تفسیر نمونہ جلد ۱۰

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 30341
ڈاؤنلوڈ: 2949


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 93 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30341 / ڈاؤنلوڈ: 2949
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 10

مؤلف:
اردو

قرآنی مثالیں

مباحث کی توضیح و تفسیر میں مثال کی تاثیر ناقابل انکار ہے ۔ اسی بناء پر کسی بھی علم میں حقائق کے اثبات اور توضیح کے لئے انہیں ذہن کے قریب لانے کے لئے ہم مثال پیش کرنے سے بے نیاز نہیں ہیں ۔

بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک بر محل مثال کو جو مقصود سے پوری طرح ہم آہنگ ہو اور اس پر منطبق ہو مطلب کو آسمان سے زمین پرلے آتی ہے اور اسے سب کے لئے قابل فہم بنادیتی ہے ۔

بہر حال کہا جا سکتا ہے کہ مختلف علمی ، تر تیبی، اجتماعی اور اخلاقی مباحث میں مثال مندرجہ ذیل موثر اثرات رکھتی ہے ۔

۱ ۔ مثال مسائل کو حسّی بنا دیتی ہے :

انسان چونکہ زیادہ تر محسوسات سے مانوس ہے اور پیچیدہ عقلی حقائق نسبتاً افکار کی دسترس سے دور ہوتے ہیں لہٰذا حسّی مثالیں ان دور دراز فاصلوں کو سمیٹ دیتی ہیں اور انہیں محسوسات کے آستانے پر لاکھڑا کرتی ہیں اور ان کے ادراک کو دل چسپ، شیریں اور اطمینان بخش بنادیتی ہیں ۔

۲ ۔ مثال راستے کو مختصر کردیتی ہے :

بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک گہرا ، منطقی اور عقلی مسئلہ ثابت کرنے کے لئے انسان کو مختلف استدلالات کا سہارا لینا پڑتا ہے مگر پھر بھی اس کے گرد ابہام موجود رہتا ہے لیکن ایک واضح اور مقصد سے ہم آہنگ مثال راستہ اس قدر مختصر کردیتی ہے کہ استدلال کی تاثیر میں اضافہ ہو جاتا ہے اور متعدد استدلالات کی ضرورت بھی نہیں رہتی ۔

۳ ۔ مثال مسائل کو سب کے لئے یکسان بنا دیتی ہے :

بہت سے علمی مسائل کہ جو اپنی اصل صورت میں صرف خواص کے لئے قابل فہم ہیں اور عامة الناس اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا پاتے لیکن جب ساتھ مثال موجود ہو اور اس کے ذریعے وہ قابل فہم ہوجائیں تو ان سے سب لوگ مستفید ہو ں گے چاہے وہ علم و دانش کی عمومیت دینے کے اعتبار سے ناقابل انکار کار آمد چیزیں ہیں ۔

۴ ۔ مثال مسائل کو زیادہ قابل اطمینان بنا دیتی ہے :

کلیاتِ عقلی جس قدر بھی مستدل او رمنطقی ہوں جب تک ذہن تک رہتے ہیں ان کے بارے مین کافی اطمینان پیدا نہیں ہوتاکیونکہ انسان ہمیشہ اطمینان کو عینیت اور ظاہری وجود میں ڈھونڈتا ہے او رمثال ذہنی مسائل کو عینیت بخشتی ہے اور انہیں عالم ِ خارج میں واضح کردیتی ہے ۔ اسی لئے باور کرنے ، قبول کرنے اور اطمینان حاصل کرنے کے لئے مثال بہت موثر ہو تی ہے ۔

۵ ۔مثال ہٹ دھرموں کو خاموش کردیتی ہے :

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مسائل کلیات مستدل اور منطقی صورت میں پیش کیے جائیں تو ایک ہٹ دھرم شخص ان پر خاموش نہیں ہوتا اور اسی طرح ہاتھ پاؤں مارتا رہتا ہے لیکن جب مسئلہ مثال کے قالب میں ڈھالاجائے تو اس کے لئے راستہ بند ہو جاتا ہے اور اس میں بہانہ جوئی کی مجال نہیں رہتی ۔

نامناسب نہیں ہوگا اگر ہم اس موضوع کے لئے چند مثالیں پیش کریں تاکہ واضح ہو جائے کہ مثال میں کس قدر اثر ہے ۔

جو لوگ یہ اعتراض کرتے تھے کہ حضرت عیسیٰ صرف ماں سے کس طرح پیدا ہو گئے اور کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص بغیر باپ کے پیدا ہو جائے ، قرآن ان کے جواب میں فرماتا ہے :( ان مثل عیسیٰ عند الله کمثل اٰدم خلقه من تراب )

عیسیٰ کی مثال خدا کے نزدیک آدم کی سی ہے کہ جسے اس نے مٹی سے پید اکیا ۔ ( آل عمران ۵۹)

صحیح طرح سے غور کریں کہ ہم جس قدر بھی ہٹ دھرم لوگوں کے سامنے کہیں کہ یہ کام خدا کی لامتناہی قدرت کے سامنے نہایت معمولی ہے پھر بھی ممکن ہے وہ بہانے ڈھونڈیں لیکن جب ان سے یہ کہیں کہ کیا تم یہ مانتے ہو کہ حضرت آدم کو جو پہلے انسان تھے مٹی سے پیدا ہوئے تھے تو جو خدا ایسی قدرت رکھتا ہے وہ کسی بشر کو بغیرباپ کے پیدا کیوں نہیں کرسکتا ۔

جن منافقوں نے اپنے نفاق کے زیر سایہ چندن دن ظاہر اً سکون و آرام سے بسر کیے ہیں قرآن مجید ان کے بارے میں ایک خوبصورت مثال پیش کرتا ہے ۔ قرآن انہیں ایسے مسافر سے تشبیہ دیتا ہے جو تاریک بیابان سے گزرہا ہے ۔ رات اندھیری ہے ۔ بادل گرج رہے ہیں ۔ مسافر آندھی، طوفان او ربارش میں گرفتار ہو جاتا ہے ۔ وہ اس طرح سے سر گر دان ہے کہ اسے کسی طرف کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا۔ ایسے میں جب آسمانی بجلی چمکتی ہے تو بیابان کی فضا چند لمحوں کے لئے روشن ہو جاتی ہے اور وہ اراد ہ کرتا ہے کہ کسی طرف جائے تاکہ اسے راستہ مل جائے لیکن جلدی ہی وہ بجلی خاموش ہو تی ہے اور وہ اسی طرح بیابان میں سر گرداں رہ جاتا ہے ۔ (بقرہ۔ ۲۰)

کیا سر گرداں منافق کی حالت کی تصویر کشی کے لئے کہ جو اپنی روحِ نفاق او رمنافقانہ عمل سے اپنی زندگی کا سفر جاری رکھنا چاہتا ہو اس سے زیادہ جاذبِ نظر مثال ہو سکتی ہے ؟ یایہ کہ جب ہم کچھ لوگوں سے کہتے ہیں کہ راہِ خدا میں خرچ کرو تو خدا تمہیں کئی گنازیادہ اجر دے گا تو ہو سکتا ہے کہ عام لوگ اس بات کا مفہوم پوری طرح نہ سمجھ سکیں لیکن جب یہ کہا جا ئے کہ راہ خد امیں خرچ کرنا اس بیج کی مانند ہے جسے زمین میں ڈالا جائے کہ جس سے سات خوشے اگتے ہیں اور ہر خوشے میں ہو سکتا ہے ایک سو دانے ہوں تو پھر یہ مسئلہ پوری طرح سے قابل فہم ہو جا تاہے جیسا کہ ارشاد الہٰی ہے

( مثل الذین ینفقون اموالهم فی سبیل الله کمثل حبة انبتت سبع سنابل فی کل سنبلة مائة حبة ) (بقرہ ۲۶۱)

عام طور پر ہم کہتے ہیں کہ ریا کاری والے اعمال فضول او ربیکار ہیں اور انسان کو ان سے کوئی فائد ہ حاصل نہیں ہوتا ہوسکتا ہے یہ بات کچھ لوگوں کے لئے ناقابل فہم ہو کہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک فائدہ مند عمل مثلاًایک ہسپتال یا ایک مدرسہ اگر چہ دکھاوے اور ریاکاری کے ارادہ سے ہو بار گاہ قدرت میں بے وقعت ہو لیکن قرآن ایک مثال کے ذریعے اس بات کو پوری طرح قابلِ فہم اور دلچسپ بنا دیتا ہے ۔

ارشاد ہوتا ہے :( فمثله کمثل صفوان علیه تراب فاصابه وابل فترکه صلداً )

ایسے اشخاص کا عمل پتھر کے ایک ٹکڑے کی مانند ہے کہ جس پر کچھ مٹی ڈال دی گئی ہو او راس پر کچھ بیج چھڑک دیاجائے ۔ تو جس وقت بارش برستی ہے تو بجائے کہ یہ بیج بار آور ہو بارش اسے پتھر پر پڑی ہو ئی سطحی مٹی کے ساتھ دھو ڈالتی ہے اور اسے ایک طرف پھینک دیتی ہے ۔ (بقرہ۔ ۲۶۴)

ریا کاری اور بے بنیاد اعمال کی بھی یہی حالت ہے ۔ہم دور نہ نکل جائیں اسی زیر بحث مثال میں کہ جو حق و باطل کے مابین مقابلے کے بارے میں اس میں معاملے کی کیسی عمدہ تصویر کشی کی گئی ہے اور اسے دقیق طور پر مجسم کیا گیا ہے ۔ تمہید ، نتائج اور حق و باطل کی مخصوص صفات اور آثار میں سے ہر ایک کو ا س مثال میں اس طرح سے منعکس کیا گیا ہے کہ مسئلہ سب لوگوں کے لئے قابل فہم او راطمینان بخش ہو گیا ہے ۔ اس کے پیش کئے گئے حقائق ہٹ دھرم افراد کو خاموش کردینے والے ہیں نیز تمام چیزوں سے قطع نظر یہ مثال طولانی مباحث کی زحمت سے بچا دیتی ہے ۔

ایک روایت میں ہے کہ مادہ پرست امام صا د ق علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا اور عرض کیا : قرآن میں ہے کہ جس وقت دوزخیوں کے جسم کا چمڑاآگ کی شدت سے جل جائے گا تو ہم اسے دوسرا چمڑا پہنادیں گے تاکہ وہ عذاب کا ذائقہ اچھی طرح سے چکھیں ۔ اس دوسرے چمڑے کاکیا گناہ ہے کہ اسے سزا اور عذاب دیا جائے ۔

اس کے جواب میں امام نے فرمایا:

وہ چمڑابعینہ پہلا وا چمڑا بھی ہے اور اس کا غیر بھی ہے ۔

سوال کرنے والے اس جواب سے مطمئن نہ ہو اور اس جواب سے کچھ نہ سمجھ سکا لیکن امام نے ایک ناطق مثال کے ذریعے معاملہ اس طرح سے واضح کردیا کہ گفتگو کی گنجائش باقی نہ رہی ۔ آپ نے فرمایا:

دیکھو!تم ایک پرانی اور خراب اینٹ کو زیزہ ریزہ کردیتے ہو پھر اسی خاک کو بھگو کر سانچے میں ڈالتے ہو اور اس سے ایک نئی اینٹ بناتے ہو ۔ یہ وہی پہلے والی اینٹ ہے اور ایک لحاظ سے اس کی غیر بھی ہے ۔(۱)

یہاں ایک نکتہ کا ذکر بہت ضروری ہے اور وہ یہ کہ مثال اپنے ان تمام مفید او رموثر اثرات کے باوجود اپنا بنیادی تقاضا بھی پورا کرسکتی ہے جب وہ اس مطلب سے ہم آہنگ ہو جس کے لئے اسے پیش کیا جا رہا ہے ورنہ مثال خود گمراہ ہو گی یعنی جیسے ایک صحیح اور ہم آہنگ مثال مفید اور مؤثر ہے اسی طرح ایک انحرافی اور غلط مثال گمراہی اور تباہی کا باعث بھی ہو سکتی ہے ۔

اسی بناء پر منافقین اور بداندیش افراد ہمیشہ لوگوں کو گمراہ کرنے اور سادہ لوح افراد کو غافل کرنے کے لئے غلط مثالوں کا سہارا لیتے ہیں اور اپنے جھوٹ کے لئے مثال سے مدد لیتے ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ ہم انحرافی اور غلط مثالوں سے فائدہ اٹھانے والے ایسے افراد پر پوری توجہ سے نظر رکھیں ۔

____________________

۱۔اس حدیث کی تشریح تفسیر نمونہ جلد ۲ ص۳۰۸( ار دو ترجمہ ) میں ملاحظہ فرمائیں ۔ وہاں یہ حدیث مجالس ِ شیخ اور احتجاج طبرسی کے حوالے سے ذکر کی گئی ہے ۔

آیت ۱۸

۱۸ ۔( لِلَّذِینَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ الْحُسْنَی وَالَّذِینَ لَمْ یَسْتَجِیبُوا لَهُ لَوْ اٴَنَّ لَهُمْ مَا فِی الْاٴَرْضِ جَمِیعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ اٴُوْلَئِکَ لَهُمْ سُوءُ الْحِسَابِ وَمَاٴْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِهَادُ ) ۔

ترجمہ

۱۸ ۔ ان لوگوں کے لئے کہ جنہوں نے اپنے پر وردگار کی دعوت کو قبول کیا ہے نیک ( انجام ، جزا اور) نتیجہ ہے اور وہ کہ جنہوں نے اس کی دعوت کو قبول نہیں کیا ( وہ عذا ب الہٰی کی وحشت میں اس طرح غرق ہو ں گے کہ) اگر وہ سب کچھ جو زمین پر ہے اور اس کی مثل ان کی ملکیت ہو او روہ یہ سب کچھ عذاب سے نجات کے لئے دے دیں ( لیکن وہ ان سے قبول نہیں کیا جائے گا ) ان کے لئے بر احساب اور ان کا ٹھکا نا جہنم ہے او روہ کس قدر بر اٹھکا نا ہے ۔

جنہوں نے دعوت ِ حق کو قبول کر لیا

گشتہ آیت میں حق و باطل کا چہرہ نمایاں کرنے کے لئے ایک رسا اور فصیح و بلیغ مثال پیش کی گئی تھی ۔ اس کے بعد اب اس مقام پر ان لوگوں کے انجام کی طرف اشار ہ کیا گیا ہے جنہوں نے دعوتِ حق کو قبول کرلیا اور اس کے گر ویدہو گئے نیز ان افراد کا انجام بیان کیا گیا ہے جنہوں نے حق سے ر وگردانی کرتے ہوئے باطل کی طرف رخ کیا۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے : ان لوگوں کے لئے ، جنہوں نے اپنے پر ور دگار کی دعوت کو قبول کرلیا ہے نیک جزا، سود مند نتیجہ اور عاقبت ِ محمود ہے( للَّذِینَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ الْحُسْنَی ) ۔

”حسنیٰ “ ( نیکی ) کا ایک وسیع مفہوم ہے جس میں ہر خیر و سعادت شامل ہے ۔ نیک خصائل اور اخلاقی فضائل سے لے کر پا ک و پاکیزہ اجتماعی زندگی، دشمن کا پر کامیابی اور بہشتِ جا وداں تک سب اس کے مفہوم میں شامل ہیں ۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے :او روہ یہ جنہوں نے پر وردگار کی یہ دعوت قبول نہیں کی ان کا انجام اس قدر برا اور رقت بار ہے کہ اگر تمام روئے زمین اور حتی کہ اس کی مثل بھی ان کی ملکیت میں ہو اور وہ یہ سب کچھ اسے برے انجام سے نجات کے لئے دینے ہر آمادہ ہو ں توبھی ”ان سے یہ سب کچھ قبول نہیں کیا جائے گا( وَالَّذِینَ لَمْ یَسْتَجِیبُوا لَهُ لَوْ اٴَنَّ لَهُمْ مَا فِی الْاٴَرْضِ جَمِیعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ ) ۔

ان کے لئے عذاب اور سزا کے عظیم ہونے کی تصویر کشی کے لئے اس سے بڑھ کر رسا اور عمدہ تعبیر نہیں ہوسکتی کہ ایک انسان تمام روئے زمین بلکہ اس کے دوگناکامالک ہو اور وہ سب کچھ اپنے آپ کو بچانے کے لئے دے دے مگر وہ اس کے لئے فائد ہ مند نہ ہو ۔

یہ جملہ در حقیقت اس طرف اشارہ ہے کہ ایک انسان کی آخری آرزو کہ جس سے بر تر تصور نہیں ہوسکتا یہ ہے کہ وہ تمام روئے زمین کا مالک ہو لیکن ستمگروں اور دعوت ِ حق کے مخالفوں کو دئے جانے والے عذاب کی شدت اس حد تک ہے کہ وہ اس بات پر تیار ہوں کہ یہ آخری دنیاوی ہدف بلکہ اس سے بھی بر تر و بالاتر کو فدیہ کے طور پر دے کر آزادہوجائیں اور بالفرض اگر ان سے یہ قبول کر بھی لیا جاتا تو یہ صرف عذاب سے نجات ہوتی ۔ لیکن دعوتِ حق کو قبول کرنے والوں کے لئے جو انتہائی عظیم اجر ہیں ان کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے واضح ہو جا تا ہے کہ ” مثلہ معہ “ صرف اسی معنی میں نہیں کہ پورے کرہ زمین کی مانند ان کے پاس مزید ہو بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ اس سے بڑھ کر جنتی زیادہ دولت ِ و سلطنت کے مالک ہو جائیں اور وہ اپنی نجات کے لئے سب کچھ دینے پر تیار ہو ں گے ۔ اس کی وجہ بھی واضح ہے ۔ انسان چونکہ ہر چیز اپنے لئے چاہتا ہے او رجب وہ خود عذاب میں غرق ہو تو پھر تما م دنیا کی مالکیت کا اسے کیا فائدہ ۔

اس بدبختی (ساری دنیا دے کر بھی نجات حاصل نہ ہونا)کے بعد ایک او ربد بختی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : ان کا حساب کتاب سخت اور برا ہو گا( اٴُوْلَئِکَ لَهُمْ سُوءُ الْحِسَابِ ) ۔

”سوء الحساب “ سے کیا مراد ہے ، اس سلسلے میں مفسرین کے مختلف نظر یات ہیں ۔

بعض کا نظر یہ ہے اس سے مراد ایسا حساب ہے جو بہت دقیق اور باریک بین ہو اور جس میں کوئی در گزر نہ ہو کیونکہ ” سوء الحساب“ ظلم و ستم کے معنی میں خدا ئے عادل کے بارے میں کوئی مفہوم نہیں رکھتا ۔ حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ایک حدیث بھی اسی تفسیر کی تائید کرتی ہے ۔ اس حدیث میں ہے کہ امام نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا :فلاں شخص کو تجھ سے کیوں شکایت ہے ۔

اسے یہ شکایت ہے کہ میں نے اپنا حق اس سے آخر تک لیا ہے ۔

جب امام نے یہ بات سنی تو غضب ناک ہو کر بیٹھ گئے، پھر فرمایا :

کانک اذا استقضیت حقک لم تسبیٴ ارایت ماحکی الله عزوجل: و یخا فون السوء الحساب، تراهم یخافون الله ان یجور علیهم لاو الله ماخافوا الا الاستقصاء فسماه الله عزو جل سوء الحساب فمن استقصی فقد اسائه ۔

گویا تیرا گمان ہے کہ اگر تو آخری مرحلہ تک اپنا حق لے لے تو تُو نے کوئی بر انہیں کیا۔ ایسا نہیں ہے ۔ کیا تونے خدا کا یہ ارشاد نہیں دیکھا کہ جس میں اس نے فرمایا ہے :و یخاف فون سوء الحساب ( او ربد کار برے حساب سے ڈرتے ہیں ) ۔

کیا تیرا خیال ہے کہ وہ اس سے ڈرتے ہیں کہ خدا ان پر ظلم کرے گا ؟ بخدا ایسا نہیں وہ تو اس سے ڈرتے ہیں کہ خدا ان کا حساب دقیق طور پر لے اور آخری مرحلے تک پہنچائے۔ خدا نے اس کا نام ” سوء الحساب “ رکھا ہے لہٰذا جس شخص نے حساب کرنے میں سخت گیری کی اس نے برا حساب کیا ہے ۔(۱)

بعض دوسرے مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ ” سوء الحساب “ سے مراد یہ ہے کہ ان کا محاسبہ سر زنش کے ساتھ ہو گا ۔ اس سے ایک تو اصل حساب کی وحشت ہو گی اور ا س کے علاوہ بھی وہ سر زنش کی تکلیف سے گزریں گے ۔

بعض دیگر مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ ”سوء الحساب “ سے مراد ”سوء الجزاء “ ( برا بدلہ ) ہے یعنی ان کے لئے بری سزا ہے ۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے ہم کہیں کہ فلاں شخص کا حساب پاک ہے یا فلاں شخص کا حساب تاریک ہے یعنی ان کے حساب کا نتیجہ اچھا یا برا ہے یا یہ کہ ہم کہیں کہ فلاں شخص کا حساب اس کے ہاتھ میں دے دو یعنی اس کے کام کے مطابق اسے سزا یا بدلہ دو۔

یہ تینوں تفاسیر ایک دوسرے کے منافی نہیں اور ہوسکتا ہے کہ یہ سب کی سب آیت کی مراد ہوں یعنی ایسے سخت حساب سے گزرنا ہو گا اور محاسبہ کے ساتھ ساتھ انہیں سر زنش بھی ہو گی اور حساب کے بعد انہیں بے کم وکاست سزا بھی دی جائے گی ۔آیت کے آخر میں ان کے لئے تیسرے عذاب یا سزا کے آخری نتیجے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ فرمایا گیا ہے : ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور یہ کیسا بر اٹھکانا ہے( وَمَاٴْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِهَادُ ) ۔

”مھاد“اصل میں ” مھد “کے مادہ سے تیار اور مہیا کرنے کے معنی میں ہے نیز یہ لفظ بستر کے معنی میں بھی آیاہے کہ جس سے انسان آرام اور استراحت کے موقع پر استفادہ کرتا ہے کیونکہ وہ اسے استراحت کرنے کے لئے آمادہ کرتا ہے ۔

یہ لفظ اس طرف اشارہ ہے کہ ایسے سر کش افراد بجائے بسترِ استراحت پر آرام کرنے کے آگ کے جلادینے والے شعلوں پر رہیں گے۔

____________________

۱۔ تفسیر بر ہان جلد ۲ ص ۲۸۸( یہ حدیث اگر چہ اس سورہ کی آیہ ۲۱ کی تفسیر کے متن میں آئی ہے لیکن واضح ہے کہ یہ لفظ” سوء الحساب“ کا عمومی مفہوم بیان کررہی ہے ) ۔

ایک نکتہ

آیات الہٰی سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ قیامت میں لوگ دو گروہوں میں تقسیم ہو جائیں گے ۔ ایک وہ گروہ ہے خدا کی بارگاہ میں جن کا حساب اور سہولت آسانی سے ہو گا اور اللہ تعالی ان کے بارے میں کسی قسم کی سخت گیری نہیں کرے گا ۔ ارشاد الہٰی ہے :( اما من اوتی کتابه بیمینه فسوف یحاسب حساباً یسیراً )

اس دن جسے نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا اس سے آسان حساب لیاجائے گا ۔ (انشقاق۔ ۸ ۔ ۷)

اس کے بر عکس کچھ ایسے لوگ ہیں جن سے ” شدت“ کے ساتھ حساب لیا جائے گا ۔ ان سے ذر ہ ذرہ اور مثقال بھر کا حساب نہایت باریک بینی سے لیاجائے گا ۔جیسا کہ بعض شہر جن کے لوگ سر کش اور گنہگار تھے ، ان کے بارے میں فرمایا گیاہے :( فحاسبنا حساباً شدیداً و عذابنا ها عذاباً نکراً )

پس ہم نے ان کا بڑی سختی سے حساب لیا اور انہیں برے عذاب کی سزا دی ۔

اسی طرح زیر بحث آیت میں ہے جس میں ”سوء الحساب “ کی تعبیر استعمال ہوئی ہے ۔

یہ اس بناء پر کہ کچھ لوگ دنیا وی زندگی میں دوسروں سے حساب لینے میں بہت زیادہ سختی کرتے ہیں یعنی بال کی کھال اتارنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اپنے حق کا آخری پیسہ تک وصول کرلیں او رجب دوسرے سے کوئی خطا سرزد ہو جاتی ہے تو آخری حد امکان تک اسے سزا دیتے ہیں ۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو اپنی بیوی، اولاد، بھائیوں اور دوستوں تک سے ذرہ بھر در گزر نہیں کرتے اور چونکہ دوسرے جہان کی زندگی اس جہان کا رد عمل ہے لہٰذا خدا بھی ان کے حساب کتاب میں ایسی سخت گیری کرے گا تاکہ انہوں نے جو کام بھی کیا ہے ا س کے جواب دہ ہوں اور ان کے بارے میں کچھ بھی د رگزر اور چشم پوشی نہیں کی جائے گی ۔ اس کے برعکس کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو آسان گیر ہیں بہت زیادہ در گزر کرنے والے ہیں اور نہایت شفیق و مہر بان ہیں ۔ خصوصاًدوستوں اور جان پہچان والے افراد یاجن پر ان کا کوئی حق ہے یا جو افراد ضعیف اور کمزور ہیں ان کے لئے ایسے مہر بان اور بزرگوار ہیں کہ کوشش کرتے ہیں کہ ایسے بہت سے مواقع پر اپنے آپ کو غافل ظاہر کریں اور بعض کی غلطیوں اورگناہوں سے چشم پوشی کرلتیے ہیں البتہ یہاں گناہوں سے مراد ایسے گناہ ہیں جو شخصی اور انفرادی پہلو رکھتے ہیں ۔

خدا ایسے افراد کے لئے آسانی فراہم کرتا ہے ۔ انہیں اپنی عفوِ بے پایاں اور رحمت ِ وسیع سے نواز تا ہے اور انہیں آسانی سے حساب کی منزل سے گزاردیتا ہے ۔

یہ بات تمام انسانوں کے لئے ، خصوصاً ان لوگوں کے لئے جوکسی امر کے سر براہ یانگران ہوتے ہیں اور لوگوں سے ان کا رابطہ اور تعلق ہوتا ہے ان کے لئے ایک عظیم درس ہے ۔