"اس نے اپنے اوپر اس رحمت کو لازم کر لیا ہے کہ تم سب کو قیامت کے روز جس کے ہونے میں کوئی شک نہیں، ضرور جمع کرے گا (تاکہ تمھارے مابین انصاف کر سکے)، لیکن وہ جنھوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈال رکھا ہے، اس بات کا یقین نہیں کرتے۔" (الانعام ۶:۱۲)
"کیا ہم اپنے فرماں برداروں کو مجرموں کے برابر کر دیں گے؟ کیا ہو گیا ہے تم کو! یہ تم کس قسم کا فیصلہ کر رہے ہو؟" (القلم ۶۸:۳۵-۳۶)
لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے آپ کو جھوٹی تسلیاں ہی نہ دیتے رہیں اور خود کو دھوکے ہی میں مبتلا نہ کیے رکھیں، اگر ہم نے نافرمانی ہی کی روش اپنانی ہے، تو اچھی طرح سوچ سمجھ لیں، کیونکہ اللہ تعالی کی کہی ہوئی بات اور اللہ کے کیے ہوئے وعدے کبھی جھوٹے نہیں ہو سکتے:
"اے لوگو! یقینی طور پر اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ سو کہیں تمھیں یہ دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈال دے۔" (فاطر۳۵:۵)
"یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے، اور اللہ تعالی سے زیادہ وعدے کا سچا کون ہو سکتا ہے؟" (النساء ۴:۱۲۲)
"یہ اللہ کا حتمی وعدہ ہے، اور اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔" (الروم ۳۰:۶)
ہدایت کا قانون
چونکہ اللہ تعالی نے ہماری موجودہ زندگی کو آزمائش کے اصول پر تخلیق کیا ہے لہذا وہ زبردستی انسانوں کو صحیح راستے کی طرف نہیں موڑتا، ورنہ آزمائش کا بنیادی تصور ہی ختم ہو جائے۔ پیغام اور پیغامبر کی ضرورت نہ رہے۔ زندگی اور موت کا سلسلہ بے معنی ہو جائے، بلکہ پوری کائنات کی تخلیق ہی بے مقصد ہو جائے۔
اللہ تعالی نے انسان کو ارادے اور انتخاب کی آزادی دے رکھی ہے، خیر و شر کی پہچان کی صلاحیت وجدانی طور پر ہمارے اندر رکھ دی ہے، اب اگر ہم اس صلاحیت سے کام نہ لیں اور اسے ضائع کر کے اندھے، بہرے بن جائیں تو اللہ تعالی ہمیں زبردستی ہدایت کی طرف نہیں لائے گا، ورنہ سزا و جزا کا تصور ہی بے معنی ہو جائے گا۔