تفسیر نمونہ جلد ۱۰

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 30347
ڈاؤنلوڈ: 2949


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 93 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30347 / ڈاؤنلوڈ: 2949
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 10

مؤلف:
اردو

سوره ابراهیم

آیات ۱،۲،۳،

( بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ )

۱ ۔( الر کِتَابٌ اٴَنزَلْنَاهُ إِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنْ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَی صِرَاطِ الْعَزِیزِ الْحَمِیدِ ) ۔

۲ ۔( اللهِ الَّذِی لَهُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْاٴَرْضِ وَوَیْلٌ لِلْکَافِرِینَ مِنْ عَذَابٍ شَدِیدٍ ) ۔

۳ ۔( الَّذِینَ یَسْتَحِبُّونَ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا عَلَی الْآخِرَةِ وَیَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ وَیَبْغُونَهَا عِوَجًا اٴُوْلَئِکَ فِی ضَلَالٍ بَعِیدٍ ) ۔

ترجمہ

رحمن و رحیم کے نام سے

۱ ۔ الر۔ یہ وہ کتاب ہے جو ہم نے تجھ پر نازل کی تاکہ تو پروردگار نے فرمان سے لوگوں کو (شرک ، ظلم اور طغیان کی )تاریکیوں سے نکال کر( ایمان ، عدل اور صلح کی ) کی روشنی کی طرف جائے ، عزیز وحمید خدا کی راہ کی طرف۔

۲ ۔ وہی خدا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ، اسی کاہے ۔ کافروں کے لئے افسوس ناک ہے عذاب ِ شدید ۔

۳ ۔ وہی کہ جو دنیا ی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں اور ( لوگوں کو) اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ راہ ِ حق کو ٹیڑھا کردیں اور دور کی گمراہی میں ہیں ۔

تفسیر

ظلمتوں سے نور کی طرف

یہ سورہ بھی قرآن کی بعض دیگر سورتوں کی طرح حروف مقطعہ ( آلرٰ) سے شروع ہوئی ہے ۔ ان حروف کی تفسیر ہم سورہ بقرہ، آل عمران اور اعراف کی ابتداء میں بیان کرچکے ہیں ۔ یہاں نکتے کا ذکر ہم ضروری سمجھتے ہیں یہ کہ ۲۹ مقامات پر قرآن کی سورتوں کا آغاز حروف مقطعہ سے ہوا ہے ۔ ان میں سے ۲۴ مقامات ایسے ہیں جن میں بلا فاصلہ قرآن مجید کے بارے میں گفتگو آئی ہے ۔ یہ امر نشاندہی کرتا ہے کہ قرآن اور حروف مقطعہ کے درمیان کوئی تعلق موجود ہے اور ہوسکتا ہے یہ وہی تعلق ہو جس کا ذکر ہم سورہ بقرہ کی ابتداء میں کر چکے ۔ وہ یہ کہ خدا چاہتا ہے کہ اس سے واضح کرے کہ یہ عظیم آسمانی کتاب اپنے با عظمت معافی و مفاہیم کہ جن کی بناء پر وہ تمام انسانوں کی ہدایت اپنے ذمہ لئے ہوئے ہے کہ باوجود اسی سادہ سے خام مال ( الف ، باء) سے تشکیل پائی ہے اور یہ اس اعجاز کی اہمیت کی نشانی ہے کہ وہ سادہ ترین چیز سے افضل ترین چیز کو وجود بخشا ہے ۔

بہرحال الف ، لام، را ۔ کے ذکر کے بعد فرمایاگیا ہے :یہ وہ کتاب ہے کہ جو ہم نے تجھ پر اس لئے نازل کی کہ تو لوگوں کو گمراہیوں سے نکال کر نور کی طرف لے جائے ۔( کِتَابٌ اٴَنزَلْنَاهُ إِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنْ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّور ) ۔

درحقیقت نزول قرآن کے تمام تر بیتی ، انسانی ، روحانی اور مادی مقاصد اسی ایک جملے میں جمع ہیں ، ” ظلمتوں سے نکال کر نور کی طرف لے جانا“۔ ظلم و جہالت سے نورِ علم کی طرف ، ظلمت ِ کفر سے نور ایمان کی طرف ، ظلمت ِ ظلم سے نور ِ عدالت کی ، فساد سے نورِ صلاح کی طرف ظلمتِ گناہ سے نورِ تقویٰ کی طرف اور ظلمت ِ افتراق سے نور ِوحدت کی طرف۔

یہ امر جاذب نظر ہے کہ یہاں ” ظلمات “ بعض دیگر قرآنی سورتوں کی طرح جمع کی شکل میں آیا ہے اور ” نور “ واحد کی صورت میں ۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ تمام نیکیاں ، پاکیزگیاں ، ایمان و تقویٰ او ر فضیلت نورِ توحید کے سائے میں اپنے آپ میں وحدت و یگانگی کی حالت میں ہیں اور سب ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور متحد ہیں اور ان سے ایک متحد و واحد معاشرہ ، جو ہر لحاظ سے پاک و پاکیزہ کپڑ ے کی مانند ہو تیار کیا جاسکتا ہے ۔

لیکن ظلمت ہر مقام پر پراگندگی اور صفوں میں تفرقہ کا سبب ہے ۔ ستم گر ، بدکار، آلودہ گناہ اور منحرف لوگ عموماً اپنی انحرافی راہوں میں بھی وحدت نہیں رکھتے اور آپس میں حالت ِ جنگ میں ہوتے ہیں ۔

تمام نیکیوں کا سر چشمہ چونکہ خدا کی ذاتِ پاک اور ادراکِ توحید کی بنیادی شرط اسی حقیقت کی طرف توجہ ہے لہٰذا بلا فاصلہ مزید فرمایا گیا ہے : یہ سب کچھ ان ( لوگوں ) کے پر وردگار کے اذن وحکم سے ہے( ِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ ) ۔ اس نور کے بارے میں مزید توضیح کے لئے فرمایا گیا ہے :عزیز و حمید خدا کی راہ کی طرف( إِلَی صِرَاطِ الْعَزِیزِ الْحَمِیدِ ) ۔(۱)

وہ کہ جس کی عزت اس کی قدرت کی دلیل ہے کیونکہ کسی کے بس میں نہیں کہ اس پر غلبہ حاصل کرسکے اور اس کا حمید ہونا اس کی بے پایاں نعمات کی نشانی ہے کیونکہ حمد و ستائش ہمیشہ نعمتوں ، عنا ئتوں اور زیبائی پر ہوتی ہے ۔

اگلی آیت میں معرفت ِخدا کے لئے ایک درس ِ توحید دیتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے : وہی خدا کہ جو کچھ آسمان و زمین میں ہے اسی ہے( اللهِ الَّذِی لَهُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْاٴَرْضِ ) ۔(۲)

تمام چیزیں اس کی ہیں کیونکہ وہی موجودات کاخالق ہے ، اسی بناء پر وہ قادر و عزیز بھی ہے ، تمام نعمتیں بخشنے والا اور حمید بھی ۔

ذکر مبداء کے بعد آیت کے آخر میں مسئلہ معاد کی جانب توجہ توجہ دی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : وائے ہو کفار پر قیامت کے شدید عذاب سے( وَوَیْلٌ لِلْکَافِرِینَ مِنْ عَذَابٍ شَدِیدٍ ) ۔

اگلی آیت میں بلا فاصلہ کفار کا تعارف کروایا گیا ہے ۔ ان کی صفات کے تین حصوں کاذکر کرکے ان کی کیفیت کو پوری طرح مشخص کردیا گیا ہے اس طرح سے کہ ہر شخص ان کا سامنا کرتے ہیں انہیں پہچان لے فرمایا گیا ہے : وہ ایسے لوگ ہیں جو اس جہان کی پست زندگی کو آخرت کی زندگی پر مقدم شمار کرتے ہیں( الَّذِینَ یَسْتَحِبُّونَ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا عَلَی الْآخِرَةِ ) ۔(۳)

اسی وجہ سے وہ ایمان ، حق ، عدالت ، ، شرفِ آزادگی اور سر بلندی کہ جو آخرت سے لگاؤ رکھنے والوں کی خصوسیات میں سے ہیں اپنے گھٹیا مفادات، شہوات اور ہوا و ہوس پر قربان کردیتے ہیں

اس کے بعد فرمایا گیا ہے : ایسے لوگ اسی ہر بس نہیں بلکہ خود ہی میں پڑنے کے بعد دوسروں کو بھی بھٹکا نے کی کوشش کرے ہیں اور ”وہ لوگوں کو راہ خدا سے روکتے ہیں “۔( وَیَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ ) ۔

در حقیقت وہ اللہ کی راہ کہ جو راہِ فطرت ہے اور انسان خود سے چل کر اسے عبود کر سکتا ہے اس میں طرح طرح کی دیوار اٹھاتے ہیں اور رکا وٹیں کھری کرتے ہیں ۔ اپنی ہوا و ہوس اور خواہشا کی بنا سنوار کر پیش کرتے ہیں ، لوگوں کو گناہ کا شوق دلاتے ہیں اور راستی و پاکیزگی کے راستے سے خوف زدہ کرتے ہیں ۔

ان کا کام فقط اللہ کے راستے میں رکاوٹیں اور دیواریں کھڑی کرنا نہیں بلکہ ” کو شش کرتے ہیں کہ لوگوں کے سامنے اسے بگاڑ کر پیش کریں “( وَیَبْغُونَهَا عِوَجًا ) ۔

در اصل وہ پوری توانائیوں سے کو شش کرتے ہیں کہ دوسروں کو اپنے رنگ میں رنگ لیں اور اپنا ہم مسلک بنالیں لہٰذا ان کی کو شش ہوتی ہے کہ اللہ کے سیدھے کو ٹیڑھا کر کے دکھائیں ۔ اس لئے وہ اس میں طرح طرح کی خرافات اور بے ہودہ گیاں پیدا کرتے ہیں ، مختلف تحریفات سے کام لیتے ہیں ۔ قبیح بدعتوں کو رواج دیتے ہیں اور کثیف طور طریقے اختیار کرتے ہیں ۔ واضح ہے کہ ” ان صفات و اعمال کے حامل ہونے کی وجہ سے ایسے افراد بہت دور کی گمراہی میں ہیں “( اٴُوْلَئِکَ فِی ضَلَالٍ بَعِیدٍ ) ۔یہ وہی لوگ ہیں کہ راہِ حق سے زیادہ دور ہونے کی بناء پر جن کا راہ ِ حق کی طرف لوٹ آنا آسانی سے ممکن نہیں لیکن یہ سب کچھ خود انہی کے اعمال کا نتیجہ ہے ۔

چند اہم نکا ت

۱ ۔ ایمان اور راہ ِخدا کو نور سے تشبیہ دینا

اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ”نور“ عالم مادہ کا لطیف ترین موجود ہے ، اس کی رفتار نہایت تیز ہے اور جہان ِ مادہ میں اس کے آثار و بر کات ہر چیز سے زیادہ ہیں ، یہ کہا جاسکتا ہے کہ تمام مادی نعمات و بر کات کا سر چشمہ نور ہے ۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ایمان اور راہِ خدا میں قدم رکھنے کو نور سے تشبیہ دینا کس قدر پر معنی ہے ۔

نور اتحاد کا سبب ہے اور ظلمت انتشار کا عامل ہے ۔ نور زندگی کی علامت ہے اور ظلمت موت کی نشانی ہے ۔ اسی بناء پر قرآن ِ مجید میں بہت سے قیمتی امور کو نور سے تشبیہ دی گئی ہے ۔

ان میں سے ایک عمل صالح ہے ۔یوم تری المومنین و المؤمنات یسعیٰ نور هم بین ایدیهم و بایمانهم

وہ دن کہ جب تو صاحب ِ ایمان مردو اور عورتوں کو دیکھے گا کہ ان کا نور ان کے سامنے اور دائیں جانب رواں دواں ہو گا ۔ ( حدید ۔ ۱۲) ۔

ایمان اور توحید کے لئے بھی یہ لفظ آیا ہے ۔ مثلاً

( الله ولی الذین اٰمنوا یخرجهم من الظلمات الیٰ النور )

اللہ ان لوگوں کا ولی و سر پرست ہے جو ایمان لائے ہیں کہ جنہیں وہ ظلمتوں سے نور کی ہدایت کرتا ہے ۔( بقرہ ۔ ۲۵۷)

قرآن کو بھی نور سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے :

( فالذین اٰمنوا به و عزروه و نصروه و اتبعوا النور الذی انزل معه اولٰئک هم المفلحون )

اور جوپیغمبر پر ایمان لائے ہیں ، اس کی عزت و توقیر کرتے ہیں ، اس کی مدد کرتے ہیں اور ا س نور کی پیروی کرتے ہیں کہ جو اس کے ساتھ نازل ہواہے ، وہ فلاح پانے والے ہیں ۔ (اعراف ۔ ۱۵۷)

نیز خدا کے آئین و دین کو اس پر بر کت وجود سے تشبیہ دی گئی ہے :( یریدون ان یطفؤا نور الله بافواههم )

وہ چاہتے ہیں کہ پھونکوں سے نور خدا کا خاموش کردیں ۔ ( توبہ ۔ ۳۲)

اور سب سے بڑھ کر خدا کی ذات پاک کہ جو افضل ترین وجود ہے بلکہ سب کی ہستی جس کے وجود ِ مقدس کا پر تو ہے کو نو ر سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے :( الله نور السمٰوٰت و الارض )

اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے ۔ ( نور۔ ۳۵)

یہ تمام امور ایک ہی حقیقت کی طرف پلٹ تے ہیں کیونکہ یہ سب اللہ ، اس پر ایمان ، اس کی گفتگو اور اس کی راہ کے پر تو ہیں ۔ لہٰذا یہ لفظ ان مواقع پر مفرد کی شکل میں آیا ہے ۔ جب کہ اس کے بر عک” ظلمات“ چونکہ ہر جگہ انتشار و تفرقہ کا عامل ہے لہٰذا جمع کی صورت میں تعدد و تکثر کی علامت کے طور پر ذکر ہوا ہے اور خدا پر ایمان لانا ، اس کی راہ میں قدم رکھنا چونکہ حرکت بیداری کا سبب ہے ، اجتماعیت و وحدت کا عامل ہے اور ارتقاء و پیش رفت کا ذریعہ ہے لہٰذا یہ تشبیہ ہر لحاظ سے رسا ، با معنی اور باعث تربیت ہے ۔

۲ ۔ ”لتخرج“ کامفہوم :

پہلی آیت میں ” لتخرج“ کی تعبیر در حقیقت دو نکات کی طرف اشارہ کرتی ہے :

پہلا یہ کہ قرآن مجید اگر انسان کے لئے ہدایت و نجات کی کتاب ہے تا ہم اسے اجراء و نفاذ کرنے والے اور علمی صورت بخشنے والے کی احتیاج ہے لہٰذا پیغمبر جسے راہبر کی ضرورت ہے جو ا س کے ذریعے راہ حقیقت سے بھٹکے ہوؤں کی بد بختی کی ظلمات سے نورِ سعادت کی طرف ہدایت کرے ۔ لہٰذا قرآن بھی اپنی اس قدر عظمت کے باوجود رہبر ، رانما، مجری اور نافذ کرنے والے کے بغیر تمام مشکلات حل نہیں کرسکتا ۔

دوسرا یہ کہ خارج کرنے کی تعبیر در حقیقت تغیر و تبدل کے ساتھ حرکت دینے اور چلانے کی دلیل ہے ۔ گویا بے ایمان لو گ ایک تنگ و تاریک فضا میں ہوتے ہیں اور پیغمبر و رہبر ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں وسیع او ر روشن فضا میں لے جاتے ہیں ۔

۳ ۔ سورة کے آغاز و اختتام پر ایک نظر :

یہ امر جاذب توجہ ہے کہ اس سورة کا آغاز لوگوں کو ظلمات سے نور کی طرف ہدایت سے ہوا ہے او راکا اختتام بھی لوگوں کو ابلاغ و انذار پر ہوا ہے ۔ یہ امر نشاندہی کرتا ہے کہ بہر حال اصلی ہدف خود لوگ ، ان کی سر نوشت اور ان کی ہدایت ہے اور در حقیقت انبیاء و مر سلین کا بھیجنا اور آسمانی کتب کا نزول سب اسی کو پانے کے لئے ہے ۔

آیات ۴،۵،۶،۷

۴ ۔( وَمَا اٴَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِیُبَیِّنَ لَهُمْ فَیُضِلُّ اللهُ مَنْ یَشَاءُ وَیَهْدِی مَنْ یَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ ) ۔

۵ ۔( وَلَقَدْ اٴَرْسَلْنَا مُوسَی بِآیَاتِنَا اٴَنْ اٴَخْرِجْ قَوْمَکَ مِنْ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ وَذَکِّرْهُمْ بِاٴَیَّامِ اللهِ إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِکُلِّ صَبَّارٍ شَکُورٍ ) ۔

۶ ۔( وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِهِ اذْکُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَیْکُمْ إِذْ اٴَنجَاکُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ یَسُومُونَکُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَیُذَبِّحُونَ اٴَبْنَائَکُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَائَکُمْ وَفِی ذَلِکُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّکُمْ عَظِیمٌ ) ۔

۷ ۔( وَإِذْ تَاٴَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاٴَزِیدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِی لَشَدِیدٌ ) ۔

ترجمہ

۴ ۔ ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زبان میں تاکہ ان کے سامنے ( حقائق ) آشکار کرے پھر خدا جسے چاہے ( اور مستحق سمجھے) گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہے ( اور مستحق سمجھے ) ہدایت کرتا ہے اور وہ تو توانا و حکیم ہے ۔

۵ ۔ اور ہم نے موسیٰ کو اپنی آیات کے ساتھ بھیجا ( اور حکم دیا ) کہ اپنی قوم کو ظلمات سے ونر کی طرف نکال اور انہیں ایام اللہ یا د دلا اس میں ہر صبر کرنے والے اور شکر گزار کے لئے نشانیاں ہیں ۔

۶ ۔ وہ وقت یا د کرو کہ جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: اپنے اوپر خد اکی نعمت کو یاد رکھو جب کہ اس نے تمہیں آلِ فرعون ( کے چنگل سے)سے نجات بخشی ۔ وہ کہ جو تمہیں بد ترین طریقے سے عذاب دیتے تھے ۔

تمہارے لڑکوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری عورتوں کو ( خدمت گاری کے لئے ) زندہ رکھتے تھے اور اس میں تمہارے پر وردگار کی طرف بہت بڑی آزمائش تھی ۔

۷ ۔ ( اسی طرح ) اس وقت کو یاد کرو کہ جب تمہارے پر ور دگار نے اعلان کیا کہ اگر شکر گزاری کروگے تو تم پر( اپنی نعمت کا ) اضافہ کروں گا اور اگر کفران کروگے تو میرا عذاب سخت ہے ۔

تفسیر

زندگی کے حساس دن

گزشتہ آیات میں قرآن مجید اور اس کے حیات بخش اثرات کے متعلق گفتگو تھی ۔ زیر بحث پہلی آیت میں بھی ایک خاص پہلو سے اس موضوع کے بارے میں بات کی گئی ہے اور وہ ہے انبیاء اور آسمانی کتب کی زبان کا اس پہلی قوم کی زبان سے ہم آہنگ ہونا جس کی طرف وہ مبعوث ہوئے ۔

فرمایا گیاہے : ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان میں( وَمَا اٴَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِهِ ) ۔

کیونکہ پہلے پہل تو کسی پیغمبر کا تعلق اسی قوم سے پیدا ہوتا ہے جس میں وہ قیام کرتے ہیں ، انبیاء کے ذریعے پہلی وحی کی شعاع اسی پر پڑتی ہے اور ان کے اولین اصحاب و انصار اسی میں سے ہوتے ہیں لہٰذا پیغمبر کو انہی کی زبان میں گفتگو کرنا چاہئیے ” تاکہ وہ ان کے لئے حقائق کو واضح طور پر پیش کر سکے “( لِیُبَیِّنَ لَهُم )

اس جملے میں در حقیقت اس کے نکتے کی طرف بی اشارہ ہے کہ عام طور پر انبیاء کی دعوت ان کے پیروکاروں پر کسی انجانے اور غیر مانوس طریقے سے منعکس نہیں ہوتے تھی بلکہ واضح و روشن طور پر عام مروجہ زبان میں وہ تعلیم و تربیت کرتے تھے ۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے: ان کے سانے منے دعوت ِ الہٰی کی وضاحت کے بعد ”خدا جس شخص کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے “( فَیُضِلُّ اللهُ مَنْ یَشَاءُ وَیَهْدِی مَنْ یَشَاءُ ) ۔

یہ اس طرف اشارہ ہے کہ آخر کار کسی کا ہدایت یافتہ ہونا یاگمراہ ہونا انبیاء کاکام تو تبلیغ اور تبیین ہے ۔ بندوں کی حقیقی ہدایت و رہنمائی تو خدا ہی کے ہاتھ ہے ۔

اس بناء پر کہیں یہ تصور نہ ہو کہ اس کا مطلب جبر ، لازمی طورپر ہونا اور انسان کی آزادی کا سلب ہونا ہے ، بلافاصلہ مزید ارشاد فرمایا گیا ہے : وہ عزیز حکیم ہے( وَهُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیم ) ۔

اپنی عزت و قدرت کی وجہ سے وہ ہر چیز پر قادر و توانا ہے او رکوئی شخص اس کے ارادے کے سامنے کھڑا نہیں ہوسکتا ۔ لیکن اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق وہ کسی شخص کو بلا سبب ہدایت نہیں کرتا اور نہ کسی کو بلا وجہ گمراہ کرتا ہے بلکہ بندے اپنے ارادے کی انتہائی آزادی کے ساتھ ”سیر الیٰ اللہ “ کے لئے قدم اٹھاتے ہیں اور اس کے بعد ان کے دل پر نور ہدایت اور فیض ِ حق کی کرنیں پڑتی ہیں ۔ جیسا کہ سورہ عنکبوت کی آیہ ۶۹ میں ہے :( والذی جاهدوا فینا لنهدینهم سبلنا )

جو لوگ ہماری راہ میں جہاد اور جدو جہد کرتے ہیں ہم یقینی طور پر انہیں اپنے راستوں کی طرف ہدایت کرتے ہیں ۔

اسی طرح جن لوگوں نے تعصب ، ہٹ دھرمی ، حق دشمنی ، شہوات میں غوطہ زنی اور ظلم میں آلودگی کے باعث ہدایت کے لئے اپنی قابلیت گنواد ی ہے وہ فیض ِ ہدایت سے محروم ہو جاتے ہیں اور ضلالت و گمراہی کی وادی میں بھٹکتے رہتے ہیں ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے :( کذٰلک یضل الله من هومسرف مرتاب )

اسی طرح خدا ہر اسراد کرنے والے اور آلودہ شک شخص کو گمراہ کرتا ہے ۔ (مومن ۔ ۳۴)

یہ بھی فرمایا گیا ہے :

اس کے ذریعہ خدا صرف فاسقوں کو گمراہ کرتا ہے (بقرہ۔ ۲۶) نیز یہ بھی ار شاد ہوتا ہے :( یضل الله الظالمین )

خدا ستمگروں کو گمراہ کرتا ہے ۔ (ابراہیم ۔ ۲۷)

گویا ہدایت اور گمراہی کا سر چشمہ خود ہمارے ہاتھ میں ہے ۔

اگلی آیت میں اپنے ہم عصر طاغوتوں کے مقابلے میں انبیاء کے قیام کا ایک نمومہ ذکر کیا گیا ہے اور بتا یا گیا ہے کہ وہ ظلمتوں سے نکال کر وادی نور میں لے جانے ے لئے بھیجے گئے تھے ۔ ارشاد ہوتا ہے :ہم نے موسیٰ کو اپنی آیات ( مختلف معجزات) کے ساتھ بھبیجا اور ہم نے اسے حکم دیا کہ اپنی قوم کو ظلمات سے ونر کی طرف ہدایت کرو( وَلَقَدْ اٴَرْسَلْنَا مُوسَی بِآیَاتِنَا اٴَنْ اٴَخْرِجْ قَوْمَکَ مِنْ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ ) ۔(۱)

جیسا کہ ہم نے اس سورہ کی پہلی آیت میں پڑھا ہے پیغمبر اسلام کے پروگرام کا خلاصہ بھی لوگوں کو ظلمات سے نور کی طرف نکال لے جانا تھا ۔

یہ امر نشاندہی کرتا ہے کہ یہ سب خدا کے انبیاء و رسل ہیں بلکہ سب کے سب انسانوں کے معنوی اور روحانی راہنما ہیں ۔ کیا برائیاں ، گمراہیاں ، کجرویاں ، ظلم و ستم ، استثمار ، ذلتیں ، زبوں حالیاں ، فتنہ و فساد اور گناہ ظلمت و تاریکی کے علاوہ کچھ اور ہیں ۔ اور کیا ایمان و توحید ، تقویٰ و پاکیزگی ، آزادی و استقلال اور سربلندی و عزت نور و ضیا کے سوا کچھ اور ہے ۔ اس بنا ء پر تمام رہبروں کی دعوت کے درمیان بالکل یہی قدر مشترک اور قدر جامع ہے ۔

ا س کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ایک عظیم ذمہ داری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : تیری ذمہ داری ہے کہ تو اپنی قوم کو ” ایام اللہ “ یا د دلائے( وَذَکِّرْهُمْ بِاٴَیَّامِ اللهِ ) ۔

مسلم ہے کہ تمام دن ایام الٰہی ہیں جیسے تمام جگہیں اور مقامات خدا سے تعلق رکھتے ہیں اب اگر کسی خاص مقام کو ” بیت اللہ “ سے موسوم کیا جائے تو یہ اس کی خصوصیت کی دلیل ہے ۔ اسی طرح مسلم ہے کہ ”ایام اللہ “ کا عنواب مخصوص دنوں کی طرف اشارہ ہے کہ جو بہت زیادہ امتیاز و درخشندگی رکھتے ہیں ۔

اسی بناء پر مفسرین نے اس کی تفسیرمیں مختلف احتمالات پیش کئے ہیں ۔

بعض نے کہا ہے کہ یہ گزشتہ انبیاء اور ان کی سچی اور اچھی امتوں کی کامیابی کے دنوں کی طرف اشارہ ہے اور اسی طرح وہ ایام بھی اس کے مفہوم میں شامل ہیں کہ جن میں انہیں ان کی اہلیت کی بناء پر انواع و قسام کی نعمتوں ن سے نوازا گیا ۔

بعض نے کہا کہ یہ ان دنوں کی طرف اشارہ ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے سر کش قوموں کو عذاب زنجیر میں جکڑ ا اور طاغوت و سر کش افراد کو ایک ہی فرمان سے تباہ و بر باد کردیا ۔

بعض نے ان دونوں حصوں کی طرف اشارہ سمجھا ہے ۔

لیکن اصولی طور پر اس گویا ، عمدہ اور رسا تعبیر کو محدود نہیں کیا جاسکتا ۔ وہ تمام دن ” ایام اللہ “ ہیں کہ جو نوعِ بشر کی زندگی کی تاریخ میں حامل ِ عظمت ہیں ۔ ہر وہ دن کہ جس میں کوئی فرمان ِ الہٰی اس طرح درخشندہ ہوا کہ باقی امور کو اپنے تحت الشعاع لے آیا وہ ایام اللہ میں سے ہے ۔

جس روز انسانوں کی زندگی میں سے نیا باب کھلا ، انہیں درس ِ عبرت دیا گیا ، ان مین کسی پیغمبر نے ظہور یا قیام فرمایا یا جس دن کوئی منکر ، طاغوت اور فرعون ظلمت کے گڑھے میں پھنکا گیا ۔ خلاصہ یہ کہ وہ دن کہ جس میں حق و عدالت بر پا ہو ئی اور ظلم و بدعت خاموش ہو ئی وہ ایام اللہ میں سے ہے جیساکہ ہم دیکھیں گے آئمہ معصومین علیہم السلام کی اس تفسیر کے ذیل میں منقول روایات میں بھی حساس دنوں کی نشاندہی کی گئی ہے ۔

آیت کے آخر میں ارشاد ہوتا ہے : اس گفتگو میں اور تمام ایام اللہ مین ہر صابر و با استقامت اور شکر گزار انسان کے لئے نشانیاں ہیں( إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِکُلِّ صَبَّارٍ شَکُورٍ ) ۔

”صبار“ اور ”شکور“ دونوں مبالغہ کے صیغے ہیں ان میں سے ایک صبر و استقامت زیاد ہ ہونے اور دوسرا نعمت و احسان پر شکر گزاری زیادہ ہونے کو ظاہر کرتا ہے ۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ صاحب ِ ایمان افراد نہ تو سختیوں اور مشکلوں کے دنوں میں حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں اور اپنے آپ کو حوالہ حوادث کردیتے ہیں اور نہ ہی کامیابی اور نعمت کے دنوں میں غرور و غفلت میں گرفتار ہوتے ہیں اور ” ایام اللہ “کی طرف اشارہ کرنے کے بعد ان دونوں کا تذکرہ گویا اسی مقصد کی نشاندہی کررہاہے ۔

بعد والی آیت میں تاریخ بنی اسرائیل میں ایام اللہ اور درخشاں و پر باردلوں میں سے ایک کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور اس کا ذکر مسلمانوں کے لئے بھی تذکرہ تھا ۔ ارشاد ہوتا ہے : اس وقت کو یاد کرو کہ جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اس نعمت ِخدا کا تذکرہ کرو کہ جب اس نے تمہیں آل ِ فرعون سے نجات بخشی( وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِهِ اذْکُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَیْکُمْ إِذْ اٴَنجَاکُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ ) ۔

وہی فرعونی کہ جنہوں نے تم پر بد ترین عذاب مسلط کررکھا تھا ، تمہارے بیٹوں کو ذبح کردیتے تھے اور تمہاری عورتوں کو خدمت اور کنیزی کے لئے زندہ رکھتے تھے( یَسُومُونَکُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَیُذَبِّحُونَ اٴَبْنَائَکُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَائَکُمْ ) ۔

اور یہ تمہارے پر وردگا رکی طر ف سے تمہاری بہت بڑی آزمائش تھی( وَفِی ذَلِکُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّکُمْ عَظِیمٌ ) ۔

اس دن سے زیادہ با بر کت کونسا دن ہو گا کہ جس دن تمہارے سروں سے خود غرض ، سنگدل اورا ستعمارگر لوگوں کو دور کیا گیا ۔ وہی لوگ کہ جو تمہارے ساتھ ایک بہت بڑا ستم روا رکھے ہوئے تھے ۔ اس ظلم سے بڑھ کر کیا ہوسکتاتھا کہ وہ تمہارے بیٹوں کے سر جانوروں کی طرح کاٹ دیتے تھے ( توجہ رہے کہ قرآن نے ذبح کہا ہے قتل نہیں ) اور اسے بڑھ کر یہ کہ تمہاری عزت و ناموس بے شرم دشمن کے چنگل میں کنیزوں کی طرح گرفتار تھی ۔

نہ صر ف بنی اسرائیل کے لئے بلکہ اقوام و ملل کے لئے آزادی و استقلا ل کے حصول اور طاغوت کی دست برد سے نجات کا دن ایام اللہ میں سے ہے کہ جسے انہیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئیے ۔ ایسی یاد کہ جس کے سبب وہ گزشتہ حالت کی طرف لوٹنے سے محفوظ ہیں ۔

”یسومونکم “ سوم ( بروزن ”صوم “) کے مادہ سے ہے ۔ در اصل یہ کسی چیز کے پیچھے جانے اور اس کی جستجو کے معنی میں ہے نیز یہ لفظ کسی پرکسی کام کو زبر دستی ٹھونسنے کے معنی میں بھی آیا ہے ۔(۲)

”یسومونکم سوء العذاب “ کا مفہوم یہ ہے کہ وہ تم پر بد ترین سختیاں اور عذاب مسلط کرتے تھے ۔ کیا یہ کم مصیبت ہے کہ ایک گروہ کی فعال قوت کو فنا کے گھاٹ اتار دیا جائے اور اس کی عورتوں کو کسی سرپرست کے بغیر چند ظالموں کے چنگل میں کنیزوں کی طرح باقی رہنے دیا جائے ۔

ضمناً ”یسومون “ کا فعل مضارع کی صورت میں ہونا اس طرف اشارہ ہے کہ یہ کام مدتوں جاری رہا ۔(۳)

یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ بیٹوں کا سر کاٹنے اور عورتوں کی کنیزی کے ذکر کے بعد ان کا واؤ کے ذریعے ” سوء العذاب “ پر عطف کیا گیا ہے حالانکہ یہ خود ”سوء العذاب “ کا مصداق ہیں ۔ ایسا ان دونوں عذابوں کی اہمیت کی بناء پر ہوا ہے ۔ نیز یہ نشاندہی کرتا ہے کہ فرعون کی جابر اور ستم گر قوم بنی اسرائیل پر اور مظالم بھی روارکھتی تھی لیکن ان میں سے یہدو ظلم بہت شدید اور نہایت سخت تھے ۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے : یہ بات بھی یاد رکھو کہ تمہارے پر وردگار نے اعلان کیا کہ اگرمیری نعمتوں کا شکر بجا لاؤ تو یقینا میں تمہاری نعمتوں میں اضافہ کروں گا اور اگر کفران کرو تو میرا عذاب اور سزا شدیدہے( وَإِذْ تَاٴَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاٴَزِیدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِی لَشَدِیدٌ ) ۔(۴)

ہوسکتا ہے کہ یہ آیت بنی اسرائیل سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی گفتگو کا تسلسل ہو ۔ آپ (علیه السلام) نے انہیں اس نجات ، کامیابی اور نعمات ِ فراواں پر شکر گزاری کی دعوت دی اور ان سے نعمت میں اضافے کا وعدہ کیا اور کفران کی صورت میں عذاب کی تہدید کی اور یہ ممکن ہے کہ یہ ایک مستقل جملہ ہو او ر مسلمانوں سے خطاب ہو لیکن بہر حال نتیجے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اگر بن اسرائیل کو خطاب ہو پھربھی قرآن مجید میں ہمارے لئے ایک اصلاحی درس کے طور پر آیا ہے ۔

یہ امر جاذب نظر ہے کہ شکر کے بارے میں صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے ” لا زید نکم “ ( یقینا میں اپنی نعمت تم پر زیادہ کر دوں گا ) ۔

جب کہ کفران نعمت کے بارے میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ تمہیں عذاب کروں گا بلکہ ارشاد ہوتا ہے :” میرا عذاب شدید ہے “ تعبیر کا یہ فر ق پر وردگار ک اانتہائی لطف و کرم ہے ۔

____________________

۱۔حضرت موسی بن عمران علیہ السلام سے ظاہر ہونے والے معجزات کی طرف زیر نظر آیت میں لفظ” آیات“کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے ۔ سورہ بنی اسرائیل کی آیت ۱۰۱کے مطابق وہ تو اہم معجزات تھے جن کی تفصیل اس آیت کے ضمن میں آئے گی ( انشاء اللہ ) ۔

۲۔مفردات راغب ، تفسیر المنا ر( جلد ۱ ص ۳۰۸ اور تفسیر ابو الفتوح رازی کی جلد ۷ ص ۷ کی طرف رجوع کریں ۔

۳۔ توجہ رہے کہ تھوڑے سے فرق کے ساتھ اس آیت کی نظیر سورہ بقرہ کی آیت ۴۹ میں بھی ہے ۔

۴۔تاٴذن باب تفعل سے ہے اور تاکید سے اعلان کرنے کے معنی میں ہے کیونکہ اس سے افعال کا مادہ ” ایذان “ اعلان کے معنی میں ہے اور جب تفعل کے معنی میں آئے تو اس سے اضافہ اور تاکید کا استفادہ ہوتا ہے ۔