مرا پیمبر عظیم تر ہے
0%
مؤلف: مظفر وارثی
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 32
مؤلف: مظفر وارثی
زمرہ جات:
مشاہدے: 14535
ڈاؤنلوڈ: 2884
تبصرے:
مؤلف: مظفر وارثی
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 32
مؤلف: مظفر وارثی
زمرہ جات:
یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے
مظفر وارثی
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
حمد
کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے ، وہی خدا ہے
دکھائی بھی جو نہ دے ، نظر بھی جو آ رہا ہے وہی خدا ہے
٭
تلاش اُس کو نہ کر بتوں میں ، وہ ہے بدلتی ہوئی رُتوں میں
جو دن کو رات اور رات کو دن بنا رہا ہے ، وہی خدا ہے
٭
وہی ہے مشرق وہی ہے مغرب ، سفر کریں سب اُسی کی جانب
ہر آئینے میں جو عکس اپنا دکھا رہا ہے ، وہی خدا ہے
٭
کسی کو سوچوں نے کب سراہا ، وہی ہوا جو خدا نے چاہا
جو اختیارِ بشر پہ پہرے بٹھا رہا ہے ، وہی خدا ہے
٭
نظر بھی رکھے ،سماعتیں بھی ، وہ جان لیتا ہے نیتیں بھی
جو خانۂ لاشعور میں جگمگا رہا ہے ، وہی خدا ہے
٭
کسی کو تاجِ وقار بخشے ، کسی کو ذلت کے غار بخشے
جو سب کے ماتھے پہ مہرِ قدرت لگا رہا ہے ، وہی خدا ہے
٭
سفید اُس کا سیاہ اُس کا ، نفس نفس ہے گواہ اُس کا
جو شعلۂ جاں جلا رہا ہے ، بُجھا رہا ہے ، وہی خدا ہے
٭٭٭
یا رحمۃ العالمین
الہام جامہ ہے تیرا
قرآں عمامہ ہے تیرا
منبر تیرا عرشِ بریں
یا رحمۃ العالمین
٭
آئینۂ رحمت بدن
سانسیں چراغِ علم و فن
قربِ الٰہی تیرا گھر
الفقر و فخری تیرا دھن
خوشبو تیری جوئے کرم
آنکھیں تیری بابِ حرم
نُورِ ازل تیری جبیں
یا رحمۃ العالمین
٭
تیری خموشی بھی اذاں
نیندیں بھی تیری رتجگے
تیری حیاتِ پاک کا
ہر لمحہ پیغمبر لگے
خیرالبشر رُتبہ تیرا
آوازِ حق خطبہ تیرا
آفاق تیرے سامعیں
یا رحمۃ العالمین
٭
قبضہ تیری پرچھائیں کا
بینائی پر ادراک پر
پیروں کی جنبش خاک پر
اور آہٹیں افلاک پر
گردِ سفر تاروں کی ضَو
مرقب بُراقِ تیز رَو
سائیس جبرئیلِ امیں
یا رحمۃ العالمین
٭
تو آفتابِ غار بھی
تو پرچم ِ یلغار بھی
عجز و وفا بھی ، پیار بھی
شہ زور بھی سالار بھی
تیری زرہ فتح و ظفر
صدق و صفا تیری سپر
تیغ و تبر صبر و یقیں
یا رحمۃ العالمین
٭
پھر گُڈریوں کو لعل دے
جاں پتھروں میں ڈال دے
حاوی ہوں مستقبل پہ ہم
ماضی سا ہم کو حال دے
دراصل دعویٰ ہے تیری چاہ کا
اس اُمتِ گُم راہ کا
تیرے سوا کوئی نہیں
یا رحمۃ العالمین
٭٭٭
علم محمد ، عدل محمد، پیار محمد
علم محمد ، عدل محمد، پیار محمد
ساری اعلیٰ قدروں کا شہکار محمد
٭
ہم اِجمالی کیا جائیں تفصیل میں اُن کی
کیا دنیا کیا عُقبیٰ سب تحویل میں اُن کی
٭
وقت کے بیچ محمد ، وقت کے پار محمد
ساری اعلیٰ قدروں کا شہکار محمد
٭
سورج چاند ستارے اُن کے زیرِ سایہ
جو اُن تک پہنچا وہ روشنیاں لے آیا
٭
بانٹیں کیا کیا چمکیلے کردار محمد
ساری اعلیٰ قدروں کا شہکار محمد
٭
بندوں سے کیا ہوں گی تحقیقات خُدا کی
مسجدِ ہستی کا رقبہ ہے ذات خُدا کی
٭
سارے پیمبر محرابیں ، مینار محمد
ساری اعلیٰ قدروں کا شہکار محمد
٭
دھُوپ گناہوں کی بھی سایہ دار ہے کتنی
میری درویشی سرمایہ دار ہے کتنی
٭
میرے لب پر آیا لاکھوں بار محمد
ساری اعلیٰ قدروں کا شہکار محمد
٭
اپنی اپنی تہذیبیں سب بھُول چکے ہیں
سب پتھر کے عہد کی جانب لوٹ رہے ہیں
٭
دُنیا کی ہر قوم کو ہیں درکار محمد
ری اعلیٰ قدروں کا شہکار محمد
٭
اپنی خاص عنایت صَرف بھی فرماتے ہیں
خود اُس کی توسیعِ ظرف فرماتے ہیں
٭
عشق جسے دیتے ہیں بے مقدار محمد
ساری اعلیٰ قدروں کا شہکار محمد
٭
کیوں نہ مظفر میرے پاؤں پڑے خوش بختی
میری گردن میں بس اُن کے نام کی تختی
٭
میری سب خوشیاں سارے تہوار محمد
ساری اعلیٰ قدروں کا شہکار محمد
٭٭٭
مرا پیمبر عظیم تر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے
کمالِ خلاق ذات اُس کی
جمالِ ہستی حیات اُس کی
بشر نہیں عظمتِ بشر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے
٭
وہ شرحِ احکام حق تعالیٰ
وہ خود ہی قانون خود حوالہ
وہ خود ہی قرآن خود ہی قاری
وہ آپ مہتاب آپ ہالہ
وہ عکس بھی اور آئینہ بھی
وہ نقطہ بھی خط بھی دائرہ بھی
وہ خود نظارہ ہے خود نظر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے
٭
شعور لایا کتاب لایا
وہ حشر تک کا نصاب لایا
دیا بھی کامل نظام اس نے
اور آپ ہی انقلاب لایا
وہ علم کی اور عمل کی حد بھی
ازل بھی اس کا ہے اور ابد بھی
وہ ہر زمانے کا راہبر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے
٭
وہ آدم و نوح سے زیادہ
بلند ہمت بلند ارادہ
وہ زُہدِ عیسیٰ سے کوسوں آ گے
جو سب کی منزل وہ اس کا جادہ
ہر اک پیمبر نہاں ہے اس میں
ہجومِ پیغمبراں ہے اس میں
وہ جس طرف ہے خدا ادھر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے
٭
بس ایک مشکیزہ اک چٹائی
ذرا سے جَو ایک چارپائی
بدن پہ کپڑے بھی واجبی سے
نہ خوش لباسی نہ خوش قبائی
یہی ہے کُل کائنات جس کی
گنی نہ جائیں صفات جس کی
وہی تو سلطانِ بحر و بر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے
٭
جو اپنا دامن لہو میں بھر لے
مصیبتیں اپنی جان پر لے
جو تیغ زن سے لڑے نہتا
جو غالب آ کر بھی صلح کر لے
اسیر دشمن کی چاہ میں بھی
مخالفوں کی نگاہ میں بھی
امیں ہے صادق ہے معتبر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے
٭
جسے شاہِ شش جہات دیکھوں
اُسے غریبوں کے ساتھ دیکھوں
عنانِ کون و مکاں جو تھامے
خدائی پر بھی وہ ہاتھ دیکھوں
لگے جو مزدور شاہ ایسا
نذر نہ دَھن سربراہ ایسا
فلک نشیں کا زمیں پہ گھر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے
٭
وہ خلوتوں میں بھی صف بہ صف بھی
وہ اِس طرف بھی وہ اُس طرف بھی
محاذ و منبر ٹھکانے اس کے
وہ سر بسجدہ بھی سر بکف بھی
کہیں وہ موتی کہیں ستارہ
وہ جامعیت کا استعارہ
وہ صبحِ تہذیب کا گجر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے
٭٭٭
نعت پاک
دفن جو صدیوں تلے ہے وہ خزانہ دے دے
ایک لمحے کو مجھے اپنا زمانہ دے دے
٭
چھاپ دے اپنے خدوخال مری آنکھوں پر
پھر رہائش کے لئے آئینہ خانہ دے دے
٭
اور کچھ تجھ سے نہیں مانگتا میرے آقا
نا رسائی کو زیارت کا بہانہ دے دے
٭
موت جب آئے مجھے کاش ترے شہر میں آئے
خاکِ بطحا سے بھی کہہ دے کہ ٹھکانہ دے دے
٭
زندگی جنگ کا میدان نظر آتی ہے
میری ہر سانس کو آہنگِ ترانہ دے دے
٭
اپنے ہاتھوں ہی پریشان ہے اُمت تیری
اس کے الجھے ہوئے حالات کو شانہ دے دے
٭
اپنے ماضی سے مظفر کو ندامت تو نہ ہو
اس کے اِمروز کو فردائے یگانہ دے دے
٭٭٭
نعت رسول پاک
چلے نہ ایمان اک قدم بھی اگر تیرا ہمسفر نہ ٹھہرے
ترا حوالہ دیا نہ جائے تو زندگی معتبر نہ ٹھہرے
٭
تُو سایۂ حق پہن کے آیا، ہر اک زمانے پہ تیرا سایہ
نظر تری ہر کسی پہ لیکن کسی کی تجھ پر نظر نہ ٹھہرے
٭
لبوں پہ اِیاکَ نستعیں ہے اور اس حقیقت پہ بھی یقیں ہے
اگر ترے واسطے سے مانگوں کوئی دعا بے اثر نہ ٹھہرے
٭
حقیقتِ بندگی کی راہیں مدینۂ طیبہ سے گزریں
ملے نہ اُس شخص کو خدا بھی جو تیری دہلیز پر نہ ٹھہرے
٭
کھُلی ہوں آنکھیں کہ نیند والی ، نہ جائے کوئی بھی سانس خالی
درود جاری رہے لبوں پر ، یہ سلسلہ لمحہ بھر نہ ٹھہرے
٭
میں تجھ کو چاہوں اور اتنا چاہوں کہ سب کہیں تیرا نقشِ پا ہوں
ترے نشانِ قدم کے آگے کوئی حسیں رہگزر نہ ٹھہرے
٭
یہ میرے آنسو خراج میرا، مرا تڑپنا علاج میرا
مرض مرا اُس مقام پر ہے جہاں کوئی چارہ گر نہ ٹھہرے
٭
دکھا دو جلوہ بغور اُس کو ، بُلا لو اک بار اور اُس کو
کہیں مظفر بھی شاخ پر سوکھ جانے والا ثمر نہ ٹھہرے
٭٭٭
تو کجا من کجا
تو امیرِ حرم، میں فقیرِ عجم
تیرے گن اور یہ لب، میں طلب ہی طلب
تو عطا ہی عطا، میں خطا ہی خطا
تو کجا من کجا، تو کجا من کجا
٭
تو ابد آفریں، میں ہوں دو چار پل
تو یقیں میں گماں، میں سخن تُو عمل
تو ہے معصومیت میں نری معصیت
تو کرم میں خطا، تو کجا من کجا
٭
تو ہے احرامِ انوار باندھے ہوئے
میں درودوں کی دستار باندھے ہوئے
کعبۂ عشق تو، میں ترے چار سو
تو اثر میں دعا، تو کجا من کجا
تو حقیقت ہے میں صرف احساس ہوں
تو سمندر، میں بھٹکی ہوئی پیاس ہوں
میرا گھر خاک پر اور تری رہگزر
سدرۃ المنتہیٰ، تو کجا من کجا
٭
میرا ہر سانس تو خوں نچوڑے مرا
تیری رحمت مگر دل نہ توڑے مرا
کاسۂ ذات ہوں، تیری خیرات ہوں
تو سخی میں گدا، تو کجا من کجا
ڈگمگاٰؤں جو حالات کے سامنے
آئے تیرا تصور مجھے تھامنے
میری خوش قسمتی، میں ترا اُمتی
تو جزا میں رضا، تو کجا من کجا
میرا ملبوس ہے پردہ پوشی تری
مجھ کو تابِ سخن دے خموشی تری
تو جلی میں خفی، تو اٹل میں نفی
تو صلہ میں گلہ، تو کجا من کجا
٭
دوریاں سامنے سے جو ہٹنے لگیں
جالیوں سے نگاہیں لپٹنے لگیں
آنسوؤں کی زباں ہو میری ترجماں
دل سے نکلے سدا، تو کجا من کجا
تو امیرِ حرم، میں فقیرِ عجم
تیرے گن اور یہ لب، میں طلب ہی طلب
تو عطا ہی عطا، میں خطا ہی خطا
تو کجا من کجا،تو کجا من کجا
٭٭٭
لانبی بعدی
خود میرے نبی نے بات یہ بتا دی ، لانبی بعدی
ہر زمانہ سن لے یہ نوائے ہادی ، لانبی بعدی
٭
لمحہ لمحہ اُن کا طاق میں ہوا جگمگانے والا
آخری شریعت کوئی آنے والی اور نہ لانے والا
لہجۂ خدا میں آپ نے صدا دی، لانبی بعدی
٭
تھے اصول جتنے اُن کے ہر سخن میں نظم ہو گئے ہیں
دیں کے سارے رستے آپ تک پہنچ کر ختم ہو گئے ہیں
ذات حرفِ آخر ، بات انفرادی، لانبی بعدی
٭
ارتقائے عالم کر دیا خدا نے صرف نام اُن کے
اُن کی خوش نصیبی جن کے ہیں وہ آقا ، جو غلام ان کے
گونجے وادی وادی آپ کی منادی، لانبی بعدی
٭
اُن کے بعد اُن کا مرتبہ کوئی بھی پائے گا نہ لوگو
ظلی یا بروزی اب کوئی پیمبر آئے گا نہ لوگو
آپ نے یہ کہہ کر مہر ہی لگا دی ، لانبی بعدی
٭٭٭