تفسیر نمونہ جلد ۱۰

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 30355
ڈاؤنلوڈ: 2949


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 93 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30355 / ڈاؤنلوڈ: 2949
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 10

مؤلف:
اردو

آیات ۲۵،۲۶

۲۵ ۔( وَالَّذِینَ یَنقُضُونَ عَهْدَ اللهِ مِنْ بَعْدِ مِیثَاقِهِ وَیَقْطَعُونَ مَا اٴَمَرَ اللهُ بِهِ اٴَنْ یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِی الْاٴَرْضِ اٴُوْلَئِکَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلهُمْ سُوءُ الدَّارِ ) ۔

۲۶ ۔( اللهُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَشَاءُ وَیَقْدِرُ وَفَرِحُوا بِالْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا فِی الْآخِرَةِ إِلاَّ مَتَاعٌ ) ۔

ترجمہ

۲۵ ۔ اور وہ کہ جو عہد الہٰی کو مستحکم ہونے کے بعد توڑدیتے ہیں اور ان رشتوں کو قطع کردیتے ہیں جنہیں قائم رکھنے کا حکم خدا نے دیا ہے اور روئے میں میں دفساد کرتے ہیں ان کے لئے لعنت اور آخرت کے گھر کی بدی ( اور سزا )ہے۔

۲۶ ۔ خدا جسے چاہتا ہے ( اور اہل سمجھتا ہے ) وسیع رزق دیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے ( مستحق سمجھتا ہے ) تنگ کردیتا ہے لیکن وہ دنیا کی زندگی پر خوش ہو گئے ہیں جب کہ آخرت کے مقابلے میں دنیا وی زندگی متاع ِ ناچیز ہے ۔

دنیا پرست تباہ کار

چونکہ نیک و بد ہمیشہ ایک دوسرے سے موازنہ کرنے سے اچھی طرح واضح ہو جاتے ہیں لہٰذا ” اوالالباب“ اور حق پرست افراد کہ جن کا تفصیلی ذکر گزشتہ آیات میں آیا ہے کہ صفات بیان کرنے کے بعد محل بحث آیات کے کچھ حصوں میں مفسدین اور وہ کہ جو واقعی اپنی عقل و کفر گنوا بیٹھے ہیں کی چند بنیادی صفات بیان کی گئی ہیں ۔ارشاد ہوتاہے : اور وہ کہ جو عہد خدا وندی کو محکم کرنے کے بعد توڑدیتے ہیں اور ان رشتوں کو منقطع کردیتے ہیں جنہیں قائم رکھنے کا خد انے حکم دیا ہے اور روئے زمیں میں فساد بر پا کرتے ہیں ان پر لعنت ہے اور دار آخرت کا عذاب ان کے لئے مخصوص ہے( وَالَّذِینَ یَنقُضُونَ عَهْدَ اللهِ مِنْ بَعْدِ مِیثَاقِهِ وَیَقْطَعُونَ مَا اٴَمَرَ اللهُ بِهِ اٴَنْ یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِی الْاٴَرْضِ اٴُوْلَئِکَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلهُمْ سُوءُ الدَّارِ ) ۔

در حقیقت ان کے تمام اعتقادی و عملی مفاسد کا خلاصہ مذکورہ تین عہد و پیمان میں بیان کردیا گیا ہے :۔

(۱) خدائی عہد و پیمان کو توڑنا جس میں فطری ، عقلی اور شرعی عہد و پیمان شامل ہیں ۔

(۲) روابط اور رشتوں کو منقطع کرنا ۔ خدا سے رابطہ ، خدائی رہبروں سے رابطہ ، مخلوق سے رابطہ اور اپنے آپ سے رابطہ ۔

(۳) آخری حصہ کہ جو پہلے دو حصوں کا نتیجہ ہے روئے زمیں میں فساد کرنا۔

جو شخص پیمان الہٰی توڑتا ہے اور ہر طرف سے رشتوں کو منقطع کردیتا ہے کیا وہ فتنہ فساد کے علاوہ کوئی کام انجام دے سکتا ہے ، یہ کاوشیں ان لوگوں کی جانب سے مادی مقاصد کے لئے حی کہ خیالی مقاصد کے لئے کی جاتی ہیں اور ان کے نتیجے میں وہ کسی بلند مقصد کے قریب ہونے کی بجائے دو ہو جاتے ہیں کیونکہ ”لعنت“ رحمتِ خدا سے دوری کے معنی میں ہے ۔(۱)

یہ بات جاذب نظر ہے کہ اس آیت میں اور گزشتہ آیت میں ”دار“)گھر اور سرائے ) بصورت مطلق آیا ہے جو اس طرف اشارہ ہے کہ حقیقی گھر آخرت والا گھر ہی ہے کیونکہ دوسرا ہر گھر آخر کار خلل پذیر ہو گا اور ٹوٹ پھوٹ جائے گا ۔

بعد والی آیت میں اس طرف اشارہ ہے کہ روزی اور اس کی کمی بیشی خدا کے ہاتھ میں ہے : خد اجسے چاہتا ہے وسیع رزق دیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے اس کی روزی تنگ کردیتا ہے( اللهُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَشَاءُ وَیَقْدِرُ ) ۔

یہ اس طرف اشارہ ہے کہ جو لوگ زیادہ سے زیادہ دنیا سمیٹنے کے لئے روئے زمین پر فساد کرتے ہیں وہ خدائی رشتوں کو توڑتے ہیں اور خدا کے ساتھ عہد شکنی کرتے ہیں تاکہ مادی زندگی کے لئے زیادہ سے زیادہ مفادات حاصل کرسکیں لیکن وہ اس حقیقت کی طرف توجہ نہیں دیتے کہ رزق اور ا س میں کمی بیشی خدا کے ہاتھ میں ہے ۔

علاوہ ا ز ین یہ جملہ ایک سوال کا جواب بھی ہوسکتا جو آیت میں صراحت سے نہیں آیا اور وہ یہ کہ گزشتہ آیات میں حق و باطل کے طرفداردو گروہوں کے ذکر کے بعد یہ سوال سامنے آتا ہے کہ خدا اپنے رزق اور نعمات سے کس طرح نواز تا ہے تو آیت اس سوال کے جواب میں کہتی ہے کہ روزی اور اس کی کمی بیشی خدا کے ہاتھ میں ہے ۔ بہت صورت یہ روزی جلد گزرجانے والی متاع ہے جب کہ وہ چیز جسے اہمیت دی جا نا چاہئیے وہ آخرت کاگھر او رابدی سعادت ہے

تاہم اس کے بارے میں اہم نکتہ یہ ہے کہ رزق کے لئے ” مشیت ِ الہٰی “ یہ خدا نہیں کہ بغیر حساب کے اور اسباب سے فائدہ اٹھائے بغیر کسی کو رزق ِ فراوان دے دے یا اس کی روزی کو کم کر دے بلکہ ا س کی مشیت کی بنیاد یہ ہے کہ انسان اسے اس عالم کے اسباب کے اندر تلاش کرے کیونکہ : ” الیٰ اللہ این یجری الامور الاباسبابھا “ یعنی خد اچاہتا ہے کہ تمام امور اسباب کے ساتھ ہی روپذیر ہوں ۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے : عہد شکن اور فساد فی الارض کرنے والے دنیاوی زندگی پر ہی خوش ہیں حالانکہ آخرت کے مقابلے میں دنیا وی زندگی متاعِ ناچیز سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی( وَفَرِحُوا بِالْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا فِی الْآخِرَةِ إِلاَّ مَتَاعٌ ) ۔

نکر ہ کی صورت میں ”متاع“ کا ذکر اس کا حقیر ہونا ظاہر کرنے کے لئے ۔ جیسا کہ ہم فارسی میں کہتے ہیں :

فلاں موضوع ”متاعی“ بیش نیست

فلاں چیز”ایک متاع “ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ۔

یعنی بے وقعت متاع ہے ۔

چند اہم نکات

۱ ۔مفسد فی الارض “ کون ہے ؟

”فساد“ کہ جو ”اصلاح “ (درستی )کا متضاد ہے ہر قسم کی تخریب کاری اور تباہ کاری کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے ۔ راغب نے مفردات میں کہا ہے :

الفساد خروج الشیء عن الاعتدال قلیلا کان اوکثیراً و یضاد ه الصلاح، و یستعمل ذٰلک فی النفس و البدن و الاشیاء الخارجه عن الاستقامة ۔

چیزیں حالتِ اعتدال سے کس طرح بھی خارج ہوجائیں ، کم یا زیادہ، اسے فساد کہتے ہیں ۔ اس کا متضاد ” صلاح “ ہے ۔ یہ جان و بدن اور ان تمام خرابیاں جو مختلف کاموں میں پیدا ہوتی ہیں اور تما م انفرادی یا اجتماعی مسائل میں ہر قسم کا افراط اور تفریط ”فساد“ کا مصداق ہیں ۔قرآن مجید میں بھی بہت سے مواقع پر ”فساد“ اور ”صلاح “ ایک دوسرے کے مقابلے میں آئے ہیں ۔ سورہ شعراء کی آیت ۱۵۲ میں ہے :( الذین یفسدون فی الارض ولایصلحون )

وہ لوگ جو زمین میں فساد کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے ۔

سورہ بقرہ کی آیت ۲۲۰ میں ہے :( و الله یعلم المفسدین من المصلح )

خدا مفسدین کو مصلحین میں سے پہچانتا ہے ۔

سورہ اعراف کی آیت ۱۴۲ میں ہے :( واصلح ولاتتبع سبیل المفسدین ) اصلاح کرو اور مفسدین کی راہ کی پیروی نہ کرو۔

بعض مواقع پر ایما ن اور عمل صالح کو فساد کے مقابلہ میں قرار دیا گیا ہے :

( ام نجعل الذین اٰمنوا و عملو الصالحات کالمفسدین فی الارض )

کیاہم ایمان لانے والوں اور عمل صالح بجالانے والوں کو مفسدینِ فی الارض کی طرح قرار دیں ۔ (ص۔ ۲۸)

دوسری طرف بہت سی آیا ت ِ قرآن میں لفظ ” فساد“ کو ”فی الارض “ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے کہ جو نشاندہی کرتا ہے کہ مسئلے کے اجتماعی پہلوؤں پر نگاہ ہے ۔ یہ تعبیر قرآن میں بیس سے زیادہ مواقع ہر دکھائی دیتی ہے ۔

تیسری طرف قرآن مجید کی مختلف آیات میں ”فساد“ افساد“ ایسے گناہوں کے ساتھ آیا ہے جو شاید زیادہ تر مصداق کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ان میں سے بعض گناہ بہت بڑے ہیں اور بعض چھوٹے ہیں ۔ کبھی تو خدا اور رسول خدا اور رسول سے جنگ کے ہم پلہ ہو کر آیاہے ، مثلاً:انما جزاؤا الذین یحاربون الله و رسول له و یسعون فی الارض فساد اً

ان لوگوں کی جزاء کے جو اللہ اور اس کے رسول سے جنت کرتے ہیں اور زمین میں فساد کے در پے ہیں ( مائدہ ۔ ۳۳) کبھی نسال اور زراعت کو تباہ کرنے کے پلہ قرار پایاہے ، مثلاً

( و اذا تولیّ سعیٰ فی الارض لیفسد فیها ویهلک الحرث و النسل )

اور جہاں منھ پھیر ا تو ادھر دوڑ دھوپ کرنے لگا تاکہ زمین میں فساد پھیلائے اور زراعت اور نسل کا ستیا ناس کردے ۔ ( بقرہ ۔ ۲۰۵)

کبھی اس کا ذکر ان رشتوں کو منقطع کرنے کے ساتھ آیا ہے جنہیں قائم رکھنے کا خدا نے حکم دیا ہے ، مثلاً:

( الذین ینقضون عهد الله من بعد میثاقه و یقطعون ما امر الله به ان یوصل و یفسدون فی الارض )

وہ لوگ کہ جو اس سے میثاق باندھنے کے بعد عہد الٰہی کو توڑدیتے ہیں اور جن رشتوں کو خدا نے جوڑنے کاحکم دیا ہے انہیں قطع کردیتے ہیں اور اور زمین میں فساد کرتے ہیں ۔ ( بقرہ ۔ ۲۷)

کبھی اسے بڑا بننے کی خواہش اور سر کشی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ، مثلاً

( تلک الدار الاٰخره نجعلها للذین لایریدون علواً فی الارض و لا فساداً )

یہ آخرت کا گھر ہے جو ہم نے ان لوگوں کے لئے قرار دیا ہے جو زمین پر بڑا ہونے کی خواہش اور فساد بر پا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے ۔ ( قصص۔ ۸۳)

کبھی قرآن ”فرعون“ کو مفسد گردانتا ہے اور دریائے نیل میں غرق ہوتے ہیں وقت اسکے توبہ کرنے کے متعلق کہتا ہے :( اٰلاٰ و قد عصیت قبل وکنت من المفسدین )

اب ایمان لاتا ہے حالانکہ پہلے تونے نافرمانی کی اور تو مفسدین میں سے تھا ۔ ( یونس ۔ ۹۱)

کبھی یہی لفظ” فساد فی الارض“ چوری کے لئے استعمال ہوا ہے ۔ جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کے متعلق ہے کہ انہوں نے چوری کی تہمت لگنے کے بعد کہا:( تالله لقد علمتم ماجئنا لنفسد فی الارض وما کنا سارقین )

بخدا تم جاتنے ہو کہ ہم سر زمین مصر میں فساد کرنے نہیں آئے اور ہم کبھی بی چورنہ تھے ۔(یوسف ۔ ۷۳)

کبھی یہ لفظ کم فروشی کے ہم پلہ ہو کر آیا ہے ،جیسا کہ حضرت شعیب علیہ اسلام کے واقعے میں ہے کہ وہ اپنی قوم سے کہتے ہیں :( ولا تبخسو االناس اشیاء هم ولا تعثو ا فی الارض مفسدین )

کم فروشی نہ کرو اور لوگوں کے حق میں کمی نہ کرو اور زمین پر فساد نہ پھیلاتے پھرو ۔ (ہود ۔ ۸۵)

اور کبھی نظام ِ عالم ہستی اور جہان خلقت کو خراب اور تباہ کرنے کے معنی میں آیا ہے :لو کان فیهما اٰلهة الااله لفسد تا

اگر زمین و آسمان مین اللہ کہ جو خدائے یگانہ ہے کہ علاوہ اور خدا ہوتے تو یہ فاسد ،خراب اور بر باد ہو جاتے ۔(انبیاء۔ ۲۲)

ان تمام آیات سے کہ جو قرآن کی مختلف سورتوں میں آئی ہیں اچھی طرح سے معلوم ہوتاہے کہ ”فساد “بطور کلی “یا”فساد فی الارض “ایک بہت ہی وسیع معنی رکھتا ہے ۔اس کے مفہوم میں بڑے بڑے جرائم مثلاََ فرعون اور دوسرے آمروں کے جرائم اور ان سے کم تر کام یہاں تک کہ کم فروشی اور لین دین میں دھوکابازی جیسے گناہ بھی شامل ہیں ۔فساد کے وسیع مفہوم یعنی حد اعتدال سے ہر قسم کا اخراج،کی طرف توجہ رکھی جائے تو یہ وسعت پوری طر ح قا بل فہم ہے ۔نیز اس طر ف تو جہ کرتے ہوئے کہ عذاب اور سزاؤ ں کومیزان جرم کے مطابق ہونا چاہیئے :واضح ہوتا ہے کہ ان ”مفسدین “ میں سے ہر گروہ کو ایک الگ سزا ملنا چاہئیے اور سب کے لئے ایک جیسی سزا نہیں ہے ۔ یہاں تک کہ سورہ مائدہ کی آیہ ۳۳ کہ جسمیں ”مفسد فی الارض “ کا ذکر ” خد ااور رسول کے محارب“ کے ساتھ آیاہے ، ان کے لئے چار قسم کی سزائیں ہیں ۔ یقینا حاکم شرع کے ذمہ ہے کہ وہ ان چار سزاؤں (قتل کرنا، سولی پر لٹکا نا ، ہاتھ پاؤں کاٹنا اور جلا وطن کرنا) میں سے جرم کی مقدار کے مطابق ایک سز امنتخب کرے ، ہمارے فقہا نے فقہی کتب میں محارب اور مفسد فی الارض کی بحث میں ان سزاؤں کی شرائط اور حدود و تفصیل سے بیان کی ہیں ۔ ۲

ایسے مفاسد کی بیخ کنی کے لئے ہر موقع پر کسی ذریعے سے متمسک ہونا پڑے گا ۔ کبھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا پہلا مرحلہ یعنی پندو نصیحت اور تذکر ہی کافی ہوتا ہے لیکن کبھی ایسا وقت آجاتا ہے کہ شدت عمل کے آخری درجہ یعنی جنگ کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے ۔

ضمناً فساد فی الارخ کی تعبیر ہمیں انسانوں کی اجتماعی زندگی کی ایک حقیقت کی طرف راہنمائیکرتی ہے اور وہ یہ کہ اجتماعی مفاسد عام طور کسی خاص مقام سے تعلق نہیں رکھتے اور انہیں کسی ایک علاقے میں محصور نہیں کیا جاسکتا بلکہ ان کی وسعت پورے معاشرے اور پوری زمین تک ہوتی ہے اور ایک گروہ سے دوسرے گروہ کی طرف سرایت کرتے ہیں ۔

آیات ِ قرآنی سے یہ نکتہ بھی اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ بعثت ِ انبیاء کے عظیم مقاصد سے ایک ” وسیع مفہوم میں “ زمین سے فساد ختم کرنا ہے ۔ جیسا کہ خدا کے عظیم پیغمبر حضرت شیعب علیہ السلام کے بارے میں قرآن حکیم میں ہے کہ وہ اپنی سرکش قوم کے فساد کے مقابلے میں کہتے ہیں :( ان ارید الا الاصلاح ما استطعت )

میرا ہدف صرف یہ ہے کہ جتنا استطاعت میں ہے فساد کے خلاف جنگ کروں اور اصلاح کروں ۔ ( ہود۔ ۸۸)

۲ ۔ روزی خدا کے ہاتھ میں ہے لیکن:

مندرجہ بالاآیات ہی نہیں جو کہتی ہیں کہ روزی کی کمی بیشی خدا کے ہاتھ میں ہے بلکہ قرآن کی مختلف آیات سے واضح طور پر یہی مفہوم حاصل ہوتا ہے کہ خدا جس شخص کی چاہتا ہے روزی وسیع کردیتا ہے اور جس کی چاہتا ہے کم کر دیتا ہے لیکن اس کا وہ مطلب نہیں جو بعض جاہل لوگ خیال کرتے ہیں کہ کوشش و کار کردگی سے ہاتھ کھینچ لینا چاہئیے اور گوشہ نشین ہوجانا چاہئیے تاکہ جو کچھ مقدر میں ہے خدا دے دے ۔ ان لوگوں کی منفی سوچ مذاہب کو افیون قراردینے والوں کے لئے بڑی اہم سند ہے ۔

یہ لوگ دو بنیادی نکتوں سے غافل ہیں :

پہلا یہ کہ خد ا کا چاہنا اور ا س کی مشیت و ارادہ جس کی طرف ان آیات میں اشارہ ہوا ہے وہ کوئی من پسند اور بغیر کسی کلیہ قاعدہ والا معاملہ نہیں بلکہ اسی طرح ہے جس طرح ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ خد اکی مشیت و ارادہ ا س کی حکمت سے جد انہیں ہے بلکہ ہمیشہ لیاقت اور اہلیت پر موقوف ہے ۔

دوسرایہ کہ یہ مسئلہ عالم اسباب کی نفی میں نہیں ہے کیونکہ عالم ِاسباب یعنی جہان تکوینی بھی اس کی مشیت ِ تکوینی ہے اور وہ کبھی بھی اس مشیت تشریعی سے جدا نہیں ہوئی ۔

زیادہ واضح الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ رزق کی وسعت و تنگی کے بارے میں خدا کا ارادہ کچھ شرائط کے ساتھ مشروط ہے کہ جو انسانون کی زندگی پ رحکم فرماہیں ۔ کوشش، ہمت اور اخلاص اور ا س کے بر عکس سستی ، تن آسانی ، بخل اور زمینوں کی آلودگی اس میں نتیجہ خیز اثر رکھتی ہے ۔ اسی بناء پر قرآن مجید نے بار ہا انسان کو اس کی سعی و کوشش او رجہد و فعالیت کا مر ہونِ منت شمار کیا ہے اور زندگی میں ا س کے حصہ کو سعی و کوشش کی میزان پر تَولا ہے ۔ اسی لئے وسائل الشیعہ کی کتاب ِ تجارت میں ایک باب حصول ِ رزق کے لئے کوشش سے متعلق ہے نیز کچھ ابواب بیکاری ، زیادہ سونے اور ضروریات ِ زندگی کے حصول میں سستی کی مذمت کے بارے میں بھی ہیں ۔

ان ابواب میں منقول احادیث میں سے ایک حدیث جو امیر المومنین علیہ السلام سے مروی ہے ، میں ہے کہ آپ نے فرمایا :ان الاشیاء لما ازدوجت ازدوج الکسل و العجز فنتجابینهما الفقر

جب شروع شروع میں موجودات نے ایک دوسرے سے ازدواج کیا تو سستی اور عجز ناتوانی نے آپس میں شادی رچائی اور ان سے جو بچہ پیدا ہوا وہ ”فقر“ تھا۔(۳)

ایک اور حدیث میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :لاتکسلوافی طلب معایشکم فان اٰبائنا کانوا یرکضون فیها ویطلبونها

حصول رزق میں ضرورت ِ زندگی مہیا کرنے میں سستی سے کام نہ لو کیونکہ ہمارے آباؤ اجداد ان کے حصول میں دوڑا کرتے تھے اور ان کے لئے تلاش و جستجو کرتے تھے ۔(۴)

ایک اور حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے :

انی لابغض الرجل ان یکون کسلاناً عن امر دنیاه، ومن کسل عن امر دنیاه فهو عن امر اٰخرته اکسل ۔

میں ایسے شخص سے ناراض ہوں جو اپنے کارِ دنیا میں سست ہو کہ کیونکہ جو کارِ دنیا میں سست ہے ( اگر چہ وہ اس کا نتیجہ جلد بھگتے گا تاہم ) وہ آخرت کے معاملے میں زیادہ سست ہو گا۔(۵)

نیز امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام سے منقول ہے ، آپ نے فرمایا:ان الله تعالیٰ لیبغض العبد النوّام ، ان الله لیبغض العبد الفارغ

یقینا خدا تعالیٰ زیادہ سونے والے اور بیکار شخص سے ناراض ہے ۔(۶)

____________________

۱۔ راغب نے کتاب مفردات میں کہا ہے :” اس طرح سے دور کرنے کے معنی میں ہے جس میں غصہ ملا ہوا ، جب آخرت میں خدا کی طرف اس لفظ کی اضافت ہو تو سزا کے معنی میں ہے اور دنیا میں رحمت منقطع ہو نے کے معنی میں ہے اور اگر لوگوں کی طرف سے ہو تو پھر نفرین کے معنی میں ہے ۔

۲۔ ہم نے بھی سورہ مائدہ کی آیہ ۳۳ کے ذیل میں ( جلد ۴ پر) اس سلسلے میں ضروری وضاحت کی ہے ( ار دو ترجمہ دیکھئے ) ۔

۳۔ وسائل الشیعہ جلد ۱۲۔ ص۳۸۔

۴۔ وسائل الشیعہ جلد ۱۲۔ ص۳۸۔

۵۔ وسائل الشیعہ جلد ۱۲۔ ص۳۷۔

۶۔ وسائل الشیعہ جلد ۱۲۔ ص۳۷۔