حمد و مناجات اورنعت

حمد و مناجات اورنعت0%

حمد و مناجات اورنعت مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 53

حمد و مناجات اورنعت

مؤلف: ڈاکٹرمحمد شرف الدین ساحل
زمرہ جات:

صفحے: 53
مشاہدے: 20151
ڈاؤنلوڈ: 2072

تبصرے:

حمد و مناجات اورنعت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 53 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 20151 / ڈاؤنلوڈ: 2072
سائز سائز سائز
حمد و مناجات اورنعت

حمد و مناجات اورنعت

مؤلف:
اردو

ربِّ کائنات

وہ ابتدا، وہ انتہا

وہی عیاں، وہی نہاں

وہ قادر و حکیم ہے

رحیم ہے، کریم ہے

*

سمیع اور بصیر ہے

علیم ہے، خبیر ہے

*

وہ نورِ ارض و آسماں، وہ ربِّ کائنات ہے

عیوب سے منزّہ اور مصفّا اس کی ذات ہے

مقیم ہے وہ عرش پر، بجا یہ بات ہے ، مگر

رگِ گلو سے ہر بشر کی وہ بہت قریب ہے

*

ہمارے دل کے سارے راز تک سے ہے وہ باخبر

اسی نے پیدا کیں زمین و آسماں کی نعمتیں

ہے اس کے دسترس میں سب کی موت اور زندگی

ہر ایک بیج کو دیا اسی نے قوتِ نمو

اتارتا ہے پانی ہم پہ آسمان سے وہی

زمین و آسماں سے ہم کو رزق کرتا ہے عطا

وہی نظامِ کائنات کا ہے تنہا منتظم

*

۲۱

زمیں، فلک، شجر، حجر، نجوم و مہر و کہکشاں

یہ ماہتابِ تیز رو، صبا، گھٹا، چمن، خزاں

یہ صبح و شام کا طلوع اپنے وقتِ خاص پر

یہ بحرِ بیکراں، یہ کوہسار و جوئے مضطرب

*

سب اس کے زیر حکم ہیں

وہی ہے سب کا حکمراں

*

تمام حمد اور ستائشوں کا مستحق ہے وہ

اسی کی بندگی کرو، اسی سے التجا کرو

*

اسی کے سامنے سرِ نیاز کو جھکاؤ تم

شریک مت بناؤ اس کی ذات میں کسی کو تم

یہ انبیا، یہ اولیا، یہ صوفیان با صفا

یہ دیوتا، رشی منی،

سب اس کے بندہ و غلام ہیں یہ خود خدا نہیں

مت ان کے سامنے جھکو

*

عظیم سے عظیم تر یہ عہد نو کے فتنہ گر

یہ حکمراں، یہ زر پرست

سب اس کے آگے ہیچ ہیں

نہ ان سے التجا کرو

*

اسی کی بندگی کرو جو ربِ کائنات ہے

اسی سے التجا کرو، وہی ہے سب کا بادشاہ

***

۲۲

رحمتِ الٰہی

تیری رحمت ہے سب کو گھیرے ہوئے

صبحِ صادق کا چہرۂ خنداں

شامِ رنگیں کا جلوۂ محجوب

فرش کی طرح سے بچھی یہ زمیں

احمریں مہر یہ چمکتا ہوا

جگمگاتا یہ ماہتابِ حسیں

مسکراتے یہ انجمِ تاباں

بادِ صرصر کی شوخیِ پیہم

بحر، دریا، ندی کا آبِ رواں

*

کوہساروں کے سلسلوں کا سماں

سب میں رحمت ہے جلوہ گر تیری

*

نغمۂ سرمدی پرندوں کے

پی پپیہے کی، کوک کوئل کی

جاں نوازیِ نالۂ بلبل

رقصِ طاؤس کا حسیں انداز

صحنِ گلشن کی ساری رعنائی

عطر بیزیِ خوشبوئے گلزار

رنگ در رنگ منظرِ دلکش

۲۳

گل کا رُخ چومتی نسیمِ سحر

کفِ گل پر جمی ہوئی شبنم

*

تیرے ذوقِ جمال کے شاہد

سب میں رحمت ہے جلوہ گر تیری

*

ریشم و اون، اطلس و کمخواب

عنبر و مشک و عطر اور کافور

ننھی منی سی نحل کی تخلیق

چار پایوں کا نفع بخش وجود

باغ میوے کے، کھیت غلے کے

بحرِ پُر جوش کے تلاطم میں

موج کو چیرتے ہوئے یہ جہاز

ریت و ماہی و لولو و مرجاں

*

نعمتوں کا تری شمار کہاں

سب میں رحمت ہے جلوہ گر تیری

*

مرسلات و مقسمات کا زور

حاملات اور زاریات کا زور

عاصفات اور ناشرات کا زور

جاریات اور فارقات کا زور

دوش پر ان کے اُڑتے ابرِ کرم

ارض کی تشنگی بجھاتے ہیں

۲۴

مردہ سبزوں کو لہلہاتے ہیں

بیج کو قوتِ نمو دے کر

*

پیڑ، پودے، شجر اگاتے ہیں

سب میں رحمت ہے جلوہ گر تیری

*

زلزلہ، رعد، برق، قحط، وبا

موج، سیلاب اور طغیانی

کوہساروں میں آتش افشانی

برف باریِ موسمِ سرما

گرم موسم میں چلتی باد سموم

یورشِ آب و باد بارش میں

*

ہیں بظاہر ترے جلال مگر

سب میں رحمت ہے جلوہ گر تیری

***

۲۵

قادرِ مطلق

ھوالاول، ھوالآخر،

ھوالظاہر، ھوالباطن

خدائے لا یموت و لم یزل وہ ہے

وہی ہے المصوّر، المھیمن

*

وہی جبّار و قھّار و سلام و حیّ و قیّوم

وہی ہے عالم الغیب و شھادہ

*

رعونت، خودسری، شرک و جہالت حکمراں جب بھی ہوئی ہے

ہوا مجروح جب سینہ تقدس کا کبھی سنگِ ملامت سے

نکالا اس نے ہی فاسد لہو تہذیب کی رگ سے

*

ثمود و عاد کو، اصحابِ مدین کو

کبھی اصحابِ رس، اصحابِ ایکہ کو

*

کیا نابود و دنیا سے

دکھاتا ہے کبھی وہ اپنی قدرت کو عصا دے کر

ڈبوتا ہے بنا کر راستہ وہ نیل میں مغرور و سرکش کو

*

پلٹ دیتا ہے دھرتی کو

الٹ دیتا ہے بستی کو

*

۲۶

کچلتا ہے کبھی وہ سر حنین و بدر میں فرعونیت کا اپنی قدرت سے

کبھی وہ ماسکو سے لندن و پیرس کے ٹاور تک

عراق و شام سے افغان و پاکستان و بھارت تک

وہ پنٹاگون سے ارضِ فلسطیں تک

اسی انداز سے تہدید کرتا ہے

ذرا سوچو!

وہی ہے قادرِ مطلق

***

۲۷

فاتحہ

تعریف تجھی کو زیبا ہے

سبحان اللہ، سبحان اللہ

*

تو سارے جہاں کا داتا ہے

سبحان اللہ، سبحان اللہ

*

ہے لطف و عنایت سب پہ تری

یکساں ہے کرم سب پر تیرا

*

رحمت ہے تری سب کے سر پر

رزاق ہے تو سب کا آقا

*

تو اول ہے، تو آخر ہے

تو افضل ہے، تو برتر ہے

*

تو ظاہر ہے، تو باطن ہے

تو مالک روزِ محشر ہے

*

اے قادر و عادل تیرے سوا

معبودِ حقیقی کوئی نہیں

*

۲۸

ہم تیری عبادت کرتے ہیں

ہستی پہ تری ہم کو ہے یقیں

*

تو ایسی ہدایت دے ہم کو

چلتے ہی رہیں رستہ سیدھا

*

ان لوگوں کا رستہ دکھلا

جس پر کہ انھیں انعام ملا

*

اس رہ سے بچا جس پر کہ غضب

ہوتا ہے سدا تیرا نازل

*

ارماں ہے یہی، حسرت ہے یہی

مل جائے ہمیں سچی منزل

***

۲۹

مناجات

مری جبیں ہے فقط تیرے آستاں کے لیے

قبول کر لے دعاؤں کو شرمسار نہ کر

۔ ۔ ۔ ساحل۔ ۔ ۔

***

تو میری سوچ کے پودے کو اک شجر کر دے

تو میری سوچ کے پودے کو اک شجر کر دے

دعا یہ ہے مرے لہجے کو معتبر کر دے

*

صدف میں فکر و تخیل کے میں مقید ہوں

مثالِ قطرہ ہوں برسوں سے اب گہر کر دے

*

صلیب و دار و رسن ہی مرا مقدر ہے

سفر کٹھن ہے کوئی مرا ہم سفر کر دے

*

بچا لے شر کی تباہی سے تو مجھے یا پھر

مری حیات کے عرصے کو مختصر کر دے

*

سوائے اس کے مرے دل میں آرزو ہی نہیں

یہی کہ مرکزِ اخلاص میرا گھر کر دے

*

۳۰

میں پھنس سکوں نہ کبھی دامِ شر میں دنیا کے

مجھے مقاصدِ ہستی سے باخبر کر دے

*

اوڑھا دے چادر رحمت عیوبِ ساحل پر

ہے بے اثر یہ نوا، اس کو با اثر کر دے

*****

۳۱

گھر چکا ہوں میں گناہوں میں خدا

گھر چکا ہوں میں گناہوں میں خدا

لے لے تو اپنی پناہوں میں خدا

*

کر حفاظت کہ بہت ہی کم ہے

روشنی میری نگاہوں میں خدا

*

استقامت دے عزائم کو مرے

خار ہی ہیں راہوں میں خدا

*

کر عطا اپنی محبت مجھ کو

گم ہے دل من کے اِلاہوں میں خدا

*

دے ہدایت کہ خوشی ملتی ہے

بدعت و شرک کی باہوں میں خدا

*

اپنے انجام سے بے حد ڈر کر

آیا ہوں تیری پناہوں میں خدا

*

قلبِ ساحل کو مصفا کر دے

وہ مقید ہے گناہوں میں خدا

***

۳۲

میں بے قرار ہوں مجھ کو قرار دے ربیّ

میں بے قرار ہوں مجھ کو قرار دے ربیّ

مرا نصیب و مقدر سنوار دے ربیّ

*

ہوا ہے گلشنِ امّید میرا پژمردہ

خزاں کی کوکھ سے فصلِ بہار دے ربیّ

*

قدم قدم پہ ہیں خارِ نفاق و بغض و حسد

اس امتحاں سے سلامت گزار دے ربیّ

*

میں مخلصانہ دعا دشمنوں کو دیتا رہوں

تو میرے دل میں وہ جذبہ ابھار دے ربیّ

*

کلائی کفر و ضلالت کی موڑ کر رکھ دیں

نوائے حق کو وہی جاں نثار دے ربیّ

*

میں جو کہوں یا لکھوں سب میں عشق ہو تیرا

مرے خیال کو اتنا نکھار دے ربیّ

*

بہت برا ہے گناہوں سے حال ساحلؔ کا

یہ بار سر سے تو اس کے اتار دے ربیّ

***

۳۳

شمعِ عرفان و یقیں دل میں جلا دے مولی

شمعِ عرفان و یقیں دل میں جلا دے مولیٰ

راہ جو سیدھی ہے، وہ راہ بتا دے مولیٰ

*

تجھ کو پانے میں یہ قوت ہے رکاوٹ کا سبب

فتنہ و شر کو مرے دل سے مٹا دے مولیٰ

*

یہ گرفتار ہے گردابِ مسائل میں ابھی

کشتیِ زیست مری پار لگا دے مولیٰ

*

ساری مخلوق کا دراصل ہے تو ہی خالق

آگ نفرت کی ہر اک دل سے بجھا دے مولیٰ

*

میرا ہر لفظ ترے عشق کا مظہر بن جائے

سوچ کو میری وہ پاکیزہ ادا دے مولیٰ

*

تیرے مصحف کی تلاوت کروں آسانی سے

نور آنکھوں کا مری اتنا بڑھا دے مولیٰ

*

عالمِ فانی و باقی میں بھلائی دے دے

نار دوزخ سے بھی ساحلؔ کو بچا دے مولیٰ

***

۳۴

شکست میرا مقدر سہی سنبھال مجھے

شکست میرا مقدر سہی سنبھال مجھے

متاعِ صبر عطا کر دے ذوالجلال مجھے

*

فقط تری ہی محبت ہو خانۂ دل میں

اس آرزوئے حقیقی سے کر نہال مجھے

*

انا سے دل کو مرے پاک رکھ کہ اس کے سبب

عروج لے کے چلا جانبِ زوال مجھے

*

درست کر مری فطرت میں خامیاں ہیں بہت

نواز خوبیِ کردار و خوش خصال مجھے

*

وہ جس کمال نے صلحا کو سرفرازی دی

مرے کریم عطا کر وہی کمال مجھے

*

گناہگار ہوں ڈوبا ہوا ہوں عصیاں میں

تو اس عمیق سمندر سے اب نکال مجھے

***

۳۵

اثر پذیر مجھے طرزِ گفتگو دیدے

اثر پذیر مجھے طرزِ گفتگو دیدے

مرے خدا، مرے لفظوں کو آبرو دیدے

*

میں تیرے ذکر مسلسل میں ہی رہوں مصروف

دعا یہ ہے تو مجھے ایسی جستجو دیدے

*

وجود اپنا مٹا دوں تری محبت میں

ہے التماس یہی ایسی آرزو دیدے

*

وہ جس ے پرچم توحید کو بلند کیا

مری رگوں میں وہی گردشِ لہو دیدے

*

شجر سکوں کا بنا تخمِ فکر کو میرے

زمیں ہے سخت بہت قوتِ نمو دیدے

*

تری نوازشِ پیہم رہی ہے ساحل پر

یہ التجا ہے کہ پوتے بھی نیک خو دیدے

*****

۳۶

میرے جنونِ شوق کو ہوش و حواس دے

میرے جنونِ شوق کو ہوش و حواس دے

لہجہ اگر ہو سخت تو اس میں مٹھاس دے

*

دنیا کے گوشے گوشے میں فصلِ کپاس دے

جو بے لباس ہوں انھیں اچھا لباس دے

*

ایسی مسرتیں کہ جو ہوں وجہِ گمرہی

مجھ کو نہیں قبول، مجھے دل اداس دے

*

شدت کی جب لگی ہو مجھے روزِ حشر پیاس

کوثر کے آبِ شیریں کا مجھ کو گلاس دے

*

نزدیک ترے جب مری حبل الودید کے

تو نورِ معرفت بھی مرے دل کے پاس دے

*

اس سے زیادہ کچھ نہیں میری ضرورتیں

روزانہ خرچ کے لیے روپیے پچاس دے

*

ساحل ہے منکرات میں اب تک پھنسا ہوا

میرے کریم اس کو دلِ حق شناس دے

***

۳۷

فکر جب دی ہے مجھے اس میں اثر بھی دیدے

فکر جب دی ہے مجھے اس میں اثر بھی دیدے

پیڑ سرسبز دیا ہے تو ثمر بھی دیدے

*

راہِ پر خار سے میں ہنس کے گزر جاؤں گا

عزم کے ساتھ ہی توفیقِ سفر بھی دیدے

*

تجھ کو پہچان سکوں دیکھ کے حسنِ فطرت

آنکھ تو دی ہے مگر ایسی نظر بھی دیدے

*

خانۂ دل مرا خالی ہے محبت سے تری

سیپ تو دی ہے مجھے اس میں گہر بھی دیدے

*

شکر تیرا کہ مجھے طاقت گویائی دی

التجا یہ ہے دعاؤں میں اثر بھی دیدے

*

سوچ کی ساری حدیں ختم ہوئیں تو نہ ملا

صبح کاذب کو مری نورِ سحر بھی دیدے

*

دوستی کرنے کا ساحل کو سلیقہ تو دیا

زیر کرنے کا حریفوں کو ہنر بھی دیدے

***

۳۸

امن عالم کے لیے انسانِ اکمل بھیج دے

امن عالم کے لیے انسانِ اکمل بھیج دے

العطش کا شور ہے رحمت کے بادل بھیج دے

*

فکر عاقل سے جہنم بن چکی ہے یہ زمیں

ان کو سمجھانے خدایا کوئی پاگل بھیج دے

*

عہدِ نو کو روشنی سے جس کی کچھ ہو فائدہ

علم و دانش کا کوئی ماہِ مکمل بھیج دے

*

جس کو پیتے ہی مجھے ہو معرفت تیری نصیب

ساغرِ عرفاں کی ربی ایسی چھاگل بھیج دے

*

مسلکِ ذاتی سے ملت ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی

اختلاف و نزع کا یا رب کوئی حل بھیج دے

*

رہ گئی ہے چشم ساحل میں ذرا سی روشنی

اس کی آنکھوں کے لیے نورانی کاجل بھیج دے

***

۳۹

امن کا سورج پھر چمکا دے یا اللہ

امن کا سورج پھر چمکا دے یا اللہ

فتنوں کو دنیا سے مٹا دے یا اللہ

*

حال یہ ہے ہر دل کی بستی اجڑی ہے

اس بستی کو پھر سے بسا دے یا اللہ

*

تاکہ پھر شانِ عظمت ماضی کی

سوئے ہوئے جذبات جگا دے یا اللہ

*

جس پر چل کر چین ملے دل کا ہم کو

نیکی کی وہ راہ دکھا دے یا اللہ

*

دین کے شیدائی تیرے اب لڑتے ہیں

ان کو تو آپس میں ملا دے یا اللہ

*

جس کو سن کر باطل بھاگا ہے اکثر

پھر ایسی آواز سنا دے یا اللہ

*

دل سے وہ اپنی غلطی پر نادم ہے

ساحل کے ہر عیب چھپا دے یا اللہ

***

۴۰