تفسیر نمونہ جلد ۱۰

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 30358
ڈاؤنلوڈ: 2949


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 93 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30358 / ڈاؤنلوڈ: 2949
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 10

مؤلف:
اردو

آیات ۴۲،۴۳،۴۴،۴۵،

۴۲ ۔( وَ لا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلاً عَمَّا یَعْمَلُ الظَّالِمُونَ إِنَّما یُؤَخِّرُهمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فیهِ الْاٴَبْصارُ ) ۔۔

۴۳ ۔( مُهْطِعینَ مُقْنِعی رُؤُسِهِمْ لا یَرْتَدُّ إِلَیْهِمْ طَرْفهُمْ وَ اٴَفْئِدَتُهُمْ هَواء ٌ ) ۔

۴۴ ۔( وَ اٴَنْذِرِ النَّاسَ یَوْمَ یَأتیهِمُ الْعَذابُ فَیَقُولُ الَّذینَ ظَلَمُوا رَبَّنا اٴَخِّرْنا إِلی اٴَجَلٍ قَریبٍ نُجِبْ دَعْوَتَکَ وَ نَتَّبِعِ الرُّسُلَ اٴَ وَ لَمْ تَکُونُوا اٴَقْسَمْتُمْ مِنْ قَبْلُ ما لَکُمْ مِنْ زَوالٍ ) ۔

۴۵ ۔( وَ سَکَنْتُمْ فی مَساکِنِ الَّذینَ ظَلَمُوا اٴَنْفُسَهُمْ وَ تَبَیَّنَ لَکُمْ کَیْفَ فَعَلْنا بِهمْ وَ ضَرَبْنا لَکُمُ الْاٴَمْثالَ ) ۔

ترجمہ

۴۲ ۔ اور یہ گمان نہ کرکہ خدا ظالموں کے اعمال سے غافل ہے ( ایسا نہیں ہے بلکہ اس نے ) ان کے لئے ( سزا کو ) اس دن کے لئے موخر کیا ہے کہ جس دن ( خوف و وحشت کے مارے ) آنکھیں پتھرا جائیں گی ۔

۴۳ ۔ وہ گردنیں اوپر کی اور سر اٹھائے ہوں گے اور ان کی آنکھیں بے حرکت ہوکر رہ جائیں گی ( کیونکہ وہ جدھر دیکھیں گے عذاب کی نشایاں نظر آئیں گی ) اور ان کے ( ڈوبتے ہوئے ) دل بالکل ویران ہونگے ۔

۴۴ ۔ اور لوگوں کو اس دن سے ڈراؤ جس روز عذاب الھی ان کی طرف آئے گا وہ دن کہ جب ظالم کہیں گے : پروردگارا ! ہمیں تھوڑی سی مدت کے لئے مہلت دے دے تا کہ ہم تیری دعوت قبول کر لیں اور رسولوں کی اتباع کر لیں ( لیکن انہیں فوراً جواب دیا جائے گا کہ ) کیا پہلے تم قسم کھا کر نہ کہتے تھے کہ تمہارے لئے زوال و فنا نہیں ہے ۔

۴۵ ۔ ( کیا وہ تمہی نہ تھے کہ ) جنہوں نے ان لوگوں کے گھروں ( اور محلات ) میں سکونت اختیار کی کہ جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا تھا جبکہ تم پر یہ امر آشکار ہو چکا تھا کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا اور ہم نے تم سے ( گزشتہ لوگوں کے انجام کی ) مثالیں بیان کردی تھیں ( پھر بھی تم بیدار نہ ہوئے ) ۔

تفسیر

جس روز آنکھیں پتھرا جائیں گی

گزشتہ آیات میں یوم حساب کے بارے میں گفتگو تھی ۔ اسی مناسبت سے زیر نظر آیات میں ظالموں اور ستم گروں کی کیفیت مجسم کی گئی ہے اور ان کے انجام کی ایسی تصویر کشی کی گئی ہے کہ جو ہلا دینے والی اور بیدار کرنے والی ہے ۔ ضمناً مسائل معاد کے اس حصہ کے ذکر سے گزشتہ مباحث توحید کی تکمیل بھی ہوتی ہے ۔

پہلے ظالموں اور ستم گروں کو تہدید کی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : اے پیغمبر ! کہیں یہ گمان نہ کرنا کہ خدا ظالموں اور ستم گروں کے کام سے غافل ہے ۔( و لا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلاً عَمَّا یَعْمَلُ الظَّالِمُونَ ) ۔

یہ بات در حقیقت ان لوگوں کا جواب ہے کہ جو کہتے ہیں کہ اگر اس عالم کا کوئی عادل خدا ہے تو پھر اس نے ظالموں کو کیوں ان کی حالت پر چھوڑ رکھا ہے ۔ کیا وہ ان کی حالت سے غافل ہے یا پھر کیا وہ جانتا تو ہے لیکن انہیں روکنے کی قدرت نہیں رکھتا ؟

اس سوال کے جواب میں قرآن کہتا ہے کہ خدا ہر گز غافل نہیں ہے ۔ اگر وہ انہیں فوراً سزا نہیں دیتا تو اسک کی وجہ یہ ہے کہ یہ جہان میدان عمل ہے اور یہ انسان کی آزمائش و پر ورش کا مقام ہے اور یہ مقصد آزادی عمل کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا ۔ لیکن آخر کا ان کا یوم حساب آکے رہے گا ۔

اس کے بعد قرآن مزید کہتا ہے : خدا ان کی سزا اور عذاب ایسے دن پر اٹھا رکھا ہے جس میں خوف و وحشت کے مارے آنکھیں پتھرا جائیں گی اور ایک نقطہ پر لگی بے حس و حرکت ہو کر رہ جائیں گی ( ا( ِٕنَّما یُؤَخِّرُهمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فیهِ الْاٴَبْصارُ ) ۔

اس روز کی سزا اور عذاب اس قدر وحشت ناک ہو گا کہ شدت خوف کے باعث یہ ستمگر اپنی گردنیں اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے یہاں تک کہ ان کی پلکیں بھی حرکت نہ کریں گی اور شدت اضطراب سے ان کے دل ویران ہو جائیں گے( مُهْطِعینَ مُقْنِعی رُؤُسِهِمْ لا یَرْتَدُّ إِلَیْهِمْ طَرْفهُمْ وَ اٴَفْئِدَتُهُمْ هَواء ) ۔

تشخص ” شخوص “ کے مادہ سے ہے اور اس کا معنی ہے آنکھوں کا بے حرکت ہوکر ایک ہی نقطہ پر جم کر رہ جانا ۔

”مھطعین “ ” اھطاء “ کے مادہ سے گردن اونچی کرنے کے معنی میں ہے ۔ بعض نے اسے تیز ہونے کے معنی میں لیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ذلت و عجز کے ساتھ دیکھنے کے معنی میں ہے لیکن آیت کے دیگر حصوں کی طرف توجہ کرنے سے پہلا معنی ہی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے ۔

”مقنعی “ ” اقناع “ کے مادہ سے آسمان کی طرف سر بلند کرنے کے معنی میں ہے ۔

( لا یَرْتَدُّ إِلَیْهِمْ طَرْفهُمْ ) “ کا مفہوم یہ ہے کہ وحشت کے مارے ان کی پلکیں ایک دوسرے سے نہیں ٹکراتیں گویا مردوں کی آنکھوں کی طرح بے کار ہو چکی ہیں ۔

( وَ اٴَفْئِدَتُهُمْ هَواء ) “ان کے دلوں کے ویران ہونے کی طرف اشارہ ہے ۔ بالکل اسی طرح جیسے ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے مجھے وحشت ناک خبر سنائی تو اچانک میرا دل بیٹھ گیا اور ویران ہو گیا ۔ گویا وہ یوں حواس کھو دیں گے کہ انہیں کسی چیز کی ہوش نہ رہے گی یہاں تک کہ اپنے آپ سے بھی بے خبر ہو جائیں گے گویا ان میں نہ دل ہے نہ جان ، کوئی چیز انہیں یاد نہیں ۔

یہاں ان کی پانچ صفات بیان کی گئی ہیں :۔

آنکھوں کا خیرہ ہونا ،

گردنوں کا اونچا ہونا ،

سر کا بلند ہونا ،

پلکیں نہ جھپک سکنا اور

سب کچھ بھول جانا ۔

یہ اضطراب و وحشت کے عالم کی انتہائی عمدہ اور بولتی ہوئی تصویر کھینچی گئی ہے ۔ اس روز ظالموں کی یہ حالت ہوگی ۔ وہ ظالم کہ جو غرور تکبر میں ہر چیز کا مذاق اڑاتے اور تمسخر کرتے تھے ۔ اس دن ان کی بے چارگی کا یہ عالم ہوگا کہ پلکیں بھی نہ جھپک سکیں گے ۔ ان ہولناک مناظر سے آنکھیں چرانے کے لئے آسمان کی طرف ٹکٹکی باندھے ہوں گے کیونکہ وہ جدھر بھی دیکھیں گے وحشت ناک مناظر ان کے سامنے ہوں گے ۔

یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو عقل کل خیال کرتے تھے اور دوسروں کو بے عقل تصور کرتے تھے ۔ اس روز عقل و ہوش گنواں بیٹھیں گے اور دیوانے معلوم ہوں گے بلکہ ان کی آنکھیں مردوں کی آنکھوں کی طرح ویران اور بے حرکت ہوں گی ۔

واقعاً جب قرآن کسی منظر کی تصویر کشی کرتا ہے تو نہایت مختصر عبارت میں کامل ترین تصویر پیش کردیتا ہے ۔ زیر نظر آیت بھی اس کا نمونہ ہے ۔

اس کے بعد اس لئے کہ یہ نہ سمجھا جائے کہ خدائی عذاب کسی خاص گروہ سے مربوط ہے خدا تعالیٰ اپنے پیغمبر کو ایک عمومی حکم دیتا ہے : تمام لوگوں کو اس دن سے ڈرا جس دن پروردگار کا درد ناک عذاب بد کاروں کا رخ کرے گا ، جس وقت ظالم اپنے اعمال کے وحشت ناک نتائج دیکھیں گے تو پریشان ہوں گے اور ان کی تلافی کے لئے سوچیں گے اور عرض کریں گے : پروردگارا !ہمیں کچھ دیر کی مہلت دے دے( وَ اٴَنْذِرِ النَّاسَ یَوْمَ یَأتیهِمُ الْعَذابُ فَیَقُولُ الَّذینَ ظَلَمُوا رَبَّنا اٴَخِّرْنا إِلی اٴَجَلٍ قَریب ) ۔ تا کہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ” ہم تیری دعوت قبول کریں اور تیرے رسولوں کی پیروی کریں “( نُجِبْ دَعْوَتَکَ وَ نَتَّبِعِ الرُّسُلَ ) ۔

لیکن فورا ً ان کی بات مسترد کر دی جائے گی اور انہیں ہولناک پیغام دیا جائے گا کہ ایسا ہونا اب محال ہے ، عمل کا دور ختم ہو چکا ہے ” کیا تم ہی نہ تھے جو قسم کھایا کرتے تھے کہ تمہاری طاقت زوال پذیر نہیں ہے “( اٴَ وَ لَمْ تَکُونُوا اٴَقْسَمْتُمْ مِنْ قَبْلُ ما لَکُمْ مِنْ زَوالٍ ) ۔

تم وہی نہیں جو ان کے گھروں اور محلات میں رہتے تھے جنہوں نے ظلم کیا تھا( وَ سَکَنْتُمْ فی مَساکِنِ الَّذینَ ظَلَمُوا اٴَنْفُسَهُمْ ) ۔ جبکہ تم پر حقیقت آشکار ہو چکی تھی کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا( وَ تَبَیَّنَ لَکُمْ کَیْفَ فَعَلْنا بِهمْ ) ۔ اور ہم نے تم سے گزشتہ امتوں کی ہلا دینے والی مثالیں بیان کیں( وَ ضَرَبْنا لَکُمُ الْاٴَمْثال ) ۔

لیکن ان عبرت انگیز درسوں میں سے کوئی بھی تم پر اثر انداز نہ ہو اور تم نے اسی طرح اپنے شرمناک اعمال اور طلم و ستم کا سلسلہ جاری رکھا اور اب جبکہ تم الہی کیفر کردار کو پہنچے ہو تو مہلت دئے جانے کا تقاضا کر رہے ہو۔ کیسی مہلت ؟ اب موقع ہاتھ سے نکل چکا ہے ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ پیغمبر اکرم سے خطاب کیوں ہے ؟

اس میں شک نہیں کہ پیغمبر کبھی تصور بھی نہیں کرتے کہ خدا ظالموں کے کام سے غافل ہے لیکن اس کے باوجود زیر نظر آیات میں رسول اللہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : کہیں یہ گمان نہ کرنا کہ خدا ظالموں کے اعمال سے غافل ہے ۔

یہ در حقیقت بالواسطہ طور پر دوسروں کو پیغام دیا گیا ہے اور یہ بھی فصاحت کا ایک فن ہے کہ کبھی کسی ایک شخص کو مخاطب کیا جاتا ہے لیکن مراد دوسرا شخص یا دیگر اشخاص ہوتے ہیں ۔

علاوہ از ایں یہ تعبیر در اصل تہدید کے لئے کنایہ ہے ۔ مثلا ً کبھی ہم کسی قصور وار سے کہتے ہیں : ” فکر نہ کرو ہم تیری تقصیریں بھول چکے ہیں “ یعنی موقع پر ہم تیرا حساب چکائیں گے ۔

بہر حال اس دنیا کی اساس اس پر ہے کہ تمام افراد کو کافی حد تک مہلت دی جائے تاکہ جو کچھ ان کے اند ر ہے ظاہر ہو جائے اورآزمایش اور تکامل کا میدان وسیع ہو ۔ یہ اس لئے ہے کہ کسی کے لئے عذر و بھانہ باقی نہ رہے اور سب کو باز گشت ، اصلاح اور تلافی کا موقع دیا جائے ۔ اسی لئے گنہگاروں کو مہلت دی جاتی ہے ۔

۲ ۔ ” یوم یاتیھم العذاب “ سے کون سا دن مراد ہے ؟

زیر نظر آیات میں ہم نے پڑھا ہے کہ رسول اللہ کو اس بات پر مامور کیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو اس دن سے درائیں جس دن عذاب ان کی طرف آئے گا ۔ اس دن سے کونسا دن مراد ہے ، اس سلسلے میں مفسرین نے تین احتمالات ذکر کئے ہیں :

پہلا ۔ یہ کہ یہ قیامت کا دن ہے ۔

دوسرا ۔یہ کہ یہ موت آنے کا دن ہے کہ جس دن عذاب الہی کا مقدمہ ظالموں کا رخ کرے گا ۔

تیسرا ۔یہ کہ کچھ دنیاوی سزاؤں کے نزول کا دن ہے ۔ مثلا ً جس روز قوم لوط ، قوم عاد و ثمود ، قوم نوح اور فرعونیوں پر عذاب ہوا ۔ یہ لوگ دریا کی دھاڑتی ہوئی موجوں کا شکار ہوئے ، یا غرقِ طوفان ہوئے یا زلزلوں سے تباہ ہوئے ، یا شدید ویران گر آندھیوں سے برباد ہوئے ۔

اگر چہ بہت سے مفسرین نے پہلے احتمال کو ترجیح دی ہے لیکن بعد میں آنے والے جملے واضح طور پر تیسرے احتمال کو تقویت دیتے ہیں اور نشاندہی کرتے ہیں کہ مراد دنیاوی نوبود کرنے والے عذاب ہیں ۔ اور ان کا شکار ہونے والے کہتے ہیں کہ پروردگارا ! ہمیں تلافی کے لئے تھوڑی سی مہلت دے دے ۔

” اخرنا “ (ہمیں تاخیر میں ڈال دے ) ۔ یہ تغیر دنیاوی زندگی جاری رکھنے کی درخواست کے لئے واضح قرینہ ہے ۔ اگر وہ یہ بات روز قیامت آثار عذاب دیکھ کر کہتے تو انہیں کہنا چاہیے تھا : خدا وندا : ہمیں دنیا کی طرف لوٹا دے ، جیسا کہ سورہ انعام کی آیہ ۲۷ میں ہے :( وَ لَوْ تَری إِذْ وُقِفُوا عَلَی النَّارِ فَقالُوا یا لَیْتَنا نُرَدُّ وَ لا نُکَذِّبَ بِآیاتِ رَبِّنا وَ نَکُونَ مِنَ الْمُؤْمِنین ) ۔

اگر تو انہیں سد عالم میں دیکھے کہ جب وہ آگ کے سامنے کھڑے ہوں گے تو تو دیکھے گا کہ وہ کہتے ہیں : کاش ! ہم دنیا کی طرف پلٹ جاتے اور اپنے پروردگار کی آیات کی تکذیب نہ کرتے اور ہم مومنین میں سے ہوجاتے ( تو تجھے ان کی حالت پر افسوس ہوگا ) ۔

کیونکہ فورا ً بعد والی آیت میں ان کا جواب اس طرح دیا گیا ہے :( وَ لَوْ رُدُّوا لَعادُوا لِما نُهُوا عَنْهُ وَ إِنَّهُمْ لَکاذِبُونَ ) ۔

یہ جھوٹ کہتے ہیں اگر لوٹ بھی جائیں تو انہیں اعمال میں مشغول ہو جائیں گے جن سے انہیں روکا گیا ہے ۔

یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے ، وہ یہ کہ اگر یہ آیت عذاب دنیا سے ڈرانے کے لئے ہے جبکہ اس سے پہلی آیت”( ولا تحسبن الله غافلاً ) --“ میں تو عذاب آخرت سے ڈرایا گیا ہے تو یہ امر ایک دوسرے سے کس طرح سے مناسبت رکھتا ہے ؟ نیز لفظ ” انما “ اس بات کی دلیل ہے کہ انہیں صرف قیامت میں سزا دی جائے گی اور وہاں ان پر عذاب ہوگا نہ کہ اس دنیا میں ۔

لیکن اس نکتہ کی طرف توجہ سے جواب واضح ہو جاتا ہے کہ وہ سزا اور عذاب کہ جس میں کسی قسم کا تغیر نہیں ہے عذاب قیامت ہے جو سب ظالموں کو لاحق ہوگا لیکن دنیاوی سزائیں ایک تو عمومیت نہیں رکھتیں اور دوسرا بازگشت کے بھی قابل ہیں ۔

اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ تباہ کن دنیاوی عذاب مثلاً وہ المناک عذاب جو قوم نوح یا آل فرعون اور ان جیسے لوگوں کو دامن گیر ہوا ۔ ایسا عذاب شروع ہوجائے تو توبہ کے دروازہ بند ہو جاتے ہیں اور لوٹ آنے کے تمام راستے بند ہو جاتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب گنہگار لوگ ایسی سزاؤ ں کا سامنا کرتے ہیں تو اظہار پشیمانی کرتے ہیں لیکن یہ در حقیقت ایک اضطراری ندامت ہوتی ہے جس کا کوئی وزن نہیں ۔ لہذا ایسا عذاب شروع ہونے سے پہلے تلافی کے در پے ہونا چاہیے ۔(۱)

____________________

۱-مزید وضاحت کے لئے تفسیر نمونہ جلد سوم سورہ نساء آیہ ۱۸۔ کی تفسیر کی طرف رجوع فرمائیں ۔

۳ ۔ مہلت کا تقاضا کیوں قبول نہیں کیا جاتا ؟

قرآن مجید کی مختلف آیات میں ہے کہ برے عمل کرنے والے اور ظالم مختلف مواقع پر تقاضا کریں گے کہ انہیں اپنے گزشتہ کی تلافی کے لئے پھر سے دنیاوی زندگی مل جائے ۔ ان میں سے بعض آیات روز قیامت سے مربوط ہیں مثلاً سورہ انعام کی آیہ ۲۸ - جس کی طرف ہم نے سطور بالا میں اشارہ کیا ہے ۔ بعض دیگر آیات وقت موت آ پہنچنے سے مربوط ہیں مثلا ً سورہ مومنون کی آیہ ۹۹ ۔ اس میں فرمایا گیاہے :

حتی اذا جاء احدهم الموت قال رب ارجعون لعلی اعمل صالحاً فیما ترکت

یہی حالت رہتی ہے یہاں تک کہ جب کہ کسی کی موت کا وقت آ پہنچتا ہے تو وہ عرض کرتا ہے : خدا وندا! مجھے پلٹا دے ۔ شاید میں اپنے کئے کی تلافی کر سکوں اور عمل صالح انجام دوں ۔

کچھ آیات تباہ کن عذاب کے موقع سے مربوط ہیں ۔ مثلا ً زیر بحث آیات میں ہے کہ نزول عذاب کے وقت ظالم مہلت کا تقاضا کریں گے ۔

یہ امر توجہ طلب ہے کہ ان تمام مواقع پر جواب نفی میں ہے ۔ اس کی دلیل واضح ہے کیونکہ ان میں سے کوئی تقاضا بھی حقیقی نہیں ہے یہ سب اس اضطراری حالت اور انتہائی پریشانی کا رد عمل ہیں جو ان بت ترین افراد کو لاحق ہوگی ۔ ان کے یہ تقاضے کسی داخلی انقلاب اور زندگی میں تغیر کے لئے عزم حقیقی کی دلیل نہیں ہیں ۔

یہ تو بالکل ان مشرکین کی سی حالت ہے جو دریاؤں کے ہولناک گردابوں میں پھنس جائیں تو بڑے خلوص سے خدا کو پکارتے ہیں لیکن طوفان رکتے ہی اور ساحل نجات تک پہنچتے ہی سب کچھ بھول جاتے ہیں ۔

اسی لئے قرآن مذکورہ آیات میں صراحت سے کہتا ہے :

( ولو ردو العادوا لما نهو عنه )

اگر یہ معمول کی زندگی کی طرف لوٹ جائیں تو پھر وہی طرز عمل جاری رکھیں گے ان کی روش میں تبدیلی پیدا نہ ہوگی ۔

یعنی ۔ وہی ہے چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی وسواب بھی ہے ۔

آیات ۴۶،۶۷،۴۸،۴۹،۵۰،۵۱،۵۲

۴۶ ۔( وَ قَدْ مَکَرُوا مَکْرَهُمْ وَ عِنْدَ اللَّهِ مَکْر هُمْ وَ إِنْ کانَ مَکْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبالُ ) ۔

۴۷ ۔( فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ إِنَّ اللَّهَ عَزیزٌ ذُو انتِقامٍ ) ۔

۴۸ ۔( یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاٴَرْضُ غَیْرَ الْاٴَرْضِ وَ السَّماواتُ وَ بَرَزُوا لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ ) ۔

۴۹ ۔( وَ تَرَی الْمُجْرِمینَ یَوْمَئِذٍ مُقَرَّنینَ فِی الْاٴَصْفادِ ) ۔

۵۰ ۔( سَرابیلُهمْ مِنْ قَطِرانٍ وَ تَغْشی وُجُوههُمُ النَّارُ ) ۔

۵۱ ۔( لِیَجْزِیَ اللَّهُ کُلَّ نَفْسٍ ما کَسَبَتْ إِنَّ اللَّهَ سَریعُ الْحِسابِ ) ۔

۵۲ ۔( هذا بَلاغٌ لِلنَّاسِ وَ لِیُنْذَرُوا بِهِ وَ لِیَعْلَمُوا اٴَنَّما هُوَ إِلهٌ واحِدٌ وَ لِیَذَّکَّرَ اٴُولُوا الْاٴَلْبابِ ) ۔

ترجمہ

۴۶ ۔ انہوں نے اپنا پورا مکر کیا اور ان کے سارے مکر ( اور سازشیں ) خدا کے سامنے آشکار ہیں اگر چہ ان کے مکر سے پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں ۔

۴۷ ۔ اور یہ گمان نہ کرنا کہ خدا ان وعدوں کی خلاف ورزی کرے گا جو اس نے اپنے رسولوں سے کئے ہیں کیونکہ خدا قادر و منتقم ہے ۔

۴۸ ۔ وہ دن کہ جب یہ زمین دوسری زمین میں بدل جائے گی اور آسمان ( دوسرے آسمانوں میں ) تبدیل ہو جائیں گے اور خدائے واحد و قہار کی بارگاہ میں ظاہر ہوں گے ۔

۴۹ ۔ اور تو اس دن مجرموں کو اکھٹا طوق و زنکیر میں دیکھے گا ( ایسے طوق و زنجیر جن سے ان کے ہاتھ اور گردنیں اکھٹی بندھی ہونگی ) ۔

۵۰ ۔ اور ان کا لباس قطران ( جلانے والا چپکا ہوا بدبد دار مادہ ) کا ہوگا اور ان کے چہروں کو آگ ڈھانپ لے گی ۔

۵۱ ۔ تا کہ خدا ہر شخص کو جو کچھ اس نے انجام دیا ہے اس کی جزا دے کیونکہ خدا سریع الحساب ہے ۔

۵۲ ۔ یہ ( قرآن ) ( سب ) لوگوں کے لئے اعلان ہے تا کہ سب کو تہدید ہو جائے اور ( سب ) جان لیں کہ وہ اکیلا معبود ہے نیز اس لئے کہ صاحبان عقل (اور غور و فکر کرنے والے ) نصیحت حاصل کریں ۔

تفسیر

ظالموں کمزور سازشیں

گزشتہ آیات میں ظالموں کی کچھ سزاؤں کی طرف اشارہ ہو چکا ہے ۔ ان آیات میں بھی پہلے ان کے بعض کاموں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور پھر ان کے لئے بعض سخت اور دردناک سزاؤں کا ذکر ہے ۔

پہلی آیت میں ہے : انہوں نے مکر کیا اور جس قدر ان سے بن پڑتا تھا سازش اور شیطنت کی (وَ قَدْ مَکَرُوا مَکْرَھُمْ ) ۔

خلاصہ یہ کہ تیرے دشمنوں نے اسلام کو مٹانے اور نابود کرنے کے لئے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا ۔ ڈرانے دھمکانے سے لے کر اذیت و آزار اور قتل کی سازش کی ۔ نیز وہ پرا پیکنڈہ کرتے رہے اور طرح طرح کی تہمتیں لگاتے رہے ۔

لیکن ان سب کے باوجود اللہ ان کی تمام سازشوں سے آگاہ ہے اور ان کے تمام کام اس کے رکارڈ میں ہیں( وَ عِنْدَ اللَّهِ مَکْر هُمْ ) ۔

بہر حال پریشان نہ ہو ۔ یہ نیرنگیاں ، منصوبے اور سازشیں تجھ پر اثر نہیں ڈالیں گی ” اگر وہ اپنے مکر سے پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہٹا دیں “( وَ إِنْ کانَ مَکْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبالُ ) ۔

جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں ” مکر “ ہر قسم کی چارہ جوئی اور چارہ اندیشی کے معنی میں ہے ۔ یہ کام کبھی برائی کے ساتھ ہوتا ہے اور کبھی اس کے بغیر۔ اگر چہ موجودہ فارسی زبان میں یہ لفظ پہلے معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن عربی ادب کے لحاظ سے اس کا معنی عام ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی یہ لفظ خدا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔

( وَ عِنْدَ اللَّهِ مَکْر هُمْ ) کے بارے میں دو احتمال ذکر کئے ہیں ۔

بعض مفسرین مثلاً علامہ طبا طبائی نے االمیزان میں کہا ہے کہ اس جملے کا مفہوم یہ ہے کہ خدا ان کے تمام منصوبوں چالبازیوں اور سازشوں پر پورا احاطہ رکھتا ہے ۔

بعض دیگر مثلا ً مرحوم طبرسی نے مجمع البیان میں کہا ہے کہ مراد یہ ہے کہ ان کے مکر کی سزا خدا کے ہاں ثابت ہے لہذا یہ جملہ ”( وَ عِنْدَ اللَّهِ مَکْر هُمْ ) “ کی تقدی میں ہے اور لفظ ” جزاء “ جو مضاف ہے محذوف ہے ۔

البتہ پہلا معنی بلا شبہ زیادہ صحیح ہے کیونکہ یہ آیت کے ظاہری مفہوم سے بھی مطابقت رکھتا ہے ۔ اور کسی قسم کے حذف و تقدیر کا بھی محتاج نہیں ہے ۔

پہلا جملہ کہ جس میں ہے ۔” اگر چہ ان کا مکر پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہلا دے “ یہ بھی اسی تفسیر کو تقویت دیتا ہے ۔یعنی اگر چہ وہ منصوبہ بندی اور سازشوں میں بڑے طاق ہوں ، خدا ان سے زیادہ آگاہ اور زیادہ قدرت والا ہے اور ان کی سازشوں کو درہم برہم کر دیتا ہے ۔

دوبارہ روئے سخن پیغمبر اکرم کی طرف ہے اور ظالموں اور بد کاروں کو دھمکی دی گئی ہے ۔ ارشادہوتا ہے : تم یہ گمان نہ کرنا کہ خدا نے انبیاء سے جو وعدہ کیا ہے اس کی خلاف ورزی کرے گا( فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ ) ۔ کیونکہ وعدہ خلافی تو وہ کرتا ہے جو قادر و توانا نہ ہو یا سزا و انتقام اس کی لغت میں نہ ہو لیکن ” خدا تو توانا بھی ہے اور صاحب انتقام بھی( إِنَّ اللَّهَ عَزیزٌ ذُو انتِقامٍ ) ۔

یہ آیت در حقیقت ایک گزشتہ آیت ”ولا تحسبن اللہ غافلا ً عما یعمل الظالمون“ کی تکمیل کرتی ہے ۔ یعنی اگر تم دیکھتے ہو کہ ظالموں کو مہلت ملی ہوئی ہے تو وہ اس لئے نہی ہے کہ پروردگار ان کے اعمال سے غافل ہے اور نہ اس لئے کہ وہ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی کرے گا بلکہ ان کے تمام حساب ایک ہی دن چکا دے گا اور انہی عادلانہ طور پر سزا دے گا ۔

لفظ ” انتقام “ موجودہ فارسی میں تلافی کرنا ، کینہ نکالنا اور معاف نہ کرنے کا مفہوم بھی لئے ہوئے ہے ۔ در اصل اس کا یہ معنی نہیں ۔ بلکہ ” انتقام “ کا مفہوم سزا دینا اور عذاب کرنا ہی ہے ۔ ایسی سزا کہ جو خدا استحقاق اور عدالت کی بنا پر دے گا بلکہ انسان کے اعمال کا نتیجہ ہے ۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اگر خدا کی طرف سے ایسا انتقام نہ ہو تو یہ اس کی حکمت و عدالت کے خلاف ہوگا ۔

مزید فرمایا گیا ہے : یہ سزا ایسے دن دی جائے گی جبکہ یہ زمین دوسری زمین میں تبدی لہو جائے گی اور یہ آسمان دوسرے آسمانوں میں تبدیل ہوجائے گا( یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاٴَرْضُ غَیْرَ الْاٴَرْضِ وَ السَّماواتُ ) ۔

اس روز ہر چیز تباہی کے بعد پھر سے صورت پذیر ہوگی اور انسان نئے حالات کے ساتھ نئے عالم میں قدم رکھے گا ۔ ایسا عالم کہ جس کی تمام چیزیں اس عالم سے مختلف ہوں گی ” اس کی وسعت ، اس کی نعمتیں اور اس کی سزائیں سب مختلف ہوں گی ” اور اس روز جو کچھ بھی کسی کے پاس ہے وہ سب پوری طرح واحد و قہار خدا کے سامنے ظاہر ہو جائے گا( وَ بَرَزُوا لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ ) ۔

” برزو“ اصل میں ” براز “ ( بر وزن ” فراز “ ) کے مادہ سے فضا اور وسیع جگہ کے معنی میں لیا گیا ہے ۔ ” برزو “ کا معنی ایسی فضا اور وسیع علاقہ میں ہونا ہے کہ جس کا لازمی نتیجہ ظاہر اور آشکار ہونا ہے ۔ اسی وجہ سے ” برزو عام طور پر ” ظہور “کے معنی میں آتاہے ( غور کیجئے گا ) ۔

روز قیامت انسان کے خدا کے سامنے ظاہر ہونے کا کیا معنی ہے ، اس سلسلے میں مفسرین نے مختلف باتیں کی ہیں ۔

بہت سوں نے اسے قبروں سے باہر نکالنے کے معنی میں لیا ہے ۔

یہ احتمال بھی ہے کہ بروز کا مطلب انسان کے اندر اور باہر کا سب کچھ ظاہر ہوجانا ہو جیسا کہ سورہ مومن کی آیہ ۱۶ ۔ میں فرمایا گیا ہے : یوم ھم بارزون لا یخفی علیٰ اللہ منھم شیء

وہ دن کہ جب ان کاسب کچھ آشکار ہو جائے گا اور ان کی کوئی چیز مخفی نہ رہے گی ۔

نیز سورہ طارق کی آیہ ۹ ۔ میں ہے :( یوم تبلی السرائر )

وہ دن کہ جب ہر شخص کے اندرونی اسرارآشکار ہو جائیں گے ۔

بہر حال اس حالت میں خدا کی قہاریت کا ذکر ہر چیز پر اس کے تسلط اور سب کے اندر اور باہر پر اس کے غلبہ کی دلیل ہے ۔

یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے کہ کیا دنیا میں کوئی چیز خدا پر مخفی ہے کہ جو وہاں آشکار ہو جائے گی ؟۔ کیا خدا قبروں میں مردوں کے وجود سے بے خبرہے ؟ یا کیا وہ یہاں انسان کے اندرونی اسرار کو نہیں جانتا ؟

ایک نکتے کی طرف توجہ سے اس سوال کا جواب واضح ہو جاتا ہے ۔ وہ یہ کہ اس جہان میں ایک ہمارا ظاہر ہے اور ایک باطن ۔ بعض اوقات ہامرے علم کے محدود ہونے کی بناء پر یہ اشتباہ ہوتا ہے کہ خدا ہمارے باطن کو نہیں جانتا لیکن دوسرے جہان میں ہر چیز اس طرح آشکار ہو جائے گی کہ ظاہر و باطن کا فرق نہیں ہوگا ۔ سب کچھ آشکار ہوگا ۔ یہاں تک کہ کسی کے دل میں یہ احتمال بھی پیدا نہیں ہوگا کہ ہو سکتا ہے کوئی چیز خدا سے مخفی رہ گئی ہے ۔

دوسرے لفظوں بروز و ظہور ہماری فکرو نظر کے اعتبار سے ہے کہ علم خدا کے اعتبار سے ۔

اگلی آیت میں مجرمین کی حالت ایک اور پہلو سے تصویر کشی کی گئی ہے : اس روز تو مجرموں کو دیکھے گا کہ وہ طوق و زنجیر میں جکڑے ہوں گے ۔ ان کے ہاتھ گردنوں سے بندھے ہوں گے اور وہ ایک دوسرے سے بھی بندھے ہوں گے( وَ تَرَی الْمُجْرِمینَ یَوْمَئِذٍ مُقَرَّنینَ فِی الْاٴَصْفادِ ) ۔

”اصفاد “ جمع ہے” صفد“ ( بر وزن ” نمد “ ) کی اور ”صفاد “ (بروزن” معاد “) طوق کے معنی میں ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ” صفاد “ خاص طور پر اس طوق و زنجیر کو کہتے ہیں جو ہاتھ اور گردن کو ایک دوسرے سے باندھ دے ۔

” مقرنین “ ”قرن “ اور ” اقتران “ کے مادہ سے اسی معنی میں ہے ۔ البتہ جب اسے باب تفعیل میں منتقل کیا جائے تو اس سے ” تکثیر “ کا مفہوم حاصل ہوتا ہے ۔ لہذا ” مقرنین “ کا معنی ہے :” وہ لوگ جو ایک دوسرے کے بہت قریب ہوں “ ۔اس لفظ سے زیر نظر آیت میں کون لوگ مراد ہیں ۔اس سلسلے میں مفسرین نے تین تفسیریں بیان کی ہیں ۔

پہلی :۔ یہ کہ اس روز مجرمین کو طوق زنجیر کے ایک لمبے سلسلے میں ایک دوسرے سے باندھا جائے گا وہ لوگ اسی حالت میں میدان حشر میں پیش ہوں گے ۔ طوق و زنجیر کا یہ سلسلہ اب گنہگاروں کے عملی فکری رشتے اور تعلق کا مظہر ہے ۔ اس تعلق کی بنا ء پر وہ اس جہان میں باہم ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہوئے تھے ، ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے اور ظلم و فساد کی راہ میں ایک دوسرے کے ساتھی تھے ۔ ان کا یہ باہمی ربط وہاں طوق و زنجیر کے اس سلسلے میں مجسم ہوگا ۔

دوسری :۔ تفسیر یہ ہے کہ اس روز مجرم زنجیروں کے ذریعے شیطانوں کے ساتھی ہو جائیں گے اور اس دنیا میں ان کا باطنی تعلق اس جہان میں ایک زنجیر کے ذریعے آشکار ہو جائے گا ۔

تیسری : ۔ تفسیر یہ ہے کہ زنجیروں کے ذریعے ان کے ہاتھوں کو ان کی گردن کا قرین بنا دیا جائے گا ۔

کوئی مضائقہ نہیں کہ مجرموں کے بارے میں یہ معانی صحیح ہوں اگر چہ آیت ظاہری مفہوم زیادہ تر پہلے معنی کی تائید کرتا ہے ۔

اس کے بعد ان کے لباس کے بارے میں بتایا گیا ہے اور یہ بھی ان کے لئے ایک عذاب عظیم ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : ان کے لباس قطران کے مادہ سے بنے ہوئے ہوں گے اور ان کے چہروں کو آگ کے شعلے ڈھانپ لیں گے( سَرابیلُهمْ مِنْ قَطِرانٍ وَ تَغْشی وُجُوههُمُ النَّارُ ) ۔

”سرابیل “ ” سربال “ ( بروزن ”مثقال “)کی جمع ہے ۔ اس کا معنی ہے ” قمیص “ چاہے وہ کسی بھی چیز سے بنی ہو۔ نیز بعض نے کہا ہے کہ یہ ہر قسم کے لباس کے معنی میں ہے لیکن پہلا معنی زیادہ مشہور ہے ۔

” قطران “ لغت میں کبھی قاف پر زبر اور تا پر سکون اور کبھی قاف کے نیچے زیر اور طاء پر سکون کے ساتھ پڑھا گیا ہے ۔ اس کا معنی ہے ایسا مادہ جو ابہل نامی درخت سے لیا جاتا ہے تا کہ اس بیماری کے باعث ہونے والی سوزش کو ختم کیا جا سکے اور اس کے مادہ کو جڑ سے ختم کیا جا سکے ۔ بہر حال یہ ایک ایسا بد بو دار سیاہ رنگ مادہ ہے جو شعلہ ور ہو سکتا ہے ۔(۱)(۲)

بہر کیف ” سرابیلھم من قطران “ کا مفہوم یہ ہے کہ ان کے بدن لباس کی بجائے ایک طرح کے سیاہ رنگ بدبودار جل اٹھنے والے مادہ سے ڈھانپے جائیں گے ۔ یہ ایسا لباس ہوگا جو ویسے بھی برا ہوگا اور دیکھنے میں بھی بہت قبیح ہوگا ۔ بدبو بھی دے گا اور خود بخود جل اٹھنے والا بھی ہوگا ۔ جب لباس میں یہ چار عیب ہونگے تو گویا وہ بد ترین لباس ہوگا ۔ کیونکہ لباس زینت کے لئے بھی ہوتا ہے اور گرمی سردی سے بچنے کے لئے بھی جبکہ یہ لباس برا اور قبیح صورت بھی ہوگا اور جلانے والا بھی ۔

یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ لباس گناہ پہن کی مجرم اس جہان میں بارگاہ الہی میں بھی اپنے تئیں رو سیاہ کرتے ہیں اور ان کے گنا کا تعفن اس معاشرے کو بھی آلودہ کرتا ہے ۔ نیز ان کے اعمال اس معاشرے میں فساد وگناہ کی آگ بھڑکنے کا باعث بنتے ہیں ۔ یہ ” قطران “ کہ جس کا لباس انہیں اس جہان میں پہنایا جائے گا گویا ان کے اس جہان اعمال کی تجسیم ہے ۔

یہ جو آیت میں ہے کہ آگ کے شعلے ان کے چہروں کو ڈھانپ دیں گے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ جس حصہ پر ” قطران “ نہیں ہوگا وہ اس کے شعلوں میں جلے گا ۔

یہ اس لئے ہے کہ خدا چاہتا ہے کہ ہر شخص اس کے کئے کے مطابق سزا دے ( لِیَجْزِیَ اللَّہُ کُلَّ نَفْسٍ ما کَسَبَتْ ) ۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ قرآن یہ نہیں کہتا کہ ” انہیں ان کے اعمال کی سزا دے گا “ بلکہ کہتا ہے کہ جو کچھ انہوں نے انجام دیا ہے ، انہیں جزا کے طور پر دے گا ۔ دوسرے لفظوں میں ان کی جزا ان کے اعمال مجسم ہونا ہے ۔ اس خاص تعبیر کے باعث یہ آیت تجسیم اعمال کی ایک اور دلیل ہے ۔

آخر میں فرمایا گیا ہے: اللہ سریع الحساب ہے ۔( إِنَّ اللَّهَ سَریعُ الْحِسابِ )

بالکل واضح ہے کہ جب انسان کے اعمال ختم نہ ہوں اور چہرہ بدل کر انسان کے پاس آ جائیں تو اس سے زیادہ جلدی حساب اور کیا ہوگا اور در اصل انسان کا حساب اس کے ساتھ ساتھ ہی ہے ۔

بعض روایات میں ہے ۔( ان الله تعالیٰ یحساب الخلائق کلهم فی مقدار لمح البصر )

اللہ تعالیٰ چشم زدن میں تمام مخلوقات کا حساب کر لے گا ۔

اصولی طور پر پروردگار کی طرف سے محاسبہ مدت کا محتاج نہیں ۔ مذکورہ بالا روایت نے در اصل مختصر ترین زمانے کی طرف اشارہ کیا ہے ۔

مزید وضاحت کے لئے تفسیر نمونہ جلد ۲ ص ۴۵ ۔ ( اردو ترجمہ ) کی طرف رجوع فرمائیں ۔

یہ سورہ اور تمام قرآن چونکہ لوگوں کو دعوت توحید دیتا ہے ، احکام الہی کی تبلیغ کرتا ہے اور احکام الہی کی خلاف ورزیوں سے ڈراتا ہے لہذا اس سورہ کی آخری آیت میں فرمایا گیا ہے : قرآن کا ابلاغ سب لوگوں کے لئے عمومی ہے( هذا بَلاغٌ لِلنَّاسِ ) ۔اور انہیں ڈرانے والا ہے( وَ لِیُنْذَرُوا بِهِ ) ۔ اور اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگ جان لیں کہ ان کا معبود بس وہی ایک ہے( وَ لِیَعْلَمُوا اٴَنَّما هُوَ إِلهٌ واحِدٌ ) ۔ نیز ہدف یہ ہے کہ صاحبان عقل و فکر متوجہ ہوں( وَ لِیَذَّکَّرَ اٴُولُوا الْاٴَلْبابِ ) )

____________________

۱ ۔تفسیر کبیر ، فخر الدین رازی جلد ۱۹ ص۱۴۸۔

۲ ۔فرید وجدی دائرة المعارف میں قطران کے مادہ میں کہتا ہے :

یہ ایسا مایع ہے کو پتھر کو کوئلہ کی تقطیر کے وقت ہاتھ آتا ہے جبکہ ایک خاص گیس حاصل کرنے کے لئے عمل تقطیر کیا جاتا ہے اور نباتی قطران بعض درختوں سے لیا جاتا ہے ۔