تفسیر نمونہ جلد ۱۰

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 30353
ڈاؤنلوڈ: 2949


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 93 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30353 / ڈاؤنلوڈ: 2949
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 10

مؤلف:
اردو

آیات ۳۰،۳۱،۳۲

۳۰ ۔( کَذَلِکَ اٴَرْسَلْنَاکَ فِی اٴُمَّةٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهَا اٴُمَمٌ لِتَتْلُوَ عَلَیْهِمْ الَّذِی اٴَوْحَیْنَا إِلَیْکَ وَهُمْ یَکْفُرُونَ بِالرَّحْمَانِ قُلْ هُوَ رَبِّی لاَإِلَهَ إِلاَّ هُوَ عَلَیْهِ تَوَکَّلْتُ وَإِلَیْهِ مَتَابِ ) ۔

۳۱ ۔( وَلَوْ اٴَنَّ قُرْآنًا سُیِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ اٴَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْاٴَرْضُ اٴَوْ کُلِّمَ بِهِ الْمَوْتَی بَلْ لِلَّهِ الْاٴَمْرُ جَمِیعًا اٴَفَلَمْ یَیْئَسْ الَّذِینَ آمَنُوا اٴَنْ لَوْ یَشَاءُ اللهُ لَهَدَی النَّاسَ جَمِیعًا وَلاَیَزَالُ الَّذِینَ کَفَرُوا تُصِیبُهُمْ بِمَا صَنَعُوا قَارِعَةٌ اٴَوْ تَحُلُّ قَرِیبًا مِنْ دَارِهِمْ حَتَّی یَأتیَ وَعْدُ اللهِ إِنَّ اللهَ لاَیُخْلِفُ الْمِیعَادَ ) ۔

۳۲ ۔( وَلَقَدْ اسْتُهْزِءَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِکَ فَاٴَمْلَیْتُ لِلَّذِینَ کَفَرُوا ثُمَّ اٴَخَذْتُهُمْ فَکَیْفَ کَانَ عِقَابِ ) ۔

ترجمہ

۳۰ ۔ جیسا کہ ( ہم نے گزشتہ انبیاء کو بھیجا ) تجھے بھی ایک امت کے درمیان بھیجا کہ جس سے پہلے دوسری امتیں آئیں اور چلی گئیں ، تاکہ ہم نے جو کچھ تجھ پر وحی کی ہے ان کے سامنے پڑھو حالانکہ وہ رحمن ( وہ خدا کہ جس کی رحمت سب پر محیط ہے ) ست کفر کرتے ہیں ۔کہہ دو وہ میرا پر وردگار ہے ، اسے کے علاوہ کوئی معبود نہیں ، میں نے اس پر توکل کیا ہے اور میری باز گشت اس کی طرف ہے ۔

۳۱ ۔ اگر قرآن کہ وجہ سے پہاڑ چلنے لگ جائیں اور زمین ٹکڑے ہو جائے اور اس کے ذریعے مردوں کے ساتھ گفتگو کی جائے ( وہ پھر بھی ایمان لائیں گے) لیکن یہ سب کچھ خد اکے اختیار میں ہے ۔ کیا وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں نہیں جانتے کہ اگر خد اچاہے تو تمام لوگوں کو(جبراً)ہدایت کردے ( لیکن جبری ہدایت کاکوئی فائدہ نہیں ) اور کافروں پر ان کے اعمال کی وجہ سے مسلسل سر کوبی کرنے والی مصیبتیں ٹوٹی رہیں گی یا ان کے گھروں کے ارد گرد نازل ہوں گی یہاں تک کہ خدا کا آخری وعدہ پورا ہو ، خدا اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔

۳۲ ۔ ( انہوں نے صرف تیرا مذاق نہیں اڑا یا بلکہ ) تجھ سے پہلے انبیاء سے بھی انہوں نے استہزاء کیا۔ میں نے کافروں کو مہلت دی اور پھر ان کی گرفت کی ، تونے دیکھا ( میری ) سزا کیسی تھی ؟

شان نزول

مفسرین کا کہنا ہے کہ پہلی آیت صلح حدیبیہ کے بارے میں ہجرت کے چھٹے سال نزال ہوئی ۔ جب صلح نامہ لکھا جانے لگا تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ آلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام سے کہا:

لکھو:بسم الله الرحمن الرحیم

اس پر سہیل بن عمر و اور دیگر مشرکین کہنے لگے : ہم ”رحمان “ ک ونہیں پہچانتے۔ ”رحمن “ تو صرف ایک ہی ہے اور وہ یمامہ میں ہے ( ان کی مراد مسیلمہ کذاب سے تھی کہ جو نبوت کا دعویدارتھا) ، بلکہ لکھو:با سمک اللهم

زمانہ جاہلیت میں اسی طرح لکھا جاتا تھا ۔ اس کے بعد آنحضرت نے حضرت علی سے کہا لکھو:

یہ صلح نامہ ہے جو محمد رسول اللہ

ابھی اتنا ہی لکھتا تھا کہ مشرکین قریش کہنے لگے : اگر تم خدا کے رسول ہوتے اور ہم تم سے جنگ کرتے اور خانہ خدا کا راستہ تم پر بند کرتے تو ہم بڑے ظالم ہوتے( جھگڑا تو تمہاری اس رسالت کا ہی ہے ) بلکہ لکھو ” یہ صلح نامہ محمد بن عبد اللہ کاہے “۔

اس وقت اصحاب پیغمبر بھڑک اٹھے ۔ کہنے لگے : ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم ان سے جنگ کریں ۔

پیغمبر اکرم نے فرمایا:نہیں ، جس طرح یہ کہتے ہیں ویسے لکھو ۔

اس موقع پر مندر جہ بالا آیت نازل ہو ئی اور خدا کے نام ”رحمن “ کے سلسلے میں ان کی بہانہ جوئی ، ہٹ دھرمی اور مخالفت پر ان کی شدید سر زنش کی گئی کیونکہ یہ تو خداکی قطعی صفات میں سے ہے ۔

یہ شان نزول اس صورت میں صحیح ہے جب ہم اس سورہ کو مدنی سمجھیں تاکہ یہ صلح حدیبیہ کے واقعے سے مطابقت اختیار کرسکے لیکن اگر جیسا کہ مشہور ہے کہ اسے مکی سمجھیں تو پھر اس بحث کی نوبت نہیں آئے گی مگر یہ کہ اس آیہ کی شان نزول کو مشرکین کی اس گفتگو کا جواب سمجھا جائے جو سورہ فرقان میں آئی ہے ۔ انہوں نے ”رحمن “ کو سجدہ کرنے کی دعوتِ پیغمبر کے جواب میں کہا ہے کہ ہم رحمن کو نہیں پہچانتے:

( اسجدوا للرحمن قالوا و ما الرحمن ) ( جب ان سے کہا گیا کہ ) رحمن کو سجدہ کرو تو کہنے لگے رحمن کون ؟ (فرقان۔ ۶۰)

بہر حال مندرجہ باآیت شانِ نزول سے قطع نظر بھی ایک واضح مفہوم رکھتی ہے کہ جو اس کی تفسیر میں بیان کیا جائے گا۔دوسری آیت کی شان نزول کے بارے میں بھی بعض عظیم مفسرین نے کہا ہے کہ یہ مشرکین مکہ کی ایک جماعت کے جواب میں نازل ہوئی ہے ۔ یہ لوگ کانہ کعبہ کی پشت کی طرف بیٹھے تھے ۔ انہوں نے پیغمبر اکرم کی طرف کسی کو یہ پیغام دے کر بھیجا :

اگر تو چاہتا ہے کہ ہم تیری پیروی کریں تو مکہ کے ان پہاڑوں کو اپنے قرآن کے ذریعے پیچھے ہٹا دے تاکہ ہماری یہ تنگ زمین کسی حدتک وسیع ہو جائے ۔ نیز زمین میں شکاف کرکے اس میں چشمے اور نہریں جاری کردے تاکہ ہماری یہ تنگ زمین کسی حد تک وسیع ہو جائے ۔ نیز زمین میں شگاف کرکے اس میں چشمے نہریں جاری کردے تاکہ ہم درخت لگائیں اور زراعت کریں تو اپنے گمان میں داؤد سے کم نہیں ہے کہ جس کے لئے خدا نے پہاڑوں کو مسخر کر رکھا تھا کہ جو اس سے ہم آواز ہو کر خدا کی تسبیح کرتے تھے یا یہ کہ ہمارے لئے ہوا کو مسخر کردے تاکہ ہم اسکے دو ش پر سوار ہو کر شامل کی طرف جائیں اور اپنی مشکلات حال کریں اپنی ضروریات پوری کریں اور اسی دن واپس لوٹ آئیں جیسا کہ سلیمان کے لئے مسخر تھی اور تو اپنے گمان میں سلیمان سے کم نہیں ہے نیز اپنے دادا” قصی“ (قبیلہ قریش کے جدِّ اعلیٰ ) یا ہمارے مردوں میں سے کسی اور شخص کو جسے چاہے زندہ کردے تاکہ ہم اس سے سوال کریں کہ کیا جو کچھ تو کہتا ہے حق ہے یا باطل کیونکہ عیسیٰ مردوں کو زندہ کرتا تھا اور تو عیسیٰ سے کم تر نہیں ہے ۔

اس پر دوسری زیر بحث آیت نازل ہوئی اور ان سے کہا گیا کہ جو کچھ تم کہتے ہو وہٹ دھرمی کے وجہ سے ہے نہ کہ ایمان لانے کے لئے کیونکہ ایمان لانے کے لئے درکار کافی معجزات پیش کیے جاچکے ہیں ۔

ہٹ دھرم ہر گز ایمان نہیں لائیں گے

ان آیات میں ہم پھر نبوت کی بحث کی طرف لوٹتے ہیں ۔ ان میں مشرکین کی گفتگو کا ایک اور حصہ پیش کیا گیا ہے نیز نبوت کے بارے میں ان کی گفتگو کا واضح جواب دیا گیا ہے ۔

پہلے فرمایا گیاہے : جیسے ہم نے گزشتہ انبیاء کو گزشتہ قوموں کی ہدایت کے لئے بھیجا تھا تجھے بھی ایک امت کے درمیان بھیجا ہے کہ جس سے پہلے امتیں آئیں اور چلی گئیں( لتتلو ا علیهم الذی اوحینا الیک ) حالانکہ وہ ”رحمن “ (وہ خدا کہ جس کی رحمت اور وسیع و عام فیض مومن و کافر اور یہودو نصاریٰ سب پر محیط ہے ) کا انکار کرتے ہیں (وھم یکفرون بالرحمن ) ۔

۔کہہ دو : اگر تم انکا رکرتے ہو تو رحمن کہ جن کا فیض و رحمت عام ہے ، میرا پر وردگار ہے ( قل ھو ربی )اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ، میں اس پر توکل کرتا ہوں اور میری باز گشت اسی طرف ہے ( لاالہ الاھو علیہ توکلت والیہ متاب) ۔

اس کے بع دان بہانہ تراش افراد کے جواب میں کہ جو ہر چیز پر اعتراض کرتے ہیں ، فرماتا ہے : یہاں تک کہ اگر قرآن کے ذریعے پہاڑ چلنے لگ جائیں اور زمین ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے اور اس کے ذریعے مردوں سے گفتگو بھی ہو پھر بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے( وَلَوْ اٴَنَّ قُرْآنًا سُیِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ اٴَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْاٴَرْضُ اٴَوْ کُلِّمَ بِهِ الْمَوْتَی ) ۔

لیکن یہ تمام کام خد اکے اختیار میں ہے او روہ جتنا ضروری سمجھتا ہے انجام دیتا ہے( بَلْ لِلَّهِ الْاٴَمْرُ جَمِیعًا ) ۔

مگر تم لوگ حق کے طالب نہیں ہو،گر ہو تے تو جس قدر اعجاز کی نشانیاں اس پیغمبر سے صادر ہوئی ہیں ایمان لانے کے لئے کاملاً کافی ہیں ، یہ تو سب بہانے ہیں ۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے : کیا وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں نہیں جانتے کہ اگر خدا چاہے تو تمام لوگوں کو جبراً ہدایت کردے( اٴَفَلَمْ یَیْئَسْ الَّذِینَ آمَنُوا اٴَنْ لَوْ یَشَاءُ اللهُ لَهَدَی النَّاسَ جَمِیعًا ) ۔

۱ ۔”( اٴَفَلَمْ یَیْئَس ) “”یأس“ کے مادہ سے ناامیدی کے معنی میں ہے مگر بہت سے مفسرین نے کہا ہے کہ یہاں علم کے معنی میں ہے لیکن ( فخر رازی کے مطابق )” کچھ لوگوں “ کے بقول کہیں نہیں دیکھا گیا کہ ” یئست“ ” علمت“ کے معنی میں ہو ۔ مفردات میں راغب کی گفتگو سے یہ نتیجہ نکتا ہے کہ ”یأس“ یہاں اپنے اسی مشہور معنی میں ہے لیکن ہر مایوسی کے لئے ضروری ہے کہ اس کام کے نہ ہوسکنے کا علم ہو ۔ اس بناء پر ان کے یاس کے ہونے کا لازمہ ان کا علم ہے لیکن راغب کی اس گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ یہاں یاس وجود علم کے معنی میں نہیں بلکہ عدم کے علم کے معنی میں ہے اور یہ مفہوم آیت کے مفہوم سے مطابقت نہیں رکھتا اس بناء پر حق وہی ہے جو مشہور مفسرین نے کہا ہے اور ا س کے لئے اقوالِ عرب سے بھی شواہد پیش کیے گئے ہیں اور ان کے نمونے فخررازی نے اپنی تفسیر میں پیش کئے ہیں ۔(غور کیجئے) ۔

یہ اس طرف اشارہ ہے کہ خدا تعالیٰ داخلی یا خارجی طور پر جبری طریقے سے منکرین اور ہٹ دھرم افراد تک کو بھی ایمان لانے پر آمادہ کرسکتا ہے کہ کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور اس کی قدرت کے سامنے کوئی کام مشکل نہیں ہے لیکن وہ ہر گز ایسا نہیں کرے گا کیونکہ ایسا جبری ایمان بے وقعت ہے۔ ایسا ایمان اس معنویت اور کمال سے محروم ہے جس کی انسان کو ضرورت ہے ۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے : اس کے باوجود کفار ہمیشہ اپنے اعمال کے سبب تباہ کن مصائب کے حملے سے دو چار ہیں یہ مصائب مختلف بلاؤں کی صورت میں نازل ہوتے ہیں اور کبھی ان پر مجاہدین ِ اسلام کے تباہ کن حملوں کی صورت میں آتے ہیں( وَلاَیَزَالُ الَّذِینَ کَفَرُوا تُصِیبُهُمْ بِمَا صَنَعُوا قَارِعَةٌ ) ۔

یہ مصائب اگر ان کے گھروں پر نازل نہ ہوں تو ان کے گھروں کے آس پاس نازل ہو ں گے( اٴَوْ تَحُلُّ قَرِیبًا مِنْ دَارِهِمْ ) تاکہ وہ عبرت حاصل کریں ، حرکت میں آئیں اور خدا کی طرف لوٹ آئیں ۔

یہ تنبیہیں اسی طرح جاری رہیں گی یہاں تک کہ خدا کا آخری حکم آپہنچے( حتَّی یَأتیَ وَعْدُ اللهِ ) ۔

یہ آخری حکم ہو سکتا ہے موت کی طرف یا روز قیامت کی طرف اشارہ ہو یابقول بعض کے فتح مکہ کی طرف اشارہ ہو کہ جس نے دشمن کی ساری طاقت کو درہم بر ہم کرکے رکھ دیا ۔

بہر حال خد اکاو عدہ حتمی ہے ” خدا کبھی بھی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرے گا“( إِنَّ اللهَ لاَیُخْلِفُ الْمِیعَادَ ) ۔

زیر نظر آخری آیت پیغمبر اکرم کی طرف روئے سخن کئے ہوئے کہتی ہے : صرف تمہی نہیں ہو کہ جسے اس کا فر گروہ کے طرح طرح کے تقاضوں اور من پسند معجزوں کی فرمائش کے ذریعے تمسخر اور استہزاء کا سامنا کرنا پڑا ہے بلکہ یہ تو پوری تاریخ انبیاء میں ہوتا رہا ہے ”اور تجھسے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا تمسخر اڑایا گیا ہے “( وَلَقَدْ اسْتُهْزِءَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِکَ ) ۔

لیکن ہم نے ان کافروں کو فوراً عذاب نہیں کیا بلکہ ” ہم نے انہیں مہلت دی “( فَاٴَمْلَیْتُ لِلَّذِینَ کَفَرُوا ) ۔

اس لئے کہ شاید بیدار ہوجائیں اور شاید راہ حق کی طرف پلٹ آئیں یا کم از کم ان پر کافی اتمام حجت ہو جائے کیونکہ اگر وہ بد کار اور گنہگار ہیں تو خدا کی مہربانی اور اس کا لطف و کرم اور حکمت بھی تو موجود ہے ۔

بہر حال یہ مہلت اور تاخیر اس معنی میں نہیں کہ ان کی سزا اور کیفر کردار کو فراموش کردیا جائے لہٰذا” اس مہلت کے بعد ہم نے انہیں گرفت کی اور تونے دیکھا کہ ہم نے انہیں کس طرح سزا دی “ یہ انجام تیری ہٹ دھرم قوم کے بھی انتظار میں ہے( ثُمَّ اٴَخَذْتُهُمْ فَکَیْفَ کَانَ عِقَابِ ) ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ لفظ” رحمن “ کیوں استعمال کیا گیا ہے ؟

مندرجہ بالا آیات اور ان کے بارے میں مذکورہ شان نزول نشاندہی کرتی ہیں کہ قریش کو لفظ”رحمن “کہ قریش کو لفظ ”رحمن“ سے خدا کی توصیف و تعریف پسند نہیں تھی کیونکہ ایسی کوئی چیز ان کے درمیان رائج نہ تھی لہٰذا وہ اس کا مذاق اراتے تھے حالانکہ مندرجہ بالا آیا ت میں اس کی تاکید کی گئی ہے کیونکہ اس لفظ میں ایک خاص لطف پوشیدہ ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ خدا کی صفت ِ رحمانیت اس کے لطف ِ عام کی طرف اشارہ ہے کہ جو دوست اور دشمن سب پر محیط ہے اور مومن اور کافر سب کے شامل ِ حال ہے جب کہ اس کے مقابلے میں صفت ِ رحیمیت خداکی صفتِ خا ص ہے اور صالح او رمون بندوں کے بارے میں ہے ۔

یعنی تم کس طرح اس خدا پر ایمان لاتے ہو کہ ج ومنبع لطف و کرم ہے یہاں تک کہ اپنے دشمنوں کو بی اپنے لطف و رحمت سے نوازتا ہے ۔ یہ تمہاری انتہائی نادانی ہے ۔

۲ ۔ پیغمبر اکرم نے معجزات کا تقاضاکیوں پورا نہ کیا

یہاں ہمیں پھر ان لوگون کی گفتگو کا سامنا کرنا پڑرہاہے کہ جو یہ خیال کرتے ہیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سوائے قرآن کے اور کوئی معجزہ رکھتے تھے ۔ یہ لوگ زیر نظر آیات اور اس قسم کی دیگر آیات سے مدد لیتے ہیں کیونکہ ان آیات کا ظہور یہ بتاتا ہے کہ نبی اکرم نے مختلف معجزات کی فرمائش کو ٹھکرادیا ۔ وہ لوگ پہاڑوں کو ان کی جگہ سے پیچھے ہٹا نے کا ، وہاں کی زمین میں شگاف کرکے چشمے اور نہریں جاری کرنے کا اور مردوں کے زندہ ہوکر گفتگو کرنے کا تقاضا کررہے تھے لیکن آپ نے ان کی درخواست رد کردی۔

لیکن ہم بار ہا کہہ چکے ہیں کہ معجزہ ان لوگوں کو کہ جو حقیقت طلب ہیں صرف حقیقت کاچہرہ دکھانے کے لئے ہے نہ یہ کہ پیغمبر ایک معجزہ گر بن جائے اور جو شخص جس عمل فرمائش کرے وہ اسے انجام دیتا جائے چاہے وہ اسے قبول کرنے کے لئے بھی تیار نہ ہو۔

من پسند کے معجزات کی ایسی فرمائش صرف ایسے ہٹ دھرم اور کوتاہ فکر افراد کی طرف سے کی جاتی ہے کہ جو کسی حق کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور اتفاق کی بات ہے کہ اس امر کی نشانیاں مندر جہ بالا آیات مندرجہ بالا آیات میں واضح طور پر دکھائی دیتی ہیں ۔ آخری زیر بحث آیت میں ہم نے دیکھا ہے کہ گفتگو ان کی طرف سے پیغمبر کا مذاق اڑانے کے سلسلے میں آئی ہے یعنی وہ لوگ حق کا چہرہ نہیں دیکھناچاہتے تھے بلکہ ایسی فرمائشوں سے ان کا مقصود پیغمبر اکرم کا تمسخر اڑانا تھا۔

علاوہ از یں ان آیات کے بارے میں جو شان ہائے نزول ہم نے پڑھی ہیں ان سے معلوم ہوتاہے کہ انہوں نے پیغمبر اکرم سے تقاضا کیا تھا کہ وہ گزشتہ بزرگوں میں سے کسی ایک کو زندہ کردیں تاکہ وہ ان سے پوچھیں کہ کیا آپ حق پر ہیں یاباطل پر حالانکہ اگر پیغمبر اس قسم کا معجزہ (مردوں کو زندہ کرنا) پیش کردیں تو پھر اس بات کے پوچھنے کی گنجائش نہیں رہتی کہ پیغمبر حق پر ہیں یا باطل پر ۔ یہی با ت نشاندہی کرتی ہے کہ وہ متعصب ، ہٹ دھرم اور معاند افراد تھے اور ان کا مقصد حق کی جستجو نہ تھا۔ وہ ہمیشہ عجیب و غریب فرمائشیں کرتے رہتے تھے اور آخر کار وہ ایمان بھی نہیں لاتے تھے ۔

سورہبنی اسرائیل کی آیہ ۹۰ کے ذیل میں ہم انشاء اللہ دوبارہ اس مسئلے کی وضاحت کریں گے ۔

۳ ۔ ”قارعة “ کیا ہے ؟

’قارعة“ ” قرع“ کے مادہ سے ہے جو کہ کھٹکھٹانے کے معنی میں ہے ۔ اس بناء پر ” قارعة“ کامعنی ہے ” کھٹکھٹانے والی “ یہاں ایسے امو ر کی طرف کی طرف اشارہ ہے جو انسان کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں اور اسے تنبیہ کرتے ہیں اور اگر بیدار ہونے کے لئے آمادہ ہو تو اسے بیدارکرتے ہیں ۔

در حقیقت ” قارعة“ کا ایک وسیع معنی ہے کہ جس میں ہر قسم کی انفرادی یا اجتماعی مصیبتوں ، مشکلات اور دردناک حوادث کا مفہوم شامل ہے ۔ اسی لئے بعض مفسرین اسے جنگوں ، خشک سالیوں ، قتل ہونے اور قید ہونے کے معنی میں سمجھتے ہیں کہ جب دوسرے اسے صرف ان جنگوں کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں جو صدر اسلام میں ” سریہ“ کے عنوان سے ہوئیں ۔ ”سریہ“ ان جنگوں کو کہا جاتا ہے جن میں پیغمبر اسلام خود شریک نہیں ہوئے بلکہ ان میں آپ نے اپنے اصھاب و انصار کو مامور فرمایا لیکن مسلم ہے کہ ” قارعة“ ان امور میں سے کسی ایک کے لئے مختص نہیں اور ا س کے مفہوم میں یہ تمام امور شامل ہیں ۔

یہ بات جاذب نظر ہے کہ زیر بحث آیات میں ہے کہ یہ تباہ کن حوادث خود انہیں پہنچتے تھے یا ان کے گھر کے آس پاس رونما ہوتے تھے یعنی اگر وہ خود ان بیدار کرنے والے اور تنبیہ کرنے والے حوادث میں مبتلا نہ ہوں تو بھی یہ ان کے اوس پڑوس یا ان کے نزدیک رونما ہوتے ہیں ۔ کیا یہ ان کی بیداری کے لئے کافی نہیں ۔

آیات ۳۳،۳۴

۳۳ ۔( اٴَفَمَنْ هوقَائِمٌ عَلَی کُلِّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَکَاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ اٴَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِمَا لاَیَعْلَمُ فِی الْاٴَرْضِ اٴَمْ بِظَاهِرٍ مِنْ الْقَوْلِ بَلْ زُیِّنَ لِلَّذِینَ کَفَرُوا مَکْرُهُمْ وَصُدُّوا عَنْ السَّبِیلِ وَمَنْ یُضْلِلْ اللهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ ) ۔

۳۴ ۔( لَهُمْ عَذَابٌ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ اٴَشَقُّ وَمَا لَهُمْ مِنْ اللهِ مِنْ وَاقٍ ) ۔

ترجمہ

۳۳ ۔کیاوہ کہ جو سب کے سروں پر موجود ہے ( اور سب کانگران اور نگہبان ہے )اور سب کے اعمال دیکھتا ہے ( اس کی مانند ہے کہ جو ان میں سے کوئی صفت نہیں رکھتا) ۔انہوں نے خدا کے لئے شریک قرار دیے ہیں ۔ کہہ دو: ان کے نام لو، کیا اسے ایسی چیز کی خبردیتے ہوئے کہ روئے زمین میں جس کے وجود سے وہ بے خبر ہے یاظاہری اور کھوکھلی باتیں کرتے ہو( نہیں خدا کا کوئی شریک نہیں ہے )بلکہ کافروں کے سامنے ان کے جھوٹ مزین کئے گئے ہیں ( اور اندرونی ناپاکی کی بناء پر ان کا خیال ہے کہ یہ حقیقت پر مبنی ہیں ) اور وہ( خداکی )راہ سے روک دیئے گئے ہیں اور جسے خدا گمراہ کردے اس کے لئے کوئی راہنما نہیں ہوگا ۔

۳۴ ۔ ان کے لئے دنیا میں ( دردناک ) عذاب ہے اور آخرت کا عذاب زیادہ سخت ہے اور خدا کے مقابلے میں کوئی ان کا دفاع نہیں کرسکتا۔

کس طرح خدا کو بتوں کا شریک بناتے ہو؟

ان آیات میں قرآن پھر توحید کی بحث کی جانب لوٹتا ہے اور ان لوگوں کو اس واضح دلیل سے خطاب کرتا ہے : کیا وہ کہ جو تمام عالم ہستی میں ہر چیز کا محافظ اور جس نے سب کو اپنی تدبیر کے زیر پردہ قرار دیا ہے اور تمام لوگوں کے اعمال سے باخبر ہے اس کی طرح ہے کہ جس میں ان صفات میں سے کوئی بھی نہیں( اٴَفَمَنْ هوقَائِمٌ عَلَی کُلِّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ ) ۔(۱)

در حقیقت مندرجہ بالا جملہ وضاحت سے کہتا ہے کہ خدا نے تمام چیزوں کا اس طرح سے احاطہ کر رکھا ہے کہ گویا وہ سب کے سروں پر کھڑا ہے ، جو کچھ انجام دیتا ہے وہ اسے دیکھتا ہے ، جانتا ہے ، اس کا حساب و کتاب رکھتا ہے ، اس کی جزا و سزا دیتا ہے اور تصرف و تدبیر کرتا ہے ۔ اس بناء پر لفظ” قائم “ایک وسیع رکھتا ہے کہ جس میں یہ تمام امور شامل ہیں اگر چہ بعض مفسرین نے ان میں ایک پہلو لے لیا ہے ۔

اس کے بعد گزشتہ بحث کی تکمیل اور آئندہ بحث کی تمہید کے طور پر فرمایا گیا ہے : انہوں نے خدا کے شریک قرار دئیے ہیں( وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَکَاءَ ) ۔

فوراً ہی انہیں چند طریقوں سے جواب دیا گیا :

پہلا یہ کہ :فرمایا : ان شریکوں کے نام لو( قُلْ سَمُّوهُم ) ۔

نام لینے سے یاتو یہ امر مراد ہے کہ ان کی وقعت اور قدر و قیمت اتنی بھی نہیں کہ ان کانام و نشان بھی ہو یعنی تم چند بے نام و نشان اور بے وقعت موجودات کا قادر و متعال پر ور دگار کے کس طرح ہم پلہ قرار دیتے ہو؟

یا مراد یہ ہے کہ ان کی صفات بیان کرو تاکہ ہم دیکھیں کہ کیا وہ عبودیت کے لائق ہیں ؟ اللہ کے بارے میں ہم کہتے ہیں وہ خالق ، راقز زندگی بخشنے والا، عالم ، قادراور بزرگ و بر تر ہے تو کیا تم یہ صفات بتوں کے لئے استعمال کرسکتے ہویا اس کے بر عکس اگر ان کا ذکر کرنا چاہیں تو ہمیں کہنا پڑے گا کہ ، پتھر، لکڑی کے بے حس و حرکت بت جو عقل و شعور سے عاری ہیں اور اپنے عبادت کرنے والوں کے محتاج ہیں ۔ مختصر یہ کہ ہر چیز سے عاری بت تو پھر ان دونوں کو کس طرح ایک جیسا قراردیا جاسکتا ہے ۔ کیا اب تک انہوں نے کسی کو کوئی نقصان پہنچا یا ہے یا کسی کو کوئی فائدہ پہنچا یا ہے، یا کسی کو مشکل حل کی ہے یا کسی کام میں مدد کی ہے ؟ تو ان حالات میں کونسی عقل اجازت دیتی ہے کہ انہیں خدا کا ہم پلہ قرار دیا جائے کہ جو تمام برکات و نعمات ، سودو زیان اور جزا و سزا کا مالک ہے ۔

البتہ کوئی مانع نہیں کہ یہ تمام معانی ”سموھم “ ( ان کے نام لو) جملے میں جمع ہوں ۔

دوسرا یہ کہ اس قسم کا کوئی شریک کیسے ہوسکتا ہے جب کہ وہ خداجو تمہارے خیال میں ان کا شریک ہے ان کے وجود کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں رکھتا ھب کہ اس کا علم تمام جہان پرمحیط ہے ۔” کیا اسے اس چیز کی خبر دیتے ہوجس کے وجود کو وہ زمین میں نہیں جانتا“( اٴَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِمَا لاَیَعْلَمُ فِی الْاٴَرْضِ ) ۔یہ تعبیر در حقیقت مد مقابل کے بے ہودہ اور فضول گفتگو ختم کرنے کے لئے بہترین راستہ ہے ۔ یہ ایسے ہے جیسے کوئی شخص آپ سے کہتا ہے کہ کل رات فلاں شخص تمہارے گھر میں مہمان تھا اور آپ ا سکے جواب میں کہتے ہیں کہ تم مجھے ایسے مہمان کی خبر دیتے ہو جس کی مجھے اطلاع نہیں ہے یعنی کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص میرامہمان ہو اور میں ا س سے بے خبر ہوں او رتم اس سے آگاہ ہو۔

تیسرا یہ کہ دراصل خود تم بھی دل میں ایسی چیز کا ایمان نہیں رکھتے ” صر ف ایک کھوکھلی ظاہری بات کا سہارا لئے ہوئے ہ وکہ جس میں کوئی حقیقی مفہوم موجود نہیں ہے “( اٴَمْ بِظَاهِرٍ مِنْ الْقَوْلِ ) ۔

اسی بناء پر یہ مشرکین جب زندگی کی کسی سخت گھائی میں جو ہر طرف سے بند ہو کر پھنس جاتے ہیں تو ” اللہ “ کی طرف رجوع کرتے ہیں کیونکہ وہ دلی طور پر جانتے ہیں کہ بتوں سے کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ خدا ان کی حالت سورہ عنکبوت کی آی ۶۵ میں بیان فرماتا ہے جب کہ وہ کسی کشتی میں سوار ہوتے ہیں اور سخت طوفان میں گھر جاتے ہیں تو صرف خدا کا رخ کرتے ہیں ۔

چوتھا یہ کہ مشرکین صحیح شعور نہیں رکھتے اور چونکہ ہوا و ہوس اورا ندھی تقلید میں گرفتار ہیں لہٰذا عقل مندانہ اور صحیح فیصلہ نہیں کرپاتے ۔ اسی بناء پر گرماہ ہی میں آن پڑے ہیں ۔ ” پیغمبر اور مومنین کے خلاف ان کی سازشوں کو اور ان کے جھوٹ ، تہمتوں اور بہتانوں کو ( ان کی اندرونی ناپاکی کی بناء پر)مزین کردیا گیا ہے “یہاں تک کہ انہوں نے ان بے وقعت او ربے نام و نشان موجودات کو خدا کا شریک جان لیا ہے( بل زُیِّنَ لِلَّذِینَ کَفَرُوا مَکْرُهُمْ وَصُدُّوا عَنْ السَّبِیلِ ) )اور جس شخص کو خدا قرار دے اس کی ہدایت کسی کے بس نہیں ہے( وَمَنْ یُضْلِلْ اللهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ ) ۔

ہم نے بار ہا کہا ہے کہ یہ گمراہی جبری معنی میں نہیں ہے او رنہ یہ بغیر کسی شرطاور بنیاد کے من پسند کا مسئلہ ہے بلکہ خدا کی طرف سے گمراہی خود انسان کے غلط کاموں کے عکس العمل کے معنی میں ہے یہ اس کے اپنے اعمال کا ردّ عمل ہے کہ جو اسے گمراہیوں کی طرف کھینچ لے جاتا ہے ۔ چونکہ ایسے اعمال میں خدا نے یہ خاصیت پیدا کی ہے لہٰذا اس کی نسبت خدا کی طرف دی جاتی ہے ۔

زیر نظر آخری آیت میں دنیا و آخرت میں ان کی دردناک سزاؤں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ ان ن میں فطرتاً شکست و ناکامی، سیاہ روزی اور ذلت و رسوائی شامل ہیں ۔ فرمایا گیا ہے : ان کے لئے دنیا زندگی میں بھی سزا ہے اور آخرت کی سزا زیادہ سخت اور شدید تر ہے( لَهُمْ عَذَابٌ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ اٴَشَقُّ ) ۔ کیونکہ وہ سزا دائمی بھی ہے ، جسمانی اور روحانی بھی اور اس میں طرح طرح کا عذاب شامل ہے اور اگر وہ یہ گمان کریں کہ اس سے بچ نکلنے کے لئے ان کے پاس کوئی راستہ یا وسیلہ ہے تو وہ سخت غلط فہی میں مبتلا ہیں کیونکہ ” خدا کے مقابلے میں انہیں کوئی چیز نہیں بچا سکتی “( وَمَا لَهُمْ مِنْ اللهِ مِنْ وَاقٍ ) ۔

____________________

۱۔درحقیقت مندرجہ بالا جملہ مبتداء پر مشتمل ہے اور اس کی خبر محذوف ہے ، تقدیر میں اس طرح تھا :افمن هو قائم علی کل نفس بما کسبت کمن لیس کذٰلک یعنی کیا وہ کہ جو اس صفت ک احامل ہے اس جیسا کہ جو اس سے عاری ہے ۔

آیت ۳۵

۳۵ ۔( مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِی وُعِدَ الْمُتَّقُونَ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْاٴَنْهَارُ اٴُکُلُهَا دَائِمٌ وَظِلُّهَا تِلْکَ عُقْبَی الَّذِینَ اتَّقَوا وَعُقْبَی الْکَافِرِینَ النَّارُ ) ۔

ترجمہ

۳۵ ۔وہ جنت کہ جس کا پرہیز گاروں سے وعدہ کیا گیا ہے اس کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔ اس کے پھل دائمی ہیں اور اس کے سائے ہمیشہ کے لئے ہیں ۔ یہ انجام ان لوگوں کے لئے ہے جنہوں نے پر ہیز گاری اختیار کی ہے اور کافروں کا انجام آگ ہے ۔

تفسیر

اس سورہ کی آیات میں توحید ، قیامت اور دیگر اسلامی معار ف کا باری باری ذکرآیا ہے ۔ اس آیت میں میں معاد کے بارے میں خصوصاً جنت کی نعمتوں اور دوزخ کے عذاب کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے ۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے : جنت کے وہ باغ کہ جن کا پرہیز گاروں سے وعدہ کیا گیا ہے ایسے ہیں کہ جن کے درختوں کے نیچے جاری پانی کی نہریں رواں دوان ہیں( مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِی وُعِدَ الْمُتَّقُونَ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْاٴَنْهَارُ ) ۔

”مثل“ کی تعبیر شاید اس نکتے کی طرف اشارہ ہے کہ آخرت کے گھر کے باغات اور دیگر نعمتوں کی اس محدود جہان میں رہنے والوں کے لئے کسی بیان سے تعریف نہیں کی جاسکتی کیونکہ یہ جہان بعد از موت کے جہان کے مقابلے میں نہایت چھوٹا ہے ۔ اس جہان کے لوگوں کے لئے وہاں کی چیزوں کو صرف ” مثل“ اور ارشاداتی گفتگو میں بیان کیا جاسکتا ہے ۔ جیسے ایک بچہ جو عالم جنین میں ہے اگر عقل و شعور رکھتا ہو تو ا س کے سامنے اس دنیا کی نعمتوں کی وضاحت ہر گز نہیں ہوسکتی ۔ صرف ناقص اور کم رنگ مثالیں پیش کی جاسکتی ہے ۔

باغات کی دوسری صفت یہ ہے کہ اس کے پھل دائمی ہیں( اٴُکُلُهَا دَائِمٌ ) ۔نہ کہ اس جہان کے پھلوں کی طرح جو موسمی ہیں اور ان میں سے ہر ایک کسی خاص موسم میں میں پیدا ہوتا ہے بلکہ کسی آفت کی وجہ سے ممکن ہے کسی سال بالکل نہ ہولیکن جنت کے پھلوں کو نہ کوئی آفت درپیش ہے او رنہ وہ کسی موسم کے محتاج ہیں بلکہ سچے مومنین کے ایمان کی طرح قائم و دائم ہیں ۔ اسی طرح ان درختوں کا سایہ بھی دائمی ہے( وَظِلُّهاَ ) ۔ان کے سائے دنیا کے درختوں کے سائے کی طرح نہیں ہیں کہ ہو سکتا دن کے وقت جب کہ صبح سورج ایک طرف سے چمکتا ہے ان کے سائے سطح باغ میں گہرے ہوں لیکن جب آفتاب عمودی شکل میں چمکتا ہے تو وہ کم ہو جاتے ہیں ۔ اسی طرح فصل ِ بہار میں گر میوں میں جب کہ درخت پتوں سے بھرے ہوتے ہیں ان کا سایہ ہوتا ہے مگر فصل خزاں میں سر دیوں میں جب درخت برہنہ ہوجاتے ہیں ان کا سابھی جاتا رہتا ہے ۔ ( البتہ دنیا میں کہیں کہیں سدا بہار درختوں کے نمونے بھی موجود ہیں کہ جو ہمیشہ پھل پھول دیتے رہتے ہیں ۔یہ درخت ایسے علاقوں میں ہوتے ہیں جہاں خزان کی خنکی اور فصلِ سرما نہیں ہوتی) ۔

خلاصہ یہ کہ جنت کے سائے اس کی تمام نعمتوں کی طرح جاودانی ہیں ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ باغات ِ بہشت کے لئے خزاں نہیں ہے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں نورِ آفتاب یا اس جیسی کوئی چیز ہے ورنہ جہاں شعاعِ نور نہ ہو وہاں سائے کا کوئی مفہوم نہیں ہے ۔ یہ جو سورہ دہر کی آیہ ۱۳ میں ہے :( لایرون فیها شمساً ولا زمهریراً )

وہاں شدت کی دھوپ دیکھیں گے اور نہ زیادہ سردی۔

ہوسکتا ہے یہ موسم کے اعتدال کی طرف اشارہ ہو کیونکہ سوزشِ آفتاب اور اسی طرح سخت سردی جنت میں نہیں ہے نہ یہ کہ وہاں سورج بالکل نہیں چمکتا۔

کرہ آفتاب کا خاموش ہوجانااس کے ہمیشہ کے لئے ختم ہوجانے کی دلیل نہیں ہے کیونکہ قرآن کہتا ہے :

قیامت میں زمین و آسمان دوسر ے ( نئے اور وسیع تر ) زمین و آسمان میں تبدیل ہو جائیں گے ۔

اور اگر کہا جائے کہ جہاں سورج کی تمازت اور تپش نہیں وہاں پھر سایہ کس لئے ہے ؟ تو ا س کے جواب میں ہم کہیں گے کہ سائے کا لطف صرف تمازت ِ آفتاب سے بچنے میں نہیں ہے بلکہ پتوں سے طبعی اور اوپر جانے والی رطوبت کہ جو نشاط بخش آکسیجن سے ملی ہوتی ہے سائے کو ایک خاص قسم کی لطافت اور تازگی بھی دیتی ہے ۔ اسی لئے درخت کا سایہ کرے کی چھت کے سائے کی طرح ہر گز خشک اور بے روح نہیں ہوتا۔

جنت کی یہ تین صفات بیان کرنے کے بعد، آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے : یہ ہے پرہیز گاروں کا انجام ، لیکن کافروں کا انجام آگ ہے( تِلْکَ عُقْبَی الَّذِینَ اتَّقَوا وَعُقْبَی الْکَافِرِینَ النَّارُ ) ۔

جنت کی نعمتوں کا ذکر اس خوبصورت اور زیبا تعبیر کے ذریعے لطافت اور تفصیل کے ساتھ ہوا ہے لیکن دوزخیوں کے بارے میں ایک مختصر سا خشک اور سخت جملہ ہے کہ ان کا انجام کار جہنم ہے ۔