حمد و مناجات اورنعت

حمد و مناجات اورنعت0%

حمد و مناجات اورنعت مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 53

حمد و مناجات اورنعت

مؤلف: ڈاکٹرمحمد شرف الدین ساحل
زمرہ جات:

صفحے: 53
مشاہدے: 20145
ڈاؤنلوڈ: 2072

تبصرے:

حمد و مناجات اورنعت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 53 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 20145 / ڈاؤنلوڈ: 2072
سائز سائز سائز
حمد و مناجات اورنعت

حمد و مناجات اورنعت

مؤلف:
اردو

میرے مالک یہ تجھ سے دعا ہے

میرے مالک یہ تجھ سے دعا ہے

تجھ سے میری یہی التجا ہے

*

دل کو تو میرے پاکیزہ کر دے

علم کا نور سینے میں بھر دے

*

تو بچا لے برائی سے مجھ کو

دے محبت بھلائی سے مجھ کو

*

راستہ مجھ کو سیدھا بتا دے

ہر غلط راستے سے بچا لے

*

دور رکھ مجھ کو بغض و حسد سے

دور رکھ مجھ کو ہر فعلِ بد سے

*

پڑھنے لکھنے کی دے مجھ کو طاقت

تاکہ رکھوں کتابوں سے الفت

*

دوں غریبوں کو ہر دم سہارا

اور ٹوٹے دلوں کو دلاسا

*

۴۱

اپنے ماں باپ سے رکھوں چاہت

دے ہدایت کروں ان کی خدمت

*

حکم استاد کا اپنے مانوں

سب بزرگوں کو میں دل سے چاہوں

*

میرے داتا کرم اتنا کر دے

میری جھولی مرادوں سے بھر دے

***

۴۲

خدایا آرزو میری یہی ہے

خدایا آرزو میری یہی ہے

یہ حسرت دل میں کروٹ لے رہی ہے

*

بنوں کمزور لوگوں کا سہارا

دکھی لوگوں کو دوں ہر دم دلاسا

*

ضعیفوں، بیکسوں کے کام آؤں

غریبوں، مفلسوں کے کام آؤں

*

میں اپنے دوستوں کا دکھ اٹھاؤں

جو روٹھے ہوں انھیں ہنس کر مناؤں

*

برائی سے سدا لڑتا رہوں میں

بھلا ہر کام ہی کرتا رہوں میں

*

ہمیشہ علم سے رکھوں میں الفت

کتابوں سے سدا رکھوں محبت

*

جو بھٹکے ہوں انھیں منزل دکھاؤں

جو اندھے ہوں انھیں رستہ بتاؤں

*

۴۳

کروں ماں باپ کی دل سے میں خدمت

رکھوں استاد سے اپنے محبت

*

بزرگوں کی نصیحت کو سنوں میں

عمل پھر اس نصیحت پر کروں میں

*

میں نفرت کے چراغوں کو بجھاؤں

دیا امن و محبت کا جلاؤں

*

کروں اپنے وطن کی پاسبانی

عطا کرنا مجھے وہ نوجوانی

*

خدایا آرزو کر دے یہ پوری

یہی بس التجا ہے تجھ سے میری

***

۴۴

طالوت

خدائے قادر و عادل!

یہ عہدِ نو مزین ہے یقیناً علم و فن سے

*

مگر در اصل یہ عہدِ جہالت ہے

ترقی یافتہ حسنِ تمدن جل رہا ہے

*

اور عریاں ہو رہا ہے پیکرِ تہذیبِ دوراں

دھماکوں سے مسلط خوف کی ہر سو فضا ہے

گلا انسانیت کا گھُٹ رہا ہے

*

علوم و آگہی بے جان ہو کر رہ گئے ہیں

ہوائے مادیت چل رہی ہے تیز رفتاری سے دنیا میں

رخ روحانیت مرجھا رہا ہے

*

غرور و سرکشی کا رقص پیہم ہو رہا ہے

حقوق انساں کے چھینے جا رہے ہیں

فرائض رو رہے ہیں

ستم جالوت کا اب انتہا پر آ چکا ہے

*

خدائے قادر و عادل!

پھر کسی مفلس کے مسکن سے

کوئی طالوت کر ظاہر

***

۴۵

التجا

خالقِ کائنات و جن و انس

وحدہٗ لاشریک تیری ذات

تو ہے نباض نبضِ عالم کا

تیرے قبضے میں سب کی موت و حیات

*

تو نے تخلیقِ کائنات کے بعد

نوعِ انساں کو سرفراز کیا

دے کے اس کو خلافتِ ارضی

اور پہنا کے سر پہ تاجِ شرف

لیکن اے مالک و رحیم و کریم

عصرِ حاضر کے یہ ترے بندے

*

تیرے انعام سے گریزاں ہیں

تیرے الطاف کے بھی منکر ہیں

*

کتنے مردود ہیں، رذیل ہیں یہ

پوجتے ہیں بس اپنی دولت کو

ان کا مقصد ہے نفس کی تسکیں

یعنی ذوقِ انا کی خوشنودی

*

۴۶

اپنی تسکینِ ذوق کے خاطر

اپنے ہاتھوں سے ہی بشکلِ حسیں

لات و عزیٰ، ہبل تراشے ہیں

اور یہ کور چشم شام و سحر

ان کے آگے جبیں جھکاتے ہیں

*

ان کی مذموم حرکتوں کے سبب

آج ہر گام پر ہے رقص کناں

بربریت، تشدد و بدعت

*

جور و ظلم و ستم، دغا بازی

بغض، نفرت، ہوس کی فتنہ گری

خود سری، خویش پروری، چوری

*

اور پھر یہ بھی اک صداقت ہے

آج ہر گام پر رعونت ہے

*

ہے چلن عام بے حیائی کا

روحِ انسانیت تڑپتی ہے

ہیں بظاہر جو مصلح و رہبر

اور داعی ہے جو اخوت کے

ان کے سائے میں فتنے پلتے ہیں

*

۴۷

صوفی و عالم و خطیب و امام

دین و مذہب کے سائے میں اکثر

*

تشنگیِ ہوس بجھاتے ہیں

میرے معبود، اے مرے مالک

*

ایسے ماحول میں مرا جینا

باعثِ صد ملال ہی ہوگا

اک مسلسل عذاب ہی ہوگا

*

اس لیے ہے یہ التجا مری

علمِ نافع سے تو مرے دل کو

کر دے معمور تاکہ شر سے میں

خود کو محفوظ رکھ سکوں ہر پل

***

۴۸

نعتیں

ان کی ذاتِ اقدس ہی، رحمتِ مجسم ہے

ان کی ذاتِ اقدس ہی، رحمتِ مجسم ہے

عرش پر معظّم ہے، اور فخرِ عالم ہے

*

یہ شرف ملا کس کو، فرش کے مکینوں میں

قدسیوں کی محفل میں، ذکر ان کا پیہم ہے

*

مخزنِ تقدس ہے، چشم پُر حیا اُن کی

گیسوئے حسیں اُن کا، نرم مثلِ ریشم ہے

*

قطرۂ عرق روشن، یوں ہے اُن کے چہرے پر

پھول کی ہتھیلی پر، جیسے دُرِّ شبنم ہے

*

بے مثال سیرت ہے، اُن کی ڈھونڈتے کیا ہو

انبیا میں افضل ہے ا کرم و مُکرّم ہے

*

اُن کے جہدِ پیہم سے، انقلابِ نو آیا

شرک کو ندامت ہے، اور کفر برہم ہے

*

اُن کی مدح میں آگے، اور کیا لکھے ساحلؔ

اِس کی عقل ناقص ہے، اِس کا علم بھی کم ہے

***

۴۹

خوشا ہر گوشۂ سیرت منّور ہے محمدؐ کا

خوشا ہر گوشۂ سیرت منّور ہے محمدؐ کا

مثالِ آئینہ شفاف پیکر ہے محمدؐ کا

*

صبا مس ہوکے جب گزرے اسے مستی میں آ جائے

بسا خوشبو میں ایسا جسمِ اطہر ہے محمدؐ کا

*

اسی سے ماہ و انجم روشنی کی بھیک لیتے ہیں

کچھ اِس انداز سے چہرہ منور ہے محمدؐ کا

*

لکھیں اس کے سوا تعریف کیا ہم اس کی عظمت کی

ریاضِ خلد دنیا میں فقط گھر ہے محمدؐ کا

*

تصدق دولتِ کونین ہے جس کے تقدس پر

جہانِ فقر و فاقہ میں وہ بستر ہے محمدؐ کا

***

۵۰

فہرست

حمد باریِ تعالیٰ ۴

(۱) ۴

حمد ہے آفتاب کا منظر ۶

(۲) ۶

جو پُر یقیں ہیں انھی کو اٹھان دیتا ہے ۸

(۳) ۸

خدا قلاّش کو بھی شان و شوکت بخش دیتا ہے ۹

(۴) ۹

گردشِ شام اور سحر میں تو ۱۰

(۵) ۱۰

وجود اُس کا ہے مشک و گلاب سے ظاہر ۱۲

(۶) ۱۲

مسکراتے ہوئے شہروں کو مٹایا تو نے ۱۳

(۷) ۱۳

کچھ پتھروں کو قیمتی پتھر بنا دیا ۱۴

(۸) ۱۴

ایک قطرے کو صدف میں زندگی دیتا ہے کون ۱۶

(۹) ۱۶

۵۱

ردائے ظلمتِ شب پل میں پھاڑ کر تو نے ۱۷

(۱۰) ۱۷

واحد ہے، بے نیاز و بے اولاد و آل ہے ۱۸

(۱۱) ۱۸

معبودِ حقیقی ۱۹

ربِّ کائنات ۲۱

رحمتِ الٰہی ۲۳

قادرِ مطلق ۲۶

فاتحہ ۲۸

مناجات ۳۰

تو میری سوچ کے پودے کو اک شجر کر دے ۳۰

گھر چکا ہوں میں گناہوں میں خدا ۳۲

میں بے قرار ہوں مجھ کو قرار دے ربیّ ۳۳

شمعِ عرفان و یقیں دل میں جلا دے مولی ۳۴

شکست میرا مقدر سہی سنبھال مجھے ۳۵

اثر پذیر مجھے طرزِ گفتگو دیدے ۳۶

میرے جنونِ شوق کو ہوش و حواس دے ۳۷

فکر جب دی ہے مجھے اس میں اثر بھی دیدے ۳۸

امن عالم کے لیے انسانِ اکمل بھیج دے ۳۹

امن کا سورج پھر چمکا دے یا اللہ ۴۰

۵۲

میرے مالک یہ تجھ سے دعا ہے ۴۱

خدایا آرزو میری یہی ہے ۴۳

طالوت ۴۵

التجا ۴۶

نعتیں ۴۹

ان کی ذاتِ اقدس ہی، رحمتِ مجسم ہے ۴۹

خوشا ہر گوشۂ سیرت منّور ہے محمدؐ کا ۵۰

۵۳