Ptolemy سے لے کر Hubble تک تقریباً دو ہزار سال کی سائنسی ترقی کے بعد انسان اس چیز کو معلوم کرنے میں کامیاب ہوا ہے کہ ہر شے اپنے اپنے مدار میں حرکت پذیر ہے اور کوئی چیز بھی ساکن نہیں ہے۔ یہی حقیقت تقریباً انہی الفاظ میں قرآن حکیم کے مختلف مقامات پر بیان ہوئی ہے۔ اگر اہل علم نے قرآن سے رہنمائی لی ہوتی تو انھیں ان حقائق کو دریافت کرنے میں اتنا وقت صرف نہ کرنا پڑتا:
"اور وہی ہے جس نے رات اور دن، سورج اور چاند بنائے۔ ان میں سے ہر ایک ایک خاص مدار ( Orbit ) کے اندر گردش کر رہا ہے۔" (الانبیاء۲۱:۳۳)
"نہ سورج کی مجال ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات اور دن پر سبقت کر سکتی ہے۔ ہر ایک اپنے اپنے خاص دائرے میں گردش کر رہا ہے۔" (یسین۳۶:۴۰)
"اور سورج اپنے ایک معین مدار پر گردش کر رہا ہے۔ یہ خدائے عزیز و علیم کی منصوبہ بندی ہے۔" (یسین۳۶:۳۸)
"اس نے آسمانوں اور زمین کو ایک مقصد کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ وہ رات کو دن پر ڈھانکتا ہے اور دن کو رات پر۔ اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے۔ ہر ایک چل رہا ہے، ایک خاص مقرر شدہ مدت تک کے لیے۔" (الزمر۳۹:۵)
"وہ داخل کرتا ہے رات کو دن میں اور داخل کرتا ہے دن کو رات میں اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے۔ ہر ایک گردش کر رہا ہے، ایک معین مدت کے لیے۔" (فاطر۳۵:۱۳)
برسوں کی تحقیق کے بعد انسانی علم اس نتیجے تک پہنچا ہے کہ اس کائنات میں موجود کوئی شے ہمیشہ کے لیے نہیں ہے، خواہ وہ سورج ہو، کوئی اور ستارہ ہو یا کہکشاں، ایک مدت کے بعد انھیں ختم ہو جانا ہے۔ ہم غور کریں تو مذکورہ آیات قرآنی سے جہاں یہ بات معلوم ہو رہی ہے کہ ہر چیز حرکت میں ہے، وہاں یہ بھی ثابت ہو رہا ہے کہ یہ حرکت ہمیشہ کے لیے نہیں، بلکہ ایک مقرر شدہ مدت تک ہی کے لیے ہے۔