تفسیر نمونہ جلد ۱۰

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 30350
ڈاؤنلوڈ: 2949


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 93 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30350 / ڈاؤنلوڈ: 2949
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 10

مؤلف:
اردو

قیامت کے بارے میں کافروں کا تعجب

عظمت الہٰی کی نشانیوں کے بارے میں جو آیات گزری ہیں ان کے بعد زیر بحث پہلی آیت میں مسئلہ معاد پیش کیا گیا ہے او ر مسئلہ مبداء و معاد میں جو خاص ربط اور تعلق ہے اس کی بنیاد پر اس بحثکو پختگی دی گئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے اگر تم کسی چیز پر تعجب کرنا چاہتے ہو تو ان کی اس بات پر تعجب کرو کہ کہتے ہیں کہ کیا جب ہم مٹی ہو جائیں گے تو ہمیں نئی خلقت دی جائے گی( وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ اٴَئِذَا کُنَّا تُرَابًا اٴَئِنَّا لَفِی خَلْقٍ جَدِید ) ۔(۱)

یہ وہی تعجب ہے جو تمام جاہل قوموں کو مسئلہ معاد کے بارے میں تھا ۔ وہ موت کے بعد حیات ِ نواور خلقت ِ جدید کو محال سمجھتے تھے حالانکہ گزشتہ آیات میں اور دیگر قرآنی آیات میں اس مسئلے کا اچھی طرح سے جواب دیا گیا ہے اور وہ یہ کہ آغاز ِ خلقت اور تجدید ِ خلقت میں کیا فرق ہے وہ ذات جو آغاز ِ خلقت میں انہیں پیدا کرنے پر قادرتھی وہ اس پر بھی قادر ہے کہ ان کے بدن کو حیات نو عطا کرے ۔ گویا یہ اپنی خلقت کی ابتدا کو بھول چکے ہیں تبھی تو اس کی تجدید کے بارے میں بحث کرتے ہیں ۔

پہلے کہتا ہے : یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے پر ور دگار کے کافر ہو گئے ہیں( اٴُوْلَئِکَ الَّذِینَ کَفَرُوا بِرَبِّهِمْ ) ۔کیونکہ اگریہ لوگ خدا کو اور اس کی ربوبیت کو قبول کرتے توپھر معاد اور تجدید حیاتِ انسانی کے بارے میں شک نہ کرتے لہٰذا مسئلہ معاد میں ان کی خرابی مسئلہ توحید و ربوبیت ِ الہٰی کے بارے میں ان کی خرابی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے ۔

دوسرا یہ کہ کفر اور بے ایمانی اختیار کرنے کی وجہ سے اور توحید کے پر چم آزادی کے سائے سے نکل جانے کی وجہ سے انہوں نے اپنے آپ کو طوق و زنجیر میں گرفتار کر لیا ہے ۔ انہوں نے بت پرستی ، ہوسپرستی ، مادہ پرستی اور جہالت و خرافات کے طوق اپنے ہاتھوں اپنی گردن میں ڈالے ہیں ” اور ان کی گردن میں یہ طوق ہیں “( وَاٴُوْلَئِکَ الْاٴَغْلَالُ فِی اٴَعْنَاقِهمْ ) ۔

” اور اس کیفیت اور کردار کی وجہ سے ایسے لوگ یقینا اہل دوزخ ہیں اور ہمیشہ اس میں رہیں گے“ اور ان کے لئے اس کے سوا کوئی نتیجہ اور توقع نہیں ہے( وَاٴُوْلَئِکَ اٴَصْحَابُ النَّارِهُمْ فِیهَا خَالِدُونَ )

بعد والی آیت میں مشرکین کی ایک اور غیر منطقی بات پیش کی گئی ہے ۔ فرمایا : بجائے اس کے کہ وہ تیرے ذریعے خدا سے رحمت کا تقاضا کرتے عذاب ، کیفر کردار اور سزا میں تعجیل کا تقاضا کرتے ہیں( وَیَسْتَعْجِلُونَکَ بِالسَّیِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ ) ۔

یہ قوم اس قدر ہٹ دھرم اور جاہل کیوں ہے ۔ لوگ یہ کیوں نہیں کہتے کہ اگر تو سچ کہتا تو ہم اس طرح یا س رحمت ِ خدا نازل کر ، الٹا کہتے ہیں کہ اگر تیری بات سچی ہے تو ہم پر عذاب ِ خدا نازل کر۔

کیا ان کا خیا ل ہے کہ خدا کی سزا اور عذاب کی بات غلط ہے ” حالانکہ گزشتہ زمانوں میں سر کش امتوں پر عذاب نازل ہو ئے “ جن کی خبریں صفحاتِ تاریخ پر اور زمین کے دل پر ثبت ہیں( وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهمْ الْمَثُلَاتُ )(۲)

اس کے بعد قرآن مزید کہتا ہے : لوگوں کی برائیوں ، قباحتوں اور ظلم و ستم کے مقابلے میں خدا صاحبِ مغفرت ہے اور شدید العقاب بھی ہے( وَإِنَّ رَبَّکَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِلنَّاسِ عَلَی ظُلْمِهمْ وَإِنَّ رَبَّکَ لَشَدِیدُ الْعِقَابِ ) ۔

اس کی شدت عقاب و سزا اس کی رحمت ِ عام کے لئے ہر گز رکاوٹ نہیں جیسا کہ اس کی رحمت ِ عام شد ِت عقاب و سزا کا وٹ نہیں ہے ۔

یہ اشتباہ نہیں ہو نا چاہئیے کہ وہ ظالموں کو موقع دیتا ہے کہ جو کچھ وہ چاہیں کریں کیونکہ ایسے مواقع پرتو وہ شدید العقاب ہے ۔ پر وردگار کی یہ دو صفات یعنی ”ذو مغفرة“ اور ” شدید العقاب“ کے آثار کا تعلق خود انسان کے وجود سے ہے ۔

____________________

۱۔”ان تعجب فعجب قولهم“ ۔ اس جملے کا در حقیقت یہ معنی ہے کہ اگر تو چاہتا ہے کہ کسی چیز کے بارے میں تعجب کرے تو ا ن کی بات پر تعجب کرو کیونکہ یہ بہت ہی تعجب کی بات ہے اور ” فعجب قولھم“ در اصل جملہ شرطیہ کی جزا ہے ۔

۲۔”مثلات“مثلة“کی جمع ہے ۔ یہ بلاؤں اور سزا ؤں کے معنی میں ہے جو گزشتہ امتوں پر اس طرح سے نازل ہوئیں کہ ضرب المثل ہوگئیں ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ خلقت ِ نو کے بارے میں تعجب کیوں ؟ قرآن کی مختلف آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کی مشکلات میں سے ایک مشرک قوموں کے سامنے معادِ جسمانی کے اثبات کا مسئلہ تھا کیونکہ وہ لوگ ہمیشہ اس بات پر تعجب کرتے تھے کہ کس طرح انسان مٹی ہونے کے بعد دوبارہ حیات کی طرف پلٹ آئے گا ۔ یہ جو محل بحث آیات میں ہے :

( ء اذا کنا تراباً ء انّا لفی خلق جدید )

کیا جب ہم مٹی ہو جائیں تو دوبارہ حیات ِ نو پائیں گے۔

ایسی تعبیرات تھوڑے بہت فرق کے ساتھ قرآن کی سات دیگر آیات میں موجود ہیں ، جو یہ ہیں :

مومنون ۔ ۳۵ ۔ مومنون ۸۲ نمل ۔ ۶۷ صافات ۔ ۵۳ ق ۳ اور واقعہ ۔ ۴۷

اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ اعتراض ان کی نگاہ میں بہت ہی اہم تھا ۔ تبھی تو ہر جگہ اسی کا سہارا لیتے تھے لیکن قرآن مجید بہت ہی مختصر عبارتوں میں انہیں دو ٹوک اور قاطع جواب دیتا ہے ۔ مثلا ً سورہ اعراف کی آیہ ۲۹ میں :

( کمابداء کما تعودون )

جیسا کہ ابتداء میں تمہیں پیدا کیا گیا ہے اسی طرح پھر لوٹا ئے جاؤ گے۔

چند الفاظ میں یہ ایک دندان شکن جواب ہے۔ ایک اور جگہ فرمایا گیا ہے :( وهو اهوان علیه )

تمہاری بازگشت تو تمہارے آغاز سے بھی سادہ اور آسان ہے ۔ ( روم ۔ ۲۷)

کیونکہ ابتداء میں تم کچھ بھی نہیں تھے لیکن اب کم از کم بوسیدہ ہڈی یا مٹی کی صورت میں تو تم موجود ہو۔

بعض مقامات پر قرآن لوگوں کو ہاتھ پکڑ کر وسیع کائنات زمین و آسمان میں عظمت قدرتِ خدا کا مشاہدہ کرواتا ہے او رکہتا ہے : کیا وہ ذات جو یہ سب کرات ، کہکشائیں ، ثوابت اور سیارے پیدا کرسکتی ہے اس کے اعادہ پر قادر نہیں ہے ۔(یٰسٓ۔ ۸)

۲ ۔کیا خدا ستمگر وں کو بخش دیتا ہے :مندرجہ بالاآیات میں ہم نے پڑھا ہے کہ پر ور دگار لوگوں کے ظلم کے باوجود صاحبِ مغفرت و بخشش ہے۔ مسلم ہے کہ اس سے یہ مراد نہیں کہ خد ااپنی عفو و بخشش ان ظالموں کے شامل حال کرتا ہے جو اپنے ظلم پر اصرار کرتے ہیں بلکہ وہ چاہتا ہے کہ ظالموں کو بھی اس وسیلے سے بازگشت اور اپنی اصلاح کا امکان فراہم کرے ورنہ دوسرے جملے میں ان کے انجام کی طرف اشارہ موجود ہے کہ ” تیرا پر ور دگار شدید العقاب ہے “۔

ضمنا ً اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہانِ کبیرہ ( کہ جن میں سے ایک ظلم ہے ) بھی قابل بخشش ہیں ( تمام تر شرائط کے ساتھ ) یہ آیت اور اس جیسی دیگر آیات اس غلط بات کا دو ٹوک اور قاطع جواب دیتی ہے جو قدیم زمانے سے معتزلہ کے حوالے سے نقل ہو ئی ہے کہ جو کہتے ہیں کہ گناہاں کبیرہ کبھی بھی نہیں بخشے جائیں گے ۔

بہر حال پروردگار کی ” وسیع مغفرت“ اور اس کے ” شدیدعقاب“ کا ذکر در حقیقت سب کو میانہ راہ پر اور خوف و رجا کے درمیان لے آتا ہے کہ جس کا اہم عامل انسان کی تربیت ہے کہ نہ بالکل رحمتِ الہٰی سے مایوس ہو جائے چاہے اس کا جرم سنگین بھی ہو اور نہ ہی کبھی اپنے آپ کو اس کی سزا سے مامون سمجھے چاہے اس کا گناہ خفیف ہی کیوں نہ ہو۔ اسی لئے ایک حدیث میں پیغمبر اکرم سے روایت ہے :

لولا عفو الله وتجا وزه ما هنا احد العیش ، ولولا وعید الله و عقابه لاتکل کل واحد

اگر خدا کی عفو و بخشش نہ ہوتی تو زندگی ہر گز کسی کے حلق میں گوارانہ ہوتی اور اگرخدائی تہدیدیں اور سزائیں نہ ہوتیں تو ہر شخص اس کی رحمت کے نام پر جو چاہتا انجام دیتا۔۱

یہاں سے واضح ہو جاتا ہے کہ جو لوگ گناہ انجام دیتے ہوئے بڑے غرور سے کہتے ہیں کہ ” خد اکریم ہے “ در حقیقت انہوں نے خدا کے کرم پر بھروسہ نہیں کیا وہ جھوٹ بولتے ہیں اور اصل میں وہ پروردگار کی سزا اور عذاب سے بے اعتنائی کرتے ہیں ۔

____________________

۱۔ مجمع البیان ص ۲۷۸ جلد ۵ و ۶ زیر بحث آیت کے ذیل میں ، تفسیر قرطبی جلد ۶ ص ۳۱۴۔

آیت ۷

۷ ۔( وَیَقُولُ الَّذِینَ کَفَرُوا لَوْلاَاٴُنزِلَ عَلَیْهِ آیَةٌ مِنْ رَبِّهِ إِنَّمَا اٴَنْتَ مُنذِرٌ وَلِکُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ) ۔

ترجمہ

۷ ۔ اور وہ جو کافر ہو گئے کہتے ہیں کہ اس کے پر وردگار کی طرف سے اس پر آیت( اور معجزہ) کیوں نازل نہیں ہوا۔ تُوتو صرف ڈرانے والاہے اور ہر گروہ کے لئے ہدایت کرنے والا ہوتا ہے ( اور یہ تو سب بہانے ہیں نہ کہ حقیقت کی جستجو)۔

پھر بہانہ سازی

گزشتہ آیات میں کچھ اشارہ مسئلہ توحید کے متعلق کئے گئے ہیں اور ایک اشارہ مسئلہ ” معاد کی طرف کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد زیر بحث آیت میں ہٹ دھرم مشرکین کی طرف سے ” نبوت“ کے بارے میں ایک اعتراض بیان کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہو تا ہے : کفار کہتے ہیں : اس کے پروردگار کی طرف سے اس پرکیوں کوئی معجزہ او ر نشانی نازل نہیں ہوئی( وَیَقُولُ الَّذِینَ کَفَرُوا لَوْلاَاٴُنزِلَ عَلَیْهِ آیَةٌ مِنْ رَبِّهِ )

واضح ہے کہ پیغمبر کی ذمہ داریوں میں سے ایک یہ ہے کہ اپنی حقانیت کی سند کے طور پر اور وحی الہٰی سے اپنے تعلق کے ثبوت میں معجزات پیش کرے اور متلاشیانِ حق نبوت کی دعوت میں شک و تردید کے موقع پر حق رکھتے ہیں کہ معجزے کا مطالبہ کریں لیکن اگر نبوت کے دلائل دوسرے طریقے سے آشکار اور واضح ہو ں تو پھر وہ حق نہیں رکھتے لیکن ایک نکتہ کی طرف بھر پور توجہ کرنا چاہئیے کہ مخالفین ِ انبیاء ہمیشہ حسنِ نیت کے حامل نہیں ہوتے تھے معجزات حق معلوم کرنے کے لئے طلب نہیں کرتے تھے بلکہ ہٹ دھرمی اور حق کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنے کے لئے بھی ہر وقت معجزے اور عجیب و غریب خارق ِ عادت کا تقاضا کرتے تھے۔ ایسے معجزات کہ جنہیں ” معجزات ِ اقتراحی“ کہا جاتا ہے ہر گز کشفِ حقیقت کے لئے نہیں تھے ۔ اسی لئے انبیاء ان کا تقا ضا تسلیم نہیں کر تے تھے ۔ در حقیقت ان ہٹ دھرم کفار کا یہ خیال تھا کہ پیغمبر (ص) کا دعویٰ ہے کہ میں ہر چیز انجام دینے پر قادر ہو ں اور معجزہ گر ہوں اور یہاں بیٹھا ہوں جو شخص بھی کسی معجزے کا تقاضا کرے گا وہ پیش کرودوں گا ۔

لیکن انبیاء یہ حقیقت بیان کرکے ایسے لوگوں کی خواہشات ٹھکرادیتے تھے کہ معجزات خدا کے ہاتھ میں ہیں اوراس کے حکم سے انجام پاتے ہیں اور ہماری ذمہ داری لوگوں کی تعلیم و تربیت ہے ۔

اسی لئے زیر بحث آیت میں ہے کہ خدا تعالیٰ اس گفتگو کے بعد فرماتا ہے : اے پیغمبر تو ُتو صرف ڈرانے والا ہے اور ہر قوم و ملت کے لئے ہادی و رہنما ہوتا ہے( إ ِنَّمَا اٴَنْتَ مُنذِرٌ وَلِکُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ) ۔

دو سوال اور ان کے جواب

۱ ۔ کافروں کا جواب کیسے ہوا ؟

سوال پیدا ہوا کہ( إ ِنَّمَا اٴَنْتَ مُنذِرٌ وَلِکُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ) کس طرح کافروں کی معجزہ طلبی کا جواب ہو سکتا ہے ۔

جو بات مندرجہ بالا سطور میں کہی گئی ہے اس کی طرف توجہ دینے سے سوال کا جواب واضح ہو جاتا ہے۔ کیونکہ پیغمبر ایک ایسی شخصیت نہیں کہ ہر تقاضے، ہر مقصد اور ہر مراد کے لئے معجزہ ایجاد کردے ۔پہلے تو ا س کی ذمہ دای ہے ” انذار“ اور انہیں ڈرانا جو بے راہ چلتے ہیں اور صراط مستقیم کی دعوت دینا ۔ البتہ جس مقام پر انذار اور ڈرانے کی تکمیل کے لئے اور گمراہوں کی صراط مستقیم پر لانے کے لئے معجزے کی ضرورت ہو مسلم ہے کہ پیغمبر کوتاہی نہیں کرے گا ۔ البتہ ان ہٹ دھرم لوگوں کے جواب میں ہر گز اس کی ایسی کوئی ذمہ داری نہیں جو بالکل راستے پر نہیں آتے۔

در اصل قرآن کہتا ہے کہ یہ کفار پیغمبر کی اصلی ذمہ داری بھول چکے ہیں اور وہ ہے انذار ، ڈرانا اور خدا کی طرف دعوت دینا اور انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ اس کی بنیادی ذمہ داری معجزہ دکھانا ہے ۔

۲ ۔”لکل قوم ھاد“ سے کیا مراد ہے ؟

کچھ مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ دونوں صفات” منذر“ ہادی“اور پیغمبر اکرم کی طرف لوٹتی ہیں ۔ ان کے خیال میں در اصل یہ جملہ یوں ہے :( انت منذر و هاد لکل قوم )

تو ہر قوم اور ہر گروہ کے لئے ڈرانے والا او ر ہادی ہے۔

لیکن یہی تفسیر مندر جہ بالا آیت کے ظاہرکے خلاف ہے کیونکہ واؤ نے ”( لکل قوم هاد ) “ کو”( انما انت منذر ) “سے جدا کردیا ہے ۔ ہا ں البتہ اگر لفظ ”هاد “ ”لکل قوم “ سے پہلے ہوتا تو یہ معنی پورے طور پر قابلِ قبول تھا لیکن ایسانہیں ہے ۔

کچھ مفسرین کا خیال ہے کہ یہاں مقصد یہ تھا حق کی طرف دعوت کرن ے والوں کی دو قسمیں بیان کی جائیں ۔ پہلی قسم ان کے دعوت کرنے والوں کی جو انذار کریں اور ڈرائیں اور دوسری قسم ان دعوت کرنے والوں کی جو ہدایت کریں ۔

حتماً آپ سوال کریں گے کہ ” انذار“ اور” ہدایت “میں کیا فرق ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ” انذار“ اس لئے کہ گمراہی اور بے راہ روی سے راستے کی طرف پلٹا یا جائے اور صراطِ مسقتیم پر پہنچایا جائے لیکن ”ہدایت “ اس لئے ہے کہ لوگوں کو راستے پر آجانے کے بعد آگے لے جایا جائے۔

حقیقت میں ” منذر“” علت محدثة“ یعنی ایجاد کرنے والے سبب“ کی طرح ہے اور ”ہادی“ ” علت مبقیة“ یعنی باقی رکھنے والے اور آگے لے جانے والے سبب “ کی مانند ہے اور یہ وہی چیز ہے جسے ہم ” رسول “ اور ” امام “ سے تعبیر کرتے ہیں ۔ رسول ِ شریعت کی بنیاد رکھتا ہے اور امام شریعت کا محافظ اور نگہبان ہے ( اس میں شک نہیں کہ دیگر مواقع پر خود ذاتِ پیغمبرپر لفظ ”ہادی“ کا اطلاق ہوا ہے لیکن زیر بحث آیت میں ” منذر“ کے ذکر کے قرینے سے ہم سمجھتے ہیں کہ ” ہادی “ سے یہاں مراد وہ شخص ہے جو راہ پیغمبر کو جاری وساری رکھے اور اس کی شریعت کا محافظ و نگہبان ہو)۔

متعدد روایات کہ جو پیغمبر اسلام سے مروی ہیں اور شیعہ سنی کتب میں موجود ہیں ان میں آپ نے فرمایا ہے کہ : میں منذر ہو ں اور علی ہادی ہیں ۔

یہ روایات مندرجہ بالا تفسری کی مکمل طور پر تائید کرتی ہیں ۔ چند ایک روایات ذیل میں پیش کی جاتی ہیں :

۱) اسی آیت کے ذٰل میں فخر الدین رازی ابن عباس سے نقل کرتے ہیں :

وضع رسول الله یده علی صدره فقال انا المنذر، ثم اوماٴ الی منکب علیعليه‌السلام و قال انت الهادی بک یهتدی المهتدون من بعدی

رسول اللہ نے اپنا ہاتھ اپنے سینہ پر مارا اور فرمایا : میں منذر ہو ں ۔ پھر علی کے کندھے کی طرف اشارہ کیا اور فرمایاتو ہادی ہے اور تیرے ذریعے میرے بعد ہدایت پانے والے ہدایت پائیں گے ۔(۱)

یہ روایت اہل سنت کے مشہور عالم علامہ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اسی طرح علامہ ابن صباغ مالکی نے ” فصول المہمہ “ میں ، گنجی شافعی نے کفایة الطالب میں ، طبری نے اپنے تفسیر میں ، ابو حیان اندلسی نے اپنی تفسیر ” بحر المحیط“ میں ، علامہ نیشاپوری نے اپنی تفسیر میں اور اسی طرح دیگر بہت سے علماء نے نقل کی ہے

۲) حموینی جو اہل سنت کے مشہور عالم ہیں اپنی کتاب” فرائد السمطین “ میں ابو ہریرہ اسلمی سے اس طرح نقل کرتے ہیں :ان المراد بالهادی علی (ع)

ہادی سے مراد حضرت علیعليه‌السلام ہیں

۳) ” حبیب السیر“ کے مولف میر غیاث الدین اپنی کتاب کی دوسری جلد ص ۱۲ پر اس طرح لکھتے ہیں :

قد ثبت بطرق متعدده انه لما نزل قوله تعالیٰ ” انما انت منذر و لکل قوم هاد“ قال لعلی ” انا المنذر و انت الهادی بک یا علی یهتدی المهتدون من بعدی “۔

متعدد طریق سے نقل ہوا ہے کہ جب آیت ”( انما انت منذر و لکل قوم هاد ) “ نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم نے حضرت علیعليه‌السلام سے فرمایا:” میں منذر ہو ں اور تو ہادی ہے او رمیرے بعد ہدایت پانے والوں کی تیرے ذریعے ہدایت ہو گی “۔

آلوسی نے ” روح المعانی “ میں ، شبلنجی نے”نور الابصار“ میں اور شیخ سلیمان قندوزی نے ” ینابع المودة“ میں یہی حدیث انہیں الفاظ میں یا اس کے قریب قریب الفاظ میں نقل کی ہے ۔

اکرثر روایات میں اس حدیث کے راوی اگر چہ ابن عباس ہیں تا ہم یہ روایت ابن عباس میں منحصر نہیں ہے بلکہ حموینی کی نقل کے مطابق خود حضرت علیعليه‌السلام سے بھی مروی ہے ، آپعليه‌السلام فرماتے ہیں :

المنذر النبی و الهادی رجل من بنی هاشم یغنی نفسه

منذر پیغمبر ہیں ہادی بنی ہاشم میں سے ایک شخص ہے کہ اس سے مراد خود آپ کی ذات ہے ۔ ۲

____________________

۱۔تفسیر کبیر فخر رازی جلد ۱۹ ص۱۴۔

۲۔ اس حدیث میں اگر چہ مسئلہ ولایت اور خلافتِ بلا فصل کی تصریح نہیں کی گئی تا ہم اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ہدایت اپنے وسیع معنی کے لحاظ سے حضرت علیعليه‌السلام میں منحصر نہ تھی بلکہ تمام سچے علماء اور رسول اللہ کے خاص اصحاب یہ کام انجام دیتے تھے ، معلوم ہوتا ہے کہ ”ہادی “ کے طور پر حضرت علیعليه‌السلام کی تعارف آپ کے خاص امتیاز اور خصوصیت کی وجہ سے ہے ۔ آپعليه‌السلام بہترین اور افضل ترین ہادی کے مصداق ہیں اور اس قسم کامطلب ولایت اور خلافتِ پیغمبر سے جدا نہیں ہو سکتا ۔