تفسیر نمونہ جلد ۱۰

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 30340
ڈاؤنلوڈ: 2949


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 93 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30340 / ڈاؤنلوڈ: 2949
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 10

مؤلف:
اردو

آیت ۳۶

۳۶ ۔( وَالَّذِینَ آتَیْنَاهُمْ الْکِتَابَ یَفْرَحُونَ بِمَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ وَمِنْ الْاٴَحْزَابِ مَنْ یُنکِرُ بَعْضَهُ قُلْ إِنَّمَا اٴُمِرْتُ اٴَنْ اٴَعْبُدَ اللهَ وَلاَاٴُشْرِکَ بِهِ إِلَیْهِ اٴَدْعُو وَإِلَیْهِ مَآبِ ) ۔

ترجمہ

۳۶ ۔ اور وہ کہ جنہیں ہم نے آسمانی کتاب دی ہے وہ اس پر خوش ہیں کہ جو تجھ پر نازل ہوا ہے اور بعض احزاب ( اور گروہ) اس کے ایک حصہ کا انکار کرتے ہیں ۔ کہہ دو: میں مامور ہوں کہ اللہ کی عبادت کروں اور ا سکے لئے شریک قرار نہ دوں ۔ میں اس کی طرف دعوت دیتا ہوں ( سب کی ) باز گشت اسی کی طرف ہے ۔

خدا پرست اور دیگر گروہ

اس آیت میں آیات قرآن کے نزول پر لوگوں کے مختلف ردّ عمل کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔ اس میں بتا یا گیا ہے کہ حقیقت کے متلاشی اور حق جو افرد کس طرح جو کچھ پیغمبر پر نازل ہوتا تھا اس پر سر تسلیم خم کرتے تھے اور خوش ہوتے تھے جب کہ مخالف اورہٹ دھرم افراد اس کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے تھے ۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے :جنہیں ہم نے آسمانی کتاب دے رکھی ہے وہ اس پر خوش ہوتے ہیں جوکچھ تجھ پر نازل ہوتا ہے( و الذین اتیناهم الکتاب یفرحون بما انزل الیک ) ۔

اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ”اٰتیناهم الکتاب “ اور اس قسم کی تعبیر پورے قرآن میں عام طور پر یہود و نصاریٰ اور ان جیسے آسمانی مذاہب کے پیروکاروں کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، تو ا س میں کوئی شک باقی نہیں رہتا کہ یہاں بی انہی کی طرف اشارہ ہے ۔ یعنی یہود و نصاریٰ اور ان جیسے دوسرے جو یانِ حق تجھ پر ان آیات کے نزول پر مسرور ہوتے ہیں کیونکہ ایک طرف تو وہ انہیں ان نشانیوں سے ہم آہنگ پاتے ہیں جو ان کے پاس ہیں اور دوسری طرف یہ انکے لئے ان خرافات سے نیز یہود و نصاریٰ اور دیگر مذاہب کے ان عالم نما جاہلوں کے شر سے آزادی اور نجات کا سبب ہیں جنہوں نے انہیں قید و بند میں جکڑ رکھا ہے اور فکری آزادی اور تکامل و ارتقائے انسانی سے محروم رکھا ہے ۔

یہ جو بعض مفسرین نے کہا ہے کہ ”( الذین اٰتینا هم الکتاب ) “سے مراد حضرت رسول اکرم کے اصحاب و انصار ہیں بہت بعید معلوم ہوتا ہے کیونکہ مسلمانوں کے لئے ایسی تعبیر کا استعمال معمول نہیں ہے ۔ علاوہ ازیں یہ با ت”( بما انزل الیک ) “ سے مطابقت نہیں رکھتی ۔(۱)

نیز جو کچھ کہا گیا سورہ رعد کا مکی ہونا اس کے منافی نہیں کیونکہ یہودیوں کا اصلی مرکز اگر چہ مدینہ اور خیبر تھے اور عیسائیوں کا اصلی مرکز نجران وغیرہ تھا پھر بھی اس میں شک نہیں کہ وہ مکہ آتے جاتے تھے اور مکہ میں ان کے افکار و نظر یات اور ثقافت کا تھوڑا بہت اثر تھا ۔ اسی بناء پر مکہ کے لوگ ان انشانیوں کے بنا ء پر کہ جو یہودی خداکے آخری پیغمبر کے بارے میں بیان کرتے تھے ان میں سے ایسے پیغمبر کے ظہور کے انتظار میں رہتے تھے ۔ ( اس سلسلے میں ورقہ بن نوفل اور اس قسم کے دیگر افراد کے واقعا مشہور ہیں ) ۔ قرآن مجید کی دیگر سورتوں میں بھی اس بات کے شواہد ہیں کہ اہل کتاب میں سے سچ مومنین پیغمبر اسلام پر آیات ِ قرآن کے نزول سے خوش تھے ۔ سورہ قصص کی آیہ ۵۲ میں ہے :

( الذین اتینا هم الکتاب من قبله هم به یؤمنون )

جنہیں ہم نے اس سے پہلے آسمانی کتاب دی تھی وہ اس قرآن پر ایمان رکھتے تھے ۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے : لیکن احزاب میں سے ایک جماعت ہے کہ جس پر قومی و مذہبی تعصب اور ایسے دوسرے تعصبات کا غلبہ تھا ۔ اسی بناء پر قرآن انہیں ” اہل کتاب “ نہیں کہتا کیونکہ وہ اپنی آسمانی کتب کے سامنے بھی سر تسلیم خم نہیں کئے ہوئے ۔ بلکہ حقیقت میں وہ ” احزاب“ اور مختلف گروہ تھے کہ جو صرف اپنے اپنے گروہ کے راستے پر چلتے تھے ۔ یہ گروہ رہ اس چیز کاانکار کردیتے تھے کہ جو ان کے اپنے میلان ، طریقے او رپہلے سے کئے گئے فیصلوں سے ہم آہنگ نہ ہوتی۔

یہ احتمال بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ” احزاب“ مشرکین کی طرف اشارہ ہو کیونکہ سورہ احزاب مین بھی ان کا اس لفظ کے ذریعے ذکر کیا گیا ہے ۔ اصل میں ان کا کوئی دین و مذہب نہ تھا بلکہ وہ بکھرے ہوئے گروہ اور احزاب تھے کہ جو قرآن اور اسلام کی مخالفت میں متحد تھے ۔

عظیم مفسر مر حوم طبرسی اور بعض دوسرے مفسرین نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ مندرجہ بالا آیت صفتِ رحمن کے ساتھ خدا وند عالم کی توصیف سے بت پرستوں کے انکار کی طرف اشار ہ ہے کہ جب اہل کتاب خصوصاً یہودی اس توصیف سے آشنائی کی بناء پر قرآنی آیات میں لفظ” رحمن “ کی موجودگی پرخوشی کا اظہار کرتے تھے اور مشرکین ِ مکہ کہ جو اس صفت سے نا آشنا تھے ، اس کا مذاق اڑاتے تھے ۔

آیت کے آخر میں پیغمبر اکرم کو حکم دیا گیا ہے کہ اس کی اور اس کی مخالفت او رہٹ دھرمی کی پر واہ نہ کروبلکہ اپنے حقیقی خط اور صراط مستقیم پر قائم رہو اور ” کہو: میں مامور ہوں کہ صرف اللہ کی پرستش کروں کہ جو یکتا و یگانہ خدا ہے اور اس کے لئے کسی شریک کا قائل نہ ہوں میں صرف اس کی طرف دعوت دیتا ہوں اور میری اور سب کی باز گشت اسی کی طرف ہے “( قل امرت ان اعبد الله ولا اشرک به الیه ادعوا و الیه ماٰب ) ۔

یہاں س طرف اشارہ ہے کہ سچے موحد اور حقیقی خدا پرست کا خدا کے فرامین کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ کوئی راستہ اور پروگرام نہیں ہے وہ ان تمام امور کے لئے فرماں بردار ہے جو خدا کی طرف سے نازل ہوتے ہین اور ان کے بار ے میں کچھ ماننے اور کچھ نہ ماننے کا قائل نہیں ہوتا ۔ ایسا نہیں ہوتاکہ جس چیز کے بارے میں اس کی رغبت ہو اسے قبول کرلے اور جس کے بارے میں میلان نہ ہو اس کی مخالفت کرے اور انکار کردے ۔

ایک اہم نکتہ

ایمان اور اجتماعی وابستگیاں : زیر نظر آیت میں ہم نے دیکھا ہے کہ خدا کس طرح یہود و نصاریٰ میں سے سچے مومنین کو ” اہل کتاب “ سے تعبیر کرہاہے اور جو لوگ اپنے تعصبات اور ہوا و ہوس کے تابع تھے انہیں ” احزاب“ قرا ر دے رہا ہے ۔ امر صدر اسلام اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے ہم عصر یہود و نصاریٰ میں منحصر نہیں بلکہ حقیقی مومنین اور ایمان کے دعویداروں میں ہمیشہ یہی فرق رہا ہے کہ سچے مومنین فرامین حق کے سامنے تسلیم محض ہوتے ہیں اور ان مین تفریق و تبعیض کے قائل نہیں ہوتے یعنی اپنی خواہش و رغبت کو ان کے تحت رکھتے ہیں ۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے اہل کتاب اور اہل ایمان کا لقب سجتا ہے ۔

لیکن وہ کہ جو ” نؤمن ببعض ونکفر ببعض“ کا مصداق ہیں یعنی جو کچھ ان کی ذاتی سوچ ، رغبت اور ہوا ہوس سے ہم آہنگ ہے اسے قبول کر لیتے اور جو کچھ ایسا نہیں اس کا انکار کردیتے ہیں یا کچھ ان کے فائدے میں ہے اسے مان لیتے ہیں اور جو ان کے ذاتی مفادات کے خلاف ہے ا س کا انکار کردیتے ہیں وہ نہ حقیقی مسلمان ہیں اور نہ سچے مومن بلکہ وہ تو اجتماعی وابستگیاں رکھتے اور اپنے مقاصد دین میں تلاش کرتے ہیں اسی لئے تعلیمان ِ اسلام اور احکام دین میں ہمیشہ تبعیض کے قائل ہوتے ہیں ۔

_____________________

۱۔کیونکہ اس بات کا لازمہ یہ ہے کہ ”ما انزل الیک “ ”الکتاب “ ہی ہوکیونکہ اس صورت میں دونوں قرآن کی طرف اشارہ ہیں حالانکہ قرینہ مقابلہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ”الکتاب “ سے مراد اور ہے اور ”ماانزل الیک “ سے مراد کچھ اور ہے ۔

آیات ۳۷،۳۸،۳۹،۴۰

۳۷ ۔( وَکَذَلِکَ اٴَنزَلْنَاهُ حُکْمًا عَرَبِیًّا وَلَئِنْ اتَّبَعْتَ اٴَهْوَائَهُمْ بَعْدَمَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ مَا لَکَ مِنْ اللهِ مِنْ وَلِیٍّ وَلاَوَاقٍ ) ۔

۳۸ ۔( وَلَقَدْ اٴَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ اٴَزْوَاجًا وَذُرِّیَّةً وَمَا کَانَ لِرَسُولٍ اٴَنْ یَأتیَ بِآیَةٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللهِ لِکُلِّ اٴَجَلٍ کِتَابٌ ) ۔

۳۹( یَمْحُوا اللهُ مَا یَشَاءُ وَیُثْبِتُ وَعِنْدَهُ اٴُمُّ الْکِتَابِ ) ۔

۴۰ ۔( وَإِنْ مَا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِی نَعِدُهُمْ اٴَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَإِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلَاغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ ) ۔

ترجمہ

۳۷ ۔ جس طرح (کہ ہم نے گزشتہ انبیاء کو آسمانی کتاب دی ہے ) تجھ پر بھی واضح اور صریح فرمان نازل کیا ہے اور تیرے پاس آگاہی آجائے کہ بعد اگران کی خواہشات کی پیروی کرے تو خدا کے سامنے کوئی تیری حمایت کرنے والا اور بچا نے والا نہیں ہوگا ۔

۳۸ ۔ اور ہم نے تجھ سے پہلے رسول بھیجے ہیں اور ان کی بیوبیاں اور اولاد بھی تھی اور کوئی رسول حکم خدا کے بغیر(اپنی طرف سے )کوئی معجزہ نہیں لاسکتا تھا، ہر زمانہ ایک کتاب رکھتا ہے (او رہر کام کے لئے وقت مقرر ہے ) ۔

۳۹ ۔ خدا جسے چاہتا ہے محو کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ثبات عطا کرتا ہے اور ام الکتاب اس کے پاس ہے ۔

۴۰ ۔ اور وہ بعض سزائیں کہ جن کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے تجھے دکھائیں یا ( ان سزاؤں کے آنے سے پہلے ) ہم تجھے ماردیں تو ہرحالت میں تو فقط ابلاغ پر مامور ہے اور (ان کا )حساب ہمارے ذمہ ہے ۔

قطعی اور قابل ِ تغیر حوادث

ان آیا ت میں بھی نبوت سے مربوط مسائل کا سلسلہ جاری ہے ۔

پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے : جیسے ہم نے اہل کتاب اور گزشتہ انبیاء پر آسمانی کتاب نازل کی ویسے ہی یہ قرآن بھی تم پر نازل کیا ہے اس حالت میں کہ یہ واضح و آشکار احکام پر مشتمل ہے( وَکَذَلِکَ اٴَنزَلْنَاهُ حُکْمًا عَرَبِیًّا ) ۔

جیسا کہ راغب نے مفردات میں کہا ہے ” عربی “ فصیح اور واضح گفتگو کے معنی میں ہے :

الفصیح البین من الکلام

لہٰذا جس وقت کہا جاتا ہے :”امراٴة روبة “تو اس کامفہوم ہے :” جو عورت اپنی عفت و پاکدامنی سے آگاہ ہو“۔

اس کے بعد راغب مزید کہتا ہے :قوله حکماًعربیاً قیل معناه مفصحاً یحق الهق ویبطل الباطل

یہ جو خدا نے فرمایا ہے ” حکماً عربیاً“ اس کا مفہوم ہے ایسی واضح اور آشکار گفتگو جو حق کو ثابت کرتی ہے اور باطل کا بطلان کرتی ہے ۔

یہ احتمال بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ”عربی“ یہاں ”شریف “ کے معنی میں ہے کیونکہ لغت میں یہ لفظ اس معنی میں بھی آیاہے ۔ اس طرح اس صفت سے قرآن کی توصیف مراد یہ ہے کہ ا س کے احکام واضح و آشکار ہیں اور اسے غلط فائدہ اٹھا نے اور مختلف تعبیروں کی گنجائش نہیں ہے ۔ اسی لئے اس تعبیر کے بعد دیگر آیات میں استقامت ، ٹیڑھا پن نہ ہونے اور ی اعلم و آگہی کا ذکر کیا گیا ہے ۔ سورہ زمر کی آیت ۲۸ میں ہے :( قراٰنا عربیاً غیر ذی عوج )

یہ آشکار قرآن ہے کہ جو ہر قسم کی کجی اور ٹیڑھ پن سے پاک ہے ۔

سورہ حمٓ سجدہ کی آیہ ۳ میں ہے :( کتاب فصلت اٰیاته قراٰناً عربیاً لقوم یعلمون )

یہ وہ کتاب ہے کہ جس کی آیات تشریح شدہ ہیں اور یہ ان کے لئے واضح و آشکار قرآن ہے کہ جو جانناچاہے ۔

اس طرح اس آیت میں قبل اور بعد کا جملہ تائید کرتا ہے کہ ” عربیت“ سے مراد بیان کا واضح ، روشن اور پیچ و خم سے خالی ہونا چاہے۔

یہ تعبیر قرآن کی سات سورتوں میں آئی ہے لیکن چند ایک مواقع پر ” لسان عربی مبین“ اور اس قسم کے دیگر الفاظ بھی آئے ہیں ۔ ممکن ہے وہ بھی اسی معنی یعنی بیان کا روشن ، واضح اور ابہام سے خالی ہونا، میں ہو۔

البتہ اس خاص موقع پر ہوسکتا ہے عربی زبان کی طرف اشارہ ہو کیونکہ خدا ہر نبی کو اس کی اپنی قوم کی زبان میں مبعوث کرتا تھا تاکہ وہ سب سے پہلے اپنی قوم کو ہدایت کرے ا س کے بعد اس انقلاب کا دامن دوسری جگہوں تک پھیلائے ۔

اس کے بعدتہدید آمیز اور قاطع لہجے میں پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے فرمایاگیا ہے :جب تک حقیقت تجھ پر آشکار ہوجائے تو اس کے بعد اگر تو ان کی خواہشات کی پیروی کرے تو تمہیں خدائی عذاب کے ذریعے سزا ہو گی( وَلَئِنْ اتَّبَعْتَ اٴَهْوَائَهُمْ بَعْدَمَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ مَا لَکَ مِنْ اللهِ مِنْ وَلِیٍّ وَلاَوَاقٍ ) ۔

پیغمبر اکرم کے مقام عصمت ، معرفت اور علم و آگہی کی وجہ سے اگر چہ ان کے لئے انحراف کااحتمال یقینا نہیں ہے لیکن یہ الفاظ اولاً تو واضح کرتے ہیں کہ خدا کسی شخص کے ساتھ خصوصی ارتباط نہیں رکھتا بالفاظ دیگر اس کی کسی سے کوئی رشتہ داری نہیں ہے یہاں تک کہ اگر پیغمبر کا مقام بلند و بالا ہے تو ان کی تسلیم و عبودیت اور ایمان و استقامت کی بناء پر ہے ۔

ثانیاًیہ بات دوسروں کے لئے تاکید ہے کہ جہاں پیغمبر جیسی ہستی راہِ حق سے انحراف اور باطل راستے کی طرف میلان کی صورت میں خدائی سز اسے بچ نہیں سکتی تو پر دوسروں کی حیثیت واضح ہے ۔

یہ بعینہ اس طرح ہے کہ کوئی شخص اپنے اچھے اور نیک بیٹے کو مخاطب کرکے کہے ، اگر تو اپنا ہاتھ غلط کاریوں سے آلودہ کرے تو میں تجھے سزادوں گا تاکہ دوسروں کو اپنا حساب کتاب معلوم ہو جائے ۔

یہ نکتہ بھی یاد ررکھنے کے قابل ہے کہ ” ولی “ سر پرستو محافظ) اور ” واق“ ( نگہدار) اگر چہ معنی کے لحاظ سے ایک دوسرے کے مشابہ ہیں تاہم ان میں فرق یہ ہے کہ ایک مثبت پہلو کو بیان کرتا ہے اور دوسرا منفی پہلو کو ۔ ایک نصرت و مدد کرنے والے کے معنی میں ہے اور دوسرا دفاع اور حفاظت کرنے والے کے معنی میں ۔

بعد والی آیت در حقیقت ان مختلف اعتراضات ک اجواب ہے کہ جو دشمن آپ کر کرتے تھے ۔ ان میں سے ایک گروہ کہتا تھا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ پیغمبر نوعِ بشر میں سے ہو اور اس کی بیوی اور بچے ہوں تو مندرجہ بالا آیت انہیں جواب دیتے ہوئے کہتی ہے : یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ہم نے تجھ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے ہیں ۔ ان کی بیویاں بھی تھیں اور اولاد بھی( وَلَقَدْ اٴَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ اٴَزْوَاجًا وَذُرِّیَّةً ) ۔(۱)

ان کے اعتراض سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تو تاریخ ِ انبیاء سے نا واقف تھے یا اپنے آپ کو نادانی او رجہالت میں رکھے ہوئے تھے ورنہ یہ اعتراض نہ کرتے ۔

دوسرا یہ کہ انہیں توقع تھی کہ وہ جو معجزہ بھی تجویز کریں اور جوبھی ان کی خواہشات کا تقاضا ہو آپ اسے انجام دیں ( چاہے وہ ایمان لائیں یا نہ لائیں ) لیکن انہیں جاننا چاہیئے کہ ” کوئی رسول حکم ِ خدا کے بغیر کوئی معجزہ پیش نہیں کرسکتا “( وَمَا کَانَ لِرَسُولٍ اٴَنْ یَأتیَ بِآیَةٍ إِلاَّ بِإِذْنِ الله ِ ) ۔

تیسرا اعتراض یہ کیا جاتا تھا کہ پیغمبر اسلام کیوں آئے ہیں اور انہوں نے تورات یا انجیل کے احکام کو کیوں تبدیل کردیا ہے ، کیا یہ آسمانی کتاب نہیں ہیں اور خدا کی طرف سے نازل نہیں ہوئیں ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ خدا اپنا حکم تبدیل کردے ؟ ( یہ اعتراض خصوصاًاس امر سے پوری طرح ہم آہنگ ہے کہ یہودی نسخِ احکام کے ناممکن ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے ) ۔

زیر نظر آیت اپنے آخری جملے میں انہیں جواب دیتی ہے :ہر زمانے کے لئے ایک حکم اور قانون مقرر ہوا ہے ( تاکہ بشریت اپنے آخری بلوغ تک پہنچ جائے اور آخری حکم صادر ہو)( لِکُلِّ اٴَجَلٍ کِتَابٌ ) ۔

لہٰذا مقام تعجب نہیں کہ ایک دن وہ تورات نازل کرے ، دوسرے دن انجیل نازل کرے اور پھر قرآن ۔ کیونکہ تکامل ِ حیات کے لئے مختلف اور گونا گون پو گراموں کی ضرورت ہے ۔

یہ احتمال بھی ہے کہ ”لکل اجل کتاب “ ان لوگوں ک اجواب ہو جو کہتے ہیں کہ اگر پیغمبر سچ کہتا ہے تو پھر کیوں خدائی عذاب اس کے مخالف کا قلع قمع نہیں کرتا۔ قرآن انہیں جواب دیتا ہے کہ ہر چیز کا ایک وقت ہے اورکوئی چیز حساب و کتاب کے بغیر نہیں ہے ۔ سزا اور عذاب کا وقت بھی آپہنچے گا۔(۲)

جو کچھ گزشتہ آیت کے آخر میں کہا گیا ہے بعد والی آیت اس کے لئے تاکید و استدلال کی حیثیت رکھتی ہے اور وہ یہ کہ ہر حادثے اور حکم کے لئے ایک معین زمانہ ہے جیسا کہ کہا گیا ہے :ان الامور مرهونة باوقاتها

اور اگر دیکھتے ہو کہ بعض آسمانی کتب دیگر کتب کی جگہ لیتی ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ” خدا جو چیز چاہتا ہے محو کردیتا ہے جیسے وہ اپنے ارادے اور حکمت کے تقاضے سے کچھ امر کا اثبات کرتا ہے نیز کتابِ اصلی اور ام الکتاب اس کے پاس ہے( یَمْحُوا اللهُ مَا یَشَاءُ وَیُثْبِتُ وَعِنْدَهُ اٴُمُّ الْکِتَابِ ) ۔آخر میں مزید تاکید کے طور پر ان عذابوں کاذکر ہے کہ پیغمبر جن کا وعدہ کرتے تھے اور وہ ان کا انتظار کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ اعتراض کرتے تھے کہ تمہارے وعدے نے عملی شکل کیوں اختیار نہیں کی ۔ ارشاد ہوتا ہے : اور بعض امور کہ جن کا ہم نے وعدہ کررکھا ہے ( یعنی تیری کامیابی ، ان کی شکست، تیرے پیروکاروں کی رہائی اور ان کے پیرو کاروں کی اسارت) ہم تجھے تیری زندگی میں دکھائیں یا ان وعدوں پر عمل در آمد سے پہلے تجھے اس دنیا سے لے جائیں تیری ذمہ داری بہر صورت پر عمل در آمد سے پہلے تجھے اس دنیا سے لے جائیں تیری ذمہ داری بہر صورت ابلاغ رسالت ہے اور ہماری ذمہ داری ان سے حساب لینا ہے( وَإِنْ مَا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِی نَعِدُهُمْ اٴَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَإِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلَاغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ ) ۔

____________________

۱۔ بعض مفسرین نے اس آیت کے لئے ایک شان نزول ذکر کی ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کا جواب ہے جنہوں نے پیغمبر اکرم کی ایک سے زیادہ ازواج ہونے پر اعتراض کیا تھا حالانکہ سورہ رعد مکی ہے اور مکہ میں تعداد ازواج کا معاملہ در پیش نہیں تھا ۔

۲۔ البتہ اس معنی کے مطابق ، جیسا کہ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ مندرجہ بالا جملے میں تقدیم و تاخیر کا قائل ہو نا پڑے گا اور یہ کہنا پرے گا کہ تقدیر میں ”لکل کتاب اجل “ تھا ( غور کیجئے گا) ۔