انتخاب حمد و مناجات

انتخاب حمد و مناجات 0%

انتخاب حمد و مناجات مؤلف:
: محمد امین
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 193

انتخاب حمد و مناجات

مؤلف: محمد امین
: محمد امین
زمرہ جات:

صفحے: 193
مشاہدے: 90189
ڈاؤنلوڈ: 2553

تبصرے:

انتخاب حمد و مناجات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 90189 / ڈاؤنلوڈ: 2553
سائز سائز سائز
انتخاب حمد و مناجات

انتخاب حمد و مناجات

مؤلف:
اردو

اختر بیکانیری

زباں تیری فلک تیرا ہر اک کو جستجو تیری

مکین ولا مکاں تیرا گلوں میں رنگ و بو تیری

*

عیاں ہے ذرے ذرے سے تیری شان کریمانہ

غرض تا حد امکاں تک ہے مدحت چار سو تیری

*

نہیں موقوف رسم بندگی دنیا میں انساں پر

چرندوں اور پرندوں کی زباں پر گفتگو تیری

*

جگا دیتی ہے بانگ مرغ شب میں سونے والوں کو

ادا کرتے ہیں برگ و گل عبادت با وضو تیری

*

دہلا دیتی ہے منھ غنچوں کا شبنم صبح دم آ کر

رواں صحن چمن ہوتی ہے صدائے حق و ہو تیری

*

ہر اک دل میں نہاں ہے اور ہے نظروں میں پوشیدہ

پھرا دونوں جہاں میں لے کے اخترؔ آرزو تیری

***

۴۱

رحمتِ الٰہی

ڈاکٹر شرف الدین ساحلؔ

صبحِ صادق کا چہرۂ خنداں

شامِ رنگیں کا جلوۂ محجوب

فرش کی طرح سے بچھی یہ زمیں

احمریں مہر یہ چمکتا ہوا

جگمگاتا یہ ماہتابِ حسیں

مسکراتے یہ انجمِ تاباں

بادِ صرصر کی شوخیِ پیہم

بحر، دریا، ندی کا آبِ رواں

کوہساروں کے سلسلوں کا سماں

سب میں رحمت ہے جلوہ گر تیری

***

۴۲

نغمۂ سرمدی پرندوں کے

پی پپیہے کی، کوک کوئل کی

جاں نوازیِ نالۂ بلبل

رقصِ طاؤس کا حسیں انداز

صحنِ گلشن کی ساری رعنائی

عطر بیزیِ خوشبوئے گلزار

رنگ در رنگ منظرِ دلکش

گل کا رُخ چومتی نسیمِ سحر

کفِ گل پر جمی ہوئی شبنم

تیرے ذوقِ جمال کے شاہد

سب میں رحمت ہے جلوہ گر تیری

***

۴۳

ریشم و اون، اطلس و کمخواب

عنبر و مشک و عطر اور کافور

ننھی منی سی نحل کی تخلیق

چار پایوں کا نفع بخش وجود

باغ میوے کے، کھیت غلے کے

بحرِ پُر جوش کے تلاطم میں

موج کو چیرتے ہوئے یہ جہاز

ریت و ماہی و لولو و مرجاں

نعمتوں کا تری شمار کہاں

سب میں رحمت ہے جلوہ گر تیری

***

۴۴

مرسلات و مقسمات کا زور

حاملات اور زاریات کا زور

عاصفات اور ناشرات کا زور

جاریات اور فارقات کا زور

دوش پر ان کے اُڑتے ابرِ کرم

ارض کی تشنگی بجھاتے ہیں

مردہ سبزوں کو لہلہلاتے ہیں

بیج کو قوتِ نمو دے کر

پیڑ، پودے، شجر اگاتے ہیں

سب میں رحمت ہے جلوہ گر تیری

***

۴۵

زلزلہ، رعد، برق، قحط، وبا

موج، سیلاب اور طغیانی

کوہساروں میں آتش افشانی

برف باریِ موسمِ سرما

گرم موسم میں چلتی باد سموم

یورشِ آب و باد بارش میں

ہیں بظاہر ترے جلال مگر

سب میں رحمت ہے جلوہ گر تیری

***

۴۶

شبیر آصف (مالیگاؤں )

محبتوں کا صلہ بے مثال رکھتا ہے

وہ میرا مجھ سے زیادہ خیال رکھتا ہے

*

گو میرے حیطۂ ادراک میں نہیں آتا

مگر وہ دل سے تعلق بحال رکھتا ہے

*

میں سرد و گرم زمانے کے جھیل لیتا ہوں

وہ موسموں کو میرے حسب حال رکھتا ہے

*

نظام عالم امکاں سے آگہی کے لیے

وہ طرح نو میں بنائے زوال رکھتا ہے

*

شکست حربۂ بوجہل و بولہب کے لیے

وہ شہر سنگ میں آئینہ ڈھال رکھتا ہے

*

شعور حرف سخن سے نواز کر مجھ کو

وہ میرا طرز تکلم بحال رکھتا ہے

***

۴۷

صالحؔ بن تابش (مالیگاؤں )

مہکی مہکی ہوئی رہ گزر کس کی ہے

ایک خوشبو مری ہم سفر کس کی ہے

*

یہ جو لمحہ بہ لمحہ مرے ساتھ ہے

ہر نظر سے پرے وہ نظر کس کی ہے

*

مری ہستی تو تھی ایک سادہ ورق

اس پہ تحریر معجز اثر کس کی ہے

*

کون منظر یہ منظر ہے چھایا ہوا

اک کشش ہر طرف منتشر کس کی ہے

*

ننگی شاخوں نے کیں زیب تن خلعتیں

یہ عنایت شجر در شجر کس کی ہے

*

پل میں صالحؔ کو جو آئینہ کر گئی

غیرت شیشہ گر وہ نظر کس کی ہے

***

۴۸

سلیم شہزاد (مالیگاؤں )

دشت بے سمت میں یہ راہ گزر کس نے دیا

پر شکستہ ہوں مجھے اذن سفر کس نے دیا

*

کس نے پتھر کی سیاہی پہ سجایا سبزہ

گونگے لفظوں کی دعاؤں کو اثر کس نے دیا

*

کس نے چسپاں کئے بے رنگ فضا پر منظر

ریت کو آب تو بنجر کو شجر کس نے دیا

*

کس نے مایوس فضاؤں میں دیا حرف امید

خواب شب دے کے مجھے خواب سحر کس نے دیا

*

کس نے آفات و بلا میرے مقابل لائے

اور مجھے حوصلۂ خوف و خطر کس نے دیا

*

کس نے پہچان عطا کی مجھے این و آں کی

زشت و ناخوب میں یہ حسن نظر کس نے دیا

*

کس نے دی شعلہ نوائی مرے ہونٹوں کو سلیمؔ

شہر آہن میں مجھے دست ہنر کس نے دیا

****

۴۹

ڈاکٹر معین الدین شاہین (بیکانیر)

اک یہ ہی التجا ہے میری، میرے خدا سے

کر دے تو سرفراز مجھے اپنی عطا سے

*

آدم کا میں بیٹا ہوں خطا کرنے کا عادی

ناراض نہ ہو جانا کہیں میری خطا سے

*

اللہ تو کریم ہے، پروردگار ہے

محروم کیوں رہوں میں بھلا تیری عطا سے

*

اللہ کا نام کافی و شافی ہے بالیقیں

’’اے درد سروکار نہ رکھ کوئی دوا سے ‘‘

*

ہر وقت میرے ورد زباں ’’یا کریم‘‘ ہے

محفوظ اس لیے میں رہا رنج و بلا سے

*

تیری رضا کو اپنی سمجھتا ہوں میں رضا

تب ہی تو فیضیاب ہوں میں تیری دیا سے

*

راتوں کو جاگ جاگ کے کرتا ہوں میں دعا

ملتا ہے دل کو چین تری حمد و ثنا سے

*

۵۰

رکھ لینا لاج حشر میں بندے کی اے رحیم

عاصی ہوں خوف کھاتا ہوں میں روز جزا سے

*

شاہیں ؔ رہے خیال یہ اللہ کی حمد ہے

لفظوں کو پہلے تولنا تو حمد و ثنا سے

***

۵۱

بیتاب کیفی (بھوجپور)

تو ہے خلاق دو جہاں یا رب

تیری رحمت ہے بے کراں یا رب

*

ذرہ ذرہ فنا بداماں ہے

ایک تو ہی ہے جاوداں یا رب

*

پھول خوشبو بہار رعنائی

تیری عظمت کے ہیں نشاں یا رب

*

سب ہیں سیم و رجا میں سرگرداں

مرغ و ماہی و انس و جاں یا رب

*

حسن تیرا تمام بکھرا ہے

یہ زمیں ہو کہ آسماں یا رب

*

بخشش و مغفرت کے ساماں سے

عقل حیراں ہے چپ زباں یا رب

*

ساری دنیا میں فیض جاری ہے

بحر الطاف ہے رواں یا رب

*

۵۲

آج تک اس جہان فانی میں

راز سمجھا کوئی کہاں یا رب

*

سن بیتابؔ دل کی آوازیں

ہو عطا ندرت بیاں یا رب

***

۵۳

ڈاکٹر مقبول احمد مقبول (اودگیر)

ہے صبح و شام تجھ سے مری ایک ہی دعا

میرے لبوں پہ نام ہو تیرا ہی ائے خدا

*

کس کس کا شکر ادا کروں اے رب العالمین

تیری عنایتوں کی نہ حد ہے نہ انتہا

*

ہر شئے گواہی دیتی ہے تیرے وجود کی

ہر چیز سے عیاں تیری قدرت ہے ائے خدا

*

محدود میری فکر و نظر، تو محیط کل

حمد و ثنا کا حق ہو بھلا کس طرح ادا

*

میری بساط کیا ہے، یہ تیرا ہی ہے کرم

دنیائے شاعر ی میں جو مقبولؔ ہو گیا

***

۵۴

حمد باری تعالیٰ

فرید تنویر (ناگپور)

ہر طرف جلوہ عام ہے تیرا

سب سے اعلیٰ مقام ہے تیرا

*

یہ زمیں، آسماں تری مخلوق

گلستاں، کہکشاں تری مخلوق

ذرہ ذرہ غلام ہے تیرا

ہر طرف جلوہ عام ہے تیرا

سب سے اعلیٰ مقام ہے تیرا

*

فرش رنگیں و عرش عالیشاں

تو نے پیدا کئے ہزاروں جہاں

کتنا دلکش نظام ہے تیرا

ہر طرف جلوہ عام ہے تیرا

سب سے اعلیٰ مقام ہے تیرا

*

۵۵

علم و حکمت کے بے بہا گوہر

عقل و دانش کے قیمتی جوہر

دینا دنیا کو کام ہے تیرا

ہر طرف جلوہ عام ہے تیرا

سب سے اعلیٰ مقام ہے تیرا

*

یہ شجر، یہ حجر یہ گل بوٹے

ماہ و خورشید نور کے چشمے

تیری صنعت ہے کام ہے تیرا

ہر طرف جلوہ عام ہے تیرا

سب سے اعلیٰ مقام ہے تیرا

*

پاک توریت، با صفا انجیل

نور قرآں، زبور کی قندیل

ذکر تیرا کلام ہے تیرا

ہر طرف جلوہ عام ہے تیرا

سب سے اعلیٰ مقام ہے تیرا

*

علم تنویرؔ کو عطا کر دے

نور ایماں سے قلب کو بھر دے

ناتواں اک غلام ہے تیرا

ہر طرف جلوہ عام ہے تیرا

سب سے اعلیٰ مقام ہے تیرا

***

۵۶

پروردگار دیتا ہے

نور منیری (پونہ)

کسی کی آنکھ میں آنسو اتار دیتا ہے

کسی کے دل کو وہ، صبر و قرار دیتا ہے

*

کبھی امیر کو ٹھوکر پہ، مارتا ہے وہ

کبھی غریب کی، قسمت سنوار دیتا ہے

*

حسین پھول کھلاتا ہے، ریگزاروں میں

خزاں نصیب چمن کو، بہار دیتا ہے

*

فلک شگاف پہاڑوں کا چیر کر سینہ

زمیں کی پیاس کو، وہ آبشار دیتا ہے

*

بہاؤ بحر کا خشکی پہ کم نہ ہو تو وہ

سمندروں میں جزیرے ابھار دیتا ہے

*

وہ نغمہ بار پرندوں کے چہچہوں میں کبھی

زمین والوں پہ، رحمت اتار دیتا ہے

*

مرے گناہ پہ، چادر بھی ڈالتا ہے وہ

سماج میں بھی وہ، مجھ کو وقار دیتا ہے

*

۵۷

بھٹک بھی جاؤں، کسی دشت بیکراں میں اگر

تو مجھ کو پیار سے آ کر، سہار دیتا ہے

*

خیال رکھتا ہے، سب کی ضرورتوں کا وہ

کسی کو نقد، کسی کو ادھار دیتا ہے

*

کسی کے پیار کی کشتی، بھنور میں پھنس جائے

اسے بھی نورؔ کنارے اتار دیتا ہے

***

۵۸

راج پریمی (بنگلور)

مرے دل کو اب بدل دے اے رب عالمیں تو!

میں تو مشت آب و گل ہوں، ہے نور آفریں تو!

*

یہ اثر ہے بندگی کا، یا گردشوں کا حاصل

میں تو زیر آسماں ہوں، ہے محور زمیں تو!

*

میں ہوں، دوش کا شکاری، ترے رحم کا بھکاری

میں تو صرف اک خطا ہوں، ہے منصف و امیں تو!

*

ترا رنگ ہے نظر میں، ترا نور چار سو ہے

کوئی صدق دل سے دیکھے، مرے دل کے ہے قریں تو!

*

تری برکتوں کے سجدے، تری رحمتوں کے صدقے !

مری روح کی ہے عظمت، مری جان آفریں تو!

*

یہی دل کی آرزو ہے، یہی میرا مدعا ہے

ہر سانس تجھ پہ قرباں، اتنا ہے دل نشیں تو!

*

دنیا ہے صرف دھوکا، اے راجؔ کچھ نہیں ہے !

تُو ہی میرا آسرا ہے، مری جان کا امیں تو!

***

۵۹

امیر اللہ عنبر خلیقی (ناگپور)

میرا کیا ہے، سب تیرا ہے

بس یہ کافی، تو میرا ہے

*

تو ہی بقا اور تو ہی باقی

ہم سب کا فانی ڈیرا ہے

*

قرآنی تعلیم نے ہم کو

تیری جانب ہی پھیرا ہے

*

یہ قانون تری قدرت کا

وہ ہی کاٹے جو پیرا ہے

*

جانے کیا وہ تیری عظمت

جس کو دنیا نے گھیرا ہے

*

کیسے جھکوں اوروں کے آگے

معبودی حق جب تیرا ہے

*

شکر تیرا کرتا ہے عنبرؔ

اس پر احساں بہتیرا ہے

***

۶۰