انتخاب حمد و مناجات

انتخاب حمد و مناجات 0%

انتخاب حمد و مناجات مؤلف:
: محمد امین
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 193

انتخاب حمد و مناجات

مؤلف: محمد امین
: محمد امین
زمرہ جات:

صفحے: 193
مشاہدے: 90068
ڈاؤنلوڈ: 2550

تبصرے:

انتخاب حمد و مناجات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 90068 / ڈاؤنلوڈ: 2550
سائز سائز سائز
انتخاب حمد و مناجات

انتخاب حمد و مناجات

مؤلف:
اردو

سیداصغربہرائچی (بھرائچ)

صحرا نورد ہوں تو مجھے شہر ناز دے

تو اپنی رحمتوں سے خدایا نواز دے

*

جی بھر کے تیری حمد و ثنا میں بھی کر سکوں

بھیجا ہے اس جہاں میں تو عمر دراز دے

*

گم ہو گیا ہوں میں بھی گنا ہوں کی بھیڑ میں

پروردگار مجھ کو تو ذوق نماز دے

*

گھر سے چلوں تو طیبہ میں جا کے رکیں قدم

یا رب مرے جنوں کو وہ اوج و فراز دے

*

ہر سنگ و آئینہ کو بھی محسوس کر سکوں

ایماں عطا کیا ہے تو دل بھی گداز دے

*

ذہن رسا پہ جس کے تھا محمود کو بھی ناز

اے کار ساز مجھ وہ تاریخ ساز دے

*

اصغرؔ کے کام آئے جو میدان حشر میں

بس اتنی التجا ہے وہ سامان و ساز دے

***

۱۶۱

عبرت بہرائچی (بھرائچ)

( ۱)

خار زاروں کو گلستاں مرے مولیٰ کر دے

ہر طرف دید کا ساماں مرے مولیٰ کر دے

*

دیکھ لوں گنبد خضریٰ کو نظر سے اپنی

یہ بھی پورا مرا ارماں، مرے مولیٰ کر دے

*

میرے دامن میں گنا ہوں کے سوا کچھ بھی نہیں

کچھ عطا دولت ایماں مرے مولیٰ کر دے

*

راہ چلنے نہیں دیتے ہیں گنا ہوں کے سفیر

مشکلیں اب مری آساں مرے مولیٰ کر دے

*

دل کے ہر تیرہ و تاریک صنم خانہ میں

شمع توحید فروزاں مرے مولیٰ کر دے

*

میں بھی ہوں سید کونین ؐ کا اک ادنیٰ غلام

مجھ کو بھی خلد بداماں مرے مولیٰ کر دے

*

نام لیوا نہ رہے ظلم کا دنیا میں کوئی

ایسا جاری کوئی فرماں مرے مولیٰ کر دے

*

آنکھیں پر نم ہیں دوا مانگ رہا ہے عبرتؔ

اس کے اب درد کا درماں مرے مولیٰ کر دے

***

۱۶۲

(۲)

ذرہ ذرہ کو ثریا کا تو ہمسر کر دے

قد سے محروم ہیں جو ان کو قد آور کر دے

*

تو اگر چاہے تو خاروں کو گل تر کر دے

ایک ہی پھول سے عالم کو معطر کر دے

*

تیری عظمت تری قدرت سے نہیں کچھ بھی بعید

آگ کو پھول تو قطرہ کو سمندر کر دے

*

کمتری کا اسے احساس نہ ہونے پائے

میرے بھائی کو مرے قد کے برابر کر دے

*

خشک سالی مرے ہونٹوں کی نہیں جاتی ہے

اب تو پیدا مرے ہونٹوں پہ سمندر کر دے

*

تیرگی بڑھتی ہی جاتی ہے مرے سینے کی

نور ایماں سے اسے آج منور کر دے

*

بے پری مجھ کو مدینہ نہیں جانے دیتی

بازوؤں کو تو مرے حاصل شہ پر کر دے

*

۱۶۳

مجھ گنہ گار سیہ کار کو اب رب قدیر

باغ جنت میں عطا چھوٹا سا اک گھر کر دے

*

مالک کون و مکاں سن لے دعائے عبرتؔ

اس کے بگڑے ہوئے حالات کو بہتر کر دے

***

۱۶۴

ڈاکٹر امین انعامدار (امراؤتی)

(۱)

تو برف کو بھی عطا سوز اور جلن کر دے

تجھے ہے سہل جو احساس کو بدن کر دے

*

اگرچہ حرص غلط ہے مگر مجھے یا رب

حریص علم بنا دے حریص فن کر دے

*

تم اپنی خوبی تقدیر پر نہ اتراؤ

نہ جانے کون سا لمحہ چمن کو بن کر دے

*

سنا ہے آج وہ تشریف لانے والے ہیں

خدائے پاک معطر مرا سخن کر دے

*

شہید عشق ہوں اے خاک یہ خیال رہے

ترا رویہ نہ میلا مرا کفن کر دے

*

بہ طرز ابن رواحہؓ و حضرت حسانؓ

مرے قلم کو مدیح شہ زمن کر دے

***

۱۶۵

(۲)

اے خدائے بزرگ و برتر دے

مجھ کو کامل یقین خود پر دے

*

مژدۂ فتح دے شکست کو پھر

پھر زمیں کو وہی بہتر دے

*

پھر ابابیلیں آسماں سے اتار

ان کی چونچوں میں پھر تو کنکر دے

*

یا تو دے دے مصیبتوں سے نجات

یا مرے دل کو اب زمیں کر دے

*

جن کی خوشبو سے دنیا مہک اٹھے

ایسے میری زباں کو اکشر دے

*

زیر ہے اور نہ پیش ہے یہ امینؔ

تو اگر چاہے تو زبر کر دے

***

۱۶۶

ڈاکٹر نثار جیراجپوری (اعظم گڑھ)

خدایا دین کی عزت ہو جان سے اوپر

کروں نہ فیصلہ کوئی قرآن سے اوپر

*

اب اور کتنا اٹھائے گی قوم یہ ذلت

دوبارہ کر دے اسے پھر جہان سے اوپر

*

سفینہ ڈوب نہ جائے ہوائیں برہم ہیں

ہواؤں کو تو اٹھا دے بادبان سے اوپر

*

نہ دین پاس ہے اپنے نہ علم ہے نہ ہنر

ہماری زندگی کر دے ڈھلان سے اوپر

*

خدا کا خوف بسائے رہو تصور میں

نہ خود کو رکھو کبھی آسمان سے اوپر

*

نثار دین کی عظمت رہے نگاہوں میں

سدا رکھو اسے دونوں جہان سے اوپر

***

۱۶۷

عطا عابدی (بہار)

( ۱)

یا رب چمن زیست کو گلہائے اماں دے

نفرت بھرے ماحول کو الفت کا سماں دے

*

ہم اہل جہاں کے لئے ہوں باعث صد رشک

وہ فکر وہ کردار دے وہ حسن بیاں دے

*

پھر لشکر اغیار ہزیمت سے ہو دوچار

پھر بازوئے ملت کو وہی تاب و تواں دے

*

سجدے کی زمیں نرغۂ اعدا میں ہے اللہ

ایوبیؓ و خالدؓ سا اس امت کو جواں دے

*

انسان کی خدمت ہو مرا مقصد و منصب

وہ حوصلہ وہ قلب دے وہ دست و زباں دے

*

ملت کا ہوں ہم فخر تو ہوں ملک کی ہم شان

توفیق ہمیں خیر کی بے حد و گماں دے

*

ہے دھوپ کا یہ شہر میں بے سایہ ہوں اللہ

سر اپنا چھپانے کو عطاؔ کو بھی مکاں دے

***

۱۶۸

(۲)

ہر رنگ نرالا دے، ہر روپ نمایاں دے

یا رب مرے گلشن کو وہ لطف بہاراں دے

*

تو زخم سے واقف ہے تو درد سمجھتا ہے

اس زخم کا مرہم دے اس درد کا درماں دے

*

دنیا کے جو طالب ہیں تو ان سے بچا مجھ کو

جو تجھ سے ملا پائے وہ صحبت انساں دے

*

ہر خوف نکل جائے دل سے مرے دنیا کا

بس ایک تیرا ڈر ہو وہ قوت ایماں دے

*

عصیاں سے بھرا دامن دھل جائے مرا جس سے

وہ ابر کرم دے اور وہ بارش احساں دے

*

جینے کی امنگیں ہوں، پر نور ترنگیں ہوں

اس بزم عطا کو تو وہ شمع فروزاں دے

***

۱۶۹

امتیاز احمد عاقل نقشبندی (بھدوہی)

لذت درد مصطفی دے دے

میرے ایمان کو جلا دے دے

*

ہر طرف ظلمتوں کا ڈیرا ہے

میرے مالک مجھے ضیا دے دے

*

راستے سے بھٹک گیا ہوں میں

گم شدہ مجھ کو راستہ دے دے

*

ہو گئی ہے ہماری منزل گم

ہم کو منزل کا تو پتہ دے دے

*

کتنی پستی میں جی رہے ہیں لوگ

بے شعوروں کو یہ پتہ دے دے

*

جو ہے معمور تیری رحمت سے

میرے سر کو وہی ردا دے دے

*

عاقلؔ بے عمل کے دل کو بھی

حب سرکار اے خدا دے دے

***

۱۷۰

پروفیسر اقتدار افسرؔ (بھوپال)

مرے اللہ جینے کا ہنر دے

مجھے تو سوز دل سوز جگر دے

*

محبت سے تری معمور وہ ہو

مجھے گرچہ حیات مختصر دے

*

دعائیں ہوں مری مقبول ساری

زباں میں تو مری ایسا اثر دے

*

جلا کر راکھ کر دیں ماسوا کو

تو دل کو عشق کے ایسے شرر دے

*

بنوں پروانۂ شمع رسالت

مجھے تو الفت خیر البشر دے

*

مجھے تو عشق بس اپنا ہی دینا

تو میری کاوشوں کا یہ ثمر دے

*

مقدس ذکر میں تیرے جو گزرے

مجھے وہ روز و شب شام و سحر دے

*

۱۷۱

پھروں توحید کی دعوت کو لے کر

مرے اللہ ایسا تو سفر دے

*

تری ہی حمد میں کرتا ہوں افسرؔ

مجھے تو سرخرو عقبیٰ میں کر دے

***

۱۷۲

سہیل عالم (کامٹی)

ہو کے مایوس ترے در سے جو خالی جائے

آس کیا لے کے کہیں اور سوالی جائے

*

میں گنہ گار و سیہ کار و خطا کار سہی

مجھ ریاکار کی کچھ راہ نکالی جائے

*

زندگی سے مجھے اتنی ہی تمنا ہے فقط

عشق میں تیرے بہ انداز بلالی جائے

*

مجھ سے لاچار پہ مولا ہو کرم کی بارش

مشکلوں میں مری حالت نہ سنبھالی جائے

*

صرف اخلاص و وفا شرط ہے سائل کیلئے

غیر ممکن ہے کہ در سے ترے خالی جائے

*

آس بس تجھ سے لگائے ہوئے بیٹھا ہے سہیلؔ

دل مغموم کی فریاد نہ ٹالی جائے

***

۱۷۳

غلام مرتضیٰ راہی (فتح پور)

پل پل کی میں روداد رقم کرتا چلا جاؤں

صدیوں کے لئے خود کو بہم کرتا چلا جاؤں

*

اٹھ کر ترے در سے مجھے جانا ہو جہاں بھی

محسوس ترا لطف و کرم کرتا چلا جاؤں

*

رکھے مجھے توفیق سبک بار ہمیشہ

احسان کو احسان میں ضم کرتا چلا جاؤں

*

ٹھہروں ترے نزدیک میں کردار کا غازی

پورے میں سبھی قول و قسم کرتا چلا جاؤں

*

دنیا سے مرا فاصلہ بڑھتا رہے چاہے

تجھ سے جو ہے دوری اسے کم کرتا چلا جاؤں

*

ہر آن کوئی تازہ تڑپ رخت سفر ہو

جو زخم ملے سینے میں دم کرتا چلا جاؤں

*

فرق آئے نظر نشو و نما میں مجھے جن کی

ایسی سبھی شاخوں کو قلم کرتا چلا جاؤں

*

۱۷۴

آج اس کے چلے جانے کے افسوس میں شامل

کل اپنے نہ رہنے کا بھی غم کرتا چلا جاؤں

*

دریا کی خوشامد نہ کروں پیاس کے ہوتے

ہونٹوں پہ زباں پھیر کے نم کرتا چلا جاؤں

***

۱۷۵

اظہار سلیم (مالیگاؤں )

تحت الثریٰ میں قید ہوں باہر نکال دے

سات آسماں کی سیر کروں وہ کمال دے

*

مشعل بدست کوئی نہیں میرے شہر میں

ہر سمت روشنی کا سمندر اچھال دے

*

میں رنگ رنگ پھیل سکوں کائنات پر

قوس قزح کا روپ مجھے بے مثال دے

*

طائر ہوں دھوپ دھوپ جلا ہے مرا وجود

پیڑوں کی سرد چھاؤں ثمر ڈال ڈال دے

*

چار آئینوں کے گھر میں اندھیرا ہے کس قدر

اک تیرا عکس نور مگر لازوال دے

*

طالب ہوں حسن لفظ کا، روشن خیال کا

وصف سخنوری مرے کاسے میں ڈال دے

***

۱۷۶

حبیب راحت حباب (کھنڈوہ)

( ۱)

میں کہ تیرا محتاج عنایت یا رب العزت یا رب العزت

کب تک رہوں گا محروم رحمت یا رب العزت یا رب العزت

*

بیت رہی ہے کس مشکل سے، واقف ہے تو حال دل سے

عمر یونہی نہ جائے اکارت یا رب العزت یا رب العزت

*

تجھ سا نہیں کوئی قدرت والا تجھ سا نہیں کوئی حکمت والا

سب تیرے بندے سب تیری خلقت یا رب العزت یا رب العزت

*

رد بلا کر رد بلا کر رد بلا کر رد بلا کر

دور ہو ظلمت دور ہو ظلمت یا رب العزت یا رب العزت

*

ذکر محمد باعث رفعت، عشق محمد تیری عبادت

محمد بھی مدحت نعت بھی مدحت یا رب العزت یا رب العزت

*

رنگ میں تیرے رنگ جائے گا، تیرا یہ راحتؔ تیرے کرم سے

رنگ تو لائے رنگ طبیعت یا رب العزت یا رب العزت

***

۱۷۷

(۲)

دلوں کو پہلے تو صبر جمیل دے یا رب

پھر ہجر آشنا لمحہ طویل دے یا رب

*

اب اور کتنا لہو دیں عدو کے خنجر کو

اب اور ظلم کو اتنی نہ ڈھیل دے یا رب

*

ہر اک محاذ پہ نمرود ہیں مقابل میں

ہمیں بھی حوصلہ ہائے خلیل دے یا رب

*

مجھے عصائے کلیمی تو کر عطا پہلے

پھر اس کے بعد تو دریائے نیل دے یا رب

*

سر غرور نہ اونچا ہو تیری عظمت سے

تو اپنے ہونے کی کچھ تو دلیل دے یا رب

*

حبابؔ دیتا ہے اب واسطہ محمد ؐ کا

نہ فاصلے نہ دعا کو فصیل دے یا رب

***

۱۷۸

(۳)

پھر میرے قلب و نظر نور سے بھر دے مولا

پھر اٹھا دے یہ حجابات کے پردے مولا

*

ہو چکے راستے مسدود سبھی کوشش کے

اب دعاؤں کو ہی تاثیر و اثر دے مولا

*

آسمانوں کی بلندی تو تجھے زیبا ہے

خاک زاروں کو زمینوں کی خبر دے مولا

*

میرے احباب کے دل اور کشادہ کر دے

مجھ مہاجر کو نہ دیوار نہ در دے مولا

*

ہو تیرے حق و صداقت کا علم بردار حبابؔ

عیب لاکھوں دے اسے ایک ہنر دے مولا

***

۱۷۹

ڈاکٹر مسعودجعفری (حیدرآباد)

*

بھڑکتا جا رہا ہے کیوں چراغ دل مرے مولیٰ

بچانا لگ رہا ہے کس لئے مشکل مرے مولیٰ

*

تجھی سے مانگتا ہوں میں سکون دل مرے مولیٰ

بہت ہی دور ٹھہری ہے مری منزل مرے مولیٰ

*

تری تعریف ممکن ہی نہیں ہے کوئی بھاشا میں

کہاں تلگو، کہاں اردو ، کہاں تامل مرے مولیٰ

*

جواب دشمناں لکھوں تو مجھ کو روشنائی دے

رہے گی جرأت اظہار بھی کامل مرے مولیٰ

*

مری ہستی کو حق کی روشنی میں خوب نہلا دے

کھڑے ہیں ہر طرف کردار کے قاتل مرے مولیٰ

*

ترے ہی ذکر سے چلتی رہے یہ سانس کی دنیا

تری ہی یاد میں ڈوبا رہے یہ دل مرے مولیٰ

*

کہاں ہیں جعفریؔ کے پاس تخت و تاج عالم کے

کھڑی ہے آج بھی کشتی اب ساحل مرے مولیٰ

***

۱۸۰