تفسیر نمونہ جلد ۱۰

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 30383
ڈاؤنلوڈ: 2949


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 93 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30383 / ڈاؤنلوڈ: 2949
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 10

مؤلف:
اردو

چند اہم نکات

۱ ۔ ایام اللہ کی یاد آوری

۱ ۔ ایام اللہ کی یاد آوری : جیسا کہ ہم نے مندر جہ بالا آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ ” اللہ “ کی طرف ” ایام “ کی اضافت انسانوں کی زندگی کے اہم اور تقدیر ساز دنوں کی طرف اشارہ ہے اور ان دنوں کی عظمت کی بناء پر انہیں خداکی طرف نسبت دی گئی ہے ۔ نیز اس بناء پر کہ اگر ایک عظیم نعمت الہٰی کسی لائق قوم کے شامل حال ہو۔ یا عظیم عذابِ الٰہی کسی سر کش و طغیان گر قوم کو دمن گیر ہو تو دونوں صورتوں میں تذکرہ کرو یا د وآوری کے لائق ہے ۔

آئمہ معصومین علیہم السلام سے منقوم روایات میں ”ایام اللہ “ کی تفسیر مختلف دنوں سے کی گئی ہے ۔

ایک حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ(علیه السلام) نے فرمایا:

( ایام الله ، یوم یقوم القائم ( علیه السلام ) و یوم الکرّة و یوم القیامة )

ایام اللہ مہدی موعود (علیه السلام)کے قیامکا دن ، رو ز رجعت او رقیامت ہیں ۔(۱)

تفسیر علی بن ابراہیم میں ہے :

ایام الله “ تین دن ہیں قیام مہدی (علیه السلام) کا دن ، موت کا دن اور قیامت کا دن ۔(۲)

ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرم سے منقول ہے :ایام الله نعمائه وبلائه و ببلائه سبحانه

ایام اللہ اس کی نعمتوں اور اس کی طرف مصائب کے ذریعے آز مائشوں کے دن ہیں ۔(۳)

جیسا کہ ہم نے با رہا کہا ہے کہ اس قسم کی احادیث کبھی بھی اس با ت کی دلیل نہیں ہیں کہ مفہوم انہی میں منحصر ہے بلکہ ان میں بعض مصادیق کے بعض حصوں کا بیان ہے ۔

بہر حال عظیم دنوں کی یاد آوری ( چاہے وہ کامیابی کے دن ہو یا سختی کے ) ملتوں کی بیداری اور ہوشیاری میں بہت مؤثر ہوتی ہے ۔ اسی آسمانی پیام سے ہدایت لیتے ہوئے ہم تاریخ اسلام کے عظیم دنوں کی یاد زندہ و جاوداں رکھتے ہیں اور ان یادوں کو تازہ کرنے کے لئے ہر سال ہم نے کچھ دنوں کو مخصوص کیا ہوا ہے ، ان دنوں میں ہم اپنے ماضی کی طرف لوٹ جاتے ہیں اور اس سے ہم درس لیتے ہیں ، ایسے درس کہ جو ہمارے آج کے لئے بہت زیا دہ مؤثر ہیں ۔

نیز ہماری موجودہ تاریخ خصوصاً انقلاب ِ اسلامی ایرا ن کی پر شکوہ تاریخ میں بہت دن ایسے ہیں جو” ایام اللہ “ کے مصادیق ہیں ۔ ہر سال ہمیں ان کی یاد زندہ رکھنا چاہئیے ایسی یاد کہ جس میں شہیدوں ، غازیوں ، مجاہدوں اور عظیم دلاوروں کی یاد ررچی بسی ہو اور پھر ان سے ہدایت لینا چاہیئے ۔

لہٰذا ان عظیم دنوں کا ذکر ہمارے مدارس کی درسی کتب میں ہونا چاہئیے اور ان کی یاد ہماری اولاد کی تعلیم و تربیت کاحصہ ہونا چاہئے اور ہمیں آئندہ نسلوں کے بارے میں ” ذکرھم “ (انہیں یاد دلاؤ) کی ذمہ داری پوری کرنا چاہئیے ۔

قرآن مجید میں بھی بار ہا ” ایام اللہ “ کی یاد دہانی کر وائی گئی ہے ۔ بنی اسرائیل کے بارے میں بھی او رمسلمانوں کے بارے میں بھی نعمتوں اور سختیوں کے دنوں کو یاد رکھا گیا ہے ۔

۲ ۔ جابروں کے طور طریقے

ہم نے بار ہا قرآنی آیات میں پڑھا ہے کہ فرعونی بنی اسرائیل کے لڑکوں کو ذبح کردیتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ رکھتے تھے ۔ یہ کام صرف فرعون اور فرعونی نہیں کرتے تھے بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ ہر استعمار گر کا یہی شیوہ اور طریقہ تھا کہ وہ فعال جنگجو اور پر عز م قوتوں کا ایک حصہ نابود کردیتے اور دوسرے کو کمزور کرکے اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتے کیونکہ اس کے بغیر وہ اپنے استعماری اور استثماری کام کاری نہیں رکھ سکتے تھے ۔

لیکن اہم با ت یہ کہ سمجھیں کہ ایسی قوتیں کبھی تو فرعونیوں کی طرح لڑکوں کو نابود ہی کردیتی ہیں او رکبھی منشیات ، شراب اور بدکاری جیسی بری عادتوں میں غرق کرکے فعال قوتوں کو ناکارہ بنادیتی ہیں اور انہیں زندہ نما مردہ بنادیتی ہیں ۔یہی وہ چیز ہے کہ جس پر مسلمانوں کو گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ان کی نسل ِ نو ایسے کاموں پر پڑگئی اور اپنی ایمانی جسمانی قوت گنوابیٹھی تو پھر انہی جان لینا چاہئیے کہ ان کے لئے غلامی یقینی ہے ۔

۳ ۔ سب سے بڑی نعمت آزادی ہے :

یہ امر جاذب نظر ہے کہ مندرجہ بالا آیات میں ” ایام اللہ “ کے ذکر کے بعد صرف ایک دن کا ذکر کیا گیا ہے ۔ وہ دن کہ جو فرعونیوں کے چنگل سے بنی سرائیل کی نجات کا دن ہے (اذانجٰکم من اهل فرعون )حالانکہ بنی اسرائیل کی تاریخ میں اور بھی بہت سے عظیم دن تھے کہ جن میں حضرت موسیٰ (علیه السلام) کی ہدایت کے زیر سایہ اللہ تعالیٰ نے انہیں عظیم نعمتیں بخشی تھیں لیکن زیر بحث آیات میں ” یوم نجات“ کا ذکر قوموں کی سر نوشت میں آزادی اور استقلال کی انتہائی اہمیت کی دلیل ہے ۔

جی ہاں ! جب تک کوئی قوم وابستگی سے نجات حاصل نہ کرے ، غلامی اور استعمار کے چنگل سے آزاد ہو اس کی صلاحتیں استعداد اور کمال ظاہر نہیں ہوسکتا اور وہ اللہ کی راہ میں قدم نہیں رکھ سکتی وہ راہ کہ شرک ، ظلم اور بیدار کے خلاف قیام کا راستہ ہے ۔

اسی بناء پر عظیم الہٰی رہبرو ں کا پہلا کا یہی تھا کہ وہ قوموں کو فکری ، ثقافتی ، سیاسی او ر اقتصادی غلامی سے آزاد کروائیں اور اس کے بعدکوئی اور کام کریں اور توحید و انسانیت کے پروگراموں کو عملی شکل دیں ۔

۴ ۔ شکر نعمت اور کفران ِ نعمت کا نتیجہ

اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی عطا کردہ نعمتوں پر ہمارے تشکر کا محتاج نہیں اور اگر وہ شکر گزاری کا حکم دیتا ہے تو وہ بھی ہم پر ایک اور نعمت کا موجب ہے اور ایک اعلیٰ درجے کا تربیتی انداز ہے ۔

اہم بات یہ ہے کہ ہم دیکھیں کہ شکر کی حقیقت کیا ہے تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ اس کا نعمت کی زیادتی سے کیا تعلق ہے او رکس طرح وہ خود ایک عامل ِ تربیت ہو سکتا ہے ۔

شکر کا مطلب یہ نہیں کہ صرف زبانی شکر کیا جائے یا”الحمد للہ “ وغیرہ کہا جائے بلکہ شکر کے تین مراحل ہیں :

پہلا مرحلہ یہ ہے کہ سنجیدگی سے غور کیا جائے کہ نعمت عطا کرنے والا کون ہے ۔یہ توجہ ، ایمان اور آگاہی شکر کا پہلا ستون ہے ۔

دوسرا مرحلہ اس سے بھی بالاتر ہے اور وہ عمل کا مرحلہ ہے یعنی عملی شکر یہ ہے یعنی ہم پوری طرح سے غور کریں کہ ہر نعمت ہمیں کس مقصد کے لئے دی گئی ہے اور اسے ہم اس کے اپنے مقام پر صرف کریں اور اگر ایسا نہ کیا توپھر ہم نے کفر ان نعمت کیا ۔ جیسا کہ بزرگوں نے فرمایاہے :الشکر صرف العبد جمیع ما انعمه الله تعالیٰ فیماخلق لاجله

شکر یہ ہے کہ بندہ ہر نعمت کو ا س کے مصرف ہی میں صرف کرے ۔

واقعاً خدا نے ہمیں آنکھیں دی ہیں ، اس نے ہمیں دیکھنے اور سننے کی نعمت کیوں بخشی ہے ۔ کیا اس کے علاوہ کوئی مقصد تھا کہ ہم جہاں میں ا سکی عظمت کو دیکھیں ، راہ حیات کو پہچانیں اور ان وسائل کے ذریعے تکامل و ارتقاء کی طرف قدم بڑھائیں اور ، ادراک ، حق کریں ، حمایت ِ حق کریں ، اس کا د فاع کریں اور باطل کے خلاف جنگ کریں ۔ اگر خد اکی ان عظیم نعمتوں کو ہم نے ان کے راستے میں صر ف کیا تو ان کا عملی شکر ہے اور اگر یہ نعمتیں طغیان ، خود پرستی ، غرور، غفلت اور خدا سے دوری کا ذریعہ بن گئیں تو یہ عین کفران ہے ۔

امام صاد ق علیہ السلام فرماتے ہیں :

ادنی الشکر رؤیة النعمة من الله من غیر علة یتعلق القب بها دون الله ، و الرضا بما اعطاه ، وان لا تعصیه بنعمة و تخالفه بشیء من امره و نهیه بسبب من نعمته

کمترین شکریہ ہے کہ تو نعمت کو خدا کی طر ف سے سمجھے بغیر اس کے کہ تیرا اس نعمت میں مشغول رہے اور تو خد اکو بھول جائے اور ( شکر ) اس کی عطا پر راضی ہونا ہے او ر یہ کہ تو اس کی نعمت کو اس کی نافرمانی کا ذریعہ نہ بنائے اور اس کی نعمتوں سے استفادہ کرنے کے باوجود تو ا س کے اوامر و نواہی کو روندنہ ڈالے ۔۴

اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ طاقت ، علم ، قوتِ فکر و نظر ، معاشرتی حیثیت ، مال و ثروت اور تند رستی و سلامتی میں سے ہ رایک کے شکرکا راستہ کیا ہے اور کفران کی راہ کونسی ہے ۔

تفسیر نور الثقلین میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ایک حدیث بھی اس تفسیر کے لئے ایک واضح دلیل ہے ۔ آپ (علیه السلام) نے فرمایا :شکر نعمة اجتناب المحارم

شکرانِ نعمت گناہوں سے بچنے کا نام ہے ۔(۵)

یہیں سے شکر اور نعمت میں اضافے کے درمیان تعلق واضح ہو جاتا ہے کیونکہ جب بھی انسانوں نے نعمت الٰہی کو بالکل مقاصد ِنعمت کے تحت صرف کیاتو انہوں نے عملی طور پر ثابت کردیا کہ وہ اہل ہیں اور یہ اہل بیت سے زیادہ سے زیادہ فیض اور فزون تر نعمت کا سبب بنی ۔

اصولی طور پر شکر دو طرح کا ہے :

۱ ۔ شکر تکوینی اور

۲ ۔ شکر ِ تشریعی

شکر تکوینی یہ ہے کہ ایک موجود خود کو حاصل نعمات کو اپنے رشد و نمو کے لئے استعمال کرے ۔ مثلاً باغیاں دیکھتا ہے کہ باغ کے فلاں حصے میں درخت خوب پھل پھول رہے ہیں اور ان کی جتنی زیادہ خدمت کی جائے اتنے ہی زیادہ شگوفے پھوٹتے ہیں ۔ یہی امر سبب بنتا ہے کہ باغبان باغ کے درختوں کے اس حصے کی خدمت پر زیادہ تو جہ دیتا ہے اور اپنے کارکنوں کو ان کی نگہبانی کی نصیحت کرتا ہے کیونکہ درکت زبانِ حال سے پکار رہے ہوتے ہیں کہ اے باغبان ! ہم اس بات کے اہل ہیں کہ تو اپنی نعمت و احسان ہم پر زیادہ کرے ۔

وہ بھی اس پکار کا مثبت جوا دیتا ہے ۔

بسوزند چوب درختان بی بر سزا خود ہمین است مر،بی بری را

بے ثمر درختوں کی لکڑیاں جلیں کیونکہ بے ثمری کی ہی سزا ہے ۔

جہانِ شکر کی بھی یہی حالت ہے ۔فرق یہ ہے کہ درخت میں خود اختیاری نہیں ہے اور وہ فقط تکوینی قوانین کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہیں لیکن انسان اپنے ارادہ و اختیار کی طاقت سے اور تشریعی تعلیم و تربیت سے استفادہ کرتے ہوئے اس راہ پر استفادہ کرتے ہوئے اس راہ پر آگاہی سے قدم رکھ سکتے ہیں ۔

لہٰذا وہ شخص کہ جو طاقت کی نعمت کو ظلم و سر کشی کا وسیلہ بنایا ہے گویا زبان حال سے پکاررہا ہوتا ہے کہ خدا وند ! میں اس نعمت کے لائق نہیں اور جو شخص اپنی صلاحیت کو حق و عدالت کی راہ میں کام میں لاتا ہے وہ گویا زبانِ حال سے کہہ رہا ہوتا ہے کہ پر وردگار ا: میں اس لائق ہوں ، لہٰذا اضافہ فرما ۔

یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ جس وقت ہم شکر الہٰی بجالاتے ہیں ، چاہے وہ فکر و نظر سے ہو ، چاہے زبان سے اور چاہے عمل سے ، شکر کی یہ توانائی خود ہر مرحلے میں ایک نئی نعمت ہے اور اس طرح سے شکر کرنا ہمیں اس کی نئی نعمتوں کا مر ہون منت قرار دیتا ہے اور یوں یہ ہر گز ہمارے بس میں نہیں کہ ا س کے شکر کا حق ادا کر سکیں ۔ جیسا کہ امام سجاد علیہ السلام کی پندر مناجاتوں میں سے مناجات ِ شاکرین میں ہے :

کیف لی بتحصیل الشکر و شکرکی ایاک یفتقر الیٰ شکر ، فکلمات قلت لک الحمد و جب علی لذلک ان اقول لک الحمد

میں تیرے شکر کا حق کیسے اداکرسکتا ہوں کہ جب یہ شکر ایک اور شکر کا محتاج ہے اور جبمیں ” لک الحمد“ کہتا ہوں تو مجھ پر لازم ہے کہ اس شکر گزاری کی توفیق پر کہوں :”لک الحمد

لہٰذا انسان کے لئے مرحلہ شکر کا افضل ترین مقام یہ ہوسکتا ہے کہ اس کی نعمتوں پر شکر سے عاجزی کا اظہار کرے جیسا کہ ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ (علیه السلام) نے فرمایا:

فیمااوحی الله عز وجل الیٰ موسیٰ اشکر نی حق شکر ی فقال یا رب و کیف اشکرک حق شکرک و لیس من شکر اشکرک به الا و انت انعمت به علی قال یاموسی الان شکر تنی حین علمت ان ذٰلک منی ۔

خدا نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ میرا حق شکر ادا کرو تو انہوں نے عرض کیا : پر وردگارا میں تیرا حق ِ شکر کس طرح ادا کروں جب کہ میں جب بھی تیرا شکر بجا لاتا ہوں تو یہ توفیق بھی خود میرے لئے ایک نعمت ہوگی ۔

اللہ نے فرمایا : اب تونے میرا حق شکر ادا کیا جب کہ تونے جانا کہ حتی یہ توفیق بھی میری طرف سے ہے ۔(۶)

بندہ ہمان نہ کہ زتقصیر خویش عذر بہ درگاہ خدا آورد

ورنہ سزا وار خد اوند یش کس نتواندکہ بجا آورد

اچھا بندہ وہی ہے کہ جو اپنی کوتاہیو ں کا عذر بار گاہ الٰہی میں پیش کردے ورنہ اس کی خداندی کاحق کوئی بجا نہیں لاسکتا ہے ۔

____________________

۱۔ تفسیر نو ر الثقلین جلد ۲ ص ۵۲۶۔

۲۔ تفسیر نو ر الثقلین جلد ۲ ص ۵۲۶۔

۳۔۔ تفسیر نو ر الثقلین جلد ۲ ص ۵۲۶۔

۴۔سفینة البحار جلد ۱ ص ۷۱۰۔

۵۔نور الثقلین جلد ۲ ص ۵۲۹۔

۶۔ اصول کافی جلد ۴ ص ۸۰ ( باب الشکر ) ۔

شکر نعمت کے بارے میں چند اہم نکات

۱ ۔ حضرت علی (علیه السلام) نہج البلاغہ میں اپنے حکمت آمیز کلمات میں فرماتے ہیں :

اذا وصلت الیکم اطراف النعم فلا تنفروا و اقصاها بقبلة الشکر

جس وقت نعمات ِ الہٰی کا پہلا حصہ تم تک پہنچ جائے تو کوشش کرو کہ شکر کے ذریعے باقی حصے کو بھی اپنی طرف جذب کرو نہ یہ کہ شکر گزاری مین کمی کرکے اسے اپنے آپ سے دور بھگا دو۔(۱)

۲ ۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے نعمتوں پر صرف خدا کی سپاس گزاری اور تشکر کافی نہیں بلکہ ان لوگون کو بھی شکر یہ ادا کرنا چاہئیے کہ جو اس نعمت کا ذریعہ بنے ہیں اور ان کی زحمات و مشقات کا حق بھی اس طریقے سے ادا کرنا چاہئیے اور اس طرح انہیں اس راہ میں خدمات کی تشویق دلانا چاہئیے ۔ ایک حدیث میں امام علی بن الحسین علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ (علیه السلام) نے فرمایا :

جب روز قیامت ہوگا تو اپنے بعض بندوں سے فرمائے گا: کیا تمنے فلاں شخص کا شکریہ ادا کیا ہے ۔

تو وہ عرض کرے گا : پرور دگارا : میں نے تیرا شکریہ اداکیا ہے ۔

اللہ فرمائے گا : چونکہ تو اس کا شکربجا نہیں لایا تو گویا تونے شکربھی ادا نہیں کیا ۔

پھر امام (علیه السلام) نے فرمایا:اشکر کم الله اشکر کم للناس

تم میں سے خدا کا زیادہ شکر کرنے والے وہ ہیں جو لوگوں کا زیادہ شکریہ ادا کرتے ہیں ۔(۱)

۳ ۔ خدا کی نعمتوں کی افزائش کہ جس کا شکرگزار وں سے وعدہ کیا گیا ہے صرف اس لئے نہیں ہے کہ انہیں نئی نئی مادی نعمتیں بخشی جائیں بلکہ خود شکر گزاری کہ جو خدا کی طرف خاص توجہ اور ا س کی ساحت ِ مقدس سے نئے عشق کے ساتھ ہو ایک عظیم روحانی نعمت ہے کہ جو انسانی نفوس کی تربیت اور انہیں فرامین الہٰی کی اطاعت کی طرف رغبت دلانے کے لئے بہت مؤثر ہے ۔ بلکہ شکر ذاتی طور پر زیادہ سے زیادہ معرفت الہٰی کا ذریعہ ہے ۔ اسی بناے پر علماء عقائد علم کلام میں ”وجوب معرفت الٰہی “ کو ثابت کرنے کے لئے ” وجوب شکر ِ منعم “ کی دلیل پیش کرتے ہیں ۔

۴ ۔ معاشرے میں تحریک پید اکرنے اور پیش رفت کے لئے روح شکر گزاری کاحیاء بہت اہم کردار کرتا ہے ۔ وہ لوگ کہ جنہوں نے اپنے علم و دانش سے یا فدا کاری اور شہادت سے یا کسی دوسرے طریقے سے اجتماعی اہداف کی پیش رفت کے لئے خدمت کی ، ان کی قدر دانی اور ان کا تشکر معاشرے کو آگے بڑھانے کا بہت اہل عامل ہے ۔

جس معاشرے میں تشکر اور قدر دانی کی روح مردہ ہو اس میں خدمت کے لئے لگاؤ اور گرم جوشی بہت کم ہوتی ہے ۔ اس کے بر عکس جس معاشرے میں لوگوں کی زحمتوں اور خدمتوں کی زیادہ قدر دانی کی جاتی ہو وہاں نشاط و مسرت زیادہ محسوس کی جاسکتی ہے اور ایسی قومیں زیادہ ترقی کرتی ہیں ۔

اسی حقیقت کی طرف توجہ کے سبب ہمارے ہاں گزشتہ بزرگوں کی زحمتوں کی قدر دانی کے اظہا ر کے لئے ان کے سوسالہ ، ہزار سالہ روز ولادت وغیرہ کے موقع پر اور دیگر مناسب مواقع پر پر گرام منعقد کئے جاتے ہیں اور ان کی خدمات کے تشکر اور سپاس گزاری سے لوگوں میں زیادہ سے زیادہ حرکت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔

مثلاً ہمارے ملک میں بر پا ہونے والے اسلامی انقلاب کو جو اڑھائی ہزارسالہ تاریک دور کا اختتام ہے او رایک دورِ نو کا آغاز ہے میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر سال او رہر ماہ بلکہ ہر روز شہدائے انقلاب کی یاد تازہ کی جاتی ہے ، انہیں ہدیہ عقیدت وسلام پیش کیا جاتا ہے ۔

ان تمام لوگوں کا احترام کیا جاتا ہے جو ان کی طرف منسوب ہے اور ان کی خدمات کو سرہاجاتا ہے تو یہ امر سبب بنتا ہے کہ دوسروں میں فدا کاری اور قربانی کا عشق پیدا ہو او رلوگوں میں فدا کاری کا سطح بلند تر ہو اور قرآن کی تعبیر کے مطابق اس نعمت کا تشکر اس میں اضافے کا باعث ہو او ر ایک شہید کے خون سے ہزاروں شہداء پیدا ہو اور ”لازیدنکم “ زندہ مصداق بن جائیں ۔

____________________

۱۔ نہج البلاغہ کلمات قصار شمارہ ۱۳۔

۲۔ اصول کافی جلد ۲ صفحہ ۸۱ حدیث ۳۰۔

آیات ۸،۹،۱۰

۸ ۔( وَقَالَ مُوسَی إِنْ تَکْفُرُوا اٴَنْتُمْ وَمَنْ فِی الْاٴَرْضِ جَمِیعًا فَإِنَّ اللهَ لَغَنِیٌّ حَمِیدٌ ) ۔

۹ ۔( اٴَلَمْ یَأتکُمْ نَبَاٴُ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَالَّذِینَ مِنْ بَعْدِهمْ لاَیَعْلَمُهُمْ إِلاَّ اللهُ جَائَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنَاتِ فَرَدُّوا اٴَیْدِیَهُمْ فِی اٴَفْوَاهِهِمْ وَقَالُوا إِنَّا کَفَرْنَا بِمَا اٴُرْسِلْتُمْ بِهِ وَإِنَّا لَفِی شَکٍّ مِمَّا تَدْعُونَنَا إِلَیْهِ مُرِیبٍ ) ۔

۱۰ ۔( قَالَتْ رُسُلُهُمْ اٴَفِی اللهِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ یَدْعُوکُمْ لِیَغْفِرَ لَکُمْ مِنْ ذُنُوبِکُمْ وَیُؤَخِّرَکُمْ إِلَی اٴَجَلٍ مُسَمًّی قَالُوا إِنْ اٴَنْتُمْ إِلاَّ بَشَرٌ مِثْلُنَا تُرِیدُونَ اٴَنْ تَصُدُّونَا عَمَّا کَانَ یَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأتونَا بِسُلْطَانٍ مُبِینٍ ) ۔

ترجمہ

۸ ۔ موسیٰ نے ( بنی اسرائیل سے ) کہا : اگر تم اور روئے زمین کے تمام لوگ کافر ہو جائیں تو ( خدا کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ ) خدا بے نیاز اور لائق ستائش ہے ۔

۹ ۔ کیا تمہیں ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی کہ جو تم سے پہلے تھے ۔ قوم نوح،عاد، ثمود ، اور وہ جو ان کے بعد تھے وہی کہ جن سے خدا کے علاوہ کوئی آگاہ نہیں ہے ۔ ان کے پیغمبر ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے لیکن انہوں نے ( تعجب اور استہزاء سے ) اپنے منہ پر ہاتھ رکھا کہ ہم اس چیز کے کافر ہیں جس کے لئے تم مامور ہو اور جس کی طرف تم بلاتے ہو اس کے بارے میں ہمیں شک ہے ۔

۱۰ ۔ ان کے رسولوں نے کہا: کیا اللہ کے بارے میں شک ہے ؟ وہ اللہ کہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ، وہ کہ جو تمہیں دعوت دیتا ہے تاکہ تمہارے گناہ بخش دے اور تمہیں مقرر و وعدہ گاہ تک باقی رکھے ۔ انہوں نے کہا: ( ہم یہ باتیں نہیں سمجھتے ہم تو اتنی بات جانتے ہیں کہ ) تم تو ہمارے جیسے انسان ہو اور تم چاہتے ہو کہ ہمارے آباء و اجداد جن کی پوجا کرتے تھے اس سے باز رکھو تم ہمارے لئے کوئی واضح دلیل لاؤ۔

تفسیر

کیا خدا کے بارے میں شک ہے ؟

زیر نظر پہلی آیت شکر گزاری او رکفران نعمت کی بحث کی تائید و تکمیل ہے او ریہ آیت حضرت موسیٰ بن عمران کی زبانی گفتگو کے ضن میں نقل ہوئی ۔ فرمایا گیا ہے : موسیٰ نے بنی اسرائیل کو یاد دہانی کر وائی کہ اگر تم روئے زمین کے تمام لوگ کافر ہ وجائیں ( اور خدا کی نعمت کاکفران کریں )تو اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے کیونکہ وہ بے نیاز اور لائق ستائش ہے ۔( وَقَالَ مُوسَی إِنْ تَکْفُرُوا اٴَنْتُمْ وَمَنْ فِی الْاٴَرْضِ جَمِیعًا فَإِنَّ اللهَ لَغَنِیٌّ حَمِیدٌ ) ۔(۱)

در حقیقت شکر نعمت اور خدا پر ایمان تمہارے لئے نعمت میں اضافے ، تمہارے تکامل و ارتقاء اور تمہاری عزت و افتخار کا سبب ہے ۔ ورنہ خدا تو ایسا بے نیاز ہے کہ اگر پوری کائنات کافر ہو جائے تو ا س کے دامن ِ کبریا ئی پر کوئی گر دنہیں پڑسکتی کیونکہ وہ سب بے نیاز ہے ۔ یہاں تک کہ وہ تشکر و ستائش کا محتاج بھی نہیں کیونکہ وہ ذاتی طور پر لائق حمد ہے ( حمید) ۔

اگر اس کی ذات پاک میں نیاز و احتیاج ہوتی تو وہ واجب الوجوب نہ ہوتا ۔ لہٰذا اس کے غنی ہونے کا مدہوم یہ ہے کہ تمام کمالات اس میں جمع ہیں جو ایساہے وہ ذاتی طور پر تعریف کے لائق ہے کیونکہ ” حمید“ کامعنی اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ لائق حمد ہے ۔

اس کے بعد چند آیات میں بعض گزشتہ اقوام کا انجام بیان کیا گیاہے ۔ وہی اقوام کہ جنہوں نے نعماتِ الٰہی پر کفران ِ نعمت کا راستہ اختیار کیا او رہادیان ِ الہٰی کی دعوت پر ان کی مخالفت کی اور کفر کی راہ اپنائی ۔ ان آیات میں ان کی منطق اور ان کے انجام کی تشریح کی گئی ہے تاکہ گزشتہ آیت کے مضمون پر تاکید ہو جائے ارشاد ہوتا ہے : کیا تم تک ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی ہے کہ جو تم سے پہلے تھے( اٴَلَمْ یَأتکُمْ نَبَاٴُ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُم ) ۔

ہو سکتا ہے کہ جملہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی گفتگو کا آخری حصہ ہو او ریہ بھی ممکن ہے کہ قرآن کی طرف سے مسلمانوں کو خطاب کی صورت میں ایک مستقل بیان ہو ۔ بہر حال نتیجے کے لحاظ سے دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں ۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے : قوم نوح ، عاد اور ثمود جیسی قومیں او روہ کہ جو ان کے بعد تھیں( قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَالَّذِینَ مِنْ بَعْدِهم ) ۔

وہی کہ جنہیں خد اکے علاوہ کوئی نہیں پہچانتا اور اس کے علاوہ کوئی ان کے حالات سے آگاہ نہیں ہے( لاَیَعْلَمُهُمْ إِلاَّ الله ) ۔(۲)

اس کے بعد کی سر گزشت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایاگیا ہے :ان کے پیغمبر واضح دلائل کے ساتھ ان کی طرف آئے لیکن انہوں نے تعجب و انکار کی بناء پر اپنے منہ ہاتھ رکھ کر کہا کہ جن چیزوں کے لئے تم بھیجے گئے ہو ہم ان سے کفر کرتے ہیں( جَائَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنَاتِ فَرَدُّوا اٴَیْدِیَهُمْ فِی اٴَفْوَاهِهِمْ وَقَالُوا إِنَّا کَفَرْنَا بِمَا اٴُرْسِلْتُمْ بِهِ ) ۔کیونکہ ” ہم ہر اس چیز کے بارے میں شک رکھتے ہیں کہ جس کی طرف تمہیں دعوت دیتے ہو “ اور اس شک کے ہوتے ہوئے کس طرح ممکن ہے کہ ہم تمہاری دعوت قبول کرلیں( وَإِنَّا لَفِی شَکٍّ مِمَّا تَدْعُونَنَا إِلَیْهِ مُرِیبٍ ) ۔

یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے کہ انہوں نے پہلے انبیاء کے بارے میں کفر اور بے ایمانی کااظہار کیا لیکن اس کے بعد انہوں نے کہا ہمیں شک ہے او رلفظ ” مریب “ کے ساتھ اپنی بات مکمل کی ، یہ دونوں چیزیں آپس میں کیا مناسبت رکھتی ہیں ؟۔

اس کا جواب یہ ہے کہ تردد و شک کا اظہار د رحقیقت عد م ایمان کی علت ہے کیونکہ ایمان کے لئے یقین کی ضرورت ہے اور شک اس میں رکاوٹ ہے ۔

گزشتہ آیت میں چونکہ مشرکین اور کفار نے شک کو بنیاد قرار دیتے ہوئے عدم ایمان کا اظہار کیا لہٰذا بعد والی آیت میں بلا فاصلہ مختصر سی عبارت میں واضح دلیل پیش کرکے ان کے شک کی نفی کی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : ان کے پیغمبروں نے ان سے کہا کہ کیا اس خدا کے وجود میں شک کرتے ہوکہ جو آسمانوں اور زمین کاپیدا کرنے والا ہے( قَالَتْ رُسُلُهُمْ اٴَفِی اللهِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ ) ۔

”فاطر“ در اصل شگاف کرنے والے کے معنی میں ہے لیکن یہاں پیدا کرنے والے کے لئے کنایہ کے طور پر استعمال ہوا ہے کہ جو ایک حساب شدہ پرگرام کے تحت کسی چیز کو پید اکرتا ہے اور پھر اس کی حفاظت کرتا ے کیونکہ اس کے وجود کی بر کت اور نور ہستی سے ظلمت ِ عدم چھٹ جاتی ہے اور شگافتہ ہو جاتی ہے جیسے سپیدہ سحر ظلمت ِ شب کا پر دہ چاک کردیتا ہے اور جیسے کھجور کا خوشہ اپنے غلاف کو شگافتہ کردیتا ہے اسی لئے عرب اسے ”فطر“ ( بر وزِ ”شتر“) کہتے ہیں ۔

یہ احتمال بھی ہے کہ ”فاطر“ جہان کے ابتدائی مادہ کے ٹکڑے میں شگاف کرنے کی طرف اشارہ ہو جیسا کہ جدید سائنس کہتی ہے کہ مادہ عالم مجموعی طو رپر باہم پیو ستہ چیز تی کہ جو بعد میں شگافتہ ہو کر مختلف کرّوں کی شکل میں ظاہر ہوئی ۔

بہر حال قرآن دیگر اکثر مواقع کی طرح خدا کے وجود اور صفات کو ثابت کرنے کے لئے یہاں نظام ِ عالمِ ہستی اور آسمانوں اور زمین کی خلقت کا ذکر کرتا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ خدا شناسی کے مسئلے میں ا س سے زیادہ زندہ اور زیادہ روشن کوئی دلیل نہیں ۔ کیونکہ اس عجیب و غریب نظام کا ہر گوشہ اسرار سے معمور ہے کہ جو زبان ِ حال سے پکا پکار کر کہتا ہے کہ سوائے ایک قادرِ حکیم اور عالم ِ مطلق کے کوئی بھی ایسی قدرت پیش نہیں کرسکتا ۔ اسی بناء پر جس قدر انسانی علم ترقی کررہا ہے اتنے ہی اس نظام کے دلائل آشکار ہورہے ہیں اور یہ امر ہمیش ہر لمحہ خدا سے نزدیک کرتا ہے ۔

واقعاً قرآن کسی قدر عجائب و غرائب کا حامل ہے کہ جس خدا شناسی اور توحید کی بحث کو اسی ایک جملے میں استفہام ِ انکاری کی صورت میں ذکر کیاہے ۔”( افی الله شک فاطر السٰموٰت و الارض )

وہ جملہ کہ جس کے لئے تجزیہ و تحلی لاور وسیع بحث کے لئے ہزار ہا کتابیں بھی کافی نہیں ہیں ۔

اس کے بعدمنکرین کے لئے دوسرے اعتراض کا جواب دیا گیا ہے ۔ یہ اعتراض پیغمبرانِ الہٰی کی رسالت کے بارے میں ہے ( کیونکہ انہیں توحید کے بارے میں بھی شک تھا او ردعوت ِ پیغمبر کے بارے میں بھی ) ۔

یہ مسلم ہے کہ دانا و حکیم پر وردگار ا پنے بندوں کو ہر گز رہبر کے بغیر نہیں رہنے دیتا بلکہ ” وہ انبیاء بھیج کر تمہیں دعوت دیتا ہے تاکہ تہیں گناہوں اور آلوگیوں سے پاک کرے اور تمہارے گناہ بخش دے “( یَدْعُوکُمْ لِیَغْفِرَ لَکُمْ مِنْ ذُنُوبِکُمْ ) ۔(۳)

اور اس کے علاوہ ”تمہیں معین زمانے تک باقی رکھے “ تاکہ تم اپنے کمال اور ارتقاء کی راہ طے کرسکو اور اس زندگی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکو( وَیُؤَخِّرَکُمْ إِلَی اٴَجَلٍ مُسَمًّی ) ۔

در حقیقت دعوت انبیاء کے دو اہداف تھے ۔ ایک گناہوں کی بخشش یعنی انسا ن کے جسم و روح اور زندگی کی پاکیز گی اور دوسرا مقررہ مدت تک زندگی کہی بقا ۔ اور یہ دونوں در اصل ایک دوسرے کی علت و معلوم ہیں کیونکہ وہی معاشرہ باقی رہ سکتا ہے جو گناہ و ظلم سے پاک ہو۔

تاریخ میں بہت سے ایسے معاشرے تھے جو ظلم و ستم ، ہوس بازی اور طرح طرح کے گناہوں کی بناء پر” جواں مرگ“ کا شکار ہو گئے اور قرآن اصطلاح میں وہ ”اجل مسمی“ تک نہ پہنچ سکے ۔

امام صادق علیہ السلام سے اس سلسلے میں ایک جامع اور جاذب ِ نظر حدیث منقول ہے ۔ آپ (علیه السلام) نے فرمایا:( من یموت بالذنوب اکثر مما یموت بالاجال، ومن یعیش بالاحسان اکثر ممن یعیش بالاعمال )

جو لوگ گناہوں کی وجہ سے مر جاتے ہیں ان کی تعداد طبعی موت مرنے والوں سے زیادہ ہوتی ہے اور وجو نیکی کے باعث زندہ رہتے ہیں ( اور طویل عمر پاتے ہیں ) ان کی تعداد عام عمر کے ساتھ زندہ رہنے والوں سے زیادہ ہوتی ہے ۔(۴)

امام صا دق علیہ السلام ہی سے منقول ہے :

ان الرجل یذنب الذنب فیحرم صلٰوة اللیل و ان العمل السیء اسرع فی صاحبه من السکین فی اللحم ۔

بعض اوقات انسان گناہ کرتا ہے اور نیک اعمال سے مثلاً نما زتہجد سے محروم ہو جاتا ہے ۔ ( جان لو کہ ) براکام انسان کی تباہی و بر بادی میں گوشت کے لئے چھری سے زیادہ تیز ہوتا ہے ۔(۵)

ضمناًاس آیت میں اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ دعوت ِ انبیاء پر ایمان لانا اور ان کے پروگراموں پر عمل کر نا”اجل معلق “ کو روکتا ہے اور حیات ِ انسانی کو ”اجل مسمی “تک جاری و ساری رکھتا ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ انسان کی ایک دو طرح کی ہوتی ہے ۔ ایک تو یہ ہے کہ انسان اپنے بد ن کی توانائی کے مطابق اختتام ِ عمر تک پہنچے اور دوسری ’ ’اجل معلق “ ہے مختلف عوامل یا ر کاوٹوں کی وجہ سے انسانی عمر کا راستے ہی میں ختم ہو جا نااور ایسا عام طور پرخود اس کے بغیر سوچے سمجھے کئے گئے اعمال کی وجہ سے اور طرح طرح کے گناہو کے باعث ہوتا ہے ۔ اس کے بارے میں ہم سورہ انعام کی آیہ ۲ کے ذیل میں بحث کرچکے ہیں ۔

لیکن اس کے باوجود ہٹ دھرم کفار نے اس حیات بخش دعوت کو قبول نہ کی اکہ جس میں واضح طور پر منطبق ِ توحید موجود تھی ۔ اور اپنے انبیاء کو ایسا جواب دیا کہ جس سے ان کی ہٹ دھرمی اور حق کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنے کے آثار جھلکتے تھے ۔ کہنے لگے -: تم تو ہم جیسے بشر ہو ، اس کے علاوہ کچھ نہیں( قَالُوا إِنْ اٴَنْتُمْ إِلاَّ بَشَرٌ مِثْلُنَا ) ۔علاوہ ازین ”تم چاہتے ہو کہ ہمیں اس سے روکو کہ جس کی ہمارے آباء اجداد پوجا کرتے تھے( تُرِیدُونَ اٴَنْ تَصُدُّونَا عَمَّا کَانَ یَعْبُدُ آبَاؤُنَا ) ۔

بہر حال ان سب امور سے قطع نظر ” تم ہمارے لئے کوئی واضح دلیل لاؤ“( فَأتونَا بِسُلْطَانٍ مُبِینٍ ) ۔

لیکن ہم نے با رہا کہا ہے ( اور قرآن نے بھی صراحت کے ساتھ بیان کیاہے ) کہ انبیاء و رسل کا بشر ہونا نہ صرف ان کی نبوت میں مانع نہیں بلکہ ان کی نبوت کی تکمیل کرنے والا امر ہے اور جو لوگ اس امر کی وانبیاء کی نبوت کے انکار کی دلیل سمجھتے تھے ان کا مقصد زیاد ہ تر بہانہ سازی تھا ۔

اسی طرح اس حقیقت کو جاننے کے باوجود کہ عام طور پر آنے والی نسل کا علم گزشتگان سے زیادہ ہوتا ہے ان کا آباؤ اجداد کی راہ و رسم کا سہارا لینا ایک اندھے تعصب ، بے وقعت بے ہودگی اور خرافات کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا ۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ان کا یہ تقاضا کہ کوئی واضح دلیل پیش کریں ، اس بناء پر نہ تھا کہ انبیاء کے پاس کوئی واضح دلیل نہ تھی بلکہ ہم با رہا آیاتِ قرآنی میں پڑھتے ہیں کہ بہانہ جو لوگ واضح دلائل اور ”سلطان مبین“ کا انکار کرتے تھے اور ہر وقت نئی دلیل اور کسی نئے معجزے کی فرمائش کرتے رہتے تھے تاکہ اپنے لئے فرار کی راہ پیدا کرسکیں ۔ بہر حال آئندہ آیات میں ہم پڑھیں گے کہ انبیاء ان کا جواب کس طرح دیتے تھے ۔

____________________

۱۔واضح ہے کہ ”ان تکفروا “ جملہ شرطیہ ہے اور اس کی جزاےؤء محذوف ہے اور ”ان الله لغنی حمید “ اس پر دلالت کرتا ہے اور تقدیر میں اس طرح تھا :ان تکفروا لا تضروا لله شیئ

۲۔جملہ ”لایعلم الا الله “ ممکن ہے پہلے جملے پر معطوف ہو اور واؤ حذف ہو گئی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ پہلے جملے کے لئے جملہ وصفیہ کی شبیہ ہو۔

اس میں شک نہیں کہ قوم نوح، عاد، ثمود اور ان کے بعد آنے والی قوموں کے کچھ حالات ہم تک پہنچے ہیں لیکن مسلم ہے کہ بیشتر حصہ ہم تک نہیں پہنچا کہ جس سے صرف خدا ہی آگاہ ہے ۔ گزشتہ اقوام کی تاریخ میں اس قدر اسرار، خصوصیات اور جزئیات تھیں کہ شاید وہ کچھ کہ جو ہم تک پہنچا ہے ا س کے مقابلے میں جو نہیں پہنچا بہت ہی کم او رنا چیز ہے ۔

۳۔اس بارے میں کہ ”لیغفرلکم من ذنوبکم “ میں ”من “ کاکیا مفہوم ہے ، مفسرین میں اختلاف ہے ۔ بعض اسے تبعیض کے معنی میں لیتے ہیں یعنی ”تمہارے بعض گناہوں کو بخش دے گا “۔ لیکن اگر اس امر کی طرف توجہ کی جائے کہ ایمان لانا تمام گناہوں کی بخشش کا باعث ہے ، تو یہ احتمال بہت بعید معلو ہوتا ہے ۔ (”الاسلام یجب عما قبله “ اسلام ماقبل کے گناہ ساقط کردیتا ہے )بعض نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ ”من“ بدلیت کے معنی میں ہے ، اس کے مطابق اس جملے کامعنی یہ ہو گا : ”خدا تمہیں دعوت دیتا ہے کہ ایمان لانے کے بدلے تمہاے گناہ بخش دے “۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ یہاں ”من “ زائدہ ہے اور تاکید کے لئے آیا ہے یعنی ” خد اتمہیں ایمان کی طرف دعوت دیتا ہے تاکہ تمہارے تمام گناہ بخش دے ۔ یہ آخر ی تفسیر تمام تفاسیر سے زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے ۔

۴۔سفینة البحار جلد ۱ ص ۴۸۸ ۔

۵۔سفینة البحار جلد ۱ ص ۴۸۸ ۔