱۶۹۷-۱۷۳۶ ) بھی قرآن مجید کی اس خصوصیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہتا ہے :

Muhammad seems not to have been ignorant of the enthusiastic operation of rhetoric of the minds of men, for which reason he has not only employed his utmost skill in these his pretended revelations to preserve that dignity sublimity of style which might seem not unworthy of the majesty of that being whom he gave out to be the author of them and to imitate the prophetic manner of the old testament.[۱]The Koran, George Sale,Trubner & Co., Ludgate Hill, London,۱۸۸۲,P۱۰۵

’’کلام میں لفاظی حاضرین کے ذہنوں پر جو اثر ڈالتی ہے ، محمد(صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) اس سے بے خبر نہ تھے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ اپنے ان نام نہاد الہامات میں اسلوب بیان کے اس وقار اور رفعت کو قائم رکھنے کے لیے اپنی پوری صلاحیتیں استعمال کی ہیں ، جو اس ذات کے شایان شان ہو جس کی طرف وہ اس کو منسوب کرتے ہیں اور اس اسلوب کو اختیار کیا ہے جو عہد نامہ قدیم کے پیغمبرانہ اسلوب سے ہم آہنگ ہو سکے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اسلام کے مخالفین کی اس جسارت کا جو آغاز اسلام سے لے کر اب تک اور اب سے لے کر یوم حساب تک ، نہایت عمدہ جو اب دیا ہے۔جو لوگ اس کلام کو کبھی کسی راہب سے ملاقاتوں کا نتیجہ اور کبھی آپ کی اپنی کاوش اور کبھی کسی بلعام لوہار، مغیرہ کے غلام یعیش اور عیش و جبرنامی لوگوں کی تعلیم قرار دیتے ہیں [ ۲] ، ان سے اللہ نے فرمایا ہے :

ولقد نعلم انھم یقولون انما یعلمہ بشر لسان الذی یلحدون الیہ اعجمی و ھذا لسان عربی مبین۔ (سورۃ النحل ۱۶:۱۰۳)

’’اور ہم خوب جانتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ انھیں یہ قرآن ایک انسان سکھاتا ہے۔حالانکہ اس شخص کی زبان جس کی طرف یہ تعلیم قرآن کی نسبت کرتے ہیں ، عجمی ہے اور قرآن فصیح و بلیغ عربی زبان میں ہے۔‘‘

یہ بات واقعی قابل غور ہے کہ جن لوگوں کو مشرکین اور مستشرقین، دونوں نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے استاد قرار دے رہے ہیں وہ عجمی الاصل ہیں اور ان میں سے کسی کی مادری زبان عربی نہیں ہے۔ اس عظیم الشان کلام کو، جس کی تاثیر ، قوت اور عظمت کا اقرار عرب کے تمام مسلم اور غیر مسلم اہل زبان و ادب کر چکے ہوں ، ایسے لوگوں کی طرف منسوب کرنا جہالت اور نادانی کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے۔اور قرآن کی سچائی اور اعجاز کے لیے یہی کافی ہے کہ چودہ سو سال سے ہر علم و فن کے ماہر اسی سے رجوع کر رہے ہیں اور سینکڑ وں ، بلکہ ہزاروں علوم و معارف کا استنباط اس سے کر چکے ہیں۔لاکھوں غیر مسلم کسی تبلیغی مشن کے نتیجے میں نہیں ، بلکہ اس کتاب عظیم کے مطالعے کے نتیجے میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔مثلاً ڈبلیو ایچ کویلیم، رسل ویب، ڈاکٹر مارٹن لنگز، ڈاکٹر آرتھر کین، جان سنٹ، جرمن مفکر علاء الدین شلبی، علامہ محمد اسد، خالد شیلڈرک، مریم جمیلہ وغیرہ۔ڈاکٹر موریس بوکائیلے نے اپنی کتاب ( The Bible, The Quran And Science )میں بائیبل سے بیسیوں ایسی آیات نقل کی ہیں جو آپس میں متناقض ، سائنسی نظریات کے متعارض اور تحقیق و تنقید کے معیار پر پوری نہیں اترتیں۔لیکن انھیں قرآن مجید کا ایک بھی بیان ایسا نہیں ملا جو مسلمہ عقلی اور سائنسی نظریات کے خلاف ہو۔ موریس بوکائیلے لکھتے ہیں :

The ideas in this study are developed from a purely scientific point of view. They lead to the conclusion that it is inconceivable for a human being living in the Seventh century A.D. to have made statements in the Qur'an on a great variety of subjects that do not belong to his period and for them to be in keeping with what was to be known only centuries later. For me, there can be no human explanation to the Qur'an.[۱ ]

۱. The Bible, The Quran And Science, Maurice Bucaille,Dar Al Ma'arif Cairo, Egypt,P۱۲۵

’’قرآن کا سائنسی طریق سے مطالعہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ساتویں صدی عیسوی کے زمانے سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ قرآن میں بیان کیے گئے مختلف النوع بیانات دے سکے جواس کے زمانے سے تعلق نہیں رکھتے تھے اور جن کے بارے میں صدیوں کی تحقیق کے بعد کوئی حتمی رائے قائم کی گئی۔میرے نزدیک قرآن کی کوئی انسانی توجیہ ممکن نہیں ہے۔‘‘