• ابتداء
  • پچھلا
  • 37 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 17747 / ڈاؤنلوڈ: 3278
سائز سائز سائز
قرآن، کائنات اور انسان

قرآن، کائنات اور انسان

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کشتی نوح

رسولوں کی تاریخ ہی کے حوالے سے قرآن مجید حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کا ذکر کرتا ہے کہ وہ دنیا والوں کے لیے نشانی ہے۔ کچھ سال پہلے ایک روسی ہوا باز نے (جو راستہ بھٹک گیا تھا) برف میں پھنسی ہوئی ایک بہت بڑی کشتی کی موجودگی محسوس کی ہے۔ لہذا وہ دن دور نہیں جب قرآن مجید میں بیان کردہ دیگر نشانیوں کی طرح یہ نشانی بھی ایک انسان کے سامنے آ جائے گی:

"اور ہم نے اس کو اپنے تختوں اور میخوں والی پر اٹھا لیا اور جو چلتی رہی، ہماری حفاظت میں۔ یہ ہم نے بدلہ لینے کے لیے کیا، اس کا جس کی ناقدری کی گئی اور ہم نے اس کو ایک نشانی بنا چھوڑا، تو ہے کوئی کہ سوچے سمجھے۔"

(قمر۵۴:۱۳-۱۵)

"پھر ہم نے نوح اور کشی والوں کو نجات دی اور کشی کو اہل عالم کے لیے نشانی بنا دیا۔" (العنکبوت۲۹:۱۵)

جدید تحقیقات اور خدا

اگر ہم غور کریں تو کیا جدید تحقیقات نے موروثی عقیدے کے طور پر نہیں، بلکہ شعوری طور پر یہ یقین کرنا آسان نہیں کر دیا کہ اس کائنات کو بنانے والی ایک ذی شعور ہستی Mind موجود ہے اور قرآن اس کا پیغام ہے جو اس نے ہماری رہنمائی کے لیے ہم تک پہنچایا ہے، ورنہ جن حقائق سے پردہ اب اٹھ رہا ہے، ان کی خبر نہایت صاف اور واضح الفاظ میں پندرہ سو سال پہلے کی کسی کتاب میں کیسے موجود ہے؟

یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ ان حقائق کو ثابت کرنے کے لیے آیات کی کھینچ تان کر Interpretation نہیں کی گئی، بلکہ یہ آیات کا سادہ ترجمہ ہے۔ اس ترجمہ کی تصدیق بغیر کسی تردد کے ہو سکتی ہے، کیونکہ قرآن مجید کا Text ایک زندہ زبان میں محفوظ ہے جسے تقریباً بیس کروڑ انسان بولتے ہیں اور بے شمار دوسرے اگر بولتے نہیں تو سمجھ سکتے ہیں۔

۲۱

یہ سائنسی علم جو انسان نے صدیوں کی تحقیق اور مشقت کے بعد حاصل کیا ہے، کیسے ممکن ہے کہ پندرہ سو سال پہلے ایک انسان اس کا ادراک کر لے، اور پھر دنیا کے سامنے اسے کتاب کی صورت میں اس دعوے کے ساتھ پیش کرے کہ اس کی کوئی Statement کسی بھی زمانے میں غلط ثابت نہیں کی جا سکتی؟ ذرا غور کریں، کیا کوئی انسان، خواہ وہ نیوٹن ہو یا آئن سٹائن، ارسطو ہو یا افلاطون، دنیا جہان کے علوم سے متعلق صدیوں بعد کی Development کا محض اندازہ لگا کر اپنی کتاب میں ایسے چیلنج کے ساتھ پیش کر سکتا ہے؟ ہم جتنا بھی غور کر لیں، اس کی کوئی Explanation ممکن نہیں، ماسوائے اس کے کہ یہ اس ہستی ( Mind ) کا کلام ہے جو ہمیشہ سے ہے، ہمیشہ رہے گی اور جس کا علم زمان و مکان کی قید سے بالا ہے:

"ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کے اندر بھی یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ یہ قرآن بالکل حق ہے۔"(حم السجدہ ۴۱:۵۳)

قرآن کا اصل پیغام

کیا ہم تعلیم یافتہ لوگ اس لحاظ سے خوش قسمت نہیں کہ ہم اپنے علم کے ذریعے سے دو اور دو چار کی طرح اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ اگر پندرہ سو سال قبل دی گئی قرآن کی یہ خبریں درست ہیں تو وہ خبریں بھی یقیناً درست ہوں گی، جو اس وقت ہمارے حواس کے دائرے میں نہیں آ رہیں۔

قرآن خبر دے رہا ہے کہ کسی اور جگہ پر ہماری ابدی زندگی ہوگی۔ قرآن خبر دے رہا ہے کہ جنت و جہنم واقعی ہیں، یہ محض استعارے نہیں۔ قرآن خبر دے رہا ہے کہ وہاں سزا بھی جسمانی ہوگی اور جزا بھی، وہاں ہم سب باقاعدہ ایک دوسرے سے مل سکیں گے، ایک دوسرے سے بات چیت کر سکیں گے، حتی کہ جنتی اور جہنمی بھی ایک دوسرے سے رابطہ کر سکیں گے۔

قرآن خبر دے رہا ہے کہ اے انسانو! یہ دنیا تمھارا گھر نہیں، بلکہ Place of Duty ہے۔ اسے گھر سمجھتے رہو گے تو مارے جاؤ گے، یہ زندگی تو محض کچھ دیر کی آزمائش اور امتحان ہے۔ اس کائنات کو بنانے اور اس میں زندگی اور موت کا سلسلہ تخلیق کرنے سے مقصود Merit پر تمھاری درجہ بندی ( Grading ) ہے:

۲۲

"اور وہی ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین (کائنات) کو چھ دنوں میں اور اس کا عرش پانی پر تھا، تاکہ وہ تمھارا امتحان کرے کہ تم میں سے عمل کے اعتبار سے کون بہتر ہے۔" (ہود ۱۱:۷)

"ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو بھی ان کے مابین ہے، با مقصد اور ایک معین مدت تک کے لیے بنایا ہے۔" (الاحقاف ۴۶:۳)

"وہی ہے جس نے زندگی اور موت کا سلسلہ تخلیق کیا، تاکہ وہ تمھارا امتحان کرے کہ تم میں سے عمل کے اعتبار سے کون بہتر ہے۔" (ملک ۶۷:۲)

اور قرآن ہی خبر دے رہا ہے کہ تمھاری اصل زندگی پردے کے پیچھے آخرت کی زندگی ہے جو کامیابی کی صورت میں ہمیشہ ہمیشہ کی بادشاہی اور ناکامی کی صورت میں مدتوں کی ذلت اور ایسی دردناک سزا ہو گی کہ جس کا قرآن مجید میں تذکرہ پڑھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ قرآن بتاتا ہے کہ یہ محض ڈراوے نہیں ہیں، بلکہ ایسا ہو کر رہے گا:

"اے انسانو! یقینی طور پراللہ کا وعدہ سچا ہے، سو کہیں تمھیں یہ دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈال دے۔" (فاطر ۳۵:۵)

"یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے اور اللہ سے سچا بھلا کون ہو سکتا ہے۔" (النساء ۴:۱۲۲)

"یہ اللہ کا حتمی وعدہ ہے اور اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ وہ اس دنیا کے صرف ظاہر کو جانتے ہیں اور آخرت سے وہ بالکل ہی بے خبر ہیں۔" (روم ۳۰:۶-۷)

کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب نہ چاہتے ہوئے بھی اسے اس دنیا سے رخصت ہونا پڑے گا۔ اب اگر وہ بطور عقیدہ نہیں، بلکہ بطور حقیقت کسی اور دنیا میں ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کو تسلیم کر لے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ Consciously اس کی آسائش حاصل کرنے کے لیے Planning نہ کرے، جبکہ موجودہ دنیا کی تھوڑی سی آسائش کے حصول کے لیے وہ اپنے دن رات لگا دیتا ہے۔

۲۳

جب وہ اس Temporary کے لیے اتنی منصوبہ بندی اور محنت کرتا ہے تو Permanent کے لیے کیوں نہیں کرتا؟ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے آپ سے یہ سوال پوچھنا ہوگا، کیونکہ یہ کسی اور کا نہیں، ہمارے اپنے مستقبل کا معاملہ ہے:

"اور جو ہماری راہ میں جدوجہد کر رہا ہے تو وہ اپنے ہی فائدہ کے لیے کر رہا ہے۔ اللہ عالم والوں سے بے نیاز ہے۔" (العنکبوت ۲۹:۶)

"جو نیک عمل کرے گا تو اپنے لیے کرے گا۔ اور جو برائی کرے گا، اس کا وبال اسی پر آئے گا اور تیرا رب بندوں پر ذرا بھی ظلم کرنے والا نہیں۔"

(حم السجدہ ۴۱:۴۶)

ہر انسان اپنے عمل کے عوض رہن ہے۔ یہ اس کے اپنے ہاتھ میں ہے کہ وہ تزکیہ یا پاکیزگی کا کم سے کم معیار اسی دنیا میں حاصل کر کے اپنے آپ کو جہنم سے بچائے، وگرنہ آخرت میں اسے قیمت بہر صورت چکانی ہوگی:

"ہر شخص اپنے اعمال کے بارے میں رہن ہوگا۔ صرف داہنے والے اس سے مستثنی ہوں گے۔" (المدثر۷۴:۳۸-۳۹)

"ہر ایک اپنی کمائی کے بدلے میں گروی ہوگا جو اس نے کی ہوگی۔"

(الطور ۵۲:۲۱)

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جہنم تو ایک صفائی خانہ ہے، غلط طریقے سے زندگی گزارنے کے نتیجے میں جو گندگی انسان اپنے اوپر اس دنیا سے لے جاتا ہے، اس کی صفائی جہنم ہی میں ممکن ہے، مگر اس صفائی کے Process میں گندگی کے تناسب سے لاکھوں کروڑوں سال بھی لگ سکتے ہیں، کیونکہ وہاں کے پیمانے ہماری دنیا کے مقابلے میں بہت بڑے ہیں۔ چونکہ اللہ تعالی کو علم ہے کہ انسان آسانی سے ان سب چیزوں کا یقین کرنے والا نہیں، لہذا وہ قرآن مجید میں بار بار نہایت منطقی طریقے سے انسان کی توجہ کائنات میں موجود اپنی نشانیوں کی طرف دلاتا ہے تاکہ انسان جان سکے کہ وہ ہر چیز کو صرف اپنے پیمانوں سے ناپ تول نہیں سکتا۔

۲۴

کائنات کی لا محدود وسعت

کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ ہماری زمین جو ہمیں اتنی وسیع و عریض نظر آتی ہے، کائنات میں اس کی حیثیت سمندر کے مقابلے میں ایک قطرے سے بھی کم ہے؟ حالانکہ اس کا Diameter تقریباً تیرہ ہزار کلومیٹر ہے۔ ہماری زمین، سورج کا ایک سیارہ ( Planet ) ہے اور اس کا سورج سے اوسطاً فاصلہ چودہ کروڑ اٹھاسی لاکھ کلومیٹر ہے۔ یہ اپنے مرکز کے گرد سولہ سو کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے Rotate اور خلا میں سورج کے گرد ایک لاکھ دس ہزار کلومیٹر فی گھنٹا کی رفتار سے Revolve کر رہی ہے۔ یعنی ہم جتنی دیر میں دو گھنٹے کی ایک وڈیو فلم دیکھتے ہیں، یہ ہمیں لے کر دو لاکھ بیس ہزار کلومیٹر فاصلہ طے کر جاتی ہے اور وہ بھی یوں کہ ہمیں کسی قسم کی حرکت کا احساس تک نہیں ہوتا۔ سورج کے گرد اس کا ایک چکر چھیانوے کروڑ کلومیٹر کا ہوتا ہے اور وہ اسے ایک سال میں مکمل کرتی ہے۔

ہماری زمین کے علاوہ، سورج کی فیملی میں آٹھ سیارے اور بھی ہیں۔ مشتری ( Jupiter ) اس فیملی کا سب سے بڑا سیارہ ہے۔ اس کے حجم کا حال یہ ہے کہ اس میں ہماری زمین جیسی ایک ہزار زمینیں سما سکتی ہیں۔ یہ سورج سے ۷۷۳۲۸۰۰۰۰ کلومیٹر دور ہے۔ دیگر سیارے عطارد ( Mercury )، زہرہ ( Venus )، مریخ ( Mars )، زحل ( Saturn )، یورینس ( Uranus )، نیپچون ( Neptune ) اور پلاٹو ( Pluto ) ہیں۔ پلوٹو سورج کی فیملی کا آخری سیارہ ہے اور سوج سے اس کا فاصلہ ۵۸۷۲۰۰۰۰۰۰ کلومیٹر ہے۔

خود ہمارا یہ سورج جسے ہم روز دیکھتے ہیں اور جو ہمیں ایک معمولی Ball کی طرح دکھائی دیتا ہے، ہماری زمین جیسی چودہ لاکھ زمینوں کو اپنے اندر سمو سکتا ہے۔ یہ بھی ساکن نہیں، بلکہ خلا میں گیارہ لاکھ کلومیٹر فی گھنٹا کی رفتار سے سفر کر رہا ہے۔ یہ اپنے عظیم حجم کے باوجود ہماری Galaxy (جسے ہم Milky Way کہتے ہیں) کا درمیانے حجم کا ایک ستارہ ہے۔

۲۵

ہماری اس گلیکسی کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سورج اس کے اندر اپنا ایک چکر گیارہ لاکھ کلومیٹر فی گھنٹا کی رفتار سے سفر کرتا ہوا پچیس کروڑ سال میں پورا کرتا ہے۔ ہماری اس گلیکسی کا Diameter تقریباً ایک لاکھ نوری سال ( Light Years ) ہے۔ یعنی اگر ہم ایک ایسا راکٹ یا Space Ship بنا لیں جو ۲۹۷۶۰۰ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کر سکے تو تب بھی اسے ہماری گلیکسی کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچنے کے لیے ایک لاکھ سال لگیں گے۔

ہماری گلیکسی میں سورج کے علاوہ ایک سو بلین مزید ستارے ہیں جن میں سے بعض سورج سے کروڑہا گنا بڑے اور ہزارہا گنا زیادہ روشن ہیں مثلاً ستارہ Antares سورج سے ۳۵۰۰ گنا زیادہ روشن اور اپنے اندر چھ کروڑ سورج سمو سکتا ہے۔ یہ ہم سے تقریباً ۳۳۰ نوری سال دور ہے۔ اس سے بھی بڑا ایک اور ستارہ Betelguse سورج سے ۱۷۰۰۰ گنا زیادہ روشن اور ہم سے ۲۷۰ نوری سالوں کی دوری پر ہے۔ Scheat, Riegel, W. Cephai, Aurigai اور Hercules ہماری گلیکسی کے ان سے بھی بڑے ستارے ہیں، انھیں Super giants کہتے ہیں۔ ان سے کروڑہا کلومیٹر بلند اٹھنے والے شعلے اللہ تعالی کی جلالی قدرت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اگر ان ستاروں کو سورج کی جگہ پر رکھ دیا جائے تو نہ صرف ہماری دنیا بلکہ ہمارے Solar System میں سوائے آگ کے کچھ نہ ہو۔ مثلاً اگر Scheat کو سورج کے مقام پر رکھ دیا جائے تو زہرہ اس کے محیط میں آ جائے اور اگر Betelguse سورج کی جگہ آ جائے تو ہماری زمین اور مریخ کو اپنے اندر نگل لے اور اگر Aurgai سورج کے مقام پر آ جائے تو سیارہ Uranus اس کے محیط میں آ جائے گا۔ یعنی سورج سے لے کر یورینس تک آگ ہی آگ ہوگی اور نظام شمسی کی آخری حدود تک شعلے ہی شعلے ہوں گے۔

۲۶

انسان ان اجرام فلکی کے حجم، چمک اور رفتار کے تصور سے کانپ جاتا ہے۔ ان کی تخلیق کے متعلق سوچنے لگیں تو عقل ساتھ نہیں دیتی، ذرا فاصلوں پر غور کریں تو اگر ہم روشنی کی رفتار (جو دو لاکھ ستانوے ہزار چھ سو کلومیٹر فی سیکنڈ ہے) سے سفر کریں تو بھی اپنی ساری زندگی میں ان تک نہیں پہنچ سکتے۔ ان میں سے بعض ستارے بغیر کسی دوربین کے آسمان پر چمکتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ چونکہ ہمیں ان کی عظمت کا علم نہیں، لہذا وہ ہمارے لیے محض ایک معمولی نقطہ ہوتے ہیں۔

قرآن مجید میں سب سے زیادہ اصرار اس بات پر کیا گیا ہے کہ ہم عقل استعمال کر کے اپنے گرد و پیش میں بکھرے مظاہر قدرت کی حقیقت کو جاننے کی سعی کریں۔ چونکہ اس کے بغیر نہ ان سب کو بنانے والی ہستی کی عظمت کا ہمیں شعور ہو سکے گا نہ ہم اس کی صحیح معرفت حاصل کر سکیں گے اور نہ اس سے اتنا ڈریں گے جتنا کہ اس سے ڈرنا چاہیے:

"بے شک، اللہ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈریں گے جو علم رکھنے والے ہیں، بے شک اللہ غالب اور بخشنے والا ہے۔" (فاطر ۳۵:۲۸)

بہرحال یہ حقیقت تو صرف ہماری کہکشاں کے ۱۰۰ بلین ستاروں میں سے چند ایک کی ہے جس کے پیمانے بھی شاید ہماری محدود عقل میں آنے مشکل ہیں۔ اس سے آگے چلیں تو خود ہماری کہکشاں کا کائنات میں کوئی مقام نہیں۔ ہم اپنی کہکشاں کے علاوہ محض آنکھ سے مزید تین کہکشائیں دیکھ سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک Andromeda ہے جو ہم سے اکیس لاکھ اسی ہزار نوری سال دور ہے۔ یہ ہماری کہکشاں سے ڈھائی گنا بڑی ہے۔ یعنی اس میں ستاروں کی تعداد ڈھائی سو بلین ہے۔

اس کائنات میں اربوں کہکشائیں ایسی بھی ہیں جنھیں محض عام انسانی آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا، بلکہ انھیں دیکھنے کے لیے انتہائی طاقت ور دوربینیں درکار ہیں۔ یہ ایک دوسرے کے قریب نہیں، بلکہ ان کے درمیان لاکھوں کروڑوں نوری سال کے فاصلے ہیں۔ یہ تمام کہکشائیں ساکن نہیں، بلکہ اپنے مرکز کے گرد Rotate کر رہی ہیں اور خلا میں چل بھی رہی ہیں۔ ان میں سے بعض کی رفتار کروڑ ہا میل فی گھنٹا ہے اور یہ ہم سے لاکھوں کروڑوں نوری سال دور ہیں۔ ان لاتعداد کہکشاؤں کے گھومنے اور ناقابل تصور رفتار سے سفر کرنے کا جادوئی منظر دوربینوں کی مدد سے Deep Space میں دیکھا جا سکتا ہے۔

۲۷

سائنس دان کہتے ہیں کہ اگر ہم اپنی دوربینیں لے کر اس فاصلے کے آخر تک پہنچ جائیں تو تب بھی یہی نظارہ ہوگا اور اس سے آگے بھی یہی نظارہ ہوگا، کیونکہ کائنات میں مسلسل وسعت ہو رہی ہے۔ انسانی علم ترقی کرتے کرتے، اس صدی میں پہنچ کر یہ چیزیں بیان کرنے کے قابل ہوا ہے، لیکن قرآن مجید نے پندرہ سو سال پہلے ہی یہ اطلاع ہمیں دے دی تھی:

"اور آسمان کو ہم نے بنایا قدرت کے ساتھ اور ہم بڑی ہی وسعت رکھنے والے ہیں۔"

(الذاریات ۵۱:۴۷)

یہ ہے اس کائنات کے پیمانوں کا ہلکا سا عکس، جو انسان بھی اس بے پایاں قوت، حیرت انگیز رفتار اور نور کے سیلاب پر غور کرے گا، وہ یقیناً پکار اٹھے گا:

"اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ کارخانہ بے مقصد نہیں بنایا۔ تو اس بات سے پاک ہے کہ کوئی عبث کام کرے، سو تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔"

(آل عمران ۳:۱۹۱)

پھر انسان کو اپنی یہ زندگی اور دنیا مصنوعی سی لگنے لگے گی۔ اس کا دل کانپنے لگے گا اور اس کے لیے یہ یقین کرنا قطعاً مشکل نہ رہے گا کہ اصل زندگی واقعی پردے کے پیچھے آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ہے، جسے ممکن بنانے والا کوئی ہماری طرح کا انسان نہیں، بلکہ وہ ہستی ہے جس نے یہ حیرت انگیز کائنات بنائی ہے۔ انسان کی دوبارہ تخلیق آسان تر ہے

قرآن مجید میں اللہ تعالی بارہا انسان سے سوال پوچھتے ہیں:

"کیا تمھیں (مر کھپ جانے کے بعد دوبارہ) بنانا مشکل ہے یا اس کائنات کو جسے ہم نے بنایا ہے؟" (النٰزعٰت ۷۹:۲۷)

"کیا انھوں نے نہیں سوچا کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، وہ قادر ہے کہ ان کی مانند پھر پیدا کر دے۔" (بنی اسرائیل ۱۷:۹۹)

۲۸

"کیا انھوں نے غور نہیں کیا کہ اللہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور ان کے پیدا کرنے سے تھکا نہیں، وہ مردوں کو زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔"

(احقاف ۴۶:۳۳)

ان سوالات کا جواب کوئی بھی انسان جسے اللہ کے وجود پر یقین ہے، کیا دے سکتا ہے؟ سوائے اس کے کہ اے اللہ، واقعی تیرے لیے میرا دوبارہ پیدا کرنا مشکل نہیں، لیکن یہ جواب دینے سے پہلے اسے اپنے اوپر، اپنے گرد و پیش میں پھیلی ہوئی اللہ تعالی کی نشانیوں پر غور کرنا ہوگا، ورنہ اسے ہمیشہ اپنا دوبارہ پیدا کیا جانا مشکل نظر آتا رہے گا، حالانکہ اگر کسی شے کو بنانے میں مشکل پیش آسکتی ہے تو پہلی دفعہ آ سکتی ہے، دوبارہ بنانا تو آسان تر ہے۔

اس حقیقت کی طرف اللہ تعالی سورہ روم میں انسان کی توجہ مبذول کراتے ہوئے فرماتے ہیں:

"اور وہی ہے جو خلق کا آغاز کرتا ہے، پھر وہ اس کا اعادہ کرے گا اور یہ اس کے لیے زیادہ آسان ( Easier ) ہے۔" (۳۰:۲۷)

قرآن کو سمجھ کر پڑھنا

قرآن مجید میں اللہ تعالی انسان کو بے شمار سوالوں پر غور کی دعوت دیتے ہیں، لیکن اگر ہم قرآن مجید کو Ignore ہی کیے رکھیں گے، اسے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کریں گے تو کیسے پتا چلےگا کہ اللہ تعالی ہم سے کیا چاہتے ہیں؟

اگر ہم اپنا وقت اور ذہانت اللہ کے پیغام کو سمجھنے کے لیے صرف نہیں کریں گے تو ہمیشہ ہمارا ایک ہی اعتراض ہوگا کہ قرآن مجید سمجھ میں نہیں آتا۔ ہمیں سنجیدگی سے اپنے آپ سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ واقعی قرآن سمجھ میں نہیں آتا یا اصل بات یہ کہ ہم اسے سمجھنا ہی نہیں چاہتے؟ ہم پڑھے لکھے لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ ہم ورثے میں ملے ہوئے عقیدے، سنی سنائی باتوں اور فرقہ بندی ہی میں نہ پھنسے رہیں، بلکہ حقیقت تک پہنچنے کے لیے قرآن مجید کا بذات خود مطالعہ کریں۔ ہم ملاؤں کے دیے ہوئے تصور ہی کو نہ لے کر بیٹھے رہیں کہ قرآن ہر ایک کی سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ منطقی طور پر سوچیں، یہ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ جس ہستی نے انسان کو بنایا ہے، اسے ہی معلوم نہیں کہ اسے بات کیسے سمجھانی ہے:

۲۹

"وہ تو دلوں کے بھیدوں سے بھی با خبر ہے۔ کیا وہ نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے، وہ تو بڑا ہی باریک بین اور خبر رکھنے والا ہے۔" (الملک ۶۷: ۱۳ ، ۱۴)

اب بتائیں کیا ہمارے پاس اللہ تعالی کے اس Argument کا کوئی جواب ہے؟ انسان کے ذہن میں جو شبہات اور سوالات ہوتے ہیں، ان کا جواب سب سے بہتر طریقے سے بھلا کون دے سکتا ہے؟ ظاہر ہے وہی جس نے انسان کو بنایا ہے:

"اور ہم نے قرآن کو تذکیر کے لیے نہایت سازگار بنایا ہے، تو ہے کوئی یاددہانی حاصل کرنے والا۔" (القمر ۵۴:۳۲)

"اور ہم نے لوگوں کے لیے اس قرآن میں طرح طرح سے ہر قسم کی حکمت کی باتیں بیان کی ہیں، لیکن اکثر لوگ انکار ہی پر اڑے ہوئے ہیں۔"(بنی اسرائیل ۱۷:۸۹)

قرآن کے Student کو متعدد ایسی آیات ملیں گی جن سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے ہر چیز کو کھول کھول کر بیان کر دیا ہے، تاکہ قیامت کے دن کم سے کم اپنے آپ کو مسلمان کہلوانے والے کوئی Excuse پیش نہ کر سکیں۔ اگر اب بھی ہم اپنی خواہشات کی وجہ سے بے پروائی اور کنی کترانے کی روش اپنائے رکھیں، کمر ہمت باندھ کر اللہ کے پیغام کو سمجھنے کی کوشش نہ کریں تو یہ خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہوگا اور اس کا خمیازہ کسی اور کو نہیں، بلکہ خود ہمیں ہی بھگتنا ہوگا:

"جو ہدایت کی راہ پر چلتا ہے، وہ اپنے ہی لیے ہدایت کی راہ پر چلتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو وہ اپنے ہی اوپر وبال لاتا ہے اور کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ اٹھانے والی نہیں بنے گی۔" (بنی اسرائیل ۱۷:۱۵)

"یہ تو بس دنیا والوں کے لیے ایک یاددہانی ہے۔" (یوسف ۱۲:۱۰۴)

"اب تمھارے پاس اللہ کی طرف سے ایک روشنی اور ایک واضح کرنے والی کتاب آ گئی۔ اس کے ذریعے سے اللہ ان لوگوں کو جو اس کی خوشنودی کے طالب ہیں، سلامتی کی راہیں دکھا رہا ہے اور اپنی توفیق بخشی سے ان کی تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لا رہا ہے اور ایک صراط مستقیم کی طرف ان کی رہنمائی کر رہا ہے۔" (المائدہ ،۵ :۱۵تا ۱۶)

۳۰

اب بھلا اس کتاب کو سمجھے بغیر ہمیں سلامتی کی راہیں کیسے معلوم ہو سکتی ہیں یا اسے غلاف میں لپیٹ کر رکھنے سے خود ہمارے اور دوسروں کے گھروں میں روشنی کیسے ہو سکتی ہے؟ جہالت اور گمراہی کے اندھیروں کو دور کرنے والی شمع قرآن کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ اگر ہم نے اسے صرف طاق ہی میں سجا کر رکھا تو نہ صرف ہم، بلکہ ہمارے ساتھ ساتھ وہ بھی ٹھوکریں کھاتے رہیں گے جنھیں یہ روشنی ورثے میں ملی ہی نہیں اور اس کی تمام تر ذمہ داری ہم ہی پر ہو گی۔

مسلمانوں کی غلط فہمیاں

قرآن مجید سے دوری کے باعث ہم مسلمانوں میں کئی غلط فہمیاں رائج ہو گئی ہیں۔ ہم میں سے اکثریت کا تصور یہ ہو گیا ہے کہ ہم مسلمان بحیثیت امت بخشے ہوئے ہیں۔ نماز روزے کی پابندی اگر ہو گئی تو کیا کہنے، مزید درجات بلند ہوں گے۔ اس سے آگے بڑھ کر اپنا وقت اور توانائیاں صرف کر کے اللہ تعالی کے پیغام پر غور و فکر اور اس کی Propagation کو ضروری نہیں سمجھا جاتا، بلکہ بعض اوقات اسے انتہا پسندی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

ہماری طرح یہودی بھی اسی زعم میں مبتلا ہیں کہ ہم پیغمبروں کی امت ہیں، لہذا ہمیں جہنم کی آگ چھو نہیں سکتی۔ یہ سوچ نہ صرف قرآنی تعلیمات کے خلاف ہے، بلکہ عقلی طور پر بھی صحیح نہیں ہو سکتی، کیونکہ کوئی انسان بھی اپنی Choice سے مسلمان، یہودی، عیسائی یا ہندو کے گھر پیدا نہیں ہوتا۔ چونکہ پیدائش میں اس کی اپنی کوئی کوشش یا Contribution نہیں ہوتی، لہذا منطقی طور پر بھی محض پیدائش کی بنیاد پر اسے سزا یا انعام نہیں دیا جا سکتا۔ اگر ایسا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ اس کائنات کو بنانے والے کے نزدیک انصاف کی کوئی Value نہیں۔ دیکھیے، کس خوبی سے اللہ تعالی یہ غلط فہمی دور کر رہے ہیں:

"وہ کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ہرگز چھونے والی نہیں۔ ہاں اگر چند دنوں کی سزا مل جائے تو مل جائے۔ ان سے پوچھو، کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لے رکھا ہے، جس کی وہ خلاف ورزی نہیں کر سکتا۔ اصل میں بات یہ ہے کہ تم اللہ کے ذمے ڈال کر ایسی باتیں کرتے ہو جس کا تمھیں علم نہیں ہے۔ کیوں نہیں! جو کوئی بھی برائی کرے گا اور اپنی خطا کاری میں پڑا رہے گا، وہ جہنمی ہے اور جہنم میں ہمیشہ رہے گا۔" (البقرہ :۲، ۸۰ تا ۸۱)

۳۱

"کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انھوں نے عمل صالح کیے، ان کو زمین میں فساد مچانے والوں کی طرح کر دیں گے، یا ہم متقیوں کو کافروں کی طرح بنا دیں گے۔" (ص ۳۸:۲۸)

ہمارے تصورات کے بالکل برعکس، حقیقت یہ ہے کہ ہم سے پہلی مسلم امت بنی اسرائیل پر بھی اللہ تعالی نے شہادت علی الناس یعنی دوسری قوموں پر اپنے قول و عمل سے حق کی گواہی دینے کی ذمہ داری ڈالی تھی، لیکن انھوں نے بھی ہماری طرح اس ذمہ داری کو منصب سمجھ لیا تھا، لہذا وہ مغضوب قوم ٹھیری، کیونکہ جو لوگ بھی ذمہ داریاں اٹھا کر اسے نہیں نبھاتے، وہ اللہ کے نزدیک بدترین لوگ ٹھیرتے ہیں۔

آج ہم مسلمانوں کی حالت بھی ان جیسی ہے۔ ہم خود کو اللہ کی پارٹی کے رکن کہتے ہیں، لیکن ہم میں سے بیشتر یہ معلوم کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتے کہ آخر بحیثیت پارٹی ممبر، ہمارے حقوق ہی ہیں یا کوئی ذمہ داری بھی ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جو فرد یا گروہ ذمہ داری اٹھا کر اسے نبھانے کی کوشش نہیں کرتا، اسے اللہ تعالی کبھی معاف نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ محض، عقیدے یا کلمہ پڑھ لینے کی بنیاد پر بخشے جانے کی نفی بھی اللہ تعالی نے بارہا، قرآن میں کی ہے:

"اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے۔" (تحریم ۶۶:۶)

غور فرمائیں، خطاب ایمان والوں سے ہو رہا ہے۔ یعنی وہ لوگ جو کلمہ پڑھ چکے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو آگ سے بچائیں، لہذا محض کلمہ پڑھ لینے سے آگ سے چھٹکارا نہیں ہو سکتا۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالی ایک اور مقام پر ہمیں خبردار کر رہے ہیں:

"اے ایمان والو! کیا میں بتاؤں تمھیں ایسی تجارت جو تمھیں ایک دردناک عذاب سے نجات دلا دے۔ وہ یہ ہے کہ (حقیقت میں) ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور پھر جدوجہد ( Struggle ) کرو اللہ کی راہ میں، اپنی جانوں اور اپنے مال کے ساتھ، یہ تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم سمجھو۔" (الصف ۶۱: ۱۰، ۱۱)

۳۲

غور کیجیے کہ خطاب پھر انھی سے ہو رہا ہے جو ایمان کے دعوے دار ہیں۔ انھیں Warn کیاجا رہا ہے کہ وہ الم ناک عذاب سے اسی صورت میں بچ سکتے ہیں اگر وہ حقیقت میں ایمان لائیں اور پھر اپنی جانوں اور اپنے مال کے ساتھ اللہ کی راہ میں جدوجہد بھی کریں۔ سورہ نازعات میں اللہ تعالی نے نجات کے مسئلے کو بالکل واضح کر دیا ہے:

"تو جس شخص نے سرکشی اختیار کی اور آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو ترجیح دی، اس کا ٹھکانا جہنم ہی بنے گی۔ اور وہ جو اپنے رب کے حضور میں پیشی سے ڈرا اور جس نے اپنے نفس کو خواہش کی پیروی سے روکا تو اس کا ٹھکانا لاریب جنت ہے۔" (۷۹: ۳۷ تا ۴۱)

لہذا، ایمان کوئی پیدائش کی بنیاد پر حاصل شدہ لیبل یا ٹائٹل نہیں، بلکہ ہر شخص کا State of mind ہے۔ محض لیبل لگا لینے، یا زبانی دعووں سے ہمارا اپنا اطمینان تو شاید ہو جائے، لیکن یہ سب بے کار ہوگا اگر ہماری سوچ تبدیل نہیں ہوتی، یعنی ہمارا ذہن صحیح معنوں میں اللہ تعالی کی مرضی کے سامنے Submit نہیں کرتا اور ہماری ترجیحات ( Priorities ) تبدیل نہیں ہوتیں۔

ایمان بالغیب کا مطلب کسی چیز کو بلا سوچے سمجھے ماننے کا نہیں، بلکہ سوچ سمجھ کر، عقل و فطرت کے قطعی دلائل کی بنیاد پر بن دیکھے ماننے کا ہے۔ قرآن مجید کے مطابق آیندہ زندگی ہمارے حواس سے ماورا سہی، لیکن ہماری عقل سے ماورا نہیں۔ لہذا قرآن مجید کے مطابق ایمان Blind Belief نہیں، بلکہ ایک خالص عقلی حقیقت ہے، اور اسے عقلی طریقے ہی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ میراث میں ملنے والی کوئی شے نہیں۔

ایک اور خطرناک تصور جس میں انسان کی بے جا خواہشات اسے مبتلا رکھتی ہیں، وہ اللہ تعالی کی رحمت پر بھروسہ کر کے نا فرمانی اور گناہ کیے جانا ہے۔ حالانکہ جہاں وہ رحیم و کریم ہے، وہاں وہ عادل، بدلہ لینے والا اور منصف بھی تو ہے۔ لہذا، مکمل انصاف ( Perfect Justice ) کرنا اس نے اپنے اوپر لازم کر لیا ہے:

۳۳

"اس نے اپنے اوپر اس رحمت کو لازم کر لیا ہے کہ تم سب کو قیامت کے روز جس کے ہونے میں کوئی شک نہیں، ضرور جمع کرے گا (تاکہ تمھارے مابین انصاف کر سکے)، لیکن وہ جنھوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈال رکھا ہے، اس بات کا یقین نہیں کرتے۔" (الانعام ۶:۱۲)

"کیا ہم اپنے فرماں برداروں کو مجرموں کے برابر کر دیں گے؟ کیا ہو گیا ہے تم کو! یہ تم کس قسم کا فیصلہ کر رہے ہو؟" (القلم ۶۸:۳۵-۳۶)

لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے آپ کو جھوٹی تسلیاں ہی نہ دیتے رہیں اور خود کو دھوکے ہی میں مبتلا نہ کیے رکھیں، اگر ہم نے نافرمانی ہی کی روش اپنانی ہے، تو اچھی طرح سوچ سمجھ لیں، کیونکہ اللہ تعالی کی کہی ہوئی بات اور اللہ کے کیے ہوئے وعدے کبھی جھوٹے نہیں ہو سکتے:

"اے لوگو! یقینی طور پر اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ سو کہیں تمھیں یہ دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈال دے۔" (فاطر۳۵:۵)

"یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے، اور اللہ تعالی سے زیادہ وعدے کا سچا کون ہو سکتا ہے؟" (النساء ۴:۱۲۲)

"یہ اللہ کا حتمی وعدہ ہے، اور اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔" (الروم ۳۰:۶)

ہدایت کا قانون

چونکہ اللہ تعالی نے ہماری موجودہ زندگی کو آزمائش کے اصول پر تخلیق کیا ہے لہذا وہ زبردستی انسانوں کو صحیح راستے کی طرف نہیں موڑتا، ورنہ آزمائش کا بنیادی تصور ہی ختم ہو جائے۔ پیغام اور پیغامبر کی ضرورت نہ رہے۔ زندگی اور موت کا سلسلہ بے معنی ہو جائے، بلکہ پوری کائنات کی تخلیق ہی بے مقصد ہو جائے۔

اللہ تعالی نے انسان کو ارادے اور انتخاب کی آزادی دے رکھی ہے، خیر و شر کی پہچان کی صلاحیت وجدانی طور پر ہمارے اندر رکھ دی ہے، اب اگر ہم اس صلاحیت سے کام نہ لیں اور اسے ضائع کر کے اندھے، بہرے بن جائیں تو اللہ تعالی ہمیں زبردستی ہدایت کی طرف نہیں لائے گا، ورنہ سزا و جزا کا تصور ہی بے معنی ہو جائے گا۔

۳۴

ہدایت سے متعلق اللہ تعالی کا قانون تمام انسانوں کے لیے یہ ہے کہ وہ صرف اسے ہدایت دیتا ہے جو پہلے خود ہدایت کا طلب گار بنے۔ اس کا قانون اندھا، بہرہ (جیسا کہ لوگ خیال کرتے ہیں) نہیں ہے کہ ایک شخص ہدایت چاہتا ہی نہیں، وہ اسے زبردستی ہدایت کے راستے پر لے آئے اور دوسرا شخص ہدایت کا طلب گار ہو اور وہ اسے گمراہ کیے رکھے۔ لہذا اللہ تعالی اپنے بندوں کو اسی وقت ہدایت دیتے ہیں جب بندہ خود تہ دل سے ہدایت کا طلب گار بن جائے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے بقول یہ دروازہ صرف اسی کے لیے کھلتا ہے جو اسے کھٹکھٹاتا ہے اور جو اسے کھٹکھٹانے کی زحمت نہیں کرتا، اس کے لیے یہ کبھی نہیں کھلتا۔

قرآن مجید میں ہم دیکھتے ہیں کہ یہ قانون الہی نبیوں کی بیویوں، اولاد اور والدین تک کے لیے تبدیل نہیں ہوا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی اور بیٹا، حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد ایک طرف، اور دوسری طرف فرعون کی بیوی، اس قانون کی واضح مثالیں ہیں۔ انتخاب کی اس آزادی کے متعلق اللہ تعالی سورہ دہر میں فرماتے ہیں:

"ہم نے انسان کو راہ سجھا دی ہے۔ اب وہ چاہے تو شکر گزاری کی روش اپنائے اور چاہے تو ناشکری کی۔" (۷۶:۳)

زندگی کا صحیح تصور

ہمیں بہت اچھی طرح سے یاد رکھنا چاہیے کہ اس عارضی زندگی میں اگر کسی کو مال اور اقتدار دیا گیا ہے تو وہ بطور انعام نہیں، بلکہ بطور آزمائش دیا گیا ہے اور اگر کسی کو یہ چیزیں حاصل نہیں تو اس میں بھی اس کا امتحان ہے، کیونکہ یہاں کسی کو دے کر آزمایا جا رہا ہے اور کسی کو نہ دے کر۔ دنیا کے مال اور اقتدار کی اللہ تعالی کے نزدیک ایک ذرے کے برابر بھی اہمیت نہیں لیکن ہم لوگوں نے انھیں بڑائی اور کامیابی کا معیار سمجھ رکھا ہے۔ اسی کو واضح کرتے ہوئے سورہ زخرف میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:

"اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ لوگ ایک ہی ڈگر پر چل پڑیں گے تو ہم خدائے رحمان سے کفر کرنے والوں کے گھروں کی چھتیں، اور ان کی سیڑھیاں جن سے وہ اپنے بالا خانوں پر چڑھتے ہیں اور ان کے دروازے اور ان کے تخت جن پر وہ تکیے لگا کر بیٹھتے ہیں سب چاندی اور سونے کے بنوا دیتے، یہ تو محض حیات دنیا کی متاع ہے اور آخرت تیرے رب کے ہاں صرف متقیوں کے لیے ہے۔"(۴۳:۳۳-۳۵)

۳۵

سورہ عنکبوت میں اس دنیوی زندگی کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتے ہیں:

"اور یہ دنیا کی زندگی تو بس وقتی کھیل تماشہ ہے اور آخرت ہی ہے جو اصل زندگی کی جگہ ہے۔ کاش یہ لوگ سمجھتے۔" (۲۹:۶۴)

حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید سمیت تمام الہامی صحیفوں کا پیغام دو جملوں میں یہ ہے کہ ایک با شعور شخص کو ترجیح موجودہ زندگی کو نہیں، بلکہ آنے والی زندگی کو دینی چاہیے، کیونکہ اس میں ہزار مصیبتیں ہیں اور یہ باقی نہیں رہتی اور وہ بہت اعلی، ہر قسم کی مصیبتوں سے پاک اور باقی رہنے والی ہو گی۔

"پر تم لوگ تو دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو، حالانکہ آخرت بہت بہتر اور پائیدار ہے۔ یہی تعلیم اگلے صحیفوں میں بھی ہے۔ موسی اور ابراہیم کے صحیفوں میں۔" (الاعلی ۸۷:۱۶-۱۹)

سو اللہ تعالی نے واضح طور پر دونوں راستے ہمیں سمجھا دیے ہیں اور ان کے انجام سے بھی خبردار کر دیا ہے۔ اب چاہے تو ہم اس دنیا میں اپنے آپ کو مسافر یا راہ گیر سمجھ کر اور اللہ کے پیغام کو گائیڈ بنا کر زندگی بسر کریں یا قرآن مجید سے بے پروائی اور کنی کترانے کی روش اپنائے رکھیں، سنی سنائی باتوں اور غلط تصورات میں گم ہو کر اپنے آپ کو دھوکا دیے رکھیں، حتی کہ آخری لمحہ آ پہنچے:

"کیا ایمان کا دعوی کرنے والوں کے لیے ابھی وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی یاد سے گڑگڑائیں اور وہ اس کے نازل کردہ حق (یعنی قرآن) کے آگے جھک جائیں۔ اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ بن جائیں جن کو ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر ایک طویل مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے اور آج ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔" (الحدید ۵۷:۱۶)

***

۳۶

فہرست

پیش لفظ ۳

دیباچہ ۵

قرآن، کائنات اور انسان ۶

رحم مادر میں تخلیق کے مدارج ۸

تمام اجرام فلکی کا حرکت پذیر ہونا ۱۰

کائنات کا ازلی نہ ہونا ۱۳

پہاڑوں کا زمین کو متوازن رکھنا ۱۴

شہد اور شہد کی مکھی ۱۵

قرآن کا ہر تضاد سے پاک ہونا ۱۶

ملک اور فرعون ۱۸

فرعون کی لاش کا محفوظ ہونا ۱۹

ارم کی دریافت ۲۰

کشتی نوح ۲۱

جدید تحقیقات اور خدا ۲۱

قرآن کا اصل پیغام ۲۲

کائنات کی لا محدود وسعت ۲۵

قرآن کو سمجھ کر پڑھنا ۲۹

مسلمانوں کی غلط فہمیاں ۳۱

ہدایت کا قانون ۳۴

زندگی کا صحیح تصور ۳۵

۳۷