انتخاب حمد و مناجات

انتخاب حمد و مناجات 0%

انتخاب حمد و مناجات مؤلف:
: محمد امین
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 193

انتخاب حمد و مناجات

مؤلف: محمد امین
: محمد امین
زمرہ جات:

صفحے: 193
مشاہدے: 90148
ڈاؤنلوڈ: 2550

تبصرے:

انتخاب حمد و مناجات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 90148 / ڈاؤنلوڈ: 2550
سائز سائز سائز
انتخاب حمد و مناجات

انتخاب حمد و مناجات

مؤلف:
اردو

ڈاکٹر بختیار نواز (بجرڈیہہ)

ابتدا تو ہے انتہا تو ہے

دونوں عالم کا رہنما تو ہے

*

چاند تاروں میں نور ہے تیرا

حد امکاں ظہور ہے تیرا

*

غنچۂ و گل میں ہے ادا تیری

تیرگی میں بھی ہے ضیا تیری

*

میں ہوں کمزور اور قوی تو ہے

میں ہوں محتاج اور غنی تو ہے

*

میرے ہستی سنوار دے مولیٰ

میرے دل کو قرار دے مولیٰ

*

سب کا ہے تو ہی مالک و مختار

تیرے آگے نوازؔ ہے لاچار

***

۶۱

حمد باری تعالیٰ

یونس انیس (ناگپور)

اے خالق رب العلا

اے مالک ارض و سما

اے ذات باری اے خدا

تو لائق حمد و ثنا

*

روز و شب و صبح مسا

ہم سب ترے مدحت سرا

*

الحمد للہ سب نور نور

ہر سمت بس تیرا ظہور

یہ کوہ یہ دشت و طیور

سب کلمہ گو تیرے حضور

*

پروردگار جز و کل

آب و گل و ہر خار و گل

*

سب سے بڑا سب سے عظیم

تو صاحبِ لطف عمیم

محتاج ہم سب تو نعیم

رحمن تو ہے تو رحیم

*

۶۲

اے کردگار انس و جاں

تو رحم والا مہرباں

*

ہم عاصیِ دامن تہی

از بسکہ ہے شرمندگی

اک آسرا ہے بس یہی

لا تقنطوا من رحمتی

*

لاریب فیہ اے خدا

تو مالکِ روزِ جزا

*

ہر چیز میں موجود تو

ہر چیز کا مقصود تو

ہم عابد و معبود تو

تو شاہد و مشہود تو

*

ہم ساجد و مسجود تو

ہم عابد و معبود تو

*

یا ربنا، یا ربنا

جو راہ حق ہے حق نما

وہ راہِ حق ہم کو دکھا

گم کردہ را ہوں سے بچا

*

فیضانِ جنت ہو مدام

نارِ جہنم ہو حرام

۶۳

حمد ربِ کائنات

کیفی اسماعیلی (کامٹی)

میرا اللہ تعالیٰ تو ہے رحمان بہت

مجھ گنہگار کی بخشش کا ہے امکان بہت

*

ہے رحیم اور بھی اک نام مرے مالک کا

کر رہا ہوں میں اسی نام کی گردان بہت

*

ڈوبتے ڈوبتے ایمان مرا تیر گیا؟

میں نے دل سے جو پڑھی سورۂ رحمان بہت

*

ورد آیات کریمہ کا اثر کیا کہئے

ہوتی رہتی ہیں مری مشکلیں آسان بہت

*

جس نے یونسؑ کو بچایا شکم ماہی میں

ہے بہر حال وہی میرا نگہبان بہت

*

دونوں عالم کے سمجھنے کو یہی کافی ہے

ہے ہمارے لئے اللہ کا عرفان بہت

*

سچ تو یہ ہے، کہ ہے سائنس اسی کا صدقہ

ہر مسلمان سمجھ کر پڑھے قرآن بہت

*

۶۴

ہر گھڑی کلمۂ توحید پڑھا کرتا ہوں

ہے اسی نور میں کھو جانے کا ارمان بہت

*

تر ہیں رخسار اگر اشک پشیمانی سے

ہے گنہگار کی بخشش کا یہ سامان بہت

*

مشرکین لاکھ لگاتے رہیں بہتان مگر

میرا مالک مرا مولا تو ہے سبحان بہت

*

ہے خداوند تعالیٰ کا کرم لامحدود

حمد کہنے کے لئے ملتے ہیں عنوان بہت

*

اس کی روزی میں بڑی برکتیں دیکھیں ہم نے

جس کے گھر آتے ہیں اللہ کے مہمان بہت

*

ہم نے خود رکھ دیا دشوار بنا کے ورنہ

ہے مرا مذہب اسلام تو آسان بہت

*

دے رہا ہے وہ بلا کسب ہی روزی کیفیؔ

مجھ پہ رزاق دو عالم کا ہے احسان بہت

***

۶۵

احمدرئیس (کلکتہ)

اعلیٰ ہے تو، عظیم ہے تو، رب ذوالجلال

رحمن ہے، رحیم ہے تو، رب ذوالجلال

*

تیری نوازشوں کے طلب گار ہیں سبھی

سب س بڑا کریم ہے تو رب ذوالجلال

*

شعلوں میں کون، کون ہے مچھلی کے پیٹ میں

عالم ہے تو، علیم ہے تو، رب ذوالجلال

*

صدیوں سے ہے یہ فرش زمیں بے ستون عرش

ان سب سے بھی قدیم ہے تو، رب ذوالجلال

*

پوشیدہ حکمتیں ہیں ترے حرف حرف میں

حاکم ہے تو، حکیم ہے تو، رب ذوالجلال

*

دیتا ہے رزق سب کو تو سب کے نصیب کا

قاسم ہے تو، قسیم ہے تو، رب ذوالجلال

*

ذہن رئیسؔ پر بھی ہے مولا ترا کرم

اور دل میں بھی مقیم ہے تو رب ذوالجلال

***

۶۶

محمد افضل خان (ہوڑہ)

خالق، مالک، اعلیٰ تو ہی

سب سے عظمت والا تو ہی

*

شاہ و گدا سب تیرے غلام

پاتے ہیں تجھ سے انعام

*

عزت ذلت ہاتھ میں تیرے

شہرت دولت ہاتھ میں تیرے

*

جس کو چاہے علم و ہنر دے

تو ہی روزی روٹی گھر دے

*

رکھوالا عالم کا تو ہی

سب سے برتر بالا تو ہی

*

روز و شب ہیں تیرے دم سے

ہم ہیں زندہ تیرے کرم سے

*

تیری ثنا پڑھتا ہے افضلؔ

دم تیرا بھرتا ہے افضلؔ

***

۶۷

رزاق افسر (میسور)

تیری آرزو مری زندگی، مری بندگی تری جستجو

یہ ہے روز و شب مرا مشغلہ، مرے سلسلے یہی کو بکو

*

تری ذات منبع نور ہے، ترا نور کل کا ظہور ہے

تو مجیب اسود و طور ہے، تو نہاں کہیں کہیں روبرو

*

کوئی ایسا دیدہ و دل کہاں، تری ذات جس پہ نہ ہو عیاں

تو قدیم و خالق کن فکاں، تو محیط عالم رنگ و بو

*

تری راہ صبح کے رابطے، ترے فاصلے مرے رت جگے

یہ نیاز و ناز کے مرحلے، کہیں تشنہ لب کہیں آبجو

*

تری عظمتوں کے سرور سے ہوئی فکر میری نہال جب

تو ملا کمال سخن مجھے، بنی آئینہ مری گفتگو

*

ہو بیان کیا تری برتری، ترا نام جب بھی لیا کوئی

تو زبان خلق ہے کہہ اٹھی، تری شان جل جلالہٗ

***

۶۸

نظیر احمد نظیر (کامٹی)

شکم میں ماں کے ہر اک شکل کو بناتا ہے

مگر کسی کو کسی سے نہیں ملاتا ہے

*

میرے خدا یہ تیری شان کبریائی ہے

اندھیرے گھر سے اجالے میں تو ہی لاتا ہے

*

ملا کے رکھ دیا دہقاں نے خاک میں گندم

یہ تیری شان ہے اس کو تو ہی اگاتا ہے

*

میں اپنی نیند سے جاگوں مری مجال کہاں

تو ہی سلاتا ہے یا رب تو ہی اٹھاتا ہے

*

نظر میں تاب کہاں دیکھنے کی نظارے

تیرا ہی نور ہے آنکھوں میں جو دکھاتا ہے

*

پلک جھپکتے ہی یہ زندگی ہو جائے فنا

تیرا کرم ہے جو سانسوں میں آتا جاتا ہے

*

یہ بات سچ ہے کے جس کا مجھے نہیں انکار

نظیرؔ حکم سے تیرے قلم اٹھاتا ہے

***

۶۹

طالب صدیقی (کلکتہ)

درد کا درماں چین کا عنوان اک تو ہی

سب کے خانۂ دل کا مہماں اک تو ہی

*

تیری ذات لافانی کا کیا کہنا

ذرے ذرے میں ہے نمایاں اک تو ہی

*

باغ بھی تیرے، گل بھی تیرے ہیں مالک

رکھتا ہے شاداب گلستاں اک تو ہی

*

غم کی کوئی گنجائش ہو تو کیسے

جب رکھتا ہے دل کو شاداں اک تو ہی

*

کرنا ہے تا عمر خدایا مجھ کو طواف

میں پروانہ، شمع فروزاں اک تو ہی

*

بخشی ہے سورج کو تو نے تابانی

چاند کو بھی کرتا ہے درخشاں اک تو ہی

*

ہوتا ہے تاریک دل طالبؔ جب بھی

کر دیتا ہے اس میں چراغاں اک تو ہی

***

۷۰

رخشاں ہاشمی (مونگیر)

زندگی تیری مہربانی ہے

تیری بس تیری ہی کہانی ہے

*

تیرا جلوہ ہے چار سو روشن

ہے کرم تیرا زندگانی ہے

*

سارے منظر میں تجھ کو دیکھا ہے

سارا عالم تری نشانی ہے

*

تو ہی عزت دے تو ہی ذلت دے

آگ بھی تو ہے، تو ہی پانی ہے

*

تو جو چاہے تو سب فنا کر دے

ہر جگہ تیری راجدھانی ہے

*

یاد میں تیری کر رہا ہے جو

رخشاں ؔ کی آنکھ کا وہ پانی ہے

***

۷۱

صابر فخر الدین (یادگر)

جس کو حاصل ہے آگہی تیری

اس پہ رحمت فزوں ہوئی تیری

*

خود پہ احسان ہی تو کرتا ہے

وہ جو کرتا ہے بندگی تیری

*

میں اندھیروں کو چیر جاؤں گا

ہو اگر ساتھ روشنی تیری

*

ہر کہہ و مہہ کو جو نوازے ہے

ہو نظر مجھ پہ بھی وہی تیری

*

ٹھیک منزل سے جا ملاتی ہے

گم رہوں کو بھی رہبری تیری

*

چاند سورج ہوں یا وہ ارض و سما

سب ہی کرتے ہیں بندگی تیری

*

تیرے صابرؔ کے سامنے کیوں کر

ہو نہ مد نظر خوشی تیری

***

۷۲

صابر فخر الدین (یادگر)

نئے چراغ پرانے چراغ بھی تیرے

جو آ رہے ہیں نظر وہ ایاغ بھی تیرے

*

ہمارے دل کا گلستاں بھی ہے ترا یا رب

جو ہیں بہشت بریں میں وہ باغ بھی تیرے

*

نظر سے تیری نہیں ہے کوئی بھی شئے مخفی

قدم قدم پہ ہیں پھیلے سراغ بھی تیرے

*

جو تنگیاں ہیں وہ میرا نصیب ہیں یا رب

تمام وسعتیں سارے فراغ بھی تیرے

*

مجھے ملی ہیں جو علم و عمل کی سوغاتیں

ہیں ان کے طاق میں روشن چراغ بھی تیرے

***

۷۳

علیم الدین علیم (کلکتہ)

ہم کو ہر شے میں نظر آتا ہے جلوہ تیرا

سارے عالم میں ہے معبود اجالا تیرا

*

ایک پتا نہیں ہلتا کبھی شاخ گل پر

جب تلک ہوتا نہیں کوئی اشارا تیرا

*

لفظ کن سے کیا تخلیق جہاں کو تو نے

تیری مخلوق پہ احسان ہے ربا تیرا

*

کوئی معبود نہیں تیرے سوا اے اللہ

سر بہ سجدہ ہے ترے سامنے بندا تیرا

*

ہو کوئی جن کہ بشر یا ہوں چرند اور پرند

سب پہ یکساں ہے کرم خالق دنیا تیرا

*

تیرے بندوں کی عبادت کا ہے پہلا مرکز

کیوں نہ معمور ہو انوار سے کعبا تیرا

*

سانس جب تک مری چلتی رہے اے رب قدیر

ہو ادا مجھ سے ہر اک حال میں سجدا تیرا

*

سر جھکاتا ہے علیمؔ اس لیے تیرے آگے

اس کا معبود ہے تو اور وہ بندا تیرا

***

۷۴

حیدر علی ظفر دیگلوری

افضل ارفع اعلیٰ تو

مالک سب کا مولا تو

*

قائم دنیا تجھ سے ہے

ایسی ہستی والا تو

*

سب تیرے گن گاتے ہیں

شان و شوکت والا تو

*

خوشبو تیری ہر گل میں

گلشن گلشن صحرا تو

*

ہندو مسلم سکھ تیرے

سب کاموں داتا تو

*

بت خانہ ہو یا ہو کعبہ

ہر گھر کا رکھوالا تو

*

ہے تیرا محتاج ظفرؔ

میں بندہ ہوں آقا تو

***

۷۵

حامد رضوی حیدرآبادی

سب پہ لازم احترام اللہ کا

ذرہ ذرہ ہے غلام اللہ کا

*

سارے بندوں کی بھلائی کے لئے

عرش سے اترا کلام اللہ کا

*

بھوک دے کر بھول وہ جاتا نہیں

رزق کا دینا ہے کام اللہ کا

*

جس کو رکھنا ہے جہاں رکھتا ہے وہ

ایسا بہتر ہے نظام اللہ کا

*

ہے وہی مختار کل معبود حق

ہو لبوں پر صرف نام اللہ کا

*

یہ زمین و آسماں کل کائنات

راج ہے ہر جا تمام اللہ کا

*

کہتے ہیں حامدؔ جسے وہ رات دن

نام لیتا ہے مدام اللہ کا

***

۷۶

سکندر عرفان (کھنڈوہ)

سب کو جزا کا دینے والا اللہ تو

اور سزا کا دینے والا اللہ تو

*

یوں تو دوا کا دینے والا ہے انساں

صرف شفا کا دینے والا اللہ تو

*

ذلت تری ہی صرف بقا کی حامل ہے

حکم فنا کا دینے والا اللہ تو

*

موسیٰ جب مجبور کھڑے تھے دریا پر

ان کو عصا کا دینے والا اللہ تو

*

یہ نہ ملیں تو پل بھر میں مر جاتے ہم

پانی ہوا کا دینے والا اللہ تو

*

پودوں کے ان پژمردہ سے ہونٹوں کو

جام گھٹا کا دینے والا اللہ تو

*

غم بھی دئے ایوبؔ کو تو نے یہ سچ ہے

صبر و رضا کو دینے والا اللہ تو

*

میں نے کی عرفانؔ جو میری دنیا

صلہ وفا کا دینے والا اللہ تو

***

۷۷

صابر جوہری (بھدوہی)

(۱)

رقم اوصاف رب کے کر رہا ہے

قلم کاغذ پہ سجدے کر رہا ہے

*

کرم کی ہو رہی ہے عام بارش

زمانہ اس کے چرچے کر رہا ہے

*

منور نور ہستی سے تو یا رب!

دلوں کے آبگینے کر رہا ہے

*

عطا کر کے لقب یٰسین و طہٰ

بلند انساں کے درجے کر رہا ہے

*

اسے بھی رزق تو دیتا ہے یا رب!

خدائی کے جو دعوے کر رہا ہے

*

جہنم سے ڈراتا ہے اگر تو

تو جنت کے بھی وعدے کر رہا ہے

*

ترا احساں کہ ہر طوفاں کی زد سے

مری کشتی کنارے کر رہا ہے

*

۷۸

پرندہ بیٹھ کر ڈالی پہ ہر دم

ترا ہی ذکر جیسے کر رہا ہے

*

عطا ہو جائے علم و فن کی دولت

دعا صابرؔ یہ دل سے کر رہا ہے

***

۷۹

(۲)

سیاروں کی گردش میں پنہاں تیری قدرت ہے

تار نفس کی ہر لے میں جیسی تیری حکمت ہے

*

پھولوں سے اور خاروں سے سورج چاند ستاروں سے

دریاؤں کہساروں سے ظاہر تیری عظمت ہے

*

ہر اک پھول کی خوشبو میں قوس قزح کے جادو میں

جگمگ جگمگ جگنو میں یا رب! تیری جلوت ہے

*

مہر و ماہ و اختر میں، برق و شرر کے تیور میں

گردوں کے ہر منظر میں ترا جمال وحدت ہے

*

علم دیا عرفاں بخشا، لاثانی قرآں بخشا

بخشش کا ساماں بخشا تیری کیا کیا رحمت ہے

*

تیری رحمت کا طالب تنکا تنکا ہے لاریب

تیرے قہر سے خوف زدہ یا رب پربت پربت ہے

*

نوک خامہ تو بھی لکھ رب کی تحمید و تقدیس

ذرہ ذرہ روز و شب جب مشغول مدحت ہے

*

نور شمع ایماں سے روشن ہے دنیائے دل

صابرؔ پر مولائے کل تیری کتنی رحمت ہے

***

۸۰