تفسیر نمونہ جلد ۱۰

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 30344
ڈاؤنلوڈ: 2949


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 93 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30344 / ڈاؤنلوڈ: 2949
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 10

مؤلف:
اردو

آیت۱۸

۱۸ ۔( مَثَلُ الَّذِینَ کَفَرُوا بِرَبِّهِمْ اٴَعْمَالُهُمْ کَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّیحُ فِی یَوْمٍ عَاصِفٍ لاَیَقْدِرُونَ مِمَّا کَسَبُوا عَلَی شَیْءٍ ذَلِکَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِیدُ ) ۔

ترجمہ

جنہوں نے اپنے پروردگار سے کفر کیا ان لوگوں کے اعمال خاکستر کی مانند ہیں کہ جنہیں ایک طوفانی دن میں نیز آندھی کا سامنا کرپڑے تو ان میں یہ طاقت نہیں کہ جو انہوں نے انجام دیا ہے اسے اپنے ہاتھ میں لیں اور یہ بہت دورکی گمراہی ہے ۔

تیز آندھی اور خاکستر

اس آیت میں بے ایمان افراد کے اعمال کے لئے بہت رسا او رنہایت عمدہ مثال بیان کی گئی ہے یہ آیت کفار کے انجام کے بارے میں گزشتہ آیات کی بحث کومکمل کرتی ہے ۔

ارشاد ہوتا ہے : جنہوں نے اپنے پر وردگار سے کفر کیا ان کے اعمال اس خاکستری مانند ہیں جسے ایک طوفانی روز تیز آندھی کا سامنا کرناپڑے( مَثَلُ الَّذِینَ کَفَرُوا بِرَبِّهِمْ اٴَعْمَالُهُمْ کَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّیحُ فِی یَوْمٍ عَاصِف ) ۔

جیسے کہ ایک طوفانی روزتیز آندھی کے سامنے راکھ اس طرح بکھر جاتی ہے کہ کوئی شخص اسے جمع نہیں کرسکتا اسی طرح منکرین ِ حق کے بس میں نہیں کہ جو اعمال وہ انجام دے چکے ہیں انہیں اپنے ہاتھ میں لے سکیں ۔ وہ سب تباہ و بر باد ہ وجائیں گے اور ان کے ہاتھ خالی رہ جائیں گے( لاَیَقْدِرُونَ مِمَّا کَسَبُوا عَلَی شَیْءٍ ) ۔اور یہ بہت دور کی گمراہی ہے( ذَلِکَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِیدُ ) ۔

چند اہم نکات

ان کے اعمال کو گرد و غبار کی مانند خاکستر سے تشبیہ کیوں دی گئی ہے

۱ ۔ بکھر جانے والی راکھ :

اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ان کے اعمال گردد غبار کی مانند کوئی مفید نہیں ہیں انہیں خاکستر سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ یعنی باقی ماندہ تھوڑی سی آگ ہے ۔ یہ امر نشاندہی کرتا ہے کہ ہوسکتا ہے ان کے اعمال کاظاہر ہو اور اندر سے کچھ نہ ہو۔

ایک چھوٹے سے برتن میں مٹی ہو تو ہو سکتا ہے اس میں ایک خوبصورت پھول آگے لیکن اگر بہت ساری خاکستر ہو تو وہ اس قدر فضول ہے کہ اس میں سے فضول قسم کی گھاس تک نہیں اُگتی ۔

۲ ۔ کافروں کے اعمال خاکستر کی مانند ہیں :

کفار کے اعمال کو خاکستر کے ذرات میں کوئی پیوند یا جوڑ نہیں ہوتا یہاں تک کہ پانی کی مدد سے بھی انہیں ایک دوسرے سے نہیں جوڑا جا سکتا اور اس کا ہر ذرہ دوسرے سے تیزی سے لگ ہوجاتا ہے ۔

گویا یہ ایک حقیقت کی طرف اشارہ ہے اور یہ کہ مومنین کے اعمال باہم متصل اور پیوستہ ہو تے ہیں ، ان کاہر عمل دوسرے کی تکمیل کرتا ہے اور توحید و وحدت کی روح نہ صرف مومنین کے درمیان موجود ہے بلکہ ایک صاحب ِ ایمان فرد کے اعمال کے درمیان بھی موجود ہے لیکن بے ایمان افرد کے کاموں میں ایسا کوئی بہاؤ اور اتصال نہیں ہوتا ۔

۳ ۔ ایک طوفانی دن اور آندھی :

تیز آندھی چلے تو راکھ بکھر جاتی ہے لیکن ”فی یوم عاصف “( ایک طوفانی دن ) کہہ کر مزید تاکید کی گئی ہے ۔ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ تھوڑی دیر کے لئے چلنے والی تیز ہوا راکھ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پر پھینک دے کہ جو زیادہ دور نہ ہو ۔ لیکن اگر دن طوفانی ہو صبح سے شام تک آندھیاں چلیں اور ہر طرف سے طوفان ہوتو ظاہر ہے اس قسم کی راکھ اس طرح سے منتشر ہوگی کہ اس کا ہر ذرہ کہیں بہت دور جا پڑے گا ۔ اس طرح سے کہ کسی کے بس میں نہ ہوگا کہ اسے جمع کرسکے ۔

۴ ۔ پتوں اور راکھ کے بکھر جانے میں فرق ہے :

اگر آندھی گھاس پھوس کے ڈھیر یا پتوں پر چلے اور انہیں مختلف جگہوں اور دور دراز کے مقامات پر بکھیر دے تو پھر بھی ایک اندازہ ہوسکتا ہے لیکن اگرراکھ کے چھوٹے چھوٹے ذرے بکھر جائیں تو وہ آنکھوں سے اس طرح محو ہو ں گے کہ گویا بالکل نابود ہو گئے ہیں ۔

۵ ۔ تیز آندھی کے اثرات :

نظام ِ آفرینش میں ہوا بلکہ تیز آندھی کے بہت سے اصلاحی آثار ہیں اس کے تخریبی آثار استثنائی پہلو رکھتے ہیں ۔ بہر حال اس کے مندر جہ ذیل آثار قابل ِ توجہ ہیں :

الف : ہوا آندھی مختلف نبا تات کے بیج مختلف جگہوں پر پھیلادیتی ہے اور ایک باغبان اور کسان کی طرح سارے کرہ ارض پر بیج بکھیر دیتی ہے ۔

ب: پودوں کی تلقیح کرتی ہے اور نر کے بیج نباتات کے مادہ حصوں پر چھڑکتی ہے ۔

ج: بادلوں کو سمندروں کی سطح سے ہانک کر خشک زمینوں کی طرف لے جاتی ہے ۔

د: بلند پہاڑوں کو آہستہ آہستہ رگڑ کر نرم اور بار آور کردیتی ہے ۔

ر: قبطی منطقوں کا موسم منطقہ استوا ء کی طرف اور خط ِ استواء کا موسم سرد علاقوں کی طرف منتقل کرتی ہے اور کرہ زمین میں حرارت کو اعتدال پر رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔

س: سمندر کے پانی میں موجیں پید اکرتی ہے اور اسے زیر و زبر کرتی ہے اس طرح اس میں ہوا پہنچتی ہے جب کہ سمندر کا پانی کھڑا اور جامد رہے تو متعفن ہو جائے ۔

اس طرح نباتا ت اور تمام زندہ موجودات ہواکے چلنے سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنی استعداد کے مطابق اس سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔

لیکن خاکستر کم وزن ، کھوکھلی اور سیاہ روہوتی ہے ۔ اس میں کوئی زندہ موجود نہیں رہ سکتا ، یہ سر سبز اور با ر آور نہیں ہوتی۔ اس کے ذرات ایکدوسرے سے بالکل جدا جدا ہو تے ہیں ۔ جب یہ خاکستر ہو اکا سامنا کرتی ہے تو فوراً ہی منتشر ہوجاتی ہے اور اس کا بے خاصیت ظاہر بھی نظروں سے محو ہو جاتا ہے ۔

۲ ۔ ان کے اعمال کیوں کھوکھلے ہیں ؟

یہ امر قابل غور ہے کہ بے ایمان افراد کے اعمال بے وقعت کیوں ہیں وہ اپنے اعمال سے کچھ حاصل کیوں نہیں کرپاتے ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ اگر توحیدی نگاہ سے دیکھاجائے اور اس کے معیاروں کے مطابق تحقیق کی جائے تو یہ امر بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ وہ چیز کہ جو عمل سے شکل پذیر ہوتی ہے وہ نیت ، ہدف اور طرز عمل ہے ۔ اگر پر وگرام ، ہدف اور مقصد صحیح ہوتو عمل بھی ایسا ہی ہوگا اور اگر کوئی اچھا عمل غلط مقصد اور بے وقعت ہدف کے لئے انجام دیا جائے تو وہ لا یعنی اور بے مفہوم ہوکر رہ جائے گا اور ا س کی حیثیت تیز آندھی کلے سامنے خاکستر کی سی ہو گی۔

غلط نہ ہو گا کہ اگر اس بحث کو ہم ایک زندہ مثال کے ذریعے واضح کریں ۔

اس وقت حقوق ِ انسانی کے نام پر مغربی دنیا میں اور بڑی طاقتوں کی طرف سے بعض کام کئے جاتے ہیں ۔انبیاء بھی حقوق ِ انسانی کے تحفظ کاپر گرام لے کر آئے تے لیکن دونوں کے ماحصل اور ثمرہ میں زمین اور آسمان کا فرق ہے ۔

جہاں خوار طاقتیں جب حقوق ِ انسانی کا دم بھر تی ہیں تو یقینا ان کا مقصد انسانی اور اخلاقی نہیں ہوتا ۔ ان کا مقصد اپنے جرائم اور استعماری طو رطریقوں پر پردہ ڈالنا ہوتا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ اگر ان کے کچھ جاسو س کہیں قابوآجائیں تو وہ حقوق انسانی کے نام پر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں لیکن جب انہی کے ہاتھوں لاکھوں دیت نامی خاک و خوں میں غلطیاں ہوں یا ہمارے اسلامی ممالک میں وہ اپنے جرائم اور قباحتوں میں مصروف ہوں تو حقوقِ انسانی کو فراموش کردیتے ہیں بلکہ انہوں نے تو حقوق ِ انسانی جھوٹے اور ظالم حکمرانوں سے تعاون کی نذر کررکھے ہیں ۔

لیکن ایک سچے پیغمبر یا علی (علیه السلام) جیسے وصی پیغمبر کے نزدیک حقوق انسانی انسانوں کی حقیقی آزادی کا نام ہے ۔ وہ انسانوں کی غالمی کے طوق اور زنجیر توڑنے کی جد جہد کرتے ہیں ۔ جب وہ کسی مظلوم انسان کو دیکھتے ہیں تو تڑپ اٹھتے ہیں اور اس کی نجات کے لئے کوشش کرتے ہیں ۔

گویا جہاں خوار طاقتوں کا عمل خاکسترکی ماندد ہے جسے تیز آندھی کا سامنا ہے اور انبیاء و اوصیاء کا عمل با بر کت زمین کی طرح ہے جس سے طرح طرح کی پاکیزہ نباتات پید اہوتی ہیں اور پھل پھول اُگتے ہیں ۔

یہیں سے مفسرین کی ایک بحث واضح ہو جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ زیر نظر آیت میں اعمال سے کون سے اعمال مراد ہیں ۔ کہنا چاہئیے کہ ان کے سارے اعمال ہیں حتی کہ ان کے وہ اعمال بھی جو ظاہراً اچھے لیکن باطناً شرک و بت پرستی کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے ۔

۳ ۔ مسئلہ احباط

۳ ۔ مسئلہ احباط : جیسے ہم سورہ بقرہ کی آیہ ۲۱۷ کے ذیل میں بیان کرچکے ہیں حبط ِ اعمال یعنی برے اعمال یاکفرو بے ایمانی کی وجہ سے اچھے اعمال ختم ہو جانے کا مسئلہ علماء اسلام کے درمیان اختلافی ہے لیکن حق یہ ہے کہ کہ بے ایما نی اور کفر پر اصرار اور ہٹ دھرمی نیز بعض اعمال مثلاً حسد ، غیبت اور قتل ِ نفس کی ایسی بری تاثیر ہے جو نیک اعمال اور حسنات کو بر باد کردیتی ہے ۔ زیر نظر آیت بھی حبط ِ اعمال کے امکان پر ایک اور دلیل ہے ۔( جلد ۲ تفسیر نمونہ صفحہ ۶۶ ( اردو ترجمہ )

۴ ۔ کیا ایجادات و انکشافات کرنے والوں کے لئے بھی جزا ء ہے ؟

مندرجہ بالا مباحث کی طرف توجہ کرتے ہوئے یہ اہم سوال سامنے آتا ہے اور وہ یہ کہ علوم اور ایجاداتو انکشافات کی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے سائنسدانوں نے طاقت فرسازحمتیں جھیلی ہیں اور بہ محرومیوں کو بر داشت کیا ہے تاکہ ایجاد اور انکشاف کرسکیں تاکہ اپنے ہم نوع لوگوں کے دوش سے بھاری بوجھ اتار سکیں مثلاً بجلی ایجاد کرنے والے اڈیسون نے اس قیمتی ایجاد کے لئے کیسی جانکاہ زحمتیں جھیلی ہیں ۔

اس ایجاد کی برکت سے سر سبز کھیتیوں کو ٹیوب ویل سے پانی ملا ہے ، درخت سر سبز ہوئے ہیں اور کھیت آباد ہوئے خلاصہ یہ کہ دنیا کاچہرہ ہی بدل گیا ہے ۔

اسی طرح پاسور ہے کہ جس نے جراثیم کو دریافت کرکے لاکھوں انسانوں کو موت کے خطرے سے نجات دلادی ہے ۔

کیسے یقین کیا جا سکتا ہے کہ ایسے سب افراد اس فرض کی بناء پر قعر ِ جہنم میں گراجائیں کہ وہ ایمان نہیں رکھتے تھے لیکن وہ افراد جنہوں نے عمر بھر انسانوں کی خدمت کا کوئی کام نہیں کیا ان کا مقام بہشت ہو۔

اس کا جواب یہ کہ :

اسلام کے معاشرتی اصولوں کے لحاظ سے فقط اسلام کے معاشرتی اصولوں کے لحاظ سے فقط عمل کو دیکھنا کافی نہیں بلکہ عمل کی قدر و قیمت اس کے محرک ، سبب اور مقصد کے ساتھ بنتی ہے ۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ ہسپتال ، سکول یاکوئی اور مفید عمارت تعمیر کرتے ہیں اور اظہار بھی یہ کرتے ہیں کہ ان کا مقصد اس معاشرے کی انسانی خدمت ہے جس کے وہ مرہون ِ منت ہیں حالانکہ اس پر دے کے پیچھے کوئی اور مطلب چھپا ہوتا ہے ۔ ان کا مقصد مقام و منصب ی امال و ثروت کا حصول ہوتا ہے یا وہ اپنے بچاؤ کے لئے ایسا کرتے ہیں یا وہ عوامل کی توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اپنے مادی مفادات کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں یا پھر وہ دوسروں کی نظر وں سے بچ کر خیانت کرنا چاہتے ہیں ۔

لیکن اس کے بر عکس ممکن ہے کوئی شخص پورے خلوص سے یا سوفی صدانسانی اور روحانی جذبہ سے کوئی چھوٹا سا کام انجام دے ۔

لہٰذا ضروری ہے کہ ” عظیم لوگوں “ کے عمل اور کردار کے محرک کی بھی تحقیق کی جائے ۔ اگر تحقیق کی جائے تو ان کا عمل یقینا چند اشکال سے خارج نہیں ہے ۔

الف: کبھی کسی ایجاد کا حقیقی مقصد تخریب ہوتا ہے ( جیسے اٹامک نر جی کی دریافت پہلے پہل ایٹم بم بنانے کے لئے ہوئی ) ۔

پھر اس کے ساتھ نوعِ انسان کو کچھ فائدے بھی حاصل ہو جاتے ہیں کہ جو دریافت یا ایجاد کرنے والوں کو حقیقی مقصد نہیں ہوتا یا پھر اسے ثانوی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔ اس سے ایجادات کرنے والوں کی ذمہ داری پوری طرح واضح ہوجاتی ہے ۔

ب: کبھی ایجاد و انکشاف کرنے والے کا مقصد مادی فوائد یانام و نمود اور شہرت کا حصول ہوتا ہے ۔ ایسا شخص درحقیقت ایک تاجر کی طرح ہے کہ جو زیادہ آمدنی کے لئے زیادہ نفع بخش چیزیں بناتاہے ۔ اس کی بنائی ہوئی چیزیں کچھ لوگوں کے لئے مفید ہوتی ہیں اور ملک کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے جب کہ اس کا مقصد سوائے آمدنی کے کچھ بھی نہیں ہوتا اور اگر کسی اور کا م میں زیادہ آمدنی ہو تو وہ اسے شروع کردیتا ہے ۔ البتہ ایسی تجارت یاپیدا وار اگر شرعی قوانین کے مطابق ہو تو غلط اور حرام کام نہیں ہوگا لیکن کوئی مقدس عمل بھی شمار نہیں ہوگا ۔

ایسی ایجادیں اور دریافتیں تاریخ میں کم نہیں ہیں کہ جو ا س قسم کے طرز فکر کی نشاندہی کرتی ہیں ۔ اگر یہ لوگ دیکھیں کہ ایسے کسی کام کی نسبت دوسرے راستے میں آمدنی زیادہ ہے اگر چہ وہ معاشرے کے لئے مضر ہو ( مثلا ً دوا سازی کی صنعت میں ۲۰ ۰/۰ منافع ہے اور ہیروئن سازی میں ۵۰ ۰/۰) تو یہ دوسرے کو ترجیح دیں گے ۔

ایسے لوگ نہ خد اسے کوئی مطالبہ رکھتے ہیں نہ اپنے ہم نوع انسانوں سے ۔ ان کا اجر وہی فائدہ اور شہرت ہے جو وہ چاہتے ہیں اور جوانہوں نے پالیا ہے ۔

ج: ایک تیسرا گروہ بھی ہے جس کے محرکات اور اسباب یقینا انسانی نہیں یا اگر وہ اللہ کے معتقد ہیں تو ان کے اہداف اور محرکات الہٰی ہیں ۔ یہ لوگ کبھی کبھی سالہا سال تجربہ گاہوں کے گوشے میں غربت و محرومی سے گزاردیتے ہیں ۔ اس امید پر کہ اپنی نوع کی کچھ خدمت کرسکیں اور جہان ِ انسانیت کوکوئی ہدیہ اور سوغات پیش کرسکیں ، کسی تکلیف زدہ کے پاؤں کی زنجیر کھول سکیں اور کسی رنجیدہ خاطر کے چہرے پر پریشانی کی پر چھائیاں دور کرسکیں ۔

ایسے افراد اگر ایمان اور الہٰی محرم رکھتے ہوں تو پھر ان کے بارے میں کوئی بحث نہیں اور اگر وہ ایمان اور الہٰی محرک نہ رکھتے ہوں لیکن ان کا محرم انسانی اور لوگوں کی خدمت ہو تو اس میں شک نہیں کہ انہیں خد اوند ِ عالم کی طرف منابس اجر اور جزا ملے گی ۔ ہو سکتاہے انہیں یہ جزا دنیا میں ملے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دوسرے جہان میں ملے یقینا خدا وند عالم و عادل انہیں محروم نہیں کر ے گا ۔ لیکن کسی طرح اور کس طرز پر ، اس کی تفصیلات ہم پر واضح نہیں ۔ بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ ”خدا اس قسم کے نیک لوگوں کا اجر ضائع نہیں کرتا“ ( البتہ اگر وہ ایمان قبول نہ کرنے میں جاہل قاصر ہو تو پھر مسئلہ بہت واضح ہے ) ۔

اس مسئلہ دلیل حکم عقلی کے علاوہ وہ اشارات ہیں جو آیات یا روایات میں آئے ہیں ۔ ہمارے پا س کوئی دلیل نہیں کہ ”ان الله یضیع اجر المحسنین(۱)

کے مفہوم میں ایسے افراد شامل نہ ہوں ۔ کیونکہ قرآن میں لفظ ”محسنین“ کااطلاق صرف ”مومنین “ نہیں ہوا ۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی جب ان کے پاس آئے تو انہیں پہچانے بغیر عزیز مصر سمجھتے ہوئے کہنے لگے :انانراک من المحسنین

ہم تجھے نیکو ں کاروں میں سے سمجھتے ہیں ۔

اس سے قطع نظر یہ بھی فرمان ِ الہٰی ہے :( فمن یعمل مثقال ذرة خیراً ومن یعمل مثقال ذرة شرّاً یره )

جو شخص بھی ذرہ بھر اچھا کام کرے گا اسے دیکھے گا او ر جو کوئی ذرہ بھر بر اکام کرے گا اسے دیکھے گا ۔

ایک حدیث میں علی بن یقطین کی وساطت سے امام کاظم علیہ السلام سے مروی ہے :

بنی اسرائیل میں ایک صاحبِ ایمان تھا ۔ اس کا ہماسایہ کافر تھا ۔ کافر اپنے صاحب ِ ایمان ہمسائے اچھا سلوک کرتا تھا ۔ جب وہ دنیا سے گیا تو خدا نے اس کے لئے ایک گھر بنایا تاکہ جہنم کی آگ کی تپش سے رکاوٹ ہو اور اس سے کہا گیا کہ یہ اپنے مومن ہمسائے سے تیرے نیک کے سلوک کے سبب سے ہے(۲)

عبد اللہ بن جد عان زمانہ جاہلیت کے مشہور مشرکین اور قریش کے سر داروں میں سے تھا ۔ اس کے بارے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے منقول ہے :

اہل جہنم میں کمترین عذاب ابن ِ جدعان کو ہو گا ۔

لوگوں نے پوچھا : یارسول اللہ ! کیوں

آپ نے فرمایا:انه کان یطعم الطعام

کیونکہ وہ بھوکوں کو کھانا کھلاتا تھا ۔(۳)

ایک اور حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے :

یمن سے کچھ لوگ رسول اللہ سے بحث و تمحیص کے لئے آپ کی خدمت میں آئے ا ۔ ان میں سے ایک شخص تھا جو زیادہ باتیں کرتا تھا اور آپ سے بڑی سختی اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتا تھا ۔آنحضرت کو اتنا برا لگا کہ ناپسند ید گی کے آثارآپ کے چہرہ مبارک پر پوری طرح ظاہر ہوئے ۔ اس وقت جبرائیل آئے اور یہ پیام الہٰی آپ تک پہنچا یا کہ خدا فرماتا ہے : یہ شخص سخی ہے ۔ یہ بات سنتے ہیں رسول اللہ کا غصہ ختم ہوگیا ۔ اس کی طرف رخ کرکے آپ نے فرمایا کہ پروردگارنے مجھے اس قسم اس قسم کا پیغام دیا ہے اور اگر یہ بات نہ ہوت تو میں تجھ پر اس قسم کی سختی کرتا کہ تو دوسروں کے لئے عبرت بن جاتا ۔ اس شخص نے پوچھا : کیا آپ کے پروردگار کوسخاوت پسند ہے ؟ فرمایا : ہاں ۔ تو اس نے عرض کیا:میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سو اکوئی معبود نہیں اور آپ اس کے رسول اور فرستادہ ہیں اور اسی خدا کی قسم جس نے آپ کو مبعوث کیا ہے آج تک میں نے کسی شخص کو اپنے ہاں سے محروم نہیں پلٹا یا ۔(۴)

یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ بعض آیات اور بہت سے روایات سے معلم ہوتا ہے کہ ایمان یا یہاں تک کہ ولایت قبول ِ اعمال یا جنت میں داخلے کی شرط ہے لہٰذا اگر بے ایمان افراد سے بہترین اعمال سرزد ہوں تو وہ بار گاہ الٰہی میں مقبول نہیں ہوں گے ۔

لیکن اس سوال کا جواب دیا جا سکتا ہے کہ ”قبولیت اعمال “ کا ایک مفہوم ہے اور مناسب اجر ملنا دوسرا مسئلہ ہے لہٰذ علماء اسلام کے درمیان مشہور ہے کہ مثلاً حضور قلب کے بغیر یابعض گناہوں مثلاً غیبت سے نماز مقبول ِ بار گاہ خدا نہیں ہے حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ایسی نمازشرعاًصحیح ہے ، فرمان الہٰی کی اطاعت ہے اور اسے ذمہ داری ادا ہوجاتی ہے اور مسلم ہے کہ فرمانِ الہٰی کی اطاعت اجر و جزا کے بغیر نہیں ہوگی ۔

لہٰذا عمل کی قبولیت در اصل عمل کا عالی مرتبہ ہوتا ہے ۔ زیر بحث مسئلے میں بھی ہم یہی بات کہتے ہیں کہ اگر انسانوں اور عوام کی خدمات ایمان کےس اتھ ہوں تو ان کا مدہوم عالی ہوگا لیکن ایسانہ ہوتو بھی بالکل بے معنی اور بغیر اجر کے نہیں ہوں گی ۔ جنت میں داخلے کے بارے میں بھی یہی جواب دیں گے کہ عمل کا اجر ضروری نہیں کہ جنت میں داخلے پر منحصر ہو۔( بحث کا نچور اور تفصیلی بحث مناسب ہے کہ اس مسئلے کی فقہی مباحث میں ہو) ۔

____________________

۱۔ یوسف ۔ ۹۰ اور بعض دیگر سورتیں ۔

۲۔ بحار الانوار جلد ص ۳۷۷ چاپ کمپانی۔

۳۔ بحار الانوار جلد ص ۳۷۷ چاپ کمپانی۔

۴۔سفینة البحار جلد ۲ ص۶۰۷۔

آیات ۱۹،۲۰

۱۹ ۔( اٴَلَمْ تَرَی اٴَنَّ اللهَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ بِالْحَقِّ إِنْ یَشَاٴْ یُذْهِبْکُمْ وَیَأت بِخَلْقٍ جَدِیدٍ ) ۔

۲۰ ۔( وَمَا ذَلِکَ عَلَی اللهِ بِعَزِیزٍ ) ۔

ترجمہ

۱۹ ۔کیا تو نے دیکھا نہیں کہ خدا نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیاہے ، اگر وہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور نئی مخلوق لے آئے ۔

۲۰ ۔اور یہ کام خدا کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے ۔

تفسیر

خلقت حق کی اساس پر ہے

گزشتہ آیت میں باطل ک اذکر ہے ۔ وہ باطل کہ خاکستر کی طرح ہے ۔ وہ خاکستر کہ جو پراگندہ ہے اور آندھی سے ادھر ادھر بکھر جاتی ہے ۔ زیر نظر پہلی آیت میں حق کے بارے میں گفتگو ہے ۔ یہ حق کے استقرار سے متعلق ہے ۔

روئے سخن پیغمبر کی طرف کرتے دنیا کے تمام طالبان حق کے لئے نوممنے کے طور پر فرمایا گیا ہے : کیا تو نے نہیں دیکھا کہ خد انے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے( اٴَلَمْ تَرَی اٴَنَّ اللهَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ بِالْحَقّ ) ۔

”حق“ جیسا کہ مفردات میں راغب نے کہا ہے در اصل ”مطابقت “ اور ہم آہنگی “ کے معنی میں ہے لیکن کے اس کے استعمال کے مواقع مختلف ہیں ۔

بعض اوقات حق ایسے کام کو کہا جاتا ہے جوحکمت کے موافق اور نظم و نسق کے مطابق کیا گیا ہو جیسا کہ قرآن میں ہے :هو الذی جعل الشمس ضیاء والقمر نور ماخلق ذٰلک الابالحق

وہ وہی ہے کہ جس نے خورشید کو روشنی او ر چاند کو نور افشانی کا ذریعہ قرار دیا ہے اس نے یہ کام حکمت اور حساب وکتاب کے بغیر انجام نہیں دیا ۔

( یونس ۔ ۵)

کبھی اس ذات کو حق کہا جاتا ہے جو اس قسم کا کام انجام دے ۔ جیسے اللہ کے لئے اسی لفظ کا اطلاق ہوا ہے :

فذٰلکم الله ربکم الحق

تمہارا یہ خدا تمہارا پروردگار ہے ۔ (یونس ۔ ۳۲)

کبھی ایسے اعتقاد کو حق کہا جاتاہے جو حقیقت کے مطابق ہو ۔ مثلاً

( فهدی الله الذی اٰمنوا لما اختلفوا فیه من الحق )

جن اعتقاد میں اختلاف کرتے ہیں خدا نے ایمان والوں کو ان میں حق کی ہدایت کی ہے ۔ (بقرہ ۔ ۲۱۳)

کبھی ایسی گفتگو او ر عمل کو حق کہا جاتا ہے کہ جو ضروری مقدار کے مطابق ہو اور اس وقت انجام دئے جب ضروری ہو ۔مثلاً( حق القول منی لاملئن جهنم )

مجھ سے یہ قول حق صاد ر ہوا ہے کہ میں جہنم کو ( گنہگاروں سے ) بھر دوں گا ۔ (سجدہ ۔ ۱۳)

بہر حال ”حق“ کے مقابل باطل ” ضلال“ ۔ ” لعب“ بیہودہ اور اس قسم کے دیگر کام ہیں لیکن زیر بحث آیت میں بلا شبہ اس پہلے معنی کی طرف اشارہ ہے ۔ یعنی عالم آفرینش کے عمارت اور آسمان و زمین سب نشاندہی کرتے ہیں کہ ان کی خلقت میں نظم و نسق ،حساب وکتاب اور حکمت و ہدف ہے ۔ خدا کو انہیں خلق کرنے کی احتیاج تھی نہ اسے تنہائی سے وحشت ہو تی تھی اور نہ ان سے وہ اپنی ذات کی کسی کمی کو دور کرنا چاہتا تھا کیونکہ وہ ہر چیز سے بے نیاز ہے بلکہ یہ وسیع و عریض جہان مخلوقات کی پر ورش اور انہیں زیادہ سے زیادہ تکامل و ارتقاء ء بخشنے کی منزل ہے ۔

اس کے بعدمزید فرمایا گیا ہے : اس بات کی دلیل ہے کہ اسے تمہاری اور تمہارے ایمان لانے کی ضرورت نہیں ہے ، یہ ہے کہ ”اگر وہ ارادے کرے تو تمہیں لے جائے اور تمہاری جگہ کوئی نئی مخلو ق لے آئے “ ایسی مخلوق کہ جو ساری کی ساری ایمان رکھتی ہو اور تمہارے غلط کاموں میں سے کسی کو انجام نہ دے( إِنْ یَشَاٴْ یُذْهِبْکُمْ وَیَأت بِخَلْقٍ جَدِیدٍ ) ۔

اور یہ کام خدا کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں ہے( وَمَا ذَلِکَ عَلَی اللهِ بِعَزِیزٍ ) ۔

اس گفتگو کی شاہد سورہ نساء کی یہ آیت ہے :

( فان تکفروا فان لله مافی السمٰوات و الارض و کان الله غنیاً حمید ان یشاء یذهبکم ایهاالناس و یأت باٰخرین و کان الله علیٰ ذٰلک قدیرا ) ۔

اگر تم کافر ہو جاؤو اس سے خدا کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ جوکچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اللہ ہے او ر خدا بے نیاز اور لائق ِ حمدہے اے لوگو!وہ جب چاہے تمہیں لے جائے اور دوسرا گروہ لے آئے او ریہ کام خدا کے لئے آسان ہے ۔ (نساء ۱۳۱ ۔تا ۔ ۱۳۳)

مذکورہ بالا آیت کے متعلق یہ تفسیر ابن عباس سے بھی نقل ہوئی ہے ۔

ایک اور احتمال بھی ہے اور وہ یہ کہ مندرجہ بالا مسئلہ معاد کی طرف اشارہ ہے یعنی خدا کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں کہ سب انسانوں کو لے جائے اور دوسری مخلوق پیدا کرنے تو کیا اس قدرت کے باوجود مسئلہ معاد دوسرے جہان کی طرف تمہاری باز گشت میں تمہیں شک ہو سکتا ہے ؟