انتخاب حمد و مناجات

انتخاب حمد و مناجات 0%

انتخاب حمد و مناجات مؤلف:
: محمد امین
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 193

انتخاب حمد و مناجات

مؤلف: محمد امین
: محمد امین
زمرہ جات:

صفحے: 193
مشاہدے: 90039
ڈاؤنلوڈ: 2550

تبصرے:

انتخاب حمد و مناجات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 90039 / ڈاؤنلوڈ: 2550
سائز سائز سائز
انتخاب حمد و مناجات

انتخاب حمد و مناجات

مؤلف:
اردو

بنا ہے مشق ستم فلسطیں مجاہدوں پر ہے وجد طاری

زباں پہ ہے لا الہٰ ان کی، یہی ہے انکا کمال یا رب

*

زمیں فلسطیں کی منتظر ہے، کہ کوئی ایوبؔ پھر سے آئے

ہے ارضِ اقصیٰ کا تیرے در پر، دراز دست سوال یا رب

*

اے رب کعبہ تو مقتدر ہے، تو خالق کل جہاں ہے مولیٰ

عطا ہو صبر و عمل کی قوت، کہ ہو گئے ہیں نڈھال یا رب

*

ہے شش جہت میں تری ہی خاطر، صدائے لبیک سب کے لب پر

دعا ہے شام و سحر کہ رکھیو، ہماری عزت بحال یا رب

*

دعا ہے منظورؔ ناتواں کی، جہاں میں امن و اماں ہو مولیٰ

ستم گروں سے ملے رہائی، دکھا دے اپنا جلال یا رب

***

۱۰۱

حمد باری تعالیٰ جل شانہٗ

بختیار مشرقی (اورئی)

تو مرا خدائے برحق

تو مکمل اور مطلق

تو قدیم اور محقق

*

میں زمیں نہ آسماں کا

تو ہے ثابت اور قائم

میں ہواؤں میں معلق

*

میں تمام تر معاصی

تری حمد کیا کروں میں

ترے وصف بیکراں ہیں

*

ترے انگنت فرشتے

تری حمد کر رہے ہیں

جو محیط آسماں ہیں

*

یہ کروڑہا پرندے

یہ وحوش یہ درندے

یہ ملخ یہ مور سارے

*

۱۰۲

وہ ہوں پتھروں کے کیڑے

کہ ہوں کرم قعر دریا

کہ زمیں کے چور سارے

*

تری حمد میں لگے ہیں

ترے گیت گا رہے ہیں

یہ تمام مرغ و ماہی

*

یہ شجر حجر یہاں کے

مہہ و مہر آسماں کے

گل و نجم صبح گاہی

*

مرا عجز کہہ رہا ہے

وہ خدا ہے جانتا ہے

کہ تری بساط کتنی!

*

تو بس ایک کام کر لے

کوئی نعت لکھ نبیؐ کی

مری بات مان اتنی!

*

کوئی نعت مصطفیٰؐ لکھ

یہ پسند کبریا ہے

یہی نسخہ کیمیا ہے

*

۱۰۳

تو بس اے خدائے برتر

یہ گناہ گار بدتر

ترے سجدے میں پڑا ہے

*

تری حمد کے بھی قابل

نہیں جانتا جو خود کو

بھلا نعت کیا کہے گا

*

یہ تو پل صراط سے بھی

بڑا سخت مرحلہ ہے

مری لاج رکھ خدایا

*

ترا حکم مانتا ہوں

میں درود بھیجتا ہوں

ترے پیارے مصطفی پر

*

سبھی آل مصطفیؐ پر

تو قبول کر لے یا رب

یہ ادائے بندہ پرور

*

مری التجا ہے یا رب

*

۱۰۴

مجھے بخش دے حضوری

در کعبۂ یقیں کی

مجھے صدقہ دے نبیؐ کا

مری بے بضاعتی تو

نہیں رہ گئی کہیں کی!

میں بڑا خطا کنندہ

تو بڑا رحیم یا رب

*

میں پہ سڑرہا ہوں

مجھے بخش دے الہٰا

ترے ہاتھ جوڑتا ہوں

ترے پاؤں پڑ رہا ہوں

ترے ہاتھ جوڑتا ہوں

ترے پاؤں پڑ رہا ہوں

یہاں کب سے سڑرہا ہوں

***

۱۰۵

دوہا حمد

عاجز ہنگن گھاٹی (ہنگن گھاٹ)

عزت اس کے ہاتھ ہے ذلت اس کے ہاتھ

گمنامی بھی بخشے وہ شہرت اس کے ہاتھ

*

بالکل سچی بات ہے اپنی کیا اوقات

کٹھ پتلی کے جیسے ہم فطرت اس کے ہاتھ

*

ہست و بود کا راز کیا اپنی ہستی خاک

بے شک مرنے جینے کی حرکت اس کے ہاتھ

*

افراتفری سب کے گھر الجھن سب کے پاس

چاہت ہم کو چین کی راحت اس کے ہاتھ

*

تخلیق اس کا کل جہاں واحد اس کی ذات

لفظ کن کے راز کی حکمت اس کے ہاتھ

*

بے شک وہ مختار ہے سب کا پالن ہار

عاجزؔ تو بھی مانگ لے رحمت اس کے ہاتھ

***

۱۰۶

حمدیہ ماہیے

مدہوش بلگرامی (ہردوئی)

رحمان و رحیم اللہ

اس سے ہے سب ممکن

ستاروکریم اللہ

٭

خلاق تو ہی بے شک

سب کو کھلاتا ہے

رزاق تو ہی بے شک

٭

غفار خدا ہے بس

میں ہوں بت عاصی

مختار خدا ہے بس

٭

ہر شے پہ حکومت ہے

کون و مکاں کس کا

ہے جس کا وہ قدرت ہے

٭

۱۰۷

ہے ذات تری طاہر

عرش بریں والے

ہر چیز پہ تو قادر

٭

چڑیوں کو زباں دی ہے

کھلتی کلی کو بھی

تو نے ہی ادادی ہے

٭

ہے عرش بریں تیرا

فکر و بیاں، لہجہ

اے نور یقیں تیرا

٭

حمد و ثنا کرتے

بحر و جزیرے بھی

توصیف خدا کرتے

٭

معبود ہر اک شے کا

ارض وسما اس کے

مسجود ہر اک شئے کا

***

۱۰۸

راہی صدیقی (ہردوئی)

پھولوں میں رنگ الگ اور خوشبو جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

سب چرند اور پرند مختلف رنگ کے

آدمی ملتے ہیں سب الگ ڈھنگ کے

شکل و صورت الگ بولیاں ہیں جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

جس میں چاقو لگے نکلے گا، خوں لئے

پر اسی سینے سے دودھ بچہ پئے

خون سے دودھ کو ایسے رکھا جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

جب سمندر سے جا کر کے دریا ملا

اپنی پہچان کو ملتے ہی کھو دیا

اپنا اپنا وجود گر رہیں وہ جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

۱۰۹

ریگزاروں میں پیدا کئے ہیں شجر

رزق کیڑوں کو پتھر میں دے پیٹ بھر

ظاہراً بھی الگ باطناً بھی جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

کیسے کیسے عجوبے دہر میں ہوئے

یوں ملے حیرتوں میں ہی ڈوبے ہوئے

سر جڑے دھڑ جڑے جسم و جاں ہیں جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

دھوپ تھی دھوپ کی تھیں ابھی گرمیاں

دیکھتے دیکھتے چھا گئیں بدلیاں

برسا پانی ہوا بادلوں سے جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

آندھیاں اور طوفان اور زلزلہ

آتے ہی یاد آ جائے جو برملا

وہ ہوا میں گھلا وہ ہوا سے جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

روز ہوتے طلوع اور ہوتے غروب

چاند سورج کا ہے یہ تماشہ بھی خوب

فرق پڑتا نہیں ڈھنگ نہ ہوتا جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

۱۱۰

**

اک طرف تیرگی اک طرف روشنی

اس طرف ہے غمی اس طرف ہے خوشی

ایک ہی وقت پر حادثے ہوں جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

جگنو پیدا کئے رات کے واسطے

بند اک جو کیا کھولے کئی راستے

ہر بقا بھی الگ ہر فنا بھی جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

پیاس ہونٹوں پہ ہے دل میں ہے تشنگی

بکھری بکھری سی لگتی ہے یہ زندگی

موت کا رنگ الگ موت کا ڈھنگ جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

حکم سے جس کے ہوتی عطا زندگی

موت بھی راہیؔ جس کی ہی طابع رہی

اس کی رحمت الگ اس کی حکمت جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

***

۱۱۱

منصور اعجاز (آکولہ)

تو زمین آسمان کا رب ہے

تو ہی سارے جہان کا رب ہے

حکم چلتا ہے بحر و بر پہ ترا

رعب ہے خیر اور شر پہ ترا

چاند تاروں میں چاندنی تیری

ہے ہواؤں میں راگنی تیری

سبزہ و گل میں جان تیری ہے

چہچہوں میں زبان تیری ہے

سارے عالم پہ مہرباں تو ہے

حق پرستوں کا نگہباں تو ہے

تیرے محکوم ہیں یہ جن و ملک

تیرے تابع بشر ہیں عرض و فلک

تیری حمد و ثنا ہو کس سے بیاں

تو نہاں ہو کے بھی ہے سب پہ عیاں

سب فنا ہے بقا ہے تیرے لئے

ساری حمد و ثنا ہے تیرے لئے

***

۱۱۲

تخلیق کائنات

منصور اعجاز (آکولہ)

اگر تو یہ زمین نہیں بناتا

ہم خلاؤں میں تیرتے رہتے

*

تو نے زمیں کی کوکھ میں

آبی ذخیرے نہ سموئے ہوتے

ہم فضاؤں میں نمی چوستے ہوتے

تو نے خورشید کو تپش دے کر

چمکایا نہ ہوتا

فصلیں اگتی اور پکتی کیسے ؟

*

ہماری دنیا اندھی

اندھیاری ہو جاتی

رب اللعالمین!

تو نے زمین و آسمان کی

بے پناہ دولت اور خلافت

ہمیں عطا کر دی (کتنا سخت امتحان ہے )

۱۱۳

قیامت قریب ہے اور ہم

بے چین و پریشان

بے حس و حرکت

یا غفور الرحیم!

ہمیں ایمان کی حرارت سے پگھلا دے

کل کائنات پر پھیلا دے

ہم پر امید ہیں

تجھے بھی یہی مقصود ہے نا۔ ؟

***

۱۱۴

حمد

حشمت کمال پاشاؔ (کلکتہ)

اے دنیا کے سرجن ہارے

اعلیٰ تو ہے

برتر تو ہے

ذات کو تیری نہیں زوال

قائم تیرا جاہ و جلال

توہے عین عز و کمال

مالک۔۔۔ روز حشر کا تو ہے

خالق۔۔۔ توہے رات کا دن کا

تو ہی۔۔۔ عبادت کے لائق ہے

تیرے لئے سب حمد و ثنا ہیں

تیرے غضب سے سب ہیں لرزاں

عالم کن کا رب جلیل

تو ہی رحیم

تو ہی کریم

پاشاؔ۔۔۔ تیرے در پہ کھڑا ہے

لب پہ دعا ہے

ہاتھ اٹھا ہے

۱۱۵

سچا نیک انسان بنا دے

سیدھا رستہ ہم کو دکھا دے

مجبوروں کے کام میں آؤں

دکھیاروں کا درد بٹاؤں

***

۱۱۶

اللہ تعالیٰ

حشمت کمال پاشاؔ (کلکتہ)

میں اکثر سوچاکرتا ہوں

شجر یہ ڈاب کے کس نے اگائے ہیں

کہ ڈابوں میں کہاں سے آتا ہے پانی یہ میٹھا سا

نظر جائے جہاں تک دور اس نیلے گگن پر

میں اکثر سوچاکرتا ہوں

کہ ننھے منے چمکیلے سے تاروں کو

انھیں آکاش پہ کس نے سجایا ہے

میں اکثر سوچاکرتا ہوں

بنایا ہے یہ کس نے چندا ماما کو

جو شب بھرآسماں پر وہ چمکتا ہے

جو چلتا ہوں تو میرے ساتھ چلتا ہے

یہ اکثر سوچاکرتا ہوں

مجھے پیداکیاکس نے۔۔۔ ؟

مری امی یہ کہتی ہیں

کہ اک خالق ہے ان ساری ہی چیزوں کا

وہی برتر و بالا ہے

وہی اللہ تعالیٰ ہے

***

۱۱۷

تحفہ حمد بحضور خالق کائنات

خان حسنین عاقبؔ (پوسد)

مرا تصور بھٹک رہا ہے

مرا تخیل جھجک رہا ہے

*

مجھے خبر ہے نہیں یہ ممکن

کہ تیری تعریف کر سکوں میں

تری خدائی کی حد کو پاؤں

محال ہے اس پہ غور کرنا

مگر میں ٹوٹے ہوئے سے الفاظ کو

عقیدت کی چاشنی میں ڈبو رہا ہوں

اور اپنے جذبات کے سمندر کو

حرف و معنیٰ کے بس ایک کوزے

میں ڈرتے ڈرتے سمورہا ہوں

*

ہے میٹھے خوش رنگ پانیوں پر

ہے کھارے سمندروں پر

*

تری ہی قدرت و حکمرانی

*

۱۱۸

تو کن سے دنیا بنانے والا

تو پربتوں کو جمانے والا

کو کشتیوں کو چلانے والا

قیامتوں کو جگانے والا

مصیبتوں کو سلانے والا

تو ساحلوں پر ڈبونے والا

تو بیچ دریا بچانے والا

*

علیم تو ہے بصیر تو ہے

تجھے پتا ہے وہ بات بھی جو

ہر اک نظر سے چھپی ہوئی ہے

تری ہی قدرت میں ہے وہ آتش

جو راکھ ہی میں دبی ہوئی ہے

حسین شکلوں کو کس کا آخر جمال سمجھوں ؟

*

قلم سے اپنے نکلتی کرنوں

کو تیری مدحت کا نور سمجھوں !

کہ کوئی مجھ سے غریب شاعر

کا ہچکچاتا خیال سمجھوں ؟

*

۱۱۹

ہے رہبری بھی خضرؑ کی تجھ سے

عصائے موسیٰؑ تری عطا ہے

بلندیوں کو ہے سرفرازی کا شرف حاصل

تو سونی سونی ہے پستیوں کی ہر ایک محفل

مرے عمل کا ہر ایک دفتر

ہے چیدہ چیدہ

مگر بڑائی ہے کس کو زیبا؟

*

تری عطا کو!

کہ پھر خطاؤں کو عاصیوں کی؟

مجھے پتا ہے !

مری ندامت کو ڈھونڈتی ہیں

شفیق بانہیں ترے کرم میں

تو کشتیِ نوحؑ کو کھویّا

حرم سے لے کر مرے مکاں تک

تری عطا کے سمندروں پر

*

مری دعا کو

بس اتنا سا اختیار دے دے

حیات میری خزاں رسیدہ

تو اس کو حکم بہار دے دے

***

۱۲۰