تفسیر نمونہ جلد ۱۰

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 30338
ڈاؤنلوڈ: 2949


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 93 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30338 / ڈاؤنلوڈ: 2949
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 10

مؤلف:
اردو

آیات ۲۱،۲۲،۲۳

۲۱ ۔( وَبَرَزُوا لِلَّهِ جَمِیعًا فَقَالَ الضُّعَفَاءُ لِلَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا إِنَّا کُنَّا لَکُمْ تَبَعًا فَهَلْ اٴَنْتُمْ مُغْنُونَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ اللهِ مِنْ شَیْءٍ قَالُوا لَوْ هَدَانَا اللهُ لَهَدَیْنَاکُمْ سَوَاءٌ عَلَیْنَا اٴَجَزِعْنَا اٴَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِنْ مَحِیصٍ ) ۔

۲۲ ۔( وَقَالَ الشَّیْطَانُ لَمَّا قُضِیَ الْاٴَمْرُ إِنَّ اللهَ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُکُمْ فَاٴَخْلَفْتُکُمْ وَمَا کَانَ لِی عَلَیْکُمْ مِنْ سُلْطَانٍ إِلاَّ اٴَنْ دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِی فَلاَتَلُومُونِی وَلُومُوا اٴَنْفُسَکُمْ مَا اٴَنَا بِمُصْرِخِکُمْ وَمَا اٴَنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّ إِنِّی کَفَرْتُ بِمَا اٴَشْرَکْتُمُونِی مِنْ قَبْلُ إِنَّ الظَّالِمِینَ لَهُمْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ ) ۔

۲۳ ۔( وَاٴُدْخِلَ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْاٴَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ تَحِیَّتُهُمْ فِیهَا سَلَامٌ ) ۔

ترجمہ

۲۱ ۔اور( قیامت کے روز ) وہ سب خدا کے سامنے ظاہر ہو ں گے تو اس وقت ضعفاء (نادان پیرو کار ) متکبرین سے کہیں گے :ہم تمہارے پیرو کار تھے ۔ تو کیا ( اب جب تمہاری پیروی کی وجہ سے ہم عذاب ِ خدا میں گرفتار ہوئے ہیں ) تم تیار ہو کہ عذاب الٰہی کاکچھ حصہ قبول کرو اور اہم سے اسکا بوجھ اٹھالو۔ تو وہ کہیں گے کہ اگر خدا نے ( عذاب سے رہائی کی طرف)ہماری ہدایت کی ہوتی تو ہم بھی تمہیں ہدایت کرتے ( معاملہ اس سے آگے نکل گیا ہے )چاہے ہم بے قرار ہوں یاصبر کریں ، ہمارے لئے کوئی فرق نجات کی راہ موجود نہیں ہے ۔

۲۲ ۔ اور جس وقت کا م تمام ہوگیا تو شیطان کہے گا کہ خدا نے تم سے حق وعدہ کیا اور میں نے تم سے (باطل )وعدہ کیا اور خلاف ورزی کی۔ میں تم پر کوئی تسلط نہیں رکھتا تھا سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں دعوت دی اور تم نے قبول کرلی ۔ لہٰذ امجھے ملامت نہ کر و، اپنے آپ کو سر زنش نہ کرو، میں تمہارا فریاد رس ہوں نہ تم میرے فریاد رس ہو ۔ تم نے جو مجھے شریک بنایا ( اور میری اطاعت کو اطاعت خدا کے ہم پلہ قرار دیا ) اور یہ تم پہلے ہی سے کرتے تھے ، میں اس سے بیزار ہوں اور میں اس کا انکار کرتاہوں ۔ یقینا ظالموں کے لئے درد ناک عذاب ہے ۔

۲۳ ۔ اور جولوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے وہ باغات بہشت میں داخل ہوں گے ۔ ایسے باغاتکہ جن کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہوں گی ۔ وہ اپنے پر وردگار کے اذن ے ہمیشہ ان میں رہیں گے اور وہاں ان کا تحیہ سلام ہو گا ۔

تفسیر

شیطان اور ا س کے پیرو کاروں کی صریح گفتگو

گزشتہ چند آیات میں ہٹ دھرم اور بے ایمان منحرفین کے لئے دردناک عذاب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ زیر بحث آیات اسی مفہوم کاتسلسل ہیں ۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے : روز قیامت تمام جابر ، ظالم اور کافر بار گاہ خدا وندی میں پیش ہوں گے چاہے وہ تابع ہوں یا متبوع او رپیروہوں یا پیشوا( وَبَرَزُوا لِلَّهِ جَمِیعًا ) ۔(۱)

اس وقت ضعفاء یعنی نادان پیرو کار کہ جو اندھی تقلید کی وجہ سے اپنے آپ داوی ضلالت میں سر گرداں کر چکے تھے مستکبرین سے کہ جو ان کی گمراہی کے سامل تھے ، کہیں گے : ہم تمہارے پیرو تھے ۔ اب جب کہ ہم تمہاری رہبری کے باعث ان کے سب عذابوں اور بلاؤں میں گرفتار ہوئے ہیں ، کیا ممکن ہے کہ تم بھی ان عذابوں کا کچھ حصہ قبول کر لو تاکہ ہمیں تخفیف مل جائے( فَقَالَ الضُّعَفَاءُ لِلَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا إِنَّا کُنَّا لَکُمْ تَبَعًا فَهَلْ اٴَنْتُمْ مُغْنُونَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ اللهِ مِنْ شَیْءٍ ) ۔

لیکن وہ کہیں گے : اس کیفر ِ کردار اور عذاب سے اگر خدا ہماری ہدایت نجات کی طرف کتاتوہم بھی تمہاری راہنمائی کرتے( قَالُوا لَوْ هَدَانَا اللهُ لَهَدَیْنَاکُمْ ) ۔

لیکن افسوس کہ معاملہ اس سے آگے نکل چکا ہے ” چاہے ہم بے قرار ہوں اور جزع و فزع کریں چاہے صبر کریں ہمارے کوئی راہ ، نجات نہیں ہے “( سَوَاءٌ عَلَیْنَا اٴَجَزِعْنَا اٴَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِنْ مَحِیصٍ ) ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ ایک اشکال کی وضاحت :

۱ ۔ ایک اشکال کی وضاحت : اس آیت کے سلسلے میں جو پہلا سوال سامنے آتا ہے یہ ہے کہ کیا لو گ اس جہان میں علم ، خدا کے سامنے ظاہر نہیں ہیں کہ جومذکورہ بالا آیت میں فرمایا گیا ہے کہ قیامت میں سب کے سب بارگاہ خدامیں ظاہر ہوں گے ؟

اس سوال کے جواب میں بہت سے مفسرین نے کہا ہے کہ مراد یہ ہے کہ اس دنیا میں لوگوں کو احساس نہیں ہے کہ وہ خود اور ان کے سب اعمال بارگاہِ خدا میں ظاہر ہیں لیکن قیامت میں یہ ظہور سب محسوس کریں گے ۔

بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ یہاں مراد قبروں سے نکلنا اور حساب و کتاب کے لئے عدل ِ الٰہی کی عدالت کے سامنے پیش ہونا ہے ۔

یہ دونوں تفسیریں خوب ہیں اور کوئی مانع نہیں کہ دونوں ہی آیت کے مفہوم میں داخل ہوں ۔

۲ ۔ ”( لو هدانا الله لهدیناکم ) “کامفہوم

بہت سے مفسرین کا نظر یہ ہے کہ اس سے مراد اس جہان میں عذاب الہٰی سے نجات کے طریقے کی ہدایت ہے کیونکہ یہ با ت مستکبرین اپنے پیروکاروں کے جواب میں کہیں گے کہ جب پیرو ان سے عذاب کا کچھ حصہ قبول کرنے کا تقاضا کریں گے سوال و جواب کا تقاضا ہے کہ مراد عذاب سے رہائی کے طریقے کی ہدایت ہو۔

اتفاق سے یہی تعبیر (ھدایت ) نعمات ِ بہشت تک پہنچنے کے بارے میں بھی نظر آتی ہے ۔ اہل جنت کی زبانی ہے :

( وقالوا الحمد لله الذی هدانا لهذا و ماکنا لنهتدی لولا ان هدنا الله )

وہ کہیں گے : شکر ہے اس خدا کا جس نے ہمیں ان نعمتوں کی طرف ہدایت کی ہے اور اگر اس کی توقیق و ہدایت نہ ہوتی تو ہمیں ان کی راہ نہ ملتی ۔ (اعراف۔ ۴۳)

یہ احتمال بھی ہے کہ رہبران ضلالت سے جب ان کے پیرو کار تقاضا کریں گے تو اپنے تئیں گناہ سے بری کرنے کے لئے گمراہی کے تمام علمبرداروں کی طرح کہ جو اپنی خراب کاری دوسروں کے سر تھونپ دیتے ہیں ، وہ بڑی ڈھٹائی سے کہیں گے : ہم کیا کریں اگر خدا ہمیں سیدھے واستے کی ہدایت کرتا تو ہم بھی تمہیں ہدایت کرتے یعنی ہم تو مجبور تھے اور ہمارا اپنا تو کوئی ارادہ ہی نہ تھا ۔

یہی شیطان کی منطق ہے کہ جس نے اپنے آپ کو بر ی قرار دینے کے لئے خدائے عادل کی طرف جبر کی نسبت دیتے ہوئے کہا:( فبما اغوینی لاقعدن لهم صراطک المستقیم )

اب جب کہ تونے مجھے گمراہ کیا ہے تو میں بھی تیرے سیدھے راستے میں بیٹھا ان کی تاک میں رہوں گا ( اور انہیں منحرف کروں گا)( اعراف۔ ۱۶) ۔

لیکن توجہ رہے کہ مستکبریں چاہیں نہ اؤچاہیں صریح آیات ِ قرآن اور واضح روایات کی رو سے اپنے پیرو کاروں کے گناہ کی ذمہ داری کوبوجھ بہرحال انہیں اپنے کندھوں پر اٹھا نا ہوگا کیونکہ وہ انحراف کی بانی اور گمراہی کے عامل تھے البتہ پیر وکاروں کی ذمہ داری اور عذاب و سزا میں بھی کچھ کمی نہ ہوگی ۔

۳ ۔ اندھی تقلید کی مذمت

مندرجہ بالا آیت سے اچھی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ :

اولا ۔ وہ لوگ جو آنکھ کان بند کرکے اس کے اور اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں کہ گویا ہر شخص کے ہاتھ اپنی باگ دوڑ تھمادیتے ہیں وہ بے وقعت اور بے حیثیت لوگ ہیں قرآن ان کے لئے ”ضعفاء“ کا لفظ استعمال کرتا ہے ۔

ثانیا ۔ ان کا اور ان کے پیشواؤں کا انجام ایک ہی ہے اور وہ بے چارے سخت ترین حالات میں بھی اپنے گمراہ رہبروں کاتعاون حاصل نہیں کر سکیں گے ۔ یہاں تک کہ ان کے رہبروں کی سزا اور عذاب میں ذرہ بھر تخفیف نہیں کروا سکیں بلکہ شاید تمسخر سے انہیں جواب دیں گے کہ بے کار واویلا کرو کیونکہ بچ نکلنے کاکوئی راستہ نہیں ہے ۔

۴ ۔ ”برزو“ اور محیص“ کا مفہوم

برزوا“ در اصل ”بروز“کے مادہ سے ظاہر ہونے اور پردے سے باہر آنے کے معنی میں ہے ۔ نیز اس کا معنی میدانِ جنگ میں صف سے باہر نکل کر حریف کے مقابلے میں آکھڑے ہونا بھی ہے ۔ اصطلاح یہ لفظ مبارزہ کرنے کے معنی میں بھی آیا ہے ۔

”محیص“ ”محص“ کے مادہ سے ہے ۔ اس کا معنی ہے عیب یا تکلیف سے نجات پانا ۔

اس کے بعد جابروں ، گنہگاروں اور شیطان کے پیروکاروں کی روز قیامت روحانی اور نفسیاتی عذا اور سزا کا منظر پیش کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے :اور جب صالح اور غیر صالح بندوں کا حساب کتاب ختم ہو جائے گا او رہر ایک اپنے قطعی انجام کا پہنچ جائے گا تو شیطان اپنے پیرو کاروں سے کہے گا کہ خدا نے تم سے حق وعدہ کیا تھا اور میں نے بی تم سے وعدہ کیا تھا ( جیسا کہ تم خود جانتے ہو وہ فضول اور بے قیمت وعدہ تھا ) پھر میں نے اپنے وعدے کے خلاف کیا

( وَقَالَ الشَّیْطَانُ لَمَّا قُضِیَ الْاٴَمْرُ إِنَّ اللهَ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُکُمْ فَاٴَخْلَفْتُکُمْ ) ۔

گویا اس طرح شیطان بھی دیگر راہِ ضلالت کے ہبرمستکبرین کا ہم آواز ہوتا ہے اور اپنے ان بد بخت پیرو کاروں پر ملامت و سر زنش کے تیر چلا تا ہے پھر مزید کہتا ہے : میں تم پر کوئی جبری طور پر مسلط نہ تھا ۔ بات صرف یہ تھی کہ میں نے تمہیں دعوت دی اور تم نے اپنی مرضی سے اسے قبول کیا( وَمَا کَانَ لِی عَلَیْکُمْ مِنْ سُلْطَانٍ إِلاَّ اٴَنْ دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِی ) ۔”لہٰذا مجھے سر زنش نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو“ کہ تم نے میری شیطنت آمیز اور ظاہر الفساد دعوت کو کیوں قبول کیا( فَلاَتَلُومُونِی وَلُومُوا اٴَنْفُسَکُمْ ) ۔تم نے خود یہ کام کیا ہے لہٰذا لعنت تم پر ہو ۔

بہر حال ”پر وردگار کے قطعی حکم اور عذاب کے سامنے نہ میں تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہوں نہ تم میری فریاد رسی کرسکتے ہو“( مَا اٴَنَا بِمُصْرِخِکُمْ وَمَا اٴَنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّ ) ۔میں اعلان کرتا ہوں کہ تمہاری طرف سے مجھے شریک قرار دینے اور میری اطاعت کو اطاعت ِ الٰہی کے ہم پلہ قرار دینے سے بیزار ہوں اور میں اس کا انکا رکرتا ہوں( إِنِّی کَفَرْتُ بِمَا اٴَشْرَکْتُمُونِی مِنْ قَبْل ) ۔

اب میں سمجھا ہوں کہ ”اسی اطاعت میں شرک کرنے نے “ مجھے بھی بد بخت کیا ہے او رتمہیں بھی ، وہی بد بختی اور بے چار گی کہ جس کی تلافی کے لئے کوئی راستہ نہیں ہے ، جان لوکہ ” ظالموں کے لئے یقینادردناک عذاب ہے “۔( إِنَّ الظَّالِمِینَ لَهُمْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ ) ۔

چند اہم نکات

۱۰۔ شیطان کا اپنے پیروکاروں کو سخت جواب

”شیطان “ کا مفہوم اگر چہ وسیع ہے اور ا سمیں جنوں او رانسانوں میں سے تمام طاغوطی اور وسوسہ گر شامل ہیں لیکن اس آیت اور گزشتہ آیت میں جو قرائن موجود ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں یقینا مراد شخصی طو ر پر ابلیس ہے کہ جو تمام شیطانوں کا گروشمار ہوتا ہے ۔ اسی لئے تمام مفسرین نے اسی تفسیر کا انتخاب کیا ہے ۔(۲)

اس آیت سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ شیطانی وسوسے انسان کے اختیار وارادہ کو ہر گز سلب نہیں کرتے ۔ بلکہ ان کی حیثیت ایک دعوت دینے والے سے زیادہ نہیں او ریہ انسان ہے جو اپنے ارادے سے شیطان کی دعوت قبول کرتا ہے ۔ البتہ ممکن ہے شیطانی کاموں کے لئے طبیعت ہموارہو جانے اور انسانی مقاصد کے خلاف مسلسل کام کرنے سے انسان ایسے مقام تک جاپہنچے جس سے وسوسوں کے مقابل ایک طرح کی سلبِ اختیار کی حالت پیدا ہوجائے جیسے ہم بعض منشیات کے عادی لوگوں کو دیکھتے ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ اس کا اصل سبب اختیاری ہے لہٰذا نیجہ کچھ ہو اختیاری ہی شمار ہو گا ۔

سورہ نحل کی آیہ ۱۰۰ میں ہے :( انما سلطانه علی الذین یتولونه و الذین هم مشرکون )

شیطان کا تسلط صرف ان لوگوں پر ہے جنہوں نے اپنے لئے اس کی سر پرستی قبول کرلی ہے او رجنہوں نے اطاعت میں اسے خدا کا شریک قرار دیا ہے ۔

ضمناً شیطان ان لوگوں کو دندان شکن جواب دیتا ہے جو اپنے گناہ ا س کی گردن پر ڈال دیتے ہیں ، اپنے انحرافات کا عامل اسے شمار کرتے ہیں اور اس پر لعنت بھیجتے ہیں ۔ شیطان بعض گنہگاروں کی اس عامیانہ منطق سے برأت کا اظہار کرتا ہے ۔ در اصل انسان پر حقیقی تسلط اس کے ارادے اور عمل کاہے نہ کہ کسی اور چیز کا ۔

۲ ۔ روز حشر شیطان کا اپنے پیرو کاروں سے رابطہ

اس عظیم محضر میں شیطان کس طرح اپنے تمام پیرو کاروں سے رابطہ قائم کرسکے گا او رکس طرح انہیں ملامت کرے گا ۔

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یقینا خد اسے یہ طاقت دے گا ۔ در اصل شیطان کے پیرو کاروں کے لئے یہ ایک طرح کا روحانی اور نفیاتی عذاب ہے ۔ یہ اس جہان میں اس راستے پر چلنے والوں کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے کہ وہ ابھی سے اپنا اور اپنے رہبر کا انجام دیکھ لیں ۔ بہرحال خد اکسی طرح سے شیطان اور اس کے پیروں کے درمیان یہ ارتباط فراہم کرے گا ۔

۳ ۔ گمراہی کے دیگر پیشواون کا طرز عمل

یہ امرجاذب ِنظر ہے کہ روز قیامت ایسی ملاقات صرف شیطان اور اس کے پیروکاروں کے درمیان نہ ہوگی بلکہ ضلالت و گمراہی کے تمام پیشوااس جہاں میں ایسا ہی کریں گے ۔ وہ اپنے پیروکاروں کا ہاتھ ( خود ان کی مرضی سے ) پکڑیں گے ۔ انہیں بلاؤں اور بلاؤں اور بدبختیوں کی موجوں کی طرف کھینچ لے جائیں گے اور جب وہ دیکھیں گے کہ حالات برے ہیں تو انہیں چھوڑ کر چلتے بنیں گے ۔

یہاں تک کہ ان سے بیزاری کا اعلان کریں گے اور انہیں ملامت کریں گے ۔ بزبان اصطلاح انہیں دنیا و آخرت کے خسارے میں گرفتار کریں گے ۔

۴ ۔ ”مصرخ“ کا مطلب

”مصرخ“ اصراخ “ کے مادہ سے اصل میں ”صرخ“مدد کے لئے پکا رنے اور فریاد کرنے کے معنی میں آیاہے ۔ اس بناء پر ” مصرخ “ فریاد رس کے معنی میں ہے اور ” مستصرخ“ اس شخص کے معنی میں ہے جو فردرسی چاہے ۔

۵ ۔ شیطان کو شریک قرا ردینے سے مراد

شیطان کو شریک قرار دینے سے مراد شرکِ اطاعت ہے نہ کہ شرک ِعبادت۔

۶ ۔ ”ان الظالمین لھم عذاب الیم “کس کا جملہ ہے :

یہ جملہ شیطان کی باتوں کا آخری حصہ ہے یا پر وردگار کی طرف سے مستقل جملہ ہے ، اس سلسلے میں مفسرین میں اختلاف ہے ۔ لیکن زیادہ تر یہی معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی طرف سے مستقل جملہ ہے کہ جو شیطان کی اپنے پیروکاروں سےگفتگو کے بعد ایک اصلاحی و تربیتی درس کے طور پر آیا ہے ۔

زیر بحث آخری آیت میں سر کش و بے ایمان جابر افراد کی حالت اور ان کا دردناک انجام بیان کرنے کے بعد مومنین کی حالت او ر ان کا انجام بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : اور جو ایمان لائے اور اعمال صالح انجام دئے وہ باغات ِبہشت میں داخل ہو ں گے ، وہ باغات کے جن کے درختوں کے نیچے پانی نہریں جاری ہیں( وَاٴُدْخِلَ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْاٴَنْهَارُ ) ۔ وہ اپنے پر وردگار کے اذن سے ہمیشہ ان باغات میں ر ہیں گے( خَالِدِینَ فِیهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ تَحِیَّتُهُمْ فِیهَا سَلَامٌ ) ۔

”تحیت “ در اصل ”حیات “ کے مادہ سے لیا گیا ہے بعد از اں یہ لفظ افراد کی سلامتی اور حیات کی دعا کے لئے استعمال ہونے لگا ۔ہر قسم کی سلام و دعا کہ جو ابتدائے ملاقات میں کہی جاتی ہے ، اس پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔

بعض مفسرین نے کہا ہے کہ زیر بحث آیت میں ”تحیت “ وہ خوش آمدید او ردرود و سلام جو اللہ تعالیٰ نے صاحب ایمان پر بھیجا ہے اور انہیں اپنی اپنی نعمتِ سلامتی کا ہم آغوش قرار دیتا ہے ۔

سلامتی ہر قسم کی ناراحتی اور درد و غم سے سلامتی

سلامتی ہر قسم کی جنگ و نزع سے سلامتی

اس مفہوم کی بناء پر ” تحیتھم“ کی اضافت کی طرف ہے اور اس کا فاعل خدا تعالیٰ ہے ۔

بعض نے کہا ہے کہ یہاں مراد وہ تحیہ و سلام ہے جومومنین ایک دوسرے سے کہیں گے یافرشتے ان سے کہیں گے ۔

بہر حال لفظ ” سلام “ جو بطورمطلق آیاہے ، اس کا مفہوم اس قدر وسیع ہے کہ جو ہر قسم کی سلامتی پر محیط ہے اور ہر قسم کی ناراحتی اور تکلیف سے سلامتی پرمشتمل ہے چاہے روحانی ہو یاجسمانی ۔۳

____________________

۲۔ سلام و تحیت کے بارے میں ہم تفسیر نمونہ جلد چہارم ،سورہ نساء آیت ۸۶ کے ذیل میں تفصیل سے بحث کرچکے ہیں ( ص ۵۴ اردو ترجمہ کی طرف رجوع کیجئے گا ) ۔